Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انتظار حسین کا فن: متحرک ذہن کا سیال سفر

گوپی چند نارنگ

انتظار حسین کا فن: متحرک ذہن کا سیال سفر

گوپی چند نارنگ

MORE BYگوپی چند نارنگ

     

    انتظار حسین اس عہد کے اہم ترین افسانہ نگاروں میں سے ہیں۔ اپنے پر تاثیر تمثیلی اسلوب کے ذریعے انھوں نے اردو افسانے کو نئے فنی اور معنیاتی امکانات سے آشنا کرایا ہے اور اردو افسانے کا رشتہ بیک وقت داستان، حکایت، مذہبی روایتوں، قدیم اساطیر اور دیومالا سے ملا دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ناول اور افسانے کی مغربی ہیئتوں کی بہ نسبت داستانی انداز ہمارے اجتماعی لاشعور اور مزاج کا کہیں زیادہ ساتھ دیتا ہے۔ 

    داستانوں کی فضاکو انھوں نے نئے احساس اور نئی آگہی کے ساتھ کچھ اس طرح برتا ہے کہ افسانے میں ایک نیا فلسفیانہ مزاج اور ایک نئی اساطیر و داستانی جہت سامنے آ گئی ہے۔ وہ فرد وسماج، حیات وکائنات اور وجود کی نوعیت وماہیت کے مسائل کو رومانی نظر سے نہیں دیکھتے، نہ ہی ان کا رویہ محض عقلی ہوتا ہے، بلکہ ان کے فن میں شعورولاشعور دونوں کی کارفرمائی ملتی ہے اور ان کا نقطۂ نظر بنیادی طور پر روحانی اور ذہنی ہے۔ وہ انسان کے باطن میں سفر کرتے ہیں، نہاں خانۂ روح میں نقب لگاتے ہیں اور موجود دور کی افسردگی، بے دلی اور کشمکش کو تخلیقی لگن کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ عہدنامۂ قدیم واساطیر وجاتک اور دیومالا کی مدد سے ان کو استعاروں، علامتوں اور حکایتوں کا ایسا خزانہ ہاتھ آ گیا ہے جس سے وہ پیچیدہ سے پیچیدہ خیال اور باریک سے باریک احساس کو سہولت کے ساتھ پیش کر سکتے ہیں۔

    ان کے اسلوب میں ایسی سادگی اور تازگی ہے جس کی کوئی نظیر اس سے پہلے اردو افسانے میں نہیں۔ برصغیر میں کہانی کی روایت کتھا کی روایت ہے۔ داستان نے بھی اس لحاظ سے اسی روایت کو آگے بڑھایا تھا کہ وہ سننے سنانے کی چیز ہے۔ اس کے برخلاف بیسویں صدی میں افسانے کا سارا ارتقا ایک تحریری صنف کا ارتقا ہے۔ یہ لکھے اور پڑھے جانے کی چیز ہوکر رہ گیا تھا۔ انتظار حسین نے باصرہ کے ساتھ سامعہ کو پھر سے بیدار کیا ہے اور کہانی کی روایت میں سننے اور سنائے جانے والی صنف کے لطف کااز سر نو اضافہ کیا ہے۔ یہ صرف داستان کے اسلوب ہی کی تجدید نہیں بلکہ کتھا کی ہزاروں سال پرانی روایت کی تجدید بھی ہے۔ انتظار حسین کی بیشتر کہانیوں میں کتھا کا لطف ہے اور اس لحاظ سے وہ اس دور کے قابل توجہ ’’کتھا کار‘‘ ہیں۔

    انتظار حسین ڈبائی ضلع بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ تعلیم میرٹھ میں حاصل کی اور تقسیم کے وقت پاکستان چلے گئے، اب تک ان کے ناول چاند گہن اور بستی (۱۹۸۰ء) ایک ناولٹ دن اور داستان (۱۹۵۹ء) اور افسانوں کے چار مجموعے گلی کوچے (۱۹۵۱ء) کنکری (۱۹۵۷ء) آخری آدمی (۱۹۶۷ء) اور شہر افسوس (۱۹۷۲ء) شائع ہوچکے ہیں اور پانچواں مجموعہ ’’کچھوے‘‘ عنقریب شائع ہونے والا ہے۔ شروع میں وہ ماضی کی یادوں کے سیدھے سادے افسانے لکھتے تھے جو پہلے دو مجموعوں گلی کوچے اور کنکری میں ملتے ہیں۔ ان کا جدید دور ۱۹۶۰ء سے ایک دو برس پہلے شروع ہوتا ہے۔ اس دور کی کہانیاں انھوں نے ’’آخری آدمی‘‘ میں جمع کر دی ہیں۔ اس کا احساس کم لوگوں کو ہے کہ انتظار حسین سماجی سیاسی نوعیت کی کہانیاں بھی لکھتے رہے ہیں اور یہ واقعہ ہے کہ شہر افسوس کی زیادہ تر کہانیاں اسی نوعیت کی ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ مجموعے تین الگ الگ ادوار کی نمائندگی کرتے ہیں۔

    پہلا ’’گلی کوچے‘‘ اور ’’کنکری‘‘ کے افسانوں کا ہے جو ماضی کی یادوں اور تہذیبی معاشرتی رشتوں کے احساس پر مبنی ہے۔ دوسرا دور ’’آخری آدمی‘‘ کے افسانوں کا ہے، جس میں ان کا بنیادی سابقہ concern انسانی وجودی human existential نوعیت کا ہے۔ اسی طرح تیسرا دور ’’شہر افسوس‘‘ کے افسانوں کا ہے جو زیادہ تر سماجی سیاسی نوعیت کے ہیں اور جن میں گہرا سماجی طنز ہے۔ پہلے اور دوسرے دور کے درمیان تو زمانی حد فاصل موجود ہے، البتہ دوسرے اور تیسرے دور میں ایسا کوئی فرق معلوم نہیں ہوتا۔ یہ ممکن ہے کہ سماجی سیاسی نوعیت کے افسانے سرئیلی افسانوں کے پہلو بہ پہلو لکھے گئے ہوں اور انھیں اندرونی موضوعاتی وحدت کی وجہ سے بعدمیں شائع کیا گیا ہو، تاہم دونوں کی نوعیت میں اتنا واضح فرق موجود ہے کہ انھیں الگ الگ رجحان قرار دیا جا سکتا ہے۔

    ان تین بنیادی رجحانات کے علاوہ انتظار حسین کے یہاں چوتھا رجحان ان افسانوں میں ابھرتا دکھائی دیتا ہے جو شہر افسوس کے بعد ادھر ادھر رسائل وجرائد میں شائع ہوئے ہیں اور ابھی یکجا طور پر کتابی صورت میں منظر عام پر نہیں آئے۔ ان تازہ افسانوں کے موضوعات یا تو نفسیاتی ہیں یا ہندوستانی دیومالا اور مختلف النوع اساطیری روایتوں کو باہم آمیز کرکے کوئی بنیادی بات کہنے کی کوشش کی گئی ہے، اس تازہ رجحان کو بھی نظر میں رکھیں تو چار الگ الگ رجحان یا انتظار حسین کے فن کی چار الگ الگ جہات قرار دی جا سکتی ہیں۔ ذیل کے مضمون میں جو انتظار حسین کی افسانہ نگاری کے بارے میں ہے، ان چاروں ادوار یا جہات کو فرداً فرداً لیا جائےگا۔ اولین افسانوں پر بوجوہ زور نہیں دیا گیا، البتہ بعد کے رجحان پر چونکہ ابھی وہ توجہ نہیں کی گئی جو انتظار حسین کے فن کا حق ہے، اس لیے ان سے بحث کرتے ہوئے کوشش کی گئی ہے کہ تمام ضروری فنی اور معنیاتی امور نظر میں آ جائیں اور انتظار حسین کے فنی وفکری سفر کی مکمل تصویر سامنے آ جائے۔

    (۱)
    انتظار حسین کا بنیادی تجربہ ہجرت کا تجربہ ہے۔ تخلیقی اعتبار سے ہجرت کے احساس نے انتظار حسین کے یہاں ایک یاس انگیز داخلی فضا کی تشکیل کی ہے۔ ہجرت کا احساس اگرچہ انتظار حسین کے فن کا اہم ترین محرک ہے اور اس کی مثالیں گلی کوچے اور کنکری کے بعد کے مجموعوں میں حتی کہ تازہ ترین ناول ’’بستی‘‘ اور افسانہ ’’کشتی‘‘ تک میں مل جاتی ہیں اور ہجرت کاذائقہ جگہ جگہ محسوس ہوتاہے، لیکن جس طرح کا اظہار ناول ’’چاند گہن‘‘ اور اولین مجموعوں ’’گلی کوچے‘‘ اور ’’کنکری‘‘ کی کہانیوں میں ہوا ہے، بعد میں اس کی نوعیت بدل گئی ہے۔ یعنی وہی بات جو درد کی ٹیس بن کر ابھری تھی، اب ایک دھیمی آگ بن کر پورے وجود میں گداز پیدا کر دیتی ہے۔

    انتظار حسین کا فکشن ان لوگوں کی ضد ہے جنھوں نے ادب کے اس تصور کے سایے میں پرورش پائی تھی کہ انسانی زندگی خارجی رشتوں سے عبارت ہے۔ انتظار حسین کا بنیادی تصور یہ ہے کہ آدمی صرف اتنا کچھ نہیں جنتا وہ نظر آتا ہے۔ اس کے رشتے خارج سے زیادہ اس کے باطن میں پھیلے ہوئے ہیں، نیز یہ کہ ’’معاشرتی حقیقت خود مختار حقیقت نہیں ہے۔ وہ بہت سی غائب اور حاضر حقیقتوں کے گم شدہ اور نوآمدہ عوامل کے گھال میل سے جنم لیتی ہے۔ انھیں شدت سے اس کا احساس ہے کہ ان کی ذات کا کوئی حصہ کٹ کر ماضی میں رہ گیا ہے اور موجودہ معاشرے کی کوئی تصویر اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک ماضی کے کٹے ہوئے حصے کو تخیل کے راستے واپس لاکر ذات میں نہ سمویا جائے۔‘‘

    وہ بار بار اصرار کرتے ہیں کہ زمانے دو نہیں، یعنی حاضر اور مستقبل بلکہ تین ہیں، یہ تین زمانے جدا جدا حقیقتیں نہیں، بلکہ آپس میں اس طرح گتھے ہوئے ہیں کہ ان کی حد بندی نہیں کی جا سکتی۔ آدمی ظاہر میں سانس لیتا ہے مگر اس کی جڑیں ماضی میں پھیلی ہوتی ہیں۔ انتظار حسین کے فکشن میں ماضی سے مراد تاریخ، مذہب، نسلی اثرات، دیومالا، حکایتیں، داستانیں اور عقائد وتوہمات سب کچھ ہے۔ ماضی کی بازیافت اور جڑوں کی تلاش کا پیچیدہ سوال انتظار حسین کے فکشن کا مرکزی سوال ہے۔

    انتظار حسین مسلم کلچر کے ترجمان ہیں لیکن ان کا کلچر کا تصور محدود نہیں۔ مذہب کو وہ ایک دینی قدر کے ساتھ ساتھ ایک تہذیبی اور معاشرتی قدر کی حیثیت سے لیتے ہیں۔ ان کے الفاظ ہیں، ’’جس مذہب سے میرا تعلق ہے، اس سے متعلق میں نے بہت سن رکھا ہے کہ وہ مٹی سے بلند ایک طاقت ہے مگر میں اسے کیا کروں کہ میں اپنے مذہبی احساس کا تجزیہ کرتا ہوں تو اس کی تہہ میں بھی مٹی جمی ہوئی ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ تہذیبی قدر سے کہیں زیادہ وہ اس کے معاشرتی روپ کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا بیان ہے کہ کلچر زمینی رشتوں سے بےنیاز نہیں ہوتا۔ ایک جگہ اپنے تمثیلی انداز میں انھوں نے وضاحت کی ہے کہ وہ جیلانی کامران کی طرح نہیں کہ تہذیبی جڑوں کی تلاش کے لیے ادھر ادھر دیکھے بغیر فوراً مدینے کی طرف چل دیں۔ ان کے برعکس اس سوال کا جواب دینے کے لیے ممکن ہے کہ وہ پہلے رام لیلا دیکھنے جائیں، پھر وہاں سے کربلا کی طرف جائیں اور پھر مکہ جانے کی تیاری کریں۔

    ایک اور جگہ اپنے تہذیبی موقف کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے لکھا ہے، ’’مجھے تو اب کچھ یوں لگتا ہے کہ اس برصغیر میں جو سانحے گزرے ہیں اور جس تکلیف واذیت میں یہ سارا علاقہ مبتلا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اس برصغیر کی تاریخ جس طرح بن رہی تھی اور جو تہذیب نشوونما پا رہی تھی، اس میں کچھ طاقتوں نے کھنڈت ڈال دی اور اس عمل کو روک کر اس پورے برصغیر کو، اس کی پوری خلقت کو ایک عذاب میں مبتلا کر دیا۔‘‘ ان کے ایسے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صدیوں کے تاریخی عمل اور تہذیب کے معاشرتی روپ پر زور دے رہے ہیں، مثلاً جب وہ یہ کہتے ہیں، ’’اسلامی روایت ہو یا ہندو روایت، میں بہرحال قدامت پسند ہوں اور تاریخی تحقیق اور نفسیات سے زیادہ اس حقیقت پر ایمان رکھتا ہوں جسے جنتا کے ذہن اور تخیل نے جنم دیا ہے۔‘‘ تو وہ معاشرتی ارتباط کے عوامی اور انسانی رشتوں کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

    انتظار حسین اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ انھوں نے عہد وسطیٰ کی ہند اسلامی تہذیب کی روح سے ہم کلامی کی سطح قائم کی ہے اور ایک ہزار برس سے برصغیر کے علاقوں میں مسلمانوں کے اثرات سے جو کلچر ابھرا ہے، انتظار حسین کے یہاں اس کی بھرپور تخلیقی ترجمانی ملتی ہے۔

    انتظار حسین کے زیادہ تر افسانے ان انسانوں اور ان لمحوں کو یاد کرنے کے عمل سے وابستہ ہیں جنھیں وقت نے دور کر دیا ہے۔ انتظار حسین کی دانست میں حافظہ انفرادی اور اجتماعی تشخص کی بنیاد ہے۔ حافظہ نہ ہو تو ماضی بھی نہیں رہتا اور ماضی نہ ہو تو بنیاد اور جڑیں کچھ نہیں رہتا۔ گویا خود حال کی حیثیت ایک غیرموہوم غبار سے زیادہ نہیں۔ یادوں کے معنی ہیں اپنی ذات کے اجزائے ترکیبی کی شیرازہ بندی کرنا، اسے تہذیبی انفرادیت کا وقار بخشنا۔ انتظار حسین کے افسانے اس یقین کو پیش کرتے ہیں کہ اجتماعی حافظہ انفرادی شخصیت کی بنیاد ہے۔ حافظہ ہی کے ذریعے ہماری تہذیبی زندگی اپنے ماضی کو امید میں بدلتی ہے اور زندہ رہنے کا عمل جاری رہتا ہے۔

    انتظار حسین کا فن اپنی قوت ان تمام سرچشموں سے حاصل کرتا ہے جو تہذیبی روایات کا منبع ہیں یعنی یادیں، خواب و اولیا کے قصے، دیومالا، توہمات، ایک پوری قوم کا اجتماعی مزاج، اس کا کردار اور اس کی شخصیت۔ انتظار حسین کے شعور واحساس کے ذریعے ایک گم شدہ دنیا اچانک پھر سے اپنے خد وخال کے ساتھ نکھر کر سامنے آ جاتی ہے اور از سر نو بامعنی بن جاتی ہے۔ پہلے دو مجموعوں ’’گلی کوچے‘‘ اور ’’کنکری‘‘ کے بیشتر افسانے ایک گم شدہ دنیا کو یادوں کے سہارے ایک بار پھر سے پالینے کی کوشش ہیں۔ ’’آم کا پیڑ‘‘، ’’بن لکھی رزمیہ‘‘، ’’خرید وحلوہ بیسن کا‘‘، ’’روپ نگر کی سواریاں‘‘ اور ’’چوک‘‘ میں قصبات کی فضا ہے۔ انتظار حسین کو بات سے بات پیدا کرنے، کہانی کو بننے اور فضا خلق کرنے کے فن پر ماہرانہ دسترس حاصل ہے۔

    انتظار حسین کے ایک پاکستانی مبصر نے صحیح لکھا ہے کہ پہلے دور کی کہانیوں میں مجمع لگانے والوں، پتنگ بازوں اور کبوتر بازوں کی منڈلیاں، پنواڑیوں کی دکانیں، استادوں کے اکھاڑے، یاس انگیز ماتمی لمحوں میں جھاڑ فانوس سے جگمگاتے ہوئے الم ناک امام باڑے، مرثیہ خوانی اور قوالی کی محفلیں اور اسی طرح کے معاشرتی کوائف زندہ ہوکر سامنے آ جاتے ہیں اور خاموشی سے ہمارے وجود میں شامل ہوکر یادداشتوں کی گذشتہ جہات کو روشن کر دیتے ہیں۔ معاشرتی فضا آفرینی میں انتظار حسین کو کمال حاصل ہے۔ ان افسانوں میں تہذیبی سانچوں کے ٹوٹنے اور معاشروں کے مٹنے کا دبا دبا دکھ تو ہے ہی، تقسیم سے پیدا ہونے والی الجھنوں کا احساس بھی ہے۔

    ’’شوق منزل مقصود‘‘ میں میرٹھ کے ایک خاندان کی ہجرت کی کیفیت بیان کی ہے۔ ایک بچہ اپنے باپ افومیاں کی باتیں سن کر کہتا ہے، ’’باوا پاکستان میں چل کر قطب صاحب کی لاٹھ دیکھیں گے۔‘‘ افومیاں کہتے ہیں، ’’بیٹا قطب صاحب کی لاٹھ پاکستان میں نہیں ہے، وہ تو دلی میں ہے۔‘‘ بچہ کہتا ہے، ’’اچھا باوا! تاج بی بی کا روضہ دیکھیں گے۔‘‘ لیکن افو میاں پھر ویسا ہی جواب دیتے ہیں، ’’تاج بی بی کا روضہ آگرہ میں ہے۔‘‘ بچہ اب پریشان ہوکر پوچھتا ہے، ’’ تو باوا پاکستان میں کیا ہے؟‘‘ اور افومیاں جواب دیتے ہیں، ’’بیٹا پاکستان میں قائد اعظم ہیں۔‘‘ یہ کہانی تہذیبی جڑوں کے زمین میں پیوست ہونے کی طرف بہت اچھا اشارہ کرتی ہے۔ ہجرت کے مسائل اولین ناول چاند گہن اور افسانوں کے مجموعوں کنکری اور گلی کوچے میں طرح طرح سے سامنے آتے ہیں۔

    چاند گہن کے تین حصے ہیں۔ تقسیم سے پہلے کی غیریقینی صورت حال، فسادات، اور آزادی کے بعد کی فضا۔ اس کا بنیادی موضوع ان مسائل کا بیان ہے جن کا سامنا پاکستان میں بسنے والوں کو کرنا پڑا۔ خاندان کے افراد کی جڑیں جب تک ایک تھیں، ان میں وحدت تھی، پاکستان جانے کے بعد مفادات کے باہمی تصادم نے بھائی کو بھائی کا اور دوست کو دوست کا دشمن بنا دیا۔ اس کی مؤثر تصویر ’’محل والے‘‘ میں ملتی ہے۔ محل والے جب تک ہندوستان میں تھے، ایک ہی حویلی میں رہتے تھے اور ان میں باہمی محبت اور یگانگت تھی، لیکن پاکستان پہنچ کر جب تجارتی دوڑ میں شریک ہو گئے تو ہوس زر نے ان کی خاندانی سالمیت اور شخصیت کو پارہ پارہ کر دیا۔ ’’سانجھ بھئی چوندیس‘‘ بھی مہاجرین کے پچھڑ کر رہ جانے کی دل گداز داستان ہے۔ اس دور کی تمام مؤثر کہانیوں میں ہجرت کے تجربے نے کسی نہ کسی طرح ضرور راہ پائی ہے۔

    زمینی، تہذیبی اور معاشرتی رشتوں کے معدوم ہو جانے کا یہ یاس انگیز احساس شروع کے دونوں مجموعوں یعنی گلی کوچے اور کنکری کے افسانوں پر چھایا ہوا ہے۔ ان مجموعوں کے بعد انتظار حسین کے فن میں تبدیلی آنا شروع ہوتی ہے۔ اب نظر خارج سے باطن کی طرف اور وقت کے ذہن وروح کو جکڑ لینے والے تصور کی طرف راجع ہوتی ہے۔ پہلے فرد پر معاشرے کو یا کردار پر ماحول کو ترجیح حاصل تھی، اب پورا وجود اور اس کے مسائل مرکز نگاہ بنتے ہیں۔ اب محض خارجی مشاہدہ ہی کافی نہیں، باطن کی آنکھ بھی کھلتی ہے۔ بعد میں کہانیوں میں زیادہ توجہ ذات کے باطنی منظرنامے، وجود کی نوعیت وماہیت، اخلاقی وروحانی زوال اور داخلی رشتوں کے بھیدوں اور رازوں پر مرکوز ہونے لگتی ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ مشاہدے کی منزل سے نکل کر انتظار حسین کا فن اب مراقبے کی طرف راجع ہے۔ یہ تصوف کی منزل ہے جس کی کوئی پرچھائیں اس سے پہلے اردو افسانے پر نہیں پڑی تھی۔

    آخری آدمی سے انتظار حسین کا تمثیلی دور شروع ہوتا ہے۔ اب انتظار حسین علامتوں، تمثیلوں، حکایتوں اور اساطیری حوالوں سے اپنے کرداروں کی تعمیروتشکیل میں مدد لینے لگتے ہیں اور اب جتنی اہمیت فضا سازی کی ہے، اتنی ہی اہمیت باطنی کیفیت اور کردار نگاری کی بھی۔ اس منزل پر پہنچ کر انتظار حسین کے فن میں کشف کا احساس ہونے لگتا ہے، جیسے حقیقت اپنے آٖپ کو از خود ظاہر کر رہی ہو، یا وجود کے اسرار ایک کے بعد ایک بےنقاب ہورہے ہوں، اس نوع کی ماورائی اور متصوفانہ فضا انتظار حسین کے فن کی ایک نئی جہت کی نشان دہی کرتی ہے۔ تکنیک کے اعتبار سے وہ اب سرئیلی دنیا میں داخل ہوتے ہیں۔

    (۲)
    انتظار حسین کے فن میں اس بنیادی تبدیلی کے آثار چھٹی دہائی کے لگ بھگ پیدا ہوئے۔ وہ افسانہ نگار جواب تک فوری ماضی کی پرچھائیوں، بھولی بسری یادوں یا تقسیم سے پیدا ہونے والے معاشرتی المیے کے بارے میں سیدھی سادی کہانیاں لکھ رہا تھا، اب وجودی مسائل پر سوچنے پر مجبور ہوا۔ سیدھی سادی بیانیہ کہانی اب تمثیلی کہانی اور اس کی معنیاتی تہ داری کو راہ دینے لگی۔ یوں بھی معاشرتی المیے کا احساس اخلاقی اور روحانی زوال کے احساس تک لے آیا تھا۔ اب یہ احساس پورے بنی نوع انسان کے اخلاقی وروحانی زوال میں ڈھل گیا ا ور اس کی حدیں وجودی مسائل سے مل گئیں جن سے جدید عہد کا انسان کسی بھی ملک اور کسی بھی معاشرے میں دوچار ہے۔ اخلاقی اقدار کی شکست اور اجتماعی اطمینان کے فقدان کا نتیجہ ایسا نفسی انتشار ہے کہ انسان بحیثیت انسان اپنی جون کو بھی برقرار نہیں رکھ پا رہا۔ انتظار حسین کے مجموعے آخری آدمی کی، جو ۱۹۷۶ء میں شائع ہوا، زیادہ تر کہانیاں اسی احساس کی ترجمان ہیں۔

    ’’آخری آدمی‘‘، ’’زرد کتا‘‘، ’’پرچھائیں‘‘، ’’ہڈیوں کا ڈھانچ‘‘ اور ’’ٹانگیں‘‘ کی موضوعی فضا اگرچہ الگ الگ ہے، لیکن درد کا رشتہ ایک ہی ہے۔ ’’آخری آدمی‘‘ میں عہد نامہ عتیق کی فضا ہے، ’’زرد کتا‘‘ میں عہد وسطیٰ کے صوفیا اور ان کے ملفوظات کی اور ’’ہڈیوں کا ڈھانچ‘‘، ’’ٹانگیں‘‘ اور ’’پرچھائیں‘‘ میں انسان کے اخلاقی زوال اور باطنی کھوکھلے پن کی داستان عصر کی سطح پر کہی گئی ہے۔ ’’آخری آدمی‘‘ کے بارے میں یہ سوچنا کہ اس کا موضوع لالچ اور مکر ہے، اس کہانی کو محدود کرنا ہے۔ ’’آخری آدمی‘‘ اور ’’زرد کتا‘‘ دونوں کہانیاں اس اعتبار سے اردو افسانے کی ایک بالکل انوکھی اور نئی جہت سے روشناس کراتی ہیں کہ ان میں انسان کی روحانی اور اخلاقی کشمکش اور اس پر جبلی قوتوں کے دباؤ کو کچھ ایسے اچھوتے پیرایے میں بیان کیا گیا ہے کہ بیانیہ کی دلچسپی بھی برقرار رہتی ہے اور انکشاف حقیقت کی پرتیں بھی کھلتی ہیں۔

    ’’آخری آدمی‘‘ ان انسانوں کے بندر بن جانے کی کہانی ہے جو سبت کے دن مچھلیاں پکڑتے تھے اور اپنے حرص اور ہوس کے جذبے کی تسکین کرتے تھے۔ لالچ، مکر، خوف اور غصے کے منفی جذبات کے باعث وہ اعلیٰ انسانی سطح سے حیوانی سطح پر اترآئے۔ آخری آدمی الیاسف ہے جو ان میں سب سے عقل مند ہے اور آخر تک آدمی بنے رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ منفی جذبات سے خود کو بچانے کی شدید جد وجہد کرتا ہے۔ انسان اور اس کی جبلی قوتوں کی یہ باہمی کشمکش کہانی میں وہ تناؤ پیدا کرتی ہے جو قصے کی جان ہے۔ انتظار حسین اپنے تمثیلی پیرایے میں بتاتے ہیں کہ انسان لاکھ لالچ، مکر، خوف، غصہ، جنس سے بچنے کی کوشش کرے، اپنی سرشت سے نہیں بچ سکتا۔ یہ جبلی دباؤ انسانی سرشت میں گندھے ہوئے ہیں۔ اس کہانی سے بحث کرنے والوں نے جس پہلو کو نظرانداز کیا ہے، وہ الیاسف اور بنت الاخضر کا معاملہ ہے،

    ’’اور اسے بنت الاخضر کی یاد آئی کہ فرعون کے رتھ کی دودھیا گھوڑیوں میں سے ایک گھوڑی کے مانند تھی اور اس کے بڑے گھر کے در، سرو کے اور کڑیاں صنوبر کی تھیں۔ اس یاد کے ساتھ الیاسف کو بیتے دن یاد آئے کہ وہ سرو کے دروں اور صنوبر کی کڑیوں والے مکان میں عقب سے گیا تھا اور چھپر کھٹ پر اسے ٹٹولا جس کے لیے اس کا جی چاہتا تھا اور اس نے دیکھا کہ لمبے بال اس کے رات کی بوندوں سے بھیگے ہیں اور چھاتیاں ہرن کے بچوں کے موافق تڑپتی ہیں اور پیٹ اس کا گندم کی ڈھیری کی مانند ہے کہ پاس اس کے صندل کا گول پیالہ ہے اور الیاسف نے بنت الاخضر کو یاد کیا اور ہرن کے بچوں اور گندم کی ڈھیری اور صندل کے گول پیالے کے تصور میں سرو کے دروں اور صنوبر کی کڑیوں والے گھر تک گیا۔

    اس نے خالی مکان کو دیکھا اور چھپر کھٹ پر اسے ٹٹولا جس کے لیے اس کا جی چاہتاتھا اور پکارا کہ اے بنت الاخضر تو کہاں ہے؟ اے وہ کہ جس کے لیے میرا جی چاہتا ہے، دیکھ موسم کا بھاری مہینہ گزر گیا اور پھولوں کی کیاریاں ہری بھری ہو گئیں اور قمریاں اور اونچی شاخوں پر پھڑپھڑاتی ہیں تو کہاں ہے اے اخضر کی بیٹی۔ اے اونچی چھت پر بچھے ہوئے چھپر کھٹ پر آرام کرنے والی! تجھے دشت میں دوڑتی ہوئی ہرنیوں اور چٹانوں کی دراڑوں میں چھپے ہوئے کبوتروں کی قسم! تو نیچے اتر اور مجھ سے آن مل کہ تیرے لیے میرا جی چاہتا ہے۔ الیاسف نے بار بار پکارا تاآنکہ اس کا جی بھر آیا اور وہ بنت الاخضر کو یاد کرکے رویا۔‘‘

    الیاسف، بنت الاخضر کو یاد کرکے روتا ہے مگر اچانک الیعذر کی جورو کی یاد آتی ہے، جس کے خوبصورت نقش بگڑتے چلے گئے تھے اور اس کی جون بدل گئی تھی۔ الیاسف اپنے تئیں کہتا ہے، ’’اے الیاسف تو ان سے محبت مت کر، مبادا تو ان میں سے ہو جائے۔‘‘ چنانچہ الیاسف نے محبت سے کنارہ کیا اور ہم جنسوں کو ناجنس جان کر ان سے بے تعلق ہو گیا۔ کہانی جیسے جیسے آگے بڑھتی ہے، انتظار حسین دکھاتے ہیں کہ ’’ہرن کے بچوں‘‘، ’’گندم کی ڈھیری‘‘ اور ’’صندل کے گول پیالے‘‘ کا تصور بار بار الیاسف کے دامن دل کو کھینچتا ہے لیکن اپنے ہم جنسوں کو ناجنس جان کر ان سے بے تعلق ہو جانا شاید انسان کے لیے ممکن نہیں۔ گویا اس کہانی میں مسئلہ صرف لالچ، مکر، خوف یا غصے کا نہیں بلکہ ان تمام بنیادی اشتہاؤں کا ہے جن کے ایک سرے پر بھوک ہے اور دوسرے پر جنس اور باقی تمام جبلی اثرات ان دو انتہاؤں کے بیچ میں بہنے والی ندی کی سطح پر بلبلوں کی طرح ابھرتے اور مٹتے رہتے ہیں۔

    الیاسف ایک ایک کرکے ان تمام جذبات واحساسات سے کنارہ کشی کرتا ہے حتی کہ وہ اس شخص کا تصور کرکے، جو ہنستے ہنستے بندر بن گیا تھا، ہنسی سے بھی کنارہ کرتا ہے۔ اس سب کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لفظ بھی الیاسف اور اس کے ہم جنسوں کے درمیان رشتہ نہیں رہتے۔ لفظ خالی برتن کی مثال رہ گئے اور لفظ مر گئے۔ الیاسف اپنی ذات کے اندر پناہ لیتا ہے لیکن سب سے بے تعلق ہوکر ذات کے جزیرے میں بھی عافیت کہاں۔ وہ فکرمند ہوکر سوچتا ہے کہ وہ اندر سے بدل رہا ہے اور اسے گمان ہونے لگتا ہے کہ اس کے اعضا خشک، اس کی جلد بد رنگ اور اس کی ٹانگیں اور بازو مختصر اور سر چھوٹا ہوتا جا رہا ہے۔ چنانچہ وہ درد کے ساتھ کہتا ہے کہ ’’اے میرے معبود! میرے باہر بھی دوزخ ہے، میرے اندر بھی دوزخ ہے۔‘‘ مارے تنہائی کے وہ سوچتا ہے، ’’ بے شک آدم اپنے تئیں ادھورا ہے۔‘‘ اس کی روح اندوہ سے بھر جاتی ہے اور بالآخر وہ پکارتا ہے کہ ’’اے بنت الاخضر تو کہاں ہے کہ میں تجھ بن ادھورا ہوں۔‘‘

    کہانی کے آخر میں جہاں الیاسف کے سمندر سے فاصلے پر گڑھا کھودنے اور نالی کے ذریعے اسے سمندر سے ملانے اور سبت کے دن سطح آب پر آنے والی مچھلیوں کو چالاکی سے گڑھے میں گراکر پکڑنے کا ذکر ہے، وہاں ’’ہرن کے بچوں‘‘، ’’گندم کی ڈھیری‘‘ اور ’’صندل کے گول پیالے‘‘ کی یاد کے ستانے کا ذکر بھی ہے۔ وہ دہائی دیتا ہے، سرپٹ دوڑتی ہوئی دودھیا گھوڑیوں کی اور بلندیوں میں پرواز کرنے والی کبوتریوں اور رات کے اندھیرے کی جب وہ بھیگ جائے، کہ بنت الاخضر اس سے آملے لیکن بنت الاخضر کیسے آتی، وہ تو پہلے ہی حیوانی سطح پر اتر چکی تھی۔ چنانچہ الیاسف ہی بدلتا چلا جاتاہے۔ اس کی ہتھیلیاں چپٹی اور ریڑھ کی ہڈی دوہری ہونے لگتی ہے۔ بالآخر وہ جھک کر ہتھیلیاں زمین پر ٹکا دیتا ہے اور بنت الاخضر کو سونگھتا ہوا چاروں ہاتھ پیروں کے بل تیر کی طرح جنگل کو چلا جاتا ہے، یعنی الیاسف بھی بندر کی حیوانی سطح پر پہنچ جاتا ہے۔

    ظاہر ہے کہ کہانی میں مرکزیت صرف مکر اور لالچ کی وجہ سے نہیں بلکہ آخری آدمی کے بنت الاخضر سے رشتہ کی وجہ سے بھی پیدا ہوتی ہے اور یہ سب مل کر انسانی سرشت میں جبلی قوتوں کے منفی دباؤ کا اظہار بن جاتے ہیں جس سے انسان کو ہمیشہ نبردآزما ہونا پڑتا ہے اور یہ وہ کشمکش ہے جو انسانی وجود میں مضمر ہے۔

    ’’زرد کتا‘‘ انتظار حسین کی شا ہ کار کہانی ہے، جس طرح ’’آخری آدمی‘‘ کی فضا انجیل کی ہے اور اس میں پرانے عہد نامے کی زبان سے استفادہ کیا گیا ہے، اسی طرح ’’زرد کتا‘‘ میں بزرگان دین کے ملفوظات اور داستانوں کی زبان کا نیا تخلیقی استعمال ملتا ہے۔ ’’زرد کتا‘‘ میں بنت الاخضر، زن رقاصہ ہے جو ابو مسلم بغدادی کے دستر خوان پر کنیزوں کے جلو میں جلوہ افروز ہوتی ہے اور جس کے پیروں کی تھاپ اور گھنگروؤں کی جھنکار سے ابوقاسم خضری کانوں میں انگلیاں دے لیتے ہیں۔ اس کی ’’آنکھیں مے کی پیالیاں، کچیں سخت اور رانیں بھری ہوئیں، پیٹ صندل کی تختی، ناف گول پیالہ ایسی اور لباس اس نے ایسا باریک پہنا تھا کہ صندل کی تختی اور گول پیالہ اور کولھے سینے ساقیں سب نمایاں تھیں۔‘‘

    اسے ایک نظر دیکھتے ہی ابوقاسم خضری کو یہ لگتا ہے کہ اس نے مہکتے مزِ عفر کا، جس کی کشش سے وہ بچنے کی کوشش کر رہا تھا، ایک اور نوالہ لے لیا ہے۔ اگرچہ کہانی کے شروع میں یہ اشارہ موجود ہے کہ لومڑی کے بچے جیسی چیز جو منہ سے نکل آئی اور جسے پاؤں کے نیچے ڈال کر جتنا روندا گیا اتنا وہ بڑی ہوتی گئی۔ یہ لومڑی کا بچہ انسان کا نفس ہے، تاہم یہاں نفس سے مراد محض نفس نہیں بلکہ جبلتوں کا وہ سارا نظام ہے جو انسان کو مسلسل ایک کشمکش سے دوچار رکھتا ہے اور جب کسی فرد یا معاشرے میں نفس کا عمل دخل حد اعتدال سے تجاوز کر جاتا ہے، تو فرد یا معاشرہ شدید روحانی اور اخلاقی بحران سے دوچار ہوتا ہے۔

    ’’آخری آدمی‘‘ اور ’’زرد کتا‘‘ میں فرق صرف زمانی فضا ہی کا نہیں بلکہ تکنیک کا بھی ہے۔ انتظار حسین کی تکنیک میں مکالمے کو جو اہمیت حاصل ہے، اس کی پہلی مؤثر مثال ’’زرد کتا‘‘ میں سامنے آتی ہے۔ اس کہانی کی تکنیک میں مکالموں اور حکایتوں کو بڑے سلیقے سے ایک دوسرے کے ساتھ سمویا گیا ہے۔ کہانی کی پوری فضا عہد وسطیٰ کے ملفوظات کی ہے۔ مرید شیخ سے سوال کرتا ہے اور حضرت شیخ کے ارشادات حکایتوں اور ملفوظات پر مبنی ہیں اور یوں تمثیلی پیرایے میں کہانی ظاہر کرتی ہے کہ بدی ایک وبا کی طرح پھیلتی ہے، اور فرد اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس بدی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگرچہ وہ اس سے بچ نکلنے کی کوشش کرتا ہے مگر کامیاب نہیں ہوتا۔

    شیخ عثمان کبوتر، پرندوں کی طرح اڑا کرتے تھے اور املی کے پیڑ پر بسیرا تھا۔ فرمایا کرتے تھے کہ ’’ایک چھت کے نیچے دم گھٹا جاتا ہے، دوسری چھت برداشت کرنے کے لیے کہاں سے تاب لائیں۔‘‘ عالم سفلی سے بلند ہو گئے تھے، ذکر کرتے کرتے اڑتے، کبھی اتنا اونچا اڑتے کہ فضا میں کھو جاتے۔ سید رضی، ابومسلم بغدادی، شیخ حمزہ، ابو جعفر شیرازی، حبیب بن یحییٰ ترمذی اور ابوقاسم خضری یعنی راوی، شیخ کے مریدان باصفا تھے اور فقروقلندری ان سب کا مسلک تھا۔ یہ چھئوں شیخ کی تعلیم سے اس قدر متاثر تھے کہ چھت کے نیچے رہنا شرک جانتے تھے اور صرف ایک چھت کے نیچے رہتے تھے کہ وحدہ لاشریک نے پاٹی ہے۔ سب علائق دنیوی سے منہ موڑ کر ذکر وفکر میں لگے رہتے تھے۔ ایک روز استفار کیا،

    ’’یا شیخ قوت پرواز آپ کو کیسے حاصل ہوئی؟‘‘

    فرمایا، ’’عثمان نے طمع دنیا سے منہ موڑ لیا اور پستی سے اوپر اٹھ گیا۔‘‘

    عرض کیا، ’’یا شیخ طمع دنیا کیا ہے؟‘‘

    فرمایا، ’’طمع دنیا تیرا نفس ہے۔‘‘ عرض کیا، ’’نفس کیا ہے؟‘‘ اس پر آپ نے یہ قصہ سنایا،

    ’’شیخ ابوالعباس عشقانی ایک روز گھر میں داخل ہوئے، دیکھا ایک زرد کتا ان کے گھر میں سو رہا تھا۔ انھوں نے خیال کیا کہ شاید محلہ کا کوئی کتا اندر گھس آیا۔ اسے نکالنے کا ارادہ کیا مگر وہ ان کے دامن میں گھس کر غائب ہو گیا۔ میں یہ سن کر عرض پرداز ہوا، یا شیخ زرد کتا کیا ہے؟ فرمایا، زرد کتا تیرا نفس ہے۔ میں نے پوچھا شیخ نفس کیا ہے؟ فرمایا، نفس طمع دنیا ہے۔ میں نے سوال کیا، یا شیخ طمع دنیا کیا ہے؟ فرمایا، طمع دنیا پستی ہے۔ میں نے استفسار کیا، یا شیخ پستی کیا ہے؟ فرمایا، پستی علم کا فقدان ہے۔ میں ملتجی ہوا، یا شیخ علم کا فقدان کیا ہے؟ فرمایا دانش مندوں کی بہتات۔‘‘

    اس کے بعد خوبصورت تمثیل بادشاہ اور وزیر کی حکایت ہے جو اس پر منتج ہوتی ہے کہ گدھوں اور دانش مندوں کی ایک مثال ہے کہ جہاں سب گدھے ہو جائیں وہاں کوئی گدھا نہیں ہوتا اور جہاں سب دانش مند بن جائیں، وہاں کوئی دانش مند نہیں رہتا۔ اسی طرح عقل ودانش کے یہ رموز ونکات بصورت مکالمہ وحکایات جاری رہتے ہیں حتی کہ شیخ کا وصال ہو جاتا ہے۔ اس کا راوی پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ یاس زدہ دنیا سے منہ موڑ حجرے میں بند ہو جاتا ہے۔ ایک مدت تک حجرہ نشیں رہنے کے بعد باہر نکلتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بدل گئی۔ حیران ہوتا ہے کہ یارب یہ عالم بیداری ہے یا خواب۔ ایک خوشبو کوچے میں ایک قصر کھڑا دیکھتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے سید رضی کا دولت کدہ ہے۔ قاضی شہر کی محل سرائے کے سامنے پہنچتا ہے تو پتہ چلتا ہے ابو مسلم بغدادی کا مسکن یہی ہے۔ شیخ حمزہ کا پتہ پوچھتے پوچھتے خود کو پھر ایک حویلی کے روبرو کھڑا پاتا ہے۔ اسی طرح ابوجعفر شیرازی جوہری بنا گاؤ تکیہ لگائے ریشمی لباس میں غرق نظر آتا ہے۔

    گویا شیخ کے انتقال کے بعد سب مریدان باصفا ایک ایک کرکے حرص وآز کا شکار ہوئے اور طمع دنیا اور بدی نے وبا کی طرح سب کو آلیا، البتہ حبیب بن یحییٰ ترمذی سخت جان تھا۔ وہ کچھ دن گلیم پوش اور بوریا نشین رہا اور دوسروں کو راہ پر لانے کی کوشش کرتا رہا۔ ابومسلم بغدادی کے دستر خوان پر انواع واقسام کے کھانے دیکھنے کے باوجود وہ ٹھنڈا پانی پینے پر قناعت کرتا تھا اور کہتا تھا کہ، ’’اے ابو مسلم بغدادی! دنیا دن ہے اور ہم اس میں روزہ دار ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ روتا تھا، لیکن رفتہ رفتہ اس نے بھی نوالے کے آگے سپر ڈالی اور پیٹ بھر کھانا تناول کیا۔ یہی وہ مقام ہے جہاں زن رقاصہ اپنا جلوہ دکھاتی ہے، کانوں میں انگلیاں ڈالنے کے باوجود گھنگروؤں کی جھنکار حجرے تک تعاقب کرتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ دفعتاً لجلجی شے تڑپ کر حلق سے نکلی اور غائب ہو گئی۔

    حبیب بن یحییٰ ترمذمی نے دیکھا کہ اس کے بوریے پر بھی ایک بڑا سا زرد کتا سو رہا ہے۔ یہی کتا سید رضی کے قصر کے پھاٹک پر دکھائی دیا تھا اور یہی شیخ حمزہ کی حویلی کے سامنے اور ابوجعفر شیرازی کی مسند پر محو خواب تھا۔ چھٹا مرید ابوقاسم خضری یعنی راوی بھی بالآخر خود کو بار بار ابومسلم بغدادی کے دستر خوان پر پاتا ہے اور اپنے آنے کی تاویل یوں کرتا ہے کہ وہ مسلم بغدادی کو مسلک شیخ کی دعوت دینے کے لیے آیا ہے لیکن رفتہ رفتہ مزعفر کے ایک نوالے اور گھنگروؤں کی جھنکار کی شیریں کیفیت سے اس کے پورووں میں کن من ہونے لگتی ہے اور اس کے ہاتھ اس کے اختیار سے باہر ہونے لگتے ہیں۔ چنانچہ اس کا بوریا بھی زرد کتے کی زد میں آ جاتا ہے۔ جتنا اسے مارتا ہے، وہ بھاگنے کے بجائے دامن میں آکر گم ہو جاتا ہے۔

    بار بار بارگاہ رب العزت میں فریاد کرتا ہے کہ اے پالنے والے سب نے منافقت کی راہ اختیار کی، آدمی گھٹ گیا اور زرد کتا بڑا ہو گیا۔ تب سے اب تک ابوقاسم کی اور زرد کتے کی لڑائی چلی آتی ہے اور مہکتے ہوئے مزعفر کا خیال اور صندل کی تختی اور گول پیالے والی کا تصور انسان کو ستانے لگتا ہے۔ انسان روزہ دار ہے اور روزہ دن بدن لمبا ہوتا جاتا ہے۔ انسان لاغر ہو گیا ہے مگر زرد کتا موٹا ہوتا جاتا ہے زرد کتا بڑا اور آدمی حقیر ہو گیا ہے۔ زرد کتے اور انسان کی یہ کشمکش زندگی کے سفر میں برابر جاری ہے۔ وہ لاکھ پت جھڑ کا برہنہ درخت بن جائے، تڑکا ہوتے ہی اسے اپنے پورووں میں میٹھا میٹھا رس گھلتا ہوا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ صندل کی تختی سے چھو گئے ہوں۔

    یہ دہشت بھرا منظرسامنے ہے کہ ’’زرد کتا دم اٹھائے اس طور کھڑا ہے کہ اس کی پچھلی ٹانگیں شہر میں ہیں اور اگلی ٹانگیں ’’ فرد کے ذہن میں ہیں اور اس کے گیلے گرم نتھنے دائیں ہاتھ کی انگلیوں کو چھو رہے ہیں۔‘‘ اور انسان بے بس ومجبور گڑگڑا گڑگڑا کر دعا کرتا ہے، ’’بار الہٰا آرام دے، آرام دے، آرام دے۔‘‘ مرکزی کردار اپنے نفس کے ساتھ کشمکش جاری رکھتا ہے اور بالآخر خدا سے پناہ مانگتا ہے۔ زرد کتا انسانی نفس کی خارجی صورت ہے جو ذات ہی سے باہر آتا ہے۔ یہ پوری روحانی زندگی کے لیے چیلنج ہے۔ اسے بھگانے اور نکالنے کی کوشش کیجئے تو دامن میں چھپ کر غائب ہو جاتا ہے۔ اس طرح ’’زرد کتا‘‘ انسان کے اس روحانی انحطاط کی سرگزشت ہے جو ہوس پرستی اور طمع دنیا سے پیدا ہوتا ہے۔

    اس مجموعے کی دوسری کہانیوں ’’ہڈیوں کا ڈھانچ‘‘ اور ’’ٹانگیں‘‘ میں بھی نفس کی ایسی ہی کشمکش اور انسان کے اخلاقی وروحانی زوال کی پرچھائیاں ہیں۔ ’’ہڈیوں کا ڈھانچ‘‘ میں ارتکاز پیٹ کی بھوک اور اشتہا پر ہے جبکہ ’’ٹانگیں‘‘ جنسی لذت کی پوشیدہ خواہش اور اس کے دباؤ کے بارے میں ہے۔ ’’ہڈیوں کا ڈھانچ‘‘ میں قحط میں مر جانے والا ایک شخص جو ہڈیوں کا ڈھانچ ہے، جی اٹھتا ہے اور کھانے پر اس طرح ٹوٹتا ہے جیسے صدیوں سے بھوکا تھا۔ ہر روز اسے پہلے دن سے بھی زیادہ بھوک لگتی ہے۔ ہوتے ہوتے گھروں میں کھانا کم پڑنے لگتا ہے اور لوگ دستر خوانوں سے بھوکے اٹھنے لگتے ہیں۔ حتی کہ اس شہر میں ایک عامل کا گزر ہوتا ہے، وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نعرۂ تکبیر بلند کرتا ہے اور یہ ہڈیوں کا ڈھانچ جس میں بدروح نے آکر بسیرا کر لیا تھا اور جو مر کر جی اٹھا تھا، مر جاتا ہے۔ اس حکایت کی روایت کرنے کے بعد افسانہ نگار ہڈیوں کا ڈھانچ کی تطبیق لمبے تڑنگے، کالے بھجنگ، سانسیے سے کرتا ہے، جس کا تصور بچپن سے ذہن میں جڑ پکڑ گیا تھا۔ سانسیے چھپکلی، سانپ تک کھا جاتے ہیں۔ آخر آدمی کا پیٹ ہے کیا بلا؟

    انتظار حسین بنیادی نکتے کی وضاحت کے لیے ایک کے بعد ایک حکایتوں کو، واقعات کو اور خوابوں کو بیانیہ لڑی میں پروتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر وہ آزاد تلازمۂ خیال سے خوب خوب کام لیتے ہیں۔ کئی بار ایسی کہانیوں کو وہ حیرت واستعجاب سے شروع کرتے ہیں، گویا کوئی واقعہ بیچ سے رونما ہو رہا ہو یا باطن سے کوئی حقیقت پھوٹ رہی ہو۔ پھر ان کا ذہن لاشعور کی نیم تاریک گلیوں میں کیسے کیسے موڑ کاٹتا ہوا کبھی تہہ خانوں میں، کبھی پاتال میں اور کبھی آسمانوں کی پہنائیوں میں گم سا ہو جاتا ہے۔ کب کب کے قصے، روایتیں اور واقعے اور وسوسے قطار اندر قطار چلے آتے ہیں اور تحیرواستعجاب کی سرسراہٹوں کے ساتھ کہانی کا حصہ بنتے چلے جاتے ہیں۔ دھیان کا سلسلہ کہاں کہاں پہنچتا ہے، اور اَن مٹ یادوں کو مجتمع کرکے پراسرار سرئیلی رشتے میں پرو دیتا ہے۔

    بالآخر ہوٹل میں بیٹھے بیٹھے اسے یوں لگتا ہے کہ رفتہ رفتہ چہرے لمبے ہوتے جا رہے ہیں اور جبڑے پھیل رہے ہیں۔ سامنے ملگجی داڑھی والاشخص قحط زدوں کی طرح کھانے پر ٹوٹا پڑا ہے۔ وہ خود بھی بے دھیانی میں کھانا شروع کرتا ہے اور کھاتا ہی چلا جاتا ہے۔ اس کے دل میں وسوسہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بے تحاشہ کھانے والا شخص اور ہڈیوں کا ڈھانچ کوئی اور تھا یا وہ خود ہی ہے۔ بدروح آدمی کے اندر سماکر کہاں ٹھکانا کرتی ہے، پیٹ میں یا دماغ میں؟ دماغ خود ہی تو بدروح نہیں کہ آدمی کے اندر سما گیا ہے؟ انتظار حسین اکثر یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا میں، میں ہی ہوں یا وہ دوسرا جس کا ذکر ہو رہا تھا، وہ دوسرا کوئی دوسرا نہیں ہے، وہ خود ہی ہے۔ چنانچہ کہانی کا مرکزی کردار محسوس کرتا ہے کہ ہڈیوں کا ڈھانچ وہ خود ہی ہے اور ٹانگیں لمبی لمبی ہو گئی ہیں اور بے تحاشہ بھوک لگ آئی ہے۔

    انتظار حسین کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے سارے وجود کو یعنی شعور و لاشعور، حافظے وعقیدے اور تجربے و مشاہدے کو تخلیقی نقطے پر مرتکز کر سکتے ہیں۔ وہ اپنی پوری فکر کے ساتھ وجود کو محسوس کرتے ہیں۔ وہ ان یادوں اور خوابوں کو واپس لانے کی سعی کرتے ہیں جو ماضی میں انسان کی مسرتوں اور اس کی خوشیوں میں بسے ہوئے تھے اور عہد حاضر کی یلغار میں یکایک غائب ہو گئے۔ وہ ان یادوں کو کھیل کے میدان سے بھاگے ہوئے بچوں کی طرح پکڑ پکڑ کر لاتے ہیں اور سب جمع ہوکر دھماچوکڑی مچاتے ہیں۔ انتظار حسین کہتے ہیں کہ انسان چونکہ یادیں رکھتا ہے، اس لیے ہے۔

    انتظار حسین کا یہ حوصلہ معمولی نہیں کہ وہ اجنبی جزیروں میں قدم رکھتے ہیں اور آدم زاد کو ڈھونڈتے ہیں۔ انسان خود کو بندروں، بکروں اور کتوں کے درمیان پاکر آنسو بہاتا ہے۔ جانور اسے خموشی کی زبان گویا میں تنبیہ کرتے ہیں کہ اے بدبخت تو جس جزیرے میں ہے وہاں ایک ساحرہ حکومت کرتی ہے۔ جو اس کی محل سرا میں جاتا ہے، جانور بن جاتا ہے۔ یہ جزیرہ عاقبت سرائے دنیا ہے اور ساحرہ عہد حاضر کی ترقیاں، اور یہ سب پہلے آدمی تھے پھر بندر، کتے اور بکرے بنتے چلے گئے۔

    اس ساحرہ کی محل سرا میں انسان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بندروں، کتوں اور بکروں کے درمیان چلتے ہوئے وہ اذیت سے سوچتا ہے کہ کب تک اپنے تئیں برقرار رکھ سکےگا۔ کبھی وہ دیکھتا ہے کہ مکھی بن گیا ہے۔ صبح جاگتا ہے تو سخت حیران ہوتا ہے کہ کیا وہ سچ مچ مکھی بن گیا ہے اور عمر بھر یہ طے نہیں کر سکتا کہ آیا وہ آدمی ہے یا مکھی۔ گھر پہنچ کر وہ کمرہ کھولتا ہے تو کپڑے بدلتے ہوئے اچانک اس کی نظر اپنی برہنہ ٹانگوں میں پڑتی ہے۔ کچھ شک کے ساتھ وہ اپنی برہنہ ٹانگوں کو دیکھتا ہے اور شک ہی شک میں یہ طے نہیں کر سکتا کہ یہ برہنہ ٹانگیں اس کی اپنی ٹانگیں ہیں یا بکرے کی ٹانگیں ہیں۔

    اس دور کی کہانیوں میں اس لحاظ سے ایک معنوی ربط اور وحدت ہے کہ ان میں سے زیادہ تر انسان کے روحانی زوال کو کسی نہ کسی نہج سے پیش کرتی ہیں اور وجود کی غرض وغایت اور نوعیت و ماہیت کے بارے میں طرح طرح کے سوال اٹھاتی ہیں۔ ’’کایا کلپ‘‘ اور ’’سوئیاں‘‘ اگرچہ تکنیک کے اعتبار سے ’’آخری آدمی‘‘ اور ’’زرد کتا‘‘ سے مختلف ہیں کہ ان میں پیرایہ دیووں اور شہزادیوں کی تمثیلوں کا ہے اور اگرچہ بنیادی موضوع ان کا بھی انسان کا زوال ہے، لیکن یہاں مرکزیت طمع دنیا، جنسی کشش یا ہوس ناکی کو نہیں، بلکہ خوف اور دہشت کو حاصل ہے جس سے شخصیت اپنے میں اندر ہی اندر سکڑنے لگتی ہے اور بالآخر معدوم ہو جاتی ہے۔

    بظاہر ’’کایا کلپ‘‘ کا نام ہی کافکا کی Metarmorphosis کی یاد دلانے کے لیے کافی ہے اور اتنی بات معلوم ہے کہ انتظار حسین کافکا سے متاثر ہیں اور جس طرح وہ انسان کے نہاں خانۂ باطن میں سفر کرتے ہیں اور خوف وہراس کی پھیلتی بڑھتی پرچھائیوں سے باطنی اور ظاہری دونوں دنیاؤں کے اسرار کھولتے ہیں اور انکشاف حقیقت کرتے ہیں، اس سے اتنا اندازہ تو کیا ہی جا سکتا ہے کہ خود انتظار حسین کی ذہنی ساخت اور ان کی تخیلی افتاد ان کے اظہار کو کافکائی راہ پر ڈال دیتی ہے۔ تاہم ہر جگہ موضوع کو برتنے کا پیرایہ انتظار حسین کا اپنا ہے۔ انتظار حسین کا تمثیلی اسلوب، مکالماتی بُنت اور معاشرتی فضا سازی ایسی زبردست انفرادایت لیے ہوئے ہے کہ انھیں نہ کسی کا مقلد کہا جا سکتا ہے نہ کسی سے متاثر۔

    ’’زرد کتا‘‘ اور ’’آخری آدمی‘‘ کے مقابلے میں ’’کایا کلپ‘‘ خاصی مختصر کہانی ہے، لیکن تاثر کے اعتبار سے ان سے کم نہیں۔ کہانی کی فضا داستانوں کی سی ہے۔ شہزادہ آزاد بخت اور سفید دیو کے نام تک داستانوں کی یاد دلاتے ہیں۔ شہزادی سفید دیو کی قید میں ہے۔ شہزادہ اسے رہائی دلانے آیا تھا لیکن خود سحر میں گرفتار ہو گیا۔ ہررات جب دیو کی دھمک سے قلعے کے درو دیوار لرزنے لگتے تو وہ سکڑنے لگتا اور سکڑتے سکڑتے ایک چوڑا سیاہ نقطہ رہ جاتا اور پھر ایک بڑی سی مکھی بن جاتا۔ ہوتے ہوتے اسے مکھی کی جون میں رات گزارنے کی اتنی عادت پڑ گئی کہ صبح ہونے پر سخت کشمکش کے بعد وہ مکھی سے آدمی بنتا اور نڈھال پڑا رہتا۔ یہ عمل روز بروز اور اذیت ناک ہوتا گیا اور بالآخر اسے محسوس ہونے لگا جیسے وہ مکھی کی جون سے تو نکل آتا ہے لیکن آدمی کی جون میں دیر تک نہیں آتا۔ تب شہزادی پچھتاتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے کہ وہ شہزادے کو مکھی نہیں بنائےگی۔

    چنانچہ دن ڈھلے اسے تہہ خانے میں بند کر دیتی ہے۔ پر جب دن ڈھلتا ہے تو وہ روز کی طرح سہم جاتا ہے اور آپ ہی آپ سمٹتا جاتا ہے۔ صبح ہونے پر دیو کے جانے کے بعد شہزادی تہہ خانہ کھولتی ہے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے کہ وہاں شہزادہ نہیں ہے اورایک بڑی مکھی بیٹھی ہے۔ وہ اپنا منتر پڑھ کر پھونکتی ہے کہ شہزادہ مکھی سے آدمی بن جائے، پر اس کا منتر کچھ اثر نہیں کرتا اور شہزادہ ہمیشہ کے لیے مکھی بن جاتا ہے۔

    یہ کہانی خوف کی نفسیات کو پیش کرتی ہے اور خوف ودہشت کے فشار سے انسانی شخصیت کس طرح پچک جاتی ہے، اس کیفیت کو تمثیلی سطح پر پیش کرتی ہے۔ کہانی کے آغاز میں شہزادی کے سحر سے شخصیت کے معدوم ہونے کا جو دائرہ شروع ہوا تھا، کہانی کے آخر میں شہزادہ آزاد بخت کے مستقل طور پر مکھی کے جون میں منتقل ہوجانے سے وہ مکمل ہو جاتا ہے۔ نفسیاتی عمل کے اس دائرے کا احساس انتظار حسین کہانی کے شروع ہی میں کرا دیتے ہیں کیونکہ کہانی کے انجام ہی سے انھوں نے اس کا آغاز کیا ہے، ’’شہزادہ آزاد بخت نے اس دن مکھی کی صورت میں صبح کی۔۔۔ اور وہ ظلم کی صبح تھی کہ جو ظاہر تھا چھپ گیا اور جو چھپا ہوا تھا وہ ظاہر ہو گیا۔‘‘

    شروع شروع میں شہزادی جب عمل پڑھ کر شہزادے کو مکھی بناتی اور دیوار سے چپکاتی ہے تو اس کی مردانہ غیرت جوش میں آتی ہے اور وہ سوچ کر احتجاج کرتا ہے کہ ’’اے آزاد بخت! تجھے اپنی عالی نسبی، اپنی ہمت وشجاعت پر بہت گھمنڈ تھا۔ آج تیرا گھمنڈ خاک میں ملاکہ ایک غیرجنس تیری جنس پر حکومت کرتا ہے اور ستم توڑتا ہے اور تو حقیر جان کی خاطر دنیا کی حقیر مخلوق بن گیا ہے۔‘‘ لیکن رفتہ رفتہ عزت نفس کا احساس معدوم ہو جاتا ہے اور عافیت کی خواہش غیرت اور مردانگی کے جوش کو خاک میں ملا دیتی ہے۔ اس کہانی میں انتظار حسین کا کمال ان باطنی کیفیات کا بیان ہے جو دہشت کے باعث یا مکھی کی جون میں آ جانے کے بعد شہزادہ محسوس کرتا ہے۔ صبح کو جب وہ جاگتا تو اس خیال میں غلطاں رہتا کہ کیا وہ سچ مچ مکھی بن گیا تھا؟ کیا آدمی بھی مکھی بن سکتا ہے؟ اس خیال سے اس کی روح اندوہ سے بھر جاتی، لیکن شام ہوتے ہوتے وہ پھر سمٹنے لگتا۔

    دن اس کے لیے اگرچہ شبِ وصل سے کم نہ تھا، لیکن کبھی کبھی دن میں اسے ایسا لگتا کہ وہ مکھی بن گیا ہے۔ شہزادی اس کی بانہوں کے حلقے میں ہوتی، اسے شک آ گھیرتا کہ کیا وہ آدمی کی جون میں ہے؟ وہ اندیشوں اور شکوں کے گھیرے کو توڑنے کی بار بار سعی کرتا اور دیو سے نمٹنے کا ارادہ کرتا لیکن اس کا ضعف اور اذیت بڑھتی جاتی اور اسے یہ سوال آ گھیرتا کہ وہ پہلے آدمی ہے، بعد میں مکھی، یا پہلے مکھی ہے اوربعد میں آدمی؟ اس کا دن ایک دھوکا ہے اور رات اصل ہے یا رات دھوکا ہے اور دن اصل ہے؟ آپ ہی آپ اسے اس خیال پر شک ہونے لگا، شاید میری رات ہی میری اصل زندگی ہو اور میرا دن میرا بہروپ ہو۔ وہ اس ادھیڑ بن میں لگ جاتا ہے کہ اس کی اصل کیا ہے۔ ہر چیز اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ ’’میں کہ مکھی تھا پھر مکھی بن گیا ہوں۔‘‘

    یہ انسانی وحیوانی یا عقلی و جبلی قوتوں کے درمیان تصادم اور کشاکش کی وہ منزل ہے جب شہزادہ آزاد بخت آدمی بھی تھا اور مکھی بھی۔ یہاں بالواسطہ طو رپر انتظار حسین یہ بنیادی سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ کیا انسان کی اصل اس کی جبلت ہے اور عقل وشعور کا ارتقا ثانوی ہے یا خارجی قوتوں کا دباؤ جب حد سے بڑھتا ہے تو انسان اپنی حیوانی اصل کی طرف پلٹتا ہے،

    ’’شہزادے کو خیال سا ہوا کہ شاید اس کے اندر بہت گہرائی میں ایک ننھی مکھی بھنبھنا رہی ہے۔ اس نے اسے وہم جانا اور رد کر دیا۔ پھر رفتہ رفتہ اسے خیال ہوا کہ کہیں سچ مچ وہ مکھی ہی نہ ہو۔۔۔ تو مکھی میرے اندر بھی پل رہی ہے؟ اس خیال سے اسے بہت گھن آئی جیسے وہ اپنی ذات میں نجاست کی پوٹ لیے پھر رہا ہو، جیسے اس کی ذات دودھ گھی تھی اور اب اس میں مکھی پڑ گئی ہے۔‘‘

    خوف کا دباؤ بڑھتا ہے تو ہوتے ہوتے شہزادہ اپنا نام بھی بھول جاتا ہے۔ تب وہ بہت پریشان ہوتا ہے کہ اس کا نام کیا ہے۔ ’’نام! اس نے کہا حقیقت کی کنجی ہے۔ میری حقیقت کی کنجی کہاں۔‘‘ شہزادہ آزاد بخت نے اپنا نام بہت یاد کیا پر اسے اپنا نام یاد نہ آیا اور وہ بے حقیقت بن گیا۔ جیسے وہ سب کچھ اپنے پچھلے جنم میں تھا اور جیسے یہ اس کا نیا جنم تھا اور اس میں وہ محض مخلوق تھا یعنی حیوانی مخلوق۔ چنانچہ مکھی اس کی بڑی اور قوی ہوتی چلی گئی اور اس کا آدمی ماضی بنتا چلا گیا۔ مکھی کی جون سے واپس آتا تو اسے اپنا آپا میلا نظر آتا، طبیعت گری گری سی، بدن ٹوٹا ہوا، جیسے رات بند بند الگ ہو گیا اور ابھی پورے طور پر جڑ نہیں پایا۔ اسے لگتا کہ اس کے عقب میں کوئی چیز بھنبھنا رہی ہے اور وہ پھر نہاتا اور اپنے تئیں میلا پاتا، اسے متلی ہونے لگتی اور اپنے آپ سے گھِن آتی۔ اسے ہر چیز میلی اور غلیظ نظر آتی۔ قلعے کی دیواریں، درختوں کے پتے، نہر کا پانی حتی کہ شہزادی بھی۔ اسے وہم ہونے لگتا ہے کہ اس کے اندر بھنبھناتی ہوئی مکھی اس کی روح کے اندر اتر رہی ہے۔

    بالآخر آدمی کی جون میں واپس آنا اس کے لیے قیامت بن گیا۔ شہزادے سے مکھی یا انسان سے حیوان تک تو خیر ٹھیک تھا لیکن انتظار حسین اسی پر بس نہیں کرتے۔ وجود کی ماہیت کی بحث کو بھی چھیڑتے ہیں۔ شہزادہ بار بار سوچتا ہے کہ شاید وہ مکھی بھی نہیں ہے اور آدمی بھی نہیں ہے تو پھر وہ کیا ہے؟ شاید وہ کچھ بھی نہیں۔ اس خیال سے اسے پسینہ آنے لگتا اور نبض ڈوبنے لگتی۔ شروع شروع میں یہ ہوتا تھا کہ جب شہزادی عمل پڑھ کر شہزادے کو مکھی بناتی اور چھپا دیتی، تب بھی دیو رات بھر ’’مانس گند مانس گند‘‘ چلّاتا رہتا تھا گویا اسے انسان کے وجود کا خطرہ ہو۔ لیکن کہانی کے آخر میں جب شہزادی آزاد بخت کو مکھی نہیں بناتی تو اس رات اگرچہ شہزادہ یعنی آدمی تہہ خانے میں موجود ہے لیکن دیو ’’مانس گند مانس گند‘‘ نہیں چلّاتا، اس لیے کہ اس کی آدمیت ختم ہو چکی ہے اور وہ مارے خوف کے خود بخود آدمی سے مکھی بن چکا ہے۔

    شہزادی حیران ہوتی ہے کہ جب وہ شہزادے کو مکھی بنا دیتی تھی تب بھی اس کی آدمی والی بو ہی باقی رہتی تھی۔ لیکن آج کیا ہوا کہ میں نے اسے مکھی نہیں بنایا مگر دیو پھر بھی ’’مانس گند مانس گند‘‘ نہیں چلّایا۔ انسانی شخصیت کے زوال کی انتہا یہی ہے کہ اس کی آدمی والی بو ہی جاتی رہے۔ ماحول کے منفی اثرات سے وہ اپنی ذات میں اتنا پسپا ہو گیا ہے کہ منتر پڑھنے پر بھی آدمی کی جون میں نہیں آتا اور یہ ظلم کی صبح ہے کہ جس کے پاس جو تھا چھن چکا ہے اور جو جیسا تھا ویسا نکل آیا ہے یعنی آج کا انسان جس عدم تحفظ اور خوف کی فضا میں سانس لے رہا ہے اور جس بے یقینی کا شکار ہے، اس کی وجہ سے وہ اپنے وجود میں سکڑ کر مکھی بن جانے پر مجبور ہے۔

    انتظار حسین کے ایسے افسانے آج کے خوف زدہ انسان کی نفسیات کا عکس پیش کرتے ہیں۔ انتظار حسین کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے آج کے انسان کے اخلاقی اور روحانی زوال کے سلسلے کی ایک ایک کڑی کو اس طرح بیان کیا ہے کہ قاری کو اپنے اندر کی مکھی، زرد کتا، بندر یا بکرے کی ٹانگیں صاف دکھائی دینے لگتی ہیں۔ انتظار حسین اصرار کرتے ہیں کہ انسان بنے رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی تشخیص کریں، اپنی شناخت کریں اور ذات سے عاری نہ ہو جائیں۔ اپنے کرداروں کے بارے میں انتظار حسین لکھتے ہیں،

    ’’اپنی ایک کہانی میں میں نے اس مکھی کی کہانی لکھی تھی جو اپنا گھر لیپتے لیپتے اپنا نام بھول گئی تھی۔ اس نے بھینس سے جاکر پوچھا کہ بھینس بھینس میرا نام کیا ہے؟ بھینس نے جواب دیے بغیر دم ہلاکر اسے اڑا دیا۔ پھر اس نے گھوڑے سے جاکر یہ سوال کیا۔ گھوڑے نے بھی اپنی کنوتیاں ہلاکر اسے اڑادیا۔ وہ بہت سی مخلوقات کے پاس یہ سوال لے کر گئی اور کسی نے اس کا جواب نہ دیا۔ آخر وہ ایک بڑھیا کے پیر پر جا بیٹھی۔ بڑھیا نے ہشت مکھی کہہ اسے اڑا دیا اور مکھی کو اس ذلت کے طفیل اپنا نام معلوم ہوا۔ کیا عجب ہے کہ میں نے جو بعض نحوست مارے کردار سوچے ہیں، وہ اسی چکر میں ہوں۔

    یہ شخص جو اپنی پرچھائیں سے ڈرا ڈرا پھرتا تھا، وہ شخص جس کا سارا بدن سوئیوں میں بیندھا ہوا تھا، وہ شخص جسے اپنی ٹانگیں بکرے کی نظر آئیں، وہ شخص جو ہزار ریاضت کے باوجود زرد کتے کی زد سے نہ بچ سکا، وہ شخص جو شہزادے سے مکھی بن گیا، وہ شخص جو آخرکار بندر بن کر رہا، میں نے ان سب کے پاس جا جاکر اپنا نام پوچھا اور باری باری ہرایک پر شک ہوا کہ یہ میں ہوں۔ لیکن شاید میں ذلت کے اس آخری مقام تک نہیں پہنچا ہوں، جہاں پہنچ کر میں اپنے آپ کو پاسکوں۔ ذلت کی اس انتہا تک پہنچنا میری افسانہ نگاری کا منتہا ہے۔‘‘

    دیو اور شہزادی کی تمثیل ’’سوئیاں‘‘ میں بھی ملتی ہے۔ ’’کایا کلپ‘‘ میں شہزادہ، شہزادی کو دیو کی قید سے رہا کرانے کے لیے قلعے میں آیا تھا مگر خوف اور دہشت سے سکڑتے سکڑتے اپنی پہچان کھوبیٹھا۔ ’’سوئیاں‘‘ میں بھی دیو، شہزادی اور شہزادے کا مثلث ہے۔ لیکن ’’کایا کلپ‘‘ میں کہانی کی معنویت شہزادے کی ذہنی کیفیت اور باطنی کرب کے حوالے سے کھلتی ہے، یہاں خاتمے پر نفسیاتی موڑ ہے جو ان جانی حقیقت کے خوف کا پروردہ ہے۔ اس میں شہزادہ مرا ہوا تہہ خانے میں پڑا ہے، اس کا جسم سوئیوں سے بیندھا ہوا ہے اور کہانی انجام پر پہنچ کر اپنے غیرمتوقع موڑ کی وجہ سے اپنی معنویت کھولتی ہے۔ ایک انجانی حقیقت کا خوف، وسوسہ اور شک اچانک شہزادی کو آ گھیرتا ہے اور وہ اس سے مغلوب ہو جاتی ہے۔ خوف کا غلبہ دونوں کہانیوں میں مشترک ہے، لیکن وہاں جانی پہچانی حقیقت کا خوف ہے اور یہاں انجانی حقیقت کا خوف ہے جس کی دہشت سے عمل کی رویک لخت بدل جاتی ہے۔

    ’’کایا کلپ‘‘ کے مقابلے میں ’’سوئیاں‘‘ کمزور اور کم مؤثر کہانی ہے، وہ اس لیے کہ اس میں خوف کی لمحہ بہ لمحہ بڑھنے والی پرچھائیوں کے ذہنی سفر کی وہ داستان رقم نہیں ہوئی جو ’’کایا کلپ‘‘ میں ملتی ہے اور جو انسان کی اصلی فطرت کو آئینہ دکھاتی ہے یا جبلتوں کو آشکار کرتی ہے، یا وجود کی ماہیت پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ وہاں معنی کی تہیں ایک کے بعد ایک کھلتی ہیں۔ یہاں ایک ہی پرت ہے جو آخر میں ایک ہلکے سے دھچکے کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ تاہم اتنا واضح ہے کہ ایسی تمثیلیں، حکایتیں اور قصے کہانیاں انتظار حسین کے تحت الشعور کا حصہ ہیں۔ وہ جب اور جہاں چاہتے ہیں ان کا چقماق رگڑتے ہیں اور ان سے معنوی شرار جھڑنے لگتے ہیں۔

    یہاں انتظار حسین کے اس فن کی طرف بھی اشارہ ضروری ہے کہ ان کا بنیادی تجربہ چونکہ ہجرت کا تجربہ ہے اور ہجرت اور سفر لازم وملزوم ہیں، اس لیے ان کے افسانوں بالخصوص وجودی افسانوں میں سفر یا اپنی ذات کی تلاش ایک انتہائی معنی خیز Motif کا درجہ رکھتی ہے۔ ’’وہ جو کھوئے گئے‘‘ اور ’’شہر افسوس‘‘ کی بنیاد ہی سفر پر ہے۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ ’’پرچھائیں‘‘، ’’ہڈیوں کا ڈھانچ‘‘، ’’ہم سفر‘‘، ’’ٹانگیں‘‘ اور ’’کٹا ہوا ڈبہ‘‘ میں بھی سفر کلیدی Motif کا درجہ رکھتا ہے۔ ’’پرچھائیں‘‘ کا مرکزی کردار ایک دوسرے شخص کی تلاش میں جگہ جگہ جاتا ہے لیکن یہ تلاش دراصل خود اپنی تلاش ہے۔ ایک نام کے دو کیا ہوتے نہیں؟ بلکہ ایک نام کے کئی کئی ہوتے ہیں۔ چلتے چلتے اسے وہم سا ہوتا ہے اور آن کی آن میں ایک تصور سا بندھ جاتا ہے جیسے وہ نہیں بلکہ کوئی دوسرا اسے ڈھونڈرہا ہے اور وہ خودجگہ جگہ چھپتا پھر رہا ہے۔

    انتظار حسین نے یہاں اس حکایت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جو کئی صوفیا سے منسوب ہے یعنی حضرت با یزید نے کسی سے پوچھا تو کون ہے اور کس کو پوچھتا ہے؟ سائل نے جواب دیا مجھے بایزید کی تلاش ہے اور حضرت بایزید نے پوچھا، کون بایزید؟ میں بھی بایزید کو ڈھونڈتا ہوں، مگر مجھے وہ ملا نہیں۔ سارا دن اپنی ذات کی پرچھائیں کی ڈھونڈیا میں گزر جاتا، وہ سوچتا ہے ہم کس جسم کی پرچھائیں ہیں۔ قافلہ جو گزر گیا اور پرچھائیں جو بھٹک رہی ہے، ’’ہم کس گزرے قافلے کی پرچھائیاں ہیں۔ میں بھٹکتی پرچھائیوں کے قافلے میں سے ایک بھٹکتی پرچھائیں ہوں، میں کسی وہم کی موج ہوں! میں ہوں، ہرچند کہ ہوں نہیں ہوں۔‘‘ وہ اسے جگہ جگہ ڈھونڈتا ہے۔ ہوٹل میں، سائیکل اسٹینڈ پر، برآمدے میں، گھر میں، پھر وہ ایڈورڈ ہوسٹل کا رخ کرتا ہے اور بس میں سوار ہوتا ہے۔

    بس کا سفر انتظار حسین کی متعدد کہانیوں میں روحانی سفر یا ذات کی کھوج کے استعارے کے طور پر ابھرتا ہے۔ ’’پرچھائیں‘‘ میں بھی جب وہ دن بھر بھٹکنے کے بعد گھر واپس آرہا ہے تو پھر ایک خالی اندھیری بس برابر سے گزر جاتی ہے مگر اتنی چپ چاپ کہ پتا بھی نہیں چلتا۔ تھوڑی دیر میں پھر سامنے سے آتی ہوئی بس کو دیکھ کر وہ کھمبوں کے سایے سایے میں چلنے لگا۔ بس جو ایک آنکھ سے اندھی تھی، اس میں سب سے پیچھے کی سیٹ پر کھڑکی کے قریب کوئی بیٹھا تھا، سوچا کوئی کنڈکٹر ہوگا مگر بس خالی ہو تو پھر کوئی پچھلی نشست پر کیوں بیٹھےگا۔

    اسی بس سے ہماری ملاقات ’’ہڈیوں کاڈھانچ‘‘ میں بھی ہوتی ہے جہاں وہ پچھلی سیٹ پر سب سے الگ جا بیٹھتا ہے مگر اگلے اسٹاپ پر اتنے مسافر آ جاتے ہیں کہ وہ جو سب سے الگ بیٹھا تھا وہ بھی ان کا حصہ بن جاتا ہے اور برابر میں ایک شخص چنے کی پھنکیاں لگا رہا تھا۔ بیٹھے بیٹھے طرح طرح کے خیالات اس کے دماغ میں آتے ہیں اور نکل جاتے ہیں۔ وہ سوچتا ہے یہ بس آخر کب تک چلتی رہےگی۔ بس کا ٹرمنل ابھی دور تھا لیکن اسے خفقان ہونے لگتا ہے اور وہ اگلے ہی اسٹاپ پر اتر جاتا ہے۔ انتظار حسین کی اکثر کہانیوں میں اندرونی سفر کی جہات مختلف وسیلوں سے روشن ہوتی ہیں۔ ذہن میں یک بہ یک کوئی سوال پیدا ہو جاتا ہے، کوئی وہم سر اٹھاتا ہے یا شک یا وسوسہ آ گھیرتا ہے یا پرچھائیاں تیرتی ہیں یا ذہن دھند سے اٹھ جاتا ہے یا پھر ایک کے بعد ایک یادیں، تصویریں، واقعات کی کڑیاں یا کیفیتوں کے نقوش ذہن میں بلبلوں کی طرح ابھرتے اور تحلیل ہوتے ہیں۔ یہ سب سوچنے اور مسلسل سوچنے کے عمل کا لازمہ ہے۔

    انتظار حسین کے ذہن کی اس آسیبی کیفیت یا پر اسراریت کی طرح طرح سے توضیح کی گئی ہے اور بعض جگہ تو لوگوں نے دلچسپ نتائج نکالے ہیں۔ خود انتظار حسین کے نزدیک سوچنا ایک ڈراؤنا عمل ہے جس میں وہ کافکا کے ہم سفر ہیں۔ بات یہ نہیں کہ ان کا ذہن چھلاووں اور پرچھائیوں میں گھرا ہوا ہے یا اس میں کسی ڈر یا خوف کا بسیرا ہے، بلکہ اصل یہ ہے کہ وہموں اور وسوسوں یا معتقدات اور توہمات یا دیو مالا اور مذہبی روایات کے ذریعے وہ ان دیکھے جزیروں کی سیر کرتے ہیں اور بظاہر نظر آنے والی چیزوں کے پیچھے نہ نظر آنے والی حقیقتوں کے نہاں خانے میں نقب لگاتے ہیں اور صدیوں کے رشتوں کی بازیافت کرتے ہیں۔ وہ خارجی ظواہر کے بطون میں اترکر زندگی کے بھید پوچھنا چاہتے ہیں۔

    بس کے سفرکا Motif افسانہ ’’ہم سفر‘‘ میں بھی ملتا ہے۔ جہاں کہانی کا ’’وہ‘‘ غلط بس میں سوار ہو جاتا ہے۔ اسے بس کا انتظار کھینچنے کا بہت تلخ تجربہ تھا۔ اکثر یہی ہوا کہ جانے کس کس راستے کی بس آئی اور گزر گئی، نہ آئی تو ایک اس کی بس نہ آئی۔ زندگی میں بارہا ایسا ہوتا ہے کہ انسان غلط راستے پر پڑ جائے یا غلط بس میں سوار ہو جائے تو پھر لاکھ اترنے کی کوشش کرے مگر بس چلتی رہتی ہے۔ ’’بس میں سفر کرنا بھی ایک قیامت ہے۔‘‘

    ’’ہم سفر‘‘ ساری کی ساری سفر ہی سے عبارت ہے۔ مختلف چہرے، مختلف لوگ، طرح طرح کی باتیں، طرح طرح کی منزلیں۔ اس کا جی چاہا کہ وہ سب سواریوں سے کہے کہ ہم غلط بس میں سوار ہو گئے مگر پھر اسے خیال آیاکہ غلط بس میں تو وہ سوار ہوا تھا۔ باقی سب سواریاں صحیح سوار ہوئی تھیں، ’’تو ایک ہی بس ایک وقت صحیح بھی ہوتی ہے اور غلط بھی ہوتی ہے؟ ایک ہی بس غلط راستے پر بھی چلتی ہے اور صحیح راستے پر بھی چلتی ہے؟‘‘ پھر وہ اس گتھی کو یوں سلجھاتا ہے کہ بس کوئی غلط نہیں ہوتی۔ بسوں کے تو راستے، اسٹاپ اور ٹرمنس مقرر ہیں۔ غلط اور صحیح مسافر ہوتے ہیں۔ وہ اپنے کندھے پر سر رکھ کر سونے والے ہم سفر کو دیکھتا ہے اور سوچتا ہے کہ کیسا ہم سفر ہے کیونکہ وہ تو غلط بس میں ہے اور سونے والا صحیح بس میں ہے۔ پھر وہ دونوں ہم سفر کہا ں ہوئے ’’تو میرا کوئی ہم سفر نہیں ہے۔‘‘ مگر وہ کہاں جا رہا ہے، وہ پوچھتا ہے کیوں بھئی واپس جانے والی بس ملےگی؟

    ’’ملے نہ ملے ایسا ہی ہے، وقت تو ختم ہو گیا۔‘‘ یہ سوچ کر اس کا دل بیٹھنے لگتا ہے کہ وقت ختم ہو گیا۔ جو موقع ملا تھا، وہ ہم نے کھو دیا تھا، اب بھٹکنا شرط ہے۔ اس کا دھیان ان گزرے ہوئے اسٹاپوں پر جاتا ہے جہاں مسافر قافلوں کی صورت میں اترے اور گلیوں کی مثال بکھر گئے۔ لیکن ’’جب اسٹاپ سنسان ہو جائیں اور مسافر کو اکیلا اترنا پڑے اور اس کی چھوڑی ہوئی نشست کوئی نیا مسافر آ کر نہ سنبھالے تو بسوں کا اخیر ہوتا ہے۔‘‘ معاً ذہن زندگی کے آخر یا انسانی رشتوں کے آخر یا غلط فیصلوں کے لازمی نتائج کے آخر کی طرف جاتا ہے۔ بس کا سفر ’’دوسرا رشتہ‘‘ میں بھی ملتا ہے، لیکن یہ بس ڈبل ڈیکر ہے، دو منزلہ معاشرہ یا ایک ملک کے دو رخ۔ اس میں معنوی حوالہ اتنا نفسیاتی نہیں جتنا سیاسی اور سماجی ہو سکتا ہے، اس لیے اس کا ذکر آگے آئےگا، البتہ بس کی طرح سفر کے دوسرے وسیلے تانگہ اور ریل بھی انتظار حسین کی کہانیوں میں سفر کے Motif کے طور پر استعمال ہوئے ہیں۔

    افسانہ ’’ٹانگیں‘‘ میں ساختیاتی رو سے ظاہر ڈھانچا وہی ہے جو ’’ہم سفر‘‘ میں ہے، فرق صرف یہ ہے کہ وہاں ساری کہانی بس کے سفر کے سہارے سہارے چلتی ہے اور یہاں تانگے کے سفر کے ذریعے۔ ’’کٹا ہوا ڈبہ‘‘ البتہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس کا مرکزی سفر ریل کا سفر ہے۔ اس کہانی کا جو تجزیہ انتظار حسین نے ’’کہانی کی کہانی‘‘ میں کیا ہے، اس سے اس بات کی توثیق ہوتی ہے کہ خود انتظار حسین کو اس بات کا احساس ہے کہ سفر ان کے فن میں ایک بنیادی Motif کی حیثیت رکھتا ہے۔ انتظار حسین کہتے ہیں،

    ’’پرانی کہانی اور داستانوں میں کیا ہمارے یہاں اور کیا دوسروں کے یہاں سارا قصہ سفر ہی سے چلتا ہے۔ پرانے زمانے میں سفر انسانی زندگی کا بہت اہم معرکہ تھا۔ خطروں کی پوٹ اور تجربے کی کنجی۔ سفر وسیلۂ ظفر بھی رہا ہے اور بربادی کا بہانہ بھی اور وسائل سفر کی تبدیلی کے ساتھ قوموں کی حالت اور تہذیبوں کی صورت بھی بدلی۔ اگلے وقتوں کے لوگوں کو نئے زمانے سے شکایت ہی یہ ہے کہ وسائل سفر بدل گئے جس سے سفر کی دقت بھی کم ہوئی اور انسانی تجربے کی رنگارنگی اور زرخیزی بھی زائل ہوئی۔‘‘

    کہانی میں چار آدمی ہیں اور سفر کے قصے سنائے جا رہے ہیں۔ منظور حسین کو اپنی ایک بھولی کہانی یاد آتی ہے، ہر بار سنانے کی نیت باندھتا ہے اور ہر بار کوئی دوسرا اپنا قصہ چھیڑ دیتا ہے۔ ریل اس گفتگو میں ایک نئی اور اجنبی تہذیب کی یورش کی علامت بن کر آتی ہے۔ ریل گاڑی کی سیٹی عہد وسطیٰ کے ختم کی منادی تھی۔ نئے دور کی سواری آئی، فرنگی غلامی کا دور، مشین کی محکومی کا دور۔ اسی ریل گاڑی کے بنجر سفر سے منظور حسین کے سینے میں جو ’’کرن‘‘ اتری ہے، اس نے جو ’’ہیرا‘‘ پایا ہے، اسے وہ دوسروں سے چھپاتا بھی ہے اور انھیں دکھانا بھی چاہتا ہے۔ اتنے میں گلی سے ایک میت گزرتی ہے اور منظور حسین کی کہانی ان کہی رہتی ہے، جیسے چلتے چلتے اس کا ڈبہ گاڑی سے بچھڑ کر اکیلا کھڑا رہ گیا اور گاڑی سیٹی دیتی، شور مچاتی دور نکل گئی۔

    یہاں سفر کے حوالے سے انتظار حسین نے بقول خود اس اطمینان اور بے اطمینانی کی ملی جلی کیفیت، نیز اس کی تہہ میں ہلکی ہلکی سی اداسی اور تنہائی کو بھی ابھارا ہے جو موجودہ دور میں میکانکیت کی یورش سے عبارت ہے۔ اس وضاحت کے سلسلے میں انتظار حسین نے اپنے ماضی، حال اور مستقبل کے تصور کو بھی بیان کیا ہے کہ ماضی حال میں نفوذ کرتا ہے اور حال وہ گھڑی ہے جب دونوں وقت ملتے ہیں یعنی ماضی اور مستقبل کا جنکشن اور سامنے سے گزرنے والی میت مستقبل ہے۔ ’’سب کتھاؤں سے لمبی کتھا، سواریاں بدل گئیں، سفر کی خطرناکی ختم ہوئی مگر ایک سفر اسی طرح اندھیرا اور گنگ ہے۔ لالٹین لے کر نکلیے، مشعلیں جلائیے، بجلی روشن کیجئے، یہ اندھیرا اٹل ہے۔ ماضی بھی اندھیرا، مستقبل بھی اندھیرا ہے۔ منور نقطۂ حال ہے۔‘‘ 

    بصیرت کے ساتھ سفر کرتے ہوئے انسان اس ’’منور کرن‘‘ کو پا لیتا ہے، جسے جاوداں کہتے ہیں اور جو زندگی اور کائنات کی کتھا بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان ڈرتا بھی ہے اور چلتا بھی ہے، انسان سفر سے باز نہیں رہا، کیونکہ سفر وسیلۂ ظفر ہے۔ انسان نے اب تک اسی انداز سے سفر کیا ہے اور کر رہا ہے اور غالباً یہی سفر انتظار حسین کے فن کا منتہا بھی ہے۔

    انتظار حسین کا یہ باطنی تمثیلی سفر جو آخری آدمی کے افسانوں میں اپنے عروج پر ملتا ہے، اس کا نقطۂ آغاز دراصل دن اور داستان میں شامل ’’جل گرجے‘‘ ہے جسے اس مجموعے میں ’’ایک داستان‘‘ کہا گیا ہے۔ اس میں پہلی بار انتظار حسین نے داستان کے اسلوب میں قدیم وجدید کے امتزاج کی کوشش کی تھی۔ ’’جل گرجے‘‘ میں حکیم جی اپنے دوستوں، غنی، صدیق، نصیر اور عدالت علی کو گزرے زمانوں کے قصے سناتے ہیں۔ اپنا دردِ دل بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ میاں داستانیں ہندوستان میں رہ گئیں اور وہاں بھی کہاں، اپنا سارا داستان خانہ لٹ گیا، ورق ورق بکھر گیا، ایسے لٹے جیسے غدر میں گھر لٹتے تھے۔ پھر وہ آنکھیں بند کیے حقے کی نے منہ سے لگائے دو داستانیں سناتے ہیں۔

    پہلی جو انھیں سمند خاں، ابن ارجمند خاں، ابن دماوند خاں نے سنائی تھی جو سالار اعظم بخت خاں کے لشکر طوفان اثر کا ادنیٰ سپاہی تھا۔ اس میں پہلی جنگ آزادی یعنی غدر اور اس میں جنرل بخت خاں کی سرکردگی اور شجاعت وپامردی کا ذکر ہے۔ اس میں موضوع کی سماں بندی آلھا اودل کے مصرعے: ندی نر بدا کا جل گرجے گرجے گنگا کی دھار۔۔۔ سے ہوئی ہے۔ دوسری داستان جو اسی داستان کا دوسرا حصہ ہے اور جو ’’گھوڑے کی ندا‘‘ کے نام سے ’’جل گرجے‘‘ میں نہیں ہے، اس کو بھی حکیم جی سناتے ہیں۔ اس کا موضوع بھی حب الوطنی اور جذبۂ آزادی کے وہی جذبات ہیں جو بخت خاں کی داستان کے ضمن میں ابھرے تھے۔ اس حصے میں حیدر علی اور ٹیپو سلطان کی شجاعت اور بہادری کی روایت بیان ہوئی ہے۔ اس میں سبز پوش سوار وشمشیرِ آب دار کا بھی ذکر ہے، جس سے ٹیپو سلطان کے زمانے میں کئی گزری ہوئی صدیوں کی گونج اور شہادت امام حسین کی روایت کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

    غالباً داستانی اسلوب کو تاریخ یا حقائق کے بیان کرنے کے لیے اختیار کرنے کا یہ انتظار حسین کا پہلا تجربہ تھا۔ دونوں داستانیں اپنی جگہ مکمل ہیں اور نہایت پرکشش اور پر تاثیر۔ لیکن یہ رہتی داستانیں ہی ہیں۔ قدیم وجدید کا وہ امتزاج جو انتظار حسین کے فن میں زبان کی ساخت اور کرداروں کی تعمیر میں کہانی کی تکنیک اور داستان کے پیرایے کو باہم ممزوج ومربوط کرنے سے عبارت ہے، اس کی گرہیں بتدریج آخری آدمی کی کہانیوں ہی میں کھلتی ہیں۔ گویا ’’جل گرجے‘‘ میں داستانی انداز کو اپنانے کی جو بشارت ملتی ہے، آخری آدمی کی کہانیوں میں وہ ذہن وروح کو سرشار کرنے والی صداقت بن کر سامنے آتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ تمثیلی انداز مستقل طور پر انتظار حسین کے فن کی خصوصیت خاصہ کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔ کہانی کے روایتی ڈھانچے کو تو علامتیت اور استعاریت نے توڑ ہی دیا تھا، انتظار حسین نے داستانی اسلوب وعناصر کی مدد سے ایک تازہ سرئیلی ذائقہ سے آشنا کرایا جس کی کوئی نظیر اس پیمانے پر اردو افسانے میں نہیں ملتی۔

    (۳)
    انتظار حسین کے فن کا تیسرا پڑاؤ ان کہانیوں سے عبارت ہے جن کے بنیادی محرک اتنے نفسیاتی، انسانی مسائل نہیں، جتنے سماجی سیاسی مسائل ہیں۔ ان کا مجموعہ شہر افسوس اس منزل کی صاف نشاندہی کرتا ہے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ شہر افسوس کی کہانیاں سب کی سب ۱۹۶۷ء اور ۱۹۷۲ء کے درمیان لکھی گئیں، لیکن اس مجموعے کی کہانیوں کو ایک ساتھ پڑھنے سے اتنا ضرور محسوس ہوتا ہے کہ انھیں کسی منصوبے کے تحت ہی ایک مجموعے میں یک جا کیا گیا ہے۔ انتظار حسین پر لکھنے والوں نے ان کہانیوں کی سیاسی، سماجی جہت پر وہ توجہ نہیں کی جو ان کا حق ہے، یا پھر کچھ لوگوں کو انتظار حسین کے اس اختتامیے نے بھٹکایا ہے جو شہرِ افسوس کے آخر میں شامل ہے۔ اس میں ماضی کے اندھیرے میں پیچھے کی طرف سفر کا جو اشارہ ہے، اس کے باعث بھی شاید عام پڑھنے والوں کو انتظار حسین کے ذہنی سفر میں کسی بڑی تبدیلی کا احساس نہ رہا ہو، حالانکہ انتظار حسین کے تخلیقی سفر میں یہ تبدیلی اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے، جتنی کہ اس سے پہلے کی وجودی انسانی جہت والی تبدیلی۔

    کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گلی کوچے اور کنکری کے افسانوں اور آخری آدمی کے افسانوں میں جو فرق ہے، کچھ ویسا ہی بنیادی فرق آخری آدمی اور شہر افسوس کے افسانوں میں بھی ہے۔ پہلے دور کے بعد چونکہ موضوعات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ پیرایۂ بیان اور اسلوب بھی بدلا تھا، یعنی انتظار حسین نے حکایات، ملفوظات، اساطیر اور مذہبی روایات کی مدد سے تمثیلی انداز اختیار کیا تھا، اس لیے وہ تبدیلی عام طور پر محسوس کر لی گئی تھی، جبکہ دوسرے دور کے بعد چونکہ صرف محرکات کی نوعیت بدلی اور رویہ وہی باطنی اور پیرایۂ بیان وہی تمثیلی، حکایتی رہا، اس لیے اس اہم تبدیلی کو پوری طرح محسوس نہیں کیا گیا۔ ممکن ہے اس میں کچھ ہاتھ اس اعتراض والزام کا بھی رہا ہو کہ انتظار حسین ماضی پرست ہیں، پیچھے کی طرف دیکھتے رہتے ہیں، اندھیروں یا آسیبوں میں مبتلا رہتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں وہ رجعت پسند یا ظلمت پسند ہیں۔

    یہ اعتراض اتنی شدت سے کیا گیا کہ انتظار حسین کو جو بہترین تنقیدی صلاحیت کے بھی مالک ہیں، اپنی ماضی سے دلچسپی کے بارے میں طرح طرح کی تاویلیں کرنی پڑیں۔ اگرچہ ان کی نثر کا حال محبوب کی زلف کا سا ہے جو پیچ دے کر دل کو اڑا لے جاتی ہے، تاہم چونکہ معترضین کو کوئی سروکار ادب یا اس کے جمالیاتی تقاضوں سے نہیں اور چونکہ حوالے، دلائل یا ثبوت ایسے لوگوں کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے، جہاں بات ان کے مطلب کی نہ ہو، آسانی سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور روز روشن کو بھی ظلمت سے تعبیر کر سکتے ہیں، اس لیے کسی جواب کی ضرورت ہی نہ تھی۔

    ہمارے معاشرے کی ایک خرابی یہ بھی ہے کہ ہم اصل کو نہیں، لیبل کو دیکھتے ہیں۔ غلط یا صحیح، اردو میں ایسے لیبل نظریاتی یا شخصی کمیں گاہوں میں بیٹھ کر تیار کیے جاتے ہیں اور پھر سازش کے تحت چپکائے جاتے ہیں۔ فن کار کی حوصلہ شکنی تو ہوتی ہے، لیکن اگر وہ سچا اور کھرا ہے تو ان کی حرکتوں کو جھیل جاتا ہے، البتہ قاری بے چارہ گمراہی کا شکار ہوتا ہے اور غیرادبی افترا پردازیوں کو شہ ملتی ہے۔ لوگ چونکہ سنی سنائی میں یقین رکھتے ہیں، پڑھتے بھی ہیں تو دوسروں کی عینک سے اور سوچنا بہرحال ایک تکلیف دہ عمل ہے، اس لیے لیبل خواہ وہ کتنا ہی غلط ہو، چل نکلتا ہے۔

    مطعون کرنے والے چونکہ سب کچھ اپنی لیک کی حفاظت اور اپنے ذہنی تعصب کی بنا پر کرتے ہیں، اس لیے ان کے غیرجانبداری سے ادب پڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ شاید اسی وجہ سے ان لوگوں کا مقدر یہی ہے کہ سنجیدہ ادبی گفتگو میں انھیں نظرانداز کر دیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ سارا ادب، جووجودی، انسانی جہت کا ادب ہے، بھی ایک طرح سے ’’سماجیت‘‘ رکھتا ہے اور انتظار حسین کے یہاں تو اس سے بڑھ کر اور بھی بہت کچھ ہے جو سیاسی اور سماجی مسائل سے ان کے گہرے تخلیقی رشتے کا ضامن ہے۔ اس نظر سے دیکھا جائے تو شہر افسوس کی بیشتر کہانیوں کا مطالعہ انتظار حسین کے فن کی ایک نہایت معنی خیز اور فکر انگیز جہت کو سامنے لاتا ہے۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ انتظار حسین نے اپنے اس مجموعے کا نام اپنی کہانی ’’شہر افسوس‘‘ کی بناپر شہر افسوس بلا وجہ نہیں رکھا۔ یہ شہر افسوس کہاں ہے اور کیوں ہے، اس کا ذکر آگے آئےگا۔

    ’’شہر افسوس‘‘ میں بھی دو طرح کی کہانیاں ہیں۔ ایک وہ جن میں معاشرے کا درد تمثیلی پیرایے میں رمزیہ انداز سے بیان ہوا ہے اور جب تک اس طرف توجہ نہ کی جائے، اس کی تفہیم آسان نہیں۔ دوسری کہانیاں وہ ہیں جہاں تمثیلی پیرایے کا لبادہ کہیں کہیں سے چاک ہو گیا ہے اور یہ درد ابھرکر سامنے آ گیا ہے۔ پہلی قسم کی کہانیوں میں ’’وہ جو کھوئے گئے‘‘، ’’شہر افسوس‘‘، ’’دوسرا گناہ‘‘ اور ’’وہ جو دیوار کو نہ چاٹ سکے‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ’’وہ جو کھوئے گئے‘‘ داستانی انداز کی مکالماتی کہانی ہے۔ تحیر واستعجاب کی کیفیت شروع ہی سے قاری کو گرفت میں لے لیتی ہے اور ذات کے گمشدہ حصے کی کھوج کی سعی وجستجو آخر تک قائم رہتی ہے۔ اس میں چار بے نام آدمی ہیں: زخمی سر والا، باریش آدمی، نوجوان آدمی اور وہ جس کے گلے میں تھیلا پڑا ہوا ہے۔ چاروں اس شک میں مبتلا ہیں کہ ان میں ایک کم ہو گیا ہے۔ چاروں انگلی اٹھاکر ایک ایک کو گنتے ہیں، بار بار گنتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ ’’ایک آدمی کہاں ہے؟

    کہانی میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ شروع ہی سے محسوس ہو جاتا ہے کہ یہ چاروں قتل وخون اور ماردھاڑ سے بچ کر آئے ہیں۔ ایک آدمی کا سر زخمی ہے، اس سے خون ابھی تھوڑا تھوڑا رس رہا ہے، وہ درخت کے تنے سے سر ٹکائے ہوئے آنکھیں کھول کر پوچھتا ہے، ’’ہم نکل آئے ہیں؟‘‘ باریش آدمی اطمینان بھرے لہجے میں کہتا ہے، ’’خدا کا شکر ہے ہم سلامت نکل آئے۔‘‘ یعنی جہاں سے آئے ہیں، وہاں تباہی تھی اور سلامت نکل آنا اطمینان کی بات ہے۔ یہ سب جانیں بچاکر بھاگے ہیں۔ باریش آدمی زخمی سر والے سے کہتا ہے، ’’عزیز فکر مت کر، خون رک جائےگا اور زخم اللہ چاہےگا تو جلد بھر جائےگا۔‘‘

    خون تباہی وبربادی، قتل وغارت اور حرب وضرب کا استعارہ ہے۔ اسی طرح زخم جدائی یا ہجرت کا یا زمینوں اور تہذیبوں سے بچھڑنے کا اشارہ ہو سکتا ہے۔ چاروں کا بچ کر ادھر آ جانا، اپنی سلامتی پر اطمینان کا اظہار کرنا اور گم شدہ شخص کے لیے زخمی سر والے کا لاٹھی لے کر اس طرف چلنا جس طرف سے کتے کے بھونکنے کی آواز آرہی ہے، اپنے وجود کے پیچھے چھوڑے ہوئے یا گم شدہ حصے کی تلاش کا مظہر ہو سکتا ہے۔ پوری کہانی میں دہشت، خوف، کھوج اور گم شدہ حصے کو دوبارہ پانے کی فضا ہے۔ کتے کے بھونکنے کی آواز دور اندھیرے سے آتی ہے۔ زخمی سروالا ایک جانب جاتا ہے تو کتے کی آواز دوسری جانب سے آتی ہے۔ تھیلے والا لاٹھی اٹھا لیتا ہے، باریش آدمی بھی اٹھ کھڑا ہوتا ہے، چاروں مل کر اس طرح جاتے ہیں، دور تک جاتے ہیں، کچھ نظر نہیں آتا۔ ’’یہاں تو کوئی بھی نہیں ہے۔‘‘

    باریش آدمی ہمت بندھاتا ہے، ’’پکار کر دیکھو، اسے یہیں کہیں ہونا چاہیے۔‘‘ زخمی سر والے نے پکارنے کا ارادہ کیا۔ لیکن اس کے ذہن سے اس کا نام ہی اتر گیا۔ نام تو نام، انہیں اس کی صورت بھی یاد نہیں رہی۔ سب سوچ میں پڑ گئے کہ ’’اب ہمیں نہ اس کا نام یاد ہے، نہ صورت یا دہے، کیا خبر کون مل جائے۔‘‘ چاروں پلٹتے ہیں، وہیں آتے ہیں جہاں سے چلے تھے اور انھیں یاد کرکے آبدیدہ ہوتے ہیں جنھیں وہ چھوڑ آئے تھے۔ کہانی ان چاروں دہشت زدہ اور بچھڑے ہوئے انسانوں کے مکالموں کے ذریعہ آگے چلتی ہے۔ ویرانہ، تنہائی، رات کا سناٹا اور خوف وہراس کا عالم۔ باریش آدمی سمجھتا ہے کہ وہ بے شک ہم ہی میں سے تھا، مگر جس قیامت میں ہم گھروں سے نکلے ہیں اس میں کون کس کو پہچان سکتا تھا۔

    باتوں ہی باتوں میں انتظار حسین ان کی گمشدگی کا رشتہ صدیوں کے ان قافلوں سے ملا دیتے ہیں جن کا ایک نام غرناطہ ہے، ایک جہاں آباد، ایک بیت المقدس اور یو ں کہانیوں کی معنیاتی فضا تاریخ کے قدیم زمانوں پر محیط ہو جاتی ہے۔ باریش آدمی کو اس بات کا دکھ ہے کہ وہ اپنا سب کچھ تو چھوڑ آئے ہیں مگر کیا اپنی یادیں بھی چھوڑ آئے ہیں۔ تھیلے والا آدمی کہتا ہے کہ اسے تو صرف اس قدر یاد ہے کہ گھر دھڑ دھڑ جل رہے تھے اور ہم بھاگ رہے تھے۔ باریش آدمی آہِ سرد بھرتا ہے اور کہتا ہے، ’’کیا بستی تھی کہ جل گئی‘‘، ’’کیا خلقت تھی کہ بکھر گئی‘‘، ’’کیا صورتیں تھیں کہ نظروں سے اوجھل ہو گئیں۔‘‘

    زخمی سروالا آنکھیں موندے موندے کہتا ہے، ’’مجھے کچھ یاد نہیں۔‘‘ باریش آدمی، ’’چوٹ زیادہ شدید ہو تو دماغ سن ہو جاتا ہے اور حافظہ تھوڑی دیر کے لیے معطل ہو جاتا ہے۔‘‘ تھیلے والا، ’’میرے سر میں کوئی چوٹ نہیں لگی، پھر بھی مجھے خاصی دیر تک یوں لگا جیسے میرا دماغ سن ہو گیا ہے۔‘‘ اس سے اشارہ اس جذباتی اور روحانی چوٹ کی طرف ہے جس سے حواس سن ہو گئے ہیں۔ چاروں یاد کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ بھی یاد نہیں آتا۔ وہ ایک بار، دوبار، غرض بار بار خود کو گنتے ہیں۔ پہلے زخمی سروالا، پھر باریش آدمی، پھر تھیلے والا اور پھر نوجوان گننے کا عمل دہراتا ہے اور گنتی کے دوران گننے والا خود کو بھول جاتا ہے۔ انہیں صرف یہی خلش ہے کہ ان میں سے ایک ٓدمی کم ہو گیا ہے۔ یہ آدمی کون ہے۔

    ’’پھر نوجوان دفعتاً چونکا۔ اسے یاد آیا کہ گنتے ہوئے اس نے بھی اپنے آپ کو نہیں گنا تھا اور اس نے کہا کہ جو آدمی کم ہے وہ میں ہوں۔‘‘ یہ کلام سنتے سنتے تھیلے والے آدمی نے یاد کیا کہ گنتے ہوئے تو اس نے بھی خود کو نہیں گنا تھا۔ اس نے سوچا کہ کم ہو جانے والا آدمی وہ ہے۔۔۔ تب سب چکر میں پڑ گئے اور یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ آخر وہ کون ہے جو کم ہو گیا ہے۔ اس آن زخمی سر والے کو لگا کہ ’’وہ آدمی تو یہیں کہیں ہے مگر میں نہیں ہوں۔

    باریش آدمی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا، ’’عزیز تو ہے۔‘‘ ایک ایک ساتھی نے اسے یقین دلایا کہ وہ ہے۔ تب اس نے ٹھنڈا سانس بھرا اور کہا کہ ’’چونکہ تم نے میری گواہی دی اس لیے میں ہوں۔ افسوس کہ اب میں دوسروں کی گواہی پر زندہ ہوں۔‘‘ اس پر باریش آدمی نے کہا، ’’اے عزیز شکر کر کہ تیرے لیے تین گواہی دینے والے موجود ہیں۔ ان لوگوں کو یاد کرجو تھے، مگر کوئی ان کا گواہ نہ بنا۔ سو وہ نہیں رہے۔‘‘ زخمی سر والا بولا، ’’سو اگر تم اپنی گواہی سے پھر جاؤ تو میں بھی نہیں رہوں گا۔‘‘

    یہ کلام سن کر پھر سب چکرا گئے اور ہرایک دل ہی دل میں یہ سوچ کر ڈرا کہ کہیں وہ تو وہ آدمی نہیں ہے جو کم ہو گیا ہے اور ہر ایک اس مخمصہ میں پڑ گیا کہ اگر وہ کم ہو گیا ہے تو وہ ہے یا نہیں ہے۔ زخمی سروالا ہنسا۔ رفیقوں نے پوچھا کہ اے یار تو کیوں ہنسا۔ اس نے کہا کہ ’’میں یہ سوچ کر ہنسا کہ میں دوسروں پر تو گواہ بن سکتا ہوں مگر اپنا گواہ نہیں بن سکتا۔‘‘ اس کلام نے پھر سب کو چکرا دیا۔ ایک وسوسے نے ان سب کو گھیرا اور ان سب نے نئے سرے سے اپنے آپ کو گننا شروع کر دیا۔ اس بار ہر گننے والے نے گننے کا آغاز اپنے آپ سے کیا مگر جب گن چکا تو گڑبڑا گیا اور باقیوں سے پوچھا کہ ’’کیا میں نے اپنے آپ کو گنا تھا۔۔۔؟‘‘

    باریش آدمی نے سب کی سنی۔ پھر یوں گویا ہوا کہ ’’عزیزو میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ جب ہم چلے تھے تو ہم میں کوئی گم نہیں تھا۔ پھر ہم کم ہوتے چلے گئے۔ اتنے کم ہوئے اتنے کم ہوئے کہ انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے۔ پھر ہمارا اپنی انگلیوں پر سے اعتبار اٹھ گیا۔ ہم نے ایک ایک کرکے سب کو گنا اور ایک کو کم پایا۔ پھر ہم میں سے ہرایک نے اپنی اپنی چوک کو یاد کیا اور اپنے آپ کو کم پایا۔‘‘

    پوری کہانی میں تحیر وتجسس کی یہی فضا ہے۔ کہانی برصغیر کی ہجرت کے حوالے سے تقویت حاصل کرتی ہے جو بنیادی طور پر سیاسی ہے۔ ایک گہرے المیے کا احساس روح کو جکڑے رہتا ہے، گویا کائنات کے اس خرابے میں انسان اپنی آگہی سے عاری ہو چکا ہے یا اپنی اصل سے کٹ کے کھوسا گیا ہے، لیکن کم بخت دل ہے کہ دھڑکے جاتا ہے اور رات کے سناٹے میں جو آج کا سماج ہے، کھوج جاری ہے۔

    ’’شہر افسوس‘‘ میں بھی اس المیے کا احساس ہے اور ہجرت کے بعد کی کیفیت ہے۔ یہ کہانی اس زبردست اجتماعی تجربے سے تعلق رکھتی ہے جس سے پورا برصغیر گزرا ہے۔ ’’شہر افسوس‘‘ پاکستان بھی ہے اور ہندوستان اور یہ پورا برصغیر بھی شہر افسوس ہو سکتا ہے۔ اس میں تین آدمی ہیں اور بہنوں، بیٹیوں اور بی بیوں کی عصمت دری کرنے اور معصوموں کی عزت لوٹنے کے بعد وہ ڈھے چکے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ گویا مر چکے ہیں۔ ان کے اندر خون جم چکا ہے۔ قریہ قریہ بھاگتے پھرے، کبھی اس کوچے میں کبھی اس گلی میں مگر ان کے لیے ہر گلی بند گلی تھی اور ہر کوچہ بند کوچہ تھا۔

    شہر خرابی سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ پھر ایک میدان آیا جہاں خلقت ڈیرا ڈالے پڑی ہے۔ بچے بھوک سے بلکتے ہیں، بڑوں کے ہونٹوں پر پیڑیاں جمی ہیں، ماؤں کی چھاتیاں سوکھ گئی ہیں، گوری عورتیں سنولا گئی ہیں۔ یہ کیسی بستی ہے؟ جواب ملا کہ ’’اے بدنصیب! تو شہر افسوس میں ہے اور ہم سیہ بخت یاں دم سادھے موت کا انتظار کرتے ہیں۔‘‘ ان سطروں میں جو گہرا طنز ہے، کیا اس کی سیاسی سماجی معنویت سے کسی کو انکار ہو سکتا ہے؟

    ’’اے لوگو سچ بتاؤ، تم وہی نہیں ہو جو اس بستی کو دار الامکان جان کر دور سے چل کر آئے اور یہاں پسر گئے۔ انھوں نے کہا کہ اے شخص تو نے خوب پہچانا۔ ہم انھیں خانہ بربادوں کے قبیلے سے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ خانہ بربادو، تم نے دار الامان کو کیسا پایا۔ بولے خدا کی قسم، ہم نے اپنوں کے ظلم میں صبح کی۔ یہ سن کر میں ہنسا۔ وہ میرے ہنسنے پر حیران ہوئے۔ میں اور زور سے ہنسا۔ وہ اور حیران ہوئے۔‘‘

    کہانی کا مرکزی احساس یہ ہے کہ جو لوگ اپنی زمین سے بچھڑ جاتے ہیں پھر کوئی زمین انھیں قبول نہیں کرتی، جو زمین جنم دیتی ہے وہ بھی اور جو دار الامان بنتی ہے وہ بھی۔ گیا کا بھکشو کہتا ہے کہ میں نے گیا نگری میں جنم لیا اور یہ جانا کہ دنیا میں دکھ ہی دکھ ہے اور نروان کسی صورت نہیں اور ہر زمین ظالم ہے۔ یہ مکالمہ اس سے آگے بڑھتا ہے اور فکر مطلق کی کچھ ایسی کیفیت سے دوچار کرتا ہے جو اپنشدوں کی یاد دلاتی ہے،

    ’’اور آسمان؟‘‘

    ’’آسمان تلے ہر چیز باطل ہے۔‘‘

    میں نے تامل کیا اور کہا کہ ’’یہ سوچنے کی بات ہے۔‘‘

     ’’سوچ بھی باطل ہے۔‘‘ 

    ’’بزرگ سوچ ہی تو انسانیت کی اصل متاع ہے۔‘‘ 

    وہ دو ٹوک بولا، ’’انسانیت بھی باطل ہے۔‘‘ 

    ’’پھر حق کیا ہے؟‘‘ میں نے زچ ہوکر پوچھا۔

    ’’حق؟ وہ کیا چیز ہوتی ہے؟‘‘

    ’’حق‘‘ میں نے پورے زور اور اعتماد کے ساتھ کہا۔ اور اس نے سادگی سے کہا کہ ’’جسے حق کہتے ہیں وہ بھی باطل ہے۔‘‘

    انتظار حسین پوچھتے ہیں کہ یہ کون سی گھڑی ہے اور یہ کیا مقام ہے، جواب ملتا ہے یہ زوال کی گھڑی ہے ور مقام عبرت ہے اور جس شخص نے بہنوں اور ماؤں کی عصمت دری کی ہے، وہ وہ خود ہے۔ اس نے اپنے آپ کو پہچانا اور مر گیا، کیونکہ اپنے آپ کو پہچاننے کے بعد زندہ رہنا مشکل ہے۔ سب لوگ اپنے اپنے گناہوں کو یاد کرتے ہیں اور اپنے چہروں کو مسخ پاتے ہیں۔ سوچتے ہیں، ’’آگے جب ہم نکلے تھے تو اپنے اجداد کی قبریں چھوڑ آئے تھے اور اب نکلے ہیں تو اپنی لاشیں چھوڑ آئے۔‘‘

    ایک شخص اس عورت کا قصہ سناتا ہے جو فرنگی سے بہت لڑی، ’’پھر اجڑکر اپنے خوشبو شہر سے نکلی اور نیپال کے جنگلوں میں مثل بوئے آوارہ کے کھو گئی۔ آفت زدہ شہر میں لاپتہ ہونے سے یہ بہتر ہے کہ آدمی گھنے مہیب جنگلوں میں کھو جائے۔‘‘

    ’’وہ جو کھوئے گئے‘‘ میں ہجرت کے مسئلے کو غرناطہ، جہاں آباد اور بیت المقدس کے تناظر میں دیکھا گیا تھا۔ یہاں دو اور ہجرتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلی گوتم بدھ کی ہجرت جو فلسفیانہ تھی اور دوسری حضرت محل کی ہجرت جو قومی اور سیاسی تھی۔ ان دونوں کے حوالے سے انتظار حسین نے کہانی میں صدیوں کے دکھ درد کا احساس پیدا کر دیا ہے۔ کہانی کا انجام اسی احساس کے ساتھ ہوتا ہے کہ ہر شخص شہر افسوس میں ہے اور گیا کے بھکشو کی بات یاد آتی ہے کہ ’’ہر زمین ظالم ہے اور آسمان تلے ہر چیز باطل ہے اور اکھڑے ہوؤں کے لیے کہیں امان نہیں ہے۔‘‘

    ’’وہ جو دیوار کو نہ چاٹ سکے‘‘ میں یاجوج ماجوج کی تمثیل ہے جو دن بھر دیوار کو چاٹتے ہیں۔ حتیٰ کہ دیوار انڈے کے چھلکے کے مانند ہو جاتی ہے اور وہ یہ کہہ کر سو جاتے ہیں کہ باقی دیوار صبح کو چاٹیں گے مگر جب صبح اٹھتے تو سدّ سکندری پھر موٹی اور اونچی ہو جاتی ہے۔ یاجوج ماجوج بھائی ہیں۔ یہ کوئی دو ہمسایہ ملک یا معاشرے بھی ہو سکتے ہیں۔ سد سکندری دونوں کی مشترک دشمن ہے جو پہاڑ کی مثال دونوں کے سروں پر کھڑی ہے۔ کیا غربت، افلاس، جہالت، مغربی طاقتوں کا استحصال اور استعماریت ابھرتے ہوئے معاشروں کے لیے سد سکندری نہیں، جسے وہ چاٹ کر ختم کر دینا چاہتے ہیں، لیکن ختم نہیں کر پاتے۔

    طبرستان کے ٹھنڈے، میٹھے چشمے کے پانی تک پہنچنے کے لیے آل یاجوج اور آل ماجوج ایک دوسرے سے لڑنے لگے اور انھوں نے ایک دوسرے کے خون میں ہاتھ رنگے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ یاجوج ماجوج سد سکندری کو چاٹنے کے بجائے رات بھر ایک دوسرے کو چاٹتے رہے۔ حتی کہ یاجوج ماجوج کے چاٹنے سے اور ماجوج یاجوج کے چاٹنے سے انڈے کی مثال رہ گیا۔ بوڑھے دانش مند نے انھیں گتھم گتھا دیکھ کر بصد افسوس کہا کہ ’’یافت کی اولاد دو منھواں سانپ بن گئی کہ خود ہی کو ڈس رہی ہے۔‘‘ کسی بھی تمثیلی کہانی کی طرح اس کہانی کی بھی کئی تعبیریں ہو سکتی ہیں۔ باہم دگر برسرپیکار دو بھائی، یا دو قومیں یا دو معاشرے یا دو پڑوسی ملک کہاں نہیں ہیں۔ برصغیر میں بھی، خلیج فارس میں بھی، مشرق وسطی میں بھی، ویت نام اور کمبوڈیا کمپوچیا میں بھی اور دنیا کے کس حصے میں نہیں، لیکن خیرات تو گھر ہی سے شروع ہوتی ہے۔

    ’’دوسرا گناہ‘‘ میں الیملک، ہشام اور زمران کی تمثیل ہے، جس کے ذریعے انتظار حسین نے نہایت فنکارانہ طور پر سماجی طبقات کی تقسیم اور نابرابریوں کے وجود پر اظہار خیال کیا ہے۔ یہ کہانی اس مزے کی ہے کہ اگر مارکسی احباب اس کو کھلے دل سے پڑھیں تو اس تمثیل کو اپنے معاشی فلسفے کی تمثیل جانیں اور بعید نہیں کہ دعویٰ کریں کہ یہ کہانی شدید طور پر ’’ترقی پسند‘‘ نظریات کی حامل ہے۔ ان لوگوں نے جو دور دور کی زمین سے چل کر یہاں پہنچے تھے، ہشام کو اپنے میں بڑا جان کر بیچ میں بٹھایا کہ منصفی کرے۔ اس نے ساری زندگی ٹاٹ پہنا، اور سب کے ساتھ ایک دستر خوان پر بیٹھ کر موٹی روٹی کھائی اور مٹی کے پیالے میں پانی پیا۔ جب وہ مرا تو اس کے بیٹے زمران کو اپنے بیچ بٹھایا۔ زمران نے بھی خوب منصفی کی۔ پھر ہوا یہ کہ زمران کے دسترخوان کے لیے آٹا باریک پیسا جاتا تھا اور ایک بڑی سی چھلنی میں چھانا جاتا تھا اور بھوسی لوگوں میں تقسیم کر دی جاتی تھی تاکہ جنھیں آٹا کم ملے انھیں بھوسی زیادہ ملے۔

    یوں زمران کے دستر خوان کی روٹی کی رنگت اور ہو گئی اور خلقت کے دستر خوان کی رنگت اور ہوگئی۔ الیملک دستر خوان پر بیٹھے ہوئے زمران کی روٹی کے اجلے پن کو دیکھ کر حیران ہوا کہ گوشت ناخن سے جدا ہو گیا ہے اور گیہوں تھوڑا اوربھوک زیادہ ہو گئی۔ چنانچہ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ الیملک اپنی زوجہ کو لے کر بستی سے نکل گیا اور دور جنگل میں جاکر ڈیرا ڈالا۔ پھر یوں ہوا کہ ایک قافلہ خستہ وخراب وہاں پہنچا، پھر دوسرا، پھر تیسرا۔ قافلے آتے چلے گئے اور ڈیرے ڈالتے چلے گئے۔ سب سے آخر میں وہ قافلہ آیا جس کا بزرگ سب کے بیچ بیٹھ کر سب کا بزرگ بنا اور منصف ٹھہرا۔ اس کے پاس کچھ سازوسامان نہ تھا۔ سوائے ایک آٹے کی چھلنی کے اور یہ آٹے کی پہلی چھلنی تھی جو اس بستی میں پہنچی۔ گویا اس طرح اونچ نیچ اور طبقاتی نابرابری کا چکر پھر سے شروع ہو گیا۔

    اب تک تیسرے دور کی جن کہانیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سماجی سیاسی معنویت گہرے تمثیلی پیرایے میں ملتی ہے۔ اگر ان افسانوں کی سماجی سیاسی معنویت پر اصرار نہ کیا جائے تب بھی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کی دوسری تعبیریں بھی ممکن ہیں اور بیانیہ کا لطف واثر بالذات طور پر بھی قائم رہتا ہے۔ لیکن شہر افسوس میں ان کہانیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تعداد ایسی کہانیوں کی ہے جن کی کوئی تعبیر سیاسی، سماجی اور معاشرتی حوالے کے بغیر ممکن ہی نہیں، یعنی سماجیت سے انکار ہی نہیں کیا جا سکتا۔ اگرچہ پہلی نوع کی کہانیاں کہیں زیادہ مؤثر، معنیاتی طور پر کہیں زیادہ بھرپور اور جمالیاتی طور پر کہیں زیادہ پرلطف ہیں۔ بہرحال ’’مشکوک لوگ‘‘، ’’شرم الحرام‘‘، ’’کانا دجال‘‘، ’’دوسرا راستہ‘‘، ’’اپنی آگ کی طرف‘‘ اور ’’اندھی گلی‘‘ کو براہ راست سیاسی اور سماجی کہانیوں کی ذیل میں رکھا جا سکتا ہے۔

    ان کہانیوں میں وہ فنی حسن اور تہہ داری نہیں جو تمثیلی کہانیوں کی خصوصیت ہے، اس لیے ان کے تفصیلی تجزیے کی ضرورت نہیں، صرف موضوع کی طرف اشارہ کر دینا کافی ہوگا۔ ’’مشکوک لوگ‘‘ میں چار دوست ہیں، کسی کا تعلق کسی پیشے سے ہے، کسی کا کسی پیشے سے، لیکن چاروں ایک دوسرے پر شک کرتے ہیں کہ ان میں سے ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ دوسرا سیاسی طور پر بکا ہوا ہے اور وہ خود سر سے پیر تک ایماندار ہے۔ ’’شرم الحرام‘‘ میں مسئلہ بیت المقدس پر ناجائز قبضے اور عرب اسرائیل تنازعے کا ہے۔ یہی موضوع ’’کانا دجال‘‘ کا بھی ہے جس میں موسودایاں کی تطبیق روایت کے کانے دجال سے کی ہے، یعنی وہ جرنیل جس کی ایک آنکھ نہیں ہے اور ہرا پردہ ڈالے رکھتا ہے، امریکہ جس طرح اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے اور جس طرح غریب ملکوں کی طرف امداد کے طور پر چند ٹکڑے پھینک دیتا ہے، جو دراصل اس کے کانوں کا میل بھی نہیں، اس سیاسی صورت حال پر انتظار حسین نے پرزور طنز کیا ہے۔

    ’’دوسرا راستہ‘‘ اس لحاظ سے اہم کہانی ہے کہ اس میں معاشرے کی اس سماجی سیاسی حالت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جسے انتظار حسین کے ناول ’’بستی‘‘ کے دوسرے حصے کا پیش خیمہ کہا جاسکتا ہے۔ ظفر اور امتیاز ڈبل ڈیکر میں کھڑکی کے برابر بیٹھے کہیں جارہے ہیں۔ ڈبل ڈیکر میں دو منزلیں ہیں۔ کہیں یہ ایسے ملک یا معاشرہ کی طرف تو اشارہ نہیں جس کے دو حصے ہوں؟ بس میں ایک شخص کے ہاتھ میں لمبی سی چھڑی ہے۔ چھڑی سے ٹنگی ہوئی گتے کی تختی پر لکھا ہوا ہے، ’’میرا نصب العین، مسلمان حکومت کے پیچھے جمعہ ادا کرنا۔‘‘ کتبے والا آدمی بار بار تقریر کرتا ہے اور ایمان والوں کو انصاف واحتساب کی دعوت دیتا ہے۔ گویا یہ بس پورا معاشرہ ہے جس میں طرح طرح کے لوگ سوار ہیں۔ راستے میں مشتعل ہجوم بسوں پر پتھر برسا رہا ہے۔ چنانچہ ڈبل ڈیکر بس دوسرا راستہ اختیار کرتی ہے۔ بس اپنے ’’روٹ ہی پر نہ چل رہی ہو تو اسٹاپ پر رکنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘

    کئی بار دونوں کو یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ جب یہ بس چلی تھی تو اس کا نمبر ’’ایک‘‘ تھا، اب پتہ نہیں اس کا کیا نمبر ہے اور یہ کہیں پہنچےگی بھی یا نہیں، یا اس کا ’’ڈرائیور‘‘ نہایت غلط قسم کا آدمی ہے جو کئی حادثے کر چکا ہے۔ سواریوں کی ہڈیاں پسلیاں تُڑوا ڈالتا ہے اور خود صاف بچ نکلتا ہے۔ سواریاں یہ بھی سوچتی ہیں کہ ’’شاید بس بغیر ڈرائیور کے چل رہی ہے۔‘‘ ظفر اور امتیاز برابر سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں کہ وہ ’’اسٹیشن‘‘ ہی کی طرف جا رہے ہیں یا کہیں اور۔ دونوں کے سامنے ’’میرا نصب العین‘‘ والا کتبہ ہے اور دونوں کو یقین نہیں کہ وہ سلامتی سے نکل جائیں گے۔ کچھ اسی نوعیت کی بے یقینی اور سماجی طنز کی کیفیت ’’سیکنڈ راؤنڈ‘‘ میں بھی ملتی ہے جو آخری آدمی کی واحد سیاسی کہانی ہے جس میں ہندوستان پاکستان کی جنگ کو موضوع بنایا گیا ہے۔

    ’’اپنی آگ کی طرف‘‘ کی معنویت بھی سماجی سطح پر کھلتی ہے۔ یوں تو اس کہانی کی دوسری تعبیر بھی کی گئی ہے، لیکن کہانی اتنی واضح ہے کہ کسی دوسری تعبیر کی گنجائش ہی نہیں۔ ایک عمارت میں آگ لگ گئی اور وہ شخص جو برسوں سے اس عمارت میں ایک کمرے میں رہتا تھا، باہر کھڑا ہے۔ لوگ اس سے کہتے ہیں اپنا سامان نکالو لیکن وہ ایسا نہیں کرتا۔ ’’گھر کی چیزیں گھر کے اندر رکھے رکھے جڑپکڑ لیتی ہیں۔ پھر انھیں ان کی جگہ سے اٹھانا بہت مشکل ہوتا ہے، لگتا ہے کہ درخت اکھاڑ رہے ہوں۔‘‘ شہر میں گڑبڑ ہے۔ ’’روز آگ، روز آگ۔ حد ہوگئی۔ کیوں جی کچھ چھوڑیں گے بھی یا سب ہی جلا ڈالیں گے۔ جب ہم ایک دوسرے پر رحم نہیں کرتے تو اللہ ہم پر کیوں رحم کرے گا۔‘‘ بعض بعض عمارت اس طرح جلتی ہے کہ ساتھ میں لگی بستی راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہے۔ اللہ اپنا رحم کرے۔ پوری کہانی میں خانہ جنگی، بدامنی اور آتش زنی کی فضا ہے۔

    شیخ علی ہجویری کی روایت کہانی میں مرکزیت پیدا کرتی ہے کہ ایک پہاڑ میں آگ لگی ہوئی ہے، آگ کے اندر ایک چوہا ہے کہ اندھا دھند چکر کاٹ رہا ہے مگر جیسے ہی وہ پہاڑ کی آگ سے باہر نکلتا ہے، مر جاتا ہے۔ مرکزی کردار کا ’’گھر‘‘ جل چکا ہے، لیکن وہ اپنے ’’گھر‘‘ کی طرف جاتا ہے، اپنی آگ کی طرف، کیونکہ وہ مرنا نہیں چاہتا۔ موت ’’اندر‘‘ بھی ہے اور موت ’’باہر‘‘ بھی ہے۔ لیکن ’’گھر‘‘ کی موت ’’باہر‘‘ کی موت سے بہتر ہے۔ خانہ جنگی اور بدامنی کی حالت میں یہ کیسا معنی خیز اشارہ ہے۔

    ان کہانیوں میں جگہ جگہ مکالموں اور صورت حال کے ذریعے، کرداروں کے احساسات اور ذہنی کیفیات کے ذریعے اور حکایتوں اور تمثیلوں کے ذریعے انتظار حسین نے معاشرے پر بھرپور تنقید کی ہے۔ ان کا لہجہ کہیں بھی مایوسی، الم ناکی یاد رشتی کا نہیں بلکہ ہمدردانہ ہے۔ یہ اندازِ نظر واضح سیاسی شعور اور گہری سماجی ذمہ داری کی دین ہے۔ البتہ جس طرح سے یہ مجموعہ ’’وہ جو کھوئے گئے‘‘ سے شروع ہوکر ’’شہر افسوس‘‘ پر ختم ہوتا ہے، اس سے انتظار حسین کے بعض ناقدین کو ہر طرف قیامت ہی قیامت کے آثار نظر آنے لگے اور انتظار حسین کے فکشن کو Doomsday Fiction سے تعبیر کیا جانے لگا۔ ’’گھٹن سی گھٹن ہے۔ کہیں روزن ہے نہ دریچہ۔ خوابوں اور خوش فہمیوں کو پناہ گاہ بنانے والے پرانے درختوں کی طرح کاٹ دیے جاتے ہیں، جلاکر ڈھیر کر دیے جاتے ہیں۔‘‘ (محمد سلیم الرحمن)

    لیکن وہ اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس مجموعے میں انتظار حسین کا بنیادی Concern اپنے عہد کے سیاسی المیوں کی فکر اور وقت کے لگائے ہوئے زخموں کا احساس ہے۔ اس سے میرے مندرجہ بالا مقدمے کی توثیق ہوتی ہے۔ ان کا بیان ہے، ’’ساتویں دہائی اور آٹھویں دہائی کے آغاز سے انتظار حسین کو بہت کچھ ملتا ہے جو ایندھن کا کام کرتا ہے اور ان کے ذہنی آتش دان کو روشن رکھتا ہے۔ ایوب راج کے خلاف بے اطمینانی کا ابال، ۱۹۶۵ء کی جنگ کا دل خراش انجام، مشرقی پاکستان کی بھیانک خونریزی اور ان سب پر طرہ۔۔۔ دسمبر ۱۹۷۱ء کی فوجی تاراجی، یہ سب زہر میں بجھے ہوئے تیر ہیں جو انتظار حسین کے الم انگیز اور خوں فشاں فن کے جسم میں پیوست ہیں۔‘‘ یہ اگر صحیح تو پھر یہ شکایت کیوں ’’یہ جینا بھی کوئی جینا ہے، مگر لگتا ہے جیسے جینے کا یہی انداز اپنایا جا رہا ہے۔‘‘

    گویا سیاسی المیوں یا سماجی زوال پر درد کا اظہار مثبت تخلیقی عمل نہیں ہے؟ کیا سماجی صورت حال پر تنقید یا طنز احتجاج کی شکل نہیں ہے؟ شاید یہ لوگ فن کار سے کسی حل کی توقع رکھتے ہیں یا راہ نجات جاننے کے خواہش مند ہیں۔ یہ رویہ بہت کچھ اس تنقید سے ملتا جلتا ہے جو ادب سے صرف مسیحائی یا پیغمبری کی توقع رکھتی ہے یا پھر اس سے فارمولہ زدہ سماجی خدمت کا کام لینا چاہتی ہے۔ نیک خواہشات کا احترام ضروری ہے، لیکن کیا کیا جائے کہ صدیوں سے منطقی علوم، سماجی علوم اور سائنس و تکنالوجی انسان کی فلاح وبہبود ہی کے نیک کام میں لگے ہوئے ہیں۔ لے دے کے ایک کم بخت ادب ہے جو انسانی فطرت کی نیرنگیوں اور بوالعجبیوں، ذہنی الجھنوں اور کشمکشوں اور نہاں خانۂ روح کی پرچھائیوں کی آماجگاہ ہے، یہی اس کی سماجی خدمت ہے۔

    انتظار حسین کے فن کے بارے میں اس سے ملتا جلتا نتیجہ محمد عمر میمن نے بھی اخذ کیا ہے۔ لگتا ہے انتظار حسین کے فن کو منفی قراد دینے میں وہ غالباً محمد سلیم الرحمن سے متاثر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انتظار حسین کی یہ کہانیاں ’’یاد داشت کے ایک شعوری عمل کے ذریعے ماضی کی بازیافت کی کوششیں (ہیں جن کا نتیجہ) ناکامی اور زوال (ہے) اور آخراً خود تخلیقی شخصیت کی موت۔‘‘ محمد عمر میمن نے ’’وہ جو کھوئے گئے‘‘ سے ’’شہرِ افسوس‘‘ تک اپنا تنقیدی سفر ’’سیڑھیاں‘‘ کے ذریعے طے کیا ہے۔ ان کو تین کہانیاں ایسی مل گئیں جن کے مفاہیم کی کھینچ تان سے وہ اپنے مفروضے کی تائید کر سکتے تھے۔ چنانچہ فن کار کے پورے ذہنی سفر سے علاقہ رکھنے کی کھکیڑ اٹھانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔

    تنقید کی نظر بھی کیسے کیسے تعصبات کو راہ دیتی ہے۔ ایک بار جب ہم کوئی مفروضہ گڑھ لیتے ہیں تو پھر اس کے حصار میں خود ہی قیدہوجاتے ہیں اور سوچتے یہ ہیں کہ قلعے کی فصیلیں اور ابواب محفوظ ہیں اور عافیت اسی میں ہے کہ کھلی فضا کو نہ دیکھیں اور چڑھتے اترتے سورج کی روشن قبا اور ڈوبتے نکلتے چاند ستاروں کے جال کے چکر میں نہ پڑیں۔ یہ تنقید بھی اس تنقید سے زیادہ دور نہیں جو فن کار کے لیے ہدایت نامہ تحریر فرماتی ہے، حکم لگاتی ہے، پیشین گوئیاں کرتی ہے اور فن کار کو اس راہ پر چلنے کی ترغیب دیتی ہے جس میں فارمولائی رفاہِ عام اور خدمتِ خلق کا زیادہ سامان ہو۔

    محمد سلیم الرحمن کی طرح محمد عمر میمن نے بھی ’’سیڑھیاں‘‘ کی اہمیت پر اصرار کیا ہے، لیکن میمن نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے جہاں رضی کو یاد رکھا، سید کو فراموش کر دیا۔ رضی کو نیند نہیں آتی اور خواب دکھائی نہیں دیتے، یہ اگر اشارہ ہے حافظے کے زوال کا توسید کو طرح طرح کے خواب دکھائی دیتے ہیں جنھیں وہ بیان کرتا ہے، چنانچہ وہ مظہر ہوا حافظے کی بازیافت کا۔ رضی کو بھلے ہی نیند نہ آئے یا خواب دکھائی نہ دے۔ (بقول میمن شخصیت کی موت حافظے کا زوال) لیکن کہانی کے آخر میں سید کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی ہیں اور وہ کہتا ہے کہ آج کوئی خواب ضرور دِکھےگا۔ یہ انجام منفی ہے یا مثبت؟ اس کا جواب جاننے کی ضرورت نہیں۔ رہا معاملہ ’’تخلیقی شخصیت کی موت‘‘ کا، تو اس پیشن گوئی کے بعد بہت سا پانی ہندوستان پاکستان کے دریاؤں میں بہہ چکا ہے اور تخلیقی شخصیت زندہ ہے یا نہیں، اس کا علم محمد عمر میمن کو ہوگا ہی۔ اس کے بعد انتظار حسین کے تازہ ذہنی سفر کا کچھ حال اور نئی مہم جوئیوں کا کچھ ذکر آگے آتا ہے۔

    شہر افسوس کی کہانیوں کے چند برس کے اندر اندر ہی انتظار حسین نے اپنا اہم ناول ’’بستی‘‘ لکھنا شروع کر دیا ہوگا، اس کا ڈول ڈال دیا گیا ہوگا۔ یہ ناول منظر عام پر ۱۹۸۰ء میں آیا۔ اس ناول کا تفصیلی ذکر یہاں موضوع سے خارج ہے، لیکن مختصراً اس کی طرف اشارہ کرنا اس لیے ضروری ہے کہ میں اس ناول کو انتظار حسین کے فن کی سماجی سیاسی جہت ہی کا ایک کارنامہ سمجھتا ہوں۔ بستی ایک معاشرہ یا آبادی یا شہر بھی ہے اور پورا ملک یا پورا برصغیر بھی۔ ناول میں جن مقامی تاریخی حوالوں کی زبان میں بات کی گئی ہے، ان کے پیش نظر اس وضاحت کی ضرورت نہیں کہ یہ بستی کون سی بستی ہے، اور یہ معاشرہ کون سا معاشرہ ہے، لیکن یہ محدود نوعیت کا فن پارہ نہیں کیونکہ اس میں اساطیری اور داستانی عناصر کے امتزاج سے اور باطنی خود کلامی کے اثر سے آفاقی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔ ناول تقسیم سے پہلے سے شروع ہوکر واقعات بنگلہ دیش کے کچھ بعد کے دور پر محیط ہے۔ اس میں دونوں جنگوں کا ذکر جس طرح سے آیا ہے اور ان کی معاشرتی، انسانی جہت سے جو بحث کی گئی ہے، اس کی کوئی مثال اس سے پہلے کے اردو فکشن میں نہیں ملتی۔

    انتظار حسین نے اپنے تمثیلی اسلوب سے جابجا کام لیا ہے، جس سے ناول میں تہہ داری، وسعت اور آفاقیت پیدا ہو گئی ہے۔ ناول کا بنیادی موضوع نہ صرف انسان کا بلکہ پورے پورے معاشروں کا زوال ہے۔ ہابیل قابیل کی روایت مرکزی استعارے کے طور پر بار بار ابھرتی ہے، یعنی خون سفید ہو گیا ہے، لالچ اور دوسرے کا حصہ مارنے کی وجہ سے جھگڑے بڑھ گئے ہیں، اور بھائی بھائی کا خون کرتا ہے۔ ناول کے شروع کے ابواب جو روپ نگر اور ویاس پور کی معاشرتی فضا کی بازیافت سے متعلق ہیں، بےحد پرتاثیر ہیں اور ان میں انتظار حسین کا فن اپنے عروج پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ناول کے ان ابواب کو پڑھ کر انتظار حسین کے ناولٹ ’’دن‘‘ اور افسانے ’’دہلیز‘‘ اور ’’سیڑھیاں‘‘ کی یاد تازہ ہو جاتی ہیں۔ ان میں کچھ کچھ اختلافات کے ساتھ بنیادی معاشرتی ماحول وہی ہے، وہی بچپن کی لمبی راتوں اور کھڑی دوپہریوں کے سلسلے، وہی نوجوان خاموش لڑکا اور وہی صابر وشاکر گھٹتی ہوئی لڑکی، وہی بندر، گلیاں، کھیت اور کنوئیں کی منڈیر، وہی یادوں کے دھندلے سلسلے اور خوابوں کی باتیں۔

    بستی کے بعد کے ابواب میں جہاں ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی آویزش وپیکار اور جنگوں کا ذکر ہے ان میں دبی دبی آگ اور گہرا درد ہے۔ سیاسی جزرومد یا محاربات تاریخ کا حصہ ہیں، انتظار حسین نے نہ واقعات بیان کیے ہیں، نہ حالات گنوائے ہیں، بلکہ عام انسانوں پر، سڑک کی بھیڑ پر، ریستورانوں میں بیٹھنے والوں پر، ٹریفک کی رفتار پر، گلی کوچوں، گھروں اور بازاروں پر، حتی کہ چرندوں، پرندوں، پیڑ پودوں پر ان المناک تنازعوں کے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں، یہ ساری رہنے بسنے والی دنیا اور پوری بستی انھیں جس طرح دیکھتی سہتی اور بھگتتی ہے، انتظار حسین نے نہایت پرتاثیر پیرایے میں اس معاشرتی اور آفاقی درد کو بیان کیا ہے۔ پورے ناول میں مرکزی کردار ذاکر کی زندگی کے واقعات اس کے باطنی ذہنی سفر کے ساتھ گندھے ہوئے سامنے آتے ہیں۔

    ان تینتیس ۳۳ برسوں کے نشیب وفراز اور سیاسی ومعاشی جوار بھاٹے پر اردو میں شاید ہی کوئی ناول اس نوعیت کا ہو۔ اس میں جس ذہنی جرأت اور اعتماد سے معاشرے کا احتساب کیا گیا ہے اور خود تنقیدی کو روا رکھا گیا ہے، وہ اپنی جگہ نہایت مثبت تخلیقی عمل ہے اور میرا خیال ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا جائےگا، اس کی معنویت اور اہمیت تسلیم کی جائےگی۔ عام انسانی زوال، انتشار اور معاشرتی اور باطنی بے چینی پر یہ اپنی نوعیت کا پہلا ناول ہے۔ اس کا ڈھانچا حقیقت پسندانہ ہے لیکن جگہ جگہ اساطیری داستانی فضا کا حوالہ اسے مقام اور وقت کی رسمی حدود سے اوپر اٹھاکر اس کے موضوع کو Universalise آفاقیا دیتا ہے۔

    جس طرح انتطار حسین کے داستانی پیرایے، حکایتی انداز اور تمثیلی اسلوب نے اردو افسانے کی فضا بدل دی ہے اور ایک نئی تخلیقی سطح کا اضافہ کیا ہے، اسی طرح ’’بستی‘‘ میں انھوں نے عمداً داستانی پیرایے اور حقیقت پسندانہ ناول کے اجزا کو مربوط کرکے ایک منفرد صنفی ڈھانچا خلق کرنے کی کوشش کی ہے جو لائق توجہ ہے اور معنیاتی تہہ داری کا اعجاز ہے، تاہم ناول کی کشش میں جس چیز سے کچھ کمی واقع ہوتی ہے، وہ مرکزی کردار کی انفعالیت ہے۔ انتظار حسین نے اس کا نام ذاکر بلاوجہ نہیں رکھا۔ ناول میں سارا ذکرواذکار اسی سے چلتا ہے۔ وہ راوی کی زبان، ناظر کی آنکھ اور سامع کی سماعت تو ہے ہی، اس کے ساتھ ساتھ اس کی ایک حیثیت اسفنج کی بھی ہے جو ہر چیز کو جذب کرتا ہے، لیکن ردّ عمل کی شدت سے کسی چیز کو باہر نہیں پھینکتا۔ وہ ڈال سے ٹوٹا ہوا پتہ ہے جو ہوا کے تھپیڑوں کے ساتھ اڑا چلا جا رہا ہو۔ وہ کسی Crisis میں کوئی فیصلہ نہیں کرتا۔ یہ انفعالیت پوری بستی کا موڈ بھی ہے۔

    اس کا قرینہ ہے کہ شاید انتظار حسین نے مرکزی کردار کو عمداً ایسا ہی خلق کیا ہے، کیونکہ وہ فرد بھی ہے، معاشرہ بھی، بستی بھی اور برصغیر کی اسلامی، ثقافتی روایت بھی، دوسری وجہ شیراز کا بار بار در آنا اور چائے خانے میں مکالموں کی کثرت ہے جن کے شرکا محدود ہیں، گھوم پھر کے وہی چند دوست جن کی گفتگو سے کہیں کہیں تکرار کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، نیز واقعات کی رفتار، جو ناول میں یوں بھی سست ہے، مزید سست پڑ جاتی ہے۔ تاہم ناول عہد جدید کے کرب اور اندوہ کو جس طرح گرفت میں لیتا ہے، جس طرح معاشروں کے گھاؤ دکھاتا ہے اور جس طرح عمومی انسانی زوال پر تنقید کرتا ہے، اس لحاظ سے اسے اردو ناول کا ایک نیا اور معنی خیز قدم کہہ سکتے ہیں اور یہ انتظار حسین کے فن کی سماجی سیاسی جہت، معاشرتی خود احتسابی اور گہری انسان دوستی کا بین ثبوت ہے۔

    اس حصے کو ختم کرنے سے پہلے ان چند کہانیوں پر بھی مختصراً نظر ڈال لینی چاہیے جو اگرچہ شہرِ افسوس میں شامل ہیں، لیکن جن کا معنیاتی رشتہ پچھلے دور یعنی آخری آدمی والے دور کی کہانیوں سے ہے۔ ایسی کہانیوں میں سے تین خاص ہیں۔ ’’دہلیز‘‘، ’’سیڑھیاں‘‘ اور ’’مردہ آنکھ۔‘‘ یہ معتقدات، اساطیری اثرات اور انسان کے نسلی اور اجتماعی سفر کی داخلی کہانیاں ہیں۔ ان تینوں میں ’’دہلیز‘‘ کا شمار انتظار حسین کی بہترین کہانیوں میں کیا جا سکتا ہے۔ کاش یہاں اتنی گنجائش ہوتی کہ ’’دہلیز‘‘ کا تفصیلی ذکر کیا جا سکتا ہے۔ کوٹھری کی دہلیز دراصل یادوں کی دہلیز ہے جس کے پاس اندھیرے دیس کی سرحد ہے جو ماضی میں رہ گیا ہے۔ ناولٹ ’’دن‘‘ میں یہی دہلیز حویلی ہے جو پورے ماضی اور اس کی معنویت کو سنبھالے ہوئے ہے۔ وہی گھٹتی کڑھتی سینوں میں دم توڑتی ہوئی محبت جو اظہار کی راہ دیکھتے دیکھتے ختم ہو جاتی ہے۔

    ’’دہلیز‘‘ البتہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس کا مرکزی کردار ایک عورت ہے جس کا بچپن، جوانی اور محبت اسی اندھیرے میں ڈوب چکے ہیں۔ یہ انتظار حسین کی واحد کہانی ہے جس میں صدیوں کی گونج اور زمین اور معاشرے سے وابستگی کو عورت کی نظر سے دیکھا گیا ہے اور جو کچھ بھی سوچا اور محسوس کیا گیا ہے، عورت کے دل ودماغ سے سوچا اور محسوس کیا گیا ہے۔ عورت کی نظر سے ان وابستگیوں کا بیان انتظار حسین کے فن میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ کہانی اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ اس میں جس طرح زمینی رشتوں اور گھر خاندان کی بو باس ہے، اس سے ملتا جلتا اظہار ناولٹ ’’دن‘‘ کے علاوہ ناول ’’بستی‘‘ کے شروع کے حصے میں بھی آیا ہے، جہاں روپ نگر کا ذکر ہے۔ اس موقع پر ’’روپ نگر کی سواریاں‘‘ بھی ذہن میں ابھرتی ہیں۔ لگتا ہے کہ روپ نگر کی یادیں ہی ’’دہلیز‘‘ کے پار کرنے کی یادیں ہیں، اور اسی سے اس کہانی کے حسن وتاثیر کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

    (۴)
    لگ بھگ اسی زمانے میں انتظار حسین کے فن پر ایک اور معنی خیز جہت کا اضافہ ہوتا ہے۔ اسے ان کے چوتھے دور کا آغاز کہہ لیجئے یا چوتھا پڑاؤ۔ لیکن شاید پڑاؤ یا منزل نام کی کوئی چیز ان کے ذہنی سفر میں ہے ہی نہیں۔ یہ ایک مسلسل سفر ہے، ایک متحرک ذہن کا، جو مختلف گزرگاہوں سے نکلتا ہوا جاری ہے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کا اگلا پڑاؤ یا منزل کیا ہوگی۔ انتظار حسین کے فن کی چوتھی جہت عبارت ہے عہدِ وسطیٰ کے داستانی انداز سے بھی زیادہ پیچھے جاکر عہدِ قدیم کی مختلف النوع اساطیری روایتوں کو باہم آمیز کرنے اور زندگی کی صداقتوں کو بیک وقت بودھ، اسلامی اور قبل اسلامی اساطیری روایتوں کے تناظر میں دیکھنے اور نئی تخلیقی سطح پر ان کا اظہار کرنے سے۔ اس نوعیت کی مثالیں ان افسانوں میں دیکھی جا سکتی ہیں جو شہر افسوس کی اشاعت کے بعد اِدھر اُدھر رسائل وجرائد میں سامنے آئے ہیں اور ابھی تک کسی مجموعے کی شکل میں شائع نہیں ہوئے۔

    ان میں سے ذیل کے افسانے پیشِ نظر ہیں، ’’کھچوے‘‘ (شب خون)، ’’واپس‘‘ (معیار، ۱)، ’’رات‘‘، ’’دیوار‘‘ (شعور، ۱)، ’’کشتی‘‘ (محراب)، ’’نئی بہویں‘‘ (ماہِ نو)، ’’شور‘‘ (ماہِ نو)، ’’پوری عورت‘‘ (ادبِ لطیف)، ’’انتظار‘‘ (الفاظ)۔ ان کے علاوہ اس دور کے اور بھی افسانے ہوں گے لیکن نئے ذہنی سفر کی سمت نمائی ان سے بہرحال ہو جاتی ہے، اور حاوی رجحان کی نشان دہی بھی کی جا سکتی ہے جس کی نمائندگی ’’کشتی‘‘، ’’کچھوے‘‘ اور ’’واپس‘‘ سے ہوتی ہے۔ ویسے ان کہانیوں میں ایک اور ذہنی رجحان بھی ملتا ہے، زندگی کے عام مسائل یا روز مرہ کے مسائل پر اظہار خیال کا یا چھوٹی چھوٹی نفسیاتی حقیقتوں پر کہانی لکھنے کا۔ انتظار حسین نے ادھر کئی چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھی ہیں جن میں کسی سامنے کی بات کو موضوع بنا کر کہانی کہی گئی ہے۔ ایسی کہانیوں میں زیادہ گہرائی نہیں، لیکن تازگی ضرور ہے کیونکہ اکثروبیشتر ان میں ایسے موضوعات کو لیا گیا ہے جس کی طرف انتظار حسین نے اس سے پہلے توجہ نہیں کی۔

    ان چھوٹی چھوٹی کہانیوں سے اس امر کا ضرور پتہ چلتا ہے کہ موضوعاتی تنوع اختیار کرنے کی طرف قدم بڑھایا جا رہا ہے۔ مثال کے طورپر ’’نئی بہوئیں‘‘ میں عورتوں کی ملازمت کرنے کے مسائل ہیں اور آج کے نظامِ تعلیم پر طنز ہے۔ ’’شور‘‘ میں اس نفسیاتی نکتہ چینی کا بیان ہے کہ اگر ہم کسی ایسی کیفیت کا شکار ہوں جو بھلے ہی ناپسندیدہ ہو، لیکن اگر ہم اس کے عادی ہو چکے ہیں تو اس سے چھٹکارا پاکر بھی خوش نہیں ہو سکتے۔ ’’انتظار‘‘ جدید دور کے نوجوان لڑکے لڑکی کی چوری چھپے کی ملاقات کی کہانی ہے، اس میں لڑکے لڑکی کی تطبیق داستانوں کے شہزادہ شہزادی سے کرکے کہانی کو زمانی عمق دیا گیا ہے، لیکن بنیادی نکتہ یہ ہے کہ عورت اور وقت جاکر واپس نہیں آتے۔

    اسی طرح ایک اور چھوٹی سی کہانی ہے، ’’پوری عورت۔‘‘ اس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ مرد اگر زندگی میں مار کھاجائے تو اس کی تکمیل نہیں ہوپاتی، مگر لڑکی کامیاب ہو یا ناکام، پوری عورت بن کر رہتی ہے۔ یہ سب سیدھی سادی بیانیہ کہانیاں ہیں۔ اس دور کی بعض تمثیلی کہانیوں میں بھی یہ کیفیت ملتی ہے اور ان میں کسی نہ کسی نفسیاتی نکتے کو بیان کیا گیا ہے۔ ’’رات‘‘ اور ’’دیوار‘‘ اس لحاظ سے پچھلے دور کی کہانیوں بالخصوص ’’وہ جو دیوار کو نہ چاٹ سکے‘‘ کی توسیع ہیں کہ ان میں یاجوج ماجوج کی تمثیل سے مدد لی گئی ہے، لیکن بنیادی طور پر یہ بھی نفسیاتی کہانیاں ہیں اور اس لحاظ سے اس دور کی دوسری مختلف الموضوع چھوٹی چھوٹی کہانیوں سے الگ نہیں۔ اس دور کی امتیازی تمثیلی کہانیوں کو لینے سے پہلے ’’رات‘‘ اور ’’دیوار‘‘ پر ایک نظر ڈال لینا اس لیے ضروری ہے کہ بنیادی تمثیل یعنی یاجوج ماجوج کی مرکزی Kernel حکایت ایک سہی، لیکن انتظار حسین نے ہر جگہ نئے مفاہیم پیدا کیے ہیں۔

    ’’رات‘‘ کا بنیادی مسئلہ یہ سوال ہے کہ انسان کسی لایعنی کام کا عادی ہو جائے تو کیا اس کے بغیر وہ زندہ رہ سکتا ہے۔ یاجوج اور ماجوج کو معلوم ہے کہ وہ دیوار کو ازل سے چاٹ رہے ہیں اور ابد تک چاٹتے رہیں گے اور ان کا حال وہی ہے جو کسی عامل نے اپنے ہمزاد کا کیا تھا کہ پالتو کتے کے گھنگھریالے بال سیدھے کرتے رہو۔ ہمزاد بار بار کتے کے بال سیدھے کرتا اور بار بار وہ مڑ جاتے۔ ان کو معلوم ہے کہ زبان کا کام بولنا ہے، دیوار چاٹنا نہیں، تاہم جب وہ دیوار چاٹنا بند کر دیتے ہیں اور اسے بولنے کے کام میں لگاتے ہیں تو زبان میں کھجلی ہونے لگتی ہے اور بالآخر وہ دونوں لمبی لمبی زبانیں نکال کر پھر دیوار چاٹنے لگتے ہیں۔ زبان اگرچہ موٹی پڑ گئی ہے اور روز اس میں نئے زخم پیدا ہو جاتے ہیں، لیکن وہ دیوار چاٹنے کے لایعنی کام سے باز نہیں رہ سکتے۔

    صبح ہونے سے چونکہ اس لایعنی کام میں خلل پڑتا ہے، اس لیے وہ یہ دعا کرنے پر مجبور ہیں، ’’اے ہمارے رب! تیری بخشی ہوئی لمبی درد بھری رات ہمارے لیے بہت ہے۔ صبح کے شر سے ہمیں محفوظ رکھ اور اجالے کے فتنے کو دفع کر۔‘‘ آخری جملے کے طنز سے کہانی کی معنویت اجاگر ہو جاتی ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ افراد ہوں یا جماعتیں، جب کسی لایعنی عادت میں گرفتار یا برائی کے عادی ہو جائیں تو حواس بے حس ہو جاتے ہیں اور وہ تاریکی کو روشنی پر ترجیح دیتے ہیں، گویا اپنی حالت سے باہر آنے کو تیار نہیں ہوتے۔

    ’’دیوار‘‘ اگر چہ نہ یاجوج ماجوج ہیں نہ دیوار چاٹنے کا عمل، لیکن ساری توجہ بھاری سخت دیوار پر ہے اور فضا بے حاصلی اور تحیر کی ہے یعنی دیوار کے دوسری طرف کیا ہے؟ یہ سوال سب کو کھائے جاتا ہے کہ دیوار کے پار کیا ہے؟ کتنے ہی رفیق دیوار پر چڑھے، مگر واپس نہیں آئے۔ دیوار پر پہنچ کر انھوں نے قہقہہ لگایا اور دوسری طرف اتر گئے۔ یہ دیوار کسی ایسے بھید کا سنگین اشاریہ تو نہیں جو محض اس لیے بھید ہے کہ آنکھوں سے اوجھل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دیوار کے دوسری طرف جاننے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے اور جو آدمی دیوار پر چڑھتا ہے، یہی دیکھ کر کہ وہاں دیکھنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، ہنستا ہے۔

    مندریس جو ان میں سب سے بڑا تھا، رسی باندھ کر دیوار پر چڑھا تاکہ دوسری طرف نہ اتر جائے لیکن وہ بھی اوپر پہنچ کر قہقہہ لگاتا ہے۔ اس کے ساتھی اسے دوسری طرف جانے سے روکنے کے لیے کھینچتے ہیں تو اس کا آدھا دھڑ دیوار کے ادھر آ گرتا ہے اور آدھا اُدھر۔ یعنی یہ کہ شوق فضول کا شکار ہوکر انسان نہ ادھر کا رہتا ہے نہ اُدھر کا۔ یہ شوقِ فضول مغرب کی نقالی کا بھی ہو سکتا ہے جس نے مشرق کو کہیں کا نہیں رکھا اور مشرق کی شخصیت کو دولخت کر دیا ہے، یا یہ شوقِ فضول اس بھید کو جاننے کا بھی ہو سکتا ہے جو محض اس لیے بھید ہے یا پرکشش ہے، کیونکہ وہ آنکھوں سے اوجھل ہے، یعنی نامعلوم کے لیے انسان ہمیشہ ایک کسک، ایک کشش محسوس کرتا ہے۔ اس لحاظ سے یہ دونوں کہانیاں نفسیاتی ہیں۔ ’’رات‘‘ میں تاریکی کا شکار رہنے کی یا کسی فضول عادت میں گرفتار ہونے کی جبریت ہے اور ’’دیوار‘‘ میں نامعلوم کی کشش کی نفسیاتی کیفیت ہے۔

    اب تک جن کہانیوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں سیدھی سادی بیانیہ کہانیاں بھی ہیں اور تمثیلی بھی، لیکن یہ اس دور کے ذیلی رجحان کی کہانیاں اس لیے ہیں کہ ان میں کسی گہری سچائی کو نہیں بلکہ سامنے کی کسی نفسیاتی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔ اس دور کے امتیازی نشانات البتہ جن کہانیوں میں ملتے ہیں، وہ ہیں ’’کھچوے‘‘، ’’واپس‘‘ اور ’’کشتی۔‘‘ اول تو ان کے موضوعات میں زندگی کے بنیادی مسائل یعنی بقائے انسانی اور سرشتِ انسانی جیسے پیچیدہ سوالات کو لیا گیا ہے، لیکن اہمیت بالذات موضوع کی نہیں بلکہ اس کی فنی پیش کش کی ہے یعنی جس پیرایے میں اور جن وسائل سے اسے بیان کیا گیا ہے، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اس دور کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ ان کہانیوں میں بودھ جاتکوں اور ہندوستانی دیو مالا کو پہلی بار اعلیٰ تخلیقی سطح پر استعمال کیا گیا ہے اور ’’کشتی‘‘ میں تو ہندوستانی دیومالا، اسلامی روایتوں، سمیری اور بائبلی اساطیری سب کو ملاکر ایک بالکل نیا تکنیکی تجربہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

    ایک اعلان سے معلوم ہوا ہے کہ انتظار حسین نے اپنے نئے مجموعے کا نام، جو ابھی منظرِ عام پر نہیں آیا، ’’کچھوے‘‘ رکھا ہے۔ یہ اگر صحیح ہے تو بلاوجہ نہیں، کیونکہ گلی کوچے، آخری آدمی، شہر افسوس، انتظار حسین کے اکثر مجموعے ان کے اس دور کے تخلیقی سفر کے حاوی رجحان کا پتہ دیتے ہیں اور ان مجموعوں کی بیشتر کہانیوں میں باطنی وحدت موجود ہے۔ تازہ کہانیوں کے مجموعے کا نام ’’کچھوے‘‘ بھی غالباً اسی احساس کے تحت ہوگا۔

    بودھ اثر کا پہلا اشارہ انتظار حسین کے یہاں ’’شہر افسوس‘‘ میں ملتا ہے جہاں گیا کا بھکشو کہتا ہے کہ دنیا میں دکھ ہی دکھ ہے اور نروان کسی صورت نہیں ہے اور ہر زمین ظالم ہے اور آسمان تلے ہر چیز باطل ہے۔ لیکن یہ محض حوالے کی حد تک ہے۔ بودھ جاتکوں کا بھرپور اثر چوتھے دور کی خصوصیت ہے۔

    ’’کچھوے‘‘ اور ’’واپس‘‘ دونوں کی بنیاد بودھ جاتکوں پر ہے۔ ان میں زبان بھی پراکرتوں کا عنصر لیے ہوئے قدامت آمیز ہے جس سے قدیم عہد کی فضا سازی میں مدد ملی ہے۔ ’’واپس‘‘ میں تھتھا گت بھکشوؤں کو بنارس کے سندر نگر کی جاتک سناتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا جب تھتھا گت بنارس کے مرگھٹ کے کتے تھے۔ رتھ کے گدوں کا چمڑا راج محل کے کتوں نے کھا لیا، لیکن سزا مرگھٹ کے کتوں کو دی گئی۔ مرگھٹ کے کتوں نے گرو کو اپنی بپتاکہہ سنائی۔ گرو کتے نے راج محل کے کتوں کو دودھ میں گھاس اور گھی ملاکر پلوایا اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیا۔ راج محل کے کتوں نے دودھ پینے کے بعد ابکائی لی اور چمڑے کے ٹکڑے اگل دیے۔ مرگھٹ کے گرو کتے نے راجہ کو نیائے اور انیائے کی شکشا دی اور لاکھ برس تک بنارس میں نیائے ہوتا رہا اور سکھ چین رہا، تتھا گت نے بھکشوؤں سے کہا کہ وہ کتا میں ہی تھا۔

    ’’اور راج محل کے کتے؟‘‘ ایک بھکشو نے پوچھا۔

    ’’وہ آج بھی کتے ہی ہیں۔‘‘

    بھکشوؤں نے سوچا کہ سچ کی جوت جگاکر کتے بھی آدمی بن گئے اور آج کا آدمی اگرچہ آدمی کے جنم میں ہے اور باہر سے آدمی دکھائی دیتا ہے لیکن اندر سے کچھ اور ہے، شاید کتے سے بھی بدتر، کیونکہ لذتوں اور خود غرضیوں کا شکار ہوکر وہ نیائے اور انیائے میں فرق کرنے کی صلاحیت کھو چکا ہے۔

    اسی طرح ’’کچھوے‘‘ بھی جاتکوں پر مبنی کہانی ہے۔ اس میں شانتی کی کھوج کی فضا ہے۔ بھکشوودیا ساگر، سندر سمدر، اور گوپال محوِ گفتگو ہیں۔ ان کا جی ترشنا کے چنگل میں ہے اور وہ بودھی ستو کی حکاتیں سناکر عقل ودانش کے رموز ونکات بیان کرتے ہیں۔ اس کہانی میں بودھی حکایتیں سلسلہ در سلسلہ چلتی ہیں۔ موہ، مایا، پاپ اور ترشنا کے ستائے ہوئے انسان کچھوے کے سمان ہیں۔ جب تلیا کا پانی سوکھ گیا تو مرغابیوں نے کچھوے سے کہا اس ڈنڈے کو بیچ سے پکڑ لے اور ہم تجھے اڑاکر ہمالیہ پہاڑ پر لے جائیں گی جہاں بہت پانی ہے۔ وہ زمین پر رینگنے والا جانور بھلا اتنی اونچائی پر کیسے پہنچتا۔ مرغابیوں نے اس سے وچن لیا کہ زبان نہیں کھولے گا تو اسے ٹھیک ٹھاک پہنچادیں گی۔ پر راستے میں کچھوے سے رہا نہ گیا جب زمین کے بالکوں نے کچھوے کو آسمان میں اڑتے دیکھ کر شور مچایا تو کچھوے نے جیبھ کھولی اور ٹپ سے نیچے آگرا۔ تب سے اب تک کچھوا یعنی آج کا انسان پانی کی تلاش میں یا شانتی کی کھوج میں ہے، اور ہر وقت اسی دبدہ میں ہے کہ ڈنڈی اس کے دانتوں میں ہے یا دانتوں سے چھوٹ گئی ہے۔

    اس دور کی بہترین تمثیلی کہانی بہرحال ’’کشتی‘‘ ہے۔ اس میں قدیم سامی واسلامی روایتوں اور ہندوستانی دیومالائی حکایتوں کو تخلیقی طور پر مربوط کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس لحاظ سے یہ افسانوی تکنیک کا ایسا تجربہ ہے جس کی کوئی مثال اس سے پہلے اردو میں نہیں ملتی۔ ’’کشتی‘‘ میں مسئلہ نسلِ انسانی کی تباہی وبربادی اور اس کی بقا Survival کا ہے۔ اس کی ایک جہت ہنگامی مقامی بھی ہو سکتی ہے اور ایک دائمی آفاقی بھی۔ یہ دنیا جب ظلم وستم سے بھر جاتی ہے تو تباہی و بربادی کا دور آتا ہے اور ہر چیز نیست ونابود ہوجاتی ہے۔ اس کا ذکر تمام مذہبی روایتوں میں آیاہے، خواہ وہ قہرِ الٰہی کی صورت میں ہو، آفات ارضی وسماوی کی صورت میں یا طوفان وسیلاب بلا کی صورت میں۔ مدتوں تک پیڑ پودے، جن وانس سب تہہ آب غرق ہو جاتے ہیں، کسی آبادی کا کوئی نشان باقی نہیں رہتا، لیکن خدا بھی اپنی تخلیق سے مایوس نہیں اور اس طرح انسان کو ایک موقع اور مل جاتا ہے۔

    ’’کشتی‘‘ میں نہ صرف قرآنِ پاک بلکہ عہد نامۂ قدیم، توریت اور ویدوں، پرانوں اور شاستروں سب کی مذہبی اور اساطیری روایتوں سے مدد لی گئی ہے اور بقائے انسانی کے بارے میں بنیادی نوعیت کے سوالات قائم کیے گئے ہیں۔ ’’کشتی‘‘ میں سوار لوگ کرۂ ارض کے کسی ایک مقام کا کوئی سماج بھی ہو سکتے ہیں، یا کوئی ایک قوم، یا پوری نوع انسانی۔ کہانی بظاہر ہجرت کے احساس اور معاشرے کی اس گھٹن سے شروع ہوتی ہے جس کا فوری حوالہ برصغیر کی حالیہ تاریخ میں دستیاب ہے۔ باہر مینہ ہے اندر حبس ہے اور چاروں طرف پانی ہی پانی۔ بارش ہے یا قیامت، ہوئے چلی جا رہی ہے، آدمی آخر کہاں جائے۔ ’’جانوروں کے درمیان سانس لینا اور بھی مشکل ہوتا ہے۔‘‘

    ’’پتہ نہیں کب تک ہم اس طور جانوروں کی طرح بسر کرتے رہیں گے۔‘‘

    ’’انسان چند ہی ہیں باقی چرند پرند۔‘‘ یہ جملے معاشرے کی عمومی حالت اور تاریخی جبر کا اشارہ بھی ہوسکتے ہیں۔ کشتی میں کسی کو اندازہ نہیں کہ مینہ کب سے برسنا شروع ہوا تھا، کتنے دن سے سفر میں ہیں اور کب سے گھر چھوٹ چکے ہیں۔ انتظار حسین کے فن میں سفر کی مرکزیت کی طرف پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے۔ سفر کا گہرا رشتہ ہجرت سے ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جنم جنم سے سفر میں ہیں۔ وہ یہ سوچ کر حیران ہوئے کہ ہمارے گھر بھی تھے، زینے، ڈیوڑھیاں، آنگن لیکن، ’’ان گھروں کو کیا یاد کرنا جو ڈھے گئے۔ سب نے مل کر اپنے گھروں کو یاد کیا اور وہ روئے کیونکہ ان کے گھروں کی بربادی مقدر ہو چکی تھی۔‘‘ گھروں کے اس ذکر میں وہ فضا ہے جو ’’دہلیز‘‘، ’’سیڑھیاں‘‘ اور بستی کے شروع کے ابواب میں ملتی ہے۔ لگتا ہے انتظار حسین کی یادوں کا کچھ نہ کچھ تعلق زینوں اور سیڑھیوں سے ہے۔ ’’کشتی‘‘ کے شروع میں گھروں کے ڈھے جانے کے ساتھ یہ ذکر ملتا ہے،

    ’’وہ ہرنی جیسی آنکھوں والی کہ اپنے لبادے کے اندر دو پکے پھل لیے پھرتی تھی، سیڑھیوں کے بیچ مجھ سے ٹکرائی تو لگا کہ دو گرم دھڑکتے پوٹے والی کبوتریاں اس کی مٹھی میں آگئیں۔۔۔ کاش وہ میرے ساتھ سوار ہوجاتی، جانے اب کن پانیوں میں گھری ہوگی۔‘‘

    ایک زبردست سیلاب کا ذکر دنیا کی تقریباً تمام مذہبی روایتوں میں ملتا ہے۔ غالباً ان کے اولین مآخذ Gilgamesh گلگا مش کی Myth (جس سے ہومر کی اوڈیسی بھی متاثر ہوئی ہے) اور انجیل کی روایتیں ہیں جہاں عہد نامۂ عتیق Old Testament کی پہلی کتاب Genesis (VI-IX) میں طوفانِ نوح کا ذکر آیا ہے۔ ’’کشتی‘‘ میں بھی طوفان کا ذکر گلگامش کی روایت سے شروع کیا گیا ہے جو موت کا تصور کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ جب خدا، انلیل Enlil نے ناراض ہوکر طوفانِ عظیم بھیجا تھا تو صرف اتنا پشتم Ut-Napishtim ہدایت کے مطابق بنائی ہوئی کشتی میں بچ رہا تھا اور پوری نسلِ انسانی غرق ہو گئی تھی۔

    انجیل میں اس کا جو ذکر آیا ہے، وہ Yahweh روایت سے ماخوذ ہے۔ Yahweh روایت انجیل سے چھ سو سال پرانی ہے۔ اس میں ہے کہ پوری نسلِ انسانی سوائے نوح کے جب برائیوں میں گھر گئی تو Yahweh نے اسے نیست ونابود کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے نوح کو خبردار کیا اور حکم دیا کہ وہ اپنی سلامتی کے لیے کشتی بنالے۔ جب طوفان آیا تو وہ مع اپنے گھر کے افراد کے، جانوروں کے سات جوڑوں کے ساتھ کشتی میں سوار ہوا تاکہ ان کی نسل بھی باقی رہے۔ سات مہینوں اور سترہ دنوں کے بعد جب طوفان رک گیا تو نوح نے ایک کوے کو اڑنے دیا لیکن اسے کوئی امان نہ ملی اور وہ واپس آ گیا۔ فاختہ اڑی وہ بھی اسی طرح لوٹ آئی۔ سات دن کے بعد فاختہ کو دوبارہ بھیجا، اور اب کی وہ زیتون کی ایک ٹہنی چونچ میں لے کر آئی۔ مزید سات دن کے بعد وہ پھر اڑی اور اس بار لوٹ کر نہ آئی۔ نوح کشتی سے اترا اور نسلِ انسانی کی آبادکاری کے نئے دور کا آغاز ہوا۔

    لگتا ہے کہ یہ روایت دو ہزار سال قبل مسیح سے قبل سمیری Sumerian اور عبرانی قصوں سے شروع ہوئی اور دنیا کی تہذیبوں میں پھیل گئی۔ Deucalion کے یونانی قصے بھی اسی سے متاثر ہوئے اور سنسکرت میں منو کی روایت بھی انھیں قصوں سے چلی ہوگی۔ ان سب کی پشت پر غالباً وہ زبردست تاریخی سیلاب رہا ہوگا جس میں پورا Tigris-Euphrates دواب غرق ہو گیا ہوگا اور جس کے ۱۹۰۰ سالہ قبل مسیح کے قدیم آثار میسوپوٹامیہ کی کھدائیوں میں دریافت ہو چکے ہیں۔

    قرآن پاک کی سورۂ نوح میں بھی اس روایت کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ ملتی جلتی روایتوں میں مذکور ہے کہ حضرت نوح نے ایک عرصے تک اپنی قوم کو خدا کا پیغام دیا لیکن لوگ بھلائی کی طرف نہیں آئے سوائے ۸۰ آدمیوں کے۔ تب خدا نے زبردست طوفان بھیجا۔ حضرت نوح نے ہدایت الٰہی کے مطابق ایک کشتی تیار کی۔ اس میں ۸۰ ایمان والوں کے علاوہ ہر جانور کا ایک ایک جوڑا رکھا تاکہ طوفان کے بعد ان جانوروں کی نسل چلے۔ حضرت نوح کا بیٹا کنعان یاسام بے دین تھا، وہ کشتی میں نہ آیا اور طوفان میں غرق ہوا۔ طوفان نوح کے بارے میں یہ بھی روایت ہے کہ آغاز طوفان کے وقت کوفہ کے مقام پر ایک بڑھیا کے تنور سے پانی ابلنا شروع ہوا اور آسمان سے زبردست بارش شروع ہوئی۔

    ’’ملک کے بیٹے نوح نے زبان کھولی اور کہا کہ اے میری زندگی کی شریک ڈر اس دن سے کہ تیرا گرم تندور ٹھنڈا ہو جائے اور تو آ کر مجھے طوفان کی خبر سنائے اور بھور بھئے منوجی یہ دیکھ کر بھوچک رہ گئے کہ مچھلی بڑی ہو گئی ہے اور باسن چھوٹا رہ گیا ہے۔‘‘

    اس مقام پر انتظار حسین نے کہانی میں منو اور پرلے کی روایت کا ذکر جوڑ دیا ہے۔ منو، من سے ہے یعنی ’’ذہن‘‘ یا ’’سوچنا۔‘‘ منو کے چودہ سلسلے بیان ہوئے ہیں۔ ہر سلسلہ لاکھوں سال تک اس کائنات میں براجمان رہا ہے۔ مہاپرلے یا سیلاب عظیم کی روایت ساتویں منو سے متعلق ہے۔ اس کا اولین ذکر ویدوں میں نہیں بلکہ Shatapatha Brahmana (۶۰۰ ق م) میں ملتا ہے اور کشتی کا حوالہ غالباً اسی روایت سے ماخوذ ہے کہ ایک دن جب منو کے ہاتھ دھونے کا پانی لایا گیا تو اس میں سے ایک مچھلی نکلی۔ مچھلی نے کہا، مجھے پناہ دو میں تمہاری حفاظت کروں گی۔ منو نے مچھلی کو گھڑے میں ڈال دیا۔ مچھلی دن بہ دن بڑی ہوتی چلی گئی۔ منو نے اسے دریا میں ڈالا۔ مچھلی دریا سے بھی بڑی ہوگئی۔ منو نے اسے سمندرمیں لے جاکر چھوڑ دیا۔ مچھلی نے کہا بہت جلد مہاپرلے آئے گی جس میں سب چیزنیست ونابود ہوجائے گی۔ مجھے یاد کرکے ایک کشتی بنائیو، میں تجھے بچاؤں گی۔

    سیلاب آیا اور منو نے اپنی کشتی مچھلی کی مونچھ کے بال سے باندھ دی۔ جب سیلاب میں جن وانس، پیڑ پودے، شہر آبادیاں سب غرق ہو گئے تو مچھلی نے کشتی کو ہمالیہ پہاڑ کی سب سے اونچی چوٹی پر ٹکا دیا۔ جب پانی اترا تو منو حیران ہوا کہ سوائے اس کے کوئی جاندار سرشٹی میں نہ بچا تھا۔ اسے اولاد کی خواہش ہوئی اور پوجا کرنے سے ایک لڑکی خلق ہوئی۔ منو نے اسے پال پوس کر بڑا کیا پھر وہی اس کی رفیقۂ حیات بنی اور اسی سے از سر نو نسل انسانی کی آفرینش ہوئی۔

    مہابھارت میں اس روایت کا ذکر ذرا مختلف طور پر آیا ہے، یعنی جب سیلاب عظیم آیا تو منو کشتی میں سات رشیوں کے ساتھ سوار ہوئے۔ مچھلی نے کہا میں حق ہوں مجھے یاد رکھیو، میں تمہاری حفاظت کروں گی اور اس سیلاب کے بعد تمہیں سے دیوی دیوتا، سُراسُر، نرناری سب پیدا ہوں گے اور انھیں سے یہ دنیا پھر سجائی جائےگی۔ یہی روایت متسیہ پران، بھاگوان پران اور اگنی پران میں بھی بیان ہوئی ہے۔ انتظار حسین نے اس موقع پر زبان بھی وہ اختیار کی ہے جو اگیا بیتال اور وکرمادتیہ کی سنگھاسن بتیسی کے اٹھارہویں صدی کے قدیم ہندی اردو مصنفین نے برتی تھی۔ اس سے دیومالائی فضا کی بازیافت میں بڑی مدد ملی ہے۔

    ’’منو جی مچھلی کو تلیا میں چھوڑکر ایسے آئے جیسے سر سے بڑا بوجھ اتار کے آئے ہیں۔ اس رات وہ چین سے سوئے۔ پر جب تڑکے میں آنکھ کھلی تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ مچھلی کی پونچھ تلیا سے نکل لمبی ہوتے ہوتے ان کے آنگن میں آن پھیلی تھی۔ وہ جھٹ پٹ اٹھ تلیا پہ گئے۔ کیا دیکھا کہ تلیا چھوٹی رہ گئی ہے، مچھلی بڑی ہو گئی ہے، اتنی بڑی تلیا کے اندر تو بس اس کا منہ تھا، باقی دھڑ اور پونچھ سب باہر۔ مچھلی بولی کہ ہے پربھو، تمہارے شرن میں میں تیرنے اور سانس لینے کو ترستی ہوں۔ منوجی یہ دیکھ ہکّا بکّا رہ گئے۔‘‘

    اسی طرح جب حضرت نوح کی روایت بیان ہوئی ہے تو انداز داستانوں اور حکایتوں کا ہے،

    ’’تب زوجہ حضرت نوح کے پاس پہنچی۔ اس حال سے کہ اس کے ہاتھ آٹے میں سنے ہوئے تھے اور ہوش اڑے ہوئے تھے۔ بصد تشویش بولی کہ میرے والی، ہمارا گرم تندور ٹھنڈا ہو گیا اور پانی اس کی تہہ میں ابل رہا ہے۔ حضرت نے تامل کیا۔ پھر یوں بولے کہ دیکھو اب ذوالجلال کے جلال کا دن آن پہنچا ہے، تو یوں کر کہ اپنے جنوں کو اکٹھا کر اور کشتی میں سوار ہوجا۔ اس پر وہ جو رویہ بولی کہ میں تندور پر طشت ڈھکے دیتی ہوں، پھر پانی نہیں ابلے گا۔ یہ کہہ کر وہ دوڑی ہوئی اندر گئی۔ طشت الٹا کرکے تندور پر ڈھکا اور اوپر سے بڑا سا پتھر رکھ دیا۔ یہ کرکے وہ باہر آئی اور اپنے والی سے بولی ’’دیکھ میرے ترکیب کام آئی۔ پانی ابلنا بند ہو گیا ہے۔‘‘ وہ یہ کہتی تھی کہ پانی انگنائی سے نکل کر باہر امنڈنے لگا۔ طشت اور پتھر اس کے بیچ تیر رہے تھے۔۔۔ پھر مختلف گھروں سے بیبیاں نکلیں اس حال سے کہ ان کے ہوش اڑے ہوئے تھے۔ ہر ایک کے لب پہ یہ خبر تھی کہ تندور ان کے گھر کا گرم سے ٹھنڈا ہوا، اور پانی اس سے ابلنے لگا اور سیلاب باہر سے امنڈے تو اسے روکا جا سکتا ہے، مگر جب گھر کے اندر سے پھوٹ پڑے تو کیوں کر اس پہ بند باندھا جائے۔‘‘

    کنعان کا ذکر ’’کشتی‘‘ میں اس طور آیا ہے کہ تنہائی کی موت ہجوم کے ساتھ زندہ رہنے سے بہتر ہے، پانی میں غرق ہوجانا بہتر ہے بمقابلہ اپنا گھر چھوڑ دینے یا اجنبی پانیوں میں بھانت بھانت کے جانوروں کے ساتھ بسر کرنے سے۔ اس کے بعد کوّے، چوہوں اور شیر کا ذکر ہے۔ حضرت نوح نے کہا، ’’وائے خرابی کہ میں نے کشتی میں سوار کیا چوہوں کو جن کا شیوہ ہی یہ ہے کہ کُترو اور سوراخ کرو۔‘‘ بار بار انھیں ٹوکا گیا مگر باز نہ آئے۔ تب تنگ آکر حضرت نے شیر کے منہ پر ہاتھ پھیرا اور اس کے نتھنوں سے ایک بلی نکلی جو چوہوں پر جھپٹی اور آن کی آن میں چٹ کر گئی۔ تب کشتی کے سب جانداروں نے شادمانی کی اور بلی پر آفریں بھیجی کہ اس نے آنے والی تباہی سے بچالیا۔ انجیل سے روایت ہے کہ سات دن بعد جب فاختہ نے دوسری بار پر پھڑپھڑائے اور کشتی سے باہر اڑ گئی تو وہ زیتون کی پتی چونچ میں دبائے واپس آئی۔ سب خوش ہوئے یہ سوچ کر کہ خشکی نمود کرنے لگی ہے اور کشتی کہیں تو کنارے لگےگی۔

    انتظار حسین نے عام روایتوں سے الگ یہاں کہانی کو نیا موڑ دیا ہے، ’’کبوتری (فاختہ) یونہی زیتون کی پتی سمیت کشتی میں اتری تو نہی بلی اس پر جھپٹی اور اسے چٹ کر گئی۔۔۔ ساتھ میں زیتون کی پتی کو بھی۔ انھوں نے دیکھا اور دم بخود رہ گئے۔‘‘ زیتون کی پتی سلامتی کا علامیہ ہے۔ زیتون دنیا کا قدیم ترین ہمیشہ سرسبز رہنے والا پیڑ ہے۔ سامی، یونانی، رومن اور نورس اساطیری روایتوں کا ذکر پانچ چھ ہزار سال پرانا ہے لیکن ’’کشتی‘‘ میں جس طرح بلی، فاختہ اور زیتون کی پتی دونوں کا قلع قمع کر دیتی ہے، اس سے ظاہر ہے انتظار حسین روایت کو بدل کر دوسری بات کہنا چاہتے ہیں۔

    روایت میں ہے کہ فاختہ سات دن بعد تیسری بار پھر اڑتی ہے اور اب کے چونکہ اسے پیر ٹکانے کی جگہ مل گئی، وہ لوٹ کر نہیں آئی۔ یعنی طوفان اتر گیا اور خشکی مل گئی۔ لیکن ’’کشتی‘‘ میں ایسا نہیں ہوتا۔ انتظار حسین نے قصے کی آج کے عہد پر تطبیق کرتے ہوئے اس کا بالکل دوسرا رخ پیش کیا ہے۔ نوح اور منو دونوں کی روایتوں میں طوفان عظیم کا انجام نوع انسانی کی ازسر نو آبادکاری پر ہوتا ہے اور انھیں سے پھر جن وانس کی آفرینش ہوتی ہے۔ آریائی روایت میں مچھلی کشتی کو ہمالیہ پر جاکر ٹکا دیتی ہے۔ سمیری، بابلی، سامی اور اسلامی روایتوں میں بھی پہاڑ کا ذکر ہے، کوہ جودی M. Ararat (عہد نامۂ عتیق) Mr. Nisir (قصۂ گلگامش)، لیکن انتظار حسین کے یہاں کشتی کسی ٹھکانے پر نہیں پہنچتی۔

    بلی کا کبوتری اور زیتون کی پتی کو چٹ کر جانا اشارہ ہو سکتا ہے سلامتی کی نفی یعنی نسل انسانی کے مسلسل عذاب وتباہی میں گھرے رہنے کا۔ مینہ بے شک تھم جاتا ہے اور بادل کی گرج بھی رک جاتی ہے لیکن ’’پانی کی دھار اسی شور سے گرج رہی تھی اور اونچے پہاڑ کی چوٹیوں سے گزر رہی تھی۔۔۔ اندر حبس بہت تھا اور بلی بیٹھی تھی۔ باہر پانی گرج رہا تھا اور زمین وآسمان ملے نظر آ رہے تھے، زمین وآسمان اور زمین وزماں۔۔۔‘‘ کیا اندر کا حبس اور بلی کی موجودگی کا ایک ہونا مکاں اور زماں کی وحدت کے اس جبر کی طرف اشارہ نہیں جس میں انسان مسلسل گھرا ہوا ہے اور جس سے چھٹکارے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ آخر میں پھر گلگامش کی یاد دلاکے انتظار حسین نے کہانی کا دائرہ مکمل کر دیا ہے کیونکہ سیلاب شروع ہوا تھا اور کشتی روانہ ہوئی تھی تو سب کے دل ہجرت کے احساس کے ساتھ بھرے ہوئے تھے لیکن گلگامش کے ذکر نے ڈھارس بندھائی تھی جس نے سفر کو وسیلۂ ظفر جانا، ہجرت اختیار کی، پرشور سمندروں سے گزرا، نئی نئی مہمات سرکیں اور نئی نئی اقلیموں کو دریافت کیا۔ لیکن آخر میں گھروں کی یاد پھر سب کو آ لیتی ہے۔

    ’’کیا ہم کبھی واپس نہیں جا سکتے؟‘‘

    ’’کہاں؟‘‘

    ’’اپنے گھروں کو؟‘‘

    ایک بار پھر انھیں حیرانی نے آ لیا۔

    ’’عزیزو، کون سے گھر، گھر تو جنت ہے۔‘‘ اور جنت کو چھوڑے ہوئے آدم کو جانے کتنی صدیاں گزر گئیں۔۔ اور آدم کی اولاد مسلسل اس کوشش میں ہے کہ جنت کو لوٹ جائے، اپنے اصلی گھر کو، لیکن یہ سفر کبھی مکمل نہیں ہوتا، اور آدم کی اولاد ’’زمین وزماں‘‘ کے پرشور پانیوں میں گھری ہوئی مسلسل عذاب میں مبتلا ہے اور امان کی کوئی صورت نہیں کیونکہ بلی، فاختہ اور زیتون کی ڈالی دونوں کو چٹ کر گئی ہے اور اب تو کوئی اتنا بھی نہیں کہ خشکی (عافیت اور شادمانی) کا پتہ دے۔ منو کی روایت کے مسلسل سفر اور مسلسل سیلاب والے حصے کو بھی انتظار حسین نے یہاں پھر دہرایا ہے۔ مارکندی (مارکنڈے) کو بھی یہاں عمداً لایا گیا جو عمر کے طول یعنی مسلسل عذاب میں گھرے رہنے کا استعارہ ہے۔ مارکنڈے کشتی سے سر نکال کر دیکھتا ہے، ’’چاروں اور گھور اندھیرا اور سناٹا اور جل کی گرج کی دھارا۔ پرم آتما نیند میں تھی اور اننت ناگ کے پھن پھیلے ہوئے تھے۔ نارائن نارائن۔۔۔ خداوند کی روح پانیوں پر جنبش کرتی تھی۔‘‘

    سب دعا مانگتے ہیں کہ اے رب العزت ہمیں برکت کی جگہ اتاریو اور تحقیق کہ تو سب سے بہتر اتارنے والا ہے۔ سب حضرت نوح کی دہائی دیتے ہیں کہ اس کی وجہ سے بچ گئے لیکن کہانی میں یہاں پہنچ کر معلوم ہوتا ہے کہ مختلف اساطیری روایتوں سے گندھی ہوئی یہ ایک داستان تھی جسے حاتم طائی بیان کررہا تھا۔ انتظار حسین یہاں حاتم طائی کو اس لیے لائے ہیں کہ حاتم طائی ہی عہد وسطیٰ کا گلگامش ہو سکتا تھا اور گلگامش مسلسل سفر کا استعارہ ہے۔ گلگامش کی طرح حاتم طائی نے بھی بھری ندیوں کے بیچ ایسی کشتیوں میں سفر کیا جن کا کوئی کھویا نہیں تھا اور نئی نئی مہمات سرکیں۔ کوہِ ندا کی مہم میں اس پر کیا کچھ نہیں بیتی۔ ایک پہاڑ بلند، عظیم الشان، جس پتھر کو اٹھاکر دیکھا اس کے تلے خون بہتا پایا۔ ایک دریا زور شور سے رواں، اور نہ چھور۔

    مچھلی نے دریا سے سر نکال کر کہا کہ اے حاتم یہ روٹیاں اور کباب تیرا ہی رزق ہے شوق سے کھا، وہی مچھلی جو منو سے گویا ہوئی تھی۔ سب نے باہر جھانک کر دیکھا، نہ نوح، نہ مچھلی، نہ حاتم طائی۔ سب سہارے ختم ہوئے۔ آج کا انسان سیلابِ بلا کی زد میں ہے اور اس کا دل ودماغ عقیدوں سے خالی ہے۔ عہد قدیم میں تو گلگامش تھا اور اتنا پشتم کو بچانے والا انلیل، نوح تھا جس نے جن وانس کے ایک ایک جوڑے کو پناہ دی تھی اور سب کی بقا کا اہتمام کیا، منو تھا اور مچھلی تھی، فاختہ اور زیتون کی شاخ تھی اور مچھلی منو سے اور حاتم طائی سے گویا ہوئی تھی، لیکن اب کیا ہے، نہ گلگامش، نہ نوح، نہ منو، نہ مچھلی، نہ فاختہ، نہ حاتم طائی، ارتقائے انسانی نے سب سہارے کھو دیے ہیں۔ ’’چاروں طرف گھور اندھیرا ہے اور بہتے جل کی دھارا ہے اور ناؤ ڈول رہی ہے۔‘‘

    لیکن نوح یا منو کا کہیں پتہ نہیں، فاختہ اور زیتون کی ڈالی بھی نہیں جو عافیت کی خبر دے۔ گھر صدیوں پیچھے رہ گیا ہے۔ بھوسا گرا منڈپڑا ہے۔ مچھلی کی مونچھ سے بندھے ہوئے ہیں لیکن مچھلی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ صرف ’’زمین وزماں‘‘ یعنی وقت کی لہراتی رسی ہے جو ’’سانپ سمان ناؤ کے چاروں اور لہرا رہی ہے۔‘‘ آج کا انسان چنتا سے گھرا ہے۔ ناؤ ڈول رہی ہے اور چاروں اور جل کی دھارا گرج رہی ہے۔ انتظار حسین کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے بقائے انسانی سے متعلق سمیری، بابلی، سامی، اسلامی اور ہندوستانی تمام مذہبی اور اساطیری روایتوں کا معنیاتی جوہر تخلیقی طور پر کشید کیا اور اول تو اس سے یہ دکھایا ہے کہ آفرینش سے نسلِ انسانی ہجرت کی مرہونِ منت ہے، یعنی ہجرت انتہائی بامعنی نقطۂ آغاز ہے اور ارتقائے انسانی کا سلسلہ اسی سے چلا ہے۔

    دوسرے، انتظار حسین نے بقائے انسانی کی تمام اساطیری روایتوں کو جدید فکر سے آمیز کرکے ان کی یکسر نئی تعبیر کی ہے اور یہ بنیادی سوال اٹھایا کہ زمین وزماں کے جبر کا مقابلہ کرنے کے تمام روحانی وسیلے کھو دینے کے بعد آج کے پُرآشوب دور میں نسلِ انسانی کا اندوہ کیا ہے اور طوفانِ بلا میں گھری ہوئی یہ کشتی کنارے لگے گی بھی کہ نہیں؟

    ویسے یہ بات خالی ازلطف نہیں کہ بعض لوگوں نے اس افسانے کو ’’ترقی پسند‘‘ تصور کیا ہے اور اسے اپنے ’’ترقی پسند‘‘ انتخاب میں جگہ دی ہے۔ لگتا ہے یا تو اب خود ان لوگوں کو ’’ظلمت پسندوں‘‘ کے یہاں بھی روشنی کے آثار نظر آنے لگے ہیں، یا ترقی پسندی کی تعریف ہی بدل گئی ہے یا پھر فاختہ اور زیتون کی ڈالی نظر میں رہی ہے، جو امن کے بین الاقوامی نشان کا درجہ رکھتی ہے۔

    اوپر انتظار حسین کے تخلیقی سفر کی چار منزلوں یا چار بنیادی رجحانات کی نشان دہی کی کوشش کی گئی ہے، یعنی اول معاشرتی یادوں کی کہانیاں، دوم انسان کے اخلاقی و روحانی زوال اور وجودی مسائل کی کہانیاں، سوم سماجی، سیاسی مسائل کی کہانیاں اور چہارم نفسیاتی کہانیاں اور بودھی جاتک اور ہندو دیومالائی کہانیاں۔ میری کوشش رہی ہے کہ انتظار حسین کی تخلیقات کے ذریعے ان کے فن کی مختلف جہات اور ذہنی و فکری ارتقا کی مختلف کڑیاں سامنے آ جائیں اور یہ کہ ان کی تخلیقیت کے سرچشموں اور معنویت تک رسائی ہو سکے، اور اس طرح ان کی انفرادیت اور امتیازی نشانات حتی الامکان واضح ہو سکیں۔ ان تمام امور سے عہدہ برآ ہونا نہایت مشکل ہے، بالخصوص جب فنکار کا پیرایۂ اظہار رمزیہ، استعارتی اور تمثیلی ہو۔ یوں بھی ہم عصر Synchronic سطح پر تمثیلی فلسفیانہ کہانیوں کی ہر ہر تعبیر ممکن نہیں۔

    انتظار حسین کا یہ کارنامہ معمولی نہیں کہ انھوں نے افسانے کی مغربی ہیئت کو جوں کا توں قبول نہیں کیا، بلکہ کتھا کہانی اور داستان و حکایت کے جو مقامی سانچے Indigenous Model مشرقی مزاجِ عامہ اور افتادِ ذہنی کے صدیوں کے عمل کا نتیجہ تھے اور مغربی اثرات کی یورش نے جنھیں رد کر دیا تھا، انتظار حسین نے ان کی دانش وحکمت کے جوہر کو گرفت میں لے لیا اور ان کی مدد سے مروج سانچوں کی تقلیب کرکے افسانے کو ایک نئی شکل اور نیا ذائقہ دیا۔

    داستان کی روایت سے استفادہ کرنے کی اولین کوشش اگرچہ عزیز احمد کی طویل کہانی ’’جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں‘‘ میں ملتی ہے، جس میں مغل اور تاتاریوں کے عہد کی بازآفرینی میں نثر کے پرانے اسالیب کو بھی برتنے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن یہ محض ایک تجربہ تھا، جب کہ انتظار حسین کے یہاں معاملہ اردو فکشن کو ایک نئے تخلیقی مزاج سے آشنا کرنے یا دو اصناف کے جوہر کو کشید کرکے دو آتشہ کی کیفیت پیدا کرنے کا ہے۔ انتظار حسین کے کمالِ فن کا ایک پہلو یہ ہے کہ انھوں نے افسانے کو متصوفانہ، فلسفیانہ جستجو اور تڑپ Mystical Quest سے آشنا کرایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں ایک کشف کا سا احساس ہوتا ہے اور کہیں کہیں ایسی فضا ملتی ہے جو آسمانی صحیفوں میں پائی جاتی ہے۔

    انتظار حسین کے کردار، ان کی علامتیں دوسرے افسانہ نگاروں سے اس لحاظ سے مختلف ہیں کہ یہ ان کے اپنے تہذیبی شعور کی پیداوار ہیں۔ افراد ہوں یا معاشرے، ان کی نظر انسان کے روحانی، اخلاقی زوال اور داخلی اور خارجی رشتوں کے عدم تناسب کی مختلف جہتوں پر رہتی ہے، آج کا انسان اور سماج جس طرح منافقت، نفس پروری، خود غرضی، ریاکاری، منافع اندوزی، اور اس طرح کی ہزاروں دوسری لعنتوں میں گھرا ہوا ہے، اس کے لیے اپنی شخصیت کی پہچان اور اپنی ذات کو برقرار رکھنا سب سے بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ انتظار حسین کے افسانے انسان کی اسی تگ ودو اور تڑپ کی ترجمانی کرتے ہیں۔

    انتظار حسین کا فن آج کے انسان کے کھوئے ہوئے یقین کی تلاش کا فن اس لیے ہے کہ مستقبل کا انسان اپنی آگہی حاصل کر سکے اور اپنی ذات کو برقرار رکھ سکے۔ اس کے لیے انھیں پرانے عہد نامے، انجیل، قصص الانبیا، دیومالا، بودھ جاتک، پرانوں، داستانوں اور صوفیا کے ملفوظات سب سے رشتہ جوڑنا پڑا ہے اور نتیجتاً ایسا انداز اظہار وجود میں آیا ہے جو خاص ان کا اپنا ہے۔ انتظار حسین کا فن خاصا تہہ دار اور پرپیچ ہے، جہاں ایک طرف اس کی سادگی فریبِ نظر کا سامان فراہم کرتی ہے، وہیں دوسری اس کی ہوشیاری اور پُرکاری سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ انتظار حسین کا ذہن ایک متحرک ذہن ہے اور اس کا سیّال سفر جاری ہے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آگے چل کر اس کا رخ کن نئی زمینوں اور آسمانوں کی طرف ہوگا۔

     

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے