Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

حالی سے لامساوی انسان تک

سلیم احمد

حالی سے لامساوی انسان تک

سلیم احمد

MORE BYسلیم احمد

    آپ نے غزل اور نظم کا مسئلہ ایک ایسے وقت میں اٹھایا ہے کہ جب مجھے تو شاعری ہی رخصت ہوتی نظر آ رہی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے کچھ عرصے بعد نہ غزل باقی رہےگی نہ نظم۔ ممکن ہے کہ یہ میرے ذاتی احساس شکست کا نتیجہ ہو یا قنوطیت پسندی کا، لیکن میرے پاس میرے اپنے احساس کے سوا اور ہے کیا۔

    میں اس کا تجزیہ کر سکتا ہوں، اس کو معروضی حقیقت کے روبہ رو رکھ سکتا ہوں، لیکن اسے جھٹلا نہیں سکتا۔ کیونکہ جھٹلانے کے معنی اس کے وجود سے انکار ہوں گے، جو میرے لئے ممکن نہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی مریضانہ احساس ہو، یقینا ًہو سکتا ہے لیکن اس کے ہونے سے انکار کیسے کیا جائے۔ وجہ کچھ بھی ہو لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کوئی چیز ہے جو ہمارے اندر مر گئی ہے یا مر رہی ہے اور یہ کوئی ایسی چیز ہے جس کے بغیر نہ ہم غزل کہہ سکتے ہیں نہ نظم۔ کوئی ایسی خبر جس کی موت شاعری کی موت ہے اور شاعری کے ساتھ اور نہ جانے کس کس چیز کی!

    لیکن یہ چیز جو ہمارے اندر مر گئی ہے یا آخری سانسیں لے رہی ہے، حالی سے پہلے ہماے اندر زندہ تھی۔ حالی پہلا آدمی ہے جسے احساس ہوا کہ اچانک اس کے اندر کوئی چیز کم ہو گئی ہے۔ یہ کیا چیز تھی؟ حالی کو اس کاعلم نہیں تھا لیکن کوئی چیز تھی جو اس کے اندر ختم ہو گئی ہے، یہ حالی جانتا تھا۔ نہ رہی چیز وہ مضمون سجھانے والی-یہ حالی کا بنیادی احساس ہے لیکن وہ مضمون سجھانے والی چیز تھی کیا، حالی اس کی صحیح شناخت نہ کر سکا۔ مبہم طور پر حالی کو جس چیز کے ختم ہونے کا احساس ہوا، وہ عشق کا جذبہ تھا۔

    میں یہ الفاظ بہت آسانی سے لکھ رہا ہوں اور شاید انہیں پڑھنے والے کو بھی احساس نہیں ہوگا کہ غزل کی تہذیب میں عشق کی موت کس المیے کا نام ہے۔ حالی کے ساتھ یہ المیہ ہو گزرا تھا۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ میر اس المیے سے دوچار ہوتا تو کیا کرتا۔ لیکن حالی کی دنیا میر کی دنیا سے بہت مختلف تھی۔ حالی اور میر کے درمیان دو آدمی پیدا ہو چکے تھے۔ غالب اور داغ۔ حالی جس ا لمیے سے دوچار ہوا، اس کی عقبی زمین غالب نے تیار کر دی تھی۔ غالب کے لیے عشق بہ یک وقت رحمت بھی تھا اور لعنت بھی۔ رحمت کم اور لعنت زیادہ۔ رحمت اس حد تک جس حد تک غالب میں روایتی شعور زندہ تھا،

    عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا

    درد کی دوا پائی، درد لا دوا پایا

    لیکن غالب جب ذاتی احساس سے بولتا ہے تو اس کے لہجے کی تلخی کچھ اور کہتی ہے،

    کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

    عشق نے غالب نکما کر دیا

    غالب کے مؤخرالذکر مصرعے میں داغ کے ظہور کی پیش گوئی موجود ہے۔ داغ کے یہاں عشق نکمے پن کا مشغلہ بن جاتا ہے، یعنی عیاشی۔ عشق اور عیاشی میں فرق یہ ہے کہ عشق میں جنسیت پورے وجود کا حصہ ہوتی ہے۔ جبکہ عیاشی میں جنسیت ذات کے دوسرے اجزا سے الگ ہو جاتی ہے۔ میر کا عشق میر کی پوری ذات کا معاملہ تھا۔ یہ انہیں اس طرح متاثر کرتا ہے کہ عشق اور زندگی ایک چیز بن جاتی ہے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر میر کے عشق کے لیے محبوب کی دیوار کا سایہ اور کائنات ایک ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس داغ کی عیاشی کوٹھے پر شروع ہوتی ہے اور کوٹھے پر ہی ختم ہو جاتی ہے۔ یہ دو افراد کا فرق تو ہے ہی لیکن بڑے شاعروں کا معاملہ صرف ان کی ذات پر ہی ختم نہیں ہو جاتا، ان کے پورے زمانے پر محیط ہوتا ہے۔

    میر اور داغ کا فرق دو افراد کا فرق نہیں ہے، تہذیبی زمان ومکان کے دو پیمانوں کا فرق ہے۔ چنانچہ فراق صاحب نے لکھا ہے کہ دلی کی تہذیب کا دل جب بکرقصاب کا دل بن گیا تب داغ کی شاعری پیدا ہوئی۔ لیکن داغ میں سخت دلی اور بکرقصابیت کے جو عناصر پائے جاتے ہیں وہ اس سے پہلے غالب میں پیدا ہو چکے تھے۔ چنانچہ حالی جب اپنی ذات میں عشق کی موت کے تجربے سے دوچار ہوا تو غالب اور داغ اس کی پشت پر تھے اور حالی کی نفسیات پر زمانے کا اتنا اثر ضرور ہو گیا کہ اسے عشق کے خاتمے کا کچھ زیادہ صدمہ نہیں ہوا۔ تھوڑے سے ملال کی کیفیت ضرور پیدا ہوئی لیکن اس کے ساتھ ساتھ شاید حالی کو کچھ اطمینان بھی ہوا۔ کیونکہ داغ کا نمونہ اسے بتا رہا تھا کہ عشق میں بگڑنے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ حالی نے عشق کی بگڑی ہوئی شکل یعنی عیاشی کو کھل کھیلتے دیکھا اور اپنی پارسائی کو اس سے بہتر سمجھا۔ یہ عاشق حالی کے بطن سے اصلاح پسند حالی کی پیدائش تھی۔

    بات لمبی ضرور ہو گئی لیکن میرے موضوع سے غیرمتعلق نہیں ہے۔ حالی کی زندگی میں عشق کی موت اور ترک غزل، ایک ہی تصویر کے دورخ ہیں۔ لیکن یہ دو بڑی تبدیلیاں ایک اور زبردست تبدیلی کا حصہ ہیں۔ حالی کے شعور میں مرگ عشق اور ترک غزل سے بھی زیادہ ہول ناک عمل جاری تھا۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے ہمیں اس تہذیب کو دیکھنا پڑےگا جس کے ایک موڑ پر یہ سارا عمل ہو رہا تھا۔ حالی ایک ایسی تہذیب کا پروردہ تھا جس کی بنیاد روحانی تھی۔ یہ تہذیب داخلی اور خارجی طور پر ایک آہنگ تہذیب تھی، جس کے تمام اجزا ایک کل سے مربوط تھے۔ اس تہذیب کے اجزا کا باہمی ربط حقیقت کے ایک تصور سے وابستہ تھا جو زندگی کے ہر شعبے میں جاری و ساری تھا۔ یہ حقیقت کا ایک روحانی تصور تھا۔ یعنی یہ تہذیب یقین رکھتی تھی کہ ہمارے حواس کی مادی اورمرئی دنیا سے اوپر ایک دنیا ہے جو غیرمادی اور غیرمرئی ہے اور یہی دنیا انسان کا اصل مستقر ہے۔

    چنانچہ حیات انسانی کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو اس دنیا کا زیادہ سے زیادہ عرفان حاصل ہو اور وہ اپنی مادی زندگی کو زیادہ سے زیادہ اس غیرمادی اور غیرمرئی دنیا کے مطابق بناسکے۔ اس تہذیب کی تمام اجتماعی اور انفرادی قدریں حقیقت کے اس تصور سے پیدا ہوئی تھیں اور اسی تصور کے گرد گھومتی تھیں۔ نتیجے کے طور پر یہ تہذیب اجتماعی کلیت کے ساتھ انفرادی کلیت بھی پیدا کرتی تھی اور اس کلیت کا مرکزی استعارہ وہی تھا جسے ہم عشق کہتے ہیں۔ عشق کے معنی تھے انسان کا اپنے پورے وجود کے ساتھ مادی اور مرئی دنیا سے اوپر اٹھنا۔ یہ ایک روحانی عمل تھا۔ یاد رکھئے میں نے پورا وجود کہا ہے جس کے مفہوم میں روح، نفس، عقل، جذبہ، احساس، جبلتیں اور جسم سب شامل ہیں۔ لیکن اب یہ تہذیب اپنی تاریخ میں پہلی بار اس بڑی تبدیلی سے دوچار ہو رہی تھی، جس کی علامت کے طور پر ہم حالی کے مرگ عشق کا مطالعہ کر رہے ہیں۔

    یہ بڑی تبدیلی ہماری تہذیب میں روحانی انسان کی جگہ افادی انسان کی پیدائش تھی۔ افادی انسان مادی انسان ہی کی ایک شکل ہے جو مادی انسان سے پہلے ظہور کرتا ہے۔ حالی کے عہد میں یہ انسان ظہور کر رہا تھا اور خود حالی کا شعور اس کے دردزہ میں مبتلا نظر آتا ہے۔ ہمارا مطالعہ چوں کہ شعروشاعری کے ضمن میں ہے، اس لیے ہم صرف شعروشاعری ہی کو دیکھیں گے۔ حالی کے ’’مقدمہ شعروشاعری‘‘ کی ابتدا فنون لطیفہ کے بارے میں ایک ایسی بے چینی سے ہوتی ہے جو حالی سے پہلے ممکن نہ تھی۔ حالی مقدمے میں سوال اٹھاتے ہیں کہ معاشرے میں کسان خوش ہے کیونکہ معاشرے کو اس کی ضرورت ہے۔ معمار خوش ہے کیونکہ معاشرے کو اس کی ضرورت ہے۔ بزاز، بڑھئی اور جولاہا خوش ہے کیونکہ معاشرے کو اس کی ضرورت ہے۔ لیکن معاشرے میں اس انسان کا کیا مقام ہے جو ایک سنسان ٹیکرے پر بیٹھا بانسری بجا رہا ہے؟

    حالی کی زبان سے یہ سوال افادی انسان نے پوچھا ہے۔ حالی جب اس سوال سے دوچار ہوا تو پہلے مبہوت ہوکر رہ گیا۔ حالی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ کچھ بھی ہو، حالی کی صداقت درجہ اول کی چیز ہے۔ اس نے اپنی روح میں فیصلہ کیا کہ اسے شاعری چھوڑ دینی چاہئے۔ کیونکہ واقعی شاعری ایک فضول چیز ہے جس کی حیثیت عیاشی سے زیادہ نہیں۔ حالی نے یہ بھی سوچا کہ شاید اس عیاشی کا اس وقت کوئی جواز ہو، جب قوم کی حالت بہتر تھی۔ لیکن قوم حالی کے زمانے میں جس حالت میں تھی، اس میں عیاشی کا تصور بھی حالی کو ہولناک معلوم ہوا۔ آپ دیکھ رہے ہیں اب معاملہ ترک غزل سے کچھ آگے گیا۔ اب تو پوری شاعری ہی معرض خطر میں تھی۔ شاعری ہی نہیں سارے فنون لطیفہ بلکہ وہ تمام چیزیں جو افادیت کے معیار پر پوری نہ اتریں، مثلا مذہب!

    تاریخ کے سفر میں آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے افادی انسان مادی انسان کی طرف بڑھتا جاتا ہے، یہ سب چیزیں خطرے سے دوچار ہوتی جاتی ہیں۔ حالی کے حساس دل ودماغ ان تمام خطرات کو محسوس کر رہے تھے۔ اندر ہی اندر حالی کے شعور میں مذہب سے لے کر فنون لطیفہ تک ہر چیز کی ماہیت اور معیار کے تصورات بدلنے لگے۔ ہمیں یہاں صرف شاعری سے غرض ہے۔ حالی کا فیصلہ ترک شاعری تھا۔

    حالی اگر اپنے اس فیصلے پر قائم رہتا تو شاید ہماری بہت سی تہذیبی الجھنیں کم ہو جاتیں اور شاید ہم مسائل کو بہت واضح طور پر دیکھ سکتے۔ لیکن حالی نے شاعری ترک نہیں کی۔ یہ کام اس کے لیے آسان بھی نہیں تھا۔ حالی نے اپنی مشکل یوں آسان کی کہ شاعری کا ایک افادی تصور پیدا کر لیا۔ شاعری وہ ہے جو قوم کی خدمت کرے۔ یہ حالی کے نئے منشور شاعری کا خلاصہ ہے۔ آگے چل کر حالی کی نظم اس منشور شاعری کا ذریعہ اظہار بنتی ہے۔

    یوں جدید اردو نظم کا آغاز شاعری کے افادیت پرستانہ تصور کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔ نظم کی یہ روایت بنیادی طور پر سیاسی، اخلاقی اور اصلاحی شاعری کی روایت ہے اور حالی سے اقبال اور جوش اور پھر وہاں سے ترقی پسندوں تک یہ سلسلہ بڑھتا اور پھیلتاہی چلا جاتا ہے۔ انتظار حسین نے کسی جگہ بڑے کام کی بات لکھی ہے کہ حالی کے ساتھ ہی ہمارے شعور میں ایسی تبدیلی پیدا ہوئی ہے کہ خالص شاعری کی گنجائش ہی نہ رہی اور کوئی بڑا شاعر صرف شاعری کی بنیاد پر بڑ ا نہیں بن سکا۔ بہرحال یہ تبدیلی جو کچھ بھی تھی، ہم غزل کی مخالفت کو اس سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے۔ غزل کی شاعری بہرحال افادی شاعری نہیں تھی۔

    اب اس بحث کی روشنی میں اگر ہم ترک غزل کو افادی شعور کی پیدائش کا نتیجہ قرار دیں اور نظم کو اس کی علامت بنائیں تو ہماری تاریخ ادب کایہ معمہ حل ہو جائےگا کہ ہماری نظم کیوں غالب طور پر افادیت پر ستانہ رجحان کی حامل رہی ہے۔ اس میں حالی بھی شامل ہیں، اقبال بھی اور پوری ترقی پسند تحریک بھی۔ حالی کے شعور کا ایک سرسری جائزہ ہم لے چکے ہیں۔ اب اقبال کو دیکھئے۔ اقبال کی بنیادی کشمکش بھی وہی تھی جو حالی کی تھی۔ انہیں بھی یہ احساس ہوا تھا کہ شاعری کی حیثیت کار بےکاراں سے زیادہ نہیں (جو کام کچھ کر رہی ہیں قومیں انہیں مذاق سخن نہیں ہے) حیرت انگیز طور پر وہ بھی حالی کی طرح ترک شاعری کے دروازے تک پہنچتے اور پھر اس سے واپس آتے ہیں۔ واپسی کا حیلہ بھی وہی ہے جو حالی کے یہاں ملتا ہے۔

    شاعری کے ذریعے قوم کی خدمت (سوئے قطارمی کشم ناقہ بے زمام را) غور طلب بات یہ ہے کہ دونوں کے یہاں شاعری کی طرف واپسی شاعری کے افادیت پرستانہ جواز کے بعد ہوتی ہے۔ ترقی پسند تحریک اور حالی اور اقبال میں فرق یہ ہے کہ جو چیز اقبال اور حالی کے یہاں جواز کی حیثیت رکھتی ہے وہ ترقی پسند تحریک کے تصور حقیقت میں شامل ہے۔ ترقی پسندوں کے یہاں وہ کشمکش نہیں ہے جس سے حالی اور اقبال دوچا رہوئے تھے۔ اس لیے شاعری کی افادیت ان کے تصور شاعری کا بنیادی عنصر ہے۔ نہ صرف تصور شاعری کا بلکہ تصور زندگی کا بھی۔

    وہ افادی انسان جو اقبال اور حالی کے تصور میں اپنی پیدائش کے لیے ہاتھ ہاؤں مار رہا تھا، ترقی پسند تحریک میں پوری طرح ظہور کر لیتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ خالص مادی انسان ہے۔ یوں جدید اردو نظم کی پوری تاریخ اپنے غالب حصہ میں حالی سے ترقی پسندوں تک ایک ہی سفر کے مختلف ارتقائی منازل سے گزرتی ہے۔ یعنی افادی انسان سے مادی انسان تک۔

    یہاں پہنچ کر ہم حالی کا سوال اپنے الفاظ میں دہراتے ہیں۔ مادی انسان کو شاعری کی کیا ضرورت ہے؟ شاعری کی ماہیت اور قدروقیمت کے تمام جدید نظریات اسی سوال کے جواب کی مختلف کوششوں سے پیدا ہوتے ہیں، لیکن یہ ایک الگ بحث ہے۔

    ہاں تو ذکر تھا حالی کے مرگ عشق اور ترک غز ل کا۔ اس کے معنی ہمارے نزدیک یہی ہیں کہ حالی میں کسی سبب سے اس روحانی عمل کا خاتمہ ہو گیا، جو انسان کو مادی دنیا سے اوپر اٹھاتا ہے۔ حالی افادی انسان کے چکر میں آ گیا اور یہاں سے اس کسریت کی بنیاد پڑی جو پچھلے سولہ سترہ برس سے میرا موضوع ہے۔ حالی میں جو چیز پورے وجود سے الگ ہوئی وہ عقل تھی۔ یقیناً یہ عمل حالی کی ذات تک محدود نہیں تھا بلکہ پورے معاشرے میں اپنی جگہ بنا چکا تھا۔ اگر ہم شاعری کے ساتھ ساتھ ان نثری تحریروں کا بھی جائزہ لیں جو حالی کے عہد میں رونما ہوئیں تو ہمیں اس پورے عمل کی تفصیلات بہت آسانی سے مل جائیں گی۔ یہ روحانی انسان کی موت کا عمل تھا۔ روحانی انسان مر رہا تھا اور ا س کی جگہ عقلی انسان پیدا ہو رہا تھا۔ سرسید تحریک اسی عقلی انسان کی تحریک تھی۔ فتح محمد ملک نے اپنے ایک خیال انگیز مضمون ’’تمیزدار بہو کی بدتمیزی‘‘ میں پورے عمل کا بہت دلچسپ تجزیہ کیا ہے۔

    بہرحال حالی کی غزل حالی کے عشق سے پیدا ہوئی تھی اور حالی کی نظم حالی کی عقل سے۔ اس نظم کے موضوعات سیاسی، اخلاقی اور اصلاحی تھے۔ ان میں وہ انسان غائب ہو گیا تھا جو حالی کی غزل میں ملتا ہے اور اس کی جگہ عقلی، افادی اور اصلاحی انسان نے لے لی تھی۔ صرف حالی ہی نہیں، اس دور کی تمام نظمیں بنیادی طور پر انہیں عناصر سے بھری ہوئی ہیں۔ یہ جدید نظم کا بہت مصنوعی اور بےجان دور تھا اورحالی کی ’’مناجات بیوہ‘‘ کے سوا اس شاعری میں اور کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسے ا س عہد کے کفارے کے طور پر پیش کیا جائے۔ شاید ہماری شاعری، نظم کے امتیاز سے قطع نظر اس دور میں ختم ہو جاتی، اگر ہم بہت جلد افادی انسان کے عقلی دور سے گزر کر اس کے جذباتی دور میں داخل نہ ہو جاتے۔

    آپ مجھے اجازت دیں، اگریہاں میں ایک چھوٹی سی بات اپنے نقطہ نظر کی وضاحت میں کہتا چلوں۔ میرا عقیدہ ہے کہ مادی تہذیب اپنے خالص رنگ میں قائم نہیں رہ سکتی، اگر وہ کسی نہ کسی طور پر روحانیت کا دھوکہ نہ پیدا کرتی رہے۔ کیونکہ مادیت اور حقیقی تہذیب دو متضاد چیزیں ہیں۔ حالی کے ساتھ ہم مادی تہذیب کے افادی دور میں داخل ہوئے تھے۔ اگر یہ دور کسی طرح اپنی پوری مادیت کے ساتھ برہنہ ہو جاتا تو آپ دیکھتے کہ تہذیب اپنے تمام مظاہر کے ساتھ غائب ہو گئی۔ لیکن تاریخی طور پر ایسا نہیں ہوا۔ نہ ہمارے یہاں، نہ باہر کی دنیا میں، کیوں کہ مادیت اپنی بقا کے لیے فریب نظر کی ایک دنیا پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ وہ روحانی انسان کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد ہمیشہ ایک انسان پیدا کرتی ہے جو روحانی انسان کا دھوکہ دیتا ہے۔ جذباتی انسان۔ جدید تہذیب کے تمام مظاہر اسی انسان کے پیدا کردہ ہیں اور اسی کی وجہ سے زندہ ہیں۔ ابھی ہم دیکھیں گے کہ جدید نظم کے ابتدائی دور کے بعد کس طرح اس جذباتی انسان نے شاعری کو دوبارہ سہارا دیا۔

    حالی اور اس کے دور کے عقلی انسان نے جس قسم کی شاعری پیدا کی وہ ہمارے سامنے ہے۔ یہ سیاسی، اخلاقی، اصلاحی شاعری تھی۔ یعنی اس کے پیچھے افادی انسان کام کر رہا تھا۔ لیکن اور ایک دھوکے کے طور پر بھی اس کا قائم رہنا مشکل تھا۔ چنانچہ وقت آتے ہی اس کے خلاف ردعمل شروع ہو گیا۔ اس ردعمل کی دو شکلیں تھیں، جن میں اہم ترشکل وہ ہے جسے ہم غزل کا احیا کہتے ہیں۔ یہ افادی انسان کے خلاف پہلی بغاوت تھی۔ حسرت نے اس بغاوت کا پھریرا بلند کیا اور ہم حیرت کے ساتھ دیکھتے ہیں کہ اس پھریرے پرروشن حروف میں وہی ایک لفظ لکھا ہوا ہے جسے حالی نے مردود قرار دیا تھا۔۔۔ عشق!

    عشق کے بارے میں، میں کہہ چکاہوں کہ ہماری تہذیب میں یہ انسان کا اپنے پورے وجود کے ساتھ جس میں روح، نفس، عقل، جذبہ، احساس، جبلتیں، سب شامل ہیں، مادی اور مرئی دنیا سے اوپر اٹھنے کاعمل ہے۔ تو کیا حسرت اس عشق تک پہنچ جاتے ہیں۔ افسوس کہ حسرت سے اپنی ساری عقیدت کے باوجود میراجواب نفی میں ہے۔ حسرت اگر اس عشق کے حصول میں کامیاب ہو جاتے تو بہت بڑے شاعر ہوتے لیکن حسرت کی عظمت یہ ہے کہ ایک ایسے دور میں جب ہمارا اجتماعی شعور روحانی تہذیب کی کلیت سے روگردان ہو چکا تھا، وہ پورے انسانی وجود کے تقاضوں سے باخبرہیں۔ حسرت کی عارفانہ، عاشقانہ، فاسقانہ شاعری کی مشہور تقسیم یاد کیجئے۔ عام طور پر اسے یہ سمجھا جاتا ہے کہ حسرت نے شاعری کو تقسیم کر دیاہے لیکن دراصل اس کے پیچھے یہ تصور ہے کہ ’’پوری شاعری‘‘ کن اجزاسے تخلیق ہوتی ہے۔ حسرت اپنے پورے وجود کے تقاضوں کو پورا کر سکے نہ پوری شاعری کے۔ لیکن اس دور میں یہ کم نہیں تھا کہ وہ اس کے اجزا کا احساس رکھتے تھے۔

    اس زاویہ نظرسے دیکھیے تو حسرت کا عشق، حسرت کا تصوف، حسرت کی سیاست، سب سمجھ میں آنے لگتے ہیں۔ بس اس احساس کے ساتھ کہ کاش وہ ان سب چیزوں کو جوڑ کر اپنے پورے وجود کے ساتھ اوپر اٹھ سکتے اور اپنی شاعری کو اس عمل کا آئینہ بنا سکتے۔ بہرحال حسرت سے نئی غزل کا آغاز ہوتا ہے اور اس کی عہد بہ عہد تبدیلیوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ مجموعی طور پر’’جذباتی‘‘ انسان کا راستہ ہموار کرتی نظر آتی ہے۔ جگر اس کی بہت واضح مثال ہیں۔ ویسے تو ان کے ہاں بھی بہت سے روایتی اثرات ملے جلے ہیں۔ یہی حال فانی کا ہے۔ اصغر تصوف کے شاعر سمجھے جاتے ہیں مگر دراصل وہ تصوف کی فضا کے شاعر ہیں اور ان کی غزل ایک طرح کی جذباتی سریت پرستی ہی پیدا کرتی ہے۔ یگانہ اس جذباتی انسان کے خلاف جذبات شکنی کا ایک ردعمل ہیں۔ فراق بہت پیچیدہ شاعر ہیں اورا ن کا تجزیہ ایک الگ مضمون چاہتا ہے۔ لیکن بہرحال اپنی شاعری کے عام پسند حصے میں وہ بھی جذبات پرستی سے خالی نہیں ہیں۔

    مذکورہ ردعمل کی دوسری شکل نظم میں رونما ہوئی۔ یہ ان نظموں کا ظہور تھا جن کے موضوعات سیاسی، اخلاقی اور اصلاحی نہیں تھے۔ یہ نظمیں چھوٹے چھوٹے جذباتی مسائل پر لکھی گئی ہیں اور جدید اردو نظم کے مرکزی دھارے سے کٹی ہوئی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جدید غزل کی طرح یہ بھی اس مرکزی مسئلے کی براہ راست پیداوار نہیں ہیں جو حالی کے شعور کا پانی پت بنا ہوا تھا۔ یعنی شعر کی افادیت۔ چنانچہ افادی نظم نگاری کی اس بڑی شاہراہ پر جو حالی سے اقبال تک پہنچتی ہے، ان کی حیثیت ایک چھوٹی سی پگڈنڈی کی ہے جس پر اکادکا مسافر سفر کرتا ہو۔ عظمت اللہ خاں، نادر کاکوروی اور ان کے ساتھ دوسرے شعرا اسی ردعمل کا مظہر ہیں۔ غالباً اب ہم ۳۶ء کی تحریک کے بہت قریب پہنچ گئے۔

    آئیے آگے بڑھنے سے پہلے اپنے لمبے کیے ہوئے سفر پر ایک نظر ڈال لیں۔

    (۱) غزل کی مخالفت کا محرک افادی شاعر ی کا تصور تھا۔ حالی نے غزل کو اس کے عشق سمیت غیرافادی قرار دیا اور اپنی نئی شاعری کے منشور کا ذریعہ اظہار نظم کو قرار دیا۔

    (۲) عشق جوپورے وجود کی کلیت کا استعارہ تھا، اس کے رد کرنے سے پہلے عقل پرستی اور پھر جذبات پرستی کے رجحانات پیدا ہوئے۔

    (۳) ردعمل کے طور پر نئی غزل پیدا ہوئی اور ’’غیرافادی‘‘ نظموں کے دور کا بھی آغاز ہوا۔

    (۴) ان سب تبدیلیوں کے پیچھے انسان کا ایک نیا تصور کام کر رہا تھا، جس کی پہلی شکل افادی انسان ہے اور آخری شکل مادی انسان۔

    ۱۹۳۶ء کی تحریک مادیت ہی سے پیدا ہونے والے مادیت کے دوسرے ردعمل کی تحریک ہے بلکہ عمل اور ردعمل دونوں کی۔ پہلا ردعمل جذباتی تھا۔ ۱۹۳۶ء کی تحریک کا انسان نیچے اتر جاتا ہے۔ ۱۹۳۶ء کی تحریک جذباتی انسان کے بجائے، جبلی انسان کی دریافت کرتی ہے۔ اس جبلی انسان کا مطلب دو چیزیں بنتی ہیں (۱) جنس اور (۲) بھوک۔ میں اپنے مضمون ’’غزل، مفلر اور ہندوستان‘‘ اور ’’نئی نظم اور پورا آدمی‘‘ میں مختلف زاویوں سے اس تحریک کا تفصیلی جائزہ لے چکا ہوں۔ اب دو ایک باتوں کے اضافے کے ساتھ اس تحریک کے بارے میں میری رائے یہ ہے۔

    سرسید تحریک کے بعدیہ سب سے بڑی ادبی تحریک تھی، جس کے سارے پھل میٹھے ثابت ہوئے۔ اس تحریک نے خالی خولی جذبات پرستی کے اس ماحول میں جو ۱۹۲۰ء سے شروع ہو گیا تھا اور جس نے رومان اور جمال پرستی کی دھند میں زندگی کے حقائق سے چشم پوشی اختیار کی تھی، زیادہ ٹھوس مسائل کی طرف توجہ کی۔ دوسرے لفظوں میں ۱۹۳۶ کا جبلی انسان، جذباتی، رومانی، جمالیاتی انسان کے مقابلے میں زیادہ خود آگاہ اور حقیقت آشنا تھا۔ یقیناً اس تحریک میں کچھ خامیاں بھی تھیں، جنہیں نظر انداز نہیں کرنا چاہئے، مثلا اس تحریک میں جنس کے نام پرجنسی نمائش پسندی اور بھوک کے نام پرسیاسی نعرہ بازی بھی ہوئی۔ لیکن ایسی خامیاں ہربڑی تحریک کا حصہ ہوتی ہیں۔

    اب میں مسئلہ زیربحث کی روشنی میں اس تحریک کے رویے کو بیان کرتا ہوں۔ اس تحریک کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اس نے بات جنس اور بھوک کے عام تجربے سے شروع کی اور اس کی روشنی میں انسان کی ایک نئی تعریف پیش کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں اس تحریک کے دوحصے ہو گئے۔ جنس کو بنیاد بنانے والے ایک طرف ہو گئے اور بھوک کو بنیاد بنانے والے دوسری طرف۔ مؤخرالذکر گروہ نے جو ترقی پسند کہلاتا ہے، انسان کی نئی تعریف حالی کے افادی اور عقلی انسان کو بنیاد بناکر ہی کی اور اس کو مادی انسان کا پیش روقرار دیتے ہوئے تاریخی ارتقا کی نشان دہی کی۔

    ظاہر ہے یہ وہی نقطہ نظر تھا جو مارکس کی تاریخی مادیت نے پیش کیا ہے۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ترقی پسند تحریک کا نیا انسان معاشی انسان تھا۔ ترقی پسندوں نے اس انسان کو بنیاد بناکر جو ادب پیش کیا اس پر بہت سے اعتراض ہوئے، مثلاً ایک اعترا ض جس نے نمایاں اہمیت حاصل کی، یہ تھا کہ ترقی پسندوں نے بات تو تجربے کی بنیاد بناکر شروع کی تھی لیکن بہت جلد تجربے کو چھوڑ کر نظریہ پرستی کا شکار ہو گئے۔ پھر نظریے اور ادب کے تعلق پربہت بحثیں ہوئیں مگر طرفین ایک دوسرے کو اپنی بات کا قائل نہ کر سکے۔ ترقی پسند اپنے ’’نظریے‘‘ پر قائم رہے اور تجربہ پرست اپنے مسلک پرکہ وہ اپنے تجربے کے سوا کسی بنے بنائے فارمولے کو قبول نہیں کریں گے۔

