Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اقبال اور صدائے کن فیکون

سلیم احمد

اقبال اور صدائے کن فیکون

سلیم احمد

MORE BYسلیم احمد

    اقبال نے اپنے ایک شعر میں مشرق و مغرب کے فرق میں ایک بنیادی بات کہی ہے۔ مشرق سکون پرست ہے جب کہ مغرب حرکت و تغیر کا قائل ہے۔ چنانچہ مغرب میں زمانہ ہر لحظہ دگرگوں رہتا ہے جب کہ مشرق میں صدیوں تک تبدیلی کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ اقبال کے نزدیک اس فرق کی وجہ دونوں کی مخصوص ذہنیت ہے۔ مغرب کی ذہنیت تاجرانہ ہے جب کہ مشرق کی مخصوص ذہنیت کو اقبال نے راہبانہ کہا ہے۔ جہاں تک مشرق و مغرب کا تعلق ہے، اقبال کی نظر بنیادی بات پر گئی ہے۔ اور جس زمانے میں اقبال نے یہ بات کہی ہے، اُس زمانے میں اقبال جیسی بصیرت کے بغیر یہ بات کوئی کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن اقبال نے اس کی جو وجہ بتائی ہے، اس کے ماننے میں مجھے کچھ پس و پیش ہے۔ مشرق کی کون سی قومکا مزاج راہبانہ ہے؟ میرا خیال ہے کہ بدھ کو چھوڑ کر مشرق کے کسی بڑے راہ نما یا مذہب نے رہبانیت کی تعلیم نہیں دی۔ کنفیوشس، زرتشت، اسلام، وید اور گیتا کسی کی بھی تعلیم راہبانہ نہیں ہے۔ پھر مشرق کی ذہنیت کے راہبانہ ہونے کا کیا ثبوت ہے؟ ممکن ہے کہ یہ کہا جائے کہ بدھ کی طرح حضرت عیسیٰ بھی تو ہیں جن کی تعلیمات میں رہبانیت پائی جاتی ہے۔ لیکن دراصل اسی حساب سے تو مغرب کو راہبانہ ہونا چاہیے تھا، کیوں کہ سارا مغرب حضرت عیسیٰ کا ماننے والا ہے۔ دوسرا افسوس مجھے یہ ہے کہ اقبال جیسا دانائے راز مغربی ذہنیت کو تاجرانہ کہتے وقت مشرق کے بنیوں کو بھول گیا۔ اس سلسلے کا ایک سوال اور بھی ہے۔ عہدِ جدید کے آغاز سے پہلے مغرب میں بھی زمانہ اس طرح ہر لحظہ دگرگوں نہیں تھا۔ تب وہاں بھی مشرق کی طرح صدیوں تک تبدیلی کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ تو کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ عہدِ جدید سے پہلے مغرب کی ذہنیت بھی راہبانہ تھی اور صرف عہدِ جدید میں تاجرانہ ہوئی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر مشرق اور مغرب کے فرق کو ہمیں مشرق اور عہدِ جدید کے مغرب کا فرق کہنا چاہیے، اور اس کی وجہ مشرق و مغرب کی ذہنیتوں کے بجائے عہدِ جدید کی ذہنیت میں ڈھونڈتی پڑے گی۔ خیر وجہ کچھ بھی ہو، ہمیں آم کھانے سے مطلب ہے، پیڑ گننے سے نہیں۔ اصل سوال یہ نہیں ہے کہ مشرق و مغرب کی ذہنیتوں میں یہ فرق کیوں ہے؟ اصل سوال یہ ہے کہ مشرق اور مغرب میں کس کی ذہنیت درست ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ سکون اور حرکت میں کون سی چیز بنیادی ہے اور کس کو کس پر فوقیت حاصل ہے؟

