Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اقبال اور اردو شاعری کی چار قسمیں

سلیم احمد

اقبال اور اردو شاعری کی چار قسمیں

سلیم احمد

MORE BYسلیم احمد

    اقبال کی شاعری کا اگر ہم اردو کے دوسرے شعرا کی شاعری سے مقابلہ کریں تو ایک نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ اقبال جذبات اور محسوسات کے بجائے خیالات کو کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ اس بنیادی بات سے کئی نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کی اجازت ہو تو آیئے اس بات پر غور کریں کہ یہ فرق کیوں ہے؟ اور بحیثیت شاعر اقبال کے لیے اچھا ہے یا برا؟ بہت سے لوگ جو اقبال کو شاعر نہیں سمجھتے اور خیالات کی بنیاد پر اقبال کی اہمیت کے قائل ہیں، اس فرق کو اقبال کی عظمت قرار دیتے ہیں۔ ان کا رویہ کچھ اس قسم کا ہے، اقبال کا مقابلہ اردو کے دوسرے شعرا سے نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ ان شعرا کے پاس ان کے جذبات و محسوسات کے سوا اور کچھ نہیں ہے، اور جذبات و محسوسات فکر سے گھٹیا چیزیں ہیں۔ اقبال کے پاس فکر ہے اور ان کی حقیقی عظمت یہی ہے کہ وہ اردو کے دوسرے شعرا سے مختلف ہیں۔ بعض لوگ اس کلیے سے غالب کا عنصر پایا جاتا ہے اور وہ بھی خیالات کو دوسرے شعرا کی نسبت زیادہ استعمال کرتا ہے۔ اس لیے اقبال کے ساتھ اگر کسی اور اردو شاعر کا نام لیا جاسکتا ہے تو وہ غالب ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک غالب اور اقبال کا رشتہ نقشِ ثانی کا رشتہ ہے۔ غالب نقشِ اوّل ہے اور اقبال نقشِ ثانی۔ نقشِ ثانی کی برتری مسلّم ہے۔ غالب نے جس چیز کی ابتدا کی ہے، اقبال نے اسے انتہا کو پہنچا دیا ہے۔ کچھ لوگ اس مقدمے کی صحت کو تسلیم کرتے ہوئے اس میں میر کو اور شامل کر لیتے ہیں، اور میر کے کلام سے چھانٹ چھانٹ کر ایسے اشعار نکالتے ہیں جن میں کوئی خیال موجود ہو۔ بس اس کے بعد یہ فہرست ختم ہو جاتی ہے اور گویا یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ فکر اہم ہے اور اس کے علاوہ جو شاعری ہے، اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ اس کے مقابلے پر ایک دوسرا گروہ ہے جس کے نزدیک شاعری میں فکر یا خیال کا موجود ہونا شاعری کی موت ہے۔ اس گروہ کے نزدیک شاعری جذبات اور محسوسات سے تعلق رکھتی ہے اور فلسفہ و فکر پر زور دینے والے ہمیشہ غیر شاعر ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس گروہ کے نزدیک اقبال شاعر نہیں ہیں۔ ان کا فلسفہ اور فکر اہم ہوسکتا ہے مگر شاعر ہونا اور بات ہے۔ ان دونوں گروہوں میں اختلاف کے باوجود ایک بات مشترک ہے۔وہ شاعری کا برا یا اچھا جو بھی تصور رکھتے ہیں، اقبال کو اس سے خارج کردیتے ہیں۔ دونوں کے نزدیک اقبال شاعر نہیں ہیں۔ ایک گروہ اسے ان کی عظمت قرار دیتا ہے، دوسرا گروہ پستی۔ اب اس میں تو کوئی شبہ نہیں ہے کہ خیالات میرؔ کے یہاں بھی پائے جاتے ہیں اور غالبؔ کے یہاں بھی۔ یہاں تک کہ نظیرؔ اکبرآبادی کا کلام بھی خیالات سے خالی نہیں ہے۔ لیکن اقبال میں اور ان میں ایک فرق ہے۔ میرؔ، غالبؔ اور نظیرؔ اکبرآبادی کے خیالات بیشتر روایتی خیالات ہیں جو تصوف اور فلسفۂ اشراق سے ماخوذ ہیں۔ لیکن اقبال کے یہاں انفرادی خیالات کی کثرت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے خودی اور عشق کے بارے میں ایسے تصورات پیش کیے ہیں جو ان سے پہلے موجود نہیں تھے، یعنی ان موصوعات پر ان کے خیالات، ان کی اختراع ہیں۔ محققین ظاہر ہے کہ ادبی بحثوں میں خاموش نہیں بیٹھ سکتے، اس لیے وہ مشرق و مغرب میں دوڑ پڑتے ہیں، اور اقبال کے خیالات کے مآخذ ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ مغرب پرستوں میں کوئی فشتے کو لاتا ہے اور کوئی نٹشے کو۔ فشتے، نٹشے، گوئٹے، ملٹن، برگساں اور فہرست یہاں ختم نہیں ہوتی۔ ہر محقق کے ساتھ کسی نہ کسی نئے نام کا اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ جو لوگ مشرق پرست ہیں، وہ کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ اقبال مغرب کے کسی فلسفی یا مفکر سے کیوں متاثر ہوتے، وہ تو سیدھے رومی سے متاثر ہیں۔ اور ہونہار شاگرد کی کیا بات ہے کہ استاد سے آگے بڑھ گیا ہے۔ ان بحثوں سے اقبال کو کوئی فائدہ پہنچا ہو یا نہ پہنچا ہو، اقبال کے مجاوروں کو ضرور پہنچا ہے۔ ہمارا تعلق اقبال کی شاعری سے ہے، اس لیے آیئے اپنے اٹھائے ہوئے سوالات پر غور کریں۔

    پہلا سوال یہ ہے کہ اقبال اور اردو کے دوسرے شعرا میں جو فرق پایا جاتا ہے، اس کا سبب کیا ہے؟ کیا واقعی اس کا سبب یہ ہے کہ اقبال اچھے یا برے معنوں میں شاعر نہیں ہیں؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہم یہ دیکھیں کہ اردو میں کس کس قسم کی شاعری پائی جاتے ہیں۔

    اس مضمون میں چونکہ میرا ارادہ کوئی مفصل خاکہ بنانے کا نہیں ہے اور میں اس کا اہل بھی نہیں ہوں، اس لیے صرف دو چار موٹی موٹی باتیں بیان کروں گا۔ اردو میں چار قسم کی شاعر پائی جاتی ہے،

    (۱) خیالات اور تصورات کی شاعری جیسے میرؔ و غالبؔ کی شاعری کے بعض حصے،

    یہ توہم کا کارخانہ ہے

    یاں وہی ہے جو اعتبار کیا

    (میرؔ)

    *

    ہستی کے مت فریب میں آجائیو اسدؔ

    عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے

    (غالبؔ)

    اس قسم کی شاعری میں وہ اشعار، نظمیں، قصیدے اور مثنویاں بھی شامل ہیں جن میں کوئی اخلاق مضمون یا کوئی تاریخی یا اسطوری واقعہ پیش کیا جاتا ہے۔ مثلاً نظیرؔ اکبرآبادی کی شاعری کا اکثر حصہ۔

    (۲) جذبات اور محسوسات کی شاعری: مثلاً میرؔ کے کلام کا بیشتر حصہ اور غالبؔ کی کچھ غزلیں، جیسے،

    درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے

    یا

    مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے

    (۳) زبان کی شاعری یعنی ایسی شاعری جس میں ضرب الامثال، محاورے اور روزمرہ کثرت سے استعمال ہوں؛ مثلاً ذوقؔ اور داغؔ کی شاعری۔

