حضرت امیر خسرو دہلوی
کہاجاتا ہے کہ ایک مرتبہ امیرخسرو، اپنے مرشد حضرت نظام الدین اولیاء کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض گزار ہوئے کہ ان کی شاعری میں وہ شیرینی آجائے جو بے مثال ہو۔ مرشد نے اپنے فرمانبردار مرید کی عرض داشت سنی اور ارشاد ہوا کہ کھاٹ کے نیچے شکر رکھی ہوئی ہے نکالو۔ اسے خود کھائو اور حاضرین میں تقسیم کردو۔ امیر خسرو نے ایسا ہی کیا اور پھر ان کی زبان میں وہ شیرینی آگئی کہ آج سات سو سال سے زیادہ کی مدت گزرنے کے بعد بھی اس کی مٹھاس میں کمی نہیں آئی۔ خسرو ؔ کو ان کے عہد کے ایک بادشاہ نے ’’ملک الشعرائ‘‘ کے خطاب سے نوازا تھا مگروہ کشورِ سخنوری کے ایسے شہنشاہ ثابت ہوئے جسکی سلطنت کو آج تک کسی نے چیلنج نہیں کیا۔ غالباً یہ اسی شکر کی برکت تھی جو خسروؔ کو بارگاہِ نظامی سے عطا ہوئی تھی۔ وہ باالاجماع برصغیر کی تمام زبانوں کے سب سے بڑے شاعرتھے اور آج تک ہیں۔ ان کی برابری کا کوئی سخنور اس ملک نے پیدا نہیں کیا۔ ان کی عظمت کو دنیا نے تسلیم کیا۔ وہ شاعری ہی نہیں موسیقی کے فن میں بھی یکتا تھے اور کچھ نئی ایجادات و اختراعات کا سہرا بھی ان کے سر جاتا ہے۔ خسروؔ نے اپنی شاعری اور موسیقی کو خالص ہندوستانی رنگ دیا جسے کثرت میں وحدت کی مثال کہا جاسکتا ہے اور اسی کی تقلید بعد کے فنکاروں نے کی۔
ولادت اور بچپن
امیر خسرو کی ولادت اترپردیش کے پٹیالی قصبے میں ہوئی، جو کہ متھرا سے ایٹہ جانے والی شاہراہ پہ گنگا کنارے واقع ہے۔ ۶۵۱ھ بمطابق ۱۲۵۲ء کو یہاں کے ایک امیر کبیرگھرانے میں انھوں نے جنم لیا۔ یہ سلطان ناصرالدین محمود کا دور سلطنت تھا۔ والد کا نام امیر سیف الدین محمود اور والدہ کانام دولت ناز تھا۔ والد ایک مہاجر ترک تھے تو والدہ ایک نومسلم، سیاہ فام ہندوستانی سیاستداں کی بیٹی تھیں۔ وہ اپنے تین بھائیوں اور ایک بہن میں منجھلے تھے۔ خسرو کا اصل نام یمین الدین محمود تھا مگر شہرت انھیں ان کے تخلص سے ملی۔ امیر، ان کا موروثی خطاب تھا۔
خاندانی پسِ منظر
خسروؔ کے والد امیر سیف الدین محمود کا خاندان وسط ایشیا کے شہر سمرقند کے قریب کش کا رہنے والاتھا مگر مغلوں کی تاراجی سے پریشان ہوکر بلخ میں آبسا تھا۔ جب یہ طوفانِ بلا سمرقند وبخارا کو تاراج کر کے بلخ کی طرف بڑھا تو امیر سیف الدین ایک قافلے کے ساتھ ہندوستان چلے آئے۔ یہاں چند دن معمولی خدمات پر معمور رہنے کے بعد انھیں پٹیالی کی چھوٹی سی جاگیر دے دی گئی۔ یہ ایک غریب الوطن مہاجر کے لئے بڑا انعام تھا۔ امیر سیف الدین محمود ایک جنگ جو سپاہی تھے لہٰذا جنگی معرکوں پر اکثر جایا کرتے تھے۔ بعض تاریخی روایات کے مطابق ابھی خسرو صرف سات سال کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا اور ان کی پرورش وتربیت کی ذمہ داری ان کی والدہ دولت ناز و نانا عمادالملک کے سر آگئی۔
نانیہال کا اثر
خسرو نے اپنے آس پاس ماں، نانا اور ماموں کو دیکھا، جو ہندو پسِ منظر رکھتے تھے اور انھیں نے ان کی تعلیم وتربیت بھی کی۔ ظاہر ہے یہ خاندان ایک ہندوستانی خاندان تھا اور وہ بھی متھرا کے قریب رہنے والا خاندان تھا جو کہ ہندووں کا ایک مقدس شہر ہے اور اس علاقے کی آب و ہوا میں بھی کرشن بھکتی کی خوشبو رچی بسی ہے۔ یہاں کی مقامی ’’برج بھاشا‘‘ کے لوک گیت اور بھجن ضرور ان کے کان میں پڑتے ہونگے۔ ایک طرف جہاں انھیں عربی، فارسی اور دینیات کی تعلیم دی جارہی تھی، وہیں دوسری طرف وہ جس ماحول میں پرورش پارہے تھے اس کے اثرات ان پر پڑنے لازم تھے۔ اس ماحول میں خسرو کی پرورش نے ہی انھیں ایک سچا ہندوستانی بنا دیا تھاجو یہاں کی مخلوط تہذیب میں یقین رکھتا تھا۔ ان کے نانا کا قیام دہلی میں تھا، جس کے سبب ان کا دہلی آنا جاناتھا لہذا دہلی کے ماحول نے بھی ان پر اثر ڈالا اور انھیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
شاعری کی ابتدا
خسرو نے شاعری کی ابتدا کم سنی ہی سے کردی تھی۔ ان کے دور میں زبان وادب کی تعلیم نصاب کا بنیادی حصہ ہوا کرتی تھی۔ آس پاس کا علمی ماحول بھی شعر وسخن سے رچا بساتھا۔ چنانچہ اس کا اثر ان پر بھی ہوا اور مکتب میں ہی شعر سنانے لگے۔ خوش کلامی انھیں قدرت نے جی کھول کر عطا کی تھی جس کا اظہار ابتدا سے ہی ہونے لگاتھا۔ وہ بھری محفل میں شعر سناتے ہوئے کبھی نہیں ہچکچاتے تھے۔ حالانکہ ان کی ابتدائی شاعری خواجہ علاء الدین کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں وجود میں آئی جو کہ ان کے استاد تھے۔ خسرو بیس سال کی عمر تک ایک دیوان مرتب کر چکے تھے۔
درباروں سے وابستگیاں
مسلم عہدسلطنت میں شعراء کو ملازم رکھنے کا عام رواج تھا جو کہ وسط ایشیا اور ایران سے یہاں پہنچا تھا۔ بادشاہوں کے علاوہ امرائ، شہزادے اور جاگیردار تک انھیں اپنے ہاں ملازم رکھا کرتے تھے۔ سلطان غیاث الدین بلبن کا دور تھا جب خسروؔ آزادانہ طور پر تلاشِ معاش کے لئے نکلے اور اگر کوئی شاعری کا قدرداں مل جائے اس سے بڑی بات کیا ہوسکتی تھی۔ چنانچہ انھیں بھی بادشاہ کا ایک شاہ خرچ بھتیجا مل گیا جو علاء الدین کشلی خان یا ملک چھجو کے نام سے تاریخ میں جانا جاتا ہے۔ وہ علی گڑھ(کول) کا جاگیردار تھا۔ اس نے اپنے یہاں ملازمت پر رکھ لیا اور اس کی نوازشات سے فیضیاب ہونے لگے۔
امیر خسرو نے دوسری ملازمت سلطان بلبن کے بیٹے بغرا خان کے ہاں کی جو کہ سامانہ (پنجاب) کا گورنر تھا۔ ۱۲۷۹ء میں بغراخاں سلطان بلبن کے ساتھ بنگال بغاوت فرو کرنے گیا۔ خسروؔ بھی ساتھ تھے۔ یہاں خون کی ندیاں بہیں۔ سرِ بازار دارورسن سجے اور ان گنت لوگوں کی جانیں گئیں، پھر بغاوت فرو ہوئی اور بغرا خاں کو وہاں کا گورنر بن کر لکھنوتی (موجودہ مرشدآباد) میں رکناپڑا۔ خسرو نہیں رکنا چاہتے تھے۔ وہاں جو خون خرابہ انھوں نے دیکھا تھا اس سے ان کا ذہن مکدر ہوچکا تھا اور بنگال کی مرطوب آب وہوا بھی انھیں پسند نہیں آئی تھی، مگر شہزادے کے اصرار پر انھیں کچھ دن رکنا پڑا۔ چھ مہینے بعد ماں اور عزیزوں سے ملنے کا بہانہ کرکے وہ دہلی چلے آئے اور پھر ادھر کا رخ نہ کیا۔
اودھ کے حاکم حاتم خاں نے انھیں اپنے دربار سے وابستہ کرنا چاہا مگر یہاں ملازمت کرنا ڈپلومیسی کے خلاف تھا۔ انھوں نے ایک شہزادے کی ملازمت چھوڑی تھی لہٰذا اب انھیں کسی ایسے ہی پاور فل شخص کی ملازمت چاہئے تھی۔ وہ ۱۲۸۰ء میں بادشاہ کے بڑے بیٹے اور ولی عہد سلطان محمد قاآن (گورنر ملتان) ملازم ہوگئے۔ شہزادہ بے حد قابل اور مردم شناس ہونے کے ساتھ ساتھ رزم وبزم میں یکتا تھا۔ اس نے خوب قدردانی کی اور کہاجاتا ہے کہ ہاتھی برابر خزانہ اس نے خسرو پر نچھاور کئے۔ ملتان، پنجاب اور سندھ کا مرکزی مقام تھا اور یہاں علمائ، صوفیہ، شعرائ، موسیقار اور اہل علم وفن کا جمگھٹا تھا۔ یہاں خسرو کو بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ یہیں انھوں نے اپنا دوسرا دیوان ’’وسط الحیوٰۃ‘‘ ترتیب دیا۔ یہیں وسط ایشیا اور پنجاب کی موسیقی کو ملاکر انھوں نے قوالی کی ایجاد کی۔ یہیں انھوں نے فقہ کے علم کی تکمیل کی۔ ملتان میں رہتے ہوئے انھوں سلطان محمد قاآن کی مدح میں ۲۳ قصیدے لکھے۔ اس کے بعد انھوں نے سلطان معزالدین کیقباد کی نوکری کی پیشکش کو ٹھکراکر اودھ کے گورنر حاتم خان کی نوکری کرلی۔ اودھ کا ماحول انھیں پسند آیا تھا مگر وہ زیادہ دن دہلی سے دور نہیں رہ سکتے تھے۔ حاتم خان کے روکنے کے باوجود وہ نہیں رکے اور آخرکار اس نے ڈھیر ساری دولت اور سفر خرچ دے کر رخصت کیا۔
قران السعدین کی تصنیف
دہلی پہنچے ابھی دو دن بھی نہیں گزرے تھے کہ سلطان نے بلا بھیجا اور کچھ لکھنے کی فرمائش کی۔ اس کے بدلے میں اس نے بہت کچھ دینے کا وعدہ بھی کیا۔ اب وہ ساری دنیا سے کنارہ کش ہوکر خلوت میں بیٹھ گئے اور چند مہینے بعد جب باہر آئے تو ان کے ہاتھ میں ’’قران السعدین‘‘ تھی۔ اس مثنوی میں ۳۹۴۴ اشعار ہیں، جن میں شاعر کے فن کا جادو نظر آتا ہے۔ سلطان کے آباد کردہ شہر کی پوری تفصیلات، فنکاری اور صنعت وحرفت کا ایسا مرصع نقشہ ہے جسے سن کر پورا دربار دم بخود رہ گیا۔ سلطان کیقبادنے انھیں ڈھیروں انعام واکرام سے نوازنے کے ساتھ ساتھ ــ ’’ملک الشعرائ‘‘ کے خطاب سے بھی نوازامگر اس کی سلطنت زیادہ دن قائم نہ رہی، جوانعمری میں مرااور اس کی جگہ پر جلال الدین فیروز خلجی تخت نشیں ہوا۔
دہلی میں قیام
امیر خسرو نے پتہ نہیں کب، کہاں اور کس سے شادی کی تھی مگر۶۸۹ھ بمطابق ۱۲۹۰ء کو ان کے بیٹے مسعود کی پیدائش ہوئی۔ اس بیچ سیاسی ہلچل بھی رہی۔ وہ سلطان کے ملازم تھے اور اس کے ساتھ کڑہ اور رنتھمبور کی مہموں پر بھی گئے، جس کی یادگار مختصر مثنوی ’’مفتاح الفتوح‘‘ ہے۔
نظام الدین اولیاء کی بارگاہ میں
جلال الدین خلجی کے عہد میں دوسال تک امیر خسرو دہلی میں رہے اور اسی دوران ان کا خانقاہِ نظام الدین اولیاء سے زیادہ گہرا ربط ہوا۔ یوں تو یہاں ان کا آنا جانا زمانے سے تھا اور مرید بھی بہت پہلے ہوچکے تھے مگر مرشد کی خدمت میں وقت بتانے اور روحانی فیوض وبرکات کے حصول کا بہتر موقع اب میسر آیا تھا۔ انھیں احساس ہونے لگا تھا کہ اب تک جو انھوں نے وقت گذارا وہ بیکار گزارااور اپنی قیمتی عمر کا ایک بڑا حصہ جھوٹے شعبدوں میں بتا دیا۔ انھیں شاہی محفلیں اور ان کے رتجگے، ناچ ورنگ سب بیکار لگنے لگے اور دل کے سکون کا احساس مرشد کی خدمت میں آکر ہونے لگا۔
سجدۂ عشق کو آستاں مل گیا
سرزمیں کو مری آسماں مل گیا
وہ عمر کے چالیسویں پڑائو پر پہنچ چکے تھے اور اب پیچھے مڑکر اپنے ماضی کا جائزہ لے رہے تھے۔ اسی دوران ان کا ایک اور دیوان ’’غرۃ الکمال‘‘ مرتب ہوا جس کی ترتیب میں ان کے پیربھائیوں کے مشورے بھی شامل تھے۔ مولانا شہاب الدین، قاضی سراج، تاج الدین زاہدؔ اور علاء الدین علی شاہ خانقاہِ نظامی کے حاضرباش بزرگوں میں تھے، جن کی رایوں کو انھوں نے خاص طور پر ملحوظِ خاطر رکھا تھا۔ اس دیوان میں اللہ ورسول کے بعد مرشد کی منقبت بیان کی گئی ہے، اس کے بعد بادشاہ کا ذکر آتا ہے۔ یہ پہلا دیوان تھا جس میں انھوں نے اپنے مرشد کی مدح خوانی کی ہے۔
یہ وہ دور تھا جب سلطان علاء الدین خلجی کا اقتدار عروج پر تھا اور دوسری طرف سلطان المشائخ حضرت نظام الدین اولیاء کا روحانی اقتدار بھی بلندیوں پر پہنچاہوا تھا۔ دونوں مراکز کے بیچ کشمکش جاری تھی۔ بادشاہ جہاں یہ برداشت نہیں کرسکتا تھا کہ اس کی سلطنت میں ایک درویش لوگوں کی عقیدت کا مرکز بنے، وہیں دوسری طرف خانقاہِ نظامی کے دروازے جو عوام کے لئے کھلے ہوئے تھے وہاں کسی بادشاہ کو آنے کی اجازت نہ تھی۔ ان دونوں کے درمیان خسرو ایک زندہ رابطہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ تمام شاہی روئداد ہر شام اپنے مرشد کے سامنے بیان کرتے اور اپنا کلام ان کے روبرو سناتے اور داد حاصل کرتے۔ امیر کو بادشاہوں کی مصاحبت کا تجربہ تھا مگر اب ایک درویش کی مصاحبت میں انھیں لطف آنے لگا تھا۔ جب آنکھوں سے آنکھیں چار ہوئیں تو دل کی تمام آلودگیاں بھی دور ہونے لگیں۔ جس درویش کو کبھی ان کے نانا کی ڈیوڑھی سے اٹھا دیا گیا تھا آج وہ اسی کے آستانے پر آپڑے تھے۔ یہاں کی خاک انھیں محل شاہی کے زرنگار بام ودر سے اچھی لگنے لگی تھی۔ رقتِ قلب اور سوزوگداز کی جس کیفیت کا احساس وہ یہاں آکر کرتے کبھی کسی دوسرے مقام پر نہیں کرسکے تھے۔ ان کی شاعری اب واقعی شاعری ہوگئی تھی جو دماغ نہیں سیدھے دل سے نکل رہی تھی۔ عشق کی سرمستی اور اسرارکا بیان الفاظ میں ممکن نہیں یہ تو بس احساس ہے،
محبت معنیٰ والفاظ میں لائی نہیں جاتی
یہ وہ نازک حقیقت ہے جو سمجھائی نہیں جاتی
علمی و ادبی خدمات
انھوں نے خمسہ نظامی کی طرز پر خمسہ لکھااور تصوف واخلاقیات کے موضوع پر اپنی پہلی کوشش ’’مطلع الانوار‘‘ پیش کی۔ مجاز کی عادی طبیعتوں کو خواہ یہ زیادہ پرکشش نہ لگی ہو مگر حقیقت پسندوں نے اسے سراہا۔ انھوں نے مثنوی ’’شیریں خسرو‘‘ اور ’’لیلیٰ مجنوں‘‘ لکھی۔ اسی دوران والدہ اور چھوٹے بھائی کا انتقال ہوگیا۔ مثنوی میں درد وکرب کی کیفیت لانے کی ضرورت نہیں پڑی خود بخود آگئی۔ ان مثنویوں میں نصیحت کا پہلو بھی موجود ہے۔
دورِ علائی کو بارہ سال تک دیکھنے اور پرکھنے کے بعد خسرو نے ’’خزائن الفتوح‘‘ پیش کی جو ان کا پہلا نثری کارنامہ تھا۔ انھوں نے اس کتاب میں اپنے عہد کی تاریخ پیش کی ہے جو، اب سند کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ ’’تاریخِ علائی‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہوئی۔ اسی کے بعد انھوں نے حضرت نظام الدین اولیاء کے ملفوظات کو جمع کر کے ’’افضل الفواد‘‘ کے نام سے پیش کیااور صخیم نثری تصنیف ’’رسائل الاعجاز‘‘ مکمل کی۔ انھوں نے علاء الدین خلجی کے بیٹے خضر خان کی داستان عشق بھی نظم کی جو ’’دیوال رانی خضرخاں‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ خضر خان سے ان کے اچھے مراسم تھے جو حضرت نظام الدین اولیاء کا عقیدتمند تھااور خانقاہ میں بھی آتا جاتا تھا۔ یہ ۱۳۱۵ء کی تصنیف ہے۔
خسرو کا آخری وقت
۱۳۲۰ء میں غیاث الدین تغلق کی تخت نشینی ہوئی اور امیر خسروؔ حسب سابق اس کے دربار سے وابستہ رہے۔ امیر خسرو شہزادہ اُلغ خان کے ساتھ بنگال سے واپسی کے راستے میں ترہٹ (مظفر پور، بہار) کے علاقے میں تھے کہ آپ کو حضرت نظام الدین اولیاء کی بیماری کی اطلاع ملی تو لشکر کو چھوڑ کر جلدی جلدی دہلی آئے مگر مرشد سے ملنا نصیب نہ ہوااور غم واندوہ میں مبتلا ہوکر ان کی قبرکے پاس بیٹھ رہے۔ درد کی جو کیفیت دل میں تھی وہ کبھی کبھی لب پہ آجاتی۔ آپ کے بدن پر ماتمی لباس ہوتا، آنکھوں میں آنسو ہوتے اور زبان پر ہندی کا ایک دوہا،
گوری سوئے سیج پر سو مکھ پر ڈارو کیس
چل خسرو گھر آپنے سو سانجھ بھئی چہو دیس
آخر کار دل کی اس بیقراری کو قرار آہی گیااور مرشد کے انتقال کے ٹھیک چھ مہینے بعد خسروؔکو بھی ۱۸، شوال ۷۲۵ھ (۱۳۲۵ئ) کو وصال یار نصیب ہوااور اپنے پیر کی پائنتی میں جگہ پائی۔ تب تک وہ اپنا آخری دیوان ’’نہایۃ الکمال‘‘ مکمل کر چکے تھے۔
(اس مضمون کی معلومات درج ذیل کتابوں سے ماخوذ ہیں۔ تاریخِ فیروزشاہی، ( ضیاء الدین برنی) تاریخِ فرشتہ، ( محمد قاسم فرشتہ) شعرا لعجم، ( مولانا شبلی نعمانی) صوفی امیر خسرو(سید صباح الدین عبدالرحمٰن) خسرو شناسی)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.