اجتماعی تہذیب اور افسانہ
ایک روز کا ذکر ہے کہ لاہور کے آسمان پر ایک دودھیا دھاری کھنچتی دکھائی دی۔ غورسے دیکھا تو بہت بلندی پر ایک گول سی چیز حرکت کرتی نظر آئی۔ یہ لمبی دودھیا دھاری اسی کی دم تھی۔ شہر میں یہ خبر اڑ گئی کہ اسٹپنک گزر رہا ہے، مگر دوسرے دن اخباروں میں ایک تردیدی خبر شائع ہوئی کہ وہ گول سی چیز اسٹپنک نہیں، جٹ جہاز تھا۔
یہ گول سی چیز اگر ہمارے ڈبائی میں دکھائی دیتی تو وہاں لوگ اسے مرغی کے انڈے کا نشان بتاتے اور اسے قیامت کی علامت ٹھہراتے۔ ہم جس مسجد میں نماز پڑھنے جایا کرتے تھے، وہاں کبھی کبھی نہ جانے کون ایک اشتہار لٹکا جاتا تھا جس میں اعلان ہوتا تھا کہ قیامت آنے والی ہے۔ پہلے آسمان پر مرغی کے انڈے کا نشان نظر آئےگا۔ پھر مرغی آدمی کی طرح باتیں کرےگی اور اس کے بعد قیامت آ جائےگی۔ بس ہمارے ہاں روز یہی رہتا تھا۔ ایک دفعہ املی والی کو شکایت ہوئی کہ اس کی املی میں کٹاریں نہیں لگتیں۔ پڑوس کے گھر میں نیم تھا۔ اس نے اپنی املی کا اس نیم سے بیاہ کر دیا۔ املی کو سرخ دوپٹا اڑھایا گیا۔ نیم کے سہرا باندھا گیا۔ محلہ والوں کی دعوت ہوئی۔ لیجئے صاحب بیاہ ہو گیا۔ اگلے جاڑوں میں املی میں خوب لمبی لمبی کٹاریں آئیں۔
ہمارے محلے میں ا یک ہی املی تھی، اس لئے املی والی کے گھر کا پتا تو صاف تھا، مگر یہ نہ سمجھئے کہ دوسرے گھروں کی کوئی شناخت نہیں تھی۔ جس گھر میں املی یا نیم کا پیڑ نہیں تھا، اس گھر میں کبوتروں کی چھتری تھی۔ جس گھر میں کبوتروں کی چھتری نہیں تھی، اس گھر میں کوئی امام باڑہ تھا۔ ایک گھر خالی تھا جس کی کوئی نشانی نہیں تھی۔ پھر بھی اس گھر کو سب جانتے تھے۔ اس میں جن جو رہتے تھے۔ گویا ہمارے محلے کا ہر مکان ایک فرد تھا۔ یہ کہ گھروں کے نمبر بھی ہوتے ہیں، اس سے ہم بالکل ناآشنا تھے۔ وائٹ ہیڈ نے ایک گلہری کا احوال لکھا ہے جو اپنے بچوں کا حساب نہیں رکھ سکتی تھی۔ وہ انسانی ایجاد، جسے گنتی کہتے ہیں ان کے نزدیک وہ مقام ہے جہاں سے تہذیب کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ گلہریوں نے تہذیب کی اس سرحد کو عبور نہیں کیا ہے۔
تو یوں سمجھئے کہ اس بستی کے لوگوں نے تہذیب کی سرحد ابھی عبور نہیں کی تھی۔ اس دنیا میں چیزوں کے باہمی رشتے منقطع نہیں ہوئے تھے۔ ان کی حدیں آپس میں گھلی ملی ہوئی تھیں۔ انہیں الگ الگ کرکے گنا نہیں جا سکتا تھا۔ یہاں تو جاندار اور بے جان کے درمیان بھی امتیازی حد قائم نہیں ہوئی تھی۔ درخت آدمی تھے اور سایے گھروں کے مکین سمجھے جاتے تھے۔ پتنگ کا کٹ جانا ایک وارادت تھا اور گلہری کبھی دم کھڑی کرکے سیٹی ایسی آواز میں چلاتی تھی تو ایک ہنگامہ پیدا ہوتا تھا۔
میں سوچتا ہوں کہ الف لیلہ کو جس تخیل نے جنم دیا ہے، اس کی نشو و نما اور تربیت کچھ ایسی ہی فضا میں ہوئی ہوگی۔ آج ہم اس کے خالق یا خالقوں کے نام بھی صحیح طور پر نہیں بتا سکتے۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ سارے عربوں نے یا ایک پوری تہذیب نے اسے تصنیف کیا ہے۔ جب چیزوں کے رشتے آپس میں پیوست ہوں تو افسانہ نگار بھی باقی مخلوق سے کیسے رشتہ توڑ سکتا ہے، جس گزرے زمانہ کا میں ذکر کرتا ہوں، اس زمانے میں سماجی زندگی کے سارے مظاہر ہم رشتہ تھے۔ سماجی زندگی کے مظاہر اور فطرت کے مظاہر۔ آدمی کی درختوں سے دوستی تھی اور جانوروں سے رفاقت تھی،
شبہا بحالِ سگ میں یک عمر صرف کی ہے
اس کی گلی کے سگ نے کیا آدمی گری کی
یہ اسی شاعر کا شعر ہے جس نے اپنے محلے کے کتوں پر دخل اندازیِ بے جا کا الزام لگایا تھا اور مثنوی میں ان کے خلاف پورا مقدمہ تیار کیا تھا۔ یہ ایسے زمانے کی بات ہے جب آدمی کی برداری میں دوسری مخلوقات بھی شامل تھیں، گل، پھول، شجر و حجر، چرند و پرند، ہمارے مذہب میں، تیج وتیوہاروں میں، میلوں ٹھیلوں میں، عشق کے معاملات میں اور جنگ وامن کے قصوں میں عمل دخل رکھتے تھے اور اتنی بات تو میں آپ بیتی کے طور پر بھی کہہ سکتا ہوں کہ میں نے بچپن میں کبھی رات کے وقت محلے کے کسی درخت کو یا گھر میں لگے ہوئے کسی پھول پودے کو ہاتھ نہیں لگایا۔ ہم بڑوں سے یہ سنتے چلے آئے تھے کہ درخت رات کو آرام کرتے ہیں۔ چھوؤگے تو ان کی نیند اچٹ جائےگی اور وہ بےآرام ہوں گے اور اگرچہ چڑیوں نے کڑیوں میں گھونسلے رکھ کر انہیں قبل از وقت کھوکھلا کر دیا تھا اور چھتوں سے مٹی جھڑنے لگی تھی، مگر کبھی کسی چڑیا کے گھونسلے کو نہیں اجاڑا گیا۔ پودے اور درخت ان دنوں مکانوں میں آرائشی حیثیت نہیں رکھتے تھے اور چڑیوں نے گھروں میں غاصبانہ قبضہ نہیں کیا تھا۔ یہ لوگ گھرانے کے معزز افراد تھے۔
ایسے سماج میں پیدا ہونے والے افسانہ نگار کے لئے یہ ممکن تھا کہ وہ آدمی کو درخت کے روپ میں یا جانور کی جون میں دکھائے اور بندر کو کبھی خوشخظ تحریر لکھتے ہوئے اور کبھی بےثباتی عالم پر پرمغز تقریر کرتے ہوئے پیش کرے اور اس کے باوجود حقیقت نگار اور واقعیت پسند رہے۔ داستانوں میں انسانات، حیوانات، نباتات اور جمادات الگ الگ برادریاں نہیں ہیں، بلکہ ایک برادری کے مختلف طبقے ہیں۔ جتنا پیچھے جائیے، افسانے میں یہ برادری زیادہ مربوط اور گتھی ہوئی نظر آئےگی۔ اتنی مربوط اور گتھی ہوئی کہ خود افسانہ نگار دوسروں سے الگ نہیں پہچانا جاتا۔ قدیمی سماج میں افسانہ ہوتا تھا، افسانہ نگار نہیں ہوتے تھے۔
الف لیلہ میں خوبصورت ساحرائیں کس بے تکلفی سے اپنے عاشقوں پر منتر پھونک کر انہیں کبھی کتا، کبھی ہرن بنا دیتی ہیں اور شہزادے جنگل میں چلتے چلتے مڑکر دیکھتے ہیں تو پتھر بن جاتے ہیں اور کوئی ہمت والی شہزادی سونے کا پانی حاصل کرکے ان پر چھڑک دیتی ہے تو وہ پتھر سے آدمی بن جاتے ہیں۔ فسانہ عجائب میں تو تا درخت سے گر کر پٹخنی کھاتا ہے اور آدمی بن کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ جان عالم، آدمی سے بندر کے قالب میں، بندر کے قالب سے توتے کے قالب میں اور توتے کے قالب سے پھر آدمی کے قالب میں منتقل ہو جاتا ہے۔
وہ دور انہی گلہریوں، پتنگوں اور بیاہے بن بیا ہے درختوں کے ساتھ گزر گیا۔ اب ہم ستم زدگان کا جہان اتنا تنگ ہے کہ آدمی اپنی جون میں مقید ہے۔ اس قید خانے سے اپنی مرضی سے باہر نکل سکتا ہے نہ کسی دوسرے کو اندر بلا سکتا ہے۔ اب ہم اعدادوشمار کی دنیا میں رہتے ہیں۔ چیزوں کی حد بندیاں ہو گئی ہیں۔ ہمارے ارد گرد تہذیب کی سرحد کھنچ گئی ہے۔ ریڈیو اور اخبارات اس سرحد کے نگہبان ہیں، ان کا یہ کام ہے کہ کوئی خبر افسانہ بننے لگے تو تردیدی بیان شائع کر دیں۔
تہذیب کی سرحد کو عبور کرنے کی داستان اتنی نہیں ہے کہ میں پہلے ایک قصبہ میں رہتا تھا اب شہر میں آ گیا ہوں۔ اب آپ سے کیا پردہ، ریڈیو اور اخبارات ہماری اس چھوٹی سی بستی میں بھی پہنچ گئے ہیں۔ میں جب تعلیم سے فراغت پاکر ایک دفعہ گھر واپس گیا تھا تو میں نے یہ دیکھا کہ جن گلیوں میں میونسپلٹی کی لالٹین جلتی چھوڑ گیا تھا وہ بجلی کی روشنی سے منور تھیں۔ جن دکانوں پر کڑوے تیل کا چراغ جلتا تھا، وہاں بجلی بھی تھی اور ریڈیو بھی تھا اور چھوٹی بزریا میں ایک لائبریری کھل گئی تھی، جس میں لاہور اور دلی کے انگریزی، اردو اور ہندی کے بہت سے اخبار آتے تھے اور پچھلے مہینے میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ چھوٹی بزریا کی کنکروں الی گرد آلود سڑک اب کولتار کی سڑک بن گئی ہے۔
لاہور میں جہاں اب رہتا ہوں، بسوں سے مسلح صاف ستھری سیدھی اور چمک دار سڑکیں ہیں کہ ان پر نہ قدم بھٹک سکتے ہیں، نہ تخیل بہک سکتا ہے۔ قدموں کو بھٹکنے سے بسیں اور تخیل کو بہکنے سے اشتہار روکتے ہیں۔ اشتہار جو بسوں کے اندر، بسوں سے باہر دیواروں پر، دکانوں کی پیشانیوں پر، عمارتوں کی بلندیوں پر، غرض ہر مورچہ سے نظروں کا راستہ روکتے ہیں۔ میں صبح کو جب اخبار پڑھتا ہوں۔ اس میں خبروں کے درمیان اشتہار ہوتے ہیں۔ رات کو فلم دیکھنے جاتا ہوں تو فلم دیکھنے سے پہلے اشتہار پڑھتا ہوں اور جب مؤقر ادبی رسالہ نیا دور، میرے پاس آتا ہے تو فہرست میں نظموں، غزلوں، افسانوں اور مضامین کے بعد ایک عنوان ’’اشتہارات‘‘ میری نظر کو گرفت کرتا ہے۔
اصل میں ہم نے تہذیب کی سرحد انہیں اشہارات کے وسیلے سے عبور کی ہے۔ یہ بات ہماری بستی میں سب کو معلوم تھی کہ شیشم کی لکڑی کا سامان خوبصورت اور پائیدار ہوتا ہے۔ خود اپنا تجربہ بھی یہی ہے۔ آم کی لکڑکی غلیل نہ دیر پا ہوتی تھی، نہ گلی ڈنڈا ڈھنگ کا بنتا تھا۔ ہاں ببول کی لکڑی کی غلیل بھی اچھی ہوتی تھی اور گلی بھی کمال کی بنتی تھی اور شیشم کی لکڑی کی غلیل مل جاتی تو سبحان اللہ۔ شیشم اور ببول کے قائل ہم اشتہارات کے ذریعہ نہیں ہوئے تھے۔ اس یقین کے پیچھے پشتوں کا تجربہ کام کر رہا تھا اور چونکہ درختوں سے ہمارا براہ راست تعلق تھا، اس ئے یہ پشتینی تجربہ ذاتی تجربہ بھی بن گیا تھا، لیکن یہ کہ کوکا کولا سب شربتوں سے بہتر شے ہے، اس کے پیچھے نہ تو پشتوں کا تجربہ کام کر رہا ہے اور نہ خود ہم نے اسے پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ ہم نے یہ عرفان اشتہاروں سے حاصل کیا ہے۔
اشتہاروں کی طاقت یہ ہے کہ آج کوئی فرم یہ ٹھان لے کہ اسے غلیلوں کا کاروبار کرنا ہے تو وہ اسے کرکٹ کے برابر بھی مقبول بنا سکتی ہے۔ آخر جب ایک صابون اس اعلان کی وجہ سے مقبول ہو سکتا ہے کہ ثریا اس سے منہ دھوتی ہے تو شیشم کی غلیل اس اعلان سے کیوں مقبول نہیں ہو سکتی کہ فلاں کرکٹ کے کھلاڑی نے بچپن میں اس سے ہریل مارا تھا۔
اشتہارات دل و دماغ پر یلغار کرتے ہیں اور عقل کے گرد گھیرا ڈالتے ہیں۔ وہ جدید نفسیاتی اسلحہ سے مسلح ہوتے ہیں جن کے آگے کوئی مدافعت نہیں چلتی اور دل و دماغ کو بالآخر پسپا ہونا پڑتا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا تھا کہ جن چیزوں کو ہم نے پشتینی تجربے کے راستے سے اور حواس کی سفارش پر قبول کیا تھا وہ ہماری نظروں سے اتر جائیں اور ان کی جگہ وہ چیزیں لے لیں جنہیں اشتہارات نے نفسیاتی جبروتشدد کے ساتھ ہم پر مسلط کی ہے۔ اشتہارات نے جو کام جبر وتشدد سے کیا ہے، وہ جدید تعلیم نے پرامن طریقہ پر انجام دیا ہے۔ یعنی جدید تعلیم کو اشتہارات کی ترقی یافتہ اور امن پسندانہ صورت جانئے۔ پشتینی تجربہ اور حواس کی سفارش یہاں بھی کارفرما نہیں ہے۔ جہاں سے یہ تحفہ ہمارے لئے آیا تھا، وہاں ایک شخص ڈی۔ ایچ۔ لارنسؔ نامی گزرا ہے، جو یہ کہتا تھا کہ جدید تعلیم محض اوپری تعلیم ہے۔ اس کی اوقات ان جوتیوں کی سی ہے جو ہم پیر میں ڈال لیتے ہیں۔
سر پر ہم خیالات وافکار کی ردی کی ٹوکری لئے پھرتے ہیں اور اندر جو تاریک براعظم آباد ہے، اس کی ہمیں خبر نہیں ہوتی اور وائٹ ہیڈ نے ان خیالات وافکار کو ٹھٹھرے ہوئے خیالات کہا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ کلچر تو فکروخیال کی سرگرمی اور احساس سے اثر پذیری کا معاملہ ہے۔ ادھر ادھر کی معلومات سے اس کا کیا واسطہ۔ خالی خولی صاحب معلومات شخص اللہ تعالیٰ کی زمین پر سب سے فضول اور لیچڑ چیز ہوتا ہے۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے متعلق وہ یوں کہتے ہیں کہ ’’پرانے زمانے کی درس گاہوں میں فلسفیوں کا مقصود یہ ہوتا تھا کہ طلبہ کو حکمت کی دولت بخشیں۔ آج کل کے کالجوں میں ہمارا مقصود لے دے کر کچھ مضامین کی تدریس رہ گیا ہے۔‘‘
میں نے ولایت کے ڈی۔ ایچ۔ لارنسؔ اور امریکہ کے وائٹؔ ہیڈ کے حوالوں پر قناعت مناسب سمجھی ہے اور جان کر پاکستان کے علامہ اقبالؔ کا اس ضمن میں حوالہ نہیں دیا ہے۔ کیا فائدہ کہ کوئی ترقی پسند نقاد ان کی رجعت پسندی کا ذکر نکال بیٹھے اور کوئی انگریزی کے پروفیسر صاحب اعلان کر ڈالیں کہ اقبال کو تو نئے علوم اور جدید تہذیب سے للہی بغض تھا۔
بات یہ ہے کہ معلومات حواس سے بے تعلق رہیں اور افکاروخیالات خون کا حصہ نہ بنیں، یعنی فکر اور احساس کا سنجوگ نہ ہو سکے تو پھر یہ علم خشک علم رہتا ہے، حکمت نہیں بنتا۔ اس میں وہ تولیدی قوت پیدا نہیں ہوتی کہ خیال سے خیال پیدا ہو اور عملی زندگی کے ساتھ اس کے وصل سے کچھ نئے رنگ، کچھ تازہ خوشبوئیں جنم لیں۔ نظیر اکبرآبادی ایسا کہاں کا عالم فاضل تھا، مگر گیانی اور حکیم ضرور تھا۔ اس کی علمی بے بضاعتی کا اندازہ یوں لگائیے کہ جس زمانے میں وہ جیتا تھا، اس میں نہ تو فرائڈ صاحب کا ظہور ہوا تھا نہ وہ زمانہ کارل مارکسؔ صاحب کے سرمایے سے مالا مال ہوا تھا، یعنی محمد حسن عسکری تو محمد حسن عسکری، یہ شخص تو پروفیسر ممتاز حسین تک سے کم پڑھا لکھا تھا، لیکن وہ بصیرت افروز منشور جسے ’آدمی نامہ‘‘ کہتے ہیں، ہمیں اسی شاعر نے دیا تھا۔ مگر یہ شاعر مخلوقاتِ متحدہ کا ترجمان ہے۔ اس لئے اس منشور میں آدمی نامہ اور ہنس نامہ دونوں کو شامل سمجھئے۔
وائٹ ہیڈ ایسے بھلے مانسوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ آخر تعلیم اور تہذیب کو پڑھنے لکھنے ہی سے کیوں مخصوص سمجھا جائے۔ ویسے یہ پوچھنے کو میرا بھی جی چاہتا ہے کہ تہذیب یافتہ وہ کالجیٹ ہے جو کوکا کولا کا انگریزی میں چھپا ہوا اشتہار پڑھ سکتا ہے یا وہ دہقان زادہ ہے جو بھینس کی پیٹھ پر بیٹھ کر اسے چراتا بھی ہے اور بانسری بھی بجاتا ہے۔ ممکن ہے اس سوال پر یہ گمان ہو کہ میں کوکا کولا کو جدید تہذیب کی چڑ بنانا چاہتا ہوں۔ یقین جانیے میرا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ جس طرح محلے کے کسی دقیانسی بوڑھے کو مسور کی دال یا بیگن کا نام لے کر چڑاتے ہیں، اس طرح میں کوکا کولا کا نام لے کر آج کے مہذب آدمی کو چھیڑوں۔
چلئے اس سوال کو یہ شکل دے لیتے ہیں کہ تعلیم یافتہ وہ سند یافتہ نوجوان ہے، جس نے جیمز جینزؔ کی جملہ تصانیف پڑھی ہیں مگر آسمان پر کھلے ہوئے تاروں کو دیکھ کر یہ نہیں بتا سکتا کہ مشتری کون سا ستارہ ہے، یا تعلیم یافتہ وہ ان پڑھ دہقان ہے جو تاروں کو دیکھ کر یہ بتا سکتا ہے کہ کتنی رات گئی ہے۔ جس زمانے میں تاروں کو دیکھ کر زمین کی سمت اور رات کا سمے معلوم کیا جاتا تھا، اس زمانے میں سفر شاید تعلیم کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ الف لیلہ کے شہزادے اور سوداگر زادے اس حقیقت کے گواہ ہیں۔ وقتِ سفر وہ ذہنی طور پر کتنے ناپختہ ہوتے ہیں۔ مگر سفر میں نت نئے جو کھموں اور لگاتار جسمانی اور روحانی وارداتوں سے گزرنے کے بعد وہ کیا سے کیا بن جاتے ہیں۔ پھر وہ حکمت کی باتیں کرتے ہیں اور انجانی سرزمینوں کے سراغ اور کائنات کے چھپے ہوئے راز بتاتے ہیں۔
اس زمانے میں سفر و حضر دونوں ہی تعلیمی پہلو رکھتے تھے۔ بستی میں رہ کر آدمی جومحنت مزدوری کرتا تھا، اس میں بھی تعلیم کا پہلو موجود رہتا تھا۔ جب ایک کاریگر درزی کا کام کرتا تھا اور ایک باغبان دو پودوں کو ملاکر ایک نئی قلم لگاتا تھا اور ایک کمہار گھومتے ہوئے چاک پر گیلی مٹی کو انگلیوں سے یک شکل عطا کرتا تھا اور ایک ورق ساز چاندی اور سونے کے ورق کوٹتا تھا، تو اس محنت سے اس کا پیٹ بھی بھرتا تھا اور ایف آر لوئس کی زبان میں اس کی اخلاقی اور جمالیاتی تربیت بھی ہوتی تھی۔ اس کی محنت، مزدوری کے ساتھ ساتھ اس کی تخلیقی سرگرمی بھی بن جاتی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مزدوری آرٹ تھی اور کلام ادب تھا۔ ان دنوں بوڑھی نانیاں، داددیاں راتوں کو لمبی کہانیاں سناتی تھیں اور کہانی سننے والے اس تجربے سے گزرتے تھے جس سے آج ہم ’الیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ کو پڑھ لینے کے باوجود محروم رہتے ہیں۔ ان دنوں بڑا ادب پروفیسر کے لیکچروں اور نقادوں کی رایوں سے ملوث ہوکر لوگوں تک نہیں پہنچتا تھا۔ وہ گرمیِ آواز کے ساتھ کہانی سنانے والے کی اپنی تخلیقی امنگوں کے ساتھ شامل ہوکر نشر ہوتا تھا۔ شاعری اور افسانہ اس زمانے میں کتاب نہیں گرمیِ آواز تھے۔
مگر یہ اس زمانے کی بات ہے جب چیزوں کے رشتے مربوط تھے اور زندگی خانوں میں بٹی ہوئی نہیں تھی۔ پیٹ پالنے کا مشغلہ مشقت نہیں تھا اور تفریح کے اوقات کام کاج کے اوقات سے ایسے الگ نہیں تھے۔ یوں سمجھئے کہ وہ ایک مربوط سماج تھا۔ مشین نے اس سماج کے کل پرزے ڈھیلے کر دیے اور جدید تعلیم نے اس کے رشتوں کو اتنا تتر بتر کر دیا کہ اب ہر چیز ہر چیز سے جدا ہے۔ اب سماج کا عمل تخلیقی کم اور میکانکی زیادہ ہے۔ یہاں سے کلچر کے زوال کی ابتدا ہوتی ہے۔ جب روزہ مرہ کے کاموں میں تخلیقی عمل رک جائے یا مندا پڑ جائے تو اسے کلچر کے زوال کی علامت سمجھنا چاہیے۔ ٹی۔ ایس۔ ایلیٹؔ نے انگلستان میں کلچر کے زوال کی ایک علامت یہ قرار دی ہے کہ وہاں کھانے کی تیاری کے ہنر سے بےتوجہی برتی جانے لگی ہے۔ ہمارا خود یہی حال ہے۔
قصہ چہار درویش پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ ہمارا دسترخوان کتنا سمٹ گیا ہے اور کیسا بے رنگ ہو گیا ہے۔ کتنے ایسے کھانے ہیں جن کے نام بس پرانی داستانوں میں باقی رہ گئے ہیں۔ بعض کھانے ہم نے کبھی بچپن میں کسی بڑے گھر کی شادی میں، محرم کی کسی حاضری میں یا کونڈوں کی تقریب میں کھائے تھے اور اب ان کا ذائقہ بھی بھول چکے ہیں۔ اس کی وجہ صرف اقتصادی بدحالی نہیں ہو سکتی۔ بڑے دسترخوانوں پر اہتمام اب بھی ہوتا ہے مگر کھانے کی انواع کتنی ہوتی ہیں۔ محض مرغِ مسلم تو دسترخوان کی زینت نہیں ہے۔ مرغِ مسلم کا تو بلیوں کو بھی شوق ہوتا ہے اور شاہ جہاں سے برا وقت کس پر آیا ہوگا جسے قید خانے میں صرف ایک اناج کے انتخاب کی اجازت دی گئی تھی۔ شاہ جہاں کے باورچی نے چنے کا انتخاب کیا۔ اس انتخاب کے حق میں استدلال یہ تھا کہ وہ اس ایک جنس سے ساٹھ قسم کے کھانے تیار کر سکتا ہے۔ تاج محل اسی باورچی کے زمانے میں تعمیر ہوا تھا۔ اگر اجازت ہو تو یہاں میں ذرا اپنی بستی کے اس بیسن کے حلوے والے کو یاد کر لوں جو فسادات کے دنوں میں بیسن کا حلوا اس بولی کے ساتھ بیچا کرتا تھا کہ،
مسلمانو نہ گھبراؤ شفاعت برملا ہوگی
پڑھو کلمہ محمدؐ کا خرید و حلوا بیسن کا
مجھے اس حقیقت پر نہ جب شک ہوا تھا اور نہ اب شک ہے۔ مگر افسوس کہ یہ حلوے والا حلوے میں شکر زیادہ ڈالتا تھا اور بیسن میں ملاوٹ ہوتی تھی۔ اس لئے ہمیں تاج محل بالآخر چھوڑنا پڑا۔
تاج محل اسی باورچی کے زمانے میں تیار ہو سکتا تھا، جو ایک چنے سے ساٹھ کھانے تیار کر سکتا تھا۔ وہ دور ہمارے کلچر کا نقطۂ عروج تھا۔ اسی دور میں ہم ایک نئی زبان تخلیق کر رہے تھے۔ تخلیقی عمل ایک ہمہ گیر سرگرمی ہے۔ اس کا آغاز دکانوں اور باورچی خانوں سے ہوتا ہے ا ور تجربہ گاہوں اور آرٹ گیلریوں میں اس کا انجام ہوتا ہے۔ وہ روزمرہ کی بول چال اور نشست و برخاست سے شروع ہوکر افسانہ اور شاعری میں انتہا کو پہنچتا ہے۔ اگر سماج کا عمل من حیث المجموع تخلیقی نہیں ہے تو ادب میں بھی تخلیقی سرگرمی نہیں ہو سکتی اور افسانے کا میں تصور ہی یوں کرتا ہوں جیسے وہ پھلواری ہے جو زمین سے اگتی ہے۔ افسانہ بے شک الف لیلہ ہو مگر اس کی جڑیں روزمرہ کی زندگی میں اور احساس عامہ میں ہوتی ہیں۔ ہماری روزمرہ کی زندگی میں تخلیقی عمل کی روماند پڑ گئی ہے۔ ایک دسترخوان پر موقوف نہیں، ہمار ا لباس، ہمارے کھیل، ہماری دست کاریاں، ہمارے پیشے یعنی ہماری ہر سرگرمی میں تخلیقی عمل کی رو کچھ سست پڑ گئی ہے۔ جب یہ صورت ہو تو کسی غیر کلچر کے لئے اس پر یلغار کرنا سہل ہو جاتا ہے۔
قوم کی تخلیقی صلاحیتیں سلامت ہوں تو دوسرے کلچر کے مظاہر اگر دخل بھی پائیں تو قومی کلچر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ہماری تہذیبی سالمیت کے زمانے میں کرکٹ ہمارے یہاں راہ پاتی تو ہمارے کھیلوں میں ایک کھیل کا اضافہ ہو جاتا۔ لیکن یہ وہ زمانہ ہے جب چاٹ ہرے پتے سے مفارقت کرکے ڈشوں میں فروخت ہونے لگی ہے اور مٹھائی اور دونے کی جدائی ہو چکی ہے، شہروں سے کچی صراحیاں اور خس کی ٹٹیاں رخصت ہو گئیں اور ان کی جگہ تھرماس اور کولر آ گئے۔ وہ الاؤ بجھ گئے جن کے کانپتے شعلوں سے کالی راتو ں میں منور کہانیوں نے جنم لیا تھا۔ اب ہم ہیٹر کی دنیا میں رہتے ہیں جس سے نہ چنگاریاں نکلتی ہیں نہ دھواں اٹھتا ہے۔
ایسے دور میں کرکٹ کا فروغ یہ رنگ لا سکتا تھا کہ رستم زماں گاماں پہلوان زمانے سے کشتی ہار کر راوی کے پار کھجوروں کے جھنڈ میں جا چھپے اور پتنگ باز شہر میں رہ کر طعنے اور تعزیریں سہیں۔ ایسے دور میں فضل محمود اور کاردار تو پیدا ہو سکتے ہیں، میرامنؔ اور نظیر پیدا نہیں ہو سکتے یعنی ہم ایم سی سی کو تو ہرا سکتے ہیں، ڈی۔ ایچ لارنسؔ سے ٹکر نہیں لے سکتے۔ یوں خودفریبی کا کیا ہے، اکثر ہمارے شرفا عہد جاہلیت کے اس اعلان کو اب تک جزو ایمان بنائے ہوئے ہیں کہ اردو کا مختصر افسانہ مغرب کے مختصر افسانے کا ہم پلہ ہے۔
خیر میں تو یہ کہہ رہا تھا کہ تہذیبی زندگی کی سالمیت سلامت نہ رہے اور مربوط معاشرہ باقی نہ رہے تو اس کا اثر افسانے پر بھی پڑتا ہے۔ پھر افسانہ اجتماعی احساس کا حامل نہیں رہتا اور اس کی اپیل اتنی ہمہ گیر نہیں ہوتی کہ اسے قبول عام کی سند حاصل ہو جائے۔ ہماری تاریخ میں اس وصف کے افسانے نے ان زمانوں میں جنم لیا ہے جب ہمار ا سماج مربوط تھا۔ جن زمانوں میں داستانوں نے جنم لیا تھا، ان زمانوں میں سماج اس حد تک مربوط تھا کہ آدمی اور آدمی کے درمیان ہی نہیں آدمی اور خارجی فطرت کے درمیان بھی رشتہ استوار تھا۔ اب سے پچاس سال ادھر جب سرشار ؔ فسانہ آزاد لکھ رہے تھے تو اس وقت بھی اگرچہ یہ رشتے بکھرتے جارہے تھے، سماج کسی حد تک مربوط تھا۔
فسانہ آزاد میں نواب سے لے کر گھسیارے تک اور بیگمات سے لے کر بھٹیارنوں تک مختلف سماجی حیثیت رکھنے والے کردار آتے ہیں، مگر سماجی حیثیتوں کے فرق کے باوجود ان کے درمیان ایک رشتہ موجود ہے۔ وہ سب ایک ماحول کے پروردہ ہیں۔ عقل پرستی کی پرچھائیاں پڑرہی ہیں، مگر ابھی ان کے معتقدات اور توہمات میں اشتراک باقی ہے۔ ان کی حماقتوں تک میں یک جہتی نظر آتی ہے۔ یوں یہ ناول ایک اجتماعی تہذیبی زندگی کا اور اس کے راستہ سے ایک اجتماعی احساس کا ترجمان ہے۔ میرے بھی صنم خانے، تک پہنچتے پہنچتے یہ تہذیبی سالمیت اور یک جہتی ختم ہو چکی ہے۔ یہاں پورا سماج نہیں، سماج کا ایک گروہ نظر آتا ہے۔ اس گروہ کاباقی سماج سے رشتہ اس حد تک منقطع ہے کہ ناول نگار کے لئے یہ ممکن ہو گیا ہے کہ وہ اسے باقی سماج سے الگ کرکے اس خوش اسلوبی سے پیش کردے کہ وہ اپنے طور پر تکمیل کا احساس پیدا کرے۔
جب تہذیبی سالمیت رخصت ہو چکی ہو تو اجتماعی احساس کا ترجمان بننے کے لئے افسانہ نگار کو بہت جتن کرنے پڑتے ہیں۔ اسے باطنی زندگی کی گہرائیوں میں یہ دریافت کرنا پڑتا ہے کہ وہ کون سے احساسات، آدرش، تمنائیں اور موروثی شکلیں ہیں جو تہذیبی زندگی اور جذباتی چلن میں تفرقہ پڑ جانے کے باوجود مشترک ہیں اور سماج کے ایک فرد کا دوسرے فرد سے رشتہ جوڑتی ہیں۔ ان مشترکات میں ایک تو ماضی کا ورثہ ہوتا ہے۔ حاضر میں بے شک بے ربطی کی صورت پیدا ہو جائے مگر یہ ورثہ تو یادوں کی صورت میں اجتماعی حافظہ میں محفوظ رہے۔ ماضی پر اصرار کرنے سے افسانہ نگار کا یہ مطلب نہیں ہوتا یا کم از کم نہیں ہونا چاہیے کہ گئے ہوئے دنوں کو واپس لایا جائے۔ گئے دن کہاں واپس آتے ہیں۔ جو گم ہو چکا ہے اسے پایا نہیں جا سکتا مگر اسے یاد تو رکھا جا سکتا ہے۔
ڈی۔ ایچ۔ لارنسؔ جو قدیمی زندگی پر اتنا اصرار کرتے ہیں، ایسے سادے تو نہ تھے کہ اس بات کو جانتے نہ ہوں کہ گیا ہوا زمانہ واپس نہیں آ سکتا۔ بات وہی ہے جو ایف۔ آر۔ لوئس نے اس سلسلے میں لکھی ہے کہ جو کچھ گم ہو گیا ہے اس پر اصرا ر کرنا ضروری ہے تاکہ وہ فراموش نہ ہو جائے۔ اگر ہمیں کوئی نیا نظام بنانا ہے تو پرانے نظام کو یاد رکھنا چاہیے۔ ا گر ہم نے پرانے نظام کو بھلا دیا تو پھر ہمیں یہ بھی پتہ نہیں چلےگا کہ کس قسم کی باتوں کے لئے جدوجہد کرنی چاہیے، اور ایک دن نوبت یہ آئےگی کہ ہم جدوجہد سے بھی تھک جائیں گے اور مشین کے سامنے ہتھیار ڈال دیں گے۔ مطلب یہ ہے کہ سرانگشتِ حنائی کا تصور بھی اچھا ہے کہ یوں دل میں لہو کی بوند بھی نظر آتی ہے اور دماغ میں حسن کا تصور بھی قائم رہتا ہے۔
مگر اس طریقے سے افسانہ نگار اجتماعی احساس کو پابھی لے تو اس کا افسانہ اجتماعی اپیل کا حامل تو نہیں بن سکتا۔ قطعی ممکن ہے کہ اس نہج پر چل کر ایک ناول اجتماعی احساس کا ترجمان بن جائے، مگر الف لیلہ یا کم از کم ’فسانہ آزاد‘ کی ایسی مقبولیت بھی حاصل نہ کر سکے۔ بات یہ ہے کہ ایسی مقبولیت کے لئے سماج میں اس عمل کا جاری رہنا بھی تو ضروری ہے جسے اخلاقی اور جمالیاتی تربیت کہا گیا ہے۔ ہمارے یہاں یہ عمل رک چکا ہے۔ اس کے رک جانے کا نتیجہ ہے کہ چیزوں کو پرکھنے، اچھے اور برے میں تمیز کرنے اور خوبصورتی اور بدصورتی میں فرق کرنے کے ہمارے اپنے معیار نہیں رہے ہیں، یا یہ کہ اپنے معیاروں پر اعتبار نہیں رہا ہے۔ اب جسے آزاد بندے زیبا کہہ دیتے ہیں اسے ہم زیبا کہتے ہیں۔ مثلاً اگر مغربی ممالک کی عورتیں زلفیں ترشواتی ہیں تو ہمارے یہاں کی خواتین بھی اپنی لمبی زلفیں ترشواکر اپنے حساب اپنی سج دھج بڑھائیں گی۔ اس صورت میں آج کا شاعر اس قسم کا شعر کہہ کر کہ،
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
جس کے بازو پر تری زلفیں پریشاں ہو گئیں
قبول عام کی سند حاصل نہیں کر سکتا۔ نسائی حسن کے جس تصور پر اس شعر کی بنیاد ہے اس پر اب ہمارے پورے سماج کو اعتبار نہیں رہا ہے اور اس کی جگہ نسائی حسن کا جو تصور درآمد ہوا ہے، اس پر ابھی پوری طرح اعتبار نہیں ہوا ہے۔ وہ ابھی فیشن کی منزل میں ہے، دل و دماغ میں رسا بسا نہیں ہے۔ ترشی ہوئی زلف کا سلسلہ اجتماعی تخیل میں ابھی اتنا دراز نہیں ہوا ہے کہ اس کے گرد تشبیہوں، تلمیحوں، استعاروں اور کہانیوں کا تانا بانا بُن گیا ہو۔ اس کا تذکرہ معانی کا پیچ در پیچ سلسلہ پیدا نہیں کر سکتا اور باطنی زندگی کے گوشوں کو نہیں چھو سکتا۔ جب بدیشی طور طریقے اور سوچنے اور محسوس کرنے کے بدیشی سانچے فیشن کے طور پر راہ پاتے ہیں، پیچ در پیچ اور تہہ در تہہ اظہار کے وہ طریقے بھی بے اثر ہو جاتے ہیں جن کی بنیاد قومی تہذیب کے پیدا کئے ہوئے طور طریقوں اور سوچنے اور محسوس کرنے کے سانچوں پر ہوتی ہے اور جن کے وسیلے سے افسانہ نگار اور شاعر اپنے سماج کی باطنی زندگی تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ پھر استعارہ گم ہو جاتا ہے اور رسالہ در معرفتِ استعارہ رہ جاتا ہے۔
فیشن ایبل شاعر اور افسانہ نگار اپنی آواز میں عام اپیل کرنے کے لئے اس طرزِ اظہار سے رجوع کرتے ہیں جنہیں اشتہاروں کی روایت نے جنم دیا ہے۔ لفظوں کو بس اس حد تک استعمال میں لایا جاتا ہے جس حد تک وہ اوپری زندگی کی ترجمانی کرتے ہیں۔ وہ جذباتی زندگی کی سطح کو فوری طور پر تھوڑی دیر کے لئے ضرور چھیڑتے ہیں مگر ان میں اتنی توانائی نہیں ہوتی کہ وہ باطن میں ایک گونج پیدا کریں اور تہہ میں دبے ہوئے خوابوں، تشبیہوں، یادوں اور موروثی شکلوں کے پیچ دار سلسلہ میں جنبش پیدا کریں۔
زبان کے ساتھ یہ سلوک زبان کا تو ستیا ناس کرتا ہی ہے مگر ساتھ میں جذباتی زندگی کو بھی کند کر دیتا ہے۔ زبان میں پیچیدہ روحانی واردات کو اظہار کرنے کی صلاحیت باقی نہیں رہتی۔ ادھر جذباتی زندگی کی تربیت اور تہذیب کا سلسلہ رک جاتا ہے۔ بس فالتو جذبات کی شورا شوری رہتی ہے۔ پس جب کوئی افسانہ نگار یا شاعر سنجیدگی سے افسانہ یا شعر لکھنا چاہتا ہے توا سے زبان ہی سے نہیں، مروجہ ادبی مذاق اور فہم سے بھی کشتی لڑنی پڑتی ہے۔
زبان کے ساتھ یہ سلوک چیزوں کو ایک خاص انداز سے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس قسم کے اندازِ نظر نے اردو کو اسلامی تاریخی ناول اور رومانی افسانہ عطا کیا ہے۔ جب تاریخ کو اس اندازِ نظر سے دیکھا گیا تو اسلامی تاریخی ناول لکھا گیا۔ جب ہم عصر زندگی کے لئے اسے برتا گیا تو رومانی حقیقت نگاری نے جنم لیا اور اشتہار کی ایک تکنیک یہ ہے کہ مروجہ اندازِ نظر اور مقبول طرزِ فکر کی نفی کرو اور کوئی ایسا فقرہ لکھو کہ راہ گیر چلتا چلتا رک جائے اور پوسٹر کو پڑھ کر چونک پڑے۔ افسانے کی ایک طرز اس طرح بھی پیدا ہوئی۔
چلئے میں اس افسانے کو اشتہاری فکشن نہیں کہتا، مہذب خاتون کی ترشی ہوئی زلفیں کہے لیتا ہوں۔ نئے نئے فکشن کو پرانے فکشن پر یہی تو فوقیت ہے کہ اس میں نئی تکنیکیں برتی گئی ہیں۔ میرامنؔ کرکٹ کھیلنا جانتے تھے نہ افسانے کی نئی تکنیکوں سے آشنا تھے اور طلسم ہوشربا تو سچ مچ معشوق کی زلف دراز ہے جو شبِ ہجر سے بھی زیادہ طویل ہے، اگرچہ محمد حسن عسکری نے اسے بھی فرنچ کٹ بنانے کی کوشش کی ہے۔ یہ افسانہ نگار افسانے کی نئی تکنیکوں سے آشنا نہیں تھے۔ ہاں اپنے سماج کے طور طریقوں سے، محبت و نفرت کی رسموں، توہمات و معتقدات سے، مذہب سے یعنی پوری ظاہری اور باطنی زندگی سے آشنا تھے اور اس آشنائی کے بل پر داستانیں لکھتے تھے۔
رہی نئی تکنیکوں کی بات تو اپنے یہاں کی نئی تکنیکیں وہ ہیں جو مغربی افسانے میں پیش پا افتادہ ہو چکی ہیں۔ منٹو صاحب کی تکنیک اگر مختصر افسانے کی نئی تکنیک ہے تو مختصر افسانے کی پرانی تکنیک کون سی ہے۔ بات یہ ہے کہ مغربی افسانے کی تکنیک کی لام الف کو ہم تکنیک کی انتہا سمجھ رہے ہیں۔ مگر میں یہ کہتا ہوں کہ اگر میں نے یولیسس کی تکنیک کو بھی جان لیا ہے تو وہ میرے کس کام کی، جب تک میں اسے اپنی قوم کی تہذیبی زندگی سے ہم آہنگ نہیں کرتا ہوں اور اس کے ذریعہ اس قوم کے باطن سے، اس کی روح سے رسائی حاصل نہیں کرتا ہوں۔ جوائس نے ناول لکھا تھا، نٹ کا تماشا تو نہیں دکھایا تھا۔ افسانے کا ربط اجتماعی تہذیب اور اس کے سرچشموں سے ٹوٹ جائے تو وہ اپنی نئی تکنیکوں کے ساتھ نٹ کا تماشا ہوتا ہے یا پھر اشتہار ہوتا ہے۔
تو آج جو افسانہ نگار سچ مچ افسانہ لکھنا چاہتا ہے، اسے یہ حقیقت سمجھنے کے ساتھ ساتھ کہ افسانے کی جڑیں اجتماعی تہذیب میں ہوتی ہیں، یہ حقیقت بھی سمجھنی ہوگی کہ تہذیبی سالمیت سلامت نہ رہے تو سچے افسانے کو قبول عام کی سند حاصل نہیں ہوتی۔ اخبار کہتے ہیں کہ جاپان کے چند سپاہی جو دوسری جنگِ عظیم کے وقت سے جنگلوں میں چھپے ہوئے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ جنگ جاری ہے اور وہ محاذ پر ہیں۔ جب دو تہذیبیں نبرد آزما ہوتی ہیں تو ہاری ہوئی تہذیب کے افسانہ نگاروں کی حیثیت بھی جاپان کے ان سپاہیوں کی سی ہو جاتی ہے۔ حاضر سے ان کا رشتہ کٹ جاتا ہے، وہ ماضی میں جیتے ہیں۔ مجھے ان سپاہیوں کی ادا پسند ہے مگر میں اس میں ایک اصلاح ضرور چاہوں گا۔ وہ یہ کہ آدمی ماضی میں جیے، مگر حاضر میں رہ کر۔ یعنی میں جاپان کے سپاہیوں کے رویے کو ڈی۔ ایچ۔ لارنسؔ یا علامہ اقبالؔ کے رویے میں تبدیل کرنا چاہتا ہوں۔
اگر وضاحت کی خاطر میں اس بات کو ذاتی مسئلہ بناکر پیش کروں تو یوں کہوں گا کہ جناب والا میں افسانہ نگار کہاں سے آیا، میں تو سن ستاون کے ہارے ہوئے لشکر کا سپاہی ہوں۔ مگر یہ کہ میں نیپال کے جنگل میں جاکر روپوش نہیں ہوا ہوں۔ افسانہ نگار بن کر شہر میں رہتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ سن ستاون کی لڑائی ختم ہو گئی، اس لئے میں دھواں گاڑی سے نہیں لڑتا۔ ہاں اس ہنگامہ میں جو سواریاں گم ہو گئی ہیں ان کا کھوج لگاتا پھرتا ہوں۔ یعنی میں افسانہ کیا لکھتا ہوں، کھوئے ہوؤں کی جستجو کرتا ہوں اور آتشِ رفتہ کا سراغ لیتا پھرتا ہوں۔ لیکن آتشِ رفتہ کے سراغ کا سلسلہ شروع ہو جائے تو بات سن ستاون تک محدود تو نہیں رہ سکتی۔ پہنچنے والا میدانِ کربلا تک بھی پہنچ سکتا ہے اور اس سے پیچھے جنگِ بدر تک بھی جا سکتا ہے کہ یہ ہماری تاریخ کی اولیں آگ ہے۔ اسی آگ سے تو ہمارے سارے الاو گرم ہوئے ہیں۔
ماضی سے اسی قسم کا ربط افسانہ نگار کو جاپان کے روپوش سپاہی سے اور اسلامی تاریخی ناول لکھنے والے سے ممیز کرتا ہے۔ جاپان کے روپوش سپاہی کو جنگ کے ختم ہونے کی خبر نہیں ہے، اس لئے وہ ایک زمانے میں مقید ہوکر رہ گیا ہے۔ نہ وہ حاضر کی طرف قدم بڑھا سکتا ہے نہ ماضی میں پیچھے کی طرف سفر کر سکتا ہے۔ افسانہ نگار کو جنگ کے ختم کی خبر ہوتی ہے، اس لئے ماضی سے اس کا ربط کسی ایک دور سے نہیں پوری تاریخ سے رابطہ کی صورت اختیار کر لیتا ہے اور اس رابطہ کا منشا یہ ہوتا ہے کہ نئے احساس میں پشتوں کا تجربہ اور زمانوں کا شعوربھی شامل ہو۔
یعنی اگر پاکستان کا افسانہ نگار سن ستاون، معرکۂ کربلا اور جنگِ بدر سے اپنا رشتہ جوڑے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس قوم کا جو نیا احساس تعمیر ہو رہا ہے، اس میں وہ ایک ہزار سالہ ہند اسلامی تہذیبی تجربہ کو اور پونے چودہ سو سالہ تاریخی شعور کو بھی شامل کرنے کے لئے کوشاں ہے اور یہ رشتہ وہ ہے جہاں ماضی، حال اور مستقبل ایک مربوط برادری ہوتے ہیں۔ یوں بھی حال کوئی بیر بہوٹی قسم کی شے تو ہے نہیں جسے چٹکی سے پکڑ کر ہتھیلی پر رکھ لیا جائے۔ وہ تو آگے پیچھے ماضی اور مستقبل کا جلوس لے کر ظاہر ہوتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.