کہتے ہیں نزلہ عضو ضعیف پر گرتا ہے لیکن اردو شاعری کی پچھلی سو سالہ تاریخ میں عضو رئیس پر گرا ہے یعنی غزل پر۔ غدر کے ہنگامے میں انگریزوں سے مار کھانے کے بعد روشن خیال مسلمانوں کو اپنی جو چیز سب سے بری لگی وہ یہی بدنام صنف سخن تھی۔ روشن خیال مسلمانوں سے میری مرادان بزرگوں سے ہے جنہیں آگے چل کر اس بات پر شرم آنے لگی کہ ان کے مذہب نے چار شادیوں کی اجازت کیوں دی ہے۔ ان میں محمد حسن عسکری صاحب کے مفلر والے مولانا حالی پیش پیش تھے۔
معاف کیجیےگا، مولانا حالی کی قدرومنزلت میرے دل میں آپ سے کچھ کم نہیں ہے۔ آخر مولانا کی تجزیے کی ذمہ داری اتنی بڑی ہے کہ خود مولانا حالی اپنی شرافت اور وضع داری کے باوجود اپنے سے پہلوں کے جبے قبے اتارتے ذرانہ جھجکے۔ ہمیں بھی یہ ذمہ داری پوری کرنی ہے۔ اس لیے خود مولانا کی عظمت کا حقیقی تقاضا ہے کہ ہم ان کی شیروانی کے بٹن کھلوانے میں بالکل نہ شرمائیں۔ یہی ان کی سچی پیروی ہوگی۔
غزل سے مولانا حالی کی بیزاری کی بات چھڑی ہے تو یہاں ایک بات صاف ہو جانی چاہیے۔ مولانا حالی غزل سے بیزار تھے لیکن ان کی بیزاری کی وجہ غزل کی ناقص ہیئت نہیں تھی، جس پر ہمارے کلیم الدین صاحب تاؤ کھاکر بیٹھے ہیں۔ انہیں غزل پر یہ اعتراض بھی نہیں تھاکہ اس میں جذبے اور خیال کے بجائے الفاظ شاعر کی راہ نمائی کرتے ہیں۔ یہ اعتراض جیسا کچھ بھی ہے، جناب جوش کا ہے۔ اسی طرح انہیں عظمت اللہ خاں کی طرح غزل میں ’’واقعیت‘‘ کے فقدان کی شکایت بھی نہیں ہے جو بقول خاں صاحب کے سچی شاعری کی جان ہے اور انہوں نے اپنی کھٹی میٹھی نظموں میں پیدا کر کے دکھائی ہے۔ یہ اعتراض غلط ہوں یاصحیح، وقیع ہوں یا غیروقیع، ہمیں ان سے غرض نہیں۔ بہر حال یہ مولانا حالی کے اعتراضات نہیں ہیں۔ ورنہ مولانا خود ’نئی غزل ‘کی طرح اندازی نہ کرتے۔ دراصل مولانا حالی کو غزل پر ویساہی اعتراض تھا جیسا مسلمانوں کو’رنڈی بازی ‘پر۔ ان کے نزدیک یہ صرف ایک عیاشی تھی اور عیاشی کے معنی مولانا کی لغت میں ہر اس کام کے تھے جس سے قوم کا بھلا نہ ہو۔
ان معنوں میں غزل چھوڑ پوری شاعری ہی عیاشی بن جاتی ہے۔ چنانچہ مولانا نے ’’مقدمۂ شعر و شاعری‘‘ میں صرف غزل ہی کو برا بھلا نہیں کہا، بلکہ شاعری کی جملہ اصناف کودھر گھسیٹا اور صاف صاف لکھ دیاکہ یہ بالکل خرافات چیزیں ہیں، اگر قومی خدمت کے کام نہ آئیں۔ البتہ غزل پر زیادہ زور اس لیے صرف کیا کہ اس کٹر قسم کی عیاش صنف میں بگڑنے کے لچھن سب سے زیادہ تھے اور داغ کی صحبت میں تو یہ بالکل کوٹھے سے اترنا ہی بھول گئی تھی۔ اس طرح نئی غزل کی بنیاد واردات حسن و عشق کی ’’عیاشی‘‘ کے بجائے قومی خدمت کے اصول پر رکھی گئی اور مولانا حالی کاہدایت نامہ یوں جاری ہوا، کچھ کر لو نوجوانو! اٹھتی جوانیاں ہیں۔
یہاں ’’کچھ‘‘ سے مولانا حالی کی مراد سر سید کے منصوبے سے تھی۔ جس کا بنیادی مقصد تھا انگریزی پڑھنا اور انگریزوں کے دفتروں میں نوکری کرنا۔ لیکن جن نوجوانوں کی اٹھتی جوانیوں سے یہ خطاب کیا گیا تھا، ان کے مسائل کیا تھے، اور مولانا حالی کے پیغام کا ان پر کیا اثر پڑا؟
ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ میں یہ مضمون ۱۹۶۰ میں لکھ رہا ہوں اور اپنے تخیل پر ہرگز اتنا اعتماد نہیں کر سکتا کہ اس زمانے کے نوجوانوں کی حقیقی ترجمانی کادعویٰ کر سکوں۔ البتہ شیخ سعدی کے ’’درایام جوانی چناں کہ افتددانی‘‘ والے قول سے ذراہمت بندھتی ہے۔ نوجوان تو ہر زمانے کے ایک سے ہوتے ہیں، اور ان کی اٹھتی جوانی کا پہلامسئلہ بھی وہی ہوتا ہے جو ان میں سے کچھ کو کوٹھے کی طرف لے جاتا ہے اور کچھ کو حوالات کی طرف۔ ان میں جو باقی بچتے ہیں وہ اگر پاگل خانے جانا نہیں چاہتے توجلدی سے شادی کر لیتے ہیں۔ اس زمانے میں نوجوانوں کا ایک اور طبقہ پیدا ہوا ہے جس نے اپنا راستہ ان سب سے الگ نکالا ہے لیکن میں اس کا ذکر نہیں کروں گا ورنہ بہت سے سی ایس پی افسران برا مانیں گے۔
داغ اپنے زمانے کے ان نوجوانوں کے ترجمان تھے جو اپنے اولین مسئلے کا حل کو ٹھے پر ڈھونڈ تے ہیں۔ داغ کی غزل نے انہیں یہ بتایا کہ اس کام کے بھی کچھ آداب ہیں اور ذرا سلیقے سے کام لیا جائے تو مزہ بھی بہت آتا ہے۔ یعنی انہوں نے کوٹھے والے گھٹیا کام کو بھی تھوڑا بہت مہذب بنانے کی کوشش کی۔ میں نے بمبئی تو نہیں دیکھا مگر دروغ برگردن راوی، عزیر ہاشمی سے اردو کے مقتدر ادیب اور نقاد مجتبیٰ حسین صاحب کی یہ روایت ضرور سنی ہے کہ وہاں باقاعدہ کیوں لگتا ہے اور آواز پڑتی ہے کہ ’’آتے جاؤ۔ دو دو روپیہ۔‘‘ بیسویں صدی کے اس شہری پس منظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو داغ کا کوٹھا باقاعدہ ایک تہذیبی ادارہ معلوم ہونے لگتا ہے۔ لیکن شاید میں اپنے موضوع سے بہک چلا۔
بات دراصل یہ دیکھنی تھی کہ مولانا حالی کی نئی غزل نوجوانوں کو کیا سکھاتی ہے؟ نقاد کہتے ہیں، ’’حالی نے ہمیں نیا سیاسی شعور دیا۔ نئے زمانے اور نئے ماحول کے تقاضوں اور ضرورتوں سے آگاہ کیا۔ ایک نئے ذوق شعری کی پرورش کی۔ انسانیت اور ہم دردی کے ایک نئے احساس۔۔۔‘‘ یہ اور اس قسم کی بہت سی باتیں میں اکثر رسالوں اور کتابوں میں پڑھتا رہا ہوں۔ نیا سیاسی شعور، نیازمانہ، نئے ماحول کے تقاضے اور نیاذوق شعری وغیرہ سب درست۔ لیکن ان جوابوں کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ حالی صاحب کی نئی غزل میں جنسی جذبے کی تہذیب کا کیا مقام ہے؟
ہمیں افسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ مولانا کی نئی غزل ہمیں اپنے نوجوانوں کے جنسی مسائل کے بارے میں کچھ نہیں بتاتی۔ ممکن ہے اس زمانے کے نوجوانوں کے کوئی ایسے مسائل ہی نہ ہوں اور انہیں صرف پتلون پہننے کا شوق ہو۔ لیکن اس وقت کے ایک نوجوان سے میری ملاقات خاصی گاڑھی ہے جن کے ذریعے ہمیں بہت کچھ معلوم ہو سکتا ہے۔ میری مراد حسرت صاحب سے ہے (چراغ حسن حسرت نہیں، حسرت موہانی) مولاناکا پیغام ’’کچھ کرلو نوجوانو! اٹھتی جوانیاں ہیں‘‘ ابھی فضامیں گونج رہا تھا، جب حسرت موہانی نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز کیا۔ مولانا حالی کی عمر اس وقت ۶۶، ۶۵ سال کی تھی اور حسرت صاحب ۲۸، ۲۷ سال کے تھے۔ ان کی اٹھتی جوانی نہ سہی، چڑھتی جوانی ضرور تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے حالی کے پیرومرشد سر سید احمد خان کے خوابوں کے مطابق علی گڑھ سے ابھی تازہ تازہ بی اے کی ڈگری بھی لی تھی۔ اس طرح یہ نوجوان حالی کا پیغام قبول کرنے کے لیے ایک آئیڈیل ہستی تھا۔ ہمیں حسرت سے بڑی امید بندھتی ہے۔ جب ہم ان خصوصیات کے ساتھ یہ بھی دیکھتے ہیں کہ ان کی جوانی، حالی کے بڑھاپے کی طرح، داغ کے کوٹھے کی چٹکیوں، سسکیوں اور نوچا کھسوٹیوں سے بیزار بھی ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حضرت جاتے کدھر ہیں؟ داغ کے کوٹھے سے بیزاری کے باوجود کوٹھے پر یا پھر مولانا حالی کی ہدایت کے مطابق سرکاری دفتر میں۔
حسرت نے داغ اور حالی دونوں سے اپنا راستہ الگ نکالا۔ داغ کا کوٹھے والا محبوب حسرت کے گون کا نہیں تھا۔ اس میں شوخی اور طراری تو تھی مگر گھٹیا قسم کی۔ حسرت اپنے محبوب میں شوخی اور طراری کے ساتھ معصومیت بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی طبیعت بھی ایسی تھی کہ وہ داغ کی طرح ایک رات کا سودا کرنا نہیں چاہتے تھے، انہیں تو عمر بھر کا سودا چاہیے تھا۔ ظاہر ہے کہ داغ کے کوٹھے والے محبوب نے ان سے افسوس کے ساتھ معذرت چاہی ہوگی۔ کیوں کہ اصلاح طوائفاں کی تحریک ابھی شروع نہیں ہوئی تھی اور قاضی عبدالغفار کی لیلیٰ کے پیداہونے میں ایک نسل کی دیر تھی۔
حسرت ادھر سے مایوس ہوئے ہوں گے تو مولانا حالی کو یہ امید بندھی ہوگی کہ اب یہ نوجوان ضرور سرکاری دفتر پہنچےگا اور قومی خدمت کرےگا۔ حسرت یہاں بھی کنی کاٹ گئے۔ انہوں نے قومی خدمت ضرور کی مگر سرکاری دفتر میں رہ کر نہیں بلکہ سرکاری دفتروں کے خلاف آواز بلند کرکے۔ تاریخ کے کھیل بھی عجیب ہیں۔ حالی کے پیرومرشد سرسید نے انگریزوں کے لیے کلرک ڈھالنے کی فیکٹری بنائی تھی۔ مگر تاریخ کے پراسرار ناقابل فہم تقاضوں نے وہاں چوری چھپے کلرکوں کے بجائے باغی ڈھالنے کا کام شروع کر دیا تھا۔ باغیوں کی یہ پہلی کھیپ حسرت کے ساتھ علی گڑھ سے باہر نکلی۔ مولانا حالی نے سرسید کے ساتھ ادبی محاذ پر غزل اور سیاسی محاذ پر قومی خدمت کے لیے جو ہدایت نامہ تیار کیا تھا، حسرت اور ان کے ساتھیوں کے لیے وہ صرف ہنسنے مسکرانے کی چیز تھی۔ مگر ہمیں یہاں صرف غزل سے واسطہ ہے، سیاسی محاذ کاروزنامچہ ترقی پسندوں کو لکھنے دیجیے۔
غزل کے متعلق حالی کا ہدایت نامہ کیا تھا اور کس بنیادی اصول کے تحت مرتب کیا گیا تھا؟ حالی کہتے تھے، غزل اب تک عشقیہ جذبات کی ترجمانی کرتی رہی ہے۔ خیر پہلے تو خوش حالی کازمانہ تھا۔ لوگ وقت گزاری کے لیے جہاں بٹیر لڑاتے تھے، وہاں عشق بھی کر لیتے تھے۔ خوش حالی میں یہ چونچلے زیادہ برے بھی نہیں لگتے۔ مگر اب زمانہ پہلے سے بدل چکاہے۔ قوم تباہی اور بدحالی کا شکار ہے۔ ایسی حالت میں بٹیر لڑانا اور عشق کرنا دونوں پر لے درجے کی غفلت اور بےحسی کا مظہر ہیں۔ اس لیے ہمیں فی الفور دونوں سے توبہ کرنی چاہیے۔ بات بہت معقول تھی۔ حالی نے اس معقول بات کو غزل پر منطبق کیا تو نتیجہ یہ نکلاکہ غزل میں عشقیہ جذبات کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ چنانچہ نئی غزل کا پہلا اصول یہ مرتب ہوا کہ اسے عشقیہ نہیں ہونا چاہیے۔ نئی غزل کو کیا ہونا چاہیے، اس سوال کا جواب بھی مولانا حالی اسی قومی بدحالی کی منطق سے نکالتے ہیں۔
چوں کہ قوم بدحالی کو سمجھنے اور اسے دور کرنے کے شعور اور صلاحیت سے محروم ہے، اس لیے نئی غزل کو عشق کے داؤں گھات بتانے کے بجائے قوم کو اس کی بدحالی کے اسباب اور اسے دور کرنے کے طریقے بتانے چاہییں۔ اب رہ گیا غزل میں تغزل کا مسئلہ۔ حالی نے غزل میں تغزل کو برقرار رکھنے کی بڑی پرزور سفارش کی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں یہ ان کے ’’ذوق سلیم‘‘ کا نتیجہ تھا۔ یقیناً یہ بھی ہوگا، مگر حالی نے نئی غزل کی طرح اندازی ذاتی ذوق یا پسند پر نہیں کی تھی۔ اس لیے ہمیں اس کی وجہ بھی ان کی بنیادی منطق میں ڈھونڈنی چاہیے۔
حالی کہتے ہیں، ’’حق یہ ہے کہ اگر غزل میں عشق و محبت کی چاشنی نہ دی جائے تو حالت موجودہ میں اس کاسرسبز اور مقبول ہونا ایسا ہی مشکل ہے جیسا شراب میں سرکہ بن جانے کے بعد سرور قائم رہنا۔‘‘ اور حالت موجودہ کیا تھی، اسے بھی مولانا کی زبانی سنیے، ’’جو کان ٹپے ٹھمری سے مانوس ہو جاتے ہیں وہ دھرپداور خیال سے لذت نہیں اٹھا سکتے۔ داستان سننے والوں کی پیاس تاریخی واقعات سے ہرگز نہیں بجھ سکتی۔ بوالہوسی اور کام جوئی کی باتوں میں جو مزہ ہے وہ خالص عشق و محبت میں ہر شخص کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ اوباش والواط کی بولی ٹھولیوں میں جو چٹخارہ ہے وہ سنجیدہ باتوں میں۔۔۔‘‘
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ لوگوں کوچوں کہ اپنی بدحالی کا شعور نہیں ہے اور وہ خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں، اس لیے ان سے یہ توقع رکھنی فضول ہے کہ اتنی کارآمد چیز یعنی نئی غزل پر توجہ کریں گے۔ اس لیے انہیں گھیر گھار کر لانے کانسخہ یہ ہے کہ انہیں اس دھوکے میں رکھا جائے کہ ان سے ان کے پسندیدہ موضوع یعنی عشق پر گفتگو ہو رہی ہے اور جب وہ اس بہلاوے میں آ جائیں تو انہیں چپکے سے قومی خدمت کا وعظ سنا دیا جائے۔ حالی کی نئی غزل میں تغزل کاچٹخارہ اسی راستے سے آیا۔ اب سوال صرف ان لوگوں کا تھا جو اپنی بے حسی یالذت پرستی یا زوال آمادہ فطرت کے باعث عشق سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ ان کے لیے حالی نے دو نسخے تجویز کیے۔ پہلانسخہ ڈراوے کا تھا۔ یعنی حالی نے ’’اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھاکے چھوڑا‘‘ والی مسلسل غزل لکھ کر انہیں بتایا کہ عشق سے افراد اور اقوام کو کیا کیا نقصانات پہنچ سکتے ہیں۔ دوسرا نسخہ شرافت کا تھا۔ یعنی اگر آپ سب کچھ جاننے اور سمجھنے کے باوجود اس موذی مرض سے نجات حاصل نہیں کر سکتے تو کم ازکم شرفامیں بیٹھ کراس سرمکتوم کو فاش کرکے اپنی تنگ ظرفی اور بے حوصلگی کو ظاہر نہیں کیجیے۔
حالی کے اس دوسرے نسخے نے ’’نئی غزل‘‘ کو بڑی تقویت پہنچائی اور رفتہ رفتہ ایسے شریف شاعروں اور ادیبوں کی تعداد روز بہ روز بڑھنے لگی جنہوں نے ذاتی تجربے کو ادب سے نکال پھینکا اور شریفانہ جذبات کے اظہار کو ادب پرستی، انسانیت دوستی اور تہذیب پروری کا مظہر سمجھ لیا۔ فسادات کا مقبول و معروف ادب حالی کی اسی معنوی اولاد نے پیدا کیا۔
حسرت نے قومی خدمت کے سلسلے میں حالی کو جس طرح مایوس کیا تھا، اس کی تفصیلات آپ دیکھ چکے۔ اب دیکھیے کہ حسرت نے ادب کے محاذ پر نئی غزل کا بھٹا کس طرح بٹھایا۔ سب سے پہلے تو حسرت نے یہ ماننے سے انکار کیا کہ عشق قومی خدمت سے کوئی کم تر جذبے کی چیز ہے۔ دوسری بات جو ان کی فطرت کے منافی یہ تھی کہ وہ کریں تو عشق اور بنیں پارسا۔ لہذا وہ حالی کی یہ ہدایت بھی ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ اس سر مکتوم کو فاش کرکے بے حیائی اور بےغیرتی کا مظاہرہ نہ کرنا چاہیے۔ حسرت کا جواب صاف تھا۔ وہ دھڑلے سے عشق کرنے کے قائل تھے اور کسی طرح بھی اخلاق یا شرافت کے نام پر اس سے شرمانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ چنانچہ انہوں نے بڑی ڈھٹائی سے اسی بےحیا قسم کی واردات حسن و عشق والی غزل کو، جس کے خلاف حالی نے اتنا جہاد کیا تھا، دوبارہ زندہ کر دیا۔ گویا غزل ایک بار پھر اسی عیاشی میں غرق ہو گئی جس سے مولانا حالی نے اسے نکالا تھا۔
صرف یہی نہیں، حسرت نے اس عیاشی کو اتنی اہمیت دی کہ اپنی غزلوں کے ایک مجموعے پر جو تمام وکمال جیل میں لکھی گئی تھیں، یہ نوٹ چڑھایا کہ خدا کا شکر ہے کہ ان پر جیل کی پریشان خیالی کا مطلق کوئی اثر نہیں پڑا۔ پریشان خیالی؟ ذرا دیکھیےگا، نقادوں کے برا ماننے کا کیا زریں موقع حسرت صاحب نے فراہم کیا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جسے یہ حضرات سیاسی شعور، غم حیات کی ترجمانی، زمانے اور ماحول کے نئے تقاضوں کی آئینہ داری وغیرہ کہتے ہیں۔ حسرت جیسا کھڑتل عاشق بھی اردو شاعری کو کم ہی ملا ہوگا۔ ایک صاحب نے ان کے اشعار میں کچھ متصوفانہ معنی ڈھونڈے تو انہوں نے بڑے کھلے کھلے لفظوں میں اس کی تردید کی اور اعلان کیا کہ آئندہ وہ اپنی غزلوں پر ان حسینوں کے نام بھی لکھ دیں گے جن پر وہ لکھی گئی ہیں، لیکن حسرت صاحب کی ستائش میں ہمیں ان حسینوں کو نہیں بھولنا چاہیے، جنہوں نے اپنے لیے حسرت جیسا بانکا عاشق پیدا کیا تھا۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ یہ حسین حسرت کے ہتھے کہاں سے چڑھے۔ داغ کے کوٹھے پر تو ان کے کام کا مال تھا ہی نہیں اور دوسری جگہ کوئی سمجھ میں نہیں آتی، سوائے محلے کے۔ محلے کے ذکر پر بے ساختہ نواب مرزا شوق یاد آئے۔ انہوں نے بھی حالی والی شرافت کو بالائے طاق رکھ کر عشق بازی کا چکر اپنے محلے ہی میں چلایا تھا اور ایسا زوردار معشوق ڈھونڈکر نکالا تھا کہ اگر ان کا عشق کامیاب رہتا اور اس نیک بخت کو گھر بسانا نصیب ہوتا تو مسلمانوں کے متوسط طبقے کی گھریلو زندگی جذباتی اعتبار سے اتنی سونی سونی نہ رہتی۔ فراق صاحب کہتے ہیں کہ اردو شاعری نے کوئی سیتا یا شکنتلا نہیں پیدا کی۔ لیکن حقیقت شاید یہ ہے کہ اردو شاعری کی سیتائیں اور شکنتلائیں متوسط طبقے کے مسلمانوں کی شرافت، اخلاق اور خاندان پرستی کے جامد اصولوں کے طفیل دوشیزگی ہی میں زہر کھانے پر مجبور ہو گئیں۔ مرزاشوق بھی آخر نواب تھے۔ وہ سوداگر بچی کو کیسے گھر ڈال لیتے۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ صرف ایک جلتی سلگتی ناکام محبت کی داستان کے سوا اور کچھ نہ نکلا۔
نواب مرزا شوق کے معشوق کے ساتھ اگر ہم مومن کے پردہ نشین محبوب کا ذکر بھی کرلیں تو حسرت کے حسینوں کا سلسلۂ نسب متعین ہو جائےگا۔ مومن کے پردہ نشین محبوب میں ایک بات شوق کے معشوق سے نمایاں طور پر مختلف ہے۔ آپ چاہیں تو اسے خوبی کہہ لیں اور چاہیں تو برائی۔ وہ عشق میں اتنا بےقابو نہیں ہوتا۔ عاشق کی آغوش میں بیٹھ کر بھی اسے یہ احساس رہتا ہے کہ دراصل میں چاہنے کے لیے نہیں، بلکہ چاہے جانے کے لیے بناہوں۔ یعنی اس کی محبوبیت، محبوبیت ہی رہتی ہے، شوق کے معشوق کی طرح وہ خود عاشق نہیں بن بیٹھا اور شاید اسی لیے دو چار رنگین راتیں اپنے عاشق کے ساتھ گزار کر سیدھے سبھاؤ سے اپنے گھر کو سدھار جاتا ہے۔
اس طرح مومن کے ہاں بات کبھی گلۂ ملامت اقربا سے آگے نہیں بڑھتی۔ جب کہ شوق کے معشوق کا معاملہ اتنا سنگین ہے کہ اس کے اقربا اسے بنارس بھیجنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ حسرت کے حسینوں کواپنے ان پیش روؤں سے نسبتاً بہتر ماحول ملا تھا، اس لیے آپس میں بڑی گہری مماثلت کے باوجود ان میں شوخی، معصومیت اور عشق سے ہم آہنگی کے عناصر مومن اور شوق کے معشوقوں سے کہیں زیادہ نکھر ے ہوئے ہیں۔ یہ مومن کے پردہ نشینوں کے مقابلے پر زیادہ حساس اور معصوم ہیں اور شوق کی سوداگرزادی کے مقابلے پر زیادہ رجائیت پرست اور سنبھلا ہوا مزاج رکھتے ہیں۔
زمانے کا فرق بڑی چیز ہے۔ حسرت علی گڑھ سے بی اے کر چکے تھے۔ اس وقت تک آتے آتے مسلمانوں کے متوسط طبقے کی گھریلو معاشرت بھی کچھ سے کچھ ہو گئی تھی۔ حسرت کا حسن خانگی اسی معاشرت کا ترجمان تھا۔ پتانہیں مولانا حالی کی اخلاقیات کیا کہتی ہے۔ داغ کا کوٹھے پر جانا اچھا تھا یا حسرت کا بنت عم کو عاشقی کا سبق پڑھانا۔ میں نے یہاں سوتے میں پاؤں چوم لینے اور عرض حال کے لیے پاؤں دبانے والے نازک معاملات کا ذکر قصداً نہیں کیا ہے۔ قومی خدمت والی شاعری میں بچت کا سب سے بڑا پہلو یہی ہے کہ اس میں آدمی اس قسم کی غیراخلاقی حرکات کے اعتراف سے بچ جاتا ہے اور شیروانی کے بٹن بڑی آسانی سے بند رہتے ہیں۔
مولانا حالی کیا برا کہتے تھے۔۔۔
لیکن گھٹے ہوئے جنسی جذبات بڑے گھناؤنے ہوتے ہیں۔ آپ انہیں جتنا بند رکھیں گے اتنی ہی ان میں سڑاند پیدا ہوتی جائےگی۔ یہ دور کبھی دو خطروں سے خالی نہیں ہوتا۔ یا تو یہ اخلاقی بزدلی اور ریاکاری پیدا کرتا ہے یا پھر جنسی تجربات سے خوف۔ علامہ اقبال کے بارے میں بات کرتے ہوئے میں ہمیشہ بہت خوف کھاتا ہوں۔ ایک تو اس سبب سے کہ وہ حکیم الامت ہیں اور دوسرے بھی اس سبب سے کہ وہ حکیم الامت ہیں۔ لیکن ان کے سلسلے میں کبھی کبھی کچھ شیطانی وسوسے میرے دل میں اٹھتے رہتے ہیں۔ یہ کیا بات ہے کہ ان کے پورے کلام میں جیتی جاگتی گوشت پوست والی عورت کاسراغ دور دور تک نہیں ملتا۔
اب سے کئی سال ادھر کی بات ہے جب ڈاکٹر اجمل صاحب نے اقبال پر ایک نہایت وقیع مضمون لکھتے ہوئے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ اقبال ہرے بھرے جذبات والی عورت سے بہت خوف کھاتے ہیں۔ ڈاکٹر اجمل علم نفسیات کے ماہر ہیں۔ میرے جیسے جاہل آدمی کے لیے تو ان کی بات سند کادرجہ رکھتی ہے۔ لیکن جن لوگوں کو ذاتی تحقیق کا شوق ہے انہیں کبھی اس گتھی پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اقبال وصل کے نام سے اتنا کیوں بدکتے تھے۔ عالم سوزوساز میں فراق کا رتبہ اگر اضطراب اور حرکت کے سبب سے بڑا ہے جسے اقبال لازمۂ حیات کہتے ہیں تو وصل، اضطراب کے نقطۂ عروج اور حرکت کی کامل ترین ہم آہنگی کا نام ہے۔ غالب نے اسی حقیقت کے پیش نظر وصل کو شوق کا زوال ماننے سے انکار کر دیا تھا اور اس امر کی طرف نہایت بلیغ اشارہ کیا تھاکہ وصل لازمی طور پر جہد و طلب کی موت نہیں ہے،
گر ترے دل میں ہو خیال، وصل میں شوق کا زوال
موج محیط آب میں مارے ہے دست وپا کہ یوں
لیکن اقبال وصل کی کیفیت سے اتنے ڈرے ہوئے ہیں کہ اپنی ہستی کو، عورت تو عورت ہے، حقیقت اولیٰ میں بھی گم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔
حالی کی نئی غزل جہاں ہمیں لے جانا چاہتی تھی، اس کی آخری منزل یہی ہے۔ عورت سے بچ کر بھاگیے تو خداسے بھی بھاگنا ہی پڑتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے برعکس حسرت کی غزل ہمیں کدھر لے جاتی ہے؟ حسرت کا ایک نہایت فاسقانہ شعر ہے، جس پر ثقہ حضرات بہت ناک بھوں چڑھاتے ہیں،
حائل تھی درمیاں جو رضائی تمام شب
اس غم سے ہم کو نیند نہ آئی تمام شب
آپ یقین کیجیے کہ یہ شعر مجھے بھی مطلق پسند نہیں ہے اور میں اسے یہاں نقل کرکے کچھ بہت زیادہ خوش بھی نہیں ہوں۔ لیکن اس پست شعر میں بھی حسرت کی یہ تہذیب دیکھنے کی چیز ہے کہ انہوں نے اجازت کے بغیر رضائی نہیں ہٹائی۔ رسو ل کریم ﷺ کی ایک حدیث ہے کہ اپنی عورتوں پر حیوانوں کی طرح نہ گراکر و بلکہ پہلے قاصد بھیج دیا کرو یعنی بوسہ اور مولانا حالی کہتے ہیں کہ بوسے کا تو نام ہی نہ لیجیے۔ ایسے مضامین سے غزل میں رکاکت پیدا ہوتی ہے۔ اب ہم اخلاق سیکھنے کس کے پاس جائیں۔ حسرت کی غزل درمیان نہ ہوتی تو مولاناحالی ہمیں بھی انجمن ترقی اردو ہند نہ سہی، لیکن اس کی کسی چھوٹی موٹی شاخ کا سیکریٹری بناکر ضرور بٹھا دیتے۔ اجازت کے بغیر رضائی نہ ہٹانے کی تہذیب کون سکھاتا۔
مولانا حالی نے اپنی اصلاح پسندی کے جوش میں دراصل غزل کے اس تہذیبی رول کو نظر انداز کیا تھا لیکن شاید یہاں میں نے جوش کا لفظ غلط استعمال کیا ہے۔ حالی کے یہاں جوش کی اتنی کیفیت نہیں ہے جتنی کفارہ ادا کرنے کی خواہش۔ یاد رہے یہ وہی مولانا حالی ہیں جو مرضی کے خلاف شادی سے احتجاج کے طور پر گھر چھوڑ کرپانی پت سے دہلی بھاگ گئے تھے،
گوجوانی میں تھی کجرائی بہت
پر جوانی ہم کو یاد آئی بہت
دنیا نے، زمانے نے، سرسید کی نصیحتوں نے، خود اپنے احساس گناہ نے بالآخر حالی کے گلے میں مفلر ڈال دیا۔ مگر اس واقعے کی یاد زندگی بھر حالی کے کلیجے میں چٹکیاں لیتی رہی۔ یہاں ایک سوال خود بخود میرے دماغ میں پیدا ہوا ہے۔ پتا نہیں متعلق ہے یا غیر متعلق، کہ حالی جس نسل کو لے کر اٹھے، وہ اتنی گلٹی کونشس کیوں تھی؟ کیا یہ سب جوانی کی سرشاری اور جنون میں اپنے اپنے پانی پت کو چھوڑ کر دلی بھاگے تھے اور اب اس پر پچھتا رہے تھے؟ آخر کوئی تو وجہ ہوگی جو اس پوری نسل کو حالی کے اس مصرعے نے رلا دیا، اے عشق تو نے اکثر قوموں کو کھاکے چھوڑا۔ ایک اور اس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ اگر حسرت کی غزل اس احساس گناہ کا کیتھارسس نہ کرتی تو ہماری اجتماعی نفسیات کیسی ہوتی؟
معاشرے کو بہت سی تاریخی رویں آڑا ترچھا کاٹتی ہیں۔ بہت سے عناصر معاشرے میں پہلے جگہ پاتے ہیں اور شاعری پر بعد میں اثر ڈالتے ہیں۔ اس کے ساتھ یوں بھی ہوتاہے کہ بعض عناصر شاعری میں پہلے جھلکتے ہیں اور معاشرے پر ان کے اثرات دیر میں رونماہوتے ہیں۔ اس لیے یہ تو کسی صورت سے مناسب نہ ہوگا کہ آپ کسی بھی اجتماعی رجحان کو فرد اًفرداً ہر شاعر کے کلام میں تاریخ وار ڈھونڈنے کی کوشش کریں یا ہر شاعر کے ہر شعر کو کسی نہ کسی رجحان پر چپکائے بغیر آپ کو چین نہ آئے۔ یہ رویہ جناب کا ڈول کے دیسی جانشینوں کا ہو تو ہو، ادب کے کسی معقول طالب علم کا نہیں ہو سکتا۔ ہم تو زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ سیاست اور ادب کے نمایاں ترین رجحانات کو ایک دوسرے کے تقابل میں رکھ کر دیکھیں اور ان کے معنی سمجھنے کی کوشش کریں۔
غدر کے ہنگامے میں ہندوستان پر جو گزری اس کا آنکھوں دیکھا حال ہمیں داغ، حالی اور دوسرے بہت سے چھوٹے بڑے شعرا کے مرثیوں میں مل جاتا ہے۔ داغ سے پہلے کی نسل کے دو بہت بڑے شاعر مومن اور ذوق اس معاملے میں بہت خوش نصیب تھے کہ ان کی آنکھیں اس قیامت صغریٰ سے پہلے بند ہو گئیں۔ البتہ میر کے بعد اردو کاسب سے بڑا شاعر غالب ہندوستان کے آنسوؤں کا شمار کرنے کے لیے ابھی زندہ تھا۔ غدر کے بعد غالب کے خطوط انہی آنسوؤں سے رندھے ہوئے ہیں۔ اسے صرف غدر کی تخریب کا غم نہیں تھا بلکہ اس نئی تعمیر کا بھی، جو غدر کے بعد شروع ہوئی۔ اب غالب کو پتا چلا ہوگا کہ انگریزوں کی ریل گاڑی اور ہوائی جہاز کو دیکھ کر خوش ہونا اور بات ہے اور دہلی کی چھاتی پر پھاؤڑے چلتے دیکھنا اور چیز ہے۔ تاریخ کی سفاک منطق کسی بھی قوم یافرد کو ’’میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو‘‘ کی پالیسی پر نہیں چلنے دیتی۔
یہ کیسے ممکن تھاکہ انگریزوں کی ریل گاڑی کی پٹری بھی بچھ جائے اور پرانی سڑکیں بھی نہ کھدیں۔ مگر ہندوستان کا یہ بوڑھا دیدہ ور انگریزوں کی لائی ہوئی روشنی اور تیرگی کے تضاد کونہ دیکھ سکا۔ پتا نہیں کہ دیکھ سکتا تو اس کا فیصلہ کیا ہوتا؟ مگر ترقی پسند نقادوں نے ’’آئین اکبری‘‘ کی تقریظ انگریزوں کی حمایت والے پلڑے میں ڈالی ہے اور اس طرح غالب کو بھی اپنی طرح رجعت پرستوں کا مخالف ٹھہرایا ہے۔ یہاں رجعت پرستوں سے مراد ان لوگوں سے ہے جن کی اگلی نسل میں اکبر پیدا ہوں گے، جو بیگم کی پازیب سے اردو زبان کی تباہی تک ہر چیز پر ایک آنکھ سے ہنسیں گے اور ایک آنکھ سے روئیں گے۔
بہرحال اس وقت ہمیں ترقی اور رجعت کی بحثوں سے کوئی سروکار نہیں۔ ہمیں اس وقت صرف یہ دیکھنا ہے کہ غدر کی قیامت صغری سے گزر کر ہندوستان کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیت کیا تھی؟ غالب، داغ، حالی سب کا ردعمل ہمارے سامنے ہے۔ غالب تو خیر چودہ سال کاٹ کر مر گئے اور مرنے سے پہلے مرنے کی تاریخیں نکالتے رہے، مگر داغ اور حالی کو ابھی آگے چلنا تھا۔ داغ کی عمر اس وقت ۴۴، ۴۳ سال کی تھی اور حالی کی ۳۸، ۳۷ سال۔ داغ قلعے کے اندر تھے مگر باہر سے اندر پہنچے تھے۔ یعنی مرزا فخرو کے سوتیلے بیٹے بن کر۔ ظاہر ہے کہ قلعے والے انہیں ’’باہر والا‘‘ ہی سمجھتے ہوں گے۔ ایسے حالات میں کسی بھی نوجوان کی ذہنی کیفیت کیا ہو سکتی ہے، اس کا اندازہ لگانا اتنا دشوار نہیں ہے۔ خدا جانے کون کون سی کلفتیں ہوں گی جن کا حل داغ نے ان رنگ رلیوں میں ڈھونڈا تھاجن کا دھوم دھڑکاان کی غزلوں میں سنائی دیتا ہے۔
فراق صاحب کہتے ہیں کہ داغ کی زبان میں فلیتے جڑے ہوئے تھے مگر ان فلیتوں میں بارود کون سی استعمال ہوتی تھی اور کہاں سے آتی تھی؟ اس کا سراغ لگانے کے لیے ہمیں داغ کی شخصیت کے بہت اندر اترنا پڑےگا۔ ان کے اشعار میں کہیں کہیں ارد کی سفیدی کے برابر ایک رنگ ایساجھلک اٹھتاہے جس کی توقع آپ کسی ایسے آدمی سے نہیں کر سکتے جو رنڈیوں کی نوچا کھسوٹی سے بلند نہ ہو سکتا ہو۔ کم سے کم میں داغ کی عام شاعری اور مثال کے طور ان دو اشعار میں کوئی مطابقت نہیں پیدا کر سکتا،
جب سے چھوڑی ہے محبت نظر آتے ہیں یہ خواب
کھینچتا ہے کوئی دامن، تو گریباں کوئی
داغ وارفتہ کو ہم آج ترے کوچے سے
اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے
اس کے علاوہ داغ نے دہلی کے مرثیے میں تھوڑی بہت درد مندی دکھائی ہے جو اندر سے ایک حساس طبیعت کا پتا دیتی ہے۔ ممکن ہے داغ اگر کچھ کم سن ہوتے تو غدر سے اپنی طبیعت پر کچھ اور اثر لیتے مگر ۴۵، ۴۴ کی عمر میں وہ جو کچھ بننایا بگڑنا تھے، بن بگڑ چکے تھے۔ یا زیادہ صحیح لفظوں میں زمانے کو انہیں جو کچھ بنانا یا بگاڑنا تھا، بنا چکا تھا۔ پھر ۲۵ سال ہی کی عمر میں دربار رام پور سے ان کا توسل قائم ہو چکا تھا۔ اس لیے غدر ان کی زندگی میں ایسی تبدیلیوں کا سبب نہیں بناجن سے مولانا حالی کو گزرنا پڑا۔ مولانا حالی ملازمت پیشہ خاندان کے فرد تھے۔ غدر کی لائی ہوئی تبدیلیاں ان کے لیے بالکل دوسرے معنی رکھتی تھیں۔ شریفوں کی طرح سفید پوش رہنے اور اپنے کنبے کو پالنے کے لیے حالی کو جیسے جیسے پا پڑ بیلنے پڑے، پہلے آدمی ان سب سے گزرے تب اس رمز کو سمجھےگا کہ علی گڑھ کے پیر مرد میں حالی کو ایسا کیا نظر آیا کہ دیکھتے ہی، جودل محبوب سے بچاکر بھاگے تھے، اسے دو فٹ لمبی داڑھی کے حوالے کر دیا۔ دمشق میں اب کے سچ مچ بڑے زوروں کا قحط پڑا تھا۔
مشہور ہے کہ قحط کے زمانے میں جو نسل پیدا ہوتی ہے وہ زندگی بھر’’بھوک بھوک‘‘ ہی چلاتی رہتی ہے۔ ایسے ہی بھوکوں کی ایک نسل تھی جس نے غدر کے ۲۸ سال بعد ۱۸۸۵ میں انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد ڈالی۔ ان کاسب سے پہلا نعرہ وہی تھا کہ ’’روٹی لاؤ‘‘ مگر ساتھ ہی اس کی اکڑ بھی دیکھنے کی چیز ہے۔ ۱۸۸۶ کے خطبۂ صدارت میں انڈین نیشنل کانگریس کے صدر جناب دادا بھائی نوروجی صاحب فرماتے ہیں کہ’’ہمیں دلیری سے کھلم کھلا یہ اعلان کر دینا چاہیے کہ ہم سر سے پاؤں تک وفادار ہیں۔‘‘ پتانہیں یہ دلیرانہ اعلان کس کے مقابلے پر تھا۔ انگریزوں کے مقابلے پر، جن کی وفاداری کا اعلان کیا جا رہا تھا یا اس ہندوستان کے مقابلے پر جو بقول ہنری ایلیٹ ان ’’شاندار بابوؤں‘‘ سے الگ تھلگ ہندوستان کی وسیع سرزمین پر کھیتوں اور کھلیانوں میں کام کر رہا تھا اور انگریزوں کو اب بھی شبہے اور نفرت کی نظر سے دیکھتا تھا؟
انڈین نیشنل کانگریس کے خطبۂ صدارت کا یہ حوالہ میں نے صرف لطیفے کے طور پر نہیں دیا ہے۔ اس اکڑ کو آپ یاد رکھیں گے تو آئندہ ادب اور سیاست کے بہت سے الجھے ہوئے مسائل آسانی سے سلجھتے ہوئے نظر آئیں گے۔ منٹو نے بہت بعدمیں یہ حقیقت دریافت کی کہ پھینٹنا اور چیز ہے اور پتا پھینکنا اور چیز ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس کی یہ دلیرانہ سیاست دراصل ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ والی سیاست تھی۔ دوسری طرف مسلمانوں نے بھی سرسید کی پرسوز تقریروں اور حالی کے دردانگیز نالوں سے متاثر ہوکر اپنا پیسہ علی گڑھ کالج پر لگانا شروع کر دیا تھا۔ گویا انگریزوں کے زیر سایہ انگریزوں کے دفتروں کے لیے انگریزی بولنے والے انگریز شان دار بابوؤں کی ڈھلائی کا کام دونوں طرف زور شور سے جاری تھا۔ قوم کی دلیری کہاں کام آ رہی تھی!
اب اس دلیر نسل کی سیاست اور حالی کے ادبی ہدایت نامے کو ملایا جائے تو بڑے دلچسپ نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ سیاست میں دلیرانہ اعلان کے ساتھ آزادی کے بجائے انگریزوں سے ملازمت مانگنا۔ غزل میں تغزل کی چاشنی کے ساتھ عشق کے بجائے ملازمت مانگنے والوں کی رہ نمائی اور حوصلہ افزائی کرنا۔ سیاست میں قومی خدمت کا نعرہ انگریزوں کی وفاداری کے ساتھ۔ نظموں میں حب وطن کا چرچا انگریزوں کی مدح کے ساتھ، سیاست میں انگریزوں کے خلاف اجتماعی لاشعور میں پلنے والی نفرت کو چھپاکر اوپر سے نئی تہذیب کی چمک دمک کو سراہنا۔ غزلوں میں عشق کے تجربے کو’’سرمکتوم‘‘ قرار دے کر اس کے اظہار سے بچنا اور صرف بے ضرر قسم کے شریفانہ جذبات کے بیان کو مستحسن قرار دینا۔
اور ترقی پسند نقاد کہتے ہیں کہ حالی نے شاعری میں پہلے بار زندگی کی اصلیت دکھائی۔ اصلیت دکھانے تک تو مجھے بھی اتفاق ہے۔ مگر زندگی کی نہیں۔ یہ اصلیت اگر تھی تو اس نسل کی، جو شاید رات کوبیوی کے پاس جاکر بھی روٹی ہی مانگتی تھی۔ انہی بھوکوں کی سعادت مند اولاد نے آگے چل کر اس بات پر فخر کرنا شروع کیا کہ ہم نے غم جاناں کو ٹھکراکر غم دوراں کو گلے لگا رکھا ہے اور اردو رسالے ایسی نظموں اور افسانوں سے پٹ گئے جن میں صاف صاف اعلان کیا جاتا ہے کہ عورت کے پیچھے بھاگنے سے کلرکی کرنا بہتر ہے کیوں کہ اس سے پیٹ بھر جاتا ہے۔
دمشق کے اس قحط میں حسرت جیسا عاشق کہاں سے پیدا ہوا؟ ہندوستان اگر صرف کلرکوں کا ملک ہوتا تو ادب کے ایک پرخلوص طالب علم کو اس سوال کا جواب کبھی نہ ملتا۔ لیکن ہندوستان صرف کلرکوں کاملک نہیں تھا۔ اس کی آبادی کا نوے فی صدی حصہ اب بھی انگریزوں کے دفتروں کے لیے اکبر الہ آبادی کی آمد کا انتظار کر رہا تھا۔ حسرت نے اسی ہندوستان کی ترجمانی کی تھی، جب انہوں نے کہا تھاکہ ہوم رول نامردوں کا نعرہ ہے۔ ہندوستان کو آزادی کامل چاہیے۔
مولانا حالی کے زاویے سے دیکھیے تو حسرت بڑی غلطی پر تھے۔ ہوم رول نامردوں کا نہیں، شریفوں کا، سمجھ داروں کا، معاملہ فہموں کا نعرہ تھا۔ ہمیں مولانا حالی کے نقطۂ نظر سے ہم دردی ہے، اس لیے ہم حسرت اورحسرت کی غزل کو تھوڑی دیر کے لیے نظر انداز کر دیں گے اور اس زمانے کے مختلف ادبی کارناموں کی مدد سے یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ شریفوں، سمجھ داروں اور معاملہ فہموں کاعشق کیا ہوتا ہے؟
آئیے سب سے پہلے شاعروں کی اس مشہورومعروف مثلث کے دو ایک زاویے ناپ کر دیکھیں جو حسرت کے ساتھ چپکائی جاتی ہے۔ میری مراد اصغر، فانی اور جگر سے ہے (یاد رہے میں اس مضمون میں چند بنیادی مسائل کو سمجھنے کی کوشش کر رہاہوں اس لیے اس میں جن بزرگوں کے نام آئے ہیں ان کی حیثیت صرف علامتی ہے۔)
اصغر صاحب کی غزل میں نقاد کہتے ہیں، حسن پرستی کی ایک نشاطیہ ترنگ پائی جاتی ہے۔ حسن پرستی میں یقیناً کلام نہیں ہے اور ترنگ بھی نقاد کہتے ہیں تو بےشک ہوگی۔ مگر مشکل یہ ہے کہ اصغر صاحب اس نشاطیہ ترنگ میں چاندستاروں سے نیچے اترتے ہی نہیں۔ ایک نشاطیہ ترنگ’’بغل میں صنم تھا، خدا مہربان تھا‘‘ والے آتش کی تھی۔ ایک نشاطیہ ترنگ ہمارے اصغر صاحب کی ہے، بکھرا دیے کچھ مہ و انجم جواب میں۔
ان کی شاعری سچ مچ ’’نشاط روح‘‘ کی شاعری ہے۔ مثلث کا دوسرا بڑا نام فانی کا ہے۔ ان کے بارے میں نقادوں کا یہ ارشاد ہے کہ میر کا دل، غالب کا دماغ لے کر پیدا ہوئے تھے۔ گویا قران السعدین والا معاملہ ہے۔ مگر غزل کے یہ صاحب قراں ثانی طلسم ہوشربا کے صاحب قراں سے بہت مختلف ہیں۔ طلسم ہوشربا کے صاحب قراں نے جتنے پہلوانوں کو زیر کیا اتنی ہی عورتوں سے بھی وصل کیا اور فانی صاحب کا حال یہ ہے کہ مجتبیٰ حسین صاحب اپنے معرکہ آرا مضمون میں ان کے لیے ایک محبوبہ ڈھونڈ کر نکالتے ہیں تو وہ بھی زندگی نہیں موت ہے۔ چلیے ان کی مشکل موت پرستی نے حل کر دی۔ اب رہ گئے رئیس المتغزلین حضرت جگر مرادآبادی۔ سو انہوں نے اپنی شاعری اور عشق کا مینی فسٹو ایک شعر میں لکھ دیا ہے۔ ذرا دیکھیے شرافت کہاں کام آتی ہے۔ شعر ہے،
حسن کی اک اک ادا پر جان و دل قرباں مگر
لطف کچھ دامن بچاکر ہی نکل جانے میں ہے
میں لازمی طور پر کسی شاعر کے بیان کو اس کی شاعری کے سلسلے میں حرف آخر نہیں سمجھتا لیکن جگر صاحب کے سلسلے میں تو ہمارے رشید احمد صدیقی صاحب تک یہ فارمولا بناکر بیٹھے ہیں کہ اچھا شاعر صرف وہی ہوتا ہے جو اچھا آدمی بھی ہو۔
اب غزل اور سیاست دونوں کو ملاکر دیکھیے، زندگی کی اصلیت کیا نظر آتی ہے؟ دراصل یہ پوری کی پوری نسل دامن بچانے کی پالیسی پر گامزن تھی۔ سیاست میں بھی عشق میں بھی۔ یہ نہ محبوب کو گلے لگانے پر آمادہ تھی اور نہ آزادی کو۔ اسے صرف انگریزوں کے دفتر میں نوکری چاہیے تھی۔ صورت حال کی یہ ادھوری تصویر مکمل ہو جائےگی، اگر غزل کے بعد ایک سرسری نظر نظم اور نثر پر بھی ڈال لی جائے۔ حالی کے ادبی ہدایت نامے کے دو جزو تھے (۱) قومی خدمت کے لیے شاعری کی جائے یا کم از کم (۲) غیر عشقیہ شاعری کی جائے۔ حالی نے دونوں قسم کی شاعری کے قابل قدر نمونے پیش کیے۔ ’’مسدس مدوجزراسلام‘‘، ’’حب وطن‘‘ وغیرہ پہلی قسم کے نمونے ہیں۔ ان میں زبان و بیان کی بڑی بڑی خوبیاں ہیں۔ یہ معاشرت کے بارے میں، سیاست کے بارے میں، قوم کی اخلاقی اور مذہبی اور ملک کی جغرافیائی اور تاریخی حالت کے بارے میں بہت کچھ بتاتے ہیں۔ بس اگر کچھ نہیں بتاتے تو شاعر کے اپنے بارے میں۔ اکبر نے کہا تھا،
گفتنی درج گزٹ باقی جو ہے ناگفتنی
یہ شاعری بھی دراصل ’’گزٹ والی‘‘ شاعری ہے۔ چکبست اور اقبال کی قومی شاعری اسی سلسلے میں شامل کیجیے۔ اب رہ گیے دوسری قسم کے نمونے یعنی برکھارت اور مناظرۂ رحم و انصاف والی شاعری۔ حالی کے بعد شاعری کی اس نئی روایت میں بھی بڑا اہم اور قابل قدر کام ہوا۔ چکبست، اسماعیل میرٹھی، سرور جہاں آبادی، شوق قدوائی، عظمت اللہ، عبد الرحمن بجنوری سے گزرتا ہوا یہ سلسلہ بھی اقبال تک پہنچتاہے۔ ایک آدھ نمونہ دیکھتے چلیے۔ سرور کہتے ہیں،
یہ آخری گلاب کاہے یادگار پھول
اور شاخ پر کھلا ہوا تنہا چمن میں پھول
بےکس غریب فرقت احباب میں ملول
دھندلا سا اک چراغ شجر، انجمن میں پھول
شوق قدوائی کو دیکھیے،
چاند رات اور بندھیاچل کایہ جنگل پر فضا
مالوے کی شب کہ گرما میں بھی سرد اس کی ہوا
چاندنی کا صاف ستھرا فرش، صحن کوہ پر
سایۂ اشجار سے چھٹکے ہوئے اس پر شجر
چاندنی کے پھول روشن چاندنی کے نور سے
چاندنی ایسی کہ تم پتوں کوگن لو دور سے
عبد الرحمن بجنوری کی اپج بھی دیکھنے کے قابل ہے،
دیکھا گیا ہے
گودی میں سوتے
سپنے میں بچے
ہیں سارے ہنستے
دیکھا گیا ہے
گودی میں سوتے
اٹھنے پہ بچے
ہیں سارے روتے
تعجب ہے انہیں غالب کی شاعری بھی پسند تھی۔ عظمت اللہ خان صاحب نے غزل کی غیرحقیقی شاعری کی گردن مارنے کے بعد جس قسم کی حقیقی شاعری پیدا کی، چلتے چلاتے اس کی بھی ایک جھلک دیکھ لیجیے،
سندر صورت، سندر ہی رنگت، گوری یا کالی
آندھرا دیس کی سندر پتری کالی، کویل سی کالی
بال بھی کالے گھنگھور گھٹا
ہونٹ وہ گدرے جامن کے سے اور اداہٹ میں لالی
دانت وہ اجلے موتی کی جلا
بڑی بڑی آنکھ غلافی، پتری بھونرا سی کالی
خمار اک مستانہ چھایا
اس میں حقیقی شاعری کاعنصر یہ ہے کہ عورت کے حسن کی تفصیلات بھی اس طرح گنوائی ہیں جیسے کوئی میز کرسی کی خوبیاں بیان کرتا ہے۔ یعنی جذبے کا کہیں پتا ہی نہیں ہے۔ ڈاکٹر ابواللیث صدیقی صاحب اس شاعری کی تعریف میں لکھتے ہیں، ’’انگلستان کے مشہور شعرا ورڈس ورتھ، ہائرن، شیلی اور کیٹس کی طرح اس دور کے شعرا فطرت کے پرستار اور اس کے حسن کے عاشق نظر آتے ہیں۔‘‘ انگلستان کے مشہور شعرا کے بارے میں تو ابواللیث صدیقی صاحب جانیں، البتہ شاعری کے ان نمونوں کو دیکھ کر کنفیوشس کی ایک نصیحت ضرور یاد آئی ہے جو اس نے اپنے بچوں اور شاگردوں کو تھی۔ وہ کہتا ہے، ’’شعرا کی نظمیں ضرور پڑھ لیا کرو۔ ان سے تمہیں پھولوں اور چڑیوں کے نام یاد ہو جائیں گے۔‘‘ حالی نے خدا جانے کیا سوچا تھاجب اپنی بہترین توقعات نئی نظم سے وابستہ کی تھیں۔
نئے شعرا کی فطرت پرستی اور زیادہ مزہ دےگی جب آپ اسے اردو کے جمال پرست انشاپردازوں کے شاہ کاروں کے ساتھ ملاکر پڑھیں گے۔ تو ان بھائیوں کی طرح ان دونوں کے خدوخال اتنے ایک سے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ شاعروں کو حسن کس طرح متاثر کرتا تھا، اس کا نمونہ تو آپ ’’سندر صورت، سندر ہی رنگت، گوری یا کالی‘‘ میں دیکھ چکے۔ اب یہ دیکھیے کہ انشا پرداز حضرات حسن کے ساتھ کیا گھی چپڑی کھا رہے ہیں۔ ’’نقش ناہید‘‘ میں مجنوں گورکھ پوری صاحب ایک ایسے انٹلکچوئل ہیرو کو پیش کرتے ہیں جو اپنی ہیروئن سے، سوااس کے اور کچھ نہیں چاہتے کہ وہ انہیں اپنے پیروں کو اپنی آنکھوں سے لگا لینے دے۔ وہ بےچاری حیران ہوتی ہے اور کچھ نہیں سمجھتی۔ آخر یہ ایک روز اپنی حسرت پوری کر لیتے ہیں اور ٹھنڈے ٹھنڈے گھر چلے آتے ہیں۔
نیاز فتح پوری صاحب کی ہیروئن کو اپنی تمام رعنائیوں، زیبائیوں اور ’تحیرزائیوں ‘کے باوجود ایک ہی سوال ستاتا ہے اور کتنا دردناک سوال ہے۔ وہ اپنے عاشق سے پوچھتی رہتی ہے، ’’اگر میں اتنی خوب صورت نہ رہوں تب بھی تم مجھ سے اتنی ہی محبت کرتے رہو گے؟‘‘ عاشق صاحب ظاہر ہے بڑی ڈھارس بندھاتے ہیں (اس مثال کے لیے میں محمد حسن عسکری صاحب کاممنون ہوں۔ ) مہدی افادی الاقتصادی مجھ سے کبھی نہیں چلے۔ البتہ دو ایک فقرے اور ترکیبیں نظر سے گزری ہیں۔ ان میں سے ایک ترکیب ’’مقیاس الشباب‘‘ کا بہت شہرہ ہے۔ امیر مینائی اس میدان کے اچھے شہ سوار نہیں تھے مگر ذرااس ’’مقیاس الشباب‘‘ کو ان کے ’’وہ ا لگ باندھ کے رکھاہے جو مال اچھا ہے‘‘ کے سامنے ہی رکھ دیجیے تو اصلیت اور تصنع کا بھید کھل جائےگا۔ مہدی نے عورت کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس کی تعریف میں بہت مبالغے سے کام لیا جائے تو صرف اتنا کہا جا سکتا ہے کہ یہ عورت کے بارے میں بڑی پر تکلف قیاس آرائی ہے۔
ہوم رول کے مجاہدوں کی طرح یہ سب شعری اور نثری تحریریں نہایت دلیری کے ساتھ کھلم کھلا صرف ایک ہی اعلان کرتی ہیں، جنس کا خوف۔ زندگی کا خوف۔ آپ ان کی شاعرانہ اور فنکارانہ پھوں پھاں پر نہ جائیں۔ ان کی ساری پھوں پھاں کا خلاصہ یہ تھاکہ ساحل اپالو پر گزرنے والی پارسی لڑکیوں کی ساریوں کی سلوٹیں دیکھ کر ’’تحیر زائیوں‘‘ کے حوض میں غوطہ مار کر تر ہو جاتے تھے۔ باقی اللہ اللہ خیر سلا۔ جن لوگوں کو نگار ستان، جمالستان اور اسی قسم کی دوسری ہفوات دیکھنے کا موقع نہ ملاہو وہ رسالہ’’سوغات‘‘ کی کسی قریب ہی کی اشاعت میں ’’پردیسی‘‘ کا خط پڑھ لیں۔ پردیسی کے نام سے دھوکا نہ کھائیں۔ یہ فلمی خطوط کا سلسلہ نہیں ہے بلکہ مجنوں صاحب نے ایک لڑکی کو اپنی زندگی، ادب اور ذوق کے بارے میں شاد عظیم آبادی کی معرفت معلومات بہم پہنچائیں۔ پردیسی صاحب کی ساری تکلیف یہ ہے کہ لڑکی انہیں ملی مگر وہ فلسفہ چھانٹنے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکے۔
یہاں ایک تکلیف مجھے لاحق ہے۔ جہاں تک شعروادب کاتعلق ہے، یہ بات میری سمجھ میں آ جاتی ہے کہ ان فطرت پرست یا جمال پرست حضرات نے جو کھیر پکائی وہ اتنی پھیکی اور بد مزہ کیوں ہے مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ آخر یہ حضرات ساحل اپالو سے گھر لوٹ کر کیا کرتے ہوں گے؟ ہمیں اس کا جواب مزاح نگاروں کی اس کھیپ نے دیا جو ان فطرت پرستوں اور جمال پرستوں کے آگے پیچھے چند برسوں کے ہیر پھیر سے ادب میں داخل ہوئی، جن کے باقیات الصالحات میں شوکت تھانوی ابھی موجود ہیں اور اپنی تمام تحریروں میں بیگم کے ہاتھ سے پٹنے کو اپنی سب سے بڑی سعادت تصور فرماتے ہیں۔ معاف کیجیےگا، مولانا حالی نے جس نسل کو پروان چڑھایا تھا اس کی اڑان دیکھنے میں ہم بہت دور نکل آئے۔ اب پھر پیچھے لوٹیے اور حسرت کے ساتھ قدم بہ قدم آگے چلیے۔ شاید وہ منزل اب بہت قریب ہے جہاں آپ حسرت کے پیچھے چلنے والی نسل کے قدموں کی دھمک آسانی سے سن سکتے ہیں۔
۱۹۱۴میں مولانا حالی کا انتقال ہوا۔ اسی سال اگست کے مہینے میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی۔ انگریزوں نے پہلے تو حفظ ماتقدم کے طور پر ضروری سمجھا کہ لیڈروں کو گرفتار کر لیا جائے۔ چنانچہ ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ نافذ ہوا۔ ۱۹۱۵میں تمام نمایاں لیڈروں کو نظر بند کر دیا گیا۔ حسرت، محمد علی، شوکت علی، ابوالکلام سب گئے۔ لیکن ایک بڑی مشکل یہ تھی کہ ہندوستان کے تعاون کے بغیر انگریزوں کو جنگ جیتنی بھی ممکن نظر نہیں آتی تھی۔
آخر اس یار مطلب آشنانے سختی کی پالیسی چھوڑ کر وعدۂ فرداکی پالیسی اپنائی اور وعدہ کیا کہ جنگ جیتنے کے بعد ہندوستان کودرجۂ نوآبادیات دے دیا جائےگا۔ حسرت تو بغیر وعدے ہی کے آگ رہتے تھے۔ نوجوانوں کو وعدے نے گرما دیا۔ ہندوستان کے گوشے گوشے سے رضاکار اٹھ کھڑے ہوئے۔ انگریزوں کو کیا معلوم تھاکہ وعدہ ہی ان کے گلے کی آنت بن جائےگا۔ جنگ کے خاتمے پر جیسے ہی وعدہ خلافی کے آثار نمایاں ہوئے، ہندوستان کے دل میں آگ لگ گئی۔ پھر دل کی آگ کو باہر پھیلتے کیا دیر لگتی ہے، اس آگ کو ترکی کی خلافت کے معاملے نے اور بھڑکا دیا۔
تحریک خلافت ہندوستان کی پہلی مردانہ تحریک تھی۔ اس تحریک میں نیا ہندوستان پہلی بار اپنی پوری قوت کے ساتھ بولا۔ یہ حالی کے شریفوں، سمجھ داروں اور معاملہ فہموں کا ہندوستان نہیں تھا، یہ حسرت کا ہندوستان تھا۔ جری، بےباک، سرفروش، جاں بازہندوستان۔ یہ انگریزوں سے ان کے دفتروں میں نوکریاں مانگنے نہیں اٹھا تھا۔ اس کے دل میں آگ بھڑک رہی تھی جسے بغاوت کہتے ہیں۔ یہ انگریزوں کی وعدہ خلافی پر مشتعل تھا اور اپناحق طلب کرنے پر مصر۔ حسرت نے ۱۹۱۷ میں شکایت کی تھی،
اپنا سا شوق اوروں میں لائیں کہاں سے ہم
تنگ آگئے ہیں بے دلی ہمرہاں سے ہم
ہندوستان کی اس نئی نسل نے حسرت کی شکایت دور کردی۔ حسرت کی شخصیت اور شاعری کو پر لگ گئے۔ ٹھیک یہ زمانہ تھاجب حالی کے ایک شریف، سمجھ دار، معاملہ فہم یادگار نے سرسید کی قائم کی ہوئی یونیورسٹی میں بیٹھ کر اپنے ذمہ دارانہ خیال کا اظہار کیا کہ ہندوستان کے مسلمان پاگل ہو گئے ہیں۔ یہ سر ضیاالدین تھے۔
اب ہم جامعہ ملیہ کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ جامعہ ملیہ نے تعلیمی درس گاہوں میں انگریزوں کے لیے کلرک پیدا کرنے کے مقصد کو ٹھکراکر ملت کے لیے سپاہی پیدا کرنے کے مقصد کو اپنایا۔ حسرت کی نئی نسل اپنی نئی ذمہ داریاں جانتی تھی۔ یہی زمانہ حسرت کی شاعری کے انتہائی عروج کا تھا۔ حسرت کا عشق اور حسرت کی سیاست دونوں اپنی تکمیل کو چھو رہے تھے۔ ٹوٹی پھوٹی شخصیتوں کی طرح دو الگ الگ اکائیوں کی صورت میں نہیں بلکہ ایک مکمل وحدت کی صورت میں۔ حالی کے ادبی ہدایت نامے میں شخصیت کی اس وحدت کو نظرانداز کیا گیا تھا، اس لیے ان کی شعری روایت میں عشق اور سیاست کبھی مل نہ سکے۔ اس لیے ان کی قومی خدمت صرف قومی خدمت ہی رہی۔ اسی لیے ان کی نسل میں پیدا ہونے والا کوئی شاعر شخصیت کی اکائی کاوہ تاثر نہیں دیتا جو آپ کوولی سے لے کر حسرت تک ملےگا۔ وہ عورت کے پاس کچھ اور ہوتے ہیں، شراب خانے میں کچھ اور، سیاسی پلیٹ فارم پر کچھ اور۔ عشقیات الگ۔ خمریات الگ۔ جوش کی پروگرام والی شاعری اسی روایت کا ایک بہت بڑا المیہ ہے۔
تحریک خلافت، عشق کی سیاست تھی اور حسرت کی غزل، سیاست کا عشق۔ یہ دونوں ایک دوسرے کا پیمانہ تھے۔ افسوس کہ تحریک خلافت کا پیمانہ بہت جلدی ٹوٹ گیا۔ ۱۹۲۴ میں ترک ناداں نے خلافت کی قبا چاک کر دی۔ مسلمان اس سے ذرامایوس ہوئے تھے کہ گاندھی جی نے اہنسا کا پرچم لہرایا۔ شدھی سنگٹن اور تبلیغ کی گندی نالیوں سے تعصب کی غلاظت اس طرح بہہ بہہ کر نکلنے لگی کہ مارے تعفن کے آزادی خواہوں کا دم گھٹنے لگا۔ اب ہندوستان کے سیاسی محاذ پر ایک بار پھر وہی مرگ آساسناٹاطاری تھا جو ۱۸۵۷ کے ہنگامے میں شکست کھانے کے بعد طاری ہوا تھا۔ یہ ہمارے اس نوجوان کی پہلی شکست تھی جو ۱۹۰۷ کے بعد کالجوں سے باہر نکلا تھااور اصلاحی خوابوں کو ٹھکراکر انقلابی خواب اپنے ساتھ لایا تھا۔ ۱۹۲۴کے بعد حسرت کی شاعری بھی آہستہ آہستہ بجھتی ہی چلی گئی۔ شاید اب انہیں پہلی بار محسوس ہوا تھا کہ اب ان کی عمر پچاس کے قریب پہنچ چکی ہے کہ شاید اب وہ بوڑھے ہو رہے ہیں کہ شاید اب زمانہ ان کا ساتھ نہیں دے سکتا تھا۔
۱۹۲۴ سے ۱۹۳۶ تک بارہ سال کے اہم سیاسی واقعات کی روئداد آپ کسی ترقی پسند نقاد سے پوچھی، ے جب تک میں فطرت پرستوں، جمال پرستوں اور زن مریدوں کے تذکرے کو چھوڑتا ہوا اس نئی نسل کا ذکر کرتا ہوں جس نے ۱۹۳۶ میں ادب اور شاعری کی ایک بالکل نئی تحریک شروع کی۔ یہاں یہ ایک دلچسپ بات نظر آتی ہے کہ اس تحریک کی مخالفت میں فطرت پرست، جمال پرست اور زن مرید سب کے سب برابر کے شریک تھے۔ کیوں نہ ہوں آخر ان کا سلسلۂ نسب حالی ہی سے ملتا ہے۔ اب یہ سب کے سب شریف، سمجھ دار اور معاملہ فہم بنے ہوئے تھے۔ نئی تحریک نے ان شریفوں، سمجھ داروں اور معاملہ فہموں کی ساری مخالفت کے باوجود زندگی اور ادب کی شاہراہ پر نئے چراغ روشن کیے۔ حسرت بوڑھے ہو گئے تو کیا ہوا۔ ان کے ہندوستان کے نوجوان بیٹے اور بیٹیاں اب ان کی جگہ لینے کے لیے تیار تھے۔
نئی نسل نے جنس اور سیاست کے مسائل کو اپنی تحریک کے بنیادی عناصر قرار دیا اور صاف صاف اعلان کر دیا کہ وہ ان دونوں معاملوں میں ڈرنے یا شرمانے کے قائل نہیں ہیں۔ انہوں نے سیاست میں گاندھوی فلسفے اور ادب میں اصلاح بازی کا یکساں طور پر مذاق اڑایا۔ یہ نہ گزارشات کے قائل تھے اور نہ مناجاتوں کے۔ انہیں گاندھی کی لنگوٹی اور حالی کے مفلر سے یکساں طور پر چڑتھی۔ یہ ادب میں جمال پرستی اور فطرت نگاری کے لیے نہیں آئے تھے۔ انہوں نے پھول پتیوں اور چڑیوں پر نظمیں نہیں لکھیں۔ یہ کام ان کے نزدیک مضحکہ انگیز تھا۔ یہ انگارے اچھالنے، شعلے بھڑکانے اور چوٹیں لگانے آئے تھے۔ انہوں نے ہندوستان میں آگ لگا دی۔
مولانا حالی کے ادبی ہدایت نامے کی روشنی میں ان کے شریف، ذمہ دار اور معاملہ فہم بیٹوں نے حسرت کے حسینوں کی اس بے باک، سرکش اور سرفروش اولاد کی ادبی تحریک پر جو اعتراضات کیے ان کے چند دلچسپ نمونے مع جوابات کے ملاحظہ کیجیے۔ حالی کے ایک شریف بیٹے نے طنز کیا،
ادیبوں کے بہو بیٹی نہیں کیا
چھپر کھٹ پر کوئی لیٹی نہیں کیا
حسرت کے حسینوں کی ایک طرار بیٹی نے ترکی بہ ترکی جواب دیا، ’’جی ہاں قبلہ، بہو بیٹیاں نہ ہوتیں تو تجربہ کہاں سے حاصل ہوتا۔‘‘ حالی کے ذمہ دار جانشیں کے حلقے سے فلسفیانہ انداز میں کہا گیا، ’’ان لوگوں کے اعصاب پر عورت سوار ہے۔‘‘ نہایت سادگی سے جواب دیا گیا، ’’عورت نہیں تو کیا ہاتھی گھوڑے سوار ہوں گے۔‘‘ دامن بچاکر لطف لینے والے معاملہ فہم جمال پرستوں کے زبردست ترجمان نگار نے فتویٰ صادر کیا، ’’یہ لوگ فحش نگار ہیں۔‘‘ جواباً عرض کیا گیا، ’’بجا ارشاد۔ قحبہ چوں پیر شود پیشہ کندملائی۔‘‘
ٹھیک یہی زمانہ تھاجب فراق صاحب کی غزل حسن اور عشق کی وارداتوں کو اپنے جلو میں لیے منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوئی۔ فراق نے بڑی دور کی منزلیں ماری تھیں اور خدائے سخن میر سے حسرت تک اردو کی بہترین روایات کو اپنے عشق کی تہذیب میں لگایا تھا۔ یہ میر کی دردمندی، غالب کی خود آگاہی اور حسرت کی بے باکی کا امین تھا۔ یہ نئے ہندوستان کا عشق تھا۔ فراق کے عشق کو حسن بھی بہت مہذب ملا۔ اس نے سپردگی اور امڈے ہوئے جذبات ’’زہر عشق‘‘ کے محبوب سے لیے تھے اور شوخی اور معصومیت حسرت کے حسینوں سے۔ اپنے سے پہلوں کے تجربات نے اسے سکھا دیا تھاکہ اب صرف بام پر آکر سامنا کرنے سے کام نہیں چلےگا، اسے ایک منزل اور آگے بڑھنا تھا۔ وہ بام سے اتر کر عشق کے دوش بدوش کھڑا ہو گیا،
نہ رہاحیات کی منزلوں میں وہ فرق ناز و نیاز بھی
کہ جہاں ہے عشق برہنہ پا، وہیں حسن خاک بسر بھی ہے
فراق کہتے ہیں، ’’عظیم زمانہ ہی عظیم عشقیہ شاعری پیدا کرتا ہے۔‘‘ فراق کی عظیم غزل کو وہ عظیم زمانہ ملا جس نے صدیوں کے تسلسل کو لمحوں میں سمیٹ لیا تھا۔ دور کی پر چھائیاں پاس کی پرچھائیوں کو کاٹ رہی تھیں۔ روس میں عظیم انقلاب برپا ہو چکا تھا، جس نے حسن اور عشق کو ایک دوسرے کے دوش بدوش ایک نئی دنیا بنانے کا حوصلہ دیا تھا اور دور سے ہندوستان کے ساحل پر انقلاب، آزادی اور تعمیر کی وہ روشنیاں جھلملانے لگی تھیں، جنھیں دیکھ کر پنڈت نہرو کولمبس کی طرح چلا اٹھے کہ میں نے نیا ہندوستان دریافت کر لیا ہے۔ فراق نے ہمیں یہ بتایا کہ حسن اور عشق کا ملاپ عیاشی نہیں ہے۔ یہ زندگی کا ابدی رقص ہے۔ فراق کی غزل میں فارسی اور اردو کی بہترین شعری روایات کے ساتھ ساتھ کالی داس اور بھرتری ہری بھی نئی زندگی پا رہے تھے۔ یہ پرانے ہندوستان کا نیا جنم تھا۔ ماضی اسی طرح حال میں زندہ رہتاہے اور حال اسی طرح مستقبل میں۔ فراق کی غزل ہندوستان کے شاندار مستقبل کی بشارت تھی،
تعمیر زندگی کے سمجھ کچھ محرکات
مجبور اتنی عشق کی بےچارگی نہیں
مولانا حالی اب کیا کہتے ہیں۔ یہاں تو عشق’’قوموں کوکھانے‘‘ کے بجائے انھیں بنا رہا تھا، اوراپنے تجربات کو سرمکتوم سمجھ کر چھپانے کے بجائے نہایت بے حیائی اور بےغیرتی سے ایسے شرم ناک سوال اٹھا رہا تھا جنہیں سن کر نواب اثر لکھنوی کو تو خیر چھوڑیے، مشہور انقلابی سردار جعفری تک ’’ہی ہی‘‘ کر اٹھے۔ فراق نے اپنی عہد آفریں تصنیف ’’اردو کی عشقیہ شاعری‘‘ میں اتنی صاف باطنی کا مظاہرہ کیاکہ امردپرستی تک کے جواز پر بات کرتے نہ شرمائے۔ ذرا دیکھیےگا کہاں حالی کا سرمکتوم اور کہاں امردپرستی؟ سچ مچ قوم کی اخلاقی پستی کی انتہا ہو چکی تھی۔
اخلاقیات پر ایمان رکھنے والے جب کبھی ایسی باتیں دیکھتے ہیں تو انھیں یقین ہو جاتا ہے کہ قیامت کی نشانیاں پوری ہو رہی ہیں۔ خیر قیامت تو ایک دن آنی ہی ہے لیکن یہ بات سمجھ میں آنی دشوار ہے کہ ایمان والوں کو قیامت سے کیا خوف ہو سکتا ہے۔ قیامت میں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کیا جائےگا۔ پتا نہیں وہ کیسے ایمان والے ہیں جو خدا جیسے عادل کے حساب کتاب سے ڈرتے ہیں۔ ایسے ہی ایمان والوں کا ایک گروہ تھا جس نے قیامت کو کچھ دن اور ملتوی رکھنے کے لیے نئے ادیبوں کے خلاف باقاعدہ ایک مہم چلائی۔
حسن اتفاق سے انہی دنوں کسی بد اخلاق ادیب نے شاید (شاید منٹو) ویکائیوں سے متعلق ایک افسانہ لکھ دیا۔ بس پھر کیا تھا۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔ تمام ایمان والے متحد ہوکر حکومت کے سامنے درخواستیں گزارنے لگے کہ ان دریدہ دہن لوگوں کے منھ میں لگام دی جائے جوایک طرف قوم کے نونہالوں اور بہو بیٹیوں کا اخلاق خراب کر رہے ہیں اور دوسری طرف سرکار دولت مدار کی معزز ویکائیوں کے خلاف اوٹ پٹانگ افسانہ لکھتے ہیں۔ مگر افسوس کہ سرکار دولت مدار نے اس طرف کوئی توجہ نہ کی اور بےچارے مولانا ماہرالقادری کو راجا محمودآباد صاحب کی معیت میں صرف جہاد باللسان اور جہاد بالقلم ہی کا ثواب مل سکا۔
خیر جنس کے معاملے میں تو یہ دریدہ دہن نوجوان تھے ہی ناقابل اصلاح، مگر سیاست میں بھی ان کی ذہنی کج روی اور غیرذمہ داری کا کوئی ٹھکانا نہیں تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس نے پینتالیس سال تک دلیرانہ وفاداری کے پاپڑ بیلنے کے بعد ابھی چھ سال پہلے انتہائی مجبوراور مایوس ہوکر آزادی کامل کی قرارداد منظور کی تھی، اور یہ نوجوان تھے کہ چھوٹتے ہی عالمی آزادی کے خواب دیکھنے لگے تھے۔ یعنی جیسے آپ پر نہ صرف ہندوستان کی ذمہ داری ہے بلکہ ساری دنیا کے بندھن کاٹنے کا ٹھیکا بھی آپ ہی نے لیا ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس اور ملک کی دوسری ذمہ دار جماعتوں نے نہ جانے کتنی کھکھیڑا ٹھا انگریزی پڑھے لکھے لوگوں کے لیے سرکاری دفتروں میں اسامیاں نکلوائی تھیں، مگر ان نوجوانوں کو ایسی روٹیاں لگی تھیں کہ یہ کہتے تھے کہ سارے ہندوستان کو روزگار دلواؤ بلکہ سچ پوچھیے تو ان کے دلوں میں یہ بے بنیاد خیال بیٹھ گیا تھاکہ جب تک ساری دنیا کے لوگوں کو روٹی نہیں ملےگی ان کا اپنا پیٹ بھی نہیں بھرےگا۔
کفران نعمت کی بھی انتہا ہوتی ہے۔ شریف، ذمہ دار، معاملہ فہم لوگ کہتے تھے، تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑتو۔ مگر اپنی جان کے ان دشمنوں کو یہ نصیحت بھی بری لگتی تھی۔ یہ تو سب کے سب مفت میں قاضی بنے ہوئے تھے اور شہر کے اندیشے میں دبلے ہو رہے تھے۔ ان کا ایک بڑا اندیشہ جس نے ان کی نیند حرام کر رکھی تھی، یہ تھا کہ انگریزوں کے سایے میں جن لوگوں نے ترقی کی ہے اور بڑے بڑے ملوں اور فیکٹریوں یا زمین داریوں اور جاگیرداریوں کے مالک بنے ہیں وہ درپردہ انگریزوں کے وفادار ہیں اور اپنے آقاؤں کی سازش سے ہندوستان کو بھوکوں مارنا چاہتا ہیں۔ چنانچہ مارے دانش مندی کے ان سرے پھرے بےوقوفوں نے اس کا حل یہ نکالا تھا کہ ایسے تمام لوگوں کے مل اور زمینیں وغیرہ چھین کر ان کے مزدوروں یا کسانوں میں بانٹ دی جائیں۔ بھلا بتائیے یہ کوئی ہونے والی باتیں تھیں؟
چنانچہ ہندوستان کے سارے شریف، ذمہ داراور معاملہ فہم حضرات ان ساری باتوں کو بکواس سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔ مگر مولانا حسرت کو تو ہمیشہ سے ایسی اوٹ پٹانگ باتوں میں مزہ آتا تھا۔ انہوں نے حسب معمول پھر اپنی ہی چلائی اور صاف صاف کہنے لگے کہ ان باتوں کو ان ہونی نہ سمجھیے۔ ان کا ہونا تو مقدر ہو چکا ہے۔ دو چار برس میں ہوکہ دس بیس برس میں۔ ہندوستان کے شرفا یقیناً یونان کے شریفوں کی طرح دوراندیش نہیں تھے۔ ورنہ نوجوانوں کو بہکانے کے جرم میں ان حضرت کو ضرور زہر کا پیالہ پلا دیتے۔
لیکن یہاں ایک سوال مجھے بہت ستاتا ہے۔ حسرت نے جس نوجوان نسل کو دریافت کیا تھا، اس کے سامنے سیاست کے جتنے بڑے آدرش تھے، اتنی ہی تن درست اور توانا اس کی جنسی زندگی بھی تھی۔ لیکن نئے ادیبوں نے جس نئے ہندوستان کو ڈھونڈا تھا، اس کے سیاسی آدرش جتنے تن درست اور توانا تھے، اس کی جنسی زندگی اس کے برعکس اتنی گھناؤنی اور مریضانہ نہ تھی۔ آخر اس تضاد کی کیا وجہ ہے؟ پتانہیں میں اپنا سوال ٹھیک طرح پیش کر سکا ہوں یا نہیں۔
دراصل جوبات میری سمجھ میں نہیں آتی، یہ ہے کہ نئے ادیب ایک طرف تو یہ چاہتے ہیں کہ معاشرے کو غلامی سے، بھوک سے، طبقاتی تقسیم سے اور ان تمام بلاؤں سے نجات مل جائے جو فرد کی بھرپور شخصیت اور بھر پور زندگی کی نشو ونما میں حائل ہیں اور وہ ان سے لڑنے کے لیے صف بندی بھی کرنا چاہتے تھے مگر انہوں نے اس صف بندی کے لیے جس ہندوستان کو ڈھونڈا اس کااپنا حال یہ تھا کہ اس کی عورتوں کے لحافوں میں ہاتھی کودتے تھے اور نوجوانوں کو عورتوں کی گندی بغل کی بو سونگھنے میں دنیاکی ہر چیز سے زیادہ مزہ آتا تھا اور جو لڑکے ابھی تازہ تازہ جوان ہورہے تھے ان میں سے کچھ تو آپس کی پھسلن میں لوٹ پوٹ کر محظوظ ہورہے تھے اور کچھ کو سرراہ گزار عورت کے زمین پر بیٹھنے اور زمین کے سینہ پر تلوار چلنے کی آواز سن کر اپنے ہاتھوں کی نمی دیکھنے میں مزہ آ رہا تھا۔
ایک لحظے کے لیے مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں مولانا ماہرالقادری کے ساتھ کھڑا ہوں اور میرے مسلمان بننے میں اتنی ہی کسر ہے کہ نئے ادب پر لاحول پڑھ کر رسالہ ’’فاران‘‘ کے لیے جماعت اسلامی کی حمایت میں مضمون لکھنے لگوں۔ اور میں گھبراکر ادب کے نقادوں کی طرف بھاگتا ہوں کہ خدا کے لیے مجھے اس انجام سے بچایئے اور اس سوال کا کوئی معقول جواب فراہم کر دیجیے۔
ترقی پسند نقاد میری بڑی ڈھارس بندھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’یہ سوال بڑا اہم ہے مگر دراصل آپ نئے ادب اور ترقی پسند کو خلط ملط کر رہے ہیں۔ انسانیت اور سیاست کے اعلیٰ آدرش ترقی پسند ادیبوں نے پیش کیے ہیں اور جن جنسی غلاظتوں اور گندگیوں کا آپ نے تذکرہ کیا ہے وہ غیرترقی پسندوں کی خرافات ہے۔ غلطی دراصل یہ ہوئی کہ بہت دنوں تک نئے ادب اور ترقی پسند ادب میں فرق نہیں کیا گیا اور ہر نئے لکھنے والے کو۔۔۔‘‘ ممکن ہے ترقی پسند نقاد ٹھیک کہتے ہوں۔ لیکن سوال یہی توہے کہ نئے لکھنے والے ایسے کیوں تھے؟ ترقی پسند نقاد بہت سنجیدہ، منطقی اور نکتہ رس دماغ رکھتے ہیں۔ وہ فوراً میری مشکل سمجھ جاتے ہیں اور نہایت سائنٹفک انداز میں نئے لکھنے والوں کا تجزیہ کرتے ہیں، ’’یہ لوگ متوسط طبقے سے آئے تھے، انہوں نے یورپ کے زوال پسند عناصر سے بڑا گہرا اثر لیاہے۔ یہ فرائیڈ، ڈی ایچ لارنس اور جیمس جوائس کے دل دادہ تھے اور اپنی تحریروں میں انہی کے ناپختہ خیالات اور جذبات کی قے کر رہے تھے۔‘‘
بات کچھ آگے چلتی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن یہاں پہنچ کر مجھے ایک نئی الجھن گھیر لیتی ہے۔ ادب کا رشتہ قاری سے بہت گہرا ہوتا ہے۔ ادب کا ہر وقیع رجحان، ادیبوں کی ذاتی زندگی اور ذاتی رجحانات سے زیادہ اس معاشرے کی ترجمانی کرتا ہے جس میں وہ پیدا ہوتا ہے اور پڑھا جاتا ہے۔ اس صورت میں نئے ادب اوراس کی مقبولیت کو ملایا جائے اور ترقی پسندوں کی تھیوری اس پر چلائی جائے تو خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ جوقے نئے ادیب کر رہے تھے، دراصل وہ معاشرے کی ہمہ گیر متلی کانتیجہ تھی۔
گھوم پھر کر ہم اسی سوال پر پہنچ جاتے ہیں کہ نئے ادب میں یا اس نئے ہندوستان کی شخصیت میں جسے نئے ادیبوں نے دریافت کیا تھا، یہ تضاد کیوں تھا؟
وقت آ گیا ہے کہ سردار جعفری صاحب کھڑے ہوں اور میز پر گھونسا مار کر اعلان کریں کہ یہ شر انگیز سوال بھیڑیوں، گیدڑوں اور لومڑیوں کی طرف سے اٹھایا گیا ہے، اس لیے میں ترقی پسندوں کو چھوڑ کر پھر نئے ادیبوں کی طرف لوٹتا ہوں اور ان کے وکیل صفائی خود انھیں میں تلاش کرتا ہوں۔ نئے ادیب کہتے تھے، ’’ہم ڈاکٹر ہیں۔ معاشرہ کے رستے ہوئے غلیظ ناسوروں اور چھپے ہوئے گندے امراض کی تشخیص کرنا ہمارا کام ہے۔‘‘
نئے ادیبوں کی اس بات کو اگر’’خوئے بدرابہانہ بسیار‘‘ قسم کی چیز نہ سمجھا جائے اور ذہنی دیانت پر محمول کیاجائے تو نئے ادب کے تضاد کامسئلہ بہت تسلی بخش طور پر حل ہو جاتا ہے۔ قاعدہ ہے کہ جو لوگ فوج میں بھرتی ہوتے ہیں ان کا میڈیکل ٹیسٹ بڑی سختی سے کیا جاتا ہے۔ ۱۹۳۶ کے بعد نیا ہندوستان معاشرے کی خوفناک بلاؤں سے لڑنے کے لیے تیار ہوا تو صف بندی سے پہلے میڈیکل ٹیسٹ کی ذمہ داری نئے ادیبوں کے سر ڈالی گئی۔ اس میڈیکل ٹیسٹ کی ضرورت اس لیے اور شدت سے محسوس کی گئی کہ مولانا حالی کے ادبی ’’ہدایت نامے‘‘ کے زیر اثر ادب نے معاشرے کی اندرونی حالت کی براہ راست ترجمانی چھوڑ دی تھی۔ اورحسرت کی غزل کو چھوڑ کر جیسا کہ آپ پہلے دیکھ چکے ہیں، پورے ادب نے شیروانی کے بٹن بڑی احتیاط سے بند کر لیے تھے۔
نئے ادیبوں نے اپنا کام شروع کیا تو شیروانی، قمیص، پتلون، لنگوٹیاں، برقعے، لہنگے، سایے، لحاف، تکیے، گدے، انگیا، زیرجامے اور چوری چھپے پھینکے جانے والے چیتھڑے کوئی چیز بھی نہ چھوڑی، جسے اتار کرنہ دیکھا ہو۔ ڈاکٹری کا پیشہ سچ مچ بڑے دل گردے کا کام ہے۔ نئے ادیبوں نے مولانا حالی کے شریفوں، ذمہ داروں اور معاملہ فہموں کا سارا آگا پیچھا کھول دیا۔ آئیے چلتے چلتے ایک نظر میں یہ تماشا بھی دیکھتے چلیں۔ سچویشن یہ ہے کہ نئے ادیب معاشرے کے ٹیسٹ کے لیے روانہ ہو رہے ہیں۔ اب دیکھیے کون کہاں جاتا ہے اور کیا رپورٹ لاتا ہے۔ رپورٹ کا مقصد یاد رکھیے، معاشرے کی بلاؤں سے لڑنے کے لیے صف بندی۔ سب سے پہلے منٹو کو دیکھیے۔
منٹو نے اپنا کام اس طبقے میں شروع کیا جسے داغ کے بعد بری طرح نظرانداز کیا گیا تھا۔ منٹوکو اس طبقے سے کئی طرح کی دلچسپیاں تھیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ تھی کہ معاشرے کے بڑے بڑے شریف، ذمہ دار اور معاملہ فہم لوگ رات کو چوری چھپے یہیں پہنچتے تھے۔ یہ بات نئے ادیبوں کو قاضی عبد الغفار نے بتائی تھی۔ اس کے علاوہ قاضی صاحب نے یہ اطلاع بھی دی تھی کہ داغ کے معشوقوں کی بیٹیاں بھی دراصل اتنی ہی مجبور ہیں جتنی ان کی وہ شریف بہنیں، جو گھروں میں بیٹھتی ہیں۔ معاشرے میں مناسب جگہ ملے تو کوٹھے کی تمام لیلائیں، مائیں، بہنیں، بیٹیاں بن کر گھروں میں لوٹ آئیں۔ ’’لیلیٰ کے خطوط‘‘ کا آخری صفحہ یہی بتاتا ہے۔ قاضی صاحب سے یہ اطلاع لے کر منٹو نے سیدھا وہیں کا رخ کیا۔ تفصیلات بےشمار ہیں مگر خلاصے کے طور پر صرف اتناسمجھیے کہ منٹو نے کوٹھے پر ایسی نائیکائیں، نوچیاں، دلال، تماش بین دریافت کیے جن کی انسانیت ابھی مری نہیں تھی بلکہ معاشرے کی ٹھوکریں کھاتے کھاتے ان میں ایک ایسی تلخی پیدا ہو گئی تھی جسے کسی وقت بھی کام میں لایا جا سکتا تھا۔ آخر گورکی نے بھی اشتراکی انقلاب کے لیے سپاہیوں کی بھرتی، معاشرے کے ایسے ہی ٹھکرائے ہوئے طبقوں میں سے کی تھی، مثلاً آوارہ گرد، قزاق، طوائفیں۔ کوئی وجہ نہ تھی کہ نئے ادیب ہندوستان میں اس نسخے کو نہ آزماتے۔
چنانچہ منٹو نے بھی طوائفوں اور دلالوں کے ساتھ ایسے جیب کترے اور غنڈے دریافت کیے جن سے وقت پڑنے پر کام لیا جا سکتا ہے۔ منٹو کی اس تفتیش پر بہت واہ وا ہوئی۔ لیکن یہ منٹو کی رپورٹ کا آدھا حصہ ہے۔ باقی کا آدھا حصہ منٹو نے اس متوسط طبقے میں گھوم پھر کر لکھا جو بہ ظاہر بڑی ذمہ داری سے صف بندی میں شریک ہونے کے لیے تیار تھے اور ہمیں افسوس کے ساتھ اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ منٹو کی رپورٹ کا یہ حصہ انتہائی مایوس کن ہے۔ اس میں منٹو نے بڑی سفاکی سے اس حقیقت کا اعتراف کیا تھا کہ متوسط طبقہ اپنی ریاکاری اور ظاہر پرستی کی وجہ سے اتنے ذہنی، جذباتی اور جسمانی امراض میں مبتلا ہو چکا ہے کہ اب اس سے کسی معقول کام کی توقع فضول ہے۔ ہائے مولانا حالی۔ کاش وہ زندہ ہوتے اورجنس کو سرمکتوم بناکر اس کے اظہار کو بےحیائی اور بے غیرتی قرار دینے کا نتیجہ دیکھتے۔ اب ان کے شریفوں کی اولاد اس نوبت کو پہنچ گئی تھی کہ اسے ذہنی سکون کے لیے عورتوں کی بغلیں سونگھنی پڑتی تھیں۔ مولانا ماہرالقادری کہتے ہیں، ’’یہ بکواس ہے، منٹو خود مریض تھا۔‘‘
اچھااب منٹو کی رپورٹ کایہ حصہ عصمت کی رپورٹ سے ملاکر دیکھیے۔ یہ تو اس طبقے کی اسپیشلسٹ ہیں۔ عصمت کے انکشافات اور ہول ناک ہیں۔ وہ ہمیں بتاتی ہیں کہ مرد تو مرد، متوسط طبقے کی شریف زادیاں اس حال کو پہنچ چکی ہیں کہ ایک طرف ادھیڑ عمر کی عورتوں کے لحافوں میں ہاتھی کودتے ہیں اور دوسری طرف کالجوں کے ہوٹلوں میں وہ ٹیڑھی لکیر پروان چڑھ رہی ہے جس کی ایک ہلکی سی جھلک نے سارے ہندوستان کے اخلاقی تصورات کو لرزا دیا۔ مولانا ماہر القادری کہتے ہیں، ’’یہ بھی بکواس ہے۔ عصمت تو اپنی سوانح عمری لکھتی ہے۔‘‘
اور عسکری جنہوں نے ایک ایسے خود پسند نوجوان کو دریافت کیا تھا جو اپنی تنہائی کے جزیروں سے باہر جھانکنے کے لیے بھی تیار نہ تھا اور کرشن چندر، جو ایک ایسے جذباتی نوجوان کو ڈھونڈ کرلائے جس کے دھواں دھار جذبات دو فرلانگ لمبی سڑک پر اونگھتے ہوئے گدھوں کو بھی متاثر نہ کر سکتے تھے۔ حقیقت واقعی اتنی تلخ ہے کہ ماننے کو جی نہیں چاہتا ہے۔ اس لیے مناسب ہے کہ ہم افسانہ نگاروں کے ساتھ شاعروں کی رپورٹوں پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔
میراجی نے ایک ایسا نوجوان ڈھونڈ نکالا تھا جس کے پتلون میں جیبیں تو ہوتی تھیں مگر استر غائب ہوتا تھا۔ نتیجہ: ’’ہاتھ آلودہ، نم دار ہے، دھندلی ہے نظر‘‘
ن م راشد ایک ایسے سپاہی کو ساتھ لے کر آئے جو محبوبہ سے اجازت مانگ کر دشمن پر جھپٹنے نکلا۔ مگر دشمن کے گرانڈیل جوانوں کو کہساروں پر دیودار کے پیڑوں کی طرح ایستادہ دیکھ کر لوٹ آیا اور خفت مٹانے کے لیے اس نے رقاصہ پر جھپٹنا چاہا۔ مگر رقاصہ پر جھپٹنے والی قوت ہوتی تو دشمن ہی سے کیوں منھ چراتا۔ نتیجہ: نامردی، جنسی کج روی، مساکیت، سادیت۔
مولانا ماہر القادری کہتے ہیں، ’’یہ سب بکواس ہے۔ میراجی اور راشد کی شاعری ان کی ذاتی گندگیوں کی پوٹ ہے۔‘‘ اوریہ صرف مولانا ماہر القادری نہیں کہتے، یہ ’’سچی باتوں‘‘ والے مولاناعبد الماجد دریابادی بھی کہتے ہیں اور نارا والے مولوی فرقت کاکوروی بھی اور جمال پرستوں کے قبلہ گاہ نیاز فتح پوری صاحب بھی اور اقبال والے امین حزیں سیال کوٹی بھی اور غزل کے عاشق، خداجانے غزل کا ان کے ہاں مصرف کیا ہے، جناب فضل احمد کریم فضلی بھی۔ چلیے اتنے بہت سے لوگ کہتے ہیں تو میں بھی معاشرے کے میڈیکل ٹیسٹ کا نظریہ واپس لیتاہوں اور اس تمام خرافات کو منٹو، عصمت، میراجی اور راشد کی اپنی ذاتی غلاظتوں کا آئینہ قرار دیتا ہوں۔
مثل مشہور ہے کہ بچھڑا کھونٹے کے بل کو دتاہے۔ ادب کا کھونٹا معاشرہ ہے۔ نئے ادب کی تحریک کو چلے ہوئے ابھی صرف چند سال کا عرصہ گزرا ہے۔ اگر یہ واقعی چند بیمار ذہنوں کی ذاتی گندگی ہے تو معاشرے کے صحت مند رجحانات کے سامنے اپنے آپ رستہ چھوڑ دےگی۔ ہمیں اپنے کھونٹے کی طرف لوٹنا چاہیئے۔
۱۹۳۶ میں ہندوستان کی کوئی جماعت ایسی نہیں رہ گئی تھی جس نے آزادی کامل کی قرارداد منظور نہ کر لی ہو۔ انڈین نیشنل کانگریس، مسلم لیگ، جمعیۃالعلمائے ہند، مجلس احرار، اس کے ساتھ ہی ہندوؤں اور مسلمانوں میں علاحدگی کارجحان ایک واضح صورت اختیار کرتا جا رہا تھا۔ ۱۹۴۰ میں مسلم لیگ نے پاکستان کی قرار داد منظور کر لی۔ اس سے ایک سال پہلے دوسری جنگ عظیم شروع ہو چکی تھی اور رفتہ رفتہ ساری دنیا اس کی لپیٹ میں آتی جا رہی تھی۔ مغرب میں جرمنی اور اٹلی، مشرق میں جاپان ظلم و تشدد اور ہوس اقتدار کے خونی بھیڑیوں کی صورت میں پورے عالم انسانیت کی طرف بڑھ رہے تھے۔ سب سے زیادہ خطرے اور اندیشے کی بات یہ تھی کہ نوجوانوں کا آئیڈیل روس بھی ان بھیڑیوں کے ساتھ تھا۔ لیکن اندیشے اور خطرے میں ایک پہلو امید کا بھی تھا۔ یہ جنگ بھیڑیوں ہی کی سہی مگر کیا تعجب ہے کہ سب بھیڑیے مل کر اس بھیڑیے کو کھا لیں جس نے ہندوستان کے دل پر اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔
انڈین نیشنل گانگریس کے مہاتما گاندھی کو شاید امید کی یہی کرن نظر آئی تھی جب انہوں نے اہنساکی لنگوٹی اتار کر انگریزوں کو اپنی پوری قوت سے للکارا کہ ہندوستان چھوڑ دو۔ مگر اب یہ تحریک خلافت والا ہندوستان نہیں تھا۔ اب ہندوستان کی ایک آواز نہیں تھی۔ گاندھی کی سیاست نے ہندوستان کے بہترین سپاہی کھو دیے تھے۔ دس کروڑ افراد کی وہ قوم جس نے ۱۸۵۷ میں اپنے خون سے ہندوستان کی آزادی کا پہلا منشور لکھا تھا، اب ہندوستان سے الگ ہونا چاہتی تھی۔ مسلمانوں کے بغیر اہنسا کے اس دیوتا کی آواز میں وہ قوت پیدانہ ہو سکی جو انگریزوں کو بھاگنے پر مجبور کر دیتی۔ کانگریس کے تمام لیڈر گرفتار کر لیے گئے اور بالآخر ہندوستان چھوڑو کی تحریک کا خاتمہ مہاتماجی کے برت پر اور برت کا خاتمہ وائسرائے سے رازونیاز پر ہوا۔
وائسرائے نے ایک وعدہ کیا کہ جنگ میں کامیابی کے بعد ہندوستان کو آزاد کر دیا جائےگا۔ مسلم لیگ پہلے ہی حکومت سے تعاون کا وعدہ کر چکی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد یہ دوسرا موقع تھا جب حاکم اور محکوم ایک مشترک مقصد پر متحد ہوئے۔ اسی دوران میں روس بھی اتحادیوں میں شریک ہو گیا۔ ہندوستان کے لیے یہ زمانہ بڑی امیداور جوش کا زمانہ تھا۔ نئے ادب کی تحریک معاشرے کی جن برائیوں کے خلاف صف بندی کے لیے شروع ہوئی تھی، و ہ خود بخود شکست کھاتی نظر آ رہی تھیں۔
اب جنگ ختم ہوگی اور آزادی ملے گی اور آزادی کے ساتھ ساتھ وہ قوتیں خودبخود پیچھے ہٹ جائیںگی جنہوں نے ہندوستان سے غداری کی ہے اور غداری کے صلے میں انگریزوں سے عہدے، زمینیں اور جاگیریں حاصل کیں۔ جوعوام کو لوٹ کر ملوں اور جاگیروں کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ جن کے دل محبت سے خالی ہیں اور روحیں کھوکھلی۔ نئے ادب کی تحریک اب آہستہ آہستہ ترقی پسند تحریک میں بدل رہی تھی۔
اس سے پہلے میں آ پ کے سامنے نئے ادیبوں کی ڈاکٹروں والی تھیوری نقل کر چکا ہوں۔ نئے ادیبوں کو اب گندے زخموں اور رستے ہوئے ناسوروں کو دیکھنے سے گھن آنے لگی تھی۔ ایک نئے روشن مستقبل کی امید میں ادیب اپنے آپ کو یہ یقین دلانا چاہتے تھے کہ معاشرے میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ اب ادیب ڈاکٹر کے بجائے لیڈر بننا چاہتا تھا۔ لیڈروں کی ضروریات ڈاکٹروں سے مختلف ہوتی ہیں۔ انہیں سب سے پہلے لوگوں کو خوش رکھنا پڑتاہے۔ ترقی پسندوں کو بھی یہی کرنا پڑا۔ انہوں نے سب سے پہلے متوسط طبقے کو خوش کیا۔
میراجی کی شاعری ان کی اپنی جنسی غلاظتوں کا آئینہ ہے۔
ن م راشد ذہنی طور پر مریض شاعر ہیں۔
منٹو کو موپساں اور ڈی ایچ لارنس کی تقلید نے تباہ کیا ہے۔
عصمت کی ٹیڑھی لکیر ان کی اپنی ناآسودہ جنسی زندگی سے پیدا ہوئی ہے۔
ترقی پسند اب مولانا ماہر القادری کی زبان بول رہے تھے۔ ’’نئے ادیبوں نے بڑی غلطیاں کی ہیں ہمیں ان کی غلطیوں کی اصلاح کرنی چاہیے۔ ادب سماجی اور سیاسی شعور کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اسے جنسی بھول بھلیوں میں مبتلا کر دینانہایت مریضانہ حرکت ہے۔ ہمیں پچھلی غلطیوں کا کفارہ اداکرنے کے لیے فوراً فحش نگاری کا سدباب کرنا چاہیے۔‘‘
’’فحش نگاری کا سدباب؟‘‘ مولانا حسرت اس نعرے پر چونک پڑے۔ یہ تو سر مکتوم والے حالی کی آواز تھی۔ حسرت اب بوڑھے ہو گئے تھے۔ اب ان کی عمر ستر کے قریب تھی مگر پھر بھی وہ کھڑے ہوئے، ’’یہ نعرہ غلط ہے۔ نوجوانوں پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔ یہ پابندی لگےگی تو ادب ختم ہو جائےگا۔‘‘
مضمون بہت طویل ہو گیا اور کہنے کے لیے میرے پاس اب کچھ نہیں رہا۔ پتانہیں جیت کس کی ہوئی۔ حالی کی یا حسرت کی؟ مجھے صرف اتنا معلوم ہے کہ ترقی پسندوں نے معاشی اور سیاسی نظریات کے بل پر جس صحت مند معاشرے کی تصویریں دکھانی شروع کی تھیں، اس نے ۱۹۴۶، ۴۷ میں ننگی عورتوں کے جلوس نکالے۔ ان عورتوں کے جلوس، جنھیں حالی نے ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کے روپ میں دنیا کی عزت کہا تھا۔ جنھیں حسرت نے بنت عم کے روپ میں چاہا تھا اور جن سے بات کرنے کا دوسرا نام غزل ہے۔ غالباً حالی نے جب غزل کے خلاف آواز بلند کی تھی تو اس میں عورتوں کا یہ انجام شامل تھا اور شاید تہذیب کا بھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.