    جہاں تک اقبال کے مجموعی رویے کا تعلق ہے، اقبال مشرق و مغرب دونوں سے خوش نہیں معلوم ہوتے۔ اُنھوں نے دونوں پر تنقید کی ہے اور اپنی دانسیت میں ایک ایسا پیغام دیا ہے جو مشرق و مغرب دونوں کی شبِ تاریک کو سحر بنا سکتا ہے۔ اقبال کے عقیدت مند اسیاسلام کا پیغام سمجھتے ہیں جو اقبال کی زبان سے دیا گیا ہے۔ اقبال کا عقیدت مند میں بھی ہوں، لیکن ان کی ہر بات کو لامحالہ اسلامی نہیں سمجھتا۔ میرے اسلام اور اقبال کے اسلام میں فرق ہے۔ میں روایتی اسلام کا ماننے والا ہوں جب کہ اقبال اس کے مخالف ہیں۔ بہرحال یہ اختلاف عقیدت مندی کے باوجدو موجود ہے بلکہ عقیدت مندی کی وجہ سے اور زیادہ شدید ہوگیا ہے۔ خیر اس مخصوص مسئلے کے سلسلے میں سوال یہ ہے کہ اسلام مشرق کی طرف ہے یا مغرب کی طرف، یعنی سکون کو فوقیت دیتا ہے یا حرکت و تغیر کو؟

    اقبال مغرب کے خلاف ہیں مگر سکون و حرکت کی بحث میں مغرب کے ساتھ ہیں، یعنی جدید معرب کے۔ جدید مغرب والوں کی طرح ان کا خیال بھی یہی ہے کہ کائنات میں اصل چیز حرکت و تغیر ہے اور سکون صرف ایک فریبِ نظر ہے۔ اُن کے خیال میں زندگی اور کائنات کا ہر ذرہ تڑپتا ہوا کسی نامعلوم سفر پر جا رہا ہے اور کاروانِ حیات کسی جگہ رکنے کا نام نہیں لیتا۔ اُن کی پوری بات کا خلاصا اُن کے ایک شعر میں آگیا ہے،

    سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں

    ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں

    یہ بات اچھی ہے یا بری، پسندیدہ ہے یا ناپسندیدہ، اس کے بارے میں اقبال کے کلام میں دو رویے پائے جاتے ہیں۔ ایک رویہ افسوس کا ہے جو ’’بانگِ درا‘‘ کی بعض نظموں میں پایا جاتا ہے۔ ان میں وہ حرکت و تغیر کی حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں مگر ایک شعر کے ذریعے،

    یہ کاروانِ ہستی ہے تیزگام ایسا

    قومیں کچل گئی ہیں اس کی روا روی میں

    آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کہن پہ اڑنا

    منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں

    ان اشعار کے لب و لہجے کو غور سے دیکھیے۔ ان میں کاروانِ ہستی کی تیزگامی کا بیان ایک جبر کے احساس کے ساتھ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اقبال کو احساس ہے کہ ان کی قوم زمانے کی رفتار سے بچھڑ گئی ہے اور طرزِ کہن پر قائم رہنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اقبال ایک دکھ کے ساتھ اُسے بتاتے ہیں کہ زندہ رہنے کے لیے تبدیل تو ہونا پڑے گا۔ دوسرا رویہ وہ ہے جو ’’بانگِ درا‘‘ کی بعد کی شاعری میں ظاہر ہوا۔ یہاں اقبال کائنات میں حرکت و تغیر کی موجودگی پر شادیانے بجاتے نظر آتے ہیں اور حرکت و تغیر کا ذکر اتنی سرخوشی کے عالم میں کرتے ہیں کہ جن نظموں میں یہ موضوع آگیا ہے، وہ خود رقصِ حیات کی تصویر پیش کرنے لگتی ہیں۔ مثال کے طور پر ’’ساقی نامہ‘‘ کو دیکھیے جس کے ایک ایک لفظ میں سرخوی موجِ رواں کی طرح اُبھر رہی ہے۔ رفتہ رفتہ اقبال حرکت و تغیر کے اتنے قائل ہوتے ہیں کہ عام اسلامی عقائد کے برعکس ذاتِ الٰہی میں تغیر کی نموددیکھنے لگتے ہیں اور آیۂ کریمہ ’’کل یوم ھو فی شان‘‘ کو اپنے دعوے کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ خود اقبال کی تشخیص کے مطابق یہاں پہنچ کر اقبال کے خیالات قطعی طور پر مغربی ذہنیت کے مطابق بن جاتے ہیں اور مغرب کی مخالفت کے باوجود اس بنیادی مسئلے میں اقبال مغرب کے ساتھ ہو جاتے ہیں۔ اقبال کے فلسفۂ عمل پر گفتگو کرتے ہوئے میں ایک جگہ لکھ چکا ہوں کہ اقبال اپنے عہد کی ایک مخصوص پیداوار ہیں اور بعض ایسے رویوں اور رجحانات کا اظہار کرتے ہیں جو ان سے پہلے ہماری تہذیب میں موجود نہیں تھے۔ حرکت و تغیر کے بارے میں ان کا رویہ انھی رویوں میں سے ایکہے۔

    حرکت کائنات میں موجود ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں۔ اقبال نے افلاطون پر سکون پرستی کا الزام لگایا ہے لیکن کائنات میں حرکت کا افلاطون بھی قائل ہے۔ اس کی کائنات اگر سکونی کائنات ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کائنات میں حرکت موجود نہیں ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس کائنات سے اوپر اعیانِ نامشہود کی دنیا ہے جو حرکت و تغیر سے ماورا ہے۔ ارسطو نے ایک قدم آگے بڑھایا ہے اور حرکت کے لیے ایک غیرمتحرک اصولِ حرکت کو لازمی قرار دیا ہے۔ روایتی اسلام کی دینیات میں یہ مقام ذاتِ باری کا مقام ہے جو خود ’’بے حرکت‘‘ ہے لیکن ہر حرکت کا منبع اور سرچشمہ ہے اور ایام کو انسانوں کے درمیان گردش دیتا ہے۔

    اس کے معنی یہ ہیں کہ سکون پرستی کا مفہوم بے حرکتی نہیں ہے۔ مشرق جس سکون پرستی کا قائل ہے اُس میں حرکت کا ایک مقام ہے جو سکون کے تابع ہے۔ یہاں حرکت ہوتی ہے لیکن کسی اصول کے تحت ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں زمانہ مشرق میں بھی بدلتا اور چلتاہے۔ بس شترِ بے مہار کی طرح نکیل تڑا کر نہیں بھاگتا۔ اس کی مہار کسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ آپ چاہیں تو کہہ لیں خدا کے ہاتھ میں یا اصول کے ہاتھ میں یا مابعد الطبیعیات کے ہاتھ میں۔

    مابعد الطبیعیات کا ذکر آیا ہے تو ہم اس اصول کو واضح طور پر بیان کردینا چاہتے ہیں کہ مابعد الطبیعیاتی نقطۂ نظر سے سکون کو ہمیشہ حرکت پر فوقیت حاصل ہے۔ کیوں کہ حرکت اور تغیر مادے کی صفت ہے جو طبیعیات کا شعبہ ہے۔ مابعد الطبیعیات کا تعلق مادے سے نہیں، ماورائے مادہ سے ہے۔ ان معنوں میں وہ تمام جدید فلسفے جو حرکت و تغیر پر زور دیتے ہیں اور اس سے ماورا کسی ایسی حقیقت تک نہیں پہنچتے جو بے حرکت اور بے تغیر ہے، اپنی اصل میں مادہ پرست فلسفے ہیں اور قطعی طور پر مابعد الطبیعیات سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ مثلاً ایک فلسفہ برگساں کا ہے جس سے اقبال کماز کم حرکت پرستی کی حد تک ضرور متاثر ہیں۔ برگساں نے ارتقا کے تخلیق کا نظریہ پیش کیا، جو ان معنوں میں ایک مادی فلسفہ ہے کہ صرف ممکنات (becoming) سے بحث کرتا ہے۔ اقبال اس کے نظریۂ دورانِ محض سے اتنے متاثر ہوئے کہ زمانے کو خدا کہہ بیٹھے۔ استدلال پھر ایک حدیثِ قدسی سے کیا گیا جس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ زمانے کو برا مت کہو کیوں کہ زمانے کی فعلیت اس کی اپنی نہیں ہے۔زمانہ جو کچھ کرتا ہے، اُس کا فاعلِ حقیقی خدا ہے۔ بہرحال اس بحث سے کم از کم یہ واضح ہوگیا ہے کہ مابعد الطبیعیاتی طور پر مشرق کی سکون پرستی درست ہے اور مغرب کی حرکت پرستی غلط۔ اس معاملے میں چونکہ اقبال مغرب کے ساتھ ہیں، اس لیے وہ بھی غلطی پر ہیں۔

    اس سے پہلے میں کہیں کہہ چکا ہوں کہ اقبال شاعر ہیں اور ہمیں ان کے خیالات کو بنے بنائے خیالات کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے، بلکہ ان کے نفسِ باطن میں اُتر کر اس بنیاد کو تلاش کرنا چاہیے جو اُن خیالات کا سبب ہے۔ اقبال کے خیالات غلط ہوسکتے ہیں لیکن اپنی غلطی کی بنا پر وہ غیر اہم نہیں ہوجاتے۔ اُن کی اہمیت اُن کی معروضی صداقت میں نہیں، اُن کی موضوعی صداقت میں ہے۔ یعنی اہم بات یہ نہیں ہے کہ وہ خیالات درست ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ اقبال کے لیے درست ہیں۔ اب ہم اس مسئلے پر غور کریں گے کہ حرکت و تغیر سے اقبال کی اتنی وابستگی کا سبب ان کے باطن میں کیا ہے؟ یعنی ان کے شعری تجربے اور شاعرانہ شخصیت سے کیا تعلق رکھتا ہے؟

    اقبال کے فلسفۂ عمل پر گفتگو کرتے ہوئے ہم کہہ چکے ہیں کہ اقبال ایک بے چین آدمی ہیں۔ ان کی بے چینی ان کی زندگی کی ناکامی سے پیدا ہوئی ہے۔ اقبال اپنی قوم کو بھی اپنے اسی تجربے کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ ان کی قوم بھی ایک ناکام قوم ہے، اس لیے اقبال کا اوّلین مسئلہ اس ناکامی کو کامیابی میں بدلنا ہے۔ اپنی ناکامی کو بھی اور اپنی قوم کی ناکامی کو بھی۔ ناکامی کو کامیابی سے بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ موجودہ حالت میں تبدیلی پیدا ہو۔ موجودہ حالت اتنی خراب ہے کہ ہر قسم کی تبدیلی کسی بہتری کا باعث بن سکتی ہے۔ بقولِ مومنؔ،

    اے حشر جلد کر تہ و بالا زمین کو

    کچھ ہو نہ ہو اُمید تو ہے انقلاب میں

    اقبال کو بھی تبدیلی میں اپنی اور اپنی قوم کے لیے اُمید کی ایک صورت نظر آتی ہے۔ زمانہ بدلے گا اور کیا عجب ہے کہ اس تبدیلی کے ساتھ اقبال اور ان کی قوم کی حالت کچھ بہتر ہوجائے۔ تاریخی طور پر اقبال جس زمانے میں پیدا ہوئے، وہ بہت بڑی تبدیلیوں کا زمانہ تھا۔ مغرب کی قومیں جن کی برتری اور عظمت کا طلسم سرسیّد کے دور کو دیوانہ بنا چکا تھا، اب رو بہ زوال تھیں۔ اس کے مقابلے پر مشرق میں نئی نئی قومیں اُبھر رہی تھیں۔ انقلابِ روس نے مغرب کی قوتوں کو شدید صدمہ پہنچایا۔ اقبال کے شعور نے اس انقلاب کی قوت اور اس کے دور رس نتائج کو محسوس کیا تھا۔ دوسری طرف چینیوں میں بھی بیداری کی لہر پیدا ہو رہی تھی۔ اقبال نے انقلاب کی ان نئی قوتوں کو سر اُٹھاتے دیکھا تھا اور ان سے مثبت طور پر متاثر ہوئے تھے۔

    اس کے علاوہ خود مغرب سے ایسی آوازیں اُٹھنے لگی تھیں جو مستقبل قریب میں مغرب کے مکمل زوال کا اعلان کر رہی تھیں؛ مثلاً اشپنگلر کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’زوالِ مغرب‘‘ ۱۹۱۸ء میں شائع ہوچکی تھی۔ اقبال کا شعور تیزی سے بدلتی ہوئی اس دنیا کے حالات اور ان سے متعلق نظریات سے اس طرح متاثر ہوا کہ وہ ’’بانگِ درا‘‘ کے زمانے میں ہی آنے والے دور کی ایک دھندلی سی تصویر دیکھنے لگے تھے۔ اس تصویر یں مسلمانوں کا بھی ایک مقام تھا۔ مشرق کی دوسری اقوام کی طرح وہ بھی بیدار ہو رہے تھے۔ حالات جوں جوں تبدیل ہوتے گئے، مستقبل کی دھندلی تصویر واضح سے واضح تر ہونے لگی۔ یہ زمانہ اقبال کی ذاتی زندگی میں بڑی تبدیلیوں کا زمانہ تھا۔ وہ اب ایک طرف سر محمد اقبال اور دوسری طرف حکیم الامت اور شاعرِ مشرق بن چکے تھے۔ ذاتی، قومی اور بین الایشیائی اقوام میں ان تبدیلیوں سے اقبال خوش تھے۔ وقت کی رفتار جوں جوں تیز ہوتی گئی، اقبال کے تخیل اور آواز کو پر لگتے چلے گئے۔ مغرب کے خلاف ان کا لہجہ زیادہ سے زیادہ پُراعتماد اور مشرق کی حوصلہ مندی سے بھرپور بنتا چلا گیا۔ اس زمانے میں اُنھوں نے جہاں ایک طرف پیغمبرانہ شان کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ فرنگ رہ گزرِ سیلِ بے پناہ میں ہے، وہاں ان کی آنکھوں نے اس زمانے کے خواب کو متشکل ہوتے بھی دیکھا جو ابھی پردۂ تقدیر میں تھا۔ اقبال کو ایسا محسوس ہوا جیسے آنے والے زمانے کی سحر ان کی آنکھوں کے سامنے بے نقاب ہوگئی ہے۔ اقبال کی ذاتی زندگی اور اس کے ساتھ ان کی قوم کی زندگی میں یہ سب کچھ کس وجہ سے ممکن ہوا تھا۔ تبدیلی کی وجہ سے۔ اس وجہ سے کہ کائنات میں حرکت و تغیر کا وجود تھا۔ اس وجہ سے کہ کائنات ساکن نہیں تھی۔ اس وجہ سے اقبال حرکت و تغیر کے تصور ہی سے مست ہوجاتے ہیں۔ یہ مستی خیالات و نظریات کی مستی نہیں ہے، نہ فلسفہ و فکر کی۔ یہ مستی اُن کے ذاتی تجربے سے پیدا ہوئی ہے اور پھر ان کی قوم اور مشرق کو لپیٹ میں لیتی ہوئی پوری کائنات میں پھیل گئی ہے۔ اب یہ وہ کائنات ہے جو ہر لحظہ بدل رہی ہے اور بدلنے میں ترقی کر رہی ہے اور ترقی مں ی اپنے اندر نئی نئی قوتوں کا اضافہ کر رہی ہے۔ یہ وہ بنی بنائی کائنات نہیں ہے جو ایک جگہ ساکن ہوگئی ہو اور اپنے وجود میں مکمل ہوکر تغیر کی صلاحیت سے محروم ہوگئی ہو۔ یہ ایک ناتمام کائنات ہے اور لامحدود مستقبل تک پھیلی ہوئی ہے، اس کائنات کے تجربے سے اقبال کو دما دم صدائے کن فیکون کی گونج سنائی دینے لگتی ہے اور یہی گونج اقبال کی شاعری کی وہ آواز ہے جو اردو کے کسی اور شاعر کو نصیب نہیں ہوئی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے