غزل اور عصر جدید
ایک مبصر کی رائے ہے کہ شاعری جدید دنیا کے لئے بہت کم اہمیت رکھتی ہے اور آج کل کی انسانیت کو شاعری کی کچھ زیادہ پروا نہیں ہے۔ اس کی تردید میں دستے کے دستے اشعار پیش کیے جا سکتے ہیں جو اس وقت بھی دنیا کے ہر گوشے میں آئے دن رنگے جا رہے ہیں۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پچھلے پچیس تیس برس کے اندر شاعری کا ایک انبار لگ گیا ہے اور کہا جا سکتا ہے کہ یہ علامت اس بات کی ہے کہ ابھی دنیا میں شاعری کا جو ہر اور شاعری کا مذاق دونوں موجود ہیں۔ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے اور انصاف کے ساتھ فیصلہ کیا جائے تو ماننا پڑےگا کہ گزشتہ چوتھائی صدی میں دنیا نے جو شاعری پیدا کی ہے اس کا زیادہ حصہ ایسا ہے جو کسی گلدستے کے مؤلف کے لئے یقیناً دلچسپی کی چیز ہوگا، مگر کسی نہ کسی مبصر کو اس میں کوئی نئی یا مستقل لذت مل سکتی اور نہ کوئی عامی ہی اس سے دیر تک لطف اٹھا سکتا ہے۔
بعض کا خیال ہے کہ اس سے شاعری کا نقص ثابت نہیں ہوتا بلکہ یہ دلیل صرف اس امر کی ہے کہ اس وقت زندگی میں جو نئی پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں وہ ہم کو بری طرح پراگندہ اور بدحواس کئے ہوئے ہیں اور ہم کو اب اتنی فرصت نہیں کہ ہم کسی ’’کاروبار شوق‘‘ میں بھی اطمینان و فراغت کے ساتھ چند لمحے گزار سکیں اور اپنے ’’ ذوق نظارۂ جمال‘‘ کا ثبوت دے سکیں۔ یہ غلط نہیں ہے مگر یہی ساری حقیقت بھی نہیں ہے۔ ہم کو اپنے دور کے ادبی اختراعات بالخصوص اکتسابات شعری سے زیادہ دلچسپی نہیں۔ اس کا ایک سبب تو یقیناً یہی ہے کہ ’’فرصت کہاں کہ تیری تمنا کرے کوئی۔‘‘
لیکن اس کے علاوہ بھی ایک سبب ہے جو زیادہ اہم اور زیادہ اصلی ہے۔ ایک طرف تو شاعری نے پرانے روایات اور تصورات، پرانے معیار کو بےکار یا ناکافی سمجھ کر ترک کر دینے کی ضرورت محسوس کر لی ہے، دوسری طرف ابھی وہ کماحقہ زمانے کے میلانات اور مطالبات سے موانست اور مطابقت پیدا نہیں کر سکی ہے۔
سعی وعمل کی سطح پر تو ہم زندگی کی نئی کروٹوں کے ساتھ مطابقت پیدا کر لیتے ہیں اور نئے ماحول سے ہماری عملی اور خارجی زندگی نسبتاً زیادہ سہولت کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتی ہے لیکن فکر وتخیل کی سطح پر ماضی کا بھوت غیر محسوس طور پر زیادہ عرصہ تک ہم سے لپٹا رہتا ہے اور قدیم روایات وصور رہ رہ کر اور بھیس بدل بدل کر اپنا لڑکھڑاتا ہوا تسلط جمانے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر ہم کو اس کا شعور بھی نہیں ہوتا۔ نتیجہ وہ تناقص اور انتشار ہے جو کسی نئے دور میں ہماری عملی زندگی اور خیالی زندگی کے درمیانی عرصہ تک قائم رہتا ہے اور ہماری مجموعی زندگی میں طرح طرح کی پیچیدگی پیدا کرتا رہتا ہے۔ زیادہ تر یہی وجہ ہے کہ ہماری شاعری اس وقت یا تو ہم کو مَس ہی نہیں کرتی اور اگر مس کرتی ہے تو ہم اس سے ناآسودہ رہ جاتے ہیں۔ قدامت پرست طبقہ اس سے اس لئے بے پروا ہے کہ وہ اس کے رجعتی معیار پر پوری نہیں اترتی۔ نئی روشنی والے اس سے اس لئے غیرمطمئن ہیں کہ وہ نئی زندگی کی نئی تحریکوں سے خاطر خواہ ہم آہنگ نہیں ہے۔
اردو شاعری میں نئے میلانات کی ابتدا حالیؔ، اور آزادؔ کے افسانے سے ہوتی ہے اور انہیں دو بزرگوں نے جدید اردو شاعری کی داغ بیل ڈالی اور جو لوگ کہ اردو شاعری کو یک دم بے مایہ سمجھتے ہیں، ان کو بھی یہ ماننا پڑےگا کہ حالیؔ اور آزاد کے گروہ نے جس نظم جدید کی بنیاد رکھی وہ اس وقت سے لے کر اب تک مسلسل اور ہموار ترقی کرتی رہی ہے اور مواد اور اسالیب دونوں کے اعتبار سے اپنے اندر نئی وسعتیں پیدا کرتی گئی ہے۔ حالیؔ، آزاد اور اسمٰعیل کے بعد اقبالؔ، چکبستؔ اور سرور جہان آبادی اور ان کے بعد نظم نگاروں کا موجودہ گروہ جس میں جوشؔ کو مرکزی حثیت حاصل ہے، اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اردو نظم بڑی ثابت قدمی کے ساتھ ترقی کی منزلیں طے کرتی رہی ہے اور زندگی کے نئے میلانات اور نئے امکانات اپنے اندر سموتی گئی۔
لیکن یہ دعویٰ اردو شاعری کی صرف اس صنف کے متعلق کیا جا سکتا ہے کہ جس کو نظم کا نام دے کر الگ کر دیا گیا ہے اور اردو غزل میں اتنے تنوعات پیدا نہیں ہو سکے اور وہ اب تک زندگی کی نئی وسعتوں اور نئے امکانات کے ساتھ اس قدر ہم آہنگ نہیں ہو سکی ہے جس قدر کہ ہونا چاہئے تھا۔ جدید غزل اور قدیم غزل میں جو فرق ہے وہ زیادہ تر لہجہ اور انداز کا ہے۔ معنوی اعتبار سے اردو کی نئی غزل اور پرانی غزل میں زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا۔ جدید اردو غزل نے ہماری شاعری میں اسلوبی وسعتیں کافی پیدا کی ہیں اور کچھ نئے نفسیاتی اشارے بھی دیے ہیں لیکن مجموعی طور پر اب تک ہماری غزل کا عام آہنگ وہی ’’عیش غم‘‘ (Buxury of sorrow) ہے جو پرانی غزل کا آہنگ تھا اور جو عشق اور عشقیہ شاعری کی تخئیل چلی آ رہی ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج تک اردو غزل زندگی کی نئی سمتوں سے مانوس نہیں ہو سکی ہے۔ اس وقت سب سے بڑا انقلابی ادیب یا شاعر غزل کے میدان میں آتا ہے تو عجیب قسم کی مخلوق معلوم ہونے لگتا ہے۔ اور بہت ہاتھ پاؤں مارنے کے بعد بھی اس والہانہ انداز سے آگے نہیں بڑھ سکتا ہے جس کو متغزلانہ ربودگی (Lyric abandon) کہنا چاہئے۔ یہ انداز کیفیت سے خالی نہیں ہے اور زندگی میں اس کی ضرورت ہے اور رہےگی لیکن یہی سب کچھ نہیں ہے۔
غزل کی ترکیب اور اس کی صورت پر غور کیجئے تو اس کی امکانی وسعتوں کا قائل ہونا پڑتا ہے، غزل کا ہر شعر اپنی جگہ پر ایک اکائی ہوتا ہے اور تنہا ایک مضمون پر حاوی ہوتا ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ اگر ہم چاہیں تو اختصار کے ساتھ اشاروں کی صورت میں ایک غزل میں اتنے مختلف الاصل اور مختلف النوع مضامین ادا کر سکتے ہیں جتنے کہ اس میں اشعار ہیں، پھر کیوں ہر شعر عشق اور متعلقات عشق کی دھن میں کہا جائے؟ کیوں نہ ان اشعار کو زندگی کے اور میلانات اور مسائل کا حامل بنایا جائے، غزل کے اشعار میں زندگی کی اہم باتوں کو مقولات کی صورت میں پیش کرکے حیات انسانی کی بہت بڑی خدمت کی جا سکتی ہے۔ لیکن نہ جانے وہ کون سی گھڑی تھی جب پہلے پہل غزل کی لغت مقرر ہو گئی کہ آج تک غزل کا مفہوم عورت سے بات کرنا سمجھا جاتا ہے۔
میں غزل کے مخالفوں میں نہیں ہوں اورنہ میں ان لوگوں میں سے ہوں جو یہ رٹ لگا رہے ہیں کہ غزل جو کچھ ہم کو دے سکتی تھی دے چکی، وہ اب بےکار ہو گئی اور اب اس کا دور نہیں ہے۔ غزل اور تغزل کو شاعری کا مرادف سمجھتا ہوں اور میرا دعویٰ یہ ہے کہ کسی طویل نظم کے صرف وہ اشعار بلا محنت و ارادے کے یاد ہو جاتے ہیں جس میں غزلیت نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ تغزل فطرتِ انسانی کا وہ تقاضا ہے جو ہمیشہ پورا ہوتا رہےگا اور ہمیشہ باقی رہےگا۔
میرے کہنے کا یہ مطلب ہی نہیں ہے کہ غزل نے ہم کو کچھ نہیں دیا۔ اس نے ہم کو بہت کچھ دیا اور اس سے ہمارے ادب میں بہت بڑا اضافہ ہوا۔ اس کا ایک سطحی ثبوت یہ ہے کہ جتنے اشعار ضرب الامثال ہوکر خاص وعام کی زبان پر چڑھے ہوئے ہیں ان میں کم سے کم پنچانوے فیصد غزل ہی کے اشعار ہیں۔ یہ کوئی معمولی اکتساب نہیں ہے، یہ غزل کی وہ امتیازی خصوصیت ہے جو صرف اپنی بنا پر غزل کو غیر فانی بنائے رہے گی۔ یعنی اس کے ہر شعر میں یاد رہ جانے کی طبیعی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اردو شاعری میں جو رموز و کنایات ملے ہیں وہ غزل کی بدولت ملے ہیں۔
غزل نے ہماری شاعری کی تربیت و تہذیب میں جو حصہ لیا ہے، وہ شاعری کی کسی اور صنف نے نہیں لیا اور نہ لے سکتی تھی۔ یہ غزل ہی کا کام تھا کہ سیکڑوں انفراد ی تصورات کو رموز اور تمثیلات بناکر ان میں ایسی کائناتی وسعت پیدا کر دی کہ آج گل و بلبل، سروقمری کی اصطلاحیں اپنے لغوی معنی کے تنگ دائرے سے نکل کر ساری زندگی پر حاوی ہو جانے کے قابل ہو گئی ہیں۔ اور بادۂ وساغر میں یہ صلاحیت پپدا ہو گئی ہے کہ مشاہدۂ حق کی گفتگو میں بھی ان سے کام لیا جا سکے۔
یہ وہ لوگ خصوصیت کے ساتھ سن رکھیں جو بغیر سوچے سمجھے یہ کہا کرتے ہیں کہ اردو غزل میں گل و بلبل، بادہ وساغر کے سوا دھرا ہی کیا ہے۔ اور غزل میں ’’گل وبلبل‘‘ اور ’’بادہ وساغر‘‘ کی کے طفیل میں وہ رموز و کنایات ملتے ہیں جن کو ٹی۔ ایس ایلیٹ (T. S. Eliot) ملزومات خارجی (Objective Correlalire) کہتا ہے۔ غزل نے اردو شاعری میں وہ بلیغ رمزیت (Symbolism) اور وہ آفاقی تمثیلیت (Universal Allegorism) پیدا کی ہے جس کی مثال کسی دوسری زبان کی شاعری مشکل ہی سے پیش کر سکتی ہے۔
لیکن ان تمام باتوں کے باوجود اردو غزل کی چند کوتاہیوں کو بھی نظر میں رکھنا چاہئے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس نے اپنے تصورات اور تاثرات، اپنی محاکات اور تخئیل کا دائرہ بہت محدود رکھا جس کی وجہ سے اس کے اسالیب اور روایات میں ایک تھکا دینے والی یکسانی پیدا ہو گئی اور اس میں تنوع کا امکان بہت کم رہ گیا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج اردو غزل کی فضا میں نہ صرف انحطاط بلکہ جمود کے آثار محسوس ہونے لگے ہیں۔ غزل میں دوسری کمی یہ ہے کہ جہاں تک موضوع اور مواد کا تعلق ہے وہ اب تک سماجی شعور اور عام انسانی زندگی کے احساس سے خالی رہی ہے۔ تیسری ناگوار مگر ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ موجودہ اردو غزل میں وہ کس بل نہیں ہے جو متقدمین کی غزلوں میں ملتا ہے اور وہ کچھ بے جان سی ہو رہی ہے۔
یہاں تک تو اردو غزل سے کلی حیثیت سے بحث تھی۔ اب ہم اپنے دور کے غزل گو شعراء پر فرداً فرداً نظر ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ صحیح انداز ہو سکے کہ اردو غزل اس وقت کس مقام پر ہے اور اس کا مستقبل کیا ہے؟ اس کے لئے ہم کو ان شعرا کے دائرے سے باہر جانے کی ضرورت نہیں جو ابھی زندہ ہیں اور غزل کہہ رے ہیں۔ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ گزشتہ سال نگار نے اپنا سالنامہ موجودہ اردو غزل گو شاعروں کے کلام کے لیے وقف کر دیا۔ یہ اپنی نوعیت کا نہ صرف نیا سالنامہ ہے بلکہ اب تک اس قسم کا کوئی گلدستہ بھی نہیں شائع ہوا ہے۔ شاعروں نے اپنے کلام کا خود انتخاب کرکے اپنے مختصر حالات زندگی کے ساتھ بھیجا ہے جس سے شاعر کے کلام کے ساتھ ساتھ اس کی شخصیت کی ایک ہلکی سی جھلک بھی ہم کو مل جاتی ہے۔ شاعر کے اندر تنقید و انتخاب کی قوت اتنی قوی اور شدید نہیں ہوتی جتنی تمثیل و تخلیق کی قوت ہوتی ہے اور وہ عموماً اشعار کا انتخاب کرتے ہوئے چوک جاتا ہے۔ خاص کر خود اپنے کلام کا انتخاب کرتے وقت تو وہ طرح طرح کے دھوکوں میں پڑ جاتا ہے۔ ’’نگار‘‘ کے اس سالنامے میں بھی جابجا یہ چوک نظر آتی ہے لیکن اس سالنامہ کی اہمیت میں کوئی فرق نہیں آتا اور ہم اس کو سامنے رکھ کر اطمینان کے ساتھ عصری اردو غزل پر رائے دے سکتے ہیں۔
اردو میں اس وقت جتنے شعراء غزل کہہ رہے ہیں ان میں سب سے پہلے جن کا نام ذہن میں آتا ہے وہ حسرتؔ موہانی ہیں۔ کہا جاتا ہے حسرتؔ سے زیاد ہ عمر والے اور زیادہ مشق رکھنے والے غزل گو بھی ابھی زندہ ہیں۔ یہ سچ ہے، لیکن حسر ت اور دوسرے بڈھے شعراء میں فرق یہ ہے کہ حسرتؔ نہ صرف ایک قدیم روایتِ عظمی کی آخری بڑی یادگار ہیں، بلکہ اردو غزل میں برائے نام جو کچھ نئی تحریک کے آثار پائے جاتے ہیں ان کے موجد یہی ہیں۔ اردو غزل کی نئی نسل کی ابتدا حسرتؔ ہی سے ہوتی ہے۔ حسرتؔ اردو غزل کی تاریخ میں قدیم و جدید کے درمیان ایک عبوری حیثیت رکھتے ہیں اور اس اعتبار سے اگر ان کا مقابلہ انگریزی کے مشہور شاعر رابرٹ برجز (Robert Bridges) سے کیا جائے تو بہت مناسب رہےگا۔ لیکن ان کی شاعری میں ا س انحطاط اور تزلزل یا تذبذب کی کوئی علامت نہیں ملتی جو عبوری دور کی لازمی علامت ہے اور جس سے کسی عبوری شخصیت کا کوئی کارنامہ خالی نہیں ہوتا۔
حسرتؔ کی شاعری جس وقت شروع ہوئی اس وقت امیرؔ اور داغؔ ہر طرف چھائے ہوئے تھے، گوشہ گوشہ میں انہیں کی تقلید ہو رہی تھی، اردو غزل میں کوئی نیا امکان نظر نہیں آ رہا تھا اور ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہماری غزل اپنے تمام بہترین امکانات بروئے کار لا چکی ہے اور اب اس میں صرف انحطاط کا امکان باقی ہے۔ اسی اثناء میں حسرتؔ کی آواز کان میں پڑتی ہے اور ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ اردو غزل میں کہیں سے زندگی کی نئی لہر آ گئی ہے، جس سے اس کے اندر نئی توانائیاں پیدا کر دی ہیں۔
حسرتؔ کے تغزل کو متعین کرنا اور اس کو کوئی ایک نام دینا بہت دشوار ہے۔ اس لئے کہ ’’وہ بسیار شیوہا است بتاں راکہ نام نیست‘‘ کے عنوان کی چیز ہے۔ نیازؔ صاحب کا یہ کہنا اس لحاظ سے بہت صحیح معلوم ہوتا ہے کہ ’’ہندوستان میں اس وقت حسرتؔ ہی وہ شاعر ہے جس کے کلام کی داد سوائے خاموشی اور کسی طرح نہیں دی جا سکتی۔‘‘ بات یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ حسرتؔ جدید اردو غزل کے امام ہیں اور نئے دور کے نئے رجحانات کا صحیح شعور رکھتے ہیں، انہوں نے اپنے نفس شعری کی تربیت ان انبیائے غزل کے مطالعہ سے کی جن کی بدولت آج اردو غزل، اردو غزل ہوئی ہے۔
حسرتؔ کے کلام میں ان کی اپنی فطری اپج کے ساتھ قدماء کے بہترین عناصر نے مل کر ایک عجیب مکمل اور پختہ آہنگ پیدا کر دیا ہے جس کا دوبارہ تجربہ نہیں کیا جا سکتا، وہ خود تسلیم ؔکے واسطے خاندان مومنؔ سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن یہ صرف ظاہری اور رسمی بات ہے، ان کے کلام میں میر مصحفیؔ، جرأت اور مومنؔ کا رنگ حسرتؔ کے اپنے رنگ کے ساتھ مل کر ان کے تغزل کی کیمیاوی ترکیب بن گیا ہے۔
لیکن حسرتؔ کو تقلیدی شاعر سمجھنا بڑی فاش غلطی ہوگی۔ ان کا انتخابی تغزل (Lyricism) اپنے عنوان کی ایک بالکل نئی چیز ہے، جو نہ تقلید سے پیدا ہو سکتی ہے اور نہ جس کی تقلید کی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جدید نسل کا ہر غزل گو شاعر شعوری یا غیر شعوری طور پر حسرتؔ سے متاثر ضرور ہوا ہے لیکن کوئی ان کی تقلید نہیں کر سکا۔
کٹ گئی احتیاطِ عشق میں عمر
ہم سے اظہار مدعانہ ہوا
تم جفا کار تھے کرم نہ کیا
میں وفادار تھا خفا نہ ہوا
شوق جب حد سے گزر جائے تو ہوتا ہے یہی
ورنہ ہم اور کرمِ یار کی پروا نہ کریں
حال کھل جائےگا بے تابی دل کا حسرتؔ
بار بار آپ انہیں شوق سے دیکھا نہ کریں
آپ کا شوق بھی تو اب دل میں
آپ کی یاد کے سوا نہ رہا
آرزو تیری برقرار رہی
دل کا کیا رہا رہا نہ رہا
راہ و رسم وفا وہ بھول گئے
اب ہمیں بھی کوئی گلا نہ رہا
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا ہے حسرت
ان سے مل کر بھی نہ اظہار تمنا کرنا
یا ہماری ہی یہ قسمت ہے کہ محروم ہیں ہم
یا مگر ان کی محبت کا نتیجہ ہے یہی
سب سے شوخی ہے ایک ہمیں سے حیا
اے فریبِ نگاہِ یار یہ کیا
کسی پر مٹ کے رہ جاتا ہے حسرتؔ
ہمیں کیا کام عمر جاوداں سے
حسرت جفائے یار کو سمجھا جو تو وفا
آئین اشتیاق میں یہ بھی روا ہے کیا
ان اشعار سے یہ اثر ہوتا ہے کہ شاعر شعور حسن و عشق کی تمام منزلیں طے کئے بیٹھا ہے اور اب اس کے اندر ایک عارفانہ بے نیازی پیدا ہو گئی ہے۔ ضبط و توازن، اعتماد و اطمینان، سنجیدہ اور بے شکن تیور بیک وقت تعلق اور بے تعلقی کا احساس، جس کو تصوف یا ترک کی مجہولیت سے کوئی واسطہ نہیں، بلکہ جو انسانی درک وبصیرت کی صحیح و آخری بلندی ہے۔ یہ ہیں وہ نقش جو حسرتؔ کی غزلیں ہر شخص پر چھوڑ جاتی ہیں جس کے اندر غزل کا مہذب مذاق موجود ہے اور جو صرف اپنے مطالعے کی وسعت اور کثرت کے زور سے شاعری کا مبصر نہیں بنا ہے۔
آخر میں جو بات حسرتؔ کے بارے میں یاد رکھنے کے قابل ہے، وہ یہ ہے کہ اردو غزل گوئی کی تاریخ میں حسرتؔ پہلے شاعر ہیں جن کا کلام غزل کے تمام خصوصیات و لوازم کا حامل ہوتے ہوئے بھی یاس انگیز نہیں ہوتا۔ ان کے مسلک کو کسی طرح قنوطیت نہیں کہہ سکتے، اگر چہ ان کے اشعار میں نہایت پختہ اور بلیغ قسم کا سوزوگداز ہوتا ہے جو اکثر میرؔ کے لب و لہجے سے مل جاتا ہے۔ حسرتؔ کی شاعری اس منزل کی چیز ہے جہا ں رنج و خوشی بچوں کی اصلاحیں معلوم ہوتی ہیں، جہاں آنکھوں میں آنسو آتے آتے چہرے پر اک مسکراہٹ آ جاتی ہے اور مسکراتے مسکراتے آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا جاتے ہیں۔
عزیزؔ سے اردو غزل کو جو نئے اسالیب اور نئے آہنگ ملے ہیں وہ اپنی نوعیت کے پہلے اضافے ہیں اور ان کی اہمیت سے کبھی نکار نہیں کیا جا سکےگا۔ انہوں نے غزل میں معنوی وسعتیں پیدا کی ہیں، وہ بھی یادگار حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکن اس کو کیا کیجئے کہ ان کی غزلیں پڑھتے ایسا احساس ہوتا ہے جیسے کسی جنازہ کے اٹھنے میں اور روانہ ہونے میں ناقابل برداشت حد تک دیر ہو رہی ہے۔ محشر بھی اسی مدرسے کے شاعر ہیں لیکن ان کا ماتمی لب ولہجہ کچھ زیادہ تھما ہوا ہے، اگر چہ بہ حیثیت ایک موثر اور محرک قوت کے وہ عزیزؔ کے مقام سے نیچے رہ جاتے ہیں۔
عزیزؔ کی ماتمی دھن کو، جو بےاختیار ہو چکی تھی، جس نے سنبھال لیا وہ صفیؔ اور ثاقبؔ ہیں۔ صفیؔ نے اپنے ماتمی انداز پر ضبط وخود داری کا پردہ ڈالا اور سوگ میں فکر و تامل کا میلان پیدا کیا اور غزل کی زبان اور اسلوب کی تہذیب وتحسین میں تو ازن کا حصہ عزیز سے بھی زیادہ ہے۔
ثاقبؔ کی غزل گوئی’’مدرسہ عزیزیہ‘‘ سے کچھ اور زیادہ الگ ہو گئی ہے۔ ان کے کلام میں نہ وہ والہانہ بے اختیاری ہے اور نہ جذبات کی وہ گرمی جو صفیؔ اور ان کے دوسرے معاصرین کی نمایاں خصوصیتیں ہیں لیکن حسن وعشق اور ان کے روایتی ملزومات کے پردہ میں ہم کو ایسے اشارات مل جاتے ہیں کہ ہم ٹھہر کر خاموش سوچنے لگ جاتے ہیں۔ ثاقبؔ کو حسن وعشق کا شاعر سمجھنا غلطی ہے۔ حسن و عشق کو انہوں نے زندگی کی تمثیل بنایا ہے اور ان کی شاعری کا موضوع زندگی کے حادثات ہیں۔
ایک جداگانہ مدرسہ کے بانی اور نئے اسالیب وصور کے بانی یا مبلغ ہونے کی حیثیت سے عزیزؔ اور صفیؔ کا جو مرتبہ بھی ہو یا کامل فن ہونے کے اعتبار سے وہ ثاقبؔ سے جس قدر بھی فائق ہوں مگر میرا خیال ہے کہ ثاقبؔ کی غزلوں سے ہمارے اندر پہلی بار یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اب نئے دور کی نئی نفسیات شروع ہو رہی ہے۔ ثاقبؔ کی شاعری بھی اپنے اکثر ہم عصروں کی شاعری کی طرح غم کی شاعری ہے۔ لیکن اس کے تیور دیکھ کر ہمارے اندر ایک تازہ توانائی اور جسارت پیدا ہو جاتی ہے اور ہم نہ صرف اس قابل ہو جاتے ہیں کہ برداشت کر لے جائیں بلکہ اندر سنجیدہ ضد اور بغاوت کا ایک خفیف ارتعاش بھی پیدا کرنے لگتے ہیں۔
ضبط خودداری اور ایک گہرے قسم کے متانت اور ایک بے نیاز انداز، یہ ہے وہ خصوصیت جو ثاقبؔ کی پیشانی پر جلی حروف میں لکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ مندرجہ ذیل اشعار ادھر ادھر سے ملاحظہ ہوں۔
یہ گوارا نہ کیا دل نے کہ مانگوں تو ملے
ورنہ ساقی کو پلانے میں کچھ انکار نہ تھا
جمالِ شمع کسی کو، کسی کو جلوۂ گل
وہ ایک میں ہوں جسے کوئی خون بہانہ ملا
سر چڑہا یا میں نے چن چن کر خس و خاشاک کو
باغ کے تنکے تھے وہ جن کا نشیمن نام تھا
چل اے ہمدم ذرا ساز طرب کی چھیڑ بھی سن لیں
اگر دل بیٹھ جائے گا تو اٹھ جائیں گے محفل سے
یہ آشیانۂ ستم چمن میں ہوتو خوب ہو
یہ جی میں ہے کہ لے اڑوں قفس تو اپنا ہو چکا
شہید غم کی لاش پر نہ سر جھکا کر روئے
وہ آنسوؤں کو کیا کرے جو منھ لہو سے دھوچکا
بزم رنگیں میں تری ذکر غم آیا تو سہی
خوش رہے چھیڑنے والا مرے افسانے کا
بہت سی عمر مٹاکر جسے بنایا تھا
مکاں وہ جل گیا تھوڑی سی روشنی کے لئے
تمام بزم میں چھایا ہوا ہے سناٹا
چھڑا تھا قصۂ دل ان کی دل لگی کے لئے
شبِ غم آ گئی جلنے کا پھر پیغام آتا ہے
لباسِ آتشیں پہنے چراغ شام آتا ہے
ثاقبؔ کی شاعری شدت کیف سے خالی ہے اور یہ ہونا تھا، اس لئے کہ جب انسان خود اپنے کیف کی آگاہی پیدا ہونے لگے تو کیف کی شدت گھٹنے لگتی ہے۔ ثاقبؔ کو شعورِ کیف کا شاعر کہنا زیادہ مناسب ہوگا اور ان کے کلام میں شدید کیفیتوں کی تلاش بے محل سی ہوگی۔
آرزوؔ لکھنوی کو بھی اسی جماعت کا شاعر سمجھنا چاہئے۔ وہ جلال ؔ لکھنوی کے شاگرد ہیں اور جلالؔ اور تعشق سے کافی حدتک متاثر معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے کلام کے دو مجموعوں ’’فغان آرزو‘‘ اور ’’سرملی بانسری‘‘سے عوام روشناس ہو چکے ہیں۔ ان کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ماہر فن کار ہیں، وہ نہ صرف زبان اور محاورہ پر قابو رکھتے ہیں بلکہ عروض کے رموز ونکات سے بھی واقف ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ شعر میں آہنگ کیسے پیدا کیا جاتا ہے، ان کا کوئی شعر شاید ہی کوئی ایسا ہو جو محض اپنے ترنم سے اپنی طرف متوجہ نہ کر لے اور یہ ترنم ایک تمثیلی کیفیت (Dramatic Quality) اپنے اندر رکھتا ہے۔
جہاں تک زبان اور بیان کے مجموعی انداز کا تعلق ہے، آرزو لکھنوی دلی دبستان غزل سے کافی قریب نظر آتے ہیں۔ یہ شاید جلال کی شاگردی کا اثر ہے۔ مگر ان کے یہاں سوزو گداز مرثیت کی دھن لئے ہوئے ہوتا ہے جو لکھنؤ کے دبستانِ تغزل کا ترکہ ہے۔ اردو غزل میں آرزوؔ لکھنوی نے جو اسلوبی اضافے کئے ہیں، وہ مستقل قدروقیت رکھتے ہیں۔ خاص کر ’’سریلی بانسری‘‘ لکھ کر تو انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ انسان اپنے جذبات وادارت کو ایسی زبان میں ظاہر کر سکتا ہے جو عامیانہ ہوئے بغیر لغوی حدتک عام فہم ہو سکتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ یہ زبان اور یہ اسلوب اس قابل نہیں کہ اس میں زندگی سے متعلق گہرے خیالات ادا کئے جا سکیں۔ مگر پھر ہم کہہ سکتے ہیں آرزو ؔلکھنوی افکار کے شاعر نہیں ہیں اور نہ ان کا طرز فکر انہ شاعری کے لئے بنا ہے مگر جہاں تک انسان کے عام جذبات، نفسیات و محاکات کا تعلق ہے، اس طرز سے زیادہ دلنشیں اور عوام سے قریب طرز مشکل ہی سے تصور میں آ سکتا ہے۔
بہر حال میرا خیال یہ ہے کہ آرزوؔ لکھنوی کی شاعری اور خصوصیت کے ساتھ ان کی’’ سریلی بانسری‘‘ اردو شاعری کے اسالیب میں ایک نئے سمت کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو اس قابل ہے کہ اس کے امکانا ت کا جائزہ لیا جائے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
رہنے دو تسلی تم اپنی دکھ جھیل چکے دل ٹوٹ گیا
اب ہاتھ ملے سے ہوتا ہے کیا جب ہاتھ سے ناوک چھوٹ گیا
کھاکے چرکے ہنسو یہ بات ہے اور
آرزوؔ جی ہی جانتا ہوگا
جو سینے میں دل ہے تو بار محبت
اٹھے یا نہ اٹھے اٹھانا پڑےگا
دفعتاً ترک تعلق میں بھی رسوائی ہے
الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر
کس نے بھیگے ہوئے بالوں سے یہ جھٹکا پانی
جھوم کے آئی گھٹا ٹوٹ کے برسا پانی
نہ اس کو پوچھو کہ کس لئے تھا یہ روکے ہنسنا یہ ہنس کے رونا
اک اَن کہی دکھ بھری کہانی دکھا دی تم کو الٹ پلٹ کر
کہہ کے یہ اور کچھ کہا نہ گیا
کہ ہمیں آپ سے شکایت ہے
معمہ بن گیا راز محبت آرزو یوں ہی
وہ مجھ سے پوچھتے جھجکے مجھے کہتے حجاب آیا
چاہت کی ہر بات الٹی مت الٹی رونا الٹا
جتنا مسو سوجی اور مڈے بوندر کے ندی بہہ جائے
جسے آرزوؔ کوئی تاکے نہ چھینے
مجھے راج گدی ہے وہ مرگ چھالا
تارا ٹوٹا سب نے دیکھا یہ نہ دیکھا ایک نے بھی
کس کی آنکھ سے ٹپکا آنسو کس کا سہارا چھوٹ گیا
اسی دور اور کم وبیش اسی مجلس سے تعلق رکھنے والے ہم کو چند ایسے شعراء بھی نظر آتے ہیں جو اپنی جگہ ایک زبردست قوت کے مالک ہیں اور کامل فن کہے جانے کے مستحق ہیں اور ایسا ہی کہے بھی جاتے ہیں لیکن جو کسی طرح بھی ایسی قوت نہیں رکھتے جو مستقبل کی تعمیر میں کوئی حصہ لے سکیں یعنی ان کی شاعری کسی زاویہ سے بھی میلاناتی (Tendentious) نہیں ہے۔
مثال کے طور پر بیخودؔ دہلوی یا نوحؔ ناروی کو لے لیجئے، دونوں داغؔ کے شاگرد ہیں اور اپنی محفل کے چشم و چراغ بھی ہیں اور اس کی آخری بڑی یادگار بھی ہیں۔ ان لوگوں کی کہنہ مشقی اور استادانہ مہارت کا بہرحال اعتراف کرنا پڑےگا، زبان اور محاورہ اور روزمرہ کا لطف اٹھانا ہو تو اب بھی انہیں بزرگوں کے کلام کی طرف رجوع کرنا پڑےگا۔ لیکن اس کو کیا کیجئے کہ اب ہمارے لطف ولذت کا میلان اور معیار بدل گیا ہے اور ان کے کلام کا مطالعہ کرتے وقت ہم کو یہ احساس ہوئے بغیر نہیں رہتا کہ یہ ایک ایسی آواز کے آخری ارتعاشات ہیں جس کو رکے ہوئے خاصی دیر ہو چکی ہے۔ یہ ہی حال ان لوگوں کے کلام کا ہے جو امیر کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور لکھنؤ کے روایتی دبستان کے آخری نام لیوا کہے جا سکتے ہیں۔
جلیلؔ غزل کے روایتی آہنگ کے استاد ہیں۔ نکھری ہوئی زبان اور نرم اور ہلکی موسیقیت ان کے کلام کی وہ ممتاز خصوصیت ہے جس نے ان کو اس قدر عام بنا رکھا ہے۔
دلؔ شاہجہاں پوری کے وہاں دبستان امیر کی بعض عام نمایاں خصوصیات کے علاوہ ایک خاص دردمندی اور دل گداختگی بھی ہے جو متانت اور وقار لئے ہوئے ہے اور خالص ان کی اپنی چیز معلوم ہوتی ہے۔
امرناتھ ساحر، پرانے کہنے والوں میں اپنا ایک خاص رنگ رکھتے ہیں۔ وہ زبان اور اسلوب میں دلی کے مدرسے سے متاثر ہیں اور متصوفانہ تغزل کے روایتی تصور کی کامیاب نمائندگی کرتے ہیں۔
دتاتر یہ کیفیؔ کا کلام متبحرانہ ہوتا ہے۔ وہ اردو زبان کے ساتھ وہ انس رکھتے ہیں جو ایک محقق زبان کے لئے لازمی ہے۔ ان کے اشعار میں کیف کا وہ غلبہ کہیں نہیں ملتا ہے جو شاعری کی اصل روح ہوتا ہے اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ شاعر سے زیادہ فاضل کہے جانے کے مستحق ہیں۔ مشاعروں کی صدارت اب بہت سستی ہو گئی ہے۔ ہر کس و ناکس مشاعرہ کا صدر بنا دیا جاتا ہے اور اب ’’شیوۂ اہل نظر‘‘ کی آبرو جا چکی ہے ورنہ مجھے یہ کہنے میں تامل نہ ہوتا کہ دتاتریہ کیفی شاعری سے زیادہ مشاعروں کی صدارت کے لیے زیادہ مناسب و موزوں ہیں۔
وحشتؔ کلکتوی باوجود قدیم اور روایتی دبستاں کے شاعر ہونے کے اپنے کلام میں ایک انفرادی لہجہ کا پتہ دیتے ہیں، ان کے کلام میں فارسی کا لطیف عنصر ایک خاص چیز ہے جو غزل کے مزاج کو قائم رکھتے ہوئے ے شاعر کے کلام کو عام سطح سے کچھ بلند کر دیتا ہے۔ ان کو خود اعتراف ہے کہ وہ غالبؔ کا تتبع کرتے رہے ہیں جس کو مولانا حالیؔ نے محسوس کیا اور مانا ہے۔
وحشت کی شاعری کی سب سے زیادہ نمایاں اور محسوس خصوصیت جذبات کا نہایت رچا ہوا توازن اور انداز بیان کا عارفانہ ضبط اور سنجیدگی ہے۔ لیکن یہ لوگ اپنی اپنی جگہ جو حیثیت بھی رکھتے ہوں اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہیں ایک گزرے ہوئے زمانہ کی یادگار اور اب فسانہؔ ہو چلے ہیں۔
اسی سلسلہ میں ہم کو چند ایسے شعرا بھی نظر آتے ہیں جو قدیم دور سے وابستہ تو ہیں لیکن جو اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے اشعار میں جدید دور کی علامتیں آ جائیں اور وہ آ گئی ہیں۔ لیکن چونکہ ان کی شاعری کا محرک اصل زندگی نہیں ہے بلکہ شاعری یعنی اساتذہ کا کلام ہے، اس لئے ان کے الہامات شعری میں مطالعات کے ارتعاشات صاف محسوس ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ باوجود اس کے کہ اچھے شاعروں میں شمار ہوتے ہیں لیکن کسی خاص انفرادیت کے مالک نہیں ہیں۔
عبدالباری آسیؔ اسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ آسی نہ جانے کیوں لکھنوی مشہور ہو گئے ہیں، جو وہ نہ پیدائش کے اعتبار سے ہیں نہ اپنے میلانات کے اعتبار سے۔ وہ بہت وسیع المطالعہ شخص ہیں۔ متقدمین اور متاخرین میں سے شاید ہی کوئی ایسا شاعر ہو جس کا کلام آسیؔ کی نظر سے نہ گزرا ہو اور جس سے انہوں نے خذما صفا کے قاعدے سے فائدہ نہ اٹھایا ہو۔ لیکن ان کی شاعری کا مجموعی آہنگ دبستان دلی سے کافی قریب ہے۔ نیاز صاحب نے ان کی شاعری کے لئے دامنؔ دار کی اصطلاح استعمال کی۔ میری رائے میں آسیؔ کی شاعری کے لئے اس سے زیادہ جامع لفظ نہیں مل سکتا۔ نہ صرف اس لئے کہ وہ ایک اچھی خاصی جماعت اپنے شاگردوں کی بھی رکھتے ہیں بلکہ اس لئے کہ مضامین اور اسالیب دونوں کے اعتبار سے جو انتخابی اور تقلیدی تنوع ان کے وہاں پایا جاتا ہے، اس نے ان کی شاعری کے دامن کو واقعی پھیلا دیا ہے۔ ان کی غزلوں میں وہ سپردگی اور خود رفتگی نہیں ملی جو تغزل کی اصل جان ہوتی ہے۔ مگر پھر بھی ایک ٹھہری اور سنبھلی ہوئی دردمندی ان کے اشعار میں ملتی ہے جو بے تاثیر نہیں ہوتی۔ آسی ؔ نہ صرف شاعر ہیں بلکہ سخن شناس بھی ہیں اور اچھی تنقیدی صللاحیت رکھتے ہیں۔
مرزا جعفر علی خاں اثرؔ اس گروہ میں سب سے ممتاز شخصیت ہیں۔ ان کے مذاق شعری کی تربیت اساتذہ کے کلام کے بہترین عناصر سے ہوئی ہے۔ وہ شاگرد تو عزیز کے ہیں لیکن اساتذہ میں میرؔ اور آتشؔ سے بہت زیادہ متاثر ہیں، وہ نقاد بھی ہیں اور ان کا تنقیدی توازن شیفتہ کی یاد تازہ کرتا ہے اور وہی توازن اور ٹھہراؤ ان کے کلام کی بھی جان ہے۔ ان کے اشعار میں نہ کہیں سستی قسم کی جذبات نگاری ہے اور نہ چھچھورے انداز کی معاملہ بندی۔ الفاظ کا صحیح اور برمحل استعمال، محاوروں اور فقروں کی برجستگی، بے ساختگی، تخیل کی بلندی اور لب ولہجے کی متانت، یہ ہیں وہ خصوصیات جو ان کی شاعری کو ممتاز کئے ہوئے ہیں اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اثر کے کلام میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو رچے ہوئے ذوق جمال کا پتہ نہ دیتی ہو۔ یہ سب کچھ ہے لیکن ان کی شاعری میں اس محویت کا احساس نہیں ہوتا جو دوسروں کو بھی محو کر لے، ان کی شاعری فطری شاعری ہوتے ہوئے بھی کتابی شاعری معلوم ہوتی ہے۔ ان کے اشعار سے دل پر وہ اثر ہوتا ہے جو گزرے ہوئے زمانہ کی دھندلی یادوں سے ہوتا ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار قابل ملاحظہ ہیں۔
وہ گزرا ادھر سے جو بیگانہ وار
چراغ لحد جھلملانے لگا
جن خیالات سے ہو جاتی ہے وحشت دونی
کچھ انہیں سے دل دیوانہ بہلتے دیکھا
ہم نے رو رو کے رات کاٹی ہے
آنسوؤں پریہ رنگ تب آیا
فریاد کا شنوا کوئی نہیں بیکس کا سہارا کوئی نہیں
کچھ دیکھ لیا اس دنیا میں کچھ حشر میں دیکھا جائےگا
آج کچھ مہربان ہے صیاد
کیا نشیمن بھی ہو گیا برباد
پھر ہم کہاں، کہاں تم، جی بھر کے دیکھنے دو
اللہ کتنی مدت ہم تم جدا رہے ہیں
وہ خمار آلود آنکھیں دیکھ کر
موجِ مے لینے لگی انگڑائیاں
زندگی اور زندگی کی یادگار
پردہ اور پردے پہ کچھ پرچھائیاں
ظہورِ عشق حقیقت طراز تھا ورنہ
یہ دل کشی کہیں دارورسن میں آتی ہے
یہ جلدجلد بدلتا ہوا زمانہ ہے
کہ آج ہے جو حقیقت وہ کل فسانہ ہے
نہ جانے بات یہ کیا ہے تمہیں جس دن سے دیکھا ہے
مری نظروں میں دنیا بھر حسین معلوم ہوتی ہے
چل گیا اس نگاہ کا جادو
کہہ گئے دل کی بات کیا کہئے
سمیاب اکبرآبادی جدید اردو غزل کی مجلس میں ایک ایسی ہستی ہیں جو عمر اور تعلیم و تربیت اور ذاتی مناسبت مزاج کے اعتبار سے ایک گزرے ہوئے دور سے وابستہ ہیں لیکن جو نئے دور کے نئے میلانات کا ایک پرتشنج احسا س رکھتے ہیں اور جدید اسلوب کے اشعار کہنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے اشعار جدید غزل میں بڑے مزے سے کھپ بھی جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے ان کے کلام میں کہنگی اور فرسودگی تو نہیں آنے پاتی، لیکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ زمانے کے تیور پہچان کر زمانے کے ساتھ چلنے کی کوشش کر رہے ہیں اور قدم ٹھیک نہیں پڑ رہے ہیں۔ ان کا کلام کسی انفرادی خصوصیت کا حامل نہیں، ان کے رسمی شاگردوں کی تعداد کتنی ہی کیوں نہ ہو مگر جدید نسل پر ان کا کارگر اور مستقل اثر نہیں ہوا۔ وہ خود بڑے مشاق شاعر ہیں اور شعر کہنے میں ان کو مطلق کوئی زحمت نہہیں ہوتی۔ ان کے وہاں کافی تعداد اچھے اشعار کی نکل آتی ہے۔ مگر ان میں کسی خاص جمالیاتی بصیرت یا وجدانی تاثر کا پتہ نہیں چلتا۔
آزادؔ انصاری نے حالی کی شاگردی سے متاثر ہوکر اردو غزل میں ایک بالکل نئے اسلوب کی بنیاد ڈالی تھی مگر چوں کہ ان کی شاعری اس ’’لطیف جنوں‘‘ سے بالکل خالی ہے جس کے بغیر اب تک غزل نہیں ہو سکی ہے، اس لئے کوئی ان کی تقلید کی طرف مائل نہ ہو سکا۔ بہرحال وہ خود اپنے رنگ کے بڑے قادرالکلام غزل گو ہیں۔ الفاظ اور فقروں کی تکرار سے جس جس طرح انہوں نے اشعار میں لطف اور معنی بڑھائے ہیں، وہ انہیں کا حصہ ہے۔ آزادؔ اپنے رنگ کے اکیلے شاعر ہیں۔ اگر ان کے وہاں کوئی شدت کیف یا کوئی مفکرانہ بصیرت بھی ہوتی تو آج وہ جدید اردو غزل میں ایک موثر قوت ثابت ہوتے مگر شاید ان کا یہ اسلوب کسی قسم کی گہرائی یاشدت کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔
حسرت ؔ اور عزیزؔ کے بعد جس شاعر نے جدید اردو غزل کا رخ متعین کرنے میں سب سے زیادہ حصہ لیا ہے وہ فانیؔ بدایونی ہیں، جو ابھی چند ہفتوں کی بات ہے، زندوں کی محفل میں شریک تھے۔ فانیؔ رسمی طور پر شاید کسی کے شاگر دنہیں ہیں اور ان لوگوں میں سے ہیں جو خود اپنی فطری اپج کو رہبر بناتے ہیں مگر پھر بھی ان کا آہنگ تغزل عزیز لکھنوی کے آہنگ سے ایک حد تک ملتا ہے۔ لیکن فانیؔ کے یہاں جو سوزوگداز ملتا ہے اسے مرثیت سے دور کی بھی نسبت نہیں ہے، جو عزیز کے وہاں ساری فضا پر چھائی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ فانیؔ کی غزلوں میں اداسی ہوتی تو ضرور ہے مگر یہ اداسی گہری اور پرتامل ہوتی ہے۔
غالبؔ کے بعد اگر اقبال سے تھوڑی دیر کے لئے قطع نظر کر لیا جائے تو اردو غزل میں فانیؔ پہلے شاعر ہیں جن کے کلام میں شروع سے آخر تک حکیمانہ بصیرت کا احساس ہوتا ہے۔ ان کے وہاں جذبات و واردات، فکروتامل کے احاطے سے گزر کر ہم تک پہنچتے ہیں اور ان کی دردمندی ہم کو کسی حکیم یا کسی عارف کی دردمندی معلوم ہوتی ہے۔ فانیؔ کے تغزل کو ہم میرؔ اور غالبؔ کا ایک کامیاب امتزاج کہہ سکتے ہیں۔
فانیؔ کا مقابلہ انگریزی کے مشہور یاس انگیز شاعر اے ۔ای ہاؤس مین (AE. House man) سے کیا جا سکتا ہے۔ فانیؔ کی غزلوں میں جو حزن و یاس ہے وہ ایک مابعد الطبعیاتی تصور ہے او ران کی قنوطیت ایک حکیمانہ توازن لئے ہوئے ہے۔ عزیزؔ یا اردو کے کسی دوسرے مشہور یاس انگیز غزل گو سے اگر فانیؔ کا موازنہ کیا جائے تو فانیؔ کے لہجے میں ہم کو ایک مردانہ تحمل اور ایک خوددارانہ بےنیازی کا بھی احساس ہوگا جو دوسروں کے ہاں قریب قریب مفقود ہے۔ فانی کی شاعری میں ادراک وفکر کی جو بلندآہنگی ہے، وہ یقیناً جدید اردو غزل کے لئے ایک نئی وسعت تھی اور ایک خاص عرصے تک اردو غزل کی نئی نسل اس نئی جولان گاہ کا جائزہ لیتی رہی۔
باوجود اس کے کہ فانیؔ ایک مفکر شاعر ہیں۔ دقت نظر اور فلسفیانہ تعمق ان کی شاعری کی عام امتیازی خصوصیت ہے لیکن ان کی زبان اور ان کے اسلوب میں کہیں سے وہ پیچیدگی اور غرابت محسوس نہیں ہوتی جو عموماً ایسی شاعری میں آپ سے آپ پیدا ہو جاتی ہے۔ فانیؔ کی زبان سنجیدہ اور پرتامل ہوتے ہوئے بھی نہایت پاکیزہ اور دل نشیں ہوتی ہے۔ اگر کہیں انہوں نے کچھ اسلوب میں جدتیں بھی پیدا کی ہیں تو ان میں کوئی اجنبیت کا احساس آنے نہیں دیا ہے۔ الفاظ کا انتخاب اور ان کی ترتیب فانی کے وہاں اس قدر خوش آہنگ ہوتی ہے کہ شعر کے معنوی اشارات کی طرف ذہن بعد کو منتقل ہوتا ہے، پہلے اس کا پرسوز ترنم ہی ہم کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔
فانیؔ کی شاعری میں جو سب سے بڑی کمی ہے، وہ یہ ہے کہ ان کے موضوع کا دائرہ تنگ ہے، وہ زندگی کے ہر پہلو پر نظر نہیں ڈالتے، محبت اور موت اور تاریکی کا احساس اس طرح ان کی شاعری کی کائنات پر چھایا ہوا ہے کہ معلوم ہوتا ہے زندگی اس کے سوا کچھ ہے ہی نہیں۔ اس لئے ان کی شاعری میں ایک تھکا دینے والی یکسانیت پیدا ہو گئی ہے۔ فانیؔ کی شاعری کا مجموعی اثر ایک قسم کی غنودگی ہے، مگر یہ غنودگی ہے بڑی بلیغ وپرکیف۔ چند اشعار نمونہ کے طور پر یہاں درج کئے جاتے ہیں۔
ہر شاخ ہر شجر سے نہ تھی آشیاں کو لاگ
ہر شاخ ہر شجر پہ مرا آشیاں نہ تھا
تونے کرم کیا تو بعنوان رنج زیست
غم بھی مجھے دیا تو غم جاوداں نہ تھا
مذاق تلخ پسندی نہ پوچھ اس دل کا
بغیر مرگ جسے زیست کا مزا نہ ملا
وہ نامرادِ اجل بزم یار میں بھی نہیں
یہاں بھی فانیِ آوارہ کا پتہ نہ ملا
وہ ہے مختار سزادے کہ جزا دے فانیؔ
دو گھڑی ہوش میں آنے کے گنہگار ہیں ہم
عجز گناہ کے دم تک ہیں عصمتِ کامل کے جلوے
پستی ہے تو بلندی ہے راز بلندی پستی ہے
آنسو تھے سوخشک ہوئے جی ہے کہ امڈا آتا ہے
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے کھلتی ہے نہ برستی ہے
تجھے خبر ہے ترے تیرِ بے پناہ کی خیر
بہت دنوں سے دل ناتواں نہیں ملتا
اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا
زندگی کا ہے کوہے خواب ہے دیوانے کا
ہر نفس عمر گزشتہ کی ہے میت فانیؔ
زندگی نام ہے مرمر کے جئے جانے کا
ہم ہیں اور عزم آشیاں یعنی
رہ گئی دور طاقتِ پرواز
ہے کہ فانیؔ نہیں ہے کیا کہتے
راز ہے بے نیاز محرمِ راز
ہرمژدۂ نگاہ غلط جلوہ خود فریب
عالم دلیل گمرہی چشم و گوش تھا
کسی کی کشتی تہ گردابِ فنا آ پہنچی
شور لبیک جو فانی لبِ ساحل سے اٹھا
ہم کو مرنا بھی میسر نہیں جینے کے بغیر
موت نے عمرِ دو روزہ کا بہانا چاہا
سکون خاطر بلبل ہے اضطراب بہار
نہ موج بوئے گل اٹھتی نہ آشیاں ہوتا
زندگی خود کیا ہے فانیؔ یہ تو کیا کہئے مگر
موت کہتے ہیں جسے وہ زندگی کا ہوش ہے
نہیں معلوم راہِ شوق میں بھی ہے کوئی منزل
جہاں تھک کر نظر ٹھہرے وہیں معلوم ہوتی ہے
محشر میں صبر دوست سے طالب ہوں داد کا
آیا ہوں اختیار کی تہمت لئے ہوئے
موجوں کی سیاست سے مانوس نہ ہو فانیؔ
گرداب کی ہر تہہ میں ساحل نظر آتا ہے
میں نے فانیؔ ڈوبتے دیکھی ہے نبض کائنات
جب مزاج دوست کچھ برہم نظر آیا مجھے
بہار نذر تغافل ہوئی خزاں ٹھہری
خزاں شہید تبسم ہوئی بہار ہوئی
اسی زمانہ میں اصغرؔ گونڈوی کی شاعری کا شہرہ ہونے لگا اور ایک عرصہ تک اہل ذوق کی زبانوں پر اصغرؔ ہی کا نام رہا۔ اصغر نے اردو شاعری میں ایک بالکل نئی سی چیز چھیڑی جو تھی تو تصوف کے عنوان کی چیز، مگر جس کو روایتی تصوف سے کوئی نسبت نہ تھی۔ اصغرؔ نے انسانی زندگی کے مرکز اور اس کی سطح کو بدل دیا۔ ان کے اشعار پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہماری زمین نے اپنی جگہ چھوڑ دی ہے، اور اب فضائے بسیط میں اڑی چلی جا رہی ہے۔
اصغر ؔنے اردو غزل میں نئی لطافتیں پیدا کیں اور اس میں فکروتامل کے لئے ایک بالکل نئی سمت نکالی، اس کے اسالیب نے بھی اردو غزل میں نئے باب کھولے، وہ ہم کو انگریزی کے مشعور شاعر ور ڈسورتھ کی یاد دلاتے ہیں۔ ان کے کلام میں وہی ماورائی (Transcendent) کیفیت شروع سے آخر تک چھائی ہوئی ملتی ہے جس سے ورڈسورتھ کی شاعری ممتاز ہے۔ ان کی شاعری اردو میں ایک ایسا نیا میلان ہے جو قدیم اور جدید شعراء میں کسی کے وہاں نہیں ملتا۔ قدیم غزل کے اسالیب و صور انہوں نے استعمال ضرور کئے ہیں مگر ان سے انہوں نے بالکل نئے نمونے بنائے ہیں۔
اصغر ؔکے کلام میں انسانی دلچسپیاں سرے مفقود ہیں، انہوں نے انسانی زندگی پر ایک ماورائی نظر ڈالی ہے جس نے اس زندگی کو ایک سماجی چیز بناکر رکھ دیا ہے، انسانی فطرت کا وہ اہم اور ہمہ گیر عنصر جس کو شعور جنسی کہتے ہیں، اصغر ؔکے وہاں نہیں ملتا اور اگر وہاں ملتا ہے تو اپنی اصلیت سے بےگانہ نظر آتا ہے، اس نے ان کی شاعری کو کچھ سونی سی بنا رکھا ہے۔ اصغر ؔکے اشعار پڑھتے وقت ہم ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے ہم پر کوئی تنویم کا عمل کر رہا ہو، ہم پر غشی سی چھا رہی ہو اور ہر ٹھوس چیز ہمارے سامنے سے تحلیل ہوتی جا رہی ہو۔
اصغرؔ کے ساتھ ہی جگرؔ مرادآبادی کی آواز بھی بلند ہوئی اور ہماری غزل کی ساری فضا میں اس طرح گونج اٹھی ہے کہ اب تک اس کی جگہ دوسری آواز لے نہیں سکی ہے۔ جگر کی شخصیت اور ان کی شاعری دونوں مل کر ایک روایت بن گئی ہے اور باوجود اس کے کہ وہ کسی کو اپنا شاگرد نہیں بناتے، اس وقت سارے ہندوستان میں غزل میں نوجوان طبقہ سب سے زیادہ انہیں کا تتبع کرتا نظر آتا ہے۔
جگرؔ کٹر غزل گو شاعر ہیں اور حسن و عشق کے احساس سے علیحدہ ہوکر انہوں نے کبھی کچھ نہیں کہا، ان کے کلام میں بیشتر وہ ربودگی پائی جاتی ہے جس کو تغزل کا اصلی جو ہر بتایا گیا ہے۔ ان کی زبان اور انداز بیان میں جو بےاختیاری ہوتی ہے وہ ان کی اپنی چیز ہے اور اردو غزل میں بالکل نیا عنوان ہے۔ عشقیہ زندگی کے واردات و معاملات کی نزاکتوں کو جدید نفسیات کا لحاظ رکھتے ہوئے بیان کرنے میں وہ اکثر قابل رشک حدتک کامیاب رہتے ہیں۔
لیکن جگرؔ کے وہاں التباسات ہیں کہ ہم غزل کی طرف سے اندیشہ ناک ہو جاتے ہیں۔ ان کی ساری شاعری ہیجان اور عصبی بے اختیاری کی شاعری ہے جس پر والہانہ کیفیت کا دھوکہ ہوتا ہے۔ جگر میں ایک زبردست صلاحیت یہ ہے کہ وہ چند سطحی تاثرات اور ظاہری خصوصیات میں ہم کو مبہوت کر لیتے ہیں۔ گہرائیوں میں جانے سے باز رکھتے ہیں، اسی لئے میں نے ان کو ایک خطرہ بتایا ہے۔ لیکن جو لوگ ٹھہر کر اور اپنے کو روک کر غور کرنے کے خوگر ہیں، وہ محسوس کرتے ہیں کہ جگرؔ کی شاعری ایک ایسا ہیجان ہے جو صرف ہماری جلد میں پیدا ہوتا ہے اور بات کی بات میں ختم ہو جاتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔
بیٹھے ہیں بزم دوست میں گم شدگانِ حسن دوست
عشق ہے اور طلب نہیں نغمہ ہے اور صدا نہیں
وہ لاکھ سامنے ہوں مگر اس کا کیا علاج
دل مانتا نہیں کہ نظر کامیاب ہے
وہ کچھ سہی نہ سہی پھر زاہد ِناداں
بڑو ں بڑوں سے محبت میں کافری نہوئی
صبا یہ ان سے ہمارا پیام کہہ دینا
گئے ہو جب سے یہاں صبح و شام ہی نہوئی
ہم کہیں آتے ہیں واعظ ترے بہکانے میں
اسی مے خانے کی مٹی اسی مے خانے میں
حرم و دیر میں رندوں کا ٹھکانا ہی نہ تھا
وہ تو یہ کہئے اماں مل گئی مے خانے میں
آکہ تجھ بن اس طرح اے دوست گھبراتا ہوں میں
جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں
ان کے بہلائے بھی نہ بہلا دل
رائیگاں سعیٔ التفات گئی
سحر ہونے کو ہے بیدار شبنم ہوتی جاتی ہے
خوشی منجملۂ اسبابِ ماتم ہوتی جاتی ہے
وہ یوں دل سے گزرتے ہیں کہ آہٹ تک نہیں ہوتی
وہ یوں آواز دیتے ہیں کہ پہچانی نہیں جاتی
شکن کاش پڑ جائے اپنی جبیں پر
پشیماں بہت ہیں ستم ڈھانے والے
نظر سے ان کی پہلی ہی نظر یوں مل گئی اپنی
کہ جیسے مدتوں سے تھی کسی سے دوستی اپنی
وہ ان کی بے رخی وہ بے نیازانہ ہنسی اپنی
بھری محفل تھی لیکن بات بگڑی بن گئی اپنی
جنون محبت یہاں تک تو پہنچا
کہ ترکِ محبت کیا چاہتا ہوں
ان لبوں کی جاں نوازی دیکھنا
منھ سے بول اٹھنے کو ہے جام شراب
وہ رندہوں کہ الٹ دی جب آستیں میں نے
دکھا دیے حرم و دیر سب یہیں میں نے
تو بھی اب سامنے آئے تو مٹا دوں تجھ کو
تیری غیرت کی قسم اپنی حمیت کی قسم
ہائے یہ مجبوریاں محرومیاں ناکامیاں
عشق آخر عشق ہے تم کیا کرو ہم کیا کریں
وہ زلفیں دوش پر بکھری ہوئی ہیں
جہان آرزو تھرا رہا ہے
فکر منزل ہے نہ ہوسِ جادۂ منزل مجھے
جا رہا ہوں جس طرف لے جا رہا ہے دل مجھے
عشق کی قسمتِ محروم الٰہی توبہ
یاد جاناں بھی فراموش ہوئی جاتی ہے
اردو غزل میں اس وقت ایسوں کا بھی ایک گروہ نظر آتا ہے جو دراصل نظم نگار ہیں اور نظم کی دنیا میں نمایاں حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔ لیکن جنہوں نے غزلیں بھی کہی ہیں اور غزل گویوں کی محفل میں بھی شریک رہنا چاہتے ہیں، ان میں جوش ملیح آبادی کا نام سب سے پہلے آتا ہے۔
جوشؔ اپنی طبعی مناسبت کے اعتبار سے نظم نگار شاعر ہیں۔ لیکن انہوں نے غزلیں بھی کہی ہیں اور اچھی غزلیں کہی ہیں اگر چہ وہ خود شاید غزل کو اپنے کارنامہ کا کوئی اہم جزو نہیں سمجھتے۔
جدید اردو نظم میں جوشؔ ایک حیثیت کے مالک ہو چکے ہیں، ان کی نظمیں جدید میلانات سے معمور ہوتی ہیں اور عصری تشنجات کی بہت صحیح نمائندگی کرتی ہیں۔ ان کی شاعری کو انقلابی شاعری کہا جا رہا ہے، جو انقلاب اور ترقی کے مطالبات سے بہت اچھی طرح ہم آہنگ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ تواریخ اور انقلاب کے صحیح تصور سے ناآشنا ہیں۔ ان کی آواز شخصی بغاوت کی آواز ہے جس کو انقلاب سے کوئی واسطہ نہیں۔
یہاں ہم کو ان کی نظم نگاری سے بحث نہیں ہے، غزل میں بھی وہ اپنی نئی جولانیاں دکھاتے ہیں اور ان کے اشعار میں یہاں بھی ولولۂ شباب کی تازگی اور بالیدگی محسوس ہوتی ہے، اگرچہ اس میدان میں وہ بھی عشق و حسن کے موضوع سے علیحدہ ہوکر کہتے ہیں۔ کہیں کہیں زندگی اور مسائل کی طرف بھی اشارے ہیں جو سطحی اور مبہم ہیں۔ وہی رندی و سرمستی اور وہی عاشق و معشوق کے واردات و معاملات جو اب تک غزل کے عام موضوع رہے ہیں، عموماً جوشؔ کی غزلوں میں بھی ملیں گے۔ البتہ ان میں جوانی کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن مجموعی اعتبار سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جوش کی غزلوں میں وہ زور و خروش نہیں ملتا جو ان کی نظموں کو اس قدر ممتاز کئے ہوئے ہے۔ چند اشعار پیش کئے جاتے ہیں۔
ارض وسماء کو ساغر و پیمانہ کر دیا
رندوں نے کائنات کو میخانہ کر دیا
کچھ روز تک تو نازشِ فرزانگی رہی
آخر ہجوم عقل نے دیوانہ کر دیا
فراغ روز مسرت کے ڈھونڈنے والے
شبوں کو محرمِ سوز وگداز کرتا جا
آؤ پھر جلوۂ جاناں نہ لٹا دیں کونیں
شغل پارینۂ اربابِ نظر تازہ کریں
ہنوز شہر یاریاں رہین کبروناز ہیں
مآلِ تاج وتخت کی کہانیاں سنائے جا
رخ نگارِ زندگی نقاب درنقاب ہے
نہ ہوگا ختم سلسلہ مگر نقاب اٹھائے جا
فغاں کہ مجھ غریب کو حیات کا یہ حکم ہے
سمجھ ہر ایک راز کو مگر فریب کھا ئے جا
ہاں آسمان اپنی بلندی سے ہوشیار
لے سر اٹھا رہے ہیں کسی آستاں سے ہم
شبابِ رفتہ کے قدم کی چاپ سن رہا ہوں میں
ندیم عہد شوق کی کہانیاں سنائے جا
سمجھے گا اس کا درد کون شورش کائنات
تو نے جسے مٹا دیا پردۂ التفات میں
پتہ منزل کا ہم کو تو ملاجوش
بغاوت کرکے میر کارواں سے
نظم نگار غزل گو شاعر وں میں حفیظؔ جالندھری اور اختر شیرانی بھی قابل لحاظ حیثیت رکھتے ہیں۔ حفیظؔ کو چونکہ موسیقی سے فطری مناسبت ہے اس لئے وہ نظم کہیں یا غزل، ان کے وہاں بہر صورت ایک ہلکے قسم کا تغزل ملےگا جو ہموار ہوگا مگر جس میں تصور سے زیادہ غنا کا عنصر غالب رہےگا۔ حفیظ کا موضوع شاعری، شباب اور عشق کا ایک روحانی تصور ہے جو محدود اور سطحی ہے مگر جس کی دلکشی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی نظمیں اور غزلیں دونوں اس مقام کی چیزیں ہیں، جہاں جوانی دیوانی ہوتی ہے۔ حفیظؔ نے اردو نظم اور اردو غزل دونوں میں جو اسلوبی جدتیں کی ہیں وہ اپنی غنائی کیفیت کی وجہ سے اس قدر دلکش ہیں کہ ان کو قبول کر لینے میں کبھی کسی کو پس وپیش نہ ہوگا۔ ان کے یہ نئے شعریات اردو شاعری میں یقیناً اضافے ہیں۔
اختر شیرانی بھی اسی عنوان کے شاعر ہیں مگر بہ حیثیت فن کار (Artist) کے وہ نہ صرف حفیظؔ جالندھری سے بلکہ اس دبستاں کے اکثر شعراء سے فائق ہیں۔ ان کی جمالیاتی بصیرت یقیناً زیادہ رچی ہوئی ہے اور بڑی نازک بلاغت اپنے اندر رکھتی ہے۔ اخترؔ شیرانی کے وہاں بھی جوانی کے بے اختیار جذبات کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ ان کی نظمیں اور غزلیں بھی ان کے جنون شباب کا راز بری طرح فاش کرتی ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر اپنی جوانی کی رعنائیوں کو خود برداشت نہیں کر سکتا۔ رومانیت اور موسیقیت بھی ان کی شاعری کی نمایاں خصوصیتیں ہیں مگر ان کے وہاں ایک سچے قسم کا گداز، ایک بلند قسم کی المناکی بھی ہوتی ہے جو حفیظؔ کے وہاں نہیں ہے۔ اخترؔ شیرانی کی نظموں اور غزلوں میں کوئی معنوی فرق نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ دونوں کی جان سلمیٰ ہوتی ہے۔ اخترؔ کے اسلوب اور ان کی زبان میں جدت اور بے ساختہ پن کے باوجود پختگی ہوتی ہے جو ان کے اشعار کی دلکشی کو بڑھا دیتی ہے۔
علی اختر اخترؔ ایک ایسے شاعر ہیں جن کے کلام میں ہم کو ایک نئے انداز کا فلسفیانہ تعمق ملتا ہے اور ان کی شاعری تاملات (Meditations) کے لئے بنی ہے۔ وہ بھی نظمیں اور غزلیں دونوں کہتے ہیں۔ ہر چند کہ کے بصائر اور تاملات غزل میں بیان کئے جاتے ہیں لیکن اختر نظموں میں زیادہ اپنی شخصیت شعری کو ظاہر کر سکتے ہیں۔ غزلوں میں وہ کچھ بند ہونے لگتے ہیں اور کمزور پڑنے لگتے ہیں۔
آنند نرائن ملا نظم اور غزل دونوں میں ایک کامیاب معیار قائم کئے ہوئے ہیں۔ جذبات کا توازن اور زبان کی سنجیدگی اور سلاست ان کی وہ نمایاں خصوصیتیں ہیں جو کبھی کبھی چکبست کی یاد تازہ کردیتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ان میں ایک نہایت صالح اور پاکیزہ قسم کا ذوق تغزل پایا جاتا ہے جو ان کی نظموں کی بھی جان ہوتا ہے۔ موضوع اور اسلوب دونوں کے اعتبار سے وہ ان نظم نگار، غزل گو شاعروں سے بالکل الگ ہیں جن کا ذکر میں نے ابھی کیا ہے۔
افسرؔ میرٹھی ان لوگوں میں سے ہیں جو اردو غزل اور جدید اردو نظم دونوں میں ایک تاریخی اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے ہماری شاعری میں نئے امکانات پیدا کئے ہیں اور اس کے لئے بہت سی آزادیاں مہیا کی ہیں، نئی تحریک کو فروغ دینے میں ان کی شاعری کا بہت بڑا حصہ ہے لیکن بجائے خود وہ کسی شدید کیف یا شدید قوت کے مالک نہیں۔ افسرؔ کی اہمیت بھی اسلوبی اجتہاد پر مبنی ہے۔
روشؔ اور احسانؔ دانش کے متعلق میرا خیال ہے کہ یہ لوگ خاص نظم نگار شاعر ہیں اور غزلیں کہہ کر اپنی قوت کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ ان لوگوں کو غزل کے میدان میں آنا ہی نہ چاہئے۔
میں نے قصداً اب تک دو نہایت اہم غزل گو شاعروں کا ذکر روک رکھا تھا اس لئے کہ انہیں پر میں اپنا یہ تذکرہ ختم کرنا چاہتا تھا۔ میری مراد مرزا یاس ؔیگانہ اور فراق ؔگورکھپوری ہے۔ دونوں نے اردو غزل میں نئی بصیرتیں پیدا کی ہیں اور مزید نئی بصیرتوں کے امکانات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں، دونوں جدید دور کے جدید نفسیات کے شاعر ہیں۔
یاسؔ اردو غزل میں پہلے شخص ہیں جن کی شاعری میں وہ کس بل محسوس ہوتا ہے جس کو ہم صحیح اور توانا زندگی سے منسوب کرتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی میں کسی موقع پر کہہ چکا ہوں کہ یاسؔ پہلے شاعر ہیں جو ہم کو زندگی کا جبروتی رخ دکھا دیتے ہیں اور ہمارے اندر سعی و پیکار کا ولولہ پیدا کرتے ہیں۔ غزل کو جواب تک حسن وعشق کی شاعری کہی جاتی رہی ہے، یاسؔ نے زندگی کی شاعری بنایا اور انسان اور کائنات کی ہستی کے رموز واشارات کو اپنی غزلوں کا موضوع قرار دیا۔ میرے کہنے کا یہ مقصد نہیں کہ ان کے وہاں حسن وعشق سے متعلق اشعار نہیں ملتے۔ ملتے ہیں، مگر ان میں بھی حسن وعشق کا احساس اور عالمگیر زندگی کے احساس میں سمویا اور کھویا ہوا ہوتا ہے۔ یاسؔ اس کشاکش اور تصادم کا احساس ہمارے اندر بڑی سہولت اور کامیابی کے ساتھ پیدا کرتے ہیں جو زندگی کا اصل راز ہے اور جس کا احساس عصر جدید کا سب سے بڑا اکتساب ہے۔ مگر یاسؔ اس احساس سے ہم کو سراسمیہ نہیں کرتے۔ ان کی غزلوں کی سب سے نمایاں خصوصیت مردانہ عزم و اعتماد ہے۔
یاسؔ، آتشؔ وغالبؔ کا ایک نہایت صحت بخش امتزاج ہیں۔ ان کے کام میں گمبھیر قسم کی مردانگی ہے۔ وہ آتشؔ کی یاد دلاتی ہے اور مفکرانہ بلاغت اور عارفانہ آگاہی ہے۔ وہ غالبؔ کے رنگ کی چیز ہے۔ مگر یاسؔ مقلد کسی کے نہیں ہیں، انہوں نے غزل میں واقعی بت شکنی کی ہے اور روایتی موضوعات اور اسالیب دونوں سے انحراف کرکے ہم کو غزل کی امکانی وسعتوں سے آگاہ کر دیا ہے۔ پھر چونکہ یاسؔ نے اپنے ہم عصر اور ہم چشم شعراء کی طرح زبان کو کبھی توڑا مروڑا نہیں بلکہ ایک واقف کارانہ اعتماد اور ایک ماہرانہ وثوق کے کے ساتھ قاعدے اور ضابطے کے ساتھ اجتہادات کئے، اس لئے کٹر سے کٹر زبان کا نقاد بھی ان کے اکتسابات کو بدعت نہ کہہ سکا اور اسالیب اور موضوعات دونوں میں ان کے اجتہادات تسلیم کر لئے گئے۔ یاسؔ کے وہاں ماضی کے بہترین عناصر پائے جاتے ہیں مگر وہ ان سے مستقبل کی تعمیر کام لے رہے ہیں۔
یاسؔ ان لوگوں میں سے ہیں جن کے کلام کی رہنمائی میں غزل کی ایک بالکل نئی نسل پیدا ہو سکتی ہے جو اس قابل ہوکہ زندگی کے نئے میلانات اور نئے مطالبات سے عہدہ بر آ ہو سکے۔ لیکن ہم کو یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ یاسؔ کا کلام اب منطر عام پر بہت کم آتا ہے۔ معلوم نہیں کہتے ہی کم ہیں یا کہتے ہیں اور اشاعت سے روکے رہتے ہیں، وجہ جو کچھ بھی ہو مگر یہ بات ہے قابل افسوس۔
آخر میں ایک بات کو واضح کر دینا چاہتا ہوں۔ یاس کی غزلوں میں زندگی کی جو قوت ہم کو ملتی ہے اور جدوجہد کا احساس ہمارے اندر جو پیدا کرتے ہیں، اس کو ان کے ذاتی مزاج کے اس عنصر سے زیادہ تعلق نہیں ہے جو ایک عرصہ تک ان کے چنگیزی معرکوں میں ظاہر ہوتا رہا ہے۔ بلکہ جب کبھی اور جہاں کہیں شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ چنگیزی عنصر ان کی شاعری میں داخل ہو گیا ہے تو بجائے قوت و جبروت کے خشونت اور کرختگی کا احساس پیدا کر دیا ہے۔ یاسؔ کیا ہیں اور ان کے اشعار کا کیا اثر ہوتا ہے؟ اس کا ندازہ ان چند اشعار سے کیجئے۔
رفتار زندگی میں سکوں آئے کیا مجال
طوفان ٹھہر بھی جائے تو دریا بہا کرے
خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا
خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا
سمجھے کیا تھے مگر سنتے تھے ترانۂ درد
سمجھ میں آنے لگا جب تو پھر سنا نہ گیا
اسی فریب نے مارا کہ کل ہے کتنی دور
اس آج کل میں عبث دن گنوائے ہیں کیا کیا
پہاڑ کاٹنے والے زمیں سے ہار گئے
اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا
بلند ہو تو کھلے تجھ پہ راز ہستی کا
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
آندھیاں رکیں کیونکر زلزلے تھمیں کیوں کر
کارگاہِ فطرت میں پاسبانی رب کیا ہے
بہار زندگی ناداں بہارِ جاوداں کیوں ہو
یہ دنیا ہے تو ہر کروٹ وہی آرامِ جاں کیوں ہو
مری بہار وخزاں جس کے اختیار میں ہے
مزاج اس دل بے اختیار کا نہ ملا
امیدوار رہائی قفس بدوش چلے
جہاں اشارۂ توفیقِ غائبانہ ملا
ہزار ہاتھ اسی جانب ہے منزل مقصود
دلیلِ راہ کا غم کیا ملاملا نہ ملا
امیدوبیم نے مارا ہمیں دوراہے پر
کہاں کے دیر و حرم گھر کا راستہ نہ ملا
زمانے کی ہوا بدلی نگاہِ آشنا بدلی
اٹھے محفل سے سب بیگانۂ شمع و سحر ہوکر
کارگاہِ دنیا کی نیستی بھی ہستی ہے
اک طرف اجڑتی ہے ایک سمت بستی ہے
ہمیشہ مننظرِ انقلاب رہتے ہیں
مزا ج داں ہیں جو ہنگامہ زار فطرت کے
برا ہو، پائے سرکش کا کہ تھک جانا نہیں آتا
کبھی گمراہ ہوکر راہ پر آنا نہیں آتا
دھواں سا جب نظر آیا سوادِ منزل کا
نگاہِ شوق سے آگے تھا کارواں دل کا
ازل سے اپنا سفینہ رواں ہے دھارے پر
ہوا ہنوز نہ گرداب کا نہ ساحل کا
جرس نے مژدۂ منزل سنا کے چونکایا
نکل چلا تھا دبے پاؤں کا رواں اپنا
وبالِ رنگ و بو سے چھوٹتے ہی پَر نکالیں گے
گراں بار بہار آخر سبک دوشِ خزاں ہوکر
ارے او جلنے والے کاش جلنا ہی تجھے آتا
یہ جلنا کوئی جلنا ہے کہ رہ جانا دھواں ہوکر
موت مانگی تھی خدائی تو نہیں مانگی تھی
لے دعا کر چکے اب ترکِ دعا کرتے ہیں
موجِ ہوا سے خاک اگر آشنا نہ ہو
دنیائے گرد وباد کی نشو ونما ہو
ایسا رونا بھی کوئی رونا ہے
آستیں آنسوؤں سے تر نہ ہوئی
اسیروں کی یہ خاموشی کسی دن رنگ لائےگی
قفس سے چھوٹ کر سرپر اٹھا لیں گے گلستاں کو
پلٹتی ہے بہت یاد وطن جب دامن دل سے
پلٹ کر اک سلامِ شو ق کر لیتا ہوں منزل سے
یاسؔ کی شاعری ہمارے اندر یہ احساس پیدا کرتی ہے کہ زندگی ایک جدلیاتی حقیقت ہے اور تصادم اور پیکار اس کی نمو اور بالیدگی کے لئے ضروری ہے۔
فراقؔ کی شاعری کا عنوان بدلا ہوا ہے۔ زندگی کے نئے میلانات نے ہماری نفسیات میں جو اہم پیچیدگیاں پیدا کی ہیں اور زندگی کی جو جدلیاتی لہریں ہمارے اندر ابھر رہی ہیں ان کو بلیغ اور سنجیدہ اشاروں میں ہم تک پہنچا دینا فراقؔ کی ایک بہت عام خصوصیت ہے، جو معنوی تہیں ہم کو فراقؔ کی غزلوں میں ملتی ہیں، وہ عموماً دوسرے اردو شاعروں کے وہاں نہیں ملتیں، کبھی کبھی تو ان کے دو مصرعوں میں اتنی تہہ در تہہ گہرائیاں ہوتی ہیں کہ معنی یاب سے معنی یاب طبیعت اندیشہ ناک ہونے لگتی ہے کہ تھاہ کہیں ملے گی بھی یا نہیں۔
فراقؔ کی شاعری میں حیات و کائنات کے ساتھ ایک شدید اور گہری یگانگت کا احساس پایا جاتا ہے۔ ان کی غزلوں میں زندگی اور عشق دونوں ایک آہنگ ہوکر ظاہر ہوتے ہیں اور ایک متبرک اور قابل احترام حقیقت بن جاتے ہیں۔ فراقؔ کے وہاں ہجر اور محرومی اور تنہائی کا شدید احساس ملےگا۔ لیکن اس سے ہمارے اندر تلخی نہیں پیدا نہیں ہوتی اور نہ ہم محبت اور زندگی سے بیزار ہوتے ہیں۔ ان کے اشعار سے یہ احساس ہوتا ہے کہ زندگی ایک قابل قدر چیز ہے اور اس کی ناکامی بھی اس کی قدر کا ایک اہم اور لازمی جزو ہے۔
فراقؔ بھی ہمارے اندر زندگی کی جدلیت کا تیز شعور پیدا کرتے ہیں لیکن وہ یاس کی طرح زندگی کا صرف جبروتی رخ نہیں پیش کرتے۔ وہ حسن اور قوت کو ایک مزاج بنا دیتے ہیں، اسی لئے ان کی شاعری میں ہم کو وہ نرمیاں ملتی ہیں جو یاسؔ کے وہاں نہیں ہیں اور جو قوت کے انتہائی احساس کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ فراق کی شاعری میں ایک عنصر ہم کو ایسا ملتا ہے جو بیک وقت ذاتی اور غیر ذاتی ہوتا ہے اور ہم کو غم اور خوشی اور اس قسم کے دوسرے نجی احساسات کی سطح سے ابھارکر ہماری فکرونظر کو بلند واہمہ گیر بنا دیتا ہے۔ اس خصوصیت کے اعتبار سے وہ اپنے ہم عصر شعراء سے بہت ممتاز نظر آتے ہیں۔ وہ جب کسی لمحہ یا کسی موقع یا کسی حالت سے متاثر ہوتے ہیں تو وہ تاثر ایک آفاقی تاثر اور ایک کائناتی احساس بن جاتا ہے، اس سے ان کی شاعری میں ایک مسکن اور ہمت بخش قوت آ گئی ہے جو اس وقت کسی دوسرے غزل گو کے وہاں نہیں ملتی۔
فراقؔ کے اسلوب میں بھی ایک ایسی پختہ گھلاوٹ ہے جو بالکل ان کی اپنی چیز ہے اور جو ان کے کسی معاصر کے کلام میں نہیں ہے۔ ان کے اشعار کی ایک سب سے زیادہ نمایاں خصوصیت ان کا آہنگ (Rhythm) ہے جو شاعر کی خصوصیت شعری کا آئینہ ہے اور یہ آہنگ محض صوتی نہیں ہوتا بلکہ شعر کے معنی سے ہی پیدا ہوتا ہے اور پھر معنی ہی کا جزو بن کر اس کی بلاغت کو بڑھا دیتا ہے۔
فراقؔ سے ہم کو صرف ایک بات کہنا ہے، وہ یہ کہ غزل میں اتنے اشعار نہ کہا کریں جتنے کہ وہ اکثر کہہ جاتے ہیں۔ غزل یوں بھی طویل اچھی نہیں ہوتی۔ پھر ان کی شاعری جس عنوان اور جس نوعیت کی ہوتی ہے، اس کا اور بھی مطالبہ ہے کہ وہ غزل میں شعروں کی تعداد اتنی نہ رکھا کریں۔ اب فراقؔ کے کچھ اشعار پیش کئے جا رہے ہیں۔
حیات ہوکہ اجل سب سے کام لے غافل
کہ مختصر بھی ہےکار جہاں دراز بھی ہے
کچھ گراں ہو چلا ہے بارِ نشاط
آج دکھتے ہیں حسن کے شانے
اسی دل کی قسمت میں تنہائیاں تھیں
کبھی جس نے اپنا پرایا نہ جانا
اس سے زیادہ اور کیا اب کوئی نامراد ہو
آج نظر سے گر چلیں عشق کی کام رانیاں
ابھی فطرت سے ہوتا ہے نمایاں شان انسانی
ابھی ہر چیز میں محسوس ہوتی ہے کمی اپنی
قفس سے چھٹ کے وطن کا سراغ بھی نہ ملا
ورہ نگ لالۂ وگل تھا کہ باغ بھی نہ ملا
ہجر میں پچھلے پہر کا عالم
تاروں کو نیند آئی ہوئی سی
ہم سے کیا ہو سکا محبت میں
تونے تو خیر بے وفائی کی
رفتہ رفتہ عشق مانوس جہاں ہونے لگا
خود کو تیرے ہجر میں تنہا سمجھ بیٹھے تھے ہم
رموز عذر جفا تک خیال جا نہ سکا
میں چپ رہا تو برا ماننے کی بات نہیں
فراقؔ زیر چرخ کچھ چمک بھی ہے دھواں بھی ہے
کہ جیسے اٹھ رہی ہو وہ نگاہِ سرمگیں کہیں
نگاہِ یار کچھ ایسی پھری ہجراں نصیبوں سے
کہ اب تو جس کا جی چاہے وہی غم خوار ہو جائے
تیری رنگینی ِ طبیعت سے
عشق کی سادگی بھی دور نہیں
تجھے دنیا کو سمجھنے کی ہوس ہے اے کاش
تجھے دنیا کو بدل دینے کا ارماں ہوتا
ترے جمال کی تنہائیوں کا دھیان نہ تھا
میں سوچتا تھا کوئی میری غمگسار نہیں
سنگ و آہن بے نیاز غم نہیں
دیکھ ہر دیوار ودر سے سر نہ مار
یہ کیا دنیا ہے اے دل شیخ کوئی برہمن کوئی
بتاتا ہی نہیں اہل محبت کا وطن کوئی
دیار عشق آیا کفر و ایماں کی حدیں چھوٹیں
یہیں سے اور پیدا کر خداوا ہرمن گوئی
اے رازِ جہاں بتانے والے
اک اور جہان راز بھی ہے
جولاں گہ حیات کہیں ختم ہی نہیں
منزل نہ کر حدود سے دنیا بنی نہیں
شامِ غم کچھ اس نگاہ ناز کی باتیں کرو
بیخودی بڑھتی چلی ہے راز کی باتیں کرو
کچھ قفس کی تیلیوں سے چھن رہا ہے نورسا
کچھ فضا کچھ حسرتِ پرواز کی باتیں کرو
ہزار بار ادھر سے زمانہ گزرا ہے
نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہ گزر پھر بھی
غرض کہ کاٹ دئے زندگی کے دن اے دوست
وہ تیری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں
ان اشعار میں جو لطیف اور دور رس فرزانگی ہے، وہ ہم کو شاذ و نادر ہی کسی دسرے شاعر کے وہاں مل سکتی ہے۔ فراقؔ کے اکثر اشعار پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے پاؤں زمیں پر جمے ہوئے ہیں اور ہمارے ہاتھ ستاروں تک پہنچے ہیں۔
یہ ہے ہماری موجودہ غزل گوئی کا اکتساب۔ گنتی کے دو ایک شاعر اور بعض شعرا کے کچھ اشعار سے قطع نظر کر لیں تو ماننا پڑتا ہے کہ اردو غزل ابھی اسی خواب و خیال کی دنیا کا جائزہ لینے میں لگی ہوئی ہے، جہاں پہلے اس کو ڈالا گیا تھا اور بہ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غزل کے آئندہ امکانات بالکل رکے ہوئے ہیں لیکن نہ ایسا ہے اور نہ ہونا چاہئے۔
اگر نظم میں اس کی صلاحیت ہے کہ وہ زندگی کی نئی سمتوں سے آشنا اور اس کے نئے میلانات اور نئی قدروں سے ہم آہنگ ہو سکے تو کوئی وجہ نہیں کہ غزل بدلتی ہوئی دنیا کے بدلتے ہوئے معیاروں اور نئی قدروں کے ساتھ موانست نہ پیدا کر سکے، اگر اجتماعی اور آفاقی زندگی کی وسعت اور انسانیت کی ہمہ گیری نظم کے لیے کوئی اجنبی چیز نہیں ہے تو غزل کے لئے بھی نہ ہونا چاہئے۔ غزل کا ہر شعر اپنی جگہ ایک چھوٹی سی چھوٹی نظم ہوتا اور سالماتی (Atomic) توانائی اپنے اندر رکھتا ہے جو بڑے کام کی چیز ہے اور جس سے بڑا کام لیا جا سکتا ہے۔
ہم نے ابھی غزل کے ان امکانات کی طرف توجہ نہیں کی ہے جن کی ایک جھلک اقبالؔ ہم کو دکھا گئے ہیں۔ اقبال کی غزلیں بھی اسی قدر میلاناتی (Tendentious) ہیں جس قدر کہ ان کی نظمیں اور ان میں بھی حیات انسانی کے متنوع پہلو اور کائنات کے مختلف زاویے ہم کو اسی طرح نظر آتے ہیں جس طرح کہ ان کی نظموں میں۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متعلق جو حکیمانہ اور مبصرانہ میلانات اقبال کی غزلوں میں ملتے ہیں و ہمارا دل بڑھانے اور ہم کو نئے اجتہادات پر آمادہ کرنے کے لئے کافی ہیں۔ میری مراد اقبال ؔ کے صرف ان اشعار سے ہے جن کو خدا اور مذہب اور نظام ملی سے تعلق نہیں ہے۔
اقبالؔ کی غزلوں کو اگر ہم دھیان میں رکھیں اور یاسؔ اور فراقؔ کے کلام سے صحیح بصیرتیں حاصل کرتے رہیں تو ہمارے درمیان ایسے غزل گویوں کا پیدا ہونا ناممکن نہیں جو غزل کو زندگی کی نئی سمتوں اور نئی پیچیدگیوں سے مانوس کرکے نئے راستہ پر لگا دیں اور اس کو موجود ہ جمود اور نیستی سے بچا لیں۔ غزل کو اگر زندہ رہنا ہے تو یقیناً اجتہاد سے کام لینا پڑےگا اور روز بروز بدلتی اور پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتی ہوئی دنیا کی باہم متضاد ضرورتوں پر محیط ہوکر ان میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہوگا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.