    (۴) رعایتِ لفظی کی شاعری یعنی ایسی شاعری جس میں زور الفاظ اور ان کے داخلی اور خارجی مناسبات اور صائع بدائع پر ہوتا ہے۔ مثلاً مثنوی ’’گلزارِ نسیمؔ‘‘ اور مومنؔ کی شاعری کا کچھ حصہ یا لکھنوی شاعری کا بیشتر حصہ۔

    شاعری کی اس تقسیم کو بہت زیادہ وضاحت یا حد بندی کے ساتھ اس وجہ سے بیان نہیں کیا جاسکتا کہ اکثر شعرا کے کلام میں کئی کئی عناصر ملے جلے ہوتے ہیں جن کا تجزیہ ہر شاعر کے کلام کے تفصیلی مطالعے کا تقاضا کرتا ہے۔ اس کے ساتھ میں ایک تنبیہ اور کرتا ہوں۔ میرؔ ایک ایسا شاعر ہے جس کے بارے میں، یہ کہنا کہ وہ جذبات اور محسوسات کا شاعر ہے، ایک انتہائی گم راہ کن بات ہے۔ اس کے ایسے اشعار میں بھی، جو بظاہر جذباتی یا محسوساتی معلوم ہوتے ہیں، اس کی پوری شخصیت اور تہذیب کے بے شمار اثرات کثرت سے گھل مل جاتے ہیں اور انھیں صرف جذباتی اور محسوساتی کہنا مشکل ہوجاتا ہے؛ مثلاً میرؔ ایک شعر میں کہتے ہیں،

    پاسِ ناموسِ عشق تھا ورنہ

    کتنے آنسو پلک تک آئے تھے

    یہ شعر بظاہر ایک جذباتی شعر معلوم ہوتا ہے لیکن اس کے پیچھے وہ تمام تہذیبی اقدار بول رہی ہیں جو عشق اور ناموسِ عشق کا ایک مخصوص تصور رکھتی ہیں۔ فراقؔ صاحب نے کسی جگہ لکھا ہے کہ غالبؔ دماغ کا شاعر ہے۔ لیکن میرؔ صرف دل کا شاعر نہیں ہے بلکہ میرؔ کے دل میں اس کا دماغ حل ہوگیا ہے۔ اس لیے جذباتی اور محسوساتی شاعری کے ضمن میں میرؔ کا حوالہ صرف گفتگو کی آسانی کے لیے پیش کیا گیا ہے۔ اب ہم شاعری کی ان مختلف قسموں کے بارے میں اپنے زمانے کے مختلف رویوں کا جائزہ لیں گے۔ جو لوگ فکر کے قائل ہیں، ان کو بیشتر اردو شاعری سے مایوسی ہوتی ہے۔ غالبؔ، اقبال کو چھوڑ کر انھیں کوئی اردو شاعر ایسا نظر نہیں آتا جسے وہ کوئی اہمیت دے سکیں۔ اس کے مقابلے پر جو لوگ جذبات اور محسوسات کی شاعری کے قائل ہیں-97 اور ہمارے زمانے کے شعرا اور قارئین کی عام اکثریت ان ہی سے تعلق رکھتی ہے-97 وہ بھی اکثر اردو شاعری سے مایوس ہوتے ہیں۔ یہاں بھی میرؔ و غالبؔ کے استثنیٰ کے ساتھ اردو شاعری کا بہت کم حصہ ان کے معیار پر پورا اترتا ہے۔ خصوصاً لکھنوی شاعری تو بالکل ہی رد کیے جانے کے قابل نظر آتی ہے۔ شاعری کی باقی دو قسموں کے پسند کرنے والے ابھی تیس چالیس سال پہلے تک موجود تھے لیکن اب رفتہ رفتہ بالکل معدوم ہوتے جاتے ہیں۔ اقبال کی شاعری، شاعری کی پہلی قسم سے تعلق رکھتی ہے۔ لیکن اردو کی اس قسم کی شاعری سے اقبال اس لیے مختلف بھی ہیں کہ وہ دوسرے شعرا کے برعکس انفرادی خیالات پیش کرتے ہیں۔ اب غالباً ہم نے اقبال اور اردو کے دوسرے شعرا میں جو فرق پایا جاتا ہے، اس کو وضاحت سے بیان کردیا ہے۔ اقبال نہ زبان کے شاعر ہیں، نہ رعایتِ لفظی کے، نہ صنائع بدائع کے اور نہ جذبات و محسوسات کے۔ وہ تصورات اور خیالات کے شاعر ہیں اور تصورات اور خیالات بھی روایتی نہیں، ان کے اپنے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ خیالات کی شاعری اچھے یا برے معنوں میں شاعری ہوتی بھی ہے؟

    میں نہیں چاہتا تھا کہ ‘شاعری کیا ہے اور کس طرح پیدا ہوتی ہے’ کے انتہائی نازک اور متنازع مسئلے پر بات کرنے کی کوشش کروں۔ دراصل میں اس کا اہل بھی نہیں ہوں۔ لیکن ہماری گفتگو جن حدود میں پہنچ گئی ہے، وہاں اس مسئلے کا سامنا کیے بغیر کوئی چارہ ہے بھی نہیں۔ اپنے پڑھنے والوں سے انتہائی معذرت کے ساتھ میں اپنی بساط بھر اپنے ناقص خیالات کو پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ میرے نزدیک شاعری اور زندگی ہم معنی الفاظ ہیں۔ یہاں زندگی سے میری مراد وہ حالت نہیں ہے، جس میں ہم خوابیدگی کے عالم میں بے حسی کے ساتھ چلتے پھرتے، کھاتے پیتے اور سوتے جاگتے ہیں۔ یہ حالت ہماری اصلی حالت نہیں ہے۔ اسے ہمارے ماحول نے پیدا کیا ہے۔

    ماحول سے میری مراد ہر وہ چیز ہے جو ہم سے خارج میں وجود رکھتی ہے، یعنی فطرت اور معاشرہ۔ معاشرے میں ہمارے سیاسی، معاشرتی اور معاشی حالات ہمارا ماحول ہیں۔ فطرت میں ہمارا جغرافیہ اور زمین سے ہماری وابستگی کی مخصوص نوعیت شامل ہے۔ زندگی سے میری مراد وہ حالت ہے جب ہم اور ہمارا ماحول ایک ایسی ہم آہنگی کی حالت میں ہو جیسے بچہ ماں کے شکم میں ہوتا ہے۔ تب ہمارا وجود اور ہمارا ماحول دو ہوکر بھی ایک ہوتا ہے اور دونوں کی رگوں میں ایک ہی خونِ گرم حرکت کرتا ہے۔ شاعری ہمارے وجود اور ہمارے ماحول کے اسی زندہ رشتے کا نام ہے۔ یہ خدو زندگی کا نفسِ گرم ہے اور ہماری وہ حقیقی کیفیت ہے جو شاید ہمیں جنت میں حاصل تھی۔ آدم و حوا کائنات کے پہلے شاعر تھے۔ آدم نے کائنات کی ہر چیز کے نام رکھے۔ کہا جاتا ہے۔ کہ یہ شاعر کا پہلا فریضہ تھا۔ زوالِ آدم کی حکایت شاعری کے زوال کی حکایت ہے۔ تب شجرِ حیات، شجرِ علم سے الگ ہوگیا اور زندگی کی اوّلین کیفیت میں پہلی ثنویت پیدا ہوئی۔ زمین پر اُتر کر آدم پہلا کسان، پہلا چرواہا اور پہلا سماجی انسان بنا۔ اس خارجی عمل نے باطنی کیفیت کو بھی تقسیم کیا۔ اور باہر تقسیم کا عمل جتنا بڑھتا گیا، اندرونی تقسیم بھی پیچیدہ ہوتی گئی۔ آدم کا پورا وجود ایک ہم آہنگ کل تھا۔ اس کا دل، دماغ، جبلّتیں، جسم اور روح ایک ہم آہنگ وحدت تھیں لیکن بیرونی اور اندرونی تقسیم سے ان کی ہم آہنگی اور کلّیت میں تفرقہ پیدا ہوا۔ تاریخ کے سفر کے ساتھ یہ تفرقہ اور دُوئی بڑھتی گئی۔ سماجی انسان شاعری اور زندگی کی حقیقی کیفیت سے دور ہوگیا۔ اب ہم شاعری کی دوسری تعریف کریں گے، جو شاعری کی پہلی تعریف کی ایک بدلی ہوئی شکل ہے۔ شاعری ماحول کے عمل اور ردِ عمل میں پورے وجود کے تحرک کا نام ہے۔ پورا وجود جس میں ہماری جبلّتیں، جذبات، محسوسات، خیالات، دل و دماغ، جسم و روح سب شامل ہیں۔ لیکن شاعری کی یہ تعریف بھی مثالی نوعیت کی ہے۔ زندگی میں ہم ایسے نہیں ہیں۔ ہمیں ہمارے ماحول نے اندر سے توڑ پھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ گناہِ آدم ہمارے اندر سرایت کر گیا ہے۔ ہم اپنی فطری ہم آہنگی کھو بیٹھے ہیں۔ اب ہمارے اندر خوابیدگی، بے حسی، تضادات اور ان کی بیکار پیدا ہوگئی ہے۔ ہماری جبلّتیں، جذبات، محسوسات، خیالات سب پارہ پارہ ہیں اور اکثر یا تو مردہ ہیں یا باہمی پیکار کا شکار ہیں۔ اب ہم شاعری سے کئی منزل دور ہیں، اس لیے شاعری کی ایک تیسری تعریف کی ضرورت ہے۔ یہ تعریف بھی پہلی دو تعریفوں کا ایک حصہ ہے۔ شاعری ہمارے وجود کے کسی جزکے تحرک کا نام ہے، چاہے یہ تحرک جذبات میں پیدا ہو، چاہے محسوسات میں، چاہے خیالات میں۔ اب ہم شیلے کے ہم زبان ہوکر کہہ سکتے ہیں کہ شاعری کل فنونِ لطیفہ کی روح ہے۔ فنون کے لفظ سے مجھے یاد آیا کہ شاعری ایک مخصوص فن بھی ہے اور جب تک ہم اپنی تعریف کی روشنی میں اس فن کی وضاحت نہ کردیں، ہماری بات مکمل نہیں ہوگی۔ فنِ شاعری میں دو چیزیں بنیادی ہیں؛ تخیل اور زبان کا استعمال۔ اس لیے اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاعری ہمارے وجود کے کسی بھی جزو کا وہ تحرک ہے جو متخیّلہ سے ہم آمیز ہوکر زبان کے ذریعے اپنا اظہار کرتا ہے۔

    معاف کیجیے بات لمبی ہوگئی، لیکن اس کے بغیر ہم اپنے اُٹھائے ہوئے سوالوں کا جواب نہیں دے سکتے تھے۔ اب ہم اردو شاعری کی ان چار قسموں کی طرف لوٹیں گے جن کا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں۔ خیالات اور تصورات کی شاعری اُن لوگوں کی شاعری ہے جن کے ذہن میں تحرک پیدا ہوتا ہے۔ جذبات اور محسوسات کی شاعری اُن لوگوں کی شاعری ہے جن کے دل میں تحرک پیدا ہوتا ہے۔ آپ کہیں گے کہ اس بات سے جذبات اور خیالات کی شاعری کی تشریح تو ہو جاتی ہے لیکن شاعری کی بقیہ دو قسموں پر اس تعریف کا اطلاق کیسے ہوگا؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں پھر اس زندگی کی طرف لوٹنا پڑے گا جو انسانوں میں پائی جاتیہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کی ’’زندگی‘‘ ان کے خیالات میں پائی جاتی ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگوں کی ’’زندگی‘‘ ان کے خیالات میں ہوتی ہے۔ بہت سے لوگوں کی زندگی ان کے جذبات میں۔ لیکن انسانوں کی ایک قسم اور بھی ہے۔ ایسے انسان کسی خیال سے متاثر نہیں ہوتے اور نہ واقعات و حوادث سے پیدا ہونے والے جذبات و محسوسات ہی انھیں متاثر کرتے ہیں۔ اس کے بجائے وہ الفاظ سے متاثر ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی ایک لفظ انھیں اس طرح متاثر کرتا ہے جیسے کسی پر بجلی گر جائے، یعنی ان کے وجود کا تحرک لفظوں سے پیدا ہوتا ہے۔ شاعری کی تیسری اور چوتھی قسمیں انھی لوگوں کا اظہار ہوتی ہیں۔

    اقبال کی شاعری خیالات کی شاعری اس لیے ہے کہ ان کے وجود میں جو تحرک شاعری کی بنیاد بنتا ہے، وہ ان کے ذہن میں پید ہوتا ہے۔ ان کی زندگی اُن کے خیالات میں ہے۔ وہ ن خیالات کو اس طرح محسوس کرتے ہیں جس طرح عام لوگ واقعات و حوادث کو محسوس کرتے ہیں، کسی کی موت اُن کے وجود کے لیے اتنی اہمیت نہیں رکھتی جتا موت کے بارے میں کوئی گہرا اور اچھوتا خیال۔ ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ کو دیکھیے۔ زمانے، عشق اور فن پر کتنے زبردست خیالات لکھے گئے ہیں۔ لیکن یہ منظوم خیالات نہیں ہیں، یہ وہ خیالات ہیں جن کے پیچھے اقبال کا ذہن اپنے تحرک کی اعلیٰ ترین سطح کو چھو رہا ہے۔ یہ تحرک ہی اس نظم کو وہ ’’شعریت‘‘ بخشتا ہے جس کے بغیر یہ نظم، نظم نہ ہوتی، ایک فلسفیانہ مقالہ بن جاتی۔ جو لوگ اقبال کو فلسفی کہہ کر ان کے شاعر ہونے کا انکار کرتے ہیں، اُن تک اقبال کے خیالات تو پہنچے ہیں، شاعری نہیں پہنچی۔ شعری پہنچنے کے لیے پڑھنے والے کا خود شاعر ہونا ضروری ہے، یعنی زندہ ہونا۔اس کے برعکس جو لوگ صرف جذبات و محسوسات کی شاعری کے قائل ہیں اور ’’مسجدِ قرطبہ‘‘ سے لطف اندوز نہیں ہوسکتے، ان کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے جذبات و محسوسات میں تو زندہ ہیں لیکن ان کا ذہن مردہ اور خوابیدہ ہے۔

    یہ مضمون یہاں تک لکھ کر مجھے خیال آیا کہ میں اقبال کو ذہنی آدمی کہہ کر ان کے ساتھ زیادتی تو نہیں کر رہا ہوں؟ کیا اقبال صرف خیالات کے آدمی تھے؟ کیا اُن کے پاس جذبات و محسوسات نہیں تھے؟ اور کیا ایسا آدمی، جو صرف ایک ذہنی آدمی ہو، ہمیں کچھ عجیب سا نہیں معلوم ہوتا؟ میں نے اقبال کو ذہنی آدمی کہہ کر اُن کے جذبات اور محسوسات کا انکار نہیں کیا ہے۔ کیا ایسا انسان بھی ہوسکتا ہے جس میں جذبات اور محسوسات نہ ہوں؟ دنیا کا کوئی انسان نہ صرف ذہنی انسان ہوتا ہے، نہ جذباتی اور نہ عملی۔ ہر انسان میں یہ تینوں چیزیں ہوتی ہیں، لیکن بعض انسانوں میں کسی ایک چیز کا غلبہ ہوتا ہے، اور یہ تقسیم اسی اعتبار سے ہے۔ اس کے معنی صرف اتنے ہیں کہ اس کے وجود میں وہ کون سا جزو ہے جو سب پر غالب ہے۔ چنانچہ اس اعتبار سے انسانوں کی تین قسمیں ہیں: وہ انسان جن پر ذہن کا غلبہ ہو، وہ انسان جن پر جذبات کا غلبہ ہو اور وہ انسان جو اپنی جبلّتوں کے تابع ہوں۔ پہلی قسم کے انسانوں کو عقلی یا ذہنی انسان، دوسری قسم کے انسانوں کو جذباتی انسان اور تیسری قسم کے انسانوں کو جبلی یا عملی انسان کہتے ہیں۔ اور انسانوں کی یہ تقسیم اتنی بنیادی ہے کہ معرفتِ خداوندی تک میں اس کا اظہار ہوتا ہے۔ شیخِ اکبر حضرت محی الدین ابنِ عربیg نے ’’فصوص الحکم‘‘ میں مختلف انبیاf کی معرفتوں کا ذکر کیا ہے۔ یہ معرفتیں اس لیے مختلف ہیں کہ انبیاf کے مدارج مختلف ہیں۔ مثلاً حضرت نوحf کی نبوت تنزیہی اور حضرت موسیٰf کی نبوت تشبیہی ہے۔ لیکن اس کی تشریح کے لیے ہمیں ایک لمبا سفر طے کرنا پڑے گا، اس لیے اپنی آسانی کے لیے اتنی بات سمجھ لیجیے کہ تصوف میں انسانوں کے مختلف مزاجوں کے اعتبار سے معرفت کی دو بڑی قسمیں ہیں: ایک طریقِ عقلی ہے جو اُن لوگوں کے لیے مناسب ہے جن کے مزاج پر عقل کا غلبہ ہے، مثلاً سلسلۂ نقش بندیہ میں معرفت عقل کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ دوسرا طریقہ طریقِ عشق کہلاتا ہے جو ان لوگوں کے لیے مناسب ہے جن پر جذبات کا غلبہ ہو، مثلاً سلسلۂ چشتیہ میں معرفت عشق طریقے سے حاصل ہوتی ہے۔ ایک تیسرا طریقہ عام جبلی لوگوں کے لیے ہے جو احکامِ شرعیہ کی پابندی کا طریقہ ہے۔ ہندوؤں میں بھی معرفت انسانی مزاجوں کے اعتبار سے حاصل ہوتی ہے۔ ان کے یہاں بھی ایک طریق عقلی ہے جسے وہ ’’جنن یوگ‘‘ کہتے ہیں۔ دوسرا جذباتی طریقہ ہے جسے وہ ’’بھگتی یوگ‘‘ کہتے ہیں اور تیسرا عام آدمیوں کے لیے ہے جسے وہ ’’کرم یوگ‘‘ کہتے ہیں۔

    اقبال ایک ایسے انسان ہیں جن پر ذہن کا غلبہ ہے۔ یہ ان کی کوئی کم زوری نہیں ہے۔ یہ ان کی شخصیت اور وجود کی نوعیت ہے۔ اب اگر ہم اردو شاعری کی ان چار قسموں پر ایک نظر ڈالیں جن کا بیان اوپر ہوچکا ہے اور ان کو اس زاویے سے دیکھنے کی کوشش کریں کہ وہ ذہنی انسان، جذباتی انسان اور عام جبلی انسانوں میں سے کس سے تعلق رکھتے ہیں؟ تو ہمیں معلوم ہوگا کہ جذباتی اور محسوساتی شاعری کو چھوڑ کر باقی تینوں قسم کی شاعری ذہن سے تعلق رکھتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ خیالات اور تصورات کی شاعری میں ذہن خیالات سے متاثر ہوتا ہے۔ باقی دو قسموں کی شاعری میں زبان اور الفاظ سے۔ اقبال چونکہ ایک ذہنی انسان ہیں، اس لیے ان کی شاعری میں خیالات کے ساتھ ساتھ باقی دو قسموں کی شاعری کے بعض عناصر بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں ہے کہ اقبال نے اپنی شاعری کی ابتدا داغ کی پیروی سے کی۔ یہاں وہ زبان سے ویسا ہی اثر لیتے معلوم ہوتے ہیں جیسا وہ بعد میں خیالات سے لیتے ہیں۔ اقبال کو رعایتِ لفظی کا شاعر کہنا شاید بہت سے لوگوں کو اقبال کی توہین معلوم ہوتا ہے، کیوں کہ لوگوں نے اس قسم کی شاعری کو اتنا بدنام کیا ہے کہ اس کے بارے میں کچھ سوچنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ لیکن ’’شکوہ‘‘ کو غور سے پڑھیے تو ’’واسوختِ امانت‘‘ کی گونج صاف سنائی دینے لگے گی۔ اور مرثیے کا فن ایک نئے موضوع کے ساتھ مختلف اثرات لیے ہوئے زندہ ہوتا معلوم ہوتا ہے۔ جوشؔ کے باریمیں بہت کہا جاتا ہے کہ زبان اور الفاظ کے بادشاہ ہیں لیکن اقبال نے اپنی شخصیت میں زبان اور الفاظ سے جیسا اثر قبول کیا ہے، جوشؔ کو اس کی ہوا بھی نہیں لگی۔ ایک تیسرا عنصر جو ان کے ذہن کی وجہ سے ان کی شاعری میں نمایاں اہمیت رکھتا ہے، وہ کہیں کہیں طنز و مزاح کی آمیزش ہے۔ غالبؔ کی شاعری میں ذہن کے غلبے کی وجہ سے ان کی یہ شاعری اردو میں ’’وِٹ‘‘ کے شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔ وِٹ اور طنز و مزاح کا استعمال ذہن کے بغیر ممکن نہیں۔ اقبال جس طرح اپنی شاعری کی ابتدا میں زبان کی شاعری سے اثر لیتے ہیں، اسی طرح اکبرؔ الٰہ آبادی سے ان کی اثر پذیری بھی ان کے ذہن کا ایک ایسا عمل ہے جو شکل بدل کر ’’ضربِ کلیم‘‘ تک میں ظاہر ہوا ہے۔ اقبال کے کلام کو پڑھتے ہوئے ہم نے ان باتوں کو نہیں سمجھا تو نہ اقبال کو سمجھا اور نہ شاعری کو۔

    ગુજરાતી ભાષા-સાહિત્યનો મંચ : રેખ્તા ગુજરાતી

    ગુજરાતી ભાષા-સાહિત્યનો મંચ : રેખ્તા ગુજરાતી

    મધ્યકાલથી લઈ સાંપ્રત સમય સુધીની ચૂંટેલી કવિતાનો ખજાનો હવે છે માત્ર એક ક્લિક પર. સાથે સાથે સાહિત્યિક વીડિયો અને શબ્દકોશની સગવડ પણ છે. સંતસાહિત્ય, ડાયસ્પોરા સાહિત્ય, પ્રતિબદ્ધ સાહિત્ય અને ગુજરાતના અનેક ઐતિહાસિક પુસ્તકાલયોના દુર્લભ પુસ્તકો પણ તમે રેખ્તા ગુજરાતી પર વાંચી શકશો

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے