اظہار و ابلاغ کے سلسلے میں میرے تیسرے مضمون کو پڑھ کر، جو نظیر صدیقی کے حوالے سے لکھا گیا تھا، میرے دوست احمد ہمدانی نے کہا کہ اس مضمون میں تم موضوع زیربحث سے ہٹ گئے ہو۔ ان کے ا س اعتراض نے ضروری کر دیا کہ میں تینوں مضمونوں کے ربط کو واضح کر دوں۔ قصہ یہ ہے کہ یہ ساری بحث اس پس منظر میں کی جا رہی ہے کہ مغرب کی جدید شاعری میں اور اس کے اثر سے جدید اردو شاعری میں ابہام کی خوبی یا خرابی پیدا ہو گئی ہے اور مخالفوں یا موافقوں کے دو گروہ بن گئے ہیں۔
ایک گروہ ابہام کی حمایت کرتا ہے، اسے جمالیاتی اصول سمجھتا ہے، یہاں تک کہ اس کے نزدیک روح شاعری ابہام ہی ہے۔ دوسرا گروہ ابہام کا مخالف ہے اور اسے لغو نظریہ، مہمل جمالیاتی اصول اور غلط طریقہ کار سمجھتا ہے۔ ہمارے یہاں یہ بحث میراجی اور راشد کی شاعری کے ساتھ شروع ہو گئی تھی، اورتب سے دونوں صفوں میں نئے نئے مجاہدوں کا اضافہ ہوتا رہا ہے۔ اس لڑائی میں ایک محاذ پر ابہام پرستوں کے مخالفوں کو سچ مچ شکست کھانی پڑی، یعنی ان کے پرانے جنگ بازوں کی شور اشوری کے باوجود انتہائی بے نکمی سے میراجی اور راشد کو تسلیم کر لیا گیا اور ’’نگار اسکول‘‘ کے نقادوں کو جو یہ لڑائی لڑ رہے تھے، ہتھیار ڈال دینے پڑے۔ ویسے بھی یہ مریل لوگ تھے، پٹ پٹاکر گردن ڈال کر بیٹھ گئے اور میراجی اور راشد کا طوطی بولنے لگا۔ مگر لڑائی اس کے باوجود ختم نہیں ہوئی۔ شکست خوردہ لوگوں نے یہ وطیرہ اختیار کیا کہ میراجی اور راشد کے سلسلے میں تو خاموشی اختیار کر لی، بلکہ بعض تو ان کی مدح خوانی بھی کرنے لگے مگر ساتھ ہی پینترا بدل کر یہ حرکت کرتے رہے کہ ہر نئے ابہام پرست کی آمد پر شور مچاتے رہے۔ یہ شور جیلانی کامران کی آمد پر بھی مچا اور ان کے بعد افتخار جالب وغیرہ ہم کی آمد پر بھی۔
اب ابہام پرستوں کی چوتھی پشت کو بھی یہ لڑائی لڑنی پڑ رہی ہے۔ مگر ابہام دشمنوں کی پہلے محاذ پر پسپائی سے ابہام پرستوں کو یہ دلیل ضرور ہاتھ لگ گئی کہ جب تم شوروغوغا کے باوجود راشد اور میراجی کو مان چکے ہو تو آخر ہمیں بھی مان جاؤگے۔ ان کا کہنا ہے کہ قدامت پسندوں کا گروہ غالب کے زمانے سے یہ شور مچاتا ہے، پھر خاموشی سے پیچھے ہٹ جاتا ہے اور نئے کھلاڑیوں کی آمد پر شور مچانے لگتا ہے مگر ابہام پرستوں کے کھلاڑی برابر کامیاب ہوتے جا رہے ہیں۔
یہ دلیل یقینا ًبہت مضبوط ہے مگر ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ میں نے اب تک جن لوگوں کے ذریعے اس موضوع کو آگے بڑھایا ہے اس میں وزیر آغا اور شمس الرحمن فاروقی ابہام پرستوں کے ساتھ ہیں۔ وزیر آغا ذرا کم، شمس الرحمن ضرورت سے زیادہ۔ لیکن قدامت پسندوں کی نمائندگی نظیر صدیقی کر رہے ہیں۔ ان کے انگریزی اور فرانسیسی حوالوں پر نہ جائیے، یہ ہیں وہی اگلے وقتوں کے آدمی۔ بہرحال ایسے لوگوں پر سوال کا جواب واجب ہے کہ یہ پرانے ابہام پرستوں کو کیوں مانتے جاتے ہیں، جب کہ نئے ابہام پرستوں پر ان کی نکتہ چینیاں ختم نہیں ہوتیں۔ غالباً اس کا جواب یہ ہے کہ یہ منافقت یا مصالحت نہیں ہے بلکہ دراصل واقعہ یہ ہے کہ پرانے ابہام پرست سمجھ میں آ جاتے ہیں۔ میرا گلا سوال ہے کہ کیوں؟ شاید اس لیے کہ رفتہ رفتہ ہم ان سے مانوس ہوکر انہیں ہمدردی سے دیکھنے لگتے ہیں۔ تنقید اس عمل میں بڑی مدد کرتی ہے۔ ہم درد نقادوں کی کاوشوں سے ابہام کے پردے اٹھنے لگتے ہیں۔ تاریک اور نیم تاریک دائرے روشن ہونے لگتے ہیں اور ایک بہتر فضا میں ہم ایسی شاعری کونہ صرف سمجھنے لگتے ہیں بلکہ اس سے محظوظ بھی ہونے لگتے ہیں۔
اب صورت حال واقعی یہی ہے تو ہمیں سوچنا چاہئے کہ ایسے ہم درد نقاد ہمارے لیے کتنے ضروری ہیں۔ نظیر صدیقی نے شکایت کی ہے کہ نہ ابہام پرست شعرا ابہام پرستی سے باز آتے ہیں، نہ ان کے ہم دردنقاد ان کی مدح سرائی، حمایت اور موافقت سے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسے نقاد اگر کسی نظم کو سمجھتے بھی نہیں تو اس کی حمایت کرتے ہیں۔ مگر شکایت سے بھی آگے بڑھ کر اس بات پر جھلا اٹھتے ہیں کہ یہ ابہام پرست نقاد اپنی ناکامیوں کے باوجود ان لوگوں کی حمایت نہیں کرتے جو ابہام کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں بلکہ ان کی مخالفت کرتے ہیں۔ نظیر صدیقی کے میکانکی دماغ کو یہ سمجھنے میں دقت ہوتی ہے کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک نقاد ابہام پرست شاعری کو نہ سمجھنے کے باوجود اس کی موافقت سے باز نہ آئے۔ مگر نظیر صدیقی اس بات پر غور نہیں کرتے کہ اگر ایسے ہم درد نقاد موجود نہ ہوتے اور وہ طرح طرح کی ناکامیوں کے باوجود اپنی کوشش جاری نہ رکھتے تو خود نظیر صدیقی، میراجی اور راشد کے مداح نہ ہوتے اور پاؤنڈ اور ایلیٹ کی کتابیں بغل میں دبائے نہ پھرتے۔
ان لوگوں کی شاعری پر جو روشنی پڑی ہے، وہ ایسے ہی صاحب حوصلہ نقادوں کی کوششوں سے پڑی ہے۔ ورنہ گالیاں دینے والے تو ’’نگار‘‘ جیسے رسالوں کے فائلوں میں دب دباکر ہی غائب ہو جاتے ہیں، کسی اور کو تو روشن کیا کریں گے۔ میرے خیال میں اب یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ادب کی ترقی اور بقا کے لیے ایسے نقادوں کی موجودگی ایک نعمت سے کم نہیں، خواہ ان کی تفہیم مکمل نہ ہو اور خواہ ہزار بار تفہیم کی کوششوں میں ناکام ہوتے رہے ہوں۔
مجھے شبہ ہے کہ نظیر صدیقی کواس بات کی تفہیم نہیں ہو سکےگی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ کوئی الجھی ہوئی بات ہے یا دلیل میں کوئی خامی ہے۔ تفہیم اس لیے نہیں ہو سکےگی کہ امریکن لائبریری اور برٹش کونسل کے چکر لگاتے رہنے کے باوجود نظیر صدیقی ابھی تک ابہام کی ضرورت کے قائل نہیں ہو سکے ہیں۔ بظاہر وہ یہ بات مانتے ہوئے معلوم نہیں ہوتے، مگر ان کا پورا مضمون دیکھ لیجئے، ان کی ساری دلیلوں کے پیچھے اصل خیال یہ موجود ہے کہ ابہام کی آخر ضرورت ہی کیا ہے۔
ابہام کی ضرورت نہ ہونے پر وہ اپنے اندر سے اتنے اڑے ہوئے ہیں کہ راں بو، میلارمے، والیری، ایلیٹ اور پاؤنڈ کی بات سمجھنا تو درکنار، سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے ان لوگوں کے اتنے گہرے، اہم اور روشن خیالات کو جن پر غور کرکے وہ شاعری کی حقیقت وماہیت تک سمجھ سکتے تھے، اتنے سرسری انداز میں نقل کرکے رد کیا ہے کہ ان کی سادہ دلانہ خود اعتمادی پر حیر ت ہوتی ہے۔ والیری کے قول کو رد کرتے ہوئے انہیں یہ ڈر نہ لگا کہ وہ محمود ہاشمی کی بات نہیں ہے، والیری کی ہے۔ والیری، ٹی ایس ایلیٹ، پاؤنڈ، بادلیئر، راں بو، ہربرٹ ریڈ، آلڈس، ہکسلے کوئی ان کے حملوں سے نہیں بچا اور حملے بھی تیروں سے نہیں تکوں سے۔ اگر ان کی اس تحریر میں ایک ہلکی سی کوشش بھی اس بات کی ملتی کہ وہ ان لوگوں کے حاشیہ خیال تک پہنچ جائیں تو میں اعتراضات کا بھی برا نہ مانتا۔ مگر سمجھ کا تو یہ حال ہے کہ سیدھا فقرہ بھی دماغ سے بارہ پتھر باہر رہے اور جوش تردید کا یہ عالم ہے کہ لکھتے ہی چلے گئے۔
اب ممکن ہے کہ کسی کو یہ خیال آئے کہ میں بھی عجیب آدمی ہوں کہ ایک طرف تو شمس الرحمن کی مخالفت کرتا ہوں جو ابہام کا جواز پیش کرتے ہیں اور دوسری طرف نظیر صدیقی کے خلاف بھی ہوں جو ابہام پر اعتراض کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے میرا تضاد کہیں گے اور نظیر صدیقی تو یقیناً یہ سمجھیں گے کہ میں جدیدیوں کو خوش کر رہا ہوں۔ مجھے خوش کرنا مقصود ہوتا تو سب سے پہلے نظیر صدیقی کو خوش کرتا۔ کیوں کہ وہ معروف نقاد ہونے کے علاوہ میرے دوست بھی ہیں اور ویسے میں ان کی مداحی بھی کرتا رہتا ہوں۔ مسئلہ مخالفت یا موافقت کا نہیں، تفہیم کا ہے۔ مجھے زکام ہے، اگر اس کا علاج کوئی برف کا پانی پینا بتائے تو میں زکام کے علاج کی خواہش کے باوجود اسے نیم حکیم خطرہ جاں ہی کہوں گا۔ شمس الرحمن فاروقی نے ابہام کی حمایت میں جو دلائل دیے ہیں، وہ غلط ہیں۔ اختلاف حمایت کرنے میں نہیں، حمایت کے اسباب میں ہے۔ اسی طرح نظیر صدیقی کی مخالفت بھی ممکن ہے کہ مجھے کسی سچائی تک پہنچا دیتی، اگر ان کے بنیادی مفروضے مجھے غلط نہ معلوم ہوتے۔ بہرحال ابہام کے مسئلے کو میں جس طرح سمجھتا ہوں، دوسروں کو اس سے اختلاف کا حق دے کر بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔
ہمیں ایک نظم مبہم معلوم ہوتی ہے۔ اس کا کیا سبب ہوتا ہے؟ پہلی ممکن صورت یہ ہے کہ نظم میں ایسے الفاظ ہوں جن کے معنی ہمیں معلوم نہ ہوں۔ یہ لفظ اپنی زبان کے بھی ہو سکتے ہیں اور غیر زبانو ں کے بھی۔ اس کا علاج لغات ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ لفظ قابل فہم ہوں مگر ان کی ترتیب ہماری سمجھ میں نہ آتی ہو۔ یا بات کو ادھورا چھوڑ دیا گیا ہو۔ یا سیدھی بات کہنے کے بجائے استعارے، علامات یا رمز کا سہارا لیا ہو۔ اس صورت میں پہلی دونوں صورتوں سے زیادہ مشکل کا سامنا ہوتا ہے، کیوں کہ اشارے کا سمجھنا ذہانت چاہتا ہے۔ ادھوری بات کو اپنی طرف سے پورا کرنے کے لیے تخیل کی ضرورت ہوتی ہے۔ استعارے، علامت یا رمز کو سمجھنے کے لیے آگہی ادراک کی بلند سطح درکار ہوتی ہے۔ ابہام کی ایک اور صورت یہ ہے کہ شاعر جس صورت حال کو بیان کر رہا ہے، ہم اسے نہ سمجھ سکیں۔ جیسے ایک سندھی دیہاتی نیویارک کی صورت حال نہیں سمجھ سکتا۔
اس کے علاوہ نظم اس وقت بھی مبہم معلوم ہوتی ہے جب شاعر کا تجربہ ہمارے تجربے سے بالکل مختلف ہو۔ جو چیز یا جس سے ملتی جلتی چیز ہمارے تجربے میں نہیں آتی، اسے ہم کبھی نہیں سمجھ سکتے۔ کسی نظم کے ابہام کی یہ چند صورتیں میرے ذہن میں آئی ہیں، ان میں کوئی صاحب کچھ اور اضافہ کر سکتے ہیں۔ لیکن ابہام کے مسئلے کا یہ رخ قاری کی طرف ہے، اس کا ایک رخ شاعر کی طرف ہے۔ شاعر ابہام میں کیوں مبتلا ہوتا ہے؟ اس کی بھی کئی صورتیں ہیں:
(۱) شاعر چاہتا ہے کہ اس کی بات فوراً سمجھ میں نہ آ جائے اور اس کے لیے کچھ محنت کرنی پڑے۔
(۲) شاعر تو اپنی بات غیرمبہم انداز میں کہنا چاہتا ہے مگر بیان ساتھ نہیں دیتا۔ عجز کلام کی وجہ سے وہ اپنی بات سمجھایا پہنچا نہیں سکتا۔
(۳) شاعر یہ چاہتا بھی ہے کہ اس کی بات دوسروں تک پہنچ جائے اور قدرت کلام بھی رکھتا ہو مگر تجربہ کی نوعیت ہی ایسی ہے کہ مشکل سے سمجھ میں آتی ہے یا بالکل ہی سمجھ میں نہیں آتی۔
(۴) شاعر اپنی بات پہنچانا بھی چاہتا ہے، قادرالکلام بھی ہے، تجربہ بھی قابل فہم ہے مگر دانستہ طور پر بیان میں ایسی کمی رہ جاتی ہے کہ تفہیم مشکل ہو جاتی ہے۔
شاعر کی طرف سے ابہام کی یہ ممکن صورتیں ہیں جو اس وقت میرے پیش نظر ہیں۔ ان میں اضافہ کیا جا سکتاہے۔ دراصل جس ابہام سے نظیر صدیقی جیسے لوگ بھڑکے ہوئے ہیں، ان میں یہ سب صورتیں موجود ہیں۔ اس لیے مختلف اوقات میں ابہام پرست شاعروں، نقادوں اور نقاد شاعروں نے مختلف قسم کے بیانات دیے ہیں۔ ان کے بیانات بہت کثرت سے نظیر صدیقی نے نقل کیے ہیں مگر ان کے باہمی اختلاف کو سمجھے بغیر اور یہ جانے بغیر کہ کون سا بیان ابہام کی کس قسم سے تعلق رکھتا ہے۔ اب جہاں تک غیرارادی ابہام کا سوال ہے اس میں عجز کلام تو قابل معافی ہے، اس پر بحث کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ اس طرح نادانستہ طور پر بیان میں جو کمی رہ جاتی ہے، وہ بھی نظرانداز کیے جانے کے قابل ہے۔
البتہ اگر تجربے کی نوعیت یا صورت حال ایسی ہے کہ بیان میں نہیں آتی، یا مشکل سے آتی ہے تو اس کے لیے شاعر کو بھی کوشش کرنی چاہئے اور قاری کو بھی، کہ اسے زیادہ سے زیادہ ابلاغ کے دائرے میں لائے۔ اس کام میں نقاد بھی امکانی حد تک مدد کر سکتے ہیں۔ میرے خیال میں نادانستہ یا بربنائے مجبوری ابہام کی ان صورتوں کے بارے میں میں نے جو کچھ عرض کیا ہے، اس سے کم لوگوں کو اختلاف ہوگا۔ اختلاف دراصل ایسے ابہام پرہے بھی نہیں۔ جھگڑے کا چھلا تو دانستہ ابہام ہے۔ ا ب سوال یہ ہے کہ دانستہ ابہام کیوں؟
نظیر صدیقی نے یہ جو ایک کم اسّی صفحات کالے کیے ہیں، وہ اسی دانستہ ابہام کے خلاف ہیں۔ وہ شاعروں اور نقادوں کے اقتباس پر اقتباس نقل کیے جاتے ہیں جن میں اس ابہام کو اختیار کرنے کی ترغیب دی گئی ہے یا اسے سراہا گیا ہے، یا اس کی توجیہ، دفاع یا تائید کی گئی ہے۔ وہ کبھی کسی میلارمے کا قول نقل کرتے ہیں جو کہتا ہے کہ شعر کا لطف اس آسودگی پر منحصر ہے جو معنی کا تھوڑا تھوڑا اندازہ کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔ کبھی والیری یا بادلیئر کا اقتباس پیش کرتے ہیں۔ جو کہتا ہے، ’’نظم کچھ کہتی نہیں، وہ کچھ ہے۔‘‘ اسی طرح کوئی شاعری کو جادو کہتا ہے، کوئی عبادات، کوئی تصوف۔ ہر اقتباس پر نظیر صدیقی کا غصہ بڑھ جاتا ہے اور وہ دانت پیس پیس کرسب پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ مدرسوں، عام پڑھنے والوں اور خود ان جیسے ماہروں کے خلاف ایک سازش ہے۔
اس احساس سے وہ غصے میں آکر جب عوامی تائید کو بھی اپنی طرف پاتے ہیں تو شیر ہو جاتے ہیں۔ ایسے شیر جوان لوگوں پرحملہ کرتے ہیں جن کا نا م انہیں وضو کرکے لینا چاہئے۔ نظیر صدیقی نہیں سمجھتے کہ یہ لوگ جھوٹے نہیں ہیں۔ انہیں بات کی پچ بھی غلط باتیں کرنے پر آمادہ نہیں کر سکتی۔ دوسرے یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے اپنی حدود میں عظیم ترین شاعری پیدا کرکے دکھائی ہے۔ یہ سب کیوں ہے، نظیر صدیقی کی سمجھ میں نہیں آتا۔ انہیں تو یہ کوفت کھائے جاتی ہے کہ اس شاعری کونہ سمجھ کر وہ اس کے پسند کرنے والوں سے پیچھے رہ جائیں گے۔ یہ غم انہیں گوارا نہیں اور ابہام کم بخت دور نہیں ہوتا، بڑھتا جاتا ہے۔
میں نظیر صدیقی کی جگہ ہوتا تو جس شاعری اور جس نظریے سے مجھے اتنا اختلاف ہوتا، اسے پلٹ کر بھی نہ دیکھتا۔ یہ سب لوگ غلط لکھتے ہیں اور غلط شاعری کرتے ہیں تو لعنت بھیجیے اور وہ شاعری پڑھیے جو آپ کی سمجھ میں بھی آتی ہے اور لطف بھی دیتی ہے۔ ان لوگوں کے خلاف اسی اسی صفحات لکھنے سے کیا فائدہ ہے۔ نظیر صدیقی اور ان جیسے لوگ یہ نہیں کر سکتے، کیونکہ طوطی بھی انہیں شعرا کا بول رہا ہے۔ ان کا ذکر کیے بغیر نقادی تو کیا مدرسی کی دکان بھی چلنے والی نہیں۔
لیکن دانستہ ابہام آفرینی ہمیشہ سے شاعری کے منشو رکی ایک اہم دفعہ رہی ہے۔ مغرب والے ہی نہیں، مشرق والے بھی اپنے اندازمیں اس کی تلقین کرتے رہے ہیں۔ غالب کو گنجینہ معنی کا طلسم بنانے کا شوق تھا۔ یہ وہی معنی کی متعدد سطحوں کا نظریہ ہے جسے نظیر صدیقی رد کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ مومن کلام محذوف کے بادشاہ تھے اور کمال فن اس کو جانتے تھے کہ شعر کا کوئی ایک جزو اعظم چھوڑ دیا جائے جسے پڑھنے والے خو د پورا کریں اور شعر مزےدار ہو جائے۔ ہماری شعریات میں نغزگویائی باقاعدہ ایک صنعت تھی جس کا مقصد شعر کو چیستاں بنانا تھا۔ اقبال بھی حرف برہنہ نہ کہنے کو کمال گویائی کہتے ہیں اور رمزوایما کو بہتر طرز کلام سمجھتے ہیں۔ مولانا روم نے گفتہ آید درحدیث دیگراں کی شرط لگائی اور بیدل نے انتہا کردی کہ صاف اعلان کر دیا کہ ’شعر خوب معنی ندارد۔‘‘
ابہام اگر کوئی سازش ہے تو یہ والیری، راں، بو، ٹی ایس ایلیٹ وغیرہ کی سازش نہیں ہے۔ اس میں ہمارے بزرگ بھی شامل ہیں۔ ایسے بزرگ جن میں نظیر صدیقی کے کئی بت بھی شامل ہیں۔ شاعری کو تو چھوڑیے، یہاں تو بات ہی دوسر ی ہے۔ نثر کو تو نظیر صدیقی دو اور دو چار قسم کی چیز سمجھتے ہوں گے، مگر اہل مشرق کی نثر بھی ایسی ہے کہ چھکے چھوٹ جاتے ہیں، مثلاً ایک صنعت مشاکلہ ہے کہ ابن عربی کے یہاں بیشتر استعمال ہوئی ہے۔ نظیر صدیقی وغیرہ ہم اسے پڑھ لیں تو طبیعت صاف ہو جائے اور عبدالکریم جیلی کو آپ کیا کہیں گے جنہوں نے اعلان کر دیا کہ وہ پنی شہرہ آفاق کتاب ’’الانسان الکامل‘‘ میں چیستانوں کی زبان میں بولیں گے۔ یہ کتاب تو بڑے بڑوں کو بے ہوش کر دیتی ہے۔ اقبال نے پڑھ لی تھی۔ ساری زندگی چکر کھاتے رہے۔
بہرحال دانستہ ابہام کے کئی اسباب اور کئی سطحیں ہیں۔ ایک مقصد لطف آفرینی ہے، ایک معنی آفرینی۔ اور اس سے آگے کی باتیں جانے دیجئے۔ وہ مدرسوں کے لیے نہیں ہیں۔ شعرا نے اس کے کئی طریقے اختیار کیے ہیں، مثلا لغات غریبہ کا استعمال، کلام محذوف، کلام کثیرالمعانی وغیرہ۔ یہ وہی طریقہ ہائےکار ہیں جن کی مذمت سے نظیر صدیقی کا جی نہیں بھرتا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان چیزوں کے وہ ایسے دشمن ہیں، تو مومن کو چھوڑیے غالب کو بھی کیا خاک پڑھتے ہوں گے۔
شاعری کے کسی سنجیدہ طالب علم سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ شاعری اپنی آخری حدود میں ’’حقیقت نامعلوم‘‘ کا اشاریہ ہے۔ یہ حقیقت اظہار اور ابلاغ سے گریزاں اور طالب اخفا ہے۔ اس کی فطرت ہی یہ ہے کہ ظاہر ہونے سے بچتی ہے۔ مگر شاعری ہمیشہ اس حقیقت کو پرکمند انداز ہونے کی کوشش کرتی رہی۔ یہ حقیقت تو قابو میں نہیں آتی مگر شاعری ایک ایسا آئینہ ضرور تیار کر دیتی ہے جس میں اس کا عکس جھلملانے لگے یا کم از کم وہ نیم ظاہر ہو جائے، گھونگھٹ میں چھپے ہوئے محبوب کی طرح حقیقت کی یہ جلوہ نمائی شاعری کو الہام بناد یتی ہے۔ الہام ابہام کے بغیر ممکن نہیں اور راز کھل کر بھی راز ہی رہتے ہیں۔ جس کلام پر نظیر صدیقی کو سادگی کا دھوکا ہوتا ہوگا، اس کا ایک رخ ایسا ہے کہ کھل جائے تو مدرسوں کے ہوش اڑ جائیں، مثلاً کلام میر۔
نظیرصدیقی نے ایک جگہ جھلاکر لکھا ہے کہ ابہام پرست شاعری ایسی کون سی حقیقت بیا ن کرتی ہے جسے بغیر ابہام کے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اب بس کیا کہا جائے۔ عرفی کو پڑھنا چاہئے۔ اینہا ہمہ رازاست کہ معلوم عوام است۔ مدرسوں اور عوام کی ذہنی سطح ایک ہے۔ خاموشی کے سوا اور کوئی چارہ نہیں، مگر چلتے چلتے اتنی بات کہہ دوں کہ جس قسم کی شاعری سے نظیر صدیقی وغیرہ ہم مانوس ہیں، اس میں معنی کی اکائی کو پہلے کاٹ کاٹ کر ریزہ ریزہ کیا جاتا ہے۔ پھریہ ریزے چیونٹیاں آسانی سے کھا جاتی ہیں مگر معنی یا تجربے کی پوری اکائی گرفت میں لینا اور بات ہے۔ ایذرا پاؤنڈ اور ٹی ایس ایلیٹ وغیرہ نے اس کی کوشش کی ہے۔ وہ ناکام رہے یا ناکامیاب ہو گئے۔ یہ الگ سوال ہے۔ مگر ان کی ناکامیابی بھی جگر اور عندلیب شادانی کی کامیابی سے اتنی بہتر ہے کہ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.