غیاث احمد گدی، ایک تاثر
غیاث احمد گدی نے جب لکھنا شروع کیا تو ادب میں ترقی پسندوں کا طوطی بول رہا تھا۔ اقلیم افسانہ پر کر شن چندر، منٹو، بیدی اور عصمت چغتائی کی شہرت کے جھنڈے لہرا رہے تھے۔ اس زمانے میں کسی بھی نئے افسانہ نگار کا ان کے اثرات سے بچ کر نکلنا، کھلے میدان میں دھوپ سے بچنے کے مترادف تھا۔
اسی لیے غیاث احمد گدی کے پہلے افسانوی مجموعہ بابا لوگ پر ترقی پسندوں کے بالخصوص کرشن چندر کے اثرات بہت نمایاں ہیں۔ اس کے باوجود بابا لوگ کے افسانے ترقی پسند افسانے سے اس لیے مختلف ہیں کہ ان میں سماجی حقیقت نگاری یا واشگاف مقصدیت کی بجائے انسانی جذبات و احساسات کی ہلکی ہلکی آنچ محسوس ہوتی ہے۔ جو نہ قلب کو گرماتی ہے نہ روح کو تڑپاتی ہے لیکن قاری کے جگر میں تیرِ نیم کش کی خلش چھوڑ جاتی ہے۔
پھر جلد ہی ترقی پسندی کی چمک دمک ماند پڑنے لگی ا اور جدیدیت تمثیل کی زرق برق پوشاک زیب تن کیے علامتوں اور استعاروں کے سولہ سنگھاروں سے سجی دھجی مملکت ادب کے سنگھاسن پر جلوہ افروز ہوئی۔ اس زمانے میں علامت اور استعارے کے بغیر افسانہ لکھنا باعثِ ننگ سمجھا جاتا تھا۔ اس عہد کا افسانہ نگار موضوع کے شکار پر اس شان سے نکلتا تھا کہ اس کے دائیں ہاتھ میں علامت اور بائیں ہاتھ میں استعارہ ہوتا تھا۔ سینے پر اساطیر کے تمغے سجے ہوتے تھے اور سر پر تجریدیت کا تاج، اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ ہر افسانہ نگار کا ایک نقاد ہوتا تھا جو اس کے پیچھے پیچھے تنقید کی ڈفلی بجا تا اس کے افسانوں کار جز پڑھتا چلتا تھا۔ غیاث احمد گدّی پر البتہ اس دھما چوکڑی کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ کیوں کہ افسانہ نگاری ان کے نزدیک کسی خارجی دباؤ کا نتیجہ تھی نہ کوئی الہای شئے، افسانہ نگاری محض ان کے تخلیقی ارج کا تقاضہ تھی۔ انہیں افسانہ لکھنے پر کسی نے مجبور نہیں کیا بلکہ وہ افسانہ لکھنے پر مجبور تھے اگر وہ افسانہ نہ لکھتے تو خودکشی کر لیتے یا پھر پاگل ہوجاتے۔ وہ جس ماحول کے پروردہ تھے ان کی حساس روح کے لیے وہ کسی جہنم کی مانند تھا۔ وہ کم ہمت ہوتے تو کب کے اس میں جھلس کر خاکستر ہوچکے ہوتے۔ مگر انہوں نے اس جہنم کی آگ سے ادب کا چراغ روشن کیا اور زندگی کے ظلمت کدے کو بقۂ نور بنا دیا۔ انہوں نے بہت زیادہ نہیں لکھا مگر جتنا لکھا پوری دیانتد اری سے لکھا، ان کا کینواس بڑا نہیں ہے مگر ان کی تصویروں کے نقش بہت گہرے اور دل میں کھب جانے والے ہیں۔ وہ نہ ترقی پسند تھے نہ جدیدئیے۔ اس لیے نقاد انہیں زیادہ منہ لگانا پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنی تحریروں سے نقادوں کو تو خوش نہیں کرسکے مگر انہوں نے اپنے پڑھنے والوں کا دل جیت لیا۔
دراصل انہیں نقادوں یا تجزبہ نگاروں کی ضرورت بھی کیا تھی؟ ان کے افسانوں کی ترسیل قاری تک نقادوں کے وسیلے کے بغیر بھی ہوجاتی تھی۔ جدید نقادوں کے نزدیک ان کے افسانوں کی یہی بات قابل اعتراض بلکہ ناقابلِ معافی تھی۔ کیوں کہ بعض نقادوں کے مطابق جب تک افسانے کو تجزیے کی میز پرلِٹا کر اس کا پوسٹ مارٹم نہ کیا جائے وہ افسانہ بڑا افسانہ کہلانے کا مستحق نہیں ہوتا۔ اس اعتبار سے غیاث احمد گدّی یقیناًبڑے افسانہ نگار نہیں تھے مگر وہ ایک ایسے افسانہ نگار تھے جن کے افسانے عوام اور خواص دونوں میں مقبول تھے۔ یہ تو نقاد ہی بتا سکتے ہیں کہ بڑا افسانہ نگار کیسا ہوتا ہے مگر اردو افسانے کے ایک قاری کی حیثیت سے جب میں افعی۔ نارد منی۔ بابا لوگ، پرندہ پکڑنے والی گاڑی، خانے تہہ خانے، تج دو تج دو اور ڈوب جانے والا سورج پڑھتا ہوں اور اردو کے بہترین افسانوں سے ان کا موازنہ کرتا ہوں تو مجھے لگتا ہے مستقبل کا تذکرہ نویس ان افسانوں کا ذکر کئے بغیر اردو افسانے کی تاریخ مرتّب نہیں کر سکے گا۔
انہوں نے اردو افسانے کو چند اہم نسوانی کردار بھی عطا کئے ہیں جیسے افعی، کی زہرہ، پہیہّ کی لچھورانی خانے تہہ خانے کی کلا، جون سین کی ڈور تھی ’بدصورت سیاہ صیلب‘ کی ڈی سوزا۔
انہوں نے ان کرداروں کے شعور اور لاشعور کے نہاں خانوں میں اتر کر عورت کے جذبہ و احساس کی ایسی عکاسی کی ہے جو ان سے پہلے صرف بیدی کا حصہ تھی۔
فنی سطح پر انسانی نفسیات کا تجزیہ زبردست ریاضت اعلیٰ فنکارانہ صلاحیت اور گہرے مشاہدے کا متقاضی ہوتا ہے۔ بعض اوقات افسانہ نگار نفسیات کی تہہ میں اس قدر گہرے اتر جاتے ہیں کہ پھر سطح پر ابھرنا ناممکن ہوجاتا ہے افسانے میں انسانی نفسیات کی پنہائیاں ناپنے کے لیے بڑے لمبے سانس کی ضرورت ہوتی ہے اس اعتبار سے غیاث احمد گدی کا سانس یقیناًبہت لمبا تھا۔
انہوں نے تخلیقی ضرورتوں کے تحت علامتوں اور استعاروں کا بھی استعمال کیا ہے مگر ان کی علامتیں کہانی کی زمین میں اوپر سے بوئی نہیں جاتیں بلکہ وہ کہانی کے بطن سے لألہ خودرد کی طرح از خود پھوٹتی ہیں اور پوری کہانی ایک زندہ علامیہ بن جاتی ہے۔ پرندہ پکڑے والی گاڑی تج دو تج دو، اور ڈوب جانے والا سورج اس کی خوبصورت مثالیں ہیں۔
یہاں ان کے افسانوں کا تفصیلی جائزہ لینا ممکن نہیں ہے۔ لہذا میں صرف ان دوچار ملاقاتوں کی تاثراتی جھلک پیش کرنے پر اکتفا کروں گا جن کا مجھے شرف حاصل ہے آج سے تقریباً بارہ تیرہ برس پہلے غیاث احمد گدی سے میری پہلی ملاقات بمبئی میں مکتبہ جامعہ میں ہوئی تھی۔ اب یاد نہیں کہ ان سے میرا تعارف کس نے کرایا تھا مگر اتنا یاد ہے کہ میں جب ان سے مصافحہ کرنے کے لیے آگے بڑھا تو انہوں نے مصافحہ کے لیے میرے بڑھائے ہوئے ہاتھوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مجھے گلے لگالیا۔
اسی شام ادارۂ ہم قلم میں ان کے اعزاز میں ایک نشست تھی جس میں انہوں نے اپنا معرکتہ الآرا افسانہ افعی سنایا۔ یہ افسانہ میں پہلے بھی پڑھ چکا تھا مگر ان کی زبان سے سننے کے بعد وہ افسانہ مجھ پر کچھ یوں منکشف ہوا کہ اس کا گوشہ گوشہ روشن ہوگیا۔
اس افسانے میں ایک سگی بہن کو اس کا چھوٹا بھائی ریپ کرتا ہے اور ہوش میں آنے کے بعد جب اسے پتہ چلتا ہے کہ اس سے کیسا ہولناک جرم سرز ہوا ہے تو وہ ریل کے نیچے کٹ کر مر جاتا ہے۔
افسانے کا موضوع اس قدر نازک ہے کہ اس سے عہدہ بر آمد ہونا ہمہ شمہ کے بس کی بات نہیں تھی مگر غیاث احمد گدی نے اس فنکارانہ چابکدستی سے اس افسانے کو بنا ہے کہ افسانہ موضوع اور بناوٹ کے اعتبار سے نہ صرف غیاث احمد گدی کا بلکہ اردو کا منفرد افسانہ بن گیا ہے۔
زہرہ پہلے معصوم مریم پھر ایک فاحشہ کے روپ میں سامنے آتی ہے، مگر جوں جوں افسانہ آگے بڑھتا جاتا ہے اس کا کردار آکٹوپس کی طرح قاری کے ذہن ودل کو جکڑتا چلا جاتا ہے۔ افسانے کا عنوان افعی افسانے کی ترسیل میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے کیوں کہ زہرہ کا بھائی انور جسے اس نے ماں کی سی چاہت دی تھی بڑا ہو کر اسی کو سپنو لیے کی طرح ڈس لیتا ہے مگر انور کے کردار میں بھی ایک دیوانگی کے ساتھ دل کو مسوس دینے والی تڑپ ہے۔ جب افسانہ ختم ہوتا ہے تو انور کا کردار نفرت پیدا کرنے کے بجائے دل پر درد کی ایک لکیر چھوڑ جاتا ہے۔ افسانہ نگار نے جنس کو محبت کی اس ارفع سطح پر پہنچا دیا ہے جہاں ریپ جیسا مذموم فعل بھی قابل مذمت نہیں رہتا۔ دراصل یہ افسانہ جنس پر محبت کی فتح کا افسانہ ہے۔ جب غیاث احمد گدی نے نشست میں یہ افسانہ سنایا تو افسانہ ختم ہونے کے بعد بھی تادیر سناٹا چھایا رہا۔ بعد میں سب نے انہیں اس کامیاب افسانے پر مبارک بادی۔ کسی نے کہا۔ ’’گدی صاحب! میرے خیال میں یہ آپ کا نمائندہ افسانہ ہے۔‘‘
مسکرا کر بولے ’’نہیں۔ مجھے اپنا نمائندہ افسانہ ابھی لکھنا ہے۔‘‘ انہیں دنوں ہمارے ایک دوست کا افسانوی مجموعہ شائع ہو رہا تھا۔ دوست کی خواہش کے مطابق میں نے گدی صاحب سے کتاب کے فلیپ پر چند سطریں لکھنے کی درخواست کی انہوں نے ازراہ کرم چند سطریں لکھ دیں بعد میں مجھ سے پوچھا تم اپنا مجموعہ کب چھپوا رہے ہو؟ میں نے کہا’’ترتیب دے رہا ہوں۔‘‘ پھر پوچھا ’’تم اپنے مجموعہ پر کس سے لکھوا رہے ہو؟‘‘میں نے ہنستے ہوئے کہا ’’کسی سے بھی نہیں میں بیساکھیوں کا قائل نہیں۔‘‘ خوب، مجھے تمہارا جواب سن کر خوشی ہوئی۔ لکھنے والے میں اتنی خود اعتمادی تو ہونی ہی چاہیے۔‘‘
میں نے پوچھا، ’’پھر آپ نے اپنے پہلے مجموعے ’بابا لوگ‘ پر کلام حیدری سے دیباچہ کیوں لکھوایا؟‘‘ ایک لمحہ توقف کے بعد ہنسے اور غالب کا مشہور مصرعہ پڑھا۔ ’’عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا‘‘
ان دنوں گدی صاحب فلموں کے چکر میں بمبئی تشریف لائے تھے ان کی یہاں دو ایک فلم والوں سے خط و کتابت تھی غالباً کسی نے کوئی بریک دینے کا وعدہ کیا تھا۔ جھریا کا یہ سیدھا سادہ افسانہ نگار جھانسے میں آگیا اور رخت سفر باندھ بمبئی پہنچ گیا۔ اس سلسلے میں کئی مہینوں تک یہاں قیام کیا۔ دلیپ کمار سے لے کر رامانند ساگر اور علی رضا تک کئی ایکٹروں پروڈیوسروں ڈائرکٹروں سے ملے۔ حسب روایت سب نے انہیں کافی امیدیں دلائیں مگر اس مردم فریب شہر میں صرف وعدوں اور امیدوں کے سہارے کوئی کب تک زندہ رہ سکتا ہے۔ گدّی صاحب نے بھی جلد ہی حالات کاصحیح اندازہ کر لیا۔ دھیرے دھیرے ان کی جیب اور صحت دونوں نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا اور وہ تین چار مہینوں کے اندر ہی واپس اپنے وطن جھریا لوٹ گئے۔ ’’کسی نے ان کے متعلق ٹھیک ہی کہا تھا کہ انڈسٹری میں تو بڑے بڑے دھورتوں کی دال نہیں گلتی یہ گدی بے چارہ تو بڑا منہ مراہے یہاں رہ گیا تو سچ مچ مر جائے گا۔‘‘
غالباً انہوں نے بھی محسوس کر لیا کہ ان کی سادہ مزاجی گلیمر کے دیو کو زیر نہیں کر سکتی لہذٰا وہ جس خاموشی سے آئے تھے اسی خاموشی سے واپس چلے گئے۔
ان سے چوتھی اور آخری بار میں ۱۹۷۸ میں الہ آباد میں کل ہند افسانہ سیمینار میں ملا۔ اس سیمینار میں بمبئی سے انور قمر بھی میرے ساتھ تھے۔ یہ سمینار غالباً اردو افسانے پر پہلا بڑا سمینار تھا۔
جس میں ڈاکٹر قمر رئیس، جناب شمس الرحمن فاروقی، جوگیندر پال، رام لال، قاضی عبدالستار، کلام حیدری کے علاوہ کئی ہم عصر اور نوجوان افسانہ نگار اور نقاد بھی شریک تھے۔ دو دنوں تک خوب محفلیں رہیں لوگ ایک دوسرے سے جی کھول کر ملے۔ غیاث احمد گدی کو اور قریب سے دیکھنے کا موقع ملا کیوں کہ وہ زیادہ وقت ہمارے ساتھ ہی گذارتے تھے۔
سمینار کے آخری دن منتظمین کی جانب سے ایک ہوٹل میں ڈنر تھا دو روز کے لگاتار ادبی مباحث اور نکتہ آفرینوں نے سب کو بری طرح تھکا دیا تھا۔ تقریباً سب کا جی چاہتا تھا کہ ڈنر سے پہلے کہیں سے دو گھونٹ مئے اندوہ رُبا کا انتظام ہوجائے تو ذہن و دل کو تراوٹ ملے۔ مگر سب ایک دوسرے کے لحاظ میں خاموش تھے۔ تبھی کسی نے آکر چپکے سے بتایا کہ قریب ہی کہیں ایک دیسی مے خانہ دریافت ہوا ہے جہاں انگلش نہیں دیسی مل جاتی ہے میں انور قمر، شوکت حیات حمید سہردردی اور دو ایک مقامی نوجوان بزرگوں کی نظر بچا کر ڈائینگ ہال سے باہر نکل گئے، جب گدی صاحب کو اس کا علم ہوا تو وہ ڈاکٹر سید محمد عقیل اور کلام حیدری کی نظر بچا کر ہمارے پیچھے پیچھے آگئے سید محمد اشرف بھی ازراہ سعادت مندی ساتھ تھے جب ہم لوگ اڈے پر پہنچے تو پتہ چلا کہ وہاں شیشہ وساغر کا دستور نہیں، جام سفالین کا چلن ہے۔ آرڈر دیا گیا۔ فوراً مٹی کے کلہڑوں میں مے خانہ ساز آگئی۔ ہم میں سے کوئی بھی عادی بادہ نوش نہیں تھا البتہ کبھی کبھی روز، ابرو شب، ماہتاب میں چکھنے کے سب گنہ گار تھے۔
مٹی کے کلہڑوں میں پینے کا ہمارا پہلا اتفاق تھا اور دو رانِ گردش جام غالب کا یہ شعر سب کو مزید ترغیب دلا رہا تھا۔
اور لے آئیں گے بازار سے گر ٹوٹ گیا
جامِ جم سے یہ مرا جام سفال اچھا ہے
گدی صاحب بہت موڈمیں تھے اور خوب چہک رہے تھے۔ اس محفل کو یاد کرتا ہوں تو گدی صاحب کا دمکتا ہوا چہرہ آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔
اس کے بعد گدی صاحب سے ملاقات نہ ہوسکی۔ امید تھی کہ پچھلے سال ۱۹۸۵ دلی کے کل ہند افسانہ سمینار ورکشاپ میں ملیں گے مگر وہ کسی وجہ سے تشریف نہ لاسکے۔ اور اب ان کی موت کی خبر آگئی۔
ان کی موت کی خبر سنتے ہی مجھے فوری طور پر دو چیزیں یاد آگئیں۔ غیاث احمد گدی کا ہنستا مسکراتا چہرہ اور الہ آباد کے وہ مٹی کے کلہڑ۔
عمرخیام نے اپنی کسی رباعی میں آرزو کی تھی کہ جب وہ مرجائے اور مٹی میں مٹی ہوجائے تو اس مٹی سے جام بنایا جائے تاکہ اس کا محبوب اس جام میں شراب پئے تو وہ بعد از مرگ اس کے لب لعلیں کا بوسہ لے سکے۔
شاید ہم سب مٹی کے کلہڑوں کی مانند ہیں۔ جس میں وقت جرعہ جرعہ شراب پیتا ہے جب جام خالی ہوتے ہیں تو ایک طرف اچھال دئیے جاتے ہیں پھر مٹی میں مٹی مل جاتی ہے اور کوزہ گر اس مٹی سے نئے جام بناتا ہے۔ یا پھر مجھے لگتا ہے کہ ہم سب وہ جزیرے ہیں جو زمین کی ایک ہلکی سی جنبش سے وجود میں آجاتے ہیں اور پھر زمین ہی کی ایک جنبش سے غرق تہ آب ہو جاتے ہیں۔ زندگی اور موت کی یہ آنکھ مچولی پتہ نہیں کب سے چل رہی ہے اور نہ جانے کب تک چلتی رہے گی۔ مگر ہاں ایک عام آدمی اور ایک ادیب کی موت میں تھوڑا سا فرق ہے کہ جب ایک عام آدمی مرتا ہے تو واقعی مر جاتا ہے کہ اس کی یادوں کی عمر اس کی طبعی عمر سے بھی مختصر ہوتی ہے۔ مگر سچا ادیب اپنے لکھے ہوئے لفظ کے ساتھ زندہ رہتا ہے لفظ جو ہماری زبان اور ہماری تہذیب کا امین ہے۔ غیاث احمد گدی بھی ہمارے درمیان زندہ رہیں گے جب تک ان کے لکھے ہوئے لفظ زندہ ہیں اور ان کے لکھے ہوئے لفظ زندہ رہیں گے جب تک ہماری زبان اور ہماری تہذیب زندہ ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.