حالی کا نقطۂ نظر
حق نہ ملا نے کچھ بتایا صاف
اور نہ صوفی نے کچھ دکھایا صاف
آنکھ اپنی ہی جب تلک نہ کھلی
مہر روشن نظر نہ آیا صاف
زاہد وہم تو تھے ہی آلودہ
تم کو بھی ہم نے کچھ نہ پایا صاف
کیوں فقیہوں سے رک گئے حالی
بھید تم نے نہ کچھ بتایا صاف
اس چھوٹی سی غزل میں ملا اور صوفی کے ’’روبرقفا‘‘ بیٹھے رہنے کی داستان حالی کی روشن ضمیری اور ان کا فقیہوں کے خوف سے کھل کر بات نہ کہنے کا اعتراف سبھی کچھ موجود ہے۔ لیکن یہ انداز بیان انکسار سے خالی نہیں۔ حالی نے اس راز سربستہ کا انکشاف کیا جو ہماری تاریخ میں بارہا لبوں تک آیا لیکن دارورسن کی آزمائش نے اسے عام ہونے کی اجازت نہ دی۔ وہ رازبے خودی سے خودی میں آنے، جبر سے نکل کر اختیار کی منزل میں قدم رکھنے اور ’’زخم تیغ عشق‘‘ کو’’عمر جاوداں‘‘ میں بدل دینے کا راز تھا اور یوں تو اس راز سربستہ کو منکشف کرنے کی تمنا اور’’انتظار‘‘ بہتیروں کو تھا، دیر سے انتظار ہے اپنا۔
لیکن یہ سعادت اردو شعراء میں بجز حالی کے اور کسی کو نصیب نہیں ہوئی۔ حالی کی یہ خودی منفصل مادہ کا اتصال نونہ تھا بلکہ اس کا وہ نیا وجود تھا جو لوہے کو تیرنے، لفظوں کو پرواز کرنے اور آواز کو سوئی کی نوک پر گنگنانے کی تعلیم دے رہا تھا۔ وہ نیا مادی وجود یا وہ نیا انسان مشرق سے نہیں بلکہ مغرب سے اٹھا تھا۔ کلیسا کی روحانیت اور مطلق العنان شاہیت کے جبڑے کو توڑ کر اپنے اس عقیدے کو باطل کرکے کہ ہمارا وجود کسی ازلی گناہ کا مرہون منت ہے اور ہماری صفات حقیقی نہیں بلکہ خالق کی صفات سے مستعار ہیں۔ اس نئے آدم نے حالی کے سینے میں ایک در کھولنا چاہا تاکہ ایک نئے آفتاب کو اچھال سکے۔ لیکن ایشیا کا فرسودہ نظام، اس کا ’’روح خوردہ‘‘ جسم جو ’’غبار ناتواں‘‘ میں تبدیل ہو چکا تھا، اس وقت تک اس روشنی سے بھرپور طور پر مستفید ہونے کا اہل نہ تھا۔ یہی سبب ہے کہ حالی فقیہوں سے ڈرے اور سہمے رہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ انہیں اقرار ’’وجود آدم‘‘ کے گناہ کا اعتراف نہ رہا،
مسلماں نہ ہم کاش حالی کو کہتے
ہوئے بات کہہ کر گہنگار واعظ
بات تلخ ہے۔ جب تلخی حیات موت سے دوچار ہو جائے تو پھر کہے بغیر چارہ بھی نہیں رہتا۔ معلوم نہیں کیا بات ہے۔ یا تو ہماری قوم اپنے محسنوں کو پہچاننا نہیں چاہتی یا پھر وہ محسن فراموش واقع ہوئی ہے۔ بہر حال ان میں جو بھی حقیقت ہو وہ بالعموم انہیں کا دامن پکڑتی ہے جو انہیں ماضی کا منظر دکھاتے ہیں اور ان کی طرف سے سخت بدگمان رہتی ہے جو آگے بڑھنے کا راستہ بتاتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب کہ لو گ حالی سے بہت بدگمان تھے اور گو اب وہ اگلی سی بدگمانی نہیں لیکن حالی کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش اب بھی کمزور ہے۔ اور اگر میں اس کمزوری کو محسوس نہ کرتا تو ان کے نقطہ نظر کی وضاحت کی بجائے ان کی شاعری کو موضوع سخن بناتا۔
حالی کا نقطہ نظربہت ہی اہم ہے۔ وہ ایک ایسا چراغ ہے جس سے نئی پود کے سارے ترقی پسند مصنفین نے اکتساب نور کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کی وجہ سے نئے لکھنے والوں کی آواز زیادہ بے باک اور ان کی تحریروں میں انسانی قدروں کے تحفظ کا زیادہ جوش و خروش ہے۔ تاہم مجھے یقین ہے کہ اگر غریبوں کا دستگیر، مظلوموں کاہمدرد اور انسانیت کا نقیب حالی آج موجود ہوتا تو اپنے اس شعر کی ایک نئی تفسیر پیش کرتا اور ایک نئے انداز میں نغمہ سنج ہوتا،
علم کیا اخلاق کیا ہتھیار کیا
سب بشر کو باز رکھنے کے ہیں ڈھنگ
یہ شعر اس حالی کا ہے جو اپنے وقت کے مذاق کے مطابق صرف علم ہی کو انسانیت اور حیوانیت کے درمیان وجہ امتیاز تصور کرتا۔ لیکن جب اس نے شیکسپئر کی طرح مرچنٹ آف لنکا شائر کا بغور مطالعہ کیا تو وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ اس کی قزاقی ہلاکو اور چنگیز کی غارت گری سے مختلف نہیں۔ فرق یہ ہے کہ ہلاکو اور چنگیز کے ہتھیار معمولی دھات کے تھے۔ لیکن ان کے ہتھیار دوسرے ہیں۔ وہ مارکٹ کے جال میں پھیلے ہوئے ہیں۔ حالی مداح تھا اس تجارت کا جس نے انسانی علوم کو فروغ دیا۔ لیکن وہ دشمن تھا اس تاجر کا جو اپنے طبقاتی اور ذاتی مفاد کی خاطر انسانیت کی خوں ریزی کرتا ہے۔ حالی کا نقطہ نظر اسی حقیقت کے دونوں پہلوؤں کی ترجمانی میں مضمر ہے جس کی وضاحت کے لئے یہ ضروری ہے کہ حالی کے ماحول اور عہد کوسامنے رکھا جائے۔
خواجہ الطاف حسین حالی ۱۸۳۷ء میں پیدا ہوئے لیکن صحیح معنوں میں اپنے سن شعور کو ۱۸۵۷ کے ہنگاموں کے بعد پہنچے۔ حالی نے اس بغاوت کے معرکوں میں مغرب کی خود بخود چلنے والی بندوق اور دخانی کشتیوں کو مشرق کی توڑ ے دار بندوق اور بادبانی کشتیوں سے جنگ کرتے ہوئے دیکھا۔ ایشیا کی مطلق العنان شاہیت کے غیر منظم جاں نثاروں کو مغرب کی آئینی شاہیت کے آزاد انسانوں سے دست و گریباں پایا۔ حالی نے مفلوک الحال کسانوں، تباہ حال دست کاروں اور بےروزگار شرفا کو اپنے عیوب سے بے خبر، اپنی تباہی و بربادی کے لئے مغرب کا شکوہ سنج دیکھا۔
اس نے مختلف نظام تعلیم کی باہمی چشمکیں بھی دیکھیں، علوم مشرق، طبیعیات تاریخ و جغرافیہ سے بے بہرہ، کو پرنیکس، گلیلیو اور نیوٹن کی تعلیمات سے نا آشنا، ہمارے مدرسین تو صرف علم الکلام اور الہیات پر نازاں تھے۔ مشرق کو یہ بھی علم نہ تھا کہ جس ارسطو کو وہ معلم اول سمجھتا تھا اسے مغرب رد کر چکا تھا۔ اس ماحول میں ہمارے صوفیاء کرام کو جو کبھی یونانی علوم کے مبلغ رہ چکے تھے، یونانی فلسفے سے صرف افلاطون کا درس یاد رہ گیا تھا،
مدرسے میں دہر کے روبرقفا بیٹھے تھے ہم
اٹھے بس ویسے ہی کورے جیسے جا بیٹھے تھے ہم
شیخ دنیا کی حقیقت رہ کے دنیا میں کھلی
ورنہ دھوکا دور سے دیکھ اس کو کھا بیٹھے تھے ہم
حالی
یہاں ’’روبرقفا‘‘ اشارہ افلاطوں کے اس فلسفے کی طرف ہے جسے اس نے اپنی ’’جمہوریہ‘‘ میں ایک حکایت کے ذریعہ دنیا کو حقیقت کی پرچھائیں بتایا ہے۔) حالی کی نگاہ دور رس نے اس نئے اور پرانے کی جنگ میں اور بھی مظاہر دیکھے جو بظاہر چھوٹے لیکن اپنے نتائج میں بہت ہی عظیم تھے۔ انہوں نے بیل گاڑی کو انجن سے ٹکراتے، ہرکارے کو بجلی کے کھمبوں سے الجھتے اور مٹی کے دیے کو گیس سے جلتے دیکھا۔
حالی کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔ ان کے والد پرمٹ کے سر رشتے میں معمولی محرر تھے۔ ان کے پاس نہ تو دولت تھی اور نہ جاگیر، چنانچہ یہی سبب ہے کہ انہیں جدید کو قبول کرنے میں کسی قسم کا طبقاتی پس وپیش حائل نہ رہا، لیکن وہ اس شعور کے اظہار کے لئے ایک رہبر اور اس تعلیم کے منتظر تھے جن کی مدد سے وہ ان مظاہر کی حقیقت تک پہنچ سکتے۔ حالی کو وہ رہبر سرسید کی ذات میں ملا اور علم حقیقت نگر مغربی علوم وفنون میں۔ جب روشنی کے یہ دونوں دھارے حالی کی شخصیت میں اتر پڑے تو وہ خوشی سے مسکرا اٹھے، کچھ اپنے آپ کو پائے، جانے تو خود رفتگی شب سے نجات حاصل کرنے کی خوشی میں۔
حالی ان لوگوں میں نہ تھے جو نئی روشنی سے بدک جاتے۔ لاحول پڑھ کر اپنا کفر دور کرتے۔ اس کے برعکس وہ سچے حقیقت نگر کی طرح مغربی علوم کی مشعل لے کر اسلامی تاریخ کے اہرام میں درآئے۔ کچھ اپنے ماضی کو اپنایا تو کچھ اسے چھوڑا بھی۔ ان روایات کو ترک کیا جو زندگی کو غیر حقیقی اور مادی علوم کو بےکار بتاتیں اور انہیں اپنایا جنہوں نے تاریکی اور جہل کی خلاف بغاوتیں کی تھیں۔ کہیں کچھ باتیں نص قرآنی اور روشن خیال مفسرین کی مدد سے بتلائیں تو کہیں یہ بھی کہا کہ تمام باتیں قرآن مجید کے الفاظ سے سمجھائی نہیں جا سکتی ہیں۔ ملاحظہ ہوان کے ایک مضمون کا اقتباس۔
’’یونانی علوم زیادہ ترمحض قیاسات پر مبنی تھے۔ اس لئے جو شبہات ان سے مذہب کی نسبت پیدا ہوئے ان کے دفعیہ کے لئے (لانسلم) کہہ دینا کافی تھا۔ مگر اس زمانے میں علم کی بنیاد تجربہ اور مشاہدہ اور استقراء (INDUCTION) پر رکھی گئی ہے۔ اس لئے جو شکوک اب مذہب کی نسبت پیدا ہو سکتے ہیں وہ صرف (لانسلم) کہہ دینے پر رفع نہیں ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ ممکن ہے کہ آئندہ کوئی ایسا زمانہ آئے کہ زمانہ حال کے اکثر مسلمات غلط ثابت ہو جائیں، لیکن چونکہ حال کی تحقیقات کا مدارظنی اور قیاسی باتوں پر نہیں بلکہ تجربے اور مشاہدے پر ہے، اس لئے بہت ہی کم احتمال اس بات کا ہے کہ جو علوم سائنس کے درجے کو پہنچ گئے ہیں ان میں آئندہ کسی قسم کی تبدیلی ہو۔ پس جو باتیں قرآن میں بظاہر زمانہ حال کی تحقیقات کے خلاف معلوم ہوتی ہیں جب تک کہ ان کی تحقیقات کو غلط نہ ثابت کیا جائے، ضرور ہے کہ یا تو قرآن کو حقائق محققہ کے برخلاف تسلیم کریں یا اس کے ایسے معنی بیان کریں جو زمانہ حال کی تحقیقات کے خلاف نہ ہوں۔‘‘
(قرآن مجید میں اب نئی تفسیر کی گنجائش باقی ہے یا نہیں)
یہاں شمس العلماء خواجہ الطاف حسین حالی اپنے کو اشاعرہ اور امام غزالی کے فلسفے سے علیحدہ کر لیتے ہیں۔ وہ مسلمانوں کو سائنس اور فلسفے سے خوفزدہ نہیں کرتے بلکہ ان کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں حالی کا یہ رویہ تھا کہ دینی علوم کو مبدء اور معاد کی جستجو تک محدود رکھنا چاہئے اور دنیاوی امور کو حل کرنے کے لئے سائنس کو اپنانا چاہئے۔ حالی کا یہ مطمح نظر اپنے تاریخی حدود کے باوجود انسان کو اس کی اختیاری اور تخلیقی صفات سے آراستہ کرتا ہے اور اس قسم کے جاگیردارانہ نظام کے ہر ایک فلسفے کی تردید کرتا ہے جو انسان کو مجبور محض یا مجہول تصور کرتا اور یہ انہیں کی جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ ان کی وفات کے چند ہی سال بعد علامہ اقبال کو انسان کے اس نقطہ نگاہ کے دہرانے میں مدد ملی،
تو شب آفریدی چراغ آفریدم
توگل آفریدی، ایاغ آفریم
اب دیکھئے کہ حالی نے خود اپنے اس نقطہ نگاہ کی وضاحت کیوں کرکی ہے، ’’بس اس میں شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ جس طرح عالم کا موجود ہونا یقینی ہے اسی طرح ہمارے افعال کا اختیاری ہونا یقینی ہے۔ اگر ہم اپنے افعال میں ایسے ہی مجبور ہوں جیسے جمادات مجبور ہیں تو تمام تکلفات شرعیہ اور سزاوجزا باطل ہو جائے اور جن معنوں میں نیکی بدی، نالائقی، لیاقت، انصاف بے انصافی، دانائی، نادانی، فرض، جواب دہی، قصور، بے قصوری وغیرہ وغیرہ کے الفاظ مذہب اخلاق اور قانون میں استعمال کئے جاتے ہیں، وہ سب غلط ٹھہر جائیں۔ ہمارے نزدیک یہ خیال کہ انسان کی تدبیر سے کچھ نہیں ہو سکتا اور اس کو ایک مذہبی عقیدہ جاننا تدبیر اور توکل کے غلط معنی سمجھنے سے پیدا ہوا ہے۔‘‘
حالی کے اس فلسفہ اختیار کے ساتھ ان کے اس فلسفے کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے جسے انہوں نے ’’زمانے کے ساتھ بدل جانے‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور جس کے بارے میں بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ ابن الوقتی کا فلسفہ ہے۔ وہ اپنے ایک مضمون ’’زمانے‘‘ میں لکھتے ہیں، ’’جو لوگ زمانے کی پیروی نہیں کرتے وہ گویا زمانہ کو اپنا پیرو بنانا چاہتے ہیں مگر یہ ان کی سخت خام خیالی ہے۔ چند مچھلیاں دریا کے بہاؤ کو روک نہیں سکتی ہیں اور چند جھاڑیاں ہوا کا رخ پھیر نہیں سکتیں۔‘‘
اس میں شبہ نہیں کہ اس مضمون سے ایک حد تک ان کے قومی احساس کمتری کا پتہ چلتا ہے لیکن ہمیں یہ بھی نہ بھولنا چاہئے کہ چند مچھلیوں سے ان کا اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو مرتی ہوئی قوتوں سے چمٹے ہوئے تھے۔ چنانچہ اسی مضمون میں جب انہوں نے اپنے خیال کو پھیلاکر پیش کیا تو اس کی وضاحت کر دی کہ اس فلسفے سے ان کا مقصد صرف اتنا ہے کہ برے سے برے زمانے میں بھی کامیابی کا کوئی نہ کوئی جائز طریقہ ضرور موجود رہتا ہے۔ انسان کو چاہئے کہ اپنے اندر ایک قسم کی لچک پیدا کرے۔ حالی کا یہ فلسفہ جو لبرل نقطہ نگاہ کا شارح ہے، اگر ایک طرف وکٹورین عہد کا پروردہ ہے تو دوسری طرف ہندوستان کے مخصوص حالات کا ترجمان تھا۔ کیا ہندو اور کیامسلمان دونوں ہی کے متوسط طبقات اپنی نجات کا راستہ مغربی طاقت اور مغربی قدروں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے میں دیکھ رہے تھے۔
جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، اگر ایک طرف ان کی حالت ہندوؤں سے زیادہ گری ہوئی تھی تو دوسری طرف ان کے دل میں کچھ شکوک بھی تھے۔ جہاں اور زمانے کی مصلحتیں ان کی نگاہ میں تھیں، یہ خوف بھی ان کے دل میں تھا کہ کہیں زوال مغلیہ کے بعد ہندوستان میں بھی اسپین کی طرح ایسا دور نہ آجائے کہ مسلمان مع اپنی کتاب کے چل بسیں۔ حالی نے اسی خوف کے ماتحت انگریزی عملداری کو مسلمانوں کے حق میں باعث برکت گردانا۔ آئین وکٹوریہ کو امن وآزادی کے نام سے منسوب کیا۔ حالی کے نزدیک آزادی کا مفہوم بڑا ہی محدود تھا۔ مذہبی خیال کے اظہار کی آزادی اور چھوٹے موٹے پیمانے پر تجارت کر لینے کو وہ آزادی سمجھتے تھے۔ اس سے آگے ان کاکوئی سیاسی مفہوم ان کے سامنے نہ تھا۔ اگر تھا تو صرف اتنا کہ ہندوستانیوں کو لیجسلیٹو کونسل میں نمائندگی کا حق ملنا چاہئے۔
حالی نے اس تصور کے ماتحت حکومت برطانیہ کی وفاداری کا وہ سبق پڑھایا جسے انہوں نے سرسید سے سیکھا تھا۔ لیکن چونکہ حالی سرسید سے بیس سال چھوٹے تھے، اس لئے وہ متوسط طبقے کے اس جذبے کی بھی نمائندگی کر رہے تھے جو سرکاری نوکریوں سے گریز کرکے صنعتی دور کی قدروں کو لبیک کہہ رہا تھا اور اس منزل تک پہنچنے کے لئے تجارت کے ذریعے سرمایہ اکٹھا کرنے کی جدوجہد میں مشغول تھا۔ حالی نے اسی ابھرتے ہوئے طبقے کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے دولت انگلشیہ کی ملازمت سے بدظن کیا اور صرف ادبی تعلیم پر بھروسہ کرنے کے بجائے صنعتی تعلیم کی طرف راغب کیا اور اس نئی قسم کی تجارت پر لوگوں کو آمادہ کیا جومشرق کی قدیم تجارت سے مختلف تھی۔ وہ نئی تجارت گوہر و جواہر، مشک و عنبر، غالیچہ وسنجاف کی نہ تھی بلکہ ان مصنوعات کی تھی جو یورپ میں نئے ایجادات اور نئے علوم کے فروغ کا سبب بنی تھیں۔ حالی کے لئے تجارت صرف تجارت نہ تھی بلکہ ایک فلسفہ تھا۔ چنانچہ وہ اپنے مضمون میں تجارت کے فوائد گنواتے ہوئے لکھتے ہیں کہ،
’’تجارت نے دنیا میں شائستگی کو پھیلایا ہے۔ اس نے علوم و فنون کی بیش قیمت اور مفید تحقیقات اور ایجادات کو رواج دیا ہے۔ اس نے موجدوں کی طبیعت میں نئے نئے ایجادات و اختراع کی تحریک پیدا کی ہے، اس نے وحشیوں کو انسان بنایا۔ عوام الناس اور امراء (بورژواطبقہ) کو بادشاہی تک پہنچایا۔‘‘
(تجارت کا اثر عقل اور اخلاق پر)
ہر وہ شخص جس نے یورپ کی تاریخ کا مطالعہ کیا ہے اسے سمجھ سکتا ہے کہ یہاں حالی کا اشارہ یورپ کی اس نئی تجارت کی طرف ہے جو صنعتی انقلاب، مشینوں کی ایجادات، نئے علوم وفنون کا سبب اور بیش خیمہ تھی، نہ کہ اس تجارت کی طرف جو خام اشیا کے تبادلے میں لپ اسٹک اور شراب خریدنے پر اکتفا کرتی ہے۔
بہرحال حالی کایہ نقطہ نگاہ جوسائنس اور استقراء میں بیکن (BACON) کا ہم مذاق میکانکس میں نیوٹن کا طرفدار، دریافت فطرت میں ہابس اور لاکس کی طرح قانون فطرت کا جویا، فلسفہ تعلیم میں اسپنسر کا ہم نوا اور ادب کے میدان میں ملٹن کا رفیق کار تھا، ان کی ساری تصنیفات میں پھیلا ہوا ہے۔ حالی کا یہ نقطہ نگاہ اس نئے انسان کا ہے جس نے اپنے وجود اور ارتقا کو تاریخی طریق کار میں دریافت کیا اور بقول میر خود اپنی جلوہ گری کو زندگی کا راز ٹھہرایا۔ یہ نقطہ نگاہ سوشل تھا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے سماجی طریق پیداوار کا متعین کیا ہوا یہ نقطہ نگاہ جاگیردارانہ نظام کے انفرادی اور انتشار پسند نقطہ نگاہ سے مختلف تھا۔ یہ نقطہ نگاہ انسان کی ان مادی فتوحات کا مظہر تھا جنہیں اس نے انیسویں صدی میں بحروبر اور ابروباد پرقم کیا تھا اور وضع فطرت کے پابند ہونے کے بجائے وضع فطرت کو بدل رکھا تھا۔ حالی کو بھی اپنی ذات سے کچھ اسی قسم کا خطرہ تھا۔ ع دیکھنا حالی نہ دینا وضع فطرت کو بدل۔ اور شاید وہ وضع فطرت کو بدل ہی دیتے اگر وکٹورین عہدکا منشور ان کے گلے کاہار نہ بن جاتا۔ پھر بھی وہ اپنے ہم وطنوں اور اپنی قوم کو نقش سلیمانی دینے سے باز نہ آئے،
اے عزیز و تم بھی ہو آخر بنی نوع بشر
غل ہے کیا نوع بشر میں کچھ ہمیں بھی ہے خبر
کر رہا ہے خاک کا پتلا وہ جو ہر آشکار
ہو رہی ہے جس سے شان کبریائی جلوہ گر
رفتہ رفتہ یہ غبار ناتواں پہنچا وہاں
طائر و ہم وتصور کے جہاں جلتے ہیں پر
اس نے ان کمزور ہاتھوں سے مسخر کر لیا
ابروبرق و باد سے تابحر وبر ودشت ودر
حق نے آدم کو خلافت اپنی کی تھی جو عطا
دے رہے ہیں اس خلافت پر گواہی بحر وبر
تھا ارسطو اور فلاطوں کو بہت کچھ جن پہ ناز
ہو گئے تقویم پارینہ وہ سب علم وہنر
کل کی تحقیقات نظروں سے اتر جاتی ہے آج
بڑھ رہا ہے دمبدم یوں آج کل علم بشر
لیکن جب ۱۸۵۸ء کا وکٹورین منشور آزادی مسلمانوں کی تاریخ پر دست اندازی کرنے لگا، مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کے دل میں نفرت کا بیج بونے کے لئے محمود غزنوی کو ہلاکو اور چنگیز کی صف میں کھینچ لایا تو حالی کی رگ حمیت اس زہریلے خیال کے مستقبل کو دیکھ کر بھڑک اٹھی۔ یہ واقعہ ۱۸۷۸ء کا ہے جبکہ دربار قیصری کے موقع پر حالی نے ’’زمزمہ قیصری‘‘ کے عنوان سے ایک انگریزی نظم کے چند بندوں کا ترجمہ کیا تھا۔ گورنر کے حکم سے حالی نے ترجمہ تو کر دیا لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ایک طویل حاشیہ بھی لکھ ڈالا جس میں انہوں نے مرچنٹ آف انگلستان کے اس تاریخی کردار کو پیش کیا ہے جو شیکسپئر کے کردار (CALIBAN) میں بھی پایا جاتا ہے۔ حالی کے الفاظ میں اس (CALIBAN) کی توضیح یہ ہے۔
’’بات یہ ہے کہ دنیا کے ایک بہت بڑے حصے نے علم و ہنر میں اس قدر ترقی کی ہے اور وہ دوسرے حصہ کے ابنائے جنس سے اس قدر آگے بڑھ گیا ہے کہ اگلے زمانہ کے فاتح اور کشور کشاجن ناجائز ذریعوں سے مفتوحین کی دولت و ثروت اور سلطنت کے مالک تھے، ان ذریعوں کو کام میں لانے کی اب مطلق ضرورت نہیں رہی۔ جس قدر مال و دولت پہلے قتل و غارت اور لوٹ کھسوٹ سے حاصل کیا جاتا تھا، اس سے احقاق مفاعقہ اب صنعت و تجارت کے ذریعے خود بخود کھچا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ جب دو ایسی گورنمنٹوں کے درمیان جن میں سے ایک شائستہ اور دوسری ناشائستہ ہو، تجارتی عہدنامہ تحریر ہو جاتا ہے تو یقیناً یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ شائستہ گورنمنٹ بغیر اس کے کہ ہلدی لگے نہ پھٹکری دوسری گورنمنٹ کے تمام ملک و دولت، منافع و محاصل کی مالک ہو گئی۔ کسی شاعر نے خوب کہا ہے،
نہیں خالی ضرر سے وحشیوں کی لوٹ بھی لیکن
حذر اس لوٹ سے جو لوٹ ہے علمی و اخلاقی
نہ گل چھوڑے نہ برگ و بار چھوڑے تونے گلشن میں
یہ گلچینی ہے یالٹس ہے گلچیں! یا ہے قزاقی
شاید ان شعروں میں مبالغہ ہو لیکن اس میں شک نہیں جو نتیجہ اگلے زمانہ کے غارت گروں کی لوٹ کھسوٹ سے مترتب ہوتا تھا، اس نتیجے کے قریب یہ شائستہ لوٹ بھی پہنچا دیتی ہے۔ کروڑوں اہل حرفت وصنعت جن کی دستکاری مشینوں کا کسی طرح مقابلہ نہیں کر سکتی نان شبینہ کو محتاج ہو جاتے ہیں۔ زراعت پیشہ لوگوں پر یہ بپتا پڑتی ہے کہ زمین کی پیداوار جس کثرت کے ساتھ غیر ملکوں کو جاتی ہے اسی قدر ملک میں زیادہ کاشت کا تردد کیا جاتا ہے اور اس سبب سے روز بروز زیادہ لاگت لگانی پڑتی ہے لیکن محنت کا کافی معاوضہ نہیں ملتا۔ ملکی تاجروں کے لئے جو شائستہ ملکوں کی مصنوعی چیزوں کی تجارت کرتے ہیں، اول تو اوپر والے زیادہ منافع کی گنجائش ہی نہیں چھوڑتے اور اگر قدر قلیل کچھ فائدہ ہوتا بھی ہے تو اپنے ملک کی نہایت ضروری اور ناگزیر اشیا کا نرخ گراں ہونے کے سبب ان کی کمائی میں سے بہت کم پس انداز ہوتا ہے اور جس قدر ہوتا ہے وہ غیر ملکوں کی آرائش اور غیر ضروری چیزوں کے خریدنے میں جو باوجود کمال نفاست اور لطافت کے ارزاں دستیاب ہوتی ہیں، صرف ہو جاتا ہے۔
پس ان کو بھی فارغ البالی اور آسودگی کبھی نصیب نہیں ہوتی اور اگر سو دو سو برس میں دوچار ایسے نکل بھی آتے ہیں جو اپنے ملک میں مرفہ الحال سمجھے جاتے ہیں، ان کا معاملہ اور لین دین ان کروڑپتیوں سے ہوتا ہے جن کے مقابلے میں وہ اپنے تئیں مفلس اور قلانچ تصور کرتے ہیں اور جس کی مانگ کے خوف سے ہمیشہ دیوالہ نکل جانے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ طمع، خودغرضی اور زبردستوں کا زیر دستوں کو دلنا اور پیسنا جو تاریکی اور وحشت کے زمانے میں تھا، اس کے قریب قریب اب بھی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ دولت گھسیٹنے کے لئے پہلے جبر و تعدی کی ضرورت تھی اب اس کی کچھ ضرورت نہیں رہی۔ غیر ترقی یافتہ دنیا کی دولت ترقی یافتہ دنیا کی طرف خود کھچی چلی جاتی ہے۔‘‘
(حالی، ماخوذ از زمزمہ قیصری)
یہ طویل اقتباس میں نے اس غرض سے پیش کیا ہے کہ اس سے برطانوی لوٹ کھسوٹ کی نوعیت اور اس کے جو اثرات حالی کی زندگی میں ہمارے ملک میں مرتب ہو رہے تھے ان پر بڑی خوبی سے روشنی پڑتی ہے۔ اگرچہ حالی کے انتقال کو آج چالیس سال سے اوپر گزر چکے ہیں اور اس عرصے میں کتنی سلطنتیں مٹیں اور ابھریں لیکن ہماری زندگی میں ابھی کوئی بہت بڑا انقلاب نہیں آیا۔ شاید اس سبب سے کہ ہماری ترقی کی راہ میں کانٹے بچھے ہوئے ہیں۔ (CALIBAN) ہوشیار تر ہے۔ ہم میں یہ طاقت گفتار نہیں جو اس سے کہلوا سکے، ’’خداوند نعمت ذرا اس کا نشان تو دیکھو۔‘‘ لیکن حالی اس ماحول میں زندہ ہوتے تو وہ اپنی زبان میں یہی کہتے، ’’قسم ہے روشنی کی یہ راکشس تو بڑا ہی پولاہے اور اس سے ڈر جاؤں۔‘‘ لیکن جس حد تک حالی فقیہہ شہر اور شحنہ سے ڈرتے رہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اپنے دل اور آسمان سے ڈرے رہے وہ بات تو کھل کر نہ کہہ سکے لیکن فقیہہ شہر کو حقیقت سے متنبہ کئے بغیر بھی نہ رہے،
سر روحانیاں داری ولے خودرا نہ دیدستی
بخواب خود در آتا قبلہ روحانیاں بینی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.