    یہ نقطہ نظر ایک باقاعدہ تحریک کی صورت میں حلقہ ارباب ذوق نے اختیار کیا۔ حلقہ ارباب ذوق کے بیشتر ادیب جبلی انسان کے جنسی پہلو پر زور دیتے تھے۔ میراجی اور راشدنے جنس کو انسانی وجود کی نئی تفتیش کا ذریعہ بنایا اور اپنے تجربے کے ذریعے انسان کی کسی نئی تعریف پر پہنچنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کے سامنے چوں کہ کوئی بنا بنایا فارمولا یا فلسفہ نہیں تھا، اس لیے ان کی کوشش کوئی فوری نتیجہ پیدا نہیں کر سکی۔

    اب اس بحث سے میرے موضوع کا تعلق یہ ہے کہ ۱۹۳۶ء کی تحریک نے اپنے شعری اظہار کے لیے نظم کو منتخب کیا، ترقی پسندوں نے بھی اور حلقہ ارباب ذوق والوں نے بھی۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ ترقی پسند نظم افادی شاعری کے اس بڑے دھارے سے تعلق رکھتی ہے جو حالی سے شروع ہوکر جوش اور اقبال تک پہنچتا ہے، جب کہ حلقہ ارباب ذوق والے نظم کی اس روایت سے تعلق رکھتے ہیں جو اس دھارے سے الگ اپنے جذبات کی تشکیل کر رہی تھی۔ اس غیرافادی نظم کا پہلا دورصرف جذباتی تجربات تک محدود تھا۔ لیکن اب ایک نئے انسان کی تلاش میں اسے زیادہ بڑے مسائل سے نبرد آزما ہونا تھا۔ چنانچہ میراجی، راشد اور ان کے ساتھیوں کی نظمیں اس روایت کو ترقی دے کر کہیں سے کہیں پہنچاد یتی ہیں۔ غزل اس سفر میں بہت پیچھے رہ گئی۔

    حسرت سے یگانہ تک جو لوگ موجود تھے وہ بہت پرانے دور سے تعلق رکھتے تھے۔ فراق سنگم پر کھڑے ہوئے تھے مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جدید اردو نظم اپنی تاریخ کے اس دور میں جن مسائل سے دوچار ہو گئی تھی، غزل میں ان کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ اس کی بڑی وجہ غزل کی ہیئت تھی۔ چنانچہ اس دور میں ہم دیکھتے ہیں کہ غزل کی ہیئت پر پہلے سے زیادہ سخت حملے ہوئے اور اسے پوری طرح رد کر دینے کا نعرہ لگایا گیا۔ تھوڑی دیر کے لیے غزل نے میدان چھوڑ دیا اور نظم نے سچ مچ ایک فاتح کی صورت اختیار کر لی۔ لیکن شاید حقیقت یہ ہے کہ غزل عارضی شکست کھانے کے بعد اپنی کمین گاہ میں نئے حملے کے لیے کسی موقع کی منتظر تھی۔

    میں اس سے پہلے دکھا چکا ہوں کہ نظم نگاری کے پہلے دور کے بعد غزل نے جذباتی رنگ اختیار کرکے اپنے ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ غزل نے اپنے دوسرے ردعمل کا اظہار اس طرح کیا کہ سیاسی مسائل کو قبول کرنے لگی لیکن اس شرط کے ساتھ کہ غزل کے رموزوعلائم اپنی جگہ قائم رہیں۔ یہ کوشش فراق کے یہاں بھی ملتی ہے اور جگر کے آخری دور کی شاعری میں بھی۔ فیض کی غزلیں بھی اسی رنگ میں ہیں اور ان کے ساتھ دوسرے چھوٹے بڑے شاعروں کے یہاں بھی یہی رنگ ملتا ہے سوائے مجروح کے، جنہوں نے بالکل ڈھکے طور پر اپنی غزل کو ترقی پسند نظم کاضمیمہ بنا دیا تھا۔ بہرحال یہ دوربہ حیثیت مجموع غزل کی پسپائی کا دور تھا کہ ۱۹۴۷ء آ گیا۔

    ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸۵۷ء کی طرح ۱۹۴۷ء بھی ہمارے اجتماعی شعور میں دو ایک بنیادی تبدیلیوں کا مظہر ہے۔ ۱۸۵۷ء میں روحانی انسان کی جگہ افادی انسان نے لی تھی جو ردعمل کے ایک سلسلے سے گزرنے کے بعد ترقی پسند تحریک کے معاشی انسان تک پہنچاتھا۔ معاشی انسان کی جو شکل ادب میں مقبول ہوئی تھی وہ انقلابی انسان تھا۔ انقلابی انسان معاشی انسان کی وہ شکل ہے جس میں مادیت کے باوجود آدرش پرستی موجودہے۔ یہ انسان معاشی مسئلے کو انسانیت کا بنیادی مسئلہ سمجھتا ہے لیکن اس کے حل کے لیے انقلاب کا راستہ ڈھونڈتا ہے جو آدرش پرستی کی ایک شکل ہے۔ انقلاب کے معنی ہیں ایک ایسی تبدیلی جو سب کے لیے ہو۔ انقلابی انسان صرف اپنی معاشیات ٹھیک نہیں کرنا چاہتا بلکہ سب کی بھوک اس کامسئلہ ہے۔ مگراس کے معنی صرف اپنا پیٹ بھرنے کے نہیں ہیں بلکہ ایک ایسا نظام قائم کرنا ہے جوسب کا پیٹ بھرے۔ یہی اس کا آدرشی پہلو ہے۔

    ترقی پسند شاعر میرے نقطہ نظر کو قبول نہ کریں لیکن خالص مادی نقطہ نظر سے سب سے پہلی مادی بات یہ ہے کہ میرا پیٹ بھرے۔ ترقی پسندوں کی مادیت آدرشی مادیت تھی لیکن ۱۹۴۷ء کے بعد ہمارے شعو ر میں خالص مادیت نے ایسی جگہ حاصل کر لی کہ آدرشی مادیت کچھ شکست کھانے لگی۔ اسباب جو کچھ بھی ہوں، ہر محاذ پر انقلابی انسان پسپا ہونے لگا اور ایک وقت ایسا آ گیا جب ترقی پسند تحریک کی موت اس کے بڑے بڑے حامیوں اور بانیوں کو بھی نظر آنے لگی۔ پاکستان میں تو خیر یہ کہا جاتا ہے کہ یہاں ترقی پسند تحریک پر پابندی لگ گئی لیکن ہندوستان میں کیا ہوا۔ مجنوں گورکھپوری کہتے ہیں کہ ترقی پسند تحریک نے اپنا مقصد پورا کر لیا اور ہمارے اجتماعی شعور کو تبدیل کر گئی۔

    لیکن ترقی پسند تحریک کے ایک دکھ بھرے نکتہ چین کی حیثیت سے میرا سوال یہ ہے کہ کی ترقی پسند تحریک کا مقصد یہ تھا کہ ہر شخص معاشی مسئلے کو بنیادی مسئلہ قرار دے کر صرف اپنا پیٹ بھرنے لگے؟ تاریخ کی بوالعجبی بھی کیا چیز ہے۔ انقلاب کی موت کا دکھ بھی میرے جیسے انقلاب دشمنوں کو کرنا پڑتا ہے۔ خیر تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ ۱۹۴۷ء ہمارے اجتماعی شعور میں جو تبدیلی لے کر آیا اس نے انقلابی انسان کو پیچھے دھکیلنا شروع کیا۔ جنسی انسان بھی شاید میراجی کے حشر کو دیکھ کر خائف ہو گیا تھا۔ رومانی، جمالیاتی، جذباتی انسان اختر شیرانی، مجازاور ان کے ساتھیوں کے ساتھ ٹھکانے لگ گیا۔ نظم جوبہت آگے بڑھ گئی تھی، اس مقام پر ٹھٹھک کر کھڑی ہو گئی۔ غزل شاید اس موقع کی منتظر تھی۔ اس نے ناصر کاظمی اور ان کے آگے پیچھے آنے والے بہت سے شاعروں کے ساتھ اپنا تیسرا ردعمل پیش کیا۔ وہ جذباتی انسان سے بھی نیچے اترکر محسوساتی انسان کی تلاش کرنے لگی۔

    ۱۹۴۷ء کے بعد غزل کا دور شروع ہوتا ہے اور چھوٹی بڑی تبدیلیوں کے ساتھ ۱۹۷۳ء تک پہنچتاہے۔ وہ محسوساتی انسان کا دور ہے۔ جذباتی انسان اور محسوساتی انسان میں فرق یہ ہے کہ جذباتی انسان روحانی انسان کی طرح ہم آہنگ وجود نہیں رکھتا لیکن اس کی ذات کے مختلف اجزاجذبات کے تابع ہوتے ہیں۔ جب کہ محسوساتی انسان میں جذبات بھی کسریت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جذبات کا کم از کم ایک مرکز ثقل ہوتا ہے جبکہ محسوسات عارضی اور لمحاتی ہوتے ہیں۔ جدید غزل کے محسوساتی انسان کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ لمحہ لمحہ جیتا ہے اور اپنی ذات میں کسی ایسی مرکزیت کی تلاش نہیں کرتا جو ا س کے وجود کے مختلف اجزا کو مربوط کر دے۔ یہ محسوساتی انسان اس وقت تک پورے انسان کی سب سے چھوٹی کسر ہے۔ ناصر کاظمی، شہزاد احمد، احمد مشتاق، فرید جاوید، اطہر نفیس، عبیداللہ علیم وغیرہ اسی محسوساتی انسان کے نمائندے ہیں۔

    لیکن میری بات شاید مکمل نہ ہوگی اگرمیں غزل گوئی کے ایک اور رجحان کا ذکر نہ کروں جو ۱۹۵۷ء کے لگ بھگ ظہور میں آیا اور جس کی بھرپور نمائندگی ظفر اقبال اور ان کی قبیل کے دوسرے شعرا کرتے ہیں۔ یہ غزل کی سب سے بدنام شکل ہے کیونکہ اس غزل کے پیچھے جو انسان کام کر رہا ہے وہ انسانوں کی ان تمام شکلوں سے مایوس ہوکر، جو پچھلے سو سال میں ظہور پذیر ہوئی ہیں، اب صرف توڑ پھوڑ پر اتر آیا ہے۔ وہ ہر موجود رویے کے خلاف ہے اور اپنے تخلیقی عمل کے ذریعے انسان کی ہر شکل کی تخریب کرنا چاہتا ہے۔ اس کا مجموعی رویہ طنز، مزاح، تضحیک، پھکڑپن سے بھرپور ہے۔ وہ ہر چیز کا منہ چڑاتا ہے۔ ہر چیز پر کیچڑ اچھالتا ہے۔ ہر خیر کو مسخ کرتا نظر آتا ہے۔

    محسوساتی انسان کے بعد تخریبی انسان کا ظہور اس بات کی علامت ہے کہ انسان کی نئی تعریف کی ہر کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ بشیر بدر، محمد علوی، انور شعور اوران کے ساتھ کئی اورنام اسی تخریبی رجحان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس موقعے پر میں یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ بعض حلقوں میں احمد ہمدانی کی غزل کی مقبولیت اس سارے خلفشار میں لوگوں کی اس خواہش کا مظہر ہے کہ انسان کی کسی پرانی شکل کوقبول کر لیا جائے۔ احمدہمدانی کی غزل میں فراق کی آواز کی بازگشت ہماری اس خواہش کو طمانیت بخشتی ہے۔

    معاف کیجئے، میں نے نظم کی ایک بڑی روایت کے ذکر کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ’’نئی نظم اور پورا آدمی‘‘ میں راشد اور میراجی کوخراج تحسین پیش کرتے ہوئے میں نے لکھا تھا میراجی مر گئے اور راشد کہیں کھو گئے۔ لیکن راشد صاحب نے ازراہ کرم مجھے اطلاع دی کہ ایسا نہیں ہے۔ ان کی اس یقین دہانی کے بعد میں نے غور کیا تو راشد کو’’ماورا‘‘ سے آگے پایا۔ ’’ایران میں اجنبی‘‘ میں راشد یقینا آگے بڑھے ہیں۔ ان کا سفر جنس کے ذریعے انسان کی ایک تفتیش سے شروع ہوا تھا۔ لیکن اپنی دوسری تصنیف میں انہوں نے عہد جدید کے انسان کی تنقید کو اپنا موضوع بنایا اور اس کی پارہ پارہ زندگی کی نشان دہی کی۔ حلقے کے دوسرے لوگ جو میراجی کی حیثیت کولے کر چلے تھے، نئے انسان کی تلاش سے مایوس ہوکر انسان کی پرانی شکلوں کی طرف لوٹ گئے اور اپنے مضمون کا مداوا تصوف اور دوسرے روحانی اعمال میں ڈھونڈنے لگے۔ مختار صدیقی اور یوسف ظفر اس کی مثال ہیں۔ ان میں سے ’’چھوٹے‘‘ ضیا جالندھری تھے۔ وہ اپنے ساتھیوں کے مقابلے میں زیادہ تیز دم ثابت ہوئے۔ ’’سرشام‘‘ سے ’’نارسا‘‘ تک وہ برابر آگے بڑھتے رہے ہیں لیکن اب ان کی نظمیں اسی مرکزی تفتیش سے ہٹ کر جو میراجی اسکول کی بنیاد تھی، زیادہ سیاسی رنگ اختیار کرتی جا رہی ہیں۔

    اس سلسلے میں دو تین تازہ نظمیں جن میں سے ایک آدھی شائع بھی ہوئی ہے، میں نے سنی ہیں۔ یہ بڑی خوبصورت نظمیں ہیں۔ لیکن ان میں میری حالیہ تفتیش کے لیے کسی مواد کا سراغ نہیں ملا۔ البتہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ترقی پسندوں کی شکست کے بعد انقلابی انسان کی سیاسی شکست کے موضوع کو انہوں نے بہت خوبی سے گرفت میں لیا ہے۔ یہ کام ترقی پسندوں کو کرنا چاہئے تھا مگر چوں کہ وہ اس کا اعتراف نہیں کرتے اور اپنے تجربے کو دیکھنے کے بجائے نظریاتی دفاع کو ضروری سمجھتے ہیں، اس لیے یہ سعادت بھی ایک غیرترقی پسند کے حصے میں آئی ہے۔ ضیا کا یہ کارنامہ داد کے قابل ہے۔

    ۱۹۴۷ء کے بعد جدید نظم کا دوسرا رجحان وہ ہے جس کی نمائندگی افتخار جالب، جیلانی کامران، محمدسلیم الرحمن، انیس ناگی اور ان کے دوسرے ساتھی کرتے ہیں۔ ہم اپنی تفتیش کے پچھلے مرحلے میں جبلی انسان تک پہنچے تھے۔ جدید نظم کے ا س حالیہ دور میں یہ انسان بھی غائب ہو جاتا ہے۔ اب ہم انسان کے بجائے اس کی ایک تجریدی شکل سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ تجریدی انسان گوشت پوست کا وجود نہیں رکھتا۔ اب اس کی حیثیت صرف ایک ریاضی کی مساوات کی ہے جو نہ عقل کی زبان بولتا ہے، نہ جذبات کی، نہ محسوسات کی۔ اس کی زبان ریاضی کے ہندسوں کی طرح علامتی اور غیرشخصی ہے۔ محسوساتی انسان اور تخریبی انسان کی طرح یہ تجریدی انسان بھی اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ روحانی انسان کی موت کے بعد نئے انسان کا جو سفر شروع ہوا تھا، وہ ایک ایسی منزل پر پہنچ گیا ہے جس کے آگے کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ میں نے اب تک جو بحث کی ہے اس کی وضاحت کے لیے نئے انسان کے سفر کا نقشہ ملاحظہ فرمائیے۔

    روحانی انسان

    جذباتی انسان افادی ا نسان عقلی انسان

    رومانی انسان جمالیاتی انسان اصلاحی انسان اخلاقی انسان سیاسی انسان

    محسوساتی انسانی جبلی انسان

    تخریبی انسان معاشی انسان جنسی انسان

    انقلابی انسان عملی انسان تجریدی انسان

    آدرشی مادیت پرست عملی مادیت پرست

    اس نقشے کے مطابق ہم روحانی انسان سے گزرکر خالص مادیت پرست انسان تک پہنچ چکے ہیں جسے میں عملی مادہ پرست کہتا ہوں۔ چونکہ شعروادب کسی نہ کسی طرح انسانی روحانیت کا حصہ ہے اس لیے عملی مادیت پرست انسان کو اس کی ضرورت نہیں۔ وجہ یہ ہے کہ یہ انسان ہی نہیں ہے، حیوان کی صرف ایک شکل ہے۔ ممتاز حسین نے کہا تھا، انسان ایک روحانی حقیقت ہے مگر افسوس ترقی پسندوں کویہ بات بہت دیر میں یاد آئی۔ بہرحال انسان کے اس سفرنامے کو بین الاقوامی پس منظر میں سمجھنا ہو تو عسکری صاحب کا معرکہ آرا مضمون ’’مشرق ومغرب کی آویزش‘‘ ملاحظہ کیجئے۔ اس مضمون میں دیے ہوئے نقشے کے مطابق نئے انسان کا سفرنامہ یوں ہے،

    خدا مر گیا۔ (نطشے)

    انسانی تعلقات کا ادب مر گیا- (لارنس)

    انسان مر گیا۔ (مالرو)

    اب بتائیے میرا یہ احساس درست ہے یانہیں کہ کوئی وقت جاتا ہے جب نظم باقی رہےگی نہ غزل۔ لیکن ٹھہریے۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ راشد صاحب ’’لامساوی انسان‘‘ میں، انسان کی کسی نئی تعریف کی تلاش میں کھڑے ہوئے ہیں۔ خدا کرے وہ کامیاب اور بامراد لوٹیں۔ امید پر دنیا قائم ہے، لیکن ان کی واپسی تک میں اپنے مفلر والے حالی کو اس بصیرت کی داد تو دے ہی دوں جس نے نئی شاعری کی ’’داغ بیل‘‘ ڈالنے کے باوجود دھڑکتے ہوئے دل کے ساتھ کہا تھا، ’’شاعری نئی ہو یا پرانی، چلتی نظر نہیں آتی۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے