بزرگوں کے ذکر میں شریک ہونا بڑی خوش قسمتی، بڑی سعادت ہے اور میں اس جلسے کے منتظموں کا بہت شکر گزار ہوں کہ ان کی بدولت مجھے اس کا ایک اور موقع ملا۔ مجھے سب سے پہلے ڈاکٹر ذاکر حسین مرحوم نے گرونانک کے بارے میں پڑھنے کی ہدایت کی اور پھر میں گروجی کی پانچ سو سالہ سال گرہ کی تقریبوں کے دوران میں جو کچھ معلوم کر سکا تھا، بیان کرتا رہا۔ اب دیکھتا ہوں کہ اس بیان اور ذکر کی وجہ سے دل اور دماغ کو ایک آزادی، ایک فرحت ملی ہے جو پہلے نصیب نہ تھی اور توحید الہی جو گرونانک کی تعلیمات میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور جس سے جپوجی کی ابتدا ہوتی ہے، دل میں نئی نئی کیفیتیں پیدا کرتی رہی ہے۔
ہمارے یہاں اب دل کا اور دل کی باتوں کا چرچا بہت کم ہو گیا ہے۔ عاشق بہت ہیں، معشوق بہت، مگر عشق اور اس کی لذتوں کے قدر شناس ڈھونڈے نہیں ملتے۔ بتوں اور بت پرستوں کے ہجوم ہر طرف نظر آتے ہیں، پرستش اور عبادت کے آداب بھلا دیے گئے ہیں۔ بزرگوں کا ذکر بھی ایک رسم ہے جسے ادا کرنے میں بہت سے لوگ شریک ہو جاتے ہیں، اس لیے کہ انہیں رسموں کو ادا کرنے کا شوق ہے یا اس میں کوئی فائدہ ہے، یا ان کے خیال میں اس سے قومی یک جہتی بڑھتی ہے۔
گھروں میں مذہب کی تعلیم نہیں دی جاتی۔ بچوں کو صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ ہندو ہیں یا سکھ یا مسلمان یا عیسائی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مذہبوں کا فرق تو باقی رہتا ہے مگر کوئی اپنے مذہب کو بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اسکولوں اور کالجوں کی تعلیم نے یہ خیال پھیلا دیا ہے کہ مذہب صرف مذہبی لوگوں کے لیے ہوتا ہے، جدید تعلیم یافتہ لوگوں کے لیے نہیں ہوتا۔ اب ہمارے پڑھے لکھے مذہبی رسمیں ادا بھی کرتے ہیں تو اس میں جو خلوص اور سچائی ہونی چاہیے وہ نہیں ہوتی اور تعلیم کا ہماری مذہبی زندگی پر کوئی اچھا اثر نہیں پڑتا۔
دوسری طرف وہ لوگ جو دل سے مذہبی ہیں، آج کل کی دنیا کے حالات اور نئے زمانے کی ضرورتوں سے واقف نہیں ہیں۔ لکیر کے فقیر بنے رہتے ہیں۔ علم اور مذہب آج کل کی زندگی میں کسی قسم کا ربط یا سمبندھ قائم نہیں کر سکتے۔ مگر شاید یہ زمانہ، جب ہر ایک اپنے طور پر گمراہ ہے، گرونانک کی تعلیمات کا پرچار کرنے کے لیے مناسب بھی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے، مذہبی لوگ اسے مانیں یا نہ مانیں کہ اب علم کا، سائنس کا راج ہے اور کوئی بات جو عقل کے خلاف ہو اب جی کو نہیں لگتی۔ گرونانک بھی اپنے زمانے میں ان عقیدوں اور رسموں کی تردید کرتے رہے جو عقل کے خلاف تھیں۔
آپ کو یاد ہوگا، وہ دورہ کرتے ہوئے ہر دوار تشریف لے گئے تھے اور ایک روز صبح کو انہوں نے دیکھا کہ لوگ دریا میں کھڑے منتر پڑھتے ہوئے سورج کی طرف سیدھے ہاتھ سے پانی اچھال کر پھینک رہے ہیں۔ گرونانک نے جاکر بائیں ہاتھ سے پچھم کی طرف پانی پھینکنا شروع کر دیا۔ ایک آدمی نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں وہی کر رہا ہوں جو تم کر رہے ہو۔ اس نے کہا ہم تو اپنے بزرگوں کی روحوں کی پیاس بجھانے کے لیے پانی دے رہے ہیں۔ آپ نے جواب دیا کہ اگر ایسا ہے تو میں اپنے کھیت کو سینچ رہا ہوں۔
اس نے ہنس کر کہا کہ یہاں سے پنجاب تک پانی کیسے پہنچ سکتا ہے۔ آپ نے جواب دیا کہ اگر یہ پانی میرے کھیت تک نہیں پہنچ سکتا جو کہ اس دھرتی پر ہے تو تمہارا پھینکا ہوا پانی تمہارے بزرگوں تک کیسے پہنچ سکتا ہے جو اس دنیا میں نہیں ہیں اور جنہیں اب بھوک اور پیاس کی تکلیف نہیں ہوتی۔ اور پھر انہوں نے لوگوں کو سمجھایا کہ خدا کو بھول جانا اور بے فائدہ رسموں میں پڑ جانا گمراہی ہے۔ یہ صرف گرونانک کی زندگی کا ایک واقعہ نہیں ہے، ہر وقت کام آنے والی بات ہے۔ چاہے ہم کوئی مذہبی رسم ادا کر رہے ہوں، چاہے دفتر میں بیٹھ کر تعلیم کے اور ترقی کے پلان بنا رہے ہوں، چاہے کتابیں پڑھ کر اپنا علم بڑھانے کی فکر میں ہوں، جو بات بھی عقل کے خلاف ہو، قدرت کے قانون کے خلاف ہو، وہ غلط ہے۔
یہی بات ہمیں مذہبوں کی تاریخ پڑھ کر معلوم ہوتی ہے۔ مذہبوں کی ترقی کا مطلب یہ ہے کہ عقل کے خلاف پیچیدہ اور الجھی ہوئی بات کو چھوڑ کر سادہ، صاف، سلجھی ہوئی بات کہی جائے، جسے عقل فوراً مان لے۔ صحیح اخلاقی تعلیم دی جائے اور خوف کی فضا پیدا کرنے کے بجائے انسان کے اپنے دل کو اور دل کی ان کیفیتوں اور حالتوں کو، جنہیں واردات قلبی کہا جاتا تھا، زندگی کے سدھار کا ذریعہ بنایا جائے۔ گرونانک کی عظمت، ان کی خوبیوں، ان کی شخصیت کے حسن کو بیان کرنے کے لیے کتابیں لکھی جا سکتی ہیں، لیکن ہمارے زمانے کی مناسبت سے خاص طور پر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ان کی تعلیمات میں مذہب اور صحیح انسانی زندگی دونوں اس طرح مل جاتے ہیں کہ انہیں الگ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
مثلاً ایک سدھ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ وہ اندرونی تبدیلی، وہ سچی شدھی جو ہمارا مقصد ہے کسی جگہ بھی حاصل ہو سکتی ہے، پر زیادہ امکان اس کا ہے کہ یہ تبدیلی سنیاس لینے والے میں نہ ہو، بلکہ اس میں ہو جو گرہست ہے، گھر بار کی پریشانیوں اور ذمہ داریوں میں مبتلا رہتا ہے اور ہر وقت گھر والوں کی خاطر اپنی خواہشوں کو دباتا اور اپنی ضرورتوں کو نظر انداز کرتا رہتا ہے۔ آج کل سنیاس لینے والے بہت کم ہیں اور گرہست قریب قریب سب ہی ہیں۔
آج کل کوئی کہے کہ صحیح مذہبی زندگی گرہست کی ہوتی ہے تو خیال نہ ہوگا کہ کوئی نئی بات کہی گئی ہے۔ مگر دوسری طرح سے دیکھئے تو یہ ہے ایک نئی بات، اور ایسی کہ جسے ہم بہت آسانی سے بھلا سکتے ہیں۔ آج کل آدمی خود بخود گرہست بن جاتا ہے، اس لیے کہ زندگی کا عام قاعدہ یہی ہے اور سب کے خیال میں مناسب بھی یہی ہے۔ مگر وہ شخص جو سوچ سمجھ کر، اسے ایک مذہبی فرض ہی نہیں بلکہ نجات کا صحیح راستہ سمجھ کر گرہست کی زندگی اختیار کرے، وہ گرونانک کی پیروی کرتا ہے اور اس کی حیثیت کچھ اور ہی ہوتی ہے۔
اسی طرح گرونانک کی تعلیمات میں انسان کی فطرت کو بھی اس کا حق دیا گیا ہے۔ اس میں عیب پیدا ہو سکتے ہیں۔ جیسے ہمارے کپڑے میلے ہوتے رہتے ہیں، بدن پر میل جمتا رہتا ہے اور ہم دونوں کو صاف کرتے رہتے ہیں، ویسے ہی آدمی کی فطرت میں بھی غرور، لالچ، نفرت اور دوسری طرح کی گندگی جمع ہو جایا کرتی ہے جس سے اس کو پاک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر انسان کو اپنی طبیعت پر ظلم نہ کرنا چاہیے، انسان کو ست کرتار نے بنایا ہے، اور اس لیے نہیں بنایا ہے کہ وہ اپنی صورت کو بگاڑتا، اپنی انسانیت سے انکار کرتا رہے۔ بے شک دنیا میں آکر انسان اپنے رب سے دور ہو جاتا ہے اور جیسا کہ مولانا روم نے فرمایا ہے،
ہر کسے کو دور مانداز اصل خویش
بازجوید روزگار وصل خویش
ہر آدمی جو اپنی اصل سے دور ہو جاتا ہے پھر وصل کے زمانے کو تلاش کرتا ہے۔ لیکن یہ وصل اپنی طبیعت کا، اپنی فطرت کا گلا کاٹ کر نہیں، اس کا توازن قائم رکھ کر، اس کی صحیح تربیت کر کے، اسے عشق کی تہذیب سکھا کر حاصل ہوتا ہے۔ یہی ہے سہج کی تعلیم کہ آہستہ چلو، چلتے رہو، چلتے رہو، منزل کے جتنے قریب پہنچو گے، راستہ آسان ہوتا جائےگا، یہاں تک کہ تم کہوگے،
منزلیں عشق کی آساں ہوئیں چلتے چلتے
اور چمکا ترا نقش کف پا آخر شب
یہ سہج کی تعلیم سائنس اور تجربے کے مطابق تندرستی کی، سلامت روی کی تعلیم ہے۔ قدرت کے دستور کے اس قدر قریب کہ یہ اس سے الگ نہیں کی جا سکتی اور یہی اس تعلیم کی سچائی کا ثبوت ہے۔ زندگی کے بارے میں گرونانک کے تین اصول یا تین ہدایتیں ہیں۔ کرت کرو، نام جپو، ونڈچھکو۔ ان کی مصلحت پر غور کیجئے۔ زندگی کا دارومدار اس محنت پر ہے جس سے ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کچھ حاصل ہو۔ اناج کی ضرورت کسان پوری کرتا ہے، کپڑے کی جولاہا، مکان کی راج یا معمار۔ مزدور، صنعت پیشہ لوگ، کارخانے چلانے والے، کاروبار کرنے والے سب ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔
استاد، علمی کام کرنے والے سائنسدان، انجینئر سب کے لیے کرت کرو کی ہدایت ہے اور جو اپنا کام مستعدی سے، ایمانداری سے اور اچھے سے اچھا نہ کرے تو اس پر الزام آتا ہے کہ اس نے اس ہدایت پر عمل نہیں کیا۔ مگر انسان کے لیے ضرورتیں پوری کرنا کافی نہیں ہے۔ وہ ضرورتیں پوری کرنے کی فکر میں لگ جائے، اونچے معیار زندگی (HIGH STANDARD OF LIVING) کے پھیر میں پڑ جائے تو ضرورتوں کی کوئی انتہا نہیں رہتی، وہ اپنی خواہشوں کا غلام بن جاتا ہے اور خواہشیں اسے ایسے چکر میں ڈال دیتی ہیں کہ وہ اپنے فائدے کے لیے دوسروں کو نقصان پہنچانے لگتا ہے۔
قومیں ایک دوسرے سے لڑتی ہیں، ایک دوسرے کو تباہ و برباد کرتی ہیں، اپنی صنعت و تجارت کو فروغ دینے کے لیے اپنی اور دوسروں کی انسانیت کو مٹاتی ہیں۔ اس لیے شروع ہی سے محبت کرنے والے کے دل اور دماغ کو صحیح راہ پر لگا دینا چاہیے۔ گرونانک کی دوسری ہدایت، نام جپو، کا مقصد یہی ہے۔ محنت کرنے والے کو برابر یاد رکھنا چاہیے کہ وہ خدا کا بندہ ہے، اس کی محنت اپنے لیے نہیں، خدا کے لیے ہے اور اس کی محنت کو بار آور کرنا خدا کے ہاتھ میں ہے۔ یہ بات اس کے دل میں بیٹھ جائےگی تو محنت سے اس کو جو کچھ حاصل ہوگا اسے وہ اپنا ہی نہ سمجھےگا، اس کا ایک حصہ دوسروں کو بھی دےگا۔ اس کا یہ دینا خیرات نہ ہوگا، اس کی وجہ سے فقیر نہ پیدا ہوں گے، سماج دولت مندوں اور ناداروں میں تقسیم نہ ہو جائےگا۔
اور میں سمجھتا ہوں کہ ’’ونڈچھکو‘‘ کی ہدایت ہر قسم کا کام کرنے والوں کے لیے ہے۔ جس کے پاس کھانا بانٹ کر کھانے کو ہے وہ کھانا بانٹ کر کھائے، جس نے کوئی علم حاصل کیا ہے وہ اس علم کو دوسروں تک پہنچا ئے۔ کسی انسان کو کوئی نعمت جو اسے ملی ہے، اپنے پاس ہی نہ رکھنا چاہیے، یہ سمجھ کر کہ کہ اس کی اپنی محنت کا نتیجہ ہے اور محنت کرنے کے ساتھ وہ خدا کا نام لینے، نام جپنے کی ہدایت پر عمل کرتا رہا ہے۔ ’’ونڈچھکو‘‘ کی ہدایت کا منشا یہ ہے کہ ہر آدمی کا سماج سے رشتہ قائم رہے، اس کی محنت، اس کی عبادت اس کے اپنے لیے نہ ہو، پورے سماج کے لیے، ہر انسان کے لیے ہو۔ پھر بھی یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ یہاں کون سی نرالی، انوکھی بات بتائی گئی ہے۔
گرونانک کی تعلیمات کی خوبی اسی میں ہے کہ ان میں نرالی، انوکھی باتیں جو روزمرہ کے تجربے سے دور یا عقل کے خلاف ہوں اور انسان کو قدرت کے مقرر کیے ہوئے صحیح راستے سے ہٹائیں، نہیں ملتی ہیں۔ ان تعلیمات کو سامنے رکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ کٹر، ضدی، فسادی آدمی مذہبی نہیں ہو سکتا، وہ تعلیم صحیح مذہبی تعلیم نہیں ہے جو محنت کے کاموں کی یامحنت کرنے والے کی قدر گھٹائے یا انسان کو اپنی نجات کی فکر میں ڈال کر سماج اور سماجی ذمہ داریوں سے الگ کر کے کسی کونے میں بٹھائے۔
دراصل یہ ان راستوں میں سے جن پر انسان ہزاروں برس تک چلنے کی کوشش کرتا رہا ہے، اس راستے کا انتخاب ہے جس پر وہ سب سے زیادہ آسانی سے، سب سے زیادہ دور تک اور دیر تک چل سکتا ہے، وہ راستہ جسے ان تمام لوگوں نے اختیار کیا جن کی طبیعتوں میں سماجی حالات نے بگاڑ نہیں پیدا کیا اور جو اس توفیق سے کام لے سکے جو خدا کی طرف سے سبھی کو عطا ہوئی ہے۔ یہ مساوات کا، جمہوریت کا، بھائی چارہ کا راستہ ہے۔ اسی راستے پر چلنے والے سماج میں وہ سچے رہنما نمودار ہو سکتے ہیں جن میں کام کی، سماج کی، خدا کی لگن ہو، جو سورج کی کرنوں کی طرح اناج کو پکائیں اور پھولوں میں رنگ بھریں۔
اس کے باوجود اگر کسی کو خیال ہو کہ گرونانک کے ان تین اصولوں میں کوئی نرالی بات نہیں ہے، وہ دیکھ لے کہ اس وقت ہمارے ملک کے تعلیم یافتہ لوگوں میں، سرکاری اور غیرسرکاری دفتروں کے ملازموں میں، حکومت کرنے والوں اور حکومت کرنے کے امیدواروں میں کتنے ہیں جو کام کو فرض سمجھتے ہیں اور کام کو سلیقے اور ایمانداری سے نہ کرنے کو ایسا گناہ مانتے ہیں جس کی سزا دی جائےگی۔ اور لطف یہ ہے کہ آج کل سرکار کی طرف سے کام کرنے کا حکم دینے والا بھی کوئی نہیں ہے، کام کا جمع خرچ زبانی ہوتا ہے، یا ایسی رپورٹوں میں ملتا ہے جن پر کوئی اعتبار نہیں کرتا۔
ہمارے لیے تو محنت کرنے کا حکم گرونانک کے زمانے کے مقابلے میں اور بھی زیادہ ضروری ہے۔ اس لیے کہ ہم ملک کی ترقی کے پلان بناتے رہتے ہیں، جن کا مناسب نتیجہ نہ نکلے تو دنیا میں ہماری بڑی بےعزتی ہوتی ہے۔ دوسرے اصول پر، کہ نام جپو، یعنی خدا کا ذکر اس طرح کرو کہ اس کا نام دل پر نقش ہو جائے، کون عمل کرتا ہے؟ہماری حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہے، اسکولوں اور کالجوں میں مذہبی تعلیم نہیں دی جاتی، ڈر یہ ہے کہ ہم خدا کا نام لیں گے تو آپس میں لڑائی ہو جائےگی۔
آپس کی لڑائیاں تو کسی نہ کسی بہانے سے ہوتی رہتی ہیں۔ ایسی لڑائیاں بھی جن میں بالکل بے قصور لوگ لٹتے اور مارے جاتے ہیں اور ایسی نفرت بھی بے دھڑک پھیلائی جاتی ہے جس کا سبب مذہبی اختلاف ہوتا ہے۔ لیکن اچھے اور پڑھے لکھے شہری کے لیے مناسب یہی سمجھا جاتا ہے کہ وہ خدا کا نام نہ لے، خدا کی مرضی کو اپنے کاموں میں دخل انداز نہ ہونے دے۔ جب کوئی اپنے آپ کو خدا کا بندہ نہ مانے تو وہ دوسروں کو خدا کے بندے اور خود کو اس کی طرح زندگی کی نعمتوں کا حق دار کیسے مانےگا۔ سبھی چاہیں گے کہ جو کچھ جس طرح سے سمیٹ سکیں سمیٹ کر اپنے پاس رکھیں، نہ پڑوسی کو اس کا حصہ ملے نہ سرکار کو انکم ٹیکس۔
اسی وجہ سے آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب بازار میں کسی مال کی کمی کا اندیشہ ہوتا ہے توسب کو شش کرتے ہیں کہ ضرورت سے کچھ زیادہ ہی خرید کر رکھ لیں۔ نرالی اور انوکھی باتیں تلاش کرنا ایسے پڑھے لکھے لوگوں کا چونچلا ہے جو صرف دلچسپی چاہتے ہیں، جی بہلاتے ہیں، بحث کرتے ہیں، ان کا خیال نہ کیجئے۔ ’’کرت کرو، نام جپو، ونڈچھکو‘‘ کے اصولوں کو برت کر دیکھئے۔ ان میں آپ کو ہر قدم پر ایک نئی اور نرالی مصلحت نظر آئےگی۔ یہ کسی عالم کے دعوے نہیں ہیں، ایک ایسے خدارسیدہ بزرگ کی ہدایتیں ہیں جس کی نگاہ میں صرف اپنا زمانہ نہیں، ہر زمانہ تھا۔
میں نے گرونانک کا ذکر ان باتوں سے اس لیے شروع کیا کہ وہ ہر شخص، ہر سماج، ہر زمانے کے لیے مناسب اور صحیح ہیں اور ان پر بہتر سے بہتر زندگی کی بنیاد اور بہت مضبوط بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ میرے نزدیک اس کے بعد ہمیں سادھ سنگت کے تصور پر غور کرنا چاہیے۔ اس کا ایک پہلو تاریخی ہے۔ ہم اس کا ذکر کر سکتے ہیں کہ اس سادھ سنگت میں کون لوگ شامل تھے اور ان کی زندگی اور عبادت کا طریقہ کیا تھا۔ لیکن سادھ سنگت کا خیال ایک زمانے کے لیے نہیں تھا، ہر زمانے کے لیے ہے، آج کل کے لیے بھی ہے۔ اس میں مختلف ملکوں کے، مختلف مذہبوں کے لوگ شریک ہو سکتے ہیں جو ایک خدا کو مانتے ہیں۔ کرت کرو، نام جپو، ونڈچھکو کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں، دوسرے انسانوں سے محبت اور ہمدردی اور ان کی خدمت کا شوق رکھتے ہیں اور بغیر کسی خاص تنظیم، کسی خاص سنگٹھن کے ایک دوسرے کا سہارا لینا چاہتے ہیں۔
سادھ سنگت کسی ایک زمانے کے لوگ ہی قائم نہیں کرتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ ہر زمانے کے لوگ ان تمام نیک اور پاک لوگوں سے، جو گذر چکے ہیں صحبت کا تعلق پیدا کریں کہ ان بزرگوں سے فیض حاصل ہو۔ ان کے بارے میں صرف کتابوں میں نہ پڑھا جائے بلکہ انہیں زپنے زمانے میں موجود سمجھا جائے۔ آپ سوچئے کہ اگر ہم بجائے یہ پھیکی سی بات کہنے کے کہ سب مذہب سچے ہیں اور ان کی تعلیمات میں کوئی بنیادی فرق نہیں، صحیح دینی اور اخلاقی زندگی کی مثالوں کی، یعنی دنیا کے تمام دینی رہنماؤں کو ایک سادھ سنگت مانیں، اور خود اس سنگت میں شامل ہونا چاہیں تو اس سے ہمارے خیالات اور ہمارے آپس کے تعلقات پر کتنا اچھا اثر پڑےگا اور ہماری زندگی میں کتنی صفائی اور خوبصورتی پیدا ہو جائےگی۔
مجھے معلوم نہیں کہ سنگت کے بارے میں میرا جو خیال ہے وہ سکھ عقیدوں کے مطابق ٹھیک ہے یا نہیں، بہر حال میں نے جو بیان کیا ہے وہ بھی اس کا ایک مطلب ہو سکتا ہے جو اصل مطلب کے خلاف نہ ہوگا۔ البتہ یہ میں مانتا ہوں کہ سادھ سنگت میں شریک ہونے اور خدا کے حضور تک پہنچنے کے لیے گرو کی رہنمائی ضروری ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ گرو ایک بہت پرانا شبد ہے اور عام استعمال میں اس کے کئی معنی ہیں۔ ایک بہت نالائق استاد کو شریف طبیعت کا طالب علم گرو کہہ سکتا ہے اور ممکن ہے ایک بہت بڑا ظالم، وِدوَان اس قابل نہ ہو کہ اسے گرو کہا جائے۔
گرو سے مطلب شیخ یا پیر بھی لیا جا سکتا ہے جو ا پنے مرید کی رہنمائی کرتا ہے اور یہ بھی گرو کے ایک معنی ہیں۔ گرونانک کی تعلیمات میں یہ لفظ بڑی اہمیت رکھتا ہے مگر مجھے افسوس ہے کہ جو کتابیں میں نے پڑھیں ان سے یہ صحیح صحیح معلوم نہ ہو سکا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ غالباً اس کے ایک معنی ہیں توفیق الہی، یعنی وہ خاص صلاحیت، وہ استعداد، یا کہیے وہ بصیرت، وہ تڑپ، دل کا وہ نور جو خدا کی طرف سے انسان کو ملتا ہے اور اسے اس قابل بنا سکتا ہے کہ خدا کی ذات میں فنا ہو جانے کی آرزو کرے اور اس آرزو میں بالکل گم ہو جائے۔
یہ توفیق گرونانک کو بے حساب ملی تھی، مگر خدا کے ہر بندے کو کسی نہ کسی حد تک، کسی نہ کسی شکل میں ضرور ملتی ہے۔ یہ توفیق ہمارے جیسے انسانوں کو اس طرف مائل کرتی ہے کہ اپنے سے بہتر انسان تلاش کریں اور ان کی پیروی کریں، ان کے پیچھے چلیں۔ یہی توفیق ہمیں ایک رہنما سے دوسرے تک پہنچا سکتی ہے۔ کیا تعجب ہے کہ یہ ہمیں گرونانک تک پہنچا دے اور ہم شاعر کی طرح کہہ سکیں،
وہ آئے بزم میں اتنا تو میر نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
ہمارے لیے یہ سوچنا کہ خدا کے یہاں گرونانک کا کیا مرتبہ تھا، صرف اپنی عقل کو حیران کرنا ہے اور اس میں یہ ڈر بھی ہے کہ ہماری زبان کہیں سے کہیں پہنچ جائےگی اور ہمارا دل اسی دال روٹی کی دنیا میں پڑا رہ جائےگا۔ ہمیں سوچنا تو یہ چاہیے کہ ہمارے یہاں، ہمارے دلوں میں، ہماری زندگیوں میں گرونانک کا کیا مقام ہے۔
کیا ہم بچپن میں اور لڑکپن میں، ماں باپ کا ویسے ہی ادب کرتے ہیں جیسے کہ انہوں نے کیا تھا۔ کیا ہم میں نیک کام کرنے کی ویسی ہی ہمت ہے، کیا ہم غریب کی حلال کی کمائی کی ویسی ہی قدر کرتے ہیں جیسے انہوں نے لالو بڑھئی کی کی تھی۔ کیا ہم امیر کی دعوت قبول کرنے سے اسی طرح انکار کر سکتے ہیں جیسے انہوں نے ملک بھگو کی دعوت قبول کرنے سے انکار کیا تھا، اس لیے امیر کی دولت دوسروں کی محنت سے،، دوسروں پر ظلم کرکے حاصل ہوتی ہے۔ کیا ہم ان کی طرح خلوص سے کہہ سکتے ہیں کہ کوئی ہندو نہیں ہے، کوئی مسلمان نہیں ہے، یعنی سب خدا کے بندے سب میرے بھائی ہیں۔ کیا ہم انہیں کی طرح خدا کا پیغام ہر جگہ پہنچا نے کے لیے تیار ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ،
رشتۂ در گرد نم افگندہ دوست
می برد ہر جا کہ خاطر خواہ اوست
یعنی میرے دوست میرے خدا نے میرے گلے میں رسی باندھ دی ہے اور اس کا جہاں جی چاہتا ہے مجھے لے جاتا ہے۔ کیا ہم میں کسی قسم کی سادھ سنگت قائم کرنے کی لگن ہے، جس کا مقصد خدا کی عبادت کرتے ہوئے نیک اور مفید زندگی بسر کرنا ہو؟گرو کا درشن چھوٹا دل اور مٹھی بھر حوصلے نہیں دلا سکتے۔ گروتک ہمیں صرف وہ عشق پہنچا سکتا ہے جو ہمیں ان کے خیال میں محور کھے، ان کی نیک اور پاک شخصیت میں فنا ہو جانے کی آرزو میں ڈبودے اور شاعر کی طرح ہم بھی کہنے لگیں،
رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے
سانس کی طرح سے آپ آتے رہے جاتے رہے
گرو اور خداکا رشتہ بیان کرنے کی طاقت میری زبان میں نہیں، شاید یہ ایک ایسے اونچے مقام کی بات ہے جہاں ہم پہنچ نہیں سکتے۔ گرونانک کی کامل شخصیت کی تصویر کھینچنا بھی ہمارے بس میں نہیں ہے۔ شیخ ابو سلیمان دارانی نے یہ بتانے کے لیے کہ صوفی کس کو کہتے ہیں، فرمایا تھا کہ صوفی وہ ہے جس پر ایسی حالتیں گذرتی رہیں جن کا علم صرف خدا کو ہوتا ہو اور خداہی جانتا ہو کہ وہ اس کے حضور میں رہتا ہے تو کیسے رہتا ہے۔ گرونانک نے اپنے کو نہ پیغمبر کہا تھا اور نہ اوتار، ہم انہیں پیغمبر یا اوتار کہیں تو ہم ایسے مذہبوں کی اصطلاحیں قرض لیں گے، یعنی ایسے مذہبوں کی نقل کریں گے جوان کے مذہب سے الگ ہیں۔ یایوں کہیے کہ ایک ملک کے سچے بادشاہ کو دوسرے ملکوں کا شاہی لباس پہنائیں گے۔
گرونانک تو گرونانک تھے اور ان کا ست کرتار سے اپنا جدا معاملہ تھا۔ اس معاملے کی کیفیت کا اندازہ ان کے مقدس کلام سے کیجئے۔ ان کے عشق کی ایسی شدت کو دیکھیے کہ ہم میں، جن کے لیے یہ عشق ایک سنی سنائی بات ہے، وجد کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ ان کی نظر کو دیکھیے کہ دیہات اور کسان کی زندگی، گرمی کی تپش اور برسات کی بھیگی رات، عورتوں کے سنگھار اور بیوی اور شوہر کی جدائی غرضیکہ روزمرہ کی ان معمولی باتوں میں وہ حسن تلاش کر لیتی ہے جو خدا تک پہنچنے کی تڑپ پیدا کر دیتا ہے۔
ان کے اس بے پناہ درد کو دیکھیے جو سب کی مصیبتوں کو اپنا لیتا ہے اور انہیں خدا سے شکایت کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ان کے اس سکون کا کچھ اندازہ کیجئے جو سب کچھ خدا کی مرضی پر چھوڑ دینے سے ان کو حاصل ہوا تھا۔ گویا اپنے دل کے آئینے کو اتنا صاف کیجئے اور اتنا صاف کرتے رہیے کہ اس میں گرونانک کی کامل شخصیت کا تھوڑا بہت عکس اتر آیا کرے، اور غالب کا یہ شعر پڑھتے رہیے،
خبرنگہ کو، نگہ چشم کو عدو جانے
وہ جلوہ کر کہ نہ میں جانوں اور نہ تو جانے
کیا اچھا ہو اگر ہم اس مبارک موقعے پر گرونانک کی پیروی کا شوق تازہ کریں، محبت اور خدمت کی زندگی گذارنے کا پکا ارادہ کریں اور اپنے دلوں کو سچے معبود، ایک اونکار، ست نام کی عبادت کے سوا ہر ایک خیال سے پاک کرنے کی کوشش میں لگ جائیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.