Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہمارا کلچر اور ادب: ۱۸۵۷ء سے پہلے اور اس کے بعد

ممتاز حسین

ہمارا کلچر اور ادب: ۱۸۵۷ء سے پہلے اور اس کے بعد

ممتاز حسین

MORE BYممتاز حسین

     


    آج کے دن ہندوستان اور پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کی سو سالہ یادگار بڑے اہتمام سے منائی جا رہی ہوگی۔ مگر کس قدر حیرت کی بات ہے کہ اس عظیم ترین واقعے کی پہلی یادگار پورے سو سال کے بعدہی منائی جا رہی ہے۔ شاید اس لئے کہ سرسید احمد خاں نے ان کی اطاعت کو قبول کر لیا تھا جو اولولامر تو تھے لیکن وہ ’’منکم‘‘ یعنی اپنوں میں سے نہ تھے مگر مجھے تو اس میں اپنی اس روایت پرستی کا ہاتھ نظر آتا ہے کہ ہم اصحاب کہف کی طرح پورے سو سال بعد جاگا کرتے ہیں۔

    ۱۷۵۷ء میں ہم پلاسی کا میدان چھوڑ کر بھاگے تو پھر پورے سو سال کے بعد ۱۸۵۷ء میں جاگے اور اب پورے سو سال کے بعد یہ کہتے ہوئے پائے جا رہے ہیں کہ ۱۸۵۷ء کا ہنگامہ ’’غدر‘‘ نہیں بلکہ آزادی کی لڑائی تھی۔ چلئے اب اتنی سمجھ بوجھ تو پیدا ہوئی۔ سو سال کے عرصہ میں ہمارا اتنا جاگ لینا بھی کچھ کم نہیں ہے اگر زندہ رہے تو اور جاگ لیں گے۔ زمانہ آخر کو غیر مختتم جو ٹھہرا۔ بہرحال آج کے دن ۱۰ مئی ۱۹۵۷ء جبکہ ہم غداری کے لفظ کو آزادی کے لفظ سے بدل رہے ہیں، مشرق اور مغرب کے اس ذہنی تصادم کا ایک خاکہ پیش کرنا چاہتا ہوں جو ۵۷ء سے پہلے تھا اور جو ۵۷ء کے بعد ایک سمجھوتہ کی صورت میں نمودار ہوا۔ ایک مختصر سے مضمون میں اس ساری ذہنی کشمکش کو سمیٹنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ بس ڈھارس صرف اتنی سی بات سے بندھتی ہے کہ ہمارے یہاں ذہنی تبدیلی کی رفتار بہت سست رہی ہے۔ بہت سے اس زمانہ کے مسائل آج بھی متنازعہ فیہ بنے ہوئے ہیں اور یہ خصوصیت کچھ ہماری اپنی ہی نہیں ہے بلکہ مغربی ایشیا کے اور بھی چند ممالک کی ہے۔

    قصہ یہ ہے کہ ہماری جس قسم کی ذہنی تعلیم و تربیت قرون وسطی میں ہوئی تھی، اس سے دورحاضر کے اس دماغ کا سخت تصادم رہا ہے جو یورپ کے نشاۃ ثانیہ کے جلو میں معقولات اور سائنس کی ترقی سے وجود میں آیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ یورپ کے نشاۃ ثانیہ میں، جس کی ابتدا پندرہویں صدی، سولہویں صدی میں ہوئی، دنیائے اسلام کی خدمات کو بھی دخل رہا ہے، لیکن اس موقع پر ہم اسے بہت جلد بھلا دیتے ہیں کہ جن مسلمان مفکرین کی خدمات کو دخل رہا ہے انہیں ہمارے علمائے کبار ملحد سمجھتے تھے اور چونکہ گزشتہ صدیوں میں ہماری ذہنی زندگی پر انہیں علما اور شیوخ کی تصانیف اور تعلیم کا غلبہ رہا، جنہوں نے ہمارے مسلمان مفکرین کو ملحد قرار دیا، یونانی روح تجسس کی تردید کی اور علوم طبعیہ کی ترقی کو مذہب کے حق میں سم قاتل قرار دیا، اس لئے عملاً ہم یورپ کے نہ صرف نشاۃ ثانیہ ہی سے کٹے رہے، بلکہ اس کے بعد رونما ہونے والی سائنس، معقولات اور صنعت وحرفت سے بھی اور ان سے اس وقت دوچار ہوئے جبکہ یورپ کی سرمایہ داری نے لوٹ اور غارت گری کے جلو میں مشرق پر دھاوا کیا۔

    نتیجہ ظاہر ہے، سرمایہ دارانہ نظام کی لائی ہوئی برکتیں، اس کی لوٹ اور غارت گری کے ساتھ کچھ اس طرح گھل مل گئیں کہ اچھے اور برے کی تمیز جاتی رہی۔ جنہیں آزادی عزیز تھی، انہوں نے مغرب کے خلاف ایک ایسا منفی جذبہ پیدا کیا کہ مغرب کی ہر چیز کی مخالفت کی جانے لگی۔ آزادی کا جذبہ بے شک بڑاہی قابل قدر ہے لیکن چونکہ آزادی ایک مثبت شئے بھی ہے نہ کہ صرف ایک منفی جذبہ، اس لئے اس رویے کی تنقید بھی ضروری تھی، جس کی روسے مغرب کی ہر شئے حرام قرار دے گی گئی تھی۔ جس طرح آج مسلمانوں کی تلوار ایٹم بم کے مقابلے میں کند ہے اسی طرح درس نظامیہ کی کتابیں پورپ کی نئی تعلیم کے بالمقابل بے سو دتھیں۔ چنانچہ مغربی تعلیم اور مغربی علوم وفنون کی ترویج و اشاعت سے جو ردعمل کہ مسلمانوں کے اندر قرون وسطی کی طرف لوٹنے یا اسے ازسرنو زندہ کرنے کا پیدا ہوا، وہ تمام تر ایک منفی جذبہ تھا اور آج بھی جہاں کہیں وہ جذبہ زندہ ہے، وہ کم مایہ اور ناقابل اعتناء ہے کیونکہ منفی جذبہ بہت جلد طاقت کے سامنے سرنگوں ہو جاتا ہے۔

    یہاں جو چیز سمجھنے کی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم جو یورپ کے غلام ہوئے تواس کا سبب یہ نہ تھا کہ ہم میں قرون اولی کا کیرکٹر نہ تھا اور ہم بے دین ہو گئے تھے۔ امریکہ جوہمار دین و ایمان کا محافظ ہے وہ کب اپنے مذہب سے قریب تر ہے۔ بلکہ اس کا سبب یہ تھا کہ بھاپ اور بجلی کی ایک نئی طاقت جو یورپ کی صنعتی زندگی میں انقلاب لائی، اس سے ہم محروم تھے۔ ہماری دست کاری باوجود اپنی نفاست اور ہنرمندی کے یورپ کی مشینی صنعت کا مقابلہ نہیں کر سکی۔ ہم غلام کسی ملک اور قوم کے نہیں ہوئے بلکہ اس طاقت کے ہوئے جسے صنعتی انقلاب نے یورپ میں جنم دیا۔ اس صنعتی انقلاب نے ساری دنیا میں آزادی کی قوتوں کو بھی رہا کیا ہے۔ اب لوگوں کو یورپ کی ترقی کا راز معلوم ہو گیا ہے۔ اس کے یہ معنی ہوئے کہ انسانی عمل کی آزادی قوانین فطرت کی متابعت میں ہے، قوانین فطرت کوجان کرہی فطرت کو تابع کیا جا سکتا ہے۔ صرف وہی لوگ اقوام کی ترقی کومعجزہ سے تعبیر کرتے ہیں جو تاریخ کے اسباب وعلل جاننے سے قاصر ہوتے ہیں۔

    جب ہم اس پس منظر میں انیسویں صدی کے اوائل کے مسلمانوں کی ذہنی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ کہنے کو تو وہ اس وقت بھی اپنے ہی کو اس زمین پر اللہ تعالیٰ کا خلیفہ تصور کرتے لیکن انہیں ارض کاطول و عرض بھی معلوم نہ تھا۔ سرسید کے ایسا روشن خیال آدمی جس نے ۱۸۶۴ء میں سائنس سوسائٹی کی بنیاد ڈالی، وہ اس حد تک بطلمیوس کے علم ہیئت میں غرق تھا کہ انہوں نے ۱۸۶۲ء کے ایسے زمانہ قریب میں ایک ’’رسالہ درابطال حرکت زمین‘‘ لکھنا اپنا فریضہ مذہبی تصور کیا۔ یہ واقعہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اس وقت کے ہندی مسلمان ذہنی اعتبار سے کوپرنیکس اور گلیلیو کے دور میں داخل نہیں ہوئے تھے۔ اس میں شبہ نہیں کہ ۷۰ء میں یورپ کی واپسی کے بعد انہوں نے اپنے اس خیال کی تردید بھی کی اور ہماری سوسائٹی میں سائنس اور مذہب کی کشمکش کو پہلی دفعہ اس طرح حل کیا کہ قوانین فطرت کوعمل الہی قرار دیا اور یہ دلیل پیش کرتے ہوئے خدا کا قول اور فعل ایک دوسرے کے متضاد نہیں ہو سکتا ہے، قول الہی اور فعل الہی میں مطابقت ڈھونڈنے کی تعلیم دی۔

    اس طرح سائنس اور مذہب کی کشمکش کامسئلہ حل کیاکہ سائنس اور مذہب کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کیا تاہم اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ رسالہ مذکورہ اس صدی کے مسلمانوں کی اس مخصوص ذہنیت کی غمازی کرتا ہے جوہر اس سائنسی انکشاف اور تاریخی ریسرچ کو مداخلت فی الدین سے تعبیر کیا کرتا جو قرون وسطی کے بندھے ٹکے نظریہ حیات و کائنات کو چیلنج کرتا۔

    اس تمہید کی ضروت اس لئے پڑی کہ ۱۸۵۷ء کی بغاوت اگر ایک طرف آزادی اور غلامی کی لڑائی تھی تو دوسری طرف مغرب اور مشرق کے دومخالف ذہنو ں کی بھی لڑائی تھی۔ مغربی ذہن متحرک اور تغیر پسند تھا۔ مشرقی ذہن بندھے ٹکے نظریات کا حامل تھا اور ذہنی تحریک کو بدعت سے تعبیر کرتا۔ ایسی صورت میں ہماری شکست اگر ایک طرف مزید سیاسی اور اقتصادی غلامی کا سبب بنی تو دوسری طرف اس نے بالواسطہ ہمارے معاشرے میں ذہنی لچک کے لئے راہ بھی ہموار کی۔ چنانچہ یہ ایک بڑا پرپیچ معاملہ رہا ہے کہ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں وہ لوگ زیادہ سرگرم رہے ہیں جو مغرب کے علوم وفنون کی بالکل ہی تردید کرتے، اور وہ لوگ سیاسی سمجھوتے سے کام لیتے اور نرم رہتے جو مغربی خیالات کو قبول کرکے ایشیائی ذہن کو بدلنے کی کوشش کرتے۔

    ایسی صو رت میں آج جب کہ ہم ان مجاہدین کے سوگ میں اپنے جھنڈے سرنگوں کر رہے ہیں جو ۵۷ء کی جنگ آزادی میں شہید ہوئے تو ہمیں اس موقع پر ان مجاہدین کو بھی فرامو ش نہ کرنا چاہئے، جنہوں نے اپنے کو مغرب دشمنی سے محفوظ رکھ کر اس ایشیائی ذہن کو بدلنے کی جدوجہد کی جو آگے بڑھنے کی بجائے یا تو اپنی جگہ پر قائم رہنا چاہتا تھا یاپھر پیچھے مڑکر دیکھ رہا تھا۔ اور مردہ پروری، ماضی پرستی اور تقلید کو جزوایمان بنائے ہوئے تھا۔ ذہنی تاریکی بھی اتنی ہی خطرناک ہوتی ہے جتنی کہ سیاسی یا اقتصادی غلامی کیونکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے پراثرانداز ہوتی ہے۔ اب اس تمہید کے بعدمغربی علوم وفنون اور مغربی افکار کے تصادم اور باہمی اثرپذیری کے عمل میں آپ اپنے یہاں کی اس ذہنی، تمدنی اور ادبی زندگی کا منظرنامہ ملاحظہ کریں جو ۱۸۵۷ء سے پہلے تھا۔

    ہندوستان کی تاریخ میں انگریز بحیثیت ایک سیاسی طاقت کے ۱۷۵۷ء کی جنگ پلاسی کے بعد ہمارے سامنے آتے ہیں۔ اسی زمانہ سے انہوں نے ہندوستان کو فتح کرنا شروع کیا اوراس تیز رفتاری کے ساتھ کہ ۱۸۱۸ء تک انہوں نے سارے ہندوستان کو بجز پنجاب اورسندھ فتح کر لیا۔ ہندوستان کی اس سرنگونی ہی کا زمانہ انگلستان کے صنعتی انقلاب کا زمانہ تھا۔ اسی پچاس ساٹھ سال کے زمانے میں وہاں وہ ساری مشینیں ایجاد ہوئیں جن سے وہاں کی صنعت میں ایک ایسا انقلاب آیا جس نے ہندوستان کو صنعتی دوڑ میں بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ ۱۷۶۰ء میں فلائنگ شٹل ایجاد ہوئی۔ ۱۷۶۴ء میں اسپننگ جنی ۱۷۶۸ء میں دخانی انجن، ۱۷۷۶ء میں دھاگہ بننے کی مشینیں جسے میول کہتے ہیں اور ۱۷۸۵ء میں پاورلوم۔ ان ساری ایجادات کا براہ راست ان کی معاشیات پر یہ اثر پڑا کہ وہاں کی اقتصادیات تاجرانہ سرمایہ داری سے، جس کی نمائندگی ایسٹ انڈیاکمپنی کرتی تھی صنعتی سرمایہ داری کی طرف مڑ گئی۔ جس کی نمائندگی وہاں کے مل مالکان کرنے لگے۔

    چنانچہ یہ انہیں دونوں کی باہمی کشمکش کا نتیجہ تھا کہ وارن ہیسٹنگز پر، چیت سنگھ اور بیگمات فیض آباد سے زبردستی دولت لوٹنے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا اور یہ تنازع اس قدر آگے بڑھا کہ بالآخر وہاں کے صنعتی سرمایہ داروں نے اپنے اثرورسوخ سے حکومت کو اس امر پر مجبور کیا کہ وہ ہندوستان کی تجارت پر کمپنی کی اجارہ داری کو منسوخ کر دے۔ اس اجارہ داری کی منسوخی کایہ عمل ۱۸۱۳ء میں وجود میں آیا۔ اس وقت سے ہندوستان کا بازار انگلستان کے تمام سرمایہ داروں کی آزادانہ طبع آزمائی کے لئے کھل گیا ورنہ اس وقت سے پہلے ہندوستان ایسٹ انڈیا کمپنی کے گماشتوں کے ذریعے سوتی اور ریشمی کپڑے یورپ کے ملکوں کے لئے برآمد کیا کرتا تھا۔ اب اس برآمد میں کمی ہونے لگی اور اس کی جگہ لنکاشائر کے سوتی کپڑوں کی درآمد نے لے لی اور اس طریق کار کو چنگی محصول اور ٹیرف کی مراعات کے ذریعے انگریزوں نے اس قدر تیز کر دیا کہ ۱۸۵۰ء تک ہندوستان کی شہری صنعت وحرفت کا خاتمہ ہو گیا۔ پرسیول اسپیر لکھتا ہے کہ،

    ’’ہندوستان میں لنکاشائر کے سامان کی بے روک ٹوک درآمد نے ہندوستان کے سوتی کپڑوں کی مرفہ الحال صنعت کا خاتمہ کر دیا۔ ۱۸۵۰ء کے بعد تو صرف دیہاتیوں میں موٹے جھوٹے کپڑوں کی صنعت رہ گئی تھی۔ شہر کے تمام بنکار دیہاتوں میں چلے گئے، جس سے ہندوستان کی ہنرمندی اور صنعت دونوں ہی ختم ہو گئیں۔ ہندوستان کی اقتصادیات ایک بالکل ہی نوآبادیاتی ملک کی ہو گئی جس کا کام صرف یہ رہ گیا کہ وہ انگلستان کو کچا مال برآمد کیا کرے اور وہاں کی مصنوعات کو اپنے یہاں فروخت کرتا رہے۔‘‘

    اس کے یہ معنی ہوئے کہ انیسویں صدی کے نصف اول میں پورا ہندوستان نہ صرف سیاسی اعتبار سے انگریزوں کا غلام ہو گیا بلکہ اقتصادی اعتبار سے بھی۔ اب اس کے بعد ہندوستانی ذہن کو مفتوح کرنے کی جو مہم باقی رہ گئی تھی اس کی روداد سنئے۔

    ایسٹ انڈیا کمپنی بنگال، بہار اور اڑیسہ کی دیوانی پر قابض ہونے کے بعدبھی تاجرانہ نقطہ نظر ہی اختیار کئے رہی۔ چنانچہ وہ بنگال، بہار اور اڑیسہ کے محصولات کا ایک تہائی حصہ نقدی براہ راست ولایت بھیج دیا کرتی۔ صنعتی سرمایہ داروں نے کمپنی کی اس نفع خوری میں اڑنگا لگایا۔ ۱۸۱۳ء کے چارٹر کی روسے کمپنی کواس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ ہندوستان کے باشندوں کی تعلیم پر دس ہزار پونڈ سالانہ صرف کرے اور جب ۱۸۲۳ء میں اس چارٹر کی تجدید ہوئی تو کمپنی کو مزید اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ ہندوستانیوں کو اعلیٰ سول سروس پر بھی مامور کرے۔ انگلستان نے یکایک جو ہندوستان کے معاملات میں یہ دلچسپی لینی شروع کی تو اس کا سبب یہ تھا کہ وہاں کے صنعتی سرمایہ دار، کمپنی کی تاجرانہ لوٹ وغارت کو ختم کرکے اپنا نوآبادیاتی استحصال کا نظام شروع کرنا چاہتے تھے اور اس کام کے لئے ہندوستانی معاشرت میں زمیندارانہ طبقے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا پڑھا لکھا متوسط طبقہ بھی پیدا کرنا چاہتے تھے جو بہ یک وقت ان کی دو خدمتیں انجام دے سکے۔

    ایک خدمت تو یہ تھی کہ وہ انتظامی امور میں ان کا ہاتھ بٹائے۔ دوسری خدمت یہ تھی کہ وہ ان کے تہذیبی مشن کی تاویل ہندوستانی عوام سے کر سکے۔ انگلستان میں صنعتی سرمایہ داروں کا یہ طبقہ برسر اقتدار اس وقت آتا ہے جبکہ وہاں ۱۸۳۰ء میں ریفارم بل پاس ہوتا ہے اور وہاں کی حکومت میں متوسط طبقے کی نمائندگی شروع ہوتی ہے۔ چنانچہ ہندوستان میں جتنے بھی سماجی اصلاحات قوانین کے ذریعے نافذ کئے گئے ہیں وہ سب کے سب اسی زمانہ کے بعد کئے گئے ہیں۔ انہیں قوانین میں ۱۸۳۵ء کا وہ قانون بھی تھا جس کی رو سے ہندوستان میں مغربی تعلیم انگریزی زبان کے ذریعہ نافذ کی گئی اور انگریزی زبان کو فارسی زبان کی جگہ مرکزی حکومت اور عدالت عالیہ کی سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ ہندوستانی ذہن کو فتح کرنے کی کوشش اسی وقت سے شروع ہوتی ہے اور اگرکسی کو اس میں شبہ ہے تو وہ لارڈ میکالے کے ان الفاظ کو غور سے پڑھے، ’’ایک ایسا طبقہ پیدا کرنا ہے جورنگ وخون میں ہندوستانی ہو لیکن مذاق، رائے، اخلاق اور ذہن میں انگریزی ہو۔‘‘

    یہ تبدیلی ہندوستان کے لئے اتنی ہی متشدد اور غیرمتوقع تھی جتنی کہ وہ تبدیلی جو انگریزوں کی موجودگی سے یہاں کی معاشیات میں آئی تھی۔ ہندوستان کی تاریخ میں انگلستان کے صنعتی سرمایہ دارو ں کا یہ تاریخی رول دوگانہ پہلوؤں کا حامل تھا۔ ہندوستانی اقتصادیات کے نقطہ نظر سے ان کا یہ عمل تخریبی تھا۔ اس نے ہندوستان کی مرفہ الحال صنعت کا خاتمہ کرکے اس کی اقتصادیات کو خالصتاً زرعی اقتصادیات میں تبدیل کر دیا۔ اس سے ہندوستان کی معیشت کو سخت نقصان پہنچا اور اس کی ترقی کی رفتار رک گئی۔ لیکن چونکہ ہندوستان کی معاشرت بنیادی حیثیت سے جاگیردارانہ تھی، جہاں اس کی صنعت و حرفت نے سائنسی ایجادات سے محروم رہنے کے باعث اتنی ترقی نہیں کی تھی کہ وہ اس کی معاشیات پر غالب آ جاتی۔ اس لئے ہندوستان ذہنی اعتبار سے ایک پسماندہ ملک تھا۔

    چنانچہ جب انگلستان کے صنعتی سرمایہ داروں نے ہندوستان میں مغربی تعلیم رائج کی تو انہوں نے ہندوستان کی ذہنی فضا کو ترقی کی طرف اکسایا بھی۔ اس رجحان کو مزید تقویت دخانی جہاز، ریل گاڑی، ٹیلی گراف اور اس قسم کی دوسری چیزوں سے ہندوستان کو متعارف کرانے سے بھی پہنچی۔ یہی ان کا ترقی پسندانہ رول تھا، خواہ وہ شعوری ہو یا غیرشعوری، نہ کہ ہندوستان کے شہروں کی اس صنعت وحرفت کو تباہ و برباد کرنے کا جو صنعتی انقلاب سے قبل کے زمانے میں انگلستان کی صنعت وحرفت سے زیادہ ترقی یافتہ تھی اور اس سلسلے میں مختلف سندیں انگریز مؤرخین کی پیش کی جا سکتی ہیں۔ چنانچہ ہندوستان میں مغربی تعلیم کی مخالفت زیادہ تر اس وجہ سے ہوئی کہ ہندوستان میں انگریزوں نے اس کی کوئی ویسی صنعتی بنیاد پیدا نہ کی جیسی کہ انگلستان میں تھی اور اس کی ایک نیم پختہ بنیاد جو انگریزی راج سے پہلے ہندوستان کی شہری صنعت وحرفت میں موجود تھی، اسے انگلستان کے صنعتی سرمایہ داروں نے خوداپنے ہاتھوں تباہ و برباد کیا۔ بہرحال مغربی کلچر اور مغربی ذہن کا چیلنج اسی انگریزی تعلیم کی ترویج اور سائنٹیفک ایجادات کی نمائش سے شروع ہوتا ہے۔

    اس میں شبہ نہیں کہ ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان کی تعلیم میں ۱۸۱۳ء کے چارٹر سے پہلے بھی کچھ نہ کچھ دلچسپی لیتی تھی۔ ’’ کلکتہ مدرسہ‘‘ اور بنارس کے ’’سنسکرت کالج‘‘ میں بھی عربی اور فارسی کی تعلیم دی جاتی تھی اور بہت سے انگریز مستشرقین ہندوستان کی قدیم تاریخ، سنسکرت اور عربی و فارسی کے مطالعے اور دیسی زبانوں کی ترویج میں بھی حصہ لے رہے تھے، لیکن کمپنی کی اس تعلیم کا مقصد کچھ اور تھا۔ اس کی وضاحت راجہ رام موہن رائے کے الفاظ میں سنئے اور وہ اپنے ایک خط میں لارڈ ایم ہرسٹ کو لکھتے ہیں،

    ’’اگر انگلستان کی قوم کو تاریکی میں رکھنا مقصود ہوتا تو اس کا موقع نہ دیا جاتا کہ بیکن کا فلسفہ قرون وسطی کے علوم کی تدریس کی جگہ لے سکے، جس کا مقصد جہل کو صرف برقرار کھنا تھا۔ اسی طرح سنسکرت کی تعلیم کا مقصد اس سے زیادہ نہیں ہے کہ ہندوستانیوں کی جہالت کو برسراقتدار رکھا جائے۔ مگر چونکہ حکومت کا یہ منشانہیں ہے، اس لئے مجھے امید ہے کہ حکومت اس سے زیادہ لبرل اور روشن خیال نظام تعلیم رائج کرے گی۔‘‘

    لیکن ۱۸۱۳ء کے چارٹر کے بعد کمپنی اس پر مجبور ہو گئی تھی کہ وہ ہندستان میں کوئی نہ کوئی جدید طرز کا کالج کھولے۔ چنانچہ اس نے کلکتہ میں ہندو کالج کھولا (۱۸۱۶ء) اور دہلی میں ایک پرانے طرز کے مدرسے کو دہلی کالج (۱۸۲۹ء) میں مبدل کر دیا۔

    ان دونوں کالجوں میں تعلیم مغربی علوم وفنون کی بھی ہندوستانی زبانوں ہی کے ذریعے دی جاتی۔ صرف دہلی کالج میں اس کا تجربہ کیا گیا تھا کہ سائنس کی تعلیم کو انگریزی زبان کے ذریعے بھی حاصل کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ بہرحال جہاں تک شمالی ہند کے مسلمانوں کا تعلق ہے، وہ اس وقت تک نہ تو انگریزی پڑھتے تھے اور نہ سائنس۔ لیکن ان دونوں سے متاثر ضرور ہو چلے تھے۔ چنانچہ سی ایف انڈریوز مولوی ذکاء اللہ کی سوانح حیات میں لکھتے ہیں کہ دہلی کالج میں سائنس کی تعلیم دیے جانے کا یہ اثر ہوا کہ سائنس کے تجربات کا ذکر دہلی کے اکثر گھرانوں میں کیا جانے لگا۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں نے مغربی تعلیم کو قبول کر لیا تھا۔ ہر نئی چیز کا چرچا تو ہوتا ہی ہے اسی طرح مغربی علوم وفنون کا بھی چرچا ہو رہا تھا۔ اس سے یہ بات بھی ثابت نہیں ہوتی کہ مسلمانوں کے درمیان اس کی پذیرائی بھی تھی۔

    سائنس اور معقولات کی تعلیم سے مسلمانوں کے ذہن کا الجھاؤ تھا اور وہ آج بھی بعض حلقوں میں موجود ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اگر اس تعلیم کو ان کے ذہنی سانچے میں ڈھال لیا جاتا اور اسے مسیحی مذہب اور اخلاق کی تبلیغ کا پردہ نہ بنایا جاتا تو شاید اس کی اتنی مخالفت نہ ہوتی جتنی کہ ہوئی۔ لیکن اب ان مفروضات سے کیا فائدہ۔ ہمیں تو دیکھنا یہ ہے کہ ۱۸۳۵ء کے نظام تعلیم کے ہم راہ جو مغربی علوم وفنون اور ایک پروٹسٹنٹ مسیحیت کا چیلنج آیا، اس کا جواب مسلمانوں کے ذہن نے کیوں کر دیا۔ ۱۸۳۵ء سے پہلے تعلیمی امور میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی جو پالیسی تھی اس کی وضاحت ہم اشارتاً کر چکے ہیں۔ یہاں صرف ایک چیز کے اظہار کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

    چونکہ کمپنی ۱۸۳۵ء کے چارٹر سے پہلے امور حکمرانی میں تاجرانہ ذہنیت کی حامل تھی۔ اس لئے وہ اس وقت تک ’’مداخلت فی الدین‘‘ کے جرم کی مرتکب نہ ہوئی تھی۔ وہ امور دین میں عدم مداخلت کے اصول پر سختی سے کاربند تھی۔ اس نے نہ صرف اپنے مدرسوں اور کالجوں کو بائبل کی تعلیم سے آزاد رکھا بلکہ پروٹسٹنٹ چر چ کا داخلہ بھی اپنی مملکت میں ممنوع قرار دیا تھا۔ صرف کیتھولک چرچ کو اس بات کی اجازت تھی کہ وہ تبلیغی کام ’’لااکراہ فی الدین‘‘ کے اصول پر کاربند ہوکر کرے۔ لیکن ۱۸۳۵ء کے بعد جب کہ لارڈ ولیم بنٹنگ کی گورنری کا زمانہ آیا تو کمپنی کا رویہ بدل گیا۔ تاجرانہ رویے کی جگہ حاکمانہ رویہ نے لے لی۔ چنانچہ جب لارڈولیم بنٹنگ اور لارڈ میکالے ہندوستان کی تعلیمی پالیسی کے مباحثے میں انگریز مستشرقین کو شکست دے کر اپنی پالیسی پرکار بند ہوئے تو انہوں نے ہندوستان کے مذہب اور کلچر کے احترام کو بالائے طاق رکھ دیا۔ انہوں نے ہندوستانیوں کو کفار اور ان کے مذہبی ادب کو خرافات سے تعبیر کیا اور انگریزی زبان اور ادب کی حمایت میں اس قدر رطب اللسان ہوئے کہ صرف اسی کو دنیا کی تمام روشن خیالیوں کی کنجی قرار دیا۔

    ہمیں یہاں ان کے اس دعوے کی تردید مقصود نہیں ہے۔ بتانا یہ ہے کہ ہندوستان میں مغربی نظام تعلیم انگریزی زبان کی حاکمیت کے ساتھ ساتھ ایک ہی سال میں نافذ کیا گیا۔ اس احساس برتری کے ساتھ کہ ہندوستانیوں کے ایسی ایک غیر مہذب قوم کو شائستہ بنایا ہے اور اس میں اس قدر شدت سے کام لیا گیا کہ ایسے سارے اداروں کی امداد بند کردی گئی جہاں مشرقی تعلیم دی جاتی تھی اور اس مقصد کے لئے انہوں نے اپنے ملک کی دو رائج الوقت تحریکوں کو ہندوستان میں درآمد کیا۔ ایک جرمی بنتھم کی معقولیت اور افادیت پرستی اوردوسری ایوان جیلیکل چرچ کی مسیحیت۔ یہ دونوں تحریکیں اس وقت انگلستان میں ۱۸۳۰ء کے ریفارم بل کے بعدبڑی قوت پکڑ رہی تھیں۔ یوں تو یہ دونوں تحریکیں ایک دوسرے کی ضدتھیں۔ کیونکہ افادیت پرستی کا فلسفہ مادی تھا اور ایوان جیلزم کی بنیاد تمام تر روحانیت پر تھی۔ لیکن چونکہ انگلستان میں سماجی اصلاحات کے قوانین نافذ کرانے میں دونوں ہی ایک دوسرے کی ہمدم و دمساز تھیں، اس لئے ہندوستان کو مہذب اور شائستہ بنانے میں بھی ان دونوں تحریکوں کا تعاون برقرار رہا، خواہ ان کے نظریات ایک دوسر سے کتنے ہی مختلف کیوں نہ رہے ہوں۔

    لیکن یہاں اس بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ ہندوستان پر بھرپور حملہ ایوان جیلزم کا ہوانہ کہ افادیت پرستی کا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ انگلستان ایک بڑا ہی قدامت پرست اور مذہبی ملک تھا۔ وہ بنتھم کی افادیت پرستی کو بنیادی اعتبار سے ایک یورپین تحریک تصور کرتا اور ایوان جیلزم کو خالصتاً انگلیسی۔ اس لئے جیسی مقبولیت کہ ایوان جیلزم کو انگلستان میں حاصل ہوئی ویسی بنتھم اور جیمس مل کی افادیت کو حاصل نہ ہوئی۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ہندوستانی ذہن پر بنتھم اور جیمس مل کی افادیت پرستی کا اثر ن ہیں پڑا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ یہ اثر کالج کے گریجویٹوں تک محدود تھا جن میں اکثریت ہندوؤں کی تھی نہ کہ مسلمانوں کی۔ مسلمان گریجویٹ تو ۱۸۵۷ء سے پہلے شاذونادر ہی رہے ہوں گے۔ مجھے ان میں سے اب تک کسی کا نام نہیں ملا ہے ورنہ اس مغربی تعلیم کی طرف عام مسلمانوں کا رویہ وہی تھا جو ڈپٹی نذیر احمد کے والد کا تھا۔ انہوں نے نذیراحمد کو دہلی کالج میں انگریزی زبان سیکھنے اور سائنس کی تعلیم حاصل کرنے سے منع کر رکھا تھا۔

    لیکن مسلمانوں کاسائنس اور انگریزی تعلیم سے بچنا اور اس کے جراثیم سے محفوظ رہنا دو مختلف چیزیں تھیں۔ ہندی مسلمانوں کے درمیان معقولین کا وہ طبقہ جو فلسفہ وحدت الوجود کا قائل تھا اور جس کی تمام تر جدوجہد ملاؤں کے کٹرپن کے خلاف ایک لبرل اور انسان دوست فلسفہ حیات کی ترویج میں صرف ہوئی تھی، وہ انگریزوں کی لائی ہوئی روشن خیالی کا مخالف نہ تھا، ان میں سے بعض نے اس کا خیرمقدم بھی کیا۔ مرزاغالب جن کے انگریز احباب اور انگریز مربیوں کی ایک لمبی چوڑی فہرست ہے، انہیں میں سے ایک تھے۔ انہوں نے اپنے کلکتہ کے قیام میں (۱۸۲۹ء) ایجادات نوع بہ نوع کی ایک ایسی نمائش اور اپنے گرد ذہنی انقلاب کی ایک ایسی فضا پائی کہ اس سے متاثر ہوئے بغیر وہ نہ رہ سکے۔ چنانچہ وہ اپنی ایک غزل میں جو اسی دور کی یادگار ہے، انگریزوں کے لائے ہوئے ذہنی انقلاب کا استقبال ان الفاظ میں کرتے ہیں،

    مژدہ صبح دریں تیرہ شبانم دادند
    شمع کشتند و ز خورشید نشانم دادند

    رخ کشودند و لب ہرزہ سرائم بستند
    دل ربودند و دو چشم نگرانم دادند

    گہراز رایت شاہان عجم بر چیدند
    بعوض خامہ گنجینہ فشانم دادند

    افسر از تارک ترکان پشتگی بردند
    بہ سخن ناصیہ فر کیانم دادند

    گوہر از تاج گستند و بدانش بستند
    ہرچہ بردند بہ پیدا بہ نہانم داند

    ان کے اس نقطہ نظر کی مزید وضاحت ان کی اس منظوم تقریظ سے بھی ہوتی ہے جسے انہوں نے سرسید احمد خاں کی استدعا پر آئین اکبری کے تصحیح شدہ ایڈیشن کے لئے لکھا تھا اور جسے سرسید نے ان کے خیالات سے اختلافات رکھنے کے باعث اس تقریظ کو آئین اکبری کے ساتھ شائع نہیں کیا۔ اب وہ تقریظ کلیات غالب میں ملتی ہے اس کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

    صاحبان انگلستاں رانگر
    شیوہ و انداز اینہاں رانگر
    داد و دانش را بہم پیوستہ اند
    (قانون کی حکومت اور تعلیم)

    ہند را صد گو نہ آئیں بستہ اند
    آتشے کز سنگ بیروں آورند
    ایں ہنر منداں زخس چوں آورند
    (دیاسلائی)

    تاچہ افسوں خواندہ اند ایناں برآب
    دود کشتی را ہمی راند در آب
    (دخانی کشتی)

    نغمہ ہا بے زخمہ از ساز آورند
    حرف چوں طائر بہ پرواز آورند
    (گرافون اورٹیلی گراف)

    می زند آتش بہ باد اندر ہمی
    می درخشند باد چوں اخگر ہمی
    (گیس کی روشنی)

    لیکن غالب کا یہ نقطہ نظرعام مسلمانوں کا نہیں تھا۔ غالب نے تصویر کے صرف ایک رخ کو دیکھا۔ سائنسی ایجادات، مطلق العنان بادشاہوں کی حکومت کی بجائے قانون کی حکومت اور مغربی تعلیم جو خامہ گنجینہ فشاں کا ذریعہ تھی۔ اس کا دوسرا رخ جو اقتصادی استحصال کا تھا اس کو انہوں نے یا تو نظر انداز کیا یا پھراس کی توجیہ اس طرح پیش کی، ہرچند بردندبہ پیدا بہ نہانم دادند۔

    یعنی ہماری دولت لے کر ہمیں ایک ذہنی انقلاب سے روشناس کرایا۔ لیکن عوام جو غالب کی طرح نہ تو دولت انگلیسیہ کے وظیفہ خوار تھے اور نہ ان کے اتنے تعلیم یافتہ، وہ غالب کے اس نظریے سے کیونکر متفق ہوتے، بالخصوص ایک ایسے زمانے میں جب کہ شہری صنعت کے ٹوٹنے کے باعث ہنر پیشہ لوگوں کی جماعت دیہاتوں کی طرف گامزن تھی اور صوفیوں کے سلسلوں سے آزاد ہوکر باغی مولویوں کی وہابیت سے متاثر ہو رہی تھی، جس میں لبرلزم کی بجائے کٹرپن تھا۔ ہندوستان کی یہ نئی کولونیئل معاشیات جو تمام تر زرعی بنتی جا رہی تھی، نہ صرف صوفیا کی آزادخیالی کی روایات کی بیخ کنی کر رہی تھی بلکہ مولویانہ کٹرپن کے احیاء میں بھی مددگار تھی۔ انگلیسی سرمایہ داری کی روشن خیالی کا یہ ایک عجیب پر تضاد کارنامہ تھا کہ اس کے حکمراں صنعتی انقلاب کی پروردہ مغربی تعلیم کا پودہ ایک ایسی سرزمین میں لگا رہے تھے جہاں سے وہ صنعت وحرفت کو ختم بھی کئے جا رہے تھے۔

    چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بنتھم اور مل کی روشن خیالی اور معقولیت توسمٹ سمٹاکر ایک محدود طبقے میں رہ گئی اور ایوان جیلزم جو بنتھم اور مل کی معقولیت سے یکسر خالی تھی، مغربی تعلیم کا نمائندہ مظہربن کر عوام کے سامنے آئی۔ مشن اسکولوں میں، جن کا جال سارے ہندوستان میں بچھا ہوا تھا، لڑکوں کوعقائد اور اخلاق میں مسیحی بنایا جانے لگا۔ ’’امتحان مذہبی کتابوں میں لیا جاتا تھا اور طالب علموں سے جو لڑکے کم عمر ہوتے پوچھا جاتا کہ تمہارا خدا کون ہے، تمہارا نجات دلانے والا کون اور وہ عیسائی مذہب کے موافق جواب دیتے۔‘‘ (اسباب بغاوت ہند۔ سرسید) مکالے نے تو صرف یہی کہا تھا کہ ’’ہندوستانیوں کا ایک ایسا طبقہ پیدا کرنا ہے جو خیالات، آرا اور اخلاق میں انگریزی ہو۔‘‘ لیکن اس کی تاویل ایوان جیلزم کے بڑھتے ہوئے اثرات کے تحت اس طرح کی جانے لگی کہ انگریزی داں طبقہ مسیحی عقائد اور اخلاق کا حامل ہو، چنانچہ جب مشینریوں کایہ حملہ اسکولوں کے اندر اور باہر، میلے، ٹھیلے، بازار، گاؤں، دیہات دونوں طرف سے ہوا تو مغربی تعلیم کا چیلنج مسیحیت اور اسلام کے چیلنج میں تبدیل ہو گیا۔

    یہاں میں نے ہندودھرم کا نام اس لئے نہیں لیا کہ اس زمانے میں مشینریوں کی یہ ٹکر زیادہ تر مولویوں ہی سے رہی ہے۔ شاید اس لئے کہ ہندو دھرم راجہ رام موہن رائے کے اصلاحی خیالات کے زیر اثر نیم مسیحی ہو چکا تھا۔ یا پھر اس لئے کہ مسیحی مذہب اور اسلام کی جنگ بڑی دیرینہ تھی اور جس اقتدار کے تحت کسی زمانے میں مسلمانوں نے مسیحی مذہب پر حملہ کیا تھا اس کا جواب اسی اقتدار کے ساتھ اب مسیحی دنیا مسلمانوں کو دے رہی تھی۔ جیساکہ سر ولیم میور نے اپنی کتاب ’’محمڈن کنٹروورسی‘‘ میں لکھا ہے۔ یا پھریہ سبب ہو جس کی طرف وہ اشارہ کرتا ہے کہ چونکہ مغربی تعلیم کی وجہ سے پڑھے لکھے ہندوؤں کے درمیان لادینی اور دہریت کا ایک عام رجحان پیدا ہو چلا تھا، اس لئے مشینریوں کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اگر ان روشن خیال ہندوؤں کو اسلامی خیالات کے اثرات سے نہ بچایا گیا تو عین ممکن ہے کہ ایک مشترکہ ذہن و مزاج رکھنے کے باعث کہیں وہ مسلمان نہ ہو جائیں۔

    بہرحال کوئی بھی سبب رہا ہو مشینریوں نے 1840-50کے درمیان متعدد کتابیں مسیحیت اور اسلام کے موازنے میں لکھیں اور اس قدر جارحانہ حملوں سے کام لیا کہ اچھا خاصا ایک مخاصمانہ مناظرہ ٹھن گیا۔ پریس کی آزادی توتھی ہی، ددونوں طرف سے متعدد کتابیں لکھی گئیں اور پبلک پلیٹ فارم پر باقاعدہ مناظرے منعقد کرائے گئے۔ یہ مناظراتی ادب جس کا بیش ترحصہ اردو زبان میں ہے اور جس کا خلاصہ ولیم میور نے اپنی کتاب ’’محمڈن کنٹروورسی‘‘ میں نہایت محنت سے پیش کیا ہے، اردو نثر کے ارتقا میں ایک مخصوص اہمیت کا حامل ہے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ادب کے مؤرخین نے اس کی طرف بالکل توجہ نہیں دی ہے۔ لیکن یہاں ہم اس کی اہمیت سے بحث نہیں کریں گے۔ یہاں تو صرف دونوں جماعتوں کے طرز تنقید ہی سے بحث ہوگی۔

    ایوان جیلزم مسیحی مذہب کی کوئی دقیانوسی تحریک نہ تھی۔ وہ اپنے زمانے کی ایک بہت بڑی باغی جماعت تھی۔ اول تو وہ بجز بائبل کسی اور کتاب کوسند نہ مانتی۔ ثانیاً یہ کہ وہ رسوم ظاہری کی بالکل ہی مخالف تھی اور زہد و اتقا میں انسان کی نیت کو بڑا دخل دیتی۔ چنانچہ جب اس کے مشینریوں نے بالخصوص پفنڈر نے، جس کی مسیحی مذہب پر متعدد کتابیں ہیں، اسلام اور مسیحیت کا موازنہ کرنا شروع کیا تو اس نے اسلام پر تنقید کرتے وقت تاریخی تنقیدی شعور سے خاص طور سے کام لیا۔ اس میں شبہ نہیں کہ ہمارے مولویوں نے ’’صولت الضیغم‘‘ کی ایسی دندان شکن کتاب لکھی، لیکن جب آں حضرت صلعم کی حیات سے متعلق کتابوں کے جواب لکھنے کا وقت آیا تو کوئی ایسی کتاب نہیں لکھی گئی جو انگریزی بائیگرافی کے معیار پوری اترتی، لے دے کے ایک آدھ کتابیں اردو میں تھیں۔ جن میں سے میورنے غلام احمد شہید کی کتاب ’’مولود شریف‘‘ کو اپنی تنقید کا خاص طور سے نشانہ بنایا کیونکہ ہمارے یہاں آں حضرت صلعم کی حیات طیبہ سے وابستہ بے شمار معجزات کا ذکر کیا جاتا۔

    بہرحال میں نے اس چیز کا ذکر اس لئے کیا کہ اگر ہم بے تعصبی کوراہ دیں تو یہ تسلیم کرنا پڑےگا کہ کم از کم اس زمانے کے ہندی مسلمانوں میں تاریخی تنقید کے شعور کی بڑی کمی تھی۔ وہ کمی صوفیائے کرام اور شعراء کی سوانح عمریوں میں خا ص طور سے محسوس کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ حالی ’’یادگارغالب‘‘ کے مقدمے میں غالب کی کمزوریوں کوپیش نہ کرنے کا جوازمسلمانوں کے اس رجحان کوٹھہراتے ہیں کہ وہ اپنے ہیرو کی کمزوریوں کوسننے کے لئے آمادہ نہیں ہیں بہرحال وہی حالی جنہوں نے غالب کی کمزوریوں کوبیان کرنے سے حذرکیا، ۱۸۵۷ء کی ذہنی شکست کا اعتراف اپنے اشعار میں کس قدر کھل کر کیا ہے۔

    ہوئی وہ بزم خیالی برہم
    تھا طلسمات کا گویا عالم

    جس کو سمجھے تھے غلط ہم دریا
    ایک ناچیز سا تھا وہ قطرا

    تھا کیا جس کو یقین چشمہ آب
    وہ نمائش تھی حقیقت میں سراب

    نکلے سب ہیچ خیالات اپنے
    ٹھہرے سب پوچ کمالات اپنے

    ہنراغیار میں پائے اکثر
    عیب اپنے نظر آئے اکثر

    دفتر علم کو ابتر پایا
    علم کو جہل سے بدتر پایا

    قصہ مختصر یہ کہ یہ جنگ جو ۱۸۵۷ء میں شمالی مغربی صوبے اودھ اور گوالیار کے علاقے میں خاص طور سے لڑی گئی اور جس کا جھٹکا سارے ہندوستان میں محسوس ہوا، ایک ایسی آزادی کی جنگ تھی جس میں پرانا انسان ایک نئے انسان سے بھی نبرد آزما تھا۔ اس میں شبہ نہیں کہ وہ نیا انسان جو بحروبر، برق و بادپر حکومت کر رہا تھا، تمام تر خیر کی قوتوں کا مظہر نہ تھا۔ قرون وسطی کی تاریکی سے نکلنے، قوائے فطرت کو قابو میں لانے اور مطلق العنان بادشاہت کو مٹاکر قوانین کی حکومت نافذ کرانے میں وہ یقیناً خیر کی قوتوں کا مظہر تھا، لیکن وہ اپنے سرمایہ دارانہ استحصال کو بڑھانے اور پھیلانے، ایشیائی ممالک کو محکوم بنانے اور حکومت کی پشت پناہی میں مسیحی عقائد کو جبریہ پھیلانے میں وہ ایک شیطانی قوت کا بھی مظہر تھا۔ اس کی اس شیطنت کے ردعمل کا ابھرنا لازمی تھا اور ہم نے اس کا مقابلہ کیا، لیکن کس قدر پوچ ذہن اور دماغ اور کس قدر بوسیدہ قبائے روحانیت کے ساتھ جو نہ صرف پہلے ہی سے شیخ وبرہمن کی جنگ میں چاک چاک ہو چکی تھی بلکہ مجاہدین اسلام کی تازہ کوششوں سے اور بھی زیادہ بوسیدہ ہو چلی تھی۔

    ہم جن احیائی میلانات کو اس کی بخیہ گری سمجھتے تھے، وہی اس کے دھاگوں کو اور بھی بکھیر رہی تھی اور وہ روحانیت جسے کبھی ہم نے اپنے نفس کی نفی میں پروان چڑھایا تھا اب ہماری نفس پر اتنی بری طرح پلٹے کھا رہی تھی کہ اس لڑائی میں اس کی رہی سہی قوت نے بھی دم توڑ لیا تھا۔ مرزا نوشہ لکھتے ہیں کہ ’’دلی دو دفعہ لٹی۔ ایک دفعہ کالوں نے لوٹا، دوسری طرف گوروں نے۔‘‘ مولانا فضل حق خیرآبادی لکھتے ہیں کہ ’’دہلی میں آزادی کی جنگ طوائفوں کے جلوس میں لڑی گئی۔‘‘ لیکن اس سے ہماری آزادی کی جدوجہد کی اہمیت نہیں گھٹتی ہے۔ وہ جدوجہد صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ ذہنی دونوں ہی تھی۔ لیکن یہ ضرور کہا جائےگا کہ ہماری اس دن کی شکست میں پرانے ذہن کے آدمی نے دم توڑ دیا۔ اورنئے ذہن کا آدمی اس وقت تک پیدا نہیں ہوا جب تک کہ ہم نے مغرب کے ذہن کو مستعار نہیں لیا یا اسے اپنایا نہیں اور کیا عجب جو وہ ابھی تک رحم مادر ہی میں ہو۔

    ۱۸۵۷ء کے بعد کی کلچرل تاریخ اسی ذہنی تبدیلی کی تاریخ ہے۔ بغاوت کے فوری بعد کے ماحول میں سرسید کی کوشش مسلمانوں اور انگریزوں کے درمیان سیاسی کشمکش سے مذہبی عنصر دور کرنے کی تھی۔ کیونکہ ملکہ وکٹوریہ مذہبی امور میں عدم مداخلت کا کھلا ہوا اعلان کر چکی تھیں۔ سرسید نے اسلام اور مسیحیت کے مشترکہ ماخذ اور مشترکہ اقدار پر زور دے کر انگریز حکمرانوں کو’’اولی الامر‘‘ کے تحت قبول کر لیا اور لفظ’’منکم‘‘ کو اس کلمے سے خارج میں رکھا۔ لیکن چونکہ اس سے مخالفت کم نہ ہوئی کیونکہ مخالفت کا اصلی سبب تو اقتصادی استحصال اور سیاسی غلامی تھی۔ اس لئے ان کی دوسری کوشش مذہب اور سیاست، مذہب اور سائنس کو ایک دوسرے سے ہم آہنگ کرنے کی تھی، تاکہ انگریزوں کے سیاسی اقتدار اور مغربی تعلیم کی مخالفت، مذہب کے پردے میں نہ کی جا سکے۔

    سرسید کا یہ کارنامہ اہم ہے نہ کہ وہ جو انہوں نے انگریز حاکموں کی اطاعت کی تعلیم اولوالامر کی اطاعت کے تحت دی۔ بہرحال جب ان کی یہ کوشش کسی قدر بارآور ہوئی تو انہوں نے مسلمانوں کے درمیان اس متوسط طبقے کی تعلیم کا انتظام کیا جس کا مقصد مکالے کے الفاظ میں انگریزی مذاق، آرا اور ذہن کا حامل بنانا تھا لیکن انہوں نے اس امر کا خاص طور سے لحاظ کھا کہ ان کی کچھ دینی تعلیم بھی ہو۔ لارڈ میکالے کی تعلیم میں یہ ترمیم وکٹورین عہد کے لبرلزم کی دین تھی۔ کیونکہ انگریز یہ دیکھ چکے تھے کہ مذہبی رسوم کو بدلنے کی کوشش کس قدر خطرناک ثابت ہوئی تھی۔ سرسید کا ایک اور کارنامہ جو ان کے ابتدائی عہد کی کوششوں ہی سے وابستہ ہے، انگریزی حکومت میں ہندوستانیوں کی نمائندگی کے اصول کی پیروی تھی۔

    بہرحال سرسید کا سیاسی عمل مصلحت پسندی کا تھا نہ کہ اصولی، یہ ہر ایک کو معلوم ہے۔ یہاں اس کا موقع نہیں کہ اسے تفصیل سے بیان کیا جائے۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ انہوں نے ہمارے کلچر پر کون سے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔ سرسیدا حمد خاں نے ’’خطبات احمدیہ‘‘ میں تاریخی تنقیدی شعور سے کام لیتے ہوئے ہم میں تاریخی مطالعے اور تاریخی تنقید کا شعور پیدا کیا۔ انہوں نے سوپر نیچرل سے انکار کرکے نیچرل پراتنا زور دیا کہ وہ نیچر یہ کہلائے۔ ان دونوں چیزوں نے ہمارے ادب کو اس قدر زیادہ متاثر کیا کہ ہم اپنے جدید ادب کی تاریخ اسی دور سے شروع کرتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ کہنا غیرسود مندنہ ہوگا کہ سرسید کا نیچرل یا نیچر ہابس اور لاک کا نیچر اور نیچرل نہیں ہے، کیونکہ وہ الہامی علم کو بھی نیچرل علم میں شامل کرتے ہیں۔ اس لئے مولویوں کا فتوی کفران کے حق میں غلط تھا۔ اس کے برعکس وہ اپنے فلسفہ نیچرلزم میں، اٹھارہویں صدی کے فلسفے ڈی ازم سے بالخصوص متاثر تھے، جس پر عقلیت کی تحریک کی زبردست چھاپ تھی۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ نیوٹن کی طبیعات اور جان اسٹورٹ کی کتاب پولیٹکل اکونومی اوراس کے مضمون اون لبرٹی (آزادی خیالات) سے متاثر تھے۔ اس کے اس مضمون کا انہوں نے خلاصہ بھی پیش کیا۔ یہ سارے خیالات اس زمانے میں ہماری سوسائٹی کے لئے نہ صرف یہ کہ انقلابی تھے بلکہ بوکھلا دینے والے تھے۔

    بہرحال اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے ہمیں تاریخی شعور دیا اور سوپر نیچرل سے انکار کرکے ہمیں قوانین فطرت کے مطالعے کی طرف متوجہ کیا۔ لیکن چونکہ مسلمانوں کا ذہن ماڈرن نہ تھا، اس لئے سرسید کے ان خیالات کی پذیرائی اتنی نہیں ہوئی جتنی کہ ہونی چاہئے تھی۔ حالی کا تو یہ کہنا ہے کہ ان کے خیالات کی مخالفت صرف دو مولویوں نے کی جو حسن اتفاق سے سرکاری ملازم بھی تھے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ ان کے خیالات کی مخالفت کتنے بہت سے حلقوں میں ہوئی۔ بہرحال ہم یہاں ان دو مولویوں یا بہت سے مولویوں کی مخالفت سے بحث نہیں کریں گے جن میں ایک مولانا حالی بھی کسی قدر تھے بلکہ اس مخالفت سے بحث کریں گے جو سرسید اور ان کے رفقا کی پیروی مغر ب کے ردعمل میں اٹھی اور جس سے ہمارے ادب میں کسی قدر اور یجنٹلی اور تنقیدی طنزومزاح کے باب کا اضافہ ہوا۔

    جس طرح سرسید کی تحریک نیچرلزم میں مغرب کی نقالی غالب تھی، اسی طرح اس تحریک کے اد ب میں بھی ایوان جلیکل پادریوں کا واعظانہ لب ولہجہ اور طرز تحریر و تقریر اورافادیت پرستوں کی افادیت اور صحافت اس قدر غالب آ چلی تھی کہ ہمارے ادب سے حسن و نفاست کا معیار اٹھتا جا رہا تھا۔ اودھ پنچ اسکول کا طنزومزاح اور انشاپردازی کا چلن جس کے ایک رہنما اکبرالہ آبادی بھی تھے، اسی کے ردعمل کی نمائندگی کرتاہے اور جس حد تک اس اسکول کے لوگ سرسید کی سیاست کے بھی مخالف تھے، ان کے ادب میں اوریجنٹلی کے ساتھ ساتھ خودداری اورحب الوطنی کا جذبہ بھی ابھرتا گیا۔ اودھ پنچ کے ان ناقدین کو مزید تقویت انیسویں صدی کے آخری برسوں میں مولانا شبلی کی ان تصانیف سے بھی پہنچی، جس میں انہوں نے تاریخی تنقید وتحقیق کو بروئے کار لاتے ہوئے حال کی اصلاح ماضی سے چاہی نہ کہ مغربی خیالات سے۔

    سن ۵۷ء کے بعدکے زمانہ کا یہ ردعمل اس قدرغیر مبہم نہیں ہے کہ اس کا کوئی واضح خط کھینچاجائے۔ بس یوں سمجھئے کہ سرسید کے زمانے سے ہمارے ادب اور کلچرل میں دو دھارے بہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک تو انگریزی اور اسلامی کلچر کے امتزاج اور اینگلو محمڈن سیاسی سمجھوتے کا ہے اور دوسرا علماء کی اصلاحی کوششوں کا۔ جہاں وہ حال کی تنقید ماضی سے کرنا چاہتے ہیں نہ کہ مغربی خیالات سے اور سیاست کے میدان میں اینگلو محمڈن سمجھوتے کی مخالفت کرکے تحریک آزادی کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ یہ دونوں دھارے کبھی کبھی ایک ہی شخصیت میں اس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ انہیں ایک دوسرے سے جدا کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ڈپٹی نذیر احمد سرسید کے ساتھ بھی ہیں، لیکن اپنے بہت سے خیالات میں سرسید سے الگ بھی ہیں۔ اسی طرح مولانا حالی سرسید کے پیرو بھی ہیں اور ان کے ایک ناقد بھی۔ بیسویں صدی میں انہیں دونوں دھاروں کا امتزاج اور تضاد، مختلف قومی اور بین الاقوامی سیاستوں کے پیچ وخم سے گزرتا ہوا علامہ اقبال کے یہاں بھی نظر آتا ہے۔

    شاید یہی سبب ہے کہ ہمارے یہاں کلچر ہوتے ہوئے بھی اس کلچر میں ایک نراجیت ملتی ہے جوہماری آزادی کی سیاسی اوراقتصادی بنیادوں پر بھی اثراندازہوتی رہتی ہے۔ کوئی قوم مضبوط اس وقت بنتی ہے جب کہ اسے بھرپور طورسے یہ معلوم ہوکہ اس کاکلچر کیاہے او ر وہ اپنے اس کلچر کااظہار اپنی ہی زبان میں کرناجانتی ہو۔ ہمارا یہ حال ہے کہ ابھی تک ہم اپنے کلچر کومتعین نہیں کرپائے ہیں۔ روزبروز اس کی نئی سے نئی تاویلیں سننے میں آتی ہیں اوراپنی زبان سے شناسائی کایہ عالم ہے کہ بچہ جھولے ہی سے انگریزی لوریاں سننے لگتا ہے۔ اگریہی حال لیل ونہار رہے تو بہت ممکن ہے چند برسوں بعدہم سے قوت فکر اور قوت اختراع دونوں ہی رخصت ہوجائیں گی اورپھر کیا عجب جواس کلچرل خلامیں ہم کسی اور ملک کا ناچ گاناکرتے ہوئے پکڑے جائیں، سارے آثاراسی سے ملتے ہیں۔

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے