اقبال کا ایک شعری کردار۔۔۔ ابلیس
نٹشے نے کہا ہے، ’’خدا نے چھہ دن کام کیا اور ساتویں دن آرام۔ ساتویں دن کی اس کاہلی سے شیطان پیدا ہوا۔‘‘ خدا کا شیطان کاہلی سے پیدا ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، نٹشے کا شیطان ضرور کاہلی سے پیدا ہوا ہے۔ کاہلی، بدہیئتی، بے وقعتی اور وہ ساری چھوٹی چھوٹی بدصورت باتیں جن سے نٹشے کو نفرت تھی، اس کی خصوصیات ہیں۔ وہ بہت حقیر قسم کا شیطان ہے۔ ’’بقول زرتشت‘‘ میں وہ ہمارے سامنے کئی روپ میں آتا ہے۔ وہ ’’بقول زرتشت‘‘ کے پہلے باب کا وہ مسخرا ہے جو رسّی پر ناچنے والے کی لاش پر کودتا ہے۔ وہ، ویہ ’’بدصورت ترین آدمی‘‘ ہے جو خدا کو قتل کرتا ہے۔ وہ کششِ ثقل کی روح ہے جو ہر چیز کو نیچے کھینچ لیتی ہے۔ وہ ’’سب سے بھاری، سب سے کالا‘‘ سانپ ہے جو ایک مشاہدے میں نٹشے کو ایک چرواہے کے گلے میں لپٹا نظر آتا ہے۔ نٹشے اس شیطان سے نفرت کرتا ہے۔ وہ اس کے لیے واقعی ایک مردود چیز ہے۔ یہ شیطان زرتشت کو، جو نٹشے کی داخلی شخصیت کا مثلی نمونہ ہے، ڈراتا رہتا ہے۔ ’’تم نے اپنے آپ کو اوپر پھینکا ہے لیکن یاد رکھو، ہر وہ چیز جو اوپر پھینکی جاتی ہے، نیچے گر جاتی ہے۔‘‘ بے ساختہ یگانہ صاحب یاد آتے ہیں،
بلند ہو تو کھلے تجھ پہ زور پستی کا
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
نٹشے کا شیطان زورِ پستی کا شیطان ہے۔ وہ بجائے خود پستی ہے۔ نٹشے کے برعکس اقبال کا شیطان قوت، حسن اور عمل کا نمائندہ ہے۔ وہ جبرئیل کی طرح خیر و شر کا تماشائی نہیں، اس بحرِ ذخار کا تیراک ہے۔ وہ مایوس ہے مگر اس کی مایوسی سوزِ درونِ کائنات کا باعث ہے۔ فرشتے اسے حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں مگر وہ دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے اور ہزاروں پیغمبروں کو دیکھنے کے باوجود ہنوز کافر ہے۔ یہ بڑا دل کش شیطان ہے۔ نٹشے اپنے شیطان سے نفرت کرتا ہے، اقبال اپنے شیطان سے محبت کرتے ہیں۔ نٹشے اور اقبال کے شیطان میں یہ فرق کیوں ہے اور ہم سب کے شیطان الگ الگ کیوں ہوتے ہیں؟ آیئے اس سوال پر غور کریں۔
ایک بات تو سب کو معلوم ہے کہ شیطان محض شر کا نمائندہ ہے۔ شیطان کے مقابلے پر فرشتے ’’خیرِ محض‘‘ کے نمائندے ہیں اور ان دونوں کے مقابلے پر انسان خیر اور شر دونوں کا نمائندہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کی فطرت کے دو عنصر ہوتے ہیں؛ ایک خیر کا عنصر جسے ملکوتی عنصر کہنا چاہیے اور ایک شر کا عنصر جسے شیطانی عنصر کہا جاتا ہے۔ یعنی انسان کی فطرت میں فرشتے اور شیطان، نور اور نار دونوں موجود ہوتے ہیں۔ فرشتے اس کی فطرت کے اس عنصر کی نمائندگی کرتے ہیں جسے وہ خیر سمجھتا ہے اور شیطان اس عنصر کی نمائندگی کرتے ہیں جسے وہ خیر سمجھتا ہے اور شیطان اس عنصر کی نمائندگی کرتا ہے جسے وہ شر سمجھتا ہے۔ خیر و شر کی اس تقسیم کی وجہ سے اس کی شخصیت میں ایک ثنویت پیدا ہوتی ہے جو ہمیشہ ایک پیکار کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ وہ خیر کا طالب ہوتا ہے اور شر سے بچنا چاہتا ہے۔ مگر شر بھی اس کی فطرت کا حصہ ہے، اس لیے وہ خیر کی طرف جتنا بڑھتا ہے، شر اسے اتنا ہی اپنی طرف کھینچتا جاتا ہے۔ اس لیے شیطان بہکانے والا ہے، ترغیب دینے والا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ شیطان کا مسئلہ دراصل انسانی کلیت کا مسئلہ ہے۔ پورے آدمی کی دریافت کا مسئلہ ہے۔ انسان کی فطرت ایک ہم آہنگ کل ہے لیکن خیر و شر کے تصورات اسے تقسیم کر دیتے ہیں۔ اور خود اس کے بطون میں ایک تخمِ خصومت بو کر اسے ایک داخلی پیکار کا شکار بنا دیتے ہیں۔ اس لیے مسئلہ شیطان سے لڑنے کا نہیں ہے، نہ شیطان کی حقیقت کو جھٹلانے کا ہے، بلکہ مسئلہ شیطان کو شیطان مان کر اسے گلے لگانے کا ہے۔ نٹشے اپنے شیطان سے نفرت کرتا ہے، وہ اسے گلے نہیں لگا سکتا، جس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ خود اپنی شخصیت کے تضاد کا شکار ہو گیا ہے اور کبھی اس کے متضاد عناصر کو جوڑ کر ایک ’’کل‘‘ نہیں بنا سکتا۔ لیکن اقبال اپنے شیطان سے محبت کرتے ہیں۔ تو کیا اقبال اپنے شیطان کو گلے لگا لیتے ہیں؟ لیکن اس سے پہلے سوال یہ ہے کہ اقبال کا شیطان ہے کیا؟
اقبال کے شارحین اقبال کے شیطان میں قوت، عمل اور حسن دیکھتے ہیں اور اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ چونکہ اقبال کو یہ چیزیں پسند تھیں، اس لیے شیطان بھی اقبال کو پسند تھا۔ اچھا مجھے ایک چیز پسند ہے۔ میں دل و جان سے اس کی قدر کرتا ہوں اور ہر طرح اسے سراہتا ہوں، پھر اسے شیطان کیوں کہتا ہوں؟
سوال یہ نہیں ہے کہ اقبال کو کیا چیز پسند ہے۔ سوال یہ ہے کہ اقبال اس پسندیدہ چیز کو شیطان کیوں کہتے ہیں؟ یعنی اس میں وہ کیا چیز ہے جو اسے شر بناتی ہے؟ کیوں کہ شیطان اگر شر نہیں ہے تو پھر شیطان بھی نہیں ہے۔ آپ اسے فرشتہ کیوں نہیں کہہ دیتے۔ آخر فرشتے بے چارے بھی بہت کام کرتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہمارا سوال یہ ہے کہ اقبال کی فطرت میں وہ کیا ثنویت ہے جو انہیں ایک طرف اپنی طرف کھینچتی ہے، دل کش معلوم ہوتی ہے، وہ اس کی قوت اور حسن سے متاثر بھی ہوتے ہیں لیکن دوسری طرف اس سے ڈرتے بھی ہیں؟ اقبال ایک شاعر تھے، مفکر تھے، بے عمل انسان تھے، یہی ان کی شناخت ہے۔ یہ ان کی فطرت کا نوری حصہ ہے، یہ ان کا جبرئیل ہے جو رزمِ خیر و شر کو ساحل سے دیکھتا ہے۔ جو یقین کا پُتلا ہے اور عالمِ خیال کی جنت میں رہتا ہے۔ لیکن اقبال کی شخصیت کا دوسرا حصہ بھی ہے جو پہلے حصے کی ضد ہے۔ یہ حصہ وہ ہے جو قوت، توانائی، عمل اور حرکت کو پسند کرتا ہے۔ اقبال اس میں بے پناہ کشش محسوس کرتے ہیں۔ یہ ان کا ناری حصہ ہے۔ یہ ان کا شیطان ہے جو انہیں بتاتا رہتا ہے کہ ان کی شاعرانہ یا فکری زندگی بے عملی کی زندگی ہے۔ یہ زندگی نہیں زندگی کا تماشا ہے۔ اقبال اپنی شخصیت میں شدید خواہش محسوس کرتے ہیں کہ وہ مردِ عمل بنیں۔ شاعری اور فکر کو ترک کریں اور خیر و شر کی جنگ میں دست بہ دست حصہ لیں۔ لیکن اقبال اس سے ڈرتے بھی ہیں۔ ایک مرتبہ اقبال سے کسی نے پوچھا، ’’آپ سیاست میں عملی حصہ کیوں نہیں لیتے؟‘‘ اقبال نے جواب دیا، ’’قوال کو حال نہیں آنا چاہیے۔‘‘ اقبال ایک ایسے قوال ہیں جو دوسروں کو حال میں لاتے ہیں۔ دوسروں کے حال کو دیکھ کر اس سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔ بے پناہ طور پر اس کی طرف کھنچتے ہیں، لیکن انہیں حال سے ڈر لگتا ہے۔ ہم جب تک اس ڈر کی نوعیت نہ معلوم کرلیں، اقبال کے شیطان کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکتے۔ نٹشے اپنے شیطان کو گلے نہیں لگا پاتا تو اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ وہ اس کی فطرت کا پست اور حقیر حصہ ہے۔ نٹشے یہ قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ اس کی فطرت میں کوئی پستی بھی ہو سکتی ہے۔ وہ اپنی شناخت اپنی بلندی، اپنی قوت، اپنی توانائی سے کرتا ہے، اس لیے اپنی پستی، کمزوری، اپنی کاہلی سے گھبراتا ہے۔ لیکن اقبال کا شیطان تو بڑا خوبصورت، بڑا توانا اور بڑا باعمل ہے، پھر اقبال اس سے کیوں گھبراتے ہیں۔
اقبال کے شارحین کے باوجود اقبال کے شیطان کے بارے میں حرفِ آخر خود اقبال ہی نے کہا ہے۔ اقبال کا شیطان پرقوت ہے، باعمل ہے، شدید اور ہیجان پرور جذبات کا مالک ہے۔ یعنی اس میں وہ تمام خوبیاں ہیں جو زندگی کا حاصل ہیں، جن کے بغیر زندگی موت بن جائے۔ لیکن اس کے باوجود وہ شیطان ہے اور شکست اس کا مقدر ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ اقبال ہمیں بتاتے ہیں کہ شیطان میں قوت، توانائی، عمل، حرکت اور اضطراب، سب کچھ ہے مگر اس کے پاس کوئی ایسا اصولِ تنظیم نہیں ہے جس سے وہ اپنی صلاحیتوں کو منظم کر سکے، انہیں ایک سانچے میں ڈھال سکے۔ اصولِ تنظیم کی یہ کمی اس کی شیطنت کی بنیاد ہے۔ ہم اقبال کی شخصیت کے پس منظر میں اس بات کو سمجھنا چاہیں تو یہ کہیں گے کہ اقبال زندگی کی حرکت اور قوت سے متاثر ہیں۔ اس میں حصہ لینا چاہتے ہں لیکن وہ اس میں حصہ نہیں لے سکتے۔ وہ اس سے ڈرتے ہیں۔ یہ ڈر اس بات کا ہے کہ کہیں عمل میں شریک ہو کر ان کی شخصیت کی تنظیم بکھر نہ جائے۔ کہیں وہ اس کے ہیجان کا شکار ہو کر اپنی شخصیت کے بنیادی عناصر سے نہ محروم ہو جائیں۔ اقبال حال سے ڈرتے ہیں کیوں کہ حال اپنے پورے وجود کو حرکت میں لانے کا نام ہے۔ اور حال