حکیم الامت حضرت علامہ اقبال ؒ کو مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کا گہرا ادراک و احساس تھا اور اس عظمت کے کھو جانے کا شدید ملال تھا ۔ مگر وہ اس پر ماتم نہیں کرتے بلکہ مسلمانوں کو ان کا کھویا ہوامقام یاد کراتے ہیں اورانہیں یہ مقام پھر سے حاصل کرنے کا ولولہ اور حوصلہ دیتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کے کلام کا بیشتر حصہ ملتِ اسلامیہ کی عظمت کی بحالی کے عزم سے مزیّن ہے۔ علامہ نے ملت اسلامیہ کو خوابِ غفلت سے بیدار ہونے، اپنے پاؤں پر کھڑاہونے اور با وقار قوم کی طرح جینے کا ہنر اور حوصلہ دیاہے۔:
آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
علامہؒ نے اُردو سے زیادہ فارسی کلام لکھا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ علامہؒ کی شعوری کوشش تھی کہ ان کا پیام ہندوستان کی سرحدوں سے باہر نکل کر مسلمانانِ عالم تک رسائی حاصل کر سکے۔ کیونکہ یہ پیام پوری اُمّت کے لیے ہے۔ ہندوستان کے فارسی دان طبقے کے علاوہ ایران، افغانستان،ترکی اور تاجکستان سمیت دنیا کے کئی خطوں میں فارسی پڑھنے والے موجود تھے۔ لہذا اقبالؒ کی زندگی میں ہی ان کا نام اور ان کا کلام بین الاقوامی شہرت حاصل کر چکا تھا۔غیر ملکی اہلِ علم و دانش ہندوستان آتے تو اقبالؒ سے ملے بغیر نہ جاتے۔افغانستان کے بادشاہ نادر شاہ نے دعوت دے کر آپ کو افغانستان بلایا اور شاہی مہمان بنا کر رکھا۔جب وہ یورپ گئے تو بے شما ر علمی او رادبی تنظیموں نے ان سے رابطہ قائم کیا۔ حتیٰ کہ اٹلی کے آمر مطلق حکمران مسولینی نے ملاقات کی دعوت دی۔جب وہ مسولینی سے ملے تو علم ہوا کہ اس نے علامہؒ کی کتاب’اسرارِ خودی‘کا ترجمہ پڑھ رکھا ہے۔ ایک شاعر کی اس ے زیادہ پذیرائی کیا ہو گی۔ آج اقبالؒ صرف برصغیر پاک وہند کے شاعر نہیں ہیں بلکہ ان کا آفاقی پیغام ایران اور افغانستان سمیت متعدد ملکوں میں معروف اور مقبول ہے۔ان کی کتابوں کا ترجمہ درجنوں زبانوں میں ہو چکا ہے اور ان کے فکر و فلسفہ سے پوری دینا کے اہلِ علم و دانش مستفید ہو رہے ہیں۔
تاہم علامہؒ کے کلام کا بڑا حصہ ملّتِ بیضا اور مردِ مومن سے متعلق ہے۔ علامہ اقبالؒ نے اُمّت کی بے بسی، پس ماندگی، معاشی، سیاسی اور عمرانی کسمپرسی شدت سے محسوس کی۔ ان کا ادراک اور اُمت کا درد ان کے کلام میں جابجا نظر آتا ہے۔ انہیں مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ یاد آتی ہے تو ان کے دل سے کسک اٹھتی ہے۔ ان کی نظم ”دنیائے اسلام“ کے درج ذیل اشعار میں ان کا درد نمایاں ہے:
کیا سناتا ہے مجھ کو ترک وعرب کی داستاں
مجھ سے کچھ پنہاں نہیں اسلامیوں کا سوز وساز
ہو گیا مانندِ آب ارزاں مسلماں کا لہو
مضطرب ہے تو کہ تیر ا دل نہیں دانائے راز
یہ اشعار تقریباً ایک صدی قبل تحریر کیے گئے تھے اس وقت اور آج کے دور کے حالات میں نمایاں فرق نہیں ہے۔آج بھی مسلم ممالک کی حالت مثالی نہیں ہے۔دنیا میں کہیں بھی انہیں وہ عزت و احترام حاصل نہیں ہے جو غیر مسلم طاقتوں کو حاصل ہے۔ اہم عالمی پلیٹ فارم مسلمانوں سے خالی ہیں۔ اگر کہیں مسلمان ہیں بھی تو ان کی شنوائی نہیں ہے۔بڑے بڑے معاشی اور سیاسی فیصلے مسلمانوں سے بالاتر ہو کر کیے جاتے ہیں۔بلکہ خود مسلمان ملکوں کی قسمت کے فیصلے اور ان کی اندرونی پالیسیاں کہیں اور بیٹھ کر دوسرے لوگ لکھ رہے ہوتے ہیں۔فرقوں، ذاتوں اور لسانی تنازعات میں اُلجھے ناتواں مسلم ملکوں کو اشارہ ئ ابرو سے نچایا جاتا ہے۔اگر کوئی سر تابی کی جرأت کرتا ہے تو اسے دن دیہاڑے ملیا میٹ کر دیا جاتا ہے۔ان طاقتوں کا ہاتھ نہ کوئی روکنے والا ہے اور نہ کوئی انہیں ٹوکنے والا ہے۔کیونکہ مسلمان ملک اتنے نحیف، غیر منظم، غیر جمہوری ہیں کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کے قابل نہیں۔وہ ان طاقتوں سے قرض لے کر، ان کی آشیر باد کے ساتھ اور ان کی مرضی و منشا پر چل کر زندہ ہیں۔زندہ کیا ہیں بس سانس لے رہے ہیں ورنہ ان میں زندوں والی کوئی بات نہیں ہے۔
ایک صدی قبل جب اقبالؒ نے مسلمانوں کی حالتِ زار کا نقشہ کھینچا ہے اس وقت حالات اس لحاظ سے مزید بد تر تھے کہ بیشتر اسلامی ممالک براہِ راست یورپی اقوام کے زیرِ تسلط تھے۔خلافت کا قلع قمع کرکے ان کی مرکزیت ختم کر دی گئی تھی۔عالم ِ اسلام کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک غلامی کی زنجیریں کھنک رہی تھیں۔یہ تمام حالات علامہ اقبالؒ کے روبرو تھے۔ ان سے نالاں ہو کر اورخود مسلماں کے طرزِ عمل سے مایوس ہو کر انہوں نے لکھا:
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں
ان حالات میں علامہؒ نے مسلمان اور اُمتِ مسلمہ دونوں کو جگانے کا فریضہ ادا کیا اور انہیں آزادی کی قدر وقیمت کا احساس دلایا۔:
آزاد کا ہر لحظہ پیامِِ ابدیت
محکوم کا ہر لحظہ نئی مرگِ مفاجات
علامہؒ نے نہ صرف آزادی اور غلامی کا فرق بتایا بلکہ غلامی کی زنجیروں کو کاٹنے کا ہنر بھی سکھلایا۔:
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پید اتو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
اقبالؒ سمجھتے تھے کہ کسی ایک فرد کا گناہ تو معاف کیا جاسکتا ہے لیکن جملہ قوم کی بے حمیتی کا کوئی حل نہیں ہے، یہ ناقابلِ معافی جرم ہے:
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
اقبالؒ مسلمانوں کی تساہل پسندی پر کڑھتے تھے اور اس تساہل پسندی اور غفلت کو ملت کا گناہ قرار دیتے تھے۔یہی غفلت اور خوئے غلامی بندہٗ مومن کو بندہئ مومن نہیں بلکہ نفس کا بندہ بنادیتی ہے۔ اللہ نے جسے اشرف المخلوقات بنایا ہے وہ کسی اور طاقت کی غلامی اختیار کرکے اپنا تشخص اور اپنا مقام کھو بیٹھتا ہے۔وہ مقام سے گر کر چوپایوں سے بھی بد تر ہو جاتا ہے۔ اقبالؒ نے فرمایا:
آدم از بے بصری بندگیِ آدم کرد
گوہرے داشت ولے نذرِ قباد و جَم کرد
یعنی از خوئے غلامی ز سگاں خوار تر است
من ندیدم کہ سگے پیشِ سگے سر خم کرد
(ترجمہ: آدمی اپنی حقیقت سے بے خبری کی بنا پر آدمی کی غلامی کرتا ہے۔ وہ آزادی و حریت کا گوہر تو رکھتا ہے لیکن اسے قباد و جمشید (سے بادشاہوں) کی نذر کر دیتا ہے۔یعنی اس غلامی کی عادت میں وہ کتوں سے بھی زیادہ خوار ہوتا ہے، (کیونکہ) میں نے نہیں دیکھا کہ (کبھی) کسی کتے نے دوسرے کتے کے سامنے سر خم کیا ہو۔)
غلامی اپنے نفس کی ہو یا کسی غیر کی، دونوں ہی مردِمومن کے لیے زہرِ قاتل ہیں۔اس کے بر عکس اقبالؒ نے جس بات پر پورا زور دیا ہے اور ان کا کلام اس سے بھرا پڑا ہے، وہ ہے خودی۔ جس شخص میں یہ جذبہ خودی ہو گا وہ کبھی کسی کی غلامی پر قانع نہیں ہو گا۔جب انسان نفس کی غلامی پر کاربند ہوجاتا ہے تو وہ اپنی ذات کا غلام بن جاتا ہے اور ملک و ملت اور دین اس کی ترجیحات میں کہیں پیچھے چلے جاتے ہیں۔ انہی کے نتیجے میں مسلمانوں کے درمیان فرقہ بندی، قومیت، ذاتیں انہیں تقسیم درتقسیم کر دیتی ہیں۔علامہؒ مسلمانوں کی اس نا اتفاقی پر اپنی ناخوشی کا یوں اظہار کرتے ہیں۔:
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
وہ مسلمانوں کو اتحاد اور اتفاق کی یوں تلقین کرتے ہیں:
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی
وہ مسلمانوں کو اللہ کی رسی مضبوطی سے تھامنے اور آپس میں اتفاق واتحاد قائم رکھنے کے قرآنی مشورے کو یوں شعری جامہ پہناتے
ہیں جو الفاظ تو علامہ کے ہیں لیکن حکم اللہ کا ہے۔:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاکِ کاشغر
علامہ کا یہ فکر و فلسفہ قرآن کی روح کے عین مطابق ہے۔ ایک حاذق طبیب کی طرح جسدِ ملت میں سرایت مختلف امراض کی درست تشخیص اور پھر اس کا علاج بھی تجویز کرتے ہیں۔ان سے کوئی مرض چھپا نہیں رہا۔فرماتے ہیں:
خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حدیثِ رِندانہ
انفرادی ہو یا اجتماعی، ظاہری ہو یا باطنی، داخلی ہو یا خارجی وہ تمام اسباب وعلل جو قوم و ملت کے لیے ضرر رساں ہیں، جو مسلمانوں کی اخلاقی پس ماندگی کی وجہ ہیں اوران کے زوال کا باعث ہیں۔حکیم الامت نے ان تما م امراض کی درست تشخیص کی اور پھر قرآن وسنت کی روشنی میں اُمّت کو راہِ نجات دکھلائی جو دراصل راہِ حق ہے۔:
کی محمد ؑسے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.