Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہنستے ہنستے

عصمت چغتائی

ہنستے ہنستے

عصمت چغتائی

MORE BYعصمت چغتائی

    ہنستے ہنستے بے حال ہو کر نیر تخت سے نیچے لڑھک گئی۔

    ’’بس کرو الله کا واسطہ‘‘ میں نے کرتہ کے دامن سے آنسوپونچھ کر خوشامد سے کہا۔ ہمارے پیٹوں میں مروڑیاں اٹھ رہی تھیں۔ سانس پھول گئی تھی۔ ہنسی چیخوں میں بدل گئی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا اگر ہنسی کا یہ زناٹا رہا تو کچھ دیر میں جسم بیچ میں سے دو ٹکڑے ہوجائے گا۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب بات بات پر ہنستی آتی تھی۔ کوئی پھسل پڑا ہنسی چھوٹ نکلی۔ مرغے نے کتے کی پلے کے ٹھونگ ماردی۔ وہ پیں پیں کرکے بھاگا اور قہقہوں کا طوفان ٹوٹ پڑا اور جو کہیں کس کی مے پوچھ لیا کہ بھئی کیوں ہنس رہی ہیں تو پس پھر تو ہنسی کا وہ شدید دورہ پڑجاتا کہ معمولی مار پیٹ سے بجائے قابو میں آنے کے اور بھی تیز ہوجاتا۔ ہنسی آسیب بن کر سوار ہوجاتی ہنس ہنس کر شل ہوجاتی، ہڈیاں چٹخنے لگتیں، جبڑے دکھ جاتے۔

    کسی صورت افاقہ نہ ہوتے دیکھ کر امام اپنی چپٹی سلیم شاہ لے کر تل پڑتیں اور ساری ہنسی ناک کے راستے نکال دینے کی دھمکی دیتیں۔ تب ہم ناکیں پونچتے پیٹ پکڑے نیم تلے پڑے ہوئے اپنے مخصوص جھلنگے میں جا گرتے اور نئے سرے سے ہنسنے لگتے۔

    عظیم بھائی کی کتابوں میں سے مضامین پطرس چرا کر پڑھنے کے بعد بھی ہم اسی قسم کی جان لیوا ہنسی کے بھنور میں پھنس گئے۔ ہماری کھی کھی کھوں کھوں سے ہماری برباد اور غم گین آپا کی سمع خراشی ہونے لگی۔ دو دہپ سر پر جمائے کتاب چھین لے گئیں۔ مگر یہ ہم نہ جانے کون سی بار کتاب پڑھ رہے تھے۔ ہمیں جملے کے جملے یاد ہوگئے تھے جو اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے دہرائے جاتے تھے اور قلابازياں لگائی جاتی تھیں۔ نہ جانے ایک عمر میں کیوں بے بات ہنسی آتی ہے، اب وہی مضامین پڑھتی ہوں تو اتنی ہنسی نہیں آتی۔

    اس وقت عظیم بھائی نے مزاح نگاری شروع نیں کی تھی یا داید ہم نے ان کے مضامین نہیں پڑھتے تھے۔ ملارموزی کے مضامین پر اتنی ہنسی نہیں آتی تھی جیسی کبھی آیا کرتی تھی۔ کچھ پھیکے سے لگنے لگے تھے نہ جانے کیوں۔ بس پطرس بھاگئے اور ایک جان چھوڑ ہزار جان سے ان پر عاشق ہوگئے۔ نہ جانے کیوں تخیل میں وہ اپنے ہم عمر سے نظر آتے تھے اور یقین تھا کہ اگر ان سے ملاقات ہوجائے ہم ضرورت انہیں پیڑ پر بندھی اس بان کی کھٹولی پر چڑھالے جائیں جو کنویں کے پاس نیم کی اونچی شاخوں پر شمیم اور چنو نے باندھ رکھی تھی۔

    پطرس کی باتیں۔۔۔ جی ہاں انہوں میں باتیں ہی کہوں گی۔ کیونکہ ان کی تحریریں بے ساختہ بولتی تھی۔ ان میں بڑی یگا نگت اور قربت محسوس ہوتی تھی۔ ہمارے گھر کے زندہ ماحول میں بڑی بے تکلفی سے کھپتی تھی چھوٹے بڑے سب ہی انہیں پسند کرنے لگے۔

    عظیم بھائی نے ’’قصر صحرا‘‘ لکھی تو ہم نے جی جان سے پڑھی مگر ’’قرآن و پردہ‘‘ ’’حدیث و پردہ‘‘ بڑی بور معلوم ہوئیں۔ خشک مردہ کتابیں ان کے کچھ مضامین اقتصادیات ’’ریاست‘‘ میں نکلتے تھے وہ ہمیں قطعی کھردرے معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے جب ہمیں پطرس کے مضامین اس رغبت سے پڑھتے دیکھا تو کچھ مکدر سے ہوگئے۔

    نانی عشو پڑھ کر ہنسنے کا دور گزر چکا تھا۔ سخت رومنٹک افسانوں سے کبھی شدید دل چسپی نہ رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ہمیں پطرس بے طرح پسند آگئے۔ ’’میں ایک میاں ہوں‘‘ ہمارے گھر میں بالکل کیری کی چٹنی کی طرح چٹخارے لے کر پڑھا گیا۔ اماں تک نے پڑھ ڈالا اور جب اپنی پلنگڑی پر بیٹھ کروہ ہنسیں تو پان دان کی کلھیاں پھدک پھدک کر آپس میں ٹکرانے لگیں۔ میں تنقید نگار نہیں نہ میں کوئی بات وثوق سے کہہ سکتی ہوں مگر میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ ’’میں ایک میاں ہوں‘‘ کے بعد سے پطرس کا رنگ دوسرے مزاح نگاروں میں جھلکنے لگا۔ عظیم بھائی نے تو اپنی ایک کہانی میں اعتراف بھی کیا ہے۔ فرحت الله بیگ اور شوکت تھانوی کے ہاں بھی وہی رنگ جھلکنے لگا۔ میں مزاح نگاری کی تاریخ نہیں لکھ رہی ہوں، کیونکہ مجھے یہ بھی نہیں معلوم۔ مگر میرے مطالعے کی تاریخ میں پہلا نام پطرس کا آتا ہے۔ میں پطرس کو اپنی جانب سے کوئی مقام نہیں دینا چاہ رہی ہوں۔ مجھے تو بس یہ کہنا کہ ایک عمر میں پطرس کی تحریریں دل کو ایسی لگی تھیں کہ ہم نے ایک دن جوش میں آ کر پطرس کو خط لکھ مارا۔ ابا میاں کے بکس سے لفافہ اور ٹکٹ چرایا اور معرفت۔۔۔ ’’تہذیب نسواں۔۔۔‘‘ خط بھیج کر جواب کا انتظار کرنے لگے۔

    یاالله تیری ہر بات میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے۔ اسی پر تو میں خدا کے وجود کی قائل ہوں۔ وہ خط قبلہ ممتاز علی صاحب نے کھول لیا اور مع لفافہ کے آپا کو جنہیں انہوں نے منہ بولی بیٹی بنایا تھا بھیج دیا۔ بلی مظلوم سی ایک چوہیا پکڑ لیتی ہے اور کم بخت اس سے مذاق کرتی ہے۔ کبھی دانت ماردیا، کبھی گدگدادیا، کبھی پنجہ لڑھکا دیا۔ اس خط کے آنے کے بعد کئی روز ہماری گت اسی طرح بنتی رہی۔ ہمارا خط اونچی آواز میں ابا کے سامنے پڑھا گیا۔ ہر فل اسٹاپ پر سر پر چپتیں پڑتی جاتیں۔ خط میں ہم نے انہیں مسخر لونڈا سمجھ کر نہایت بے تکلفی فرمانے کی کوشش کی تھی۔ اب تک اس خط کا ایک ایک حرف دماغ پر داغا ہوا ہے۔ برسوں خیال ہی سے پسینے چھوٹ جایا کرتے تھے۔ خط ہمیں تنبیہہ دینے کے لئے بار بار پڑھایا جاتا تھا۔ ہم نے نہایت بے تکلفی سے اپنی دانت میں بالکل پطرس کے رنگ میں لکھا تھا۔ سب سے بھیانک جملہ تھا۔

    ’’ابے پطرس! کیا گھاس کھاگیا ہے؟‘‘

    ’’عوام‘‘ اس جملے سے ہماری دھجیاں بکھیرتے تھے۔ ہر شخص کو اجازت تھی کہ بے تکلف ہمارے سر پر چپت جڑ دے۔ ظاہرہے کہ اس صلائے عام پر ہرنکتہ داں نے لبیک کہا۔ ہم حضرت ممتاز علی صاحب اور پطرس کی جان کو کوستے تھے۔ ہم مجرم جو تھے۔ صرف اس لئے نہیں کہ پطرس سے یا رانہ گانٹھنے کی کوشش کی تھی، بلکہ اس لئے کہ ہم نے اس لفافہ پر ٹکٹ لگایا، اس پر ’’سروس‘‘ لکھا تھا، جو صرف سرکاری ڈاک کے استعمال کے لئے ہوتا تھا۔ آٹھ آٹھ آنے جرمانہ الگ ٹھکا۔ سچ پوچھئے تو اس سانحہ کے بعد پطرس ہماری چڑ بن گئے۔ ہماری جملہ شیطانیوں کی فہرست بناتے وقت ہمیشہ اس واقعہ کو تکلیف دہ حد تک اہمیت دی جاتی۔

    بعض اوقات ایک چھوٹی سی بات کا دل پر کتنے دن نقش رہتا ہے۔ برسوں گزر گئے۔ لوگ بھول بھال گئے، مگر شاید دماغ نے ایک ننھی سی گانٹھ باندھ لی۔ بمبئی میں آئے سال بھر گزرا ہوگا کہ ایک دن ریڈیو اسٹیشن کسی صاحب نے فون کیا کہ بخاری صاحب آج کل بمبئی آئے ہوئے ہیں اور مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ پہلا خیال یہ آیا کہ کوئی بہانہ کردو ں۔ کہہ و ں کہ بیمار ہوں، پھر سوچا یہ کیا حماقت ہے۔ پطرس آئے ہیں۔ یعنی سچ مچ پطرس آئے ہیں اور میں ان سے ملنے جان چرارہی ہوں۔ یعنی ان کو کیا پتہ کہ ایک دن ان کی بدولت میرے چپتیں پڑچکیں ہیں۔ وہ مجھے قطعی قابل ملاقات سمجھتے ہیں، جب ہی تو بلایا ہے۔ خیر لنچ کا وعدہ رہا۔

    مگر میں نے شاہد سے کوئی ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے بلایا تو شاہد کو بھی تھا لیکن میں نے بہانہ کردیا کہ انہیں قطعی فرصت نہیں۔ وہی میری نیم کے نیچے پڑے ہوئے جھلنگے والی ذہنیت! یہ ڈر کم بخت کاہے کاتھا۔ ٹھیریئے آگے چل کر بتاؤں گی۔

    مجھے ضرورت سے زیادہ ذہین اور جملہ باز لوگوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔ ان کی شخصیت مجھے اپنا جانب کھینچتی بھی ہے اور دور بھی دھکیلتی ہے۔ اور پھر پطرس کا مجھ پر ویسے ہی رعب بیٹھا ہوا تھا۔ خواہ مخواہ ان سے مل کر اور احساس کمتری دونا ہوجائے۔ بڑی کوفت ہوئی نہیں جاتی ہوں تو نہ جانے پھر کتنا پچھتانا پڑے۔ جاتی ہوں تو الله! نہ جانے کیسی چوٹیں کریں گے۔ ضرورت وبدتمیزی پر اترآؤں گی۔ قطعی جو جھیل جاؤں۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ شاہد کے سامنے میرا پول کھل جائے، وہ فوراً منٹو سے کہہ دیں گے کہ پطرس نے محترمہ کو وہ پٹخنیاں دیں کہ گھگھی بندھ گئی۔

    رات بھر میں نے ان تمام جملوں کے جواب سوچے جو وہ کہیں گے اور میں منہ توڑ جواب دوں گی۔ بدقسمتی سے میری ساری محنت رائیگاں گئی۔ پطرس نے وہ سوال ہی نہ کئے۔ اُف میری حماقت! میں نے اپنے پروفیسروں سے کبھی ہار نہ مانی۔ میرے استاد میری منہ زوری سے چوکنے رہتے تھے۔ میری کئی استانیاں کلاس میں آنسو بھر لاتیں۔ یہ میرا خاندانی ورثہ ہے اور مجھے اس پر بڑا ناز تھا۔ مگر اس دن احساس کمتری بے طرح بھوت بن کر گلا دبوچنے لگا۔ میں نے پطرس کی زندگی میں کبھی کسی سے ان احساسات کا ذکر نہ کیا۔ کوئی دل پر چھری رکھ دیتا۔ تب بھی نہ کرتی۔ کسی نے بچپن میں مجھے ہوّا بن کے ڈرانے کی کوشش کی، تو نے اس ہوّے کی پنڈلی کی بوٹی اتارلی تھی اور بجائے ڈرنے کے ڈرانے والے کی چیخیں نکل گئی تھی۔ مگر پطرس کے ہوّے نے مجھے ہولا ہولا کر شل کردیا۔ میں نے اپنے لباس کے بارے میں کبھی غور نہیں کیا، مگر اس دن میں نے بڑے سوچ بچار کے بعد ایسی ساڑھی نکالی جس کا ذہن پر کوئی دھندلا سا نقش بھی نہ رہ جائے تا کہ کوئی حوالہ نہ دیا جاسکے۔ ہر شے مبہم ہوجائے۔ پطرس کے سامنے دال تو گلے گی نہیں صرف غائب ہوجانے والا ٹوپی پہننے ہی میں عافیت ہے۔

    جب ریڈیو اسٹیشن جانے لگی تو دل سے دعا نکلی کاش پطرس بیمار پڑگئے ہوں یا میرے ہی پیٹ میں درد اٹھ ائے۔ ہسپتال فون کروادوں کہ آخری وقت ہے۔ لعنت ہے عصمت کی بچی تجھ پر پھر تو وہ ضرور ہسپتھال عیادت کو آئیں گے۔ بیگم اب تو مرنے میں بھی رہائی نہیں، کاندھا دینے تو وہ آہی پہنچیں گے۔ پھر میری چغتائی خون للکارا۔ میرے سکڑدادا نے کھوپڑیوں کا مینار چنوا کر اس پر بیٹھ کر خاصہ تناول فرمایا تھا، اور میں ایک حقیر پطرس کی دہشت میں فنا ہوئی جارہی ہو۔ ایسا بھی کیا ہے۔ ٹانگ کھینچیں تو اپنی ازلی بدزبانی پر اتر آنا مزاج ٹھکانے آجائیں گے شاہ صاحب کے! لیجئیے بسم الله ہی غلط ہوئی۔ ریڈیو اسٹیشن کے دفتر میں پہنچی، تو کاغذوں پر سر جھکائے بیٹھے تھے۔

    ’’آداب عرض!‘‘

    ’’گڈمارننگ‘‘ جواب ملا۔

    ’’اف بور‘‘ میں نے سوچا۔ اب فراٹے کی انگلش کا رعب ڈالیں گے۔ وہ جھکے تھے۔ میں نے غور سے معائنہ شروع کردیا۔ ’’صورت تو کچھ زیادہ توپ نہیں‘‘ میں نے سوچا۔ سیدھی سادھی سانولی سلونی شکل ہے مگر تصویر سے نہیں ملتی۔ قطعی مختلف!

    ’’کتنے دن قیام رہے گا؟‘‘ میں نے انہیں کاغذوں میں لوٹ پوٹ دیکھ کر پوچھا۔ سوچا میں پہلے بولنا شروع کردوں تو پہلا وار میرا رہے گا۔ مگر دل ڈوبنے لگا کہ پہلا وار نہایت پھسپھسارہا۔ ضرور اس جملہ ہی دھجیاں اڑیں گے۔

    ’’جی؟‘‘ وہ کاغذوں میں سے ابھرے، ’’میرا تبادلہ بمبئی کا ہوگیا ہے۔‘‘

    یہ لیجئے، سنا تھا کسی میٹنگ کے سلسلہ میں بمبئی آئے ہیں بہت جلد جانے والے ہیں، یہ آخر مجھ سے جھوٹ کیوں بولا۔ کوئی اس میں بھی چال ہوگی۔ اس سے قوبل کوئی ار سوال جھاڑتی فرمانے لگے، ’’چلئے‘‘

    ’’خاصہ بورہے‘‘ میں نے بٹوہ اٹھا کر پیچھے چلتے ہوئے پوچھا۔ یہ دانت کیوں بار بار نکوستا ہے؟ سارا ریڈیو اسٹیشن گھما کر ایک کمرے میں مجھ سے جانے کو کہا۔ سامنے میز پر ایک اونچے کاغذوں کے ڈھیر کے سامنے ایک عقاب کی سی صورت کا گوراچٹا پٹھان بیٹھا ہوا تھا۔ طوطے جیسی لمبی ناک، بھاری بھاری آنکھیں

    ’’آیئے آیئے۔۔۔ معاف کیجئے گا میری میٹنگ ذرا لمبی کھنچ گئی۔‘‘

    ’’اوہ‘‘ میں نے سانولے سلونے پطرس کے جانے کے بعد کہا ’’میں سمجھ تھی آپ وہ ہیں۔‘‘

    ’’کیا۔۔۔؟ میں وہ ہوں۔۔۔ آپ میری ہتک کررہی ہیں۔ وہ برا مان گئے۔‘‘ وہ لکشمنن ہیں اور میں قطعی وہ نہیں ہوں۔ ’’ایک جھٹکے سے سارا اعصابی دباؤ بھک سے اڑ گیا۔ ایرکنڈیشن کمرے میں ایک دم مجھے نیند سی آنے لگی۔ یاخدا ناحق میں نے اس شخص کی اپنی جان پر اتنا ہیبت سوار کرلی۔ ایسا معلوم ہوا میں انہیں برسوں سے جانتی ہوں۔ یہ عقاب تو قطعی فاختہ نکلی۔ پھر جو باتوں کا ریلا چلا ہے تو میرا سارا ریہرسل بے کار ہوگا۔ سارے تراشے ہوئے جملے اڑ چھو ہوگئے۔ تاج محل ہوٹل پہنچتے پہنچتے دو چار مسائل پر اختلاف بھی ہوگیا میری خیال میں پطرس کی خاصیت یہی تھی کہ ان سے ملتے ہی برسوں کی ملاقات کا احساس ہونے لگتاتھا۔ یہ معلوم کر کے حیرت بھی ہوئی اور مسرت بھی کہ انہوں نے اس زمانے کے لکھنے والوں کا ایک ایک لفظ بڑی دل چسپی سے پڑھا تھا، اور یاد رکھا تھا۔ انہیں جملے جملے ازبر تھے۔ شعر تو میں نے بہت لوگوں کو یاد رکھتے سنا ہے مگر نثر صرف پطرس کی زبان سے اسی طرح سنی۔

    ’’میرے کمرے میں چلنے پر کوئی اعتراض؟‘‘ بڑے بے تکلفی سے پوچھا۔

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’ٹھیک، آیئے۔‘‘

    یہ اطلاع مجھے بعد میں ملی، کہ پطرس نہایت لوفر انسان ہیں۔ اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میری ڈھیٹ کہانیوں کی وجہ سے لوگ مجھے بھی بڑی نٹ کھٹ سمجھتے پیں۔

    میں نہایت بے تکلفی سے آرام کرسی پر دراز لیمونیڈ پیتی رہی۔ وہ پلنگ پر پھیلے ٹھنڈی ٹھنڈی بیئر کی چسکیاں لیتے رہے اور دوقینچیاں اپنی پوری رفتار سے چلتی رہیں۔ باتوں کے طوفان میں بار بار یہ محسوس کر کے سخت کوفت ہوتی رہی کہ پطرس کا مطالعہ اور مشاہدہ اتنا وسیع ہے کہ برسوں کھر لی گھونگی پر تل کر عبث نہ ہو سکے گی اس لئے کیوں نہ قنوطیت پر اتر آَؤں اور اپنی خاندانی کج بحثی کام میں لاؤں کہ بڑے بڑے سورماؤں پر آزمایا ہوا نسخہ ہے۔ جہالت اور کم مائیگی کے لئے بہترین ڈھال۔

    مگر بہت جلد معلوم ہوگیا کہ غنیم نہایت چوکس ہے۔ مجھ سے کئی سال پرانا اکھاڑے کا کج بحث ہے۔ تیرکی نوک بڑی چابک دستی سے واپس لوٹادیتا ہے۔ اس میدا میں بھی کھلی مار سے بہتر ہے اسے بزرگ مان کر ہتھیار ڈال دوں۔ شاگرد بن کر مسکین صورت سے سوالات کروں اور یہ لکچر جھاڑ کر حلق خشک کرے۔ موقع پاؤں تو ڈنک ماردوں۔ مگر توبہ کیجئے پطرس گھسے میں آنے والے آسامی نہ تھے۔ میرے ہر ذہین اور دقیق سوال میں نہایت بھونڈے پن سے ’’ہٹایئے بھی یہ بور نگ باتیں‘‘ کہہ کر میرا خوب جی جلایا۔

    میں نے چڑ کی ان کی ہر بات کو الٹ کر بحث شروع کردی۔ انہوں نے میرے ہر پسندیدہ شاعر کو اور ادیب کو جاہل اور الو کہدیا۔ میں نے بھی کلس کی نہایت تہذیب اور سلیقہ سے انہیں احمق کہدیا۔ جس پر وہ بے تحاشہ ہنسے۔ میں نے پھر چڑ کر ان کا ساتھ دیا، گوجی یہ چاہ رہا تھا سرہانے رکھا ہوا لیمپ اسٹینڈ ان کے سر پر گرپڑے اور میں ہنستی رہوں۔

    ’’ارے ڈیڑھ بج گیا‘‘ گھڑی دیکھ کر وہ جلدی جلدی اپنا گلاس ختم کرنے لگے۔ پھر بھاری بھاری آنکھوں سے میر طرف ایسے دیکھا جیسے میں بالکل کوڑھ مغز ہوں اور پھر بے اختیار ہنسنے لگے۔ بالکل میرے بدذات بھائی چنو کی طرح۔ ایک دفعہ اس کے چڑانے پر میں نے گال پر ایسا پنجہ مارا تھا کہ چربی نکل آئی تھی۔

    ’’جلدی چلنا چاہیے ورنہ کھانے نہیں ملے گا۔‘‘ مطلع صاف ہوگیا اورہم نہایت اطمینان سے ڈائننگ ہال میں جا کر مینو پڑھنے لگے۔ ’’اف یہ فرنچ کھانوں کے نام مجھے بڑے گندے لگتے ہیں۔‘‘ میں نے پھر جلانے کی کوشش کی۔ ’’سب کھانے ساڈین کی طرح بدبوار اور لس سے معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد مچھلیوں، گھونگوں اور سپیوں پر بحث ہونی لگی۔ اب انھوں نے ایک دوسرا طریقہ نکالا۔ ہر بات پھر اتفاق کرنے لگے جس پر کوفت دوگنی ہوگئی۔ اور میں اس نتیجہ پر پہنچی کہ پطرس اتر جائیں تو دکہن جانے میں عافیت ہے۔ میں نے چاہا ان کی تحریروں کے بارے میں بات کروں مگر اس عرصے میں ہماری تعلکاقات اتنے کشیدہ ہوگئے تھے کہ وہ بھڑک گئے اور یہ بجا بھی تھا۔ اس وقت میں ان کہانیوں کی تعریف کر کے ان کے چہرے پر آنے والی جھپکوں پر مسکرا کر جی ٹھنڈا کرنا چاہ رہی تھی، مگر وہ فوراً ادب کی محفل سے چھلانگ مار پر کھانے پر آگئے۔ کافی بدمزہ کھانا تھا۔ اسٹو کچا تھا جیسے چمڑے چبارہے ہوں۔ اشارے سے بیرے کو بلاکر بڑی لجاجت سے بولے،

    ’’دوست یہ بکرا تو سینگ ماررہا ہے کوئی مرا ہوا جانور نہیں پکار تمہارے ہاں۔‘‘ بیرا بے چارہ کھسیانا ہوکر ہنس دیا۔ اور جب وہ پلٹیں اٹھا کر چالاگیا تو ایک دم سے بولے،

    ’’تم سے لکشمنن کو پطرس کیوں سمجھا؟‘‘ اگر گدھے کو پطرس سمجھ لیا ہوتاتو مجھے قطعی شکایت نہ ہوتی۔ ’’مجھے مسکراتا دیکھ کر بولنے سے پہلے چلدی سے بولے‘‘ شاید گدھے کو شکایت ہوتی۔‘‘ میں نے اتنی زور سے ٹھٹھ مارا کہ ہال میں مہذب لوگو بدبد کرتے کرتے ایک دم چونک کر دیکھنے لگے۔ پطرس نے تادیبی نظروں سے مجھ دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں،

    ’’درمیانہ درجہ کی چاردیواری میں پلی ہوئی لڑکی تاج محل ہوٹل کے آداب سے کیسے واقف ہوسکتی ہے۔ اور ان کا خیال ٹھیک تھا۔ اس سے پہلے میں نے صرف ایک دفعہ تاج میں چائے پی تھی۔ اس وقت تک یہ پہلا اتنا شاندار ہوٹل جسے صرف دیکھنے کے لئے گئی تھی۔ تکلفات، سجاوٹ اور صفائی کو ہمارے گھر میں نہایت تحیقر کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ ہمارے گھر میں کھانے کی میز تو تھی اور جب نہایت غیر دلچسپ قسم کے مہمان آتے تھے تب اس پر سلائی کی مشین، اچار کی برنیاں اور بچہ کا گڈولنا اتار کی تخت کے نیچے دوسرے کاٹھ کباڑ کے ساتھ چھپا دیا جاتا تھا۔ خاص مہمانوں کی چادر بچھا کر چنی کی پلیٹیں سجادی جاتی تھی۔ آپابڑے چاؤ میں آکر نپکن کے پھول بنا کر کلاسوں میں سنوار دیتیں۔ ہم لوگ اسے احمقانہ بناوٹ اور بے کار کی زحمت سمجھ کر نہایت تحقیر سے ہنستے اور انہیں چڑانے کو گلاس میں سے نپکن نکالے بغیر پانی بھر لیتے، آپا مہمانوں کے سامنے ہمارے جنگلی پن کی وجہ سے شرمندہ ہوتیں تو بڑا لطف آتا۔ ہم لوگ تو تانبے یا تام چینی کی رکابیوں میں کھانا لے کر بان کی چارپائی پر سینی رکھ کر بیٹھ جاتے۔ ذرا پلنگ کی آدوائیں ڈھیلی ہوتی تو بڑا مزاآتا۔ کوئی موٹا آدمی بیٹھ جاتا تو سارا شوربہ گود میں رس آتا۔ بان کی ڈھیلی چارپائی پر بیٹھ کر پچھلے شوربہ کا سالن کھانا بھی ایک فن ہے۔ جس میں ہماری گھرانا ماہر تھا۔

    تاج محل ہوٹل میں کانٹے چھری سے کھانا کھاتے وقت میری کندھے انجانے بوجھ سے تھک گئے۔ اور چغنائیت کو سخت ٹھیس لگی اور مجھے فوراً احساس برتری ہونے لگا۔ کم از کم اس میدان میں تو مجھے فوقیت حاصل تھی۔ پطرس کو روز روز اسی طمطراق سے کھانا پڑتا ہوگا۔ انہوں نے شاید کبھی کھاٹ پر بیٹھ کر آلو گوشست نہیں کھایا ہوگا۔ خاص کر جب کہ اس میں پڑوسی کے باغ سے چرا کر نیبو نچوڑا گیا ہو۔ اس کے بعد بیرے نے پلیٹوں میں نہ جانے کیا لا کر رکھ دیا۔ باتوں میں خیال ہی نہ رہا۔ بڑے دھواں دھار طریقے پر کرشن چندر، بیدی، اور منٹو پر بحث ہونے لگی۔ ان کا خیال تھا تکلف میں ان کی تعریفیں کرتی ہوں تا کہ لوگ مجھے بڑا دریا دل سمجھیں اورمیں کہتی تھی میں خدا کی بھی جھوٹی تعریف نہیں کروں گی۔ ان کی کہانیاں میں نے تنقید نگار یا ایک کہانی نگار کی حیثیث سے انہیں ایک انسان کی حدیثت سے دل بہلانے کو پڑھی ہیں۔ کچھ بری بھی لگی ہیں اور کچھ نشتر بن کر دل میں ترازو ہوگئی ہیں۔

    ’’یہ جذباتیت ہے‘‘ انہوں نے رکھائی سے کہا۔

    ’’جذباتیت کیا ہوتی ہے؟‘‘ میں نے بھونڈے پن سے کہا۔ وہ سمجھے بن رہی ہوں، حالانکہ یہ سولہ سال پہلے کی بات ہے اور واقعی میری سمجھ میں بہت سے باتیں نہیں آئی تھیں۔ میں نے بہت سی باتوں کے نامعقول جواب دیئے۔ ان کی علمی بزرگی کے قائل ہوتے ہوئے بھی تسلیم نہیں کیا تھا۔ میں نے ان سے یہ بھی نہیں کہا کہ میں کب سے اور کتنی ان کی مختصرتحریروں کی مداح ہوں۔ میں نے بہت کم ان کی تعریف میں کہا۔ جو کہا وہ نہایت بے رخی سے سنی ان سنی کرگئے۔ ان کی اپنی تخلیقات ان کے لئے اتنی اہم نہیں تھی۔ کم سے کم مجھے تو یہی اندازہ ہوا کہ وہ خود پرست نہیں۔

    دو گھنٹے لنچ سے کھیلتے گزر گئے۔

    ’’آپ ڈرامہ کیوں لکھتی ہیں؟‘‘ انہیں اچانک بم گرانے میں بڑا مزا آتا تھا۔

    ’’یونہی۔‘‘ میں نے لنگڑا ساجواب دیا۔

    ’’میری رائے میں تو آپ ڈرامے لکھنا چھوڑ دیجئے۔ بڑے اوٹ پٹانگ ہوتے ہیں۔ کوئی ایکٹ چھوٹا کوئی لمبا۔ سلیقہ سے کتربیونت کرنے کی بجائے آپ انہیں دانتوں سے کھسوٹتی ہیں۔‘‘ ان کی بوجھل عقابی آنکھیں میں ایذارسانی کی لذات کا نشہ ابھرآیا۔

    جی چاہا میز کا سارا کوڑا کرکٹ ان کے اوپر لوٹ دوں اور یہ پلٹس کے مزے کی پڈنگ ان کے شاندار سوٹ پر لسٹر جائے۔ مگر نے جلدی سے بھڑکتے ہوئے رہوار کی لگامیں کھینچ لیں اور ایک گلاس ٹھنڈا پانی اتار کی نہایت نرمی سے کہا، ’’اچھا۔۔۔ اب نہیں لکھوں گی۔‘‘ انہیں ناامیدی سی ہوئی کہ میں نے بحث کیوں کاٹ دی۔

    ’’مکالموں میں آپ کے کافی جان ہوتی ہے۔‘‘ اونھ، میں نے سوچا، یہ میرے مکالمے تھوڑے ہوتے ہیں گھر میں سب ایسے ہی بولتے ہیں، میں دوسری زبان سے کہاں سے لاؤں۔

    ’’برنارڈشا سے متاثر ہیں؟‘‘

    ’’بے حد، میں نے ایک ڈرامہ میں برناڈشا کے یہاں سے پورا کا پورا سین اڑالیا ہے، کیوں کہ مجھے وہ سین بہت پسند آیا تھا۔ اس کا حوالہ بھی نہیں دیا مجھے اپنی آنے والی ذمہ داریوں کا اس وقت تک اندازہ نہیں تھا۔ یہ خبر نہ تھی کہ ایک دن ’’جواب داری‘‘ کرنا ہوگی۔ اصل میں میں نے وہ سین ایک فلمی کہانی کے لئے اڑایا تھا۔‘‘

    میں نے سوچا اس سے پہلے یہ میری ٹانگ کھینچیں خود ہی کیوں نہ سر پھوڑلوں۔ ’’آپ بھی کے جردم جردم اور پی۔ جیوڈپاس سے متاثر ہوئے ہوں گے۔‘‘ میں نے کہہ تو دیا، لیکن اب سوچتی ہوں کہ صرف ایک بات مشترک تھی، یعنی دونوں مزاح نگار تھے،۔ شاید چڑ کر کہہ دیا ہوگا۔ وہ نہای ہوشیاری سے ٹال گئے اور اشارے سے بیرے کو بلایا۔ بڑی پریشان صورت بناکر چاروں طرف دیکھا۔

    ’’معاف کیجئے گا۔‘‘ بڑے ادب سے مجھ سے معذرت چاہی، پھر سرگوشی میں بیرے سے کچھ کہا۔ وہ بڑے زور زور سے سرہلانے لگا۔

    ’’صاحب آپ اطمینان رکھو، کوئی بات نہیں۔‘‘ بیرے نے ہمت بڑھائی۔

    ’’نہیں اگر کوئی اعتراض ہوتو۔۔۔‘‘ پھر سہم کر چاروں طرف دیکھا۔

    ’’آپ بولو صاب‘‘

    ’’منیجر صاحب کو تو کچھ‘‘

    ’’نہیں صاحب مینجر صاحب کو کون بولے گا؟‘‘ ’’ہم کو بولو۔۔۔‘‘

    پطرس نے بڑی شکرگزاری سے اسے دیکھا۔ پھر بالکل کان کے پاس ہونٹ لے جا کر بولے۔

    ’’کافی۔‘‘

    ’’کافی؟‘‘ بیرا چکرایا۔

    ’’ہاں اور نمکین بسکٹ بھی۔‘‘ بیرامجسم سوال بناکبھی مجھے اور کبھی انہیں دیکھنے لگا۔

    ’’کسی کو کانوں کان پتہ نہ چلے۔۔۔ شاباش‘‘

    ’’نہیں صاحب اطمینان رکھو۔۔۔‘‘ بھونچکا سا بیرا کافی لینے چلا گیا۔ جاتے جاتے اس نے حیرت زدہ ہو کر پلٹ کر دیکھا جیسے کہتا ہو، دماغ تو سلامت ہے حضور کا۔ پطرس نے نہایت معین خیز انداز میں آنکھ ماری، بے چارہ گھگیا کر ہنسنے لگا۔

    اور مجھے معلوم ہوا پطرس مزاح نگار ہی نہیں ان کی زندگی میں شرارت اور چلبلا پن ہے۔ ان کی زبان میں لطیفے ہیں اور برتاؤ میں ہلکا پھلا پن ان کے طنز میں تیکھا پن ہے۔ انہوں نے زندگی کا تنگ و تاریک رخ نہیں دیکھا۔ وہ الجھنوں کا شکار نہیں تھے، آزاد اور زندگی کے قائل تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ نئے لکھنے والوں کی تلخی اور جھنجھلاہٹ سے مکدر سے ہوجاتے تھے۔

    جسم فروشی اور حرامی بچوں کے سوال کو وہ کچھ زیادہ مہذب نہیں سمجھتے تھے۔ ان دنوں میں کسی سے بھی ملتی تھی، ’’لحاف‘‘ کا ذکر چھڑ جاتا تھا۔ میری چڑ سی ہوگئی۔ پطرس نے لحاف ہی نہیں اور بھی جنسی الجھنوں پر کوئی بحث نہ کی۔

    ’’میں اپنی کہانیوں کا انگریزی میں ترجمہ کرانا چاہتی ہوں۔‘‘ میں نے انہیں ذرا رسانیت کے موڈ میں پاکر کہا۔

    ’’کیوں؟‘‘ وہ بڑے کھرے پن سے بولے، ’’آپ کی کہانیاں ترجمہ نہ ہوں گی تو کیا انگریزی ادب غریب رہ جائے گا یا شاید آپ کے خیال ہے، انگریزی کا جامہ پہن کے تحریر زیادہ بلند ہوجائے گی۔‘‘

    پھر جی جلا۔ ایک دم سے یہ انشان اتنا خشک کیوں ہوجاتا ہے۔ ’’نے ہیں، یہ باتر تو نہیں اصل میں انگریزی میں چعپہنے ح سے پیسے زیادہ ملتے ہیں۔ احمد علی نے ایک کہانیت کے مجھے چعارع نبونڈ دلوائے تھے۔‘‘

    کچھ لاجواب سے ہوگئے اور مسکرانے لگے، ’’فکر نہ کیجئے ایک دن آئے گا لوگ خود ہی اس طرف توجہ دیں گے۔‘‘ پھر میں نے فکر نہ کی۔

    ایک ایک لمحہ ہر لطف گزرا۔ گھنٹوں باتیں کرنے کے بعد بھی ابھی زنبیل میں بہت کچھ تھا۔ وہ مجھے چرچ گیٹ اسٹیشن تک چھوڑ گئے۔ میں ان دنوں ملاڈ رہتی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے میرے بارے میں ایک مضمون لکھا جو میں نے نہیں پڑھا، لوگوں سے ٹکڑے سنے۔ ایک بار دہلی جانا ہوا تو دعوت میں بلایا۔ وہاں فیض بھی تھے۔ مگر بڑی چپ چاپ سی محفل تھی۔ جس کا میرے دماغ پر دھندلا سا بھی عکس نہیں۔ کچھ سیاست کی باتیں زیادہ ہوئیں جو میرے پلّے نہیں پڑیں۔

    سال بھی بعد میں نے نوکری سے استعفادے دیا۔ شاہد کی نوکری بھی کچھ ڈھل مل سے نظر آنے لگی۔ میں نے پھر نوکری کا ارادہ کیا۔ نہ جانے کیا دل میں سمائی پطرس کو لکھ مارا کہ نوکری چاہیے کہیں بھی ملے۔ چار پانچ سو سے کم میں گزر نہیں گی۔ ہفتہ بھر کے اندر چھسو روپے کی نوکری معہ تقرر کی خط کے مل گئی۔ اس عرصہ میں مجھے فلم کا کام مل گیا تھا اور شاہد کو بھی ڈائرکشن مل گیا۔ میں نے پطرس کو بڑي شرمندگی کا خط لکھا۔ معافی مانگی۔

    پھر ملک تقسیم ہوگیا۔ جاگیریں بٹیں، زبان بٹی، ادب بٹا اور ادیبوں کا بھی بٹوارا ہوگی۔ آدھا کنبہ یہاں آدھا وہاں چلاگیا۔ پطرس ادب کی دنیا سے سیاست کے آسمان پر پہنچ گئے۔

    مگر نقوش میں ان کا ایک خط پڑھ کر نجانے کیوں محسوس ہوا۔۔۔ پطرس دور جاکر بھی پاس ہی کھڑے ہیں۔ آج ہی میں نے ’’مضامین پطرس خریدے ہے، پڑھ رہی ہوں۔ پڑھ کر پلنگ سے نیچے گرنے کی نوبت تو نہیں آئی مگر میرے دل و دماغ کی تکان سی اتررہی ہے۔ وہ قلم جو تھکے ہوئے دماغوں کو ایک لمحہ کے لئے بھی مہلت بخش دے خاموش ہوچکا، مگر دور میرے تخیل میں دو بھاری بھاری غلافی آنکھیں آج بھی بے ساختہ مسکرارہی ہیں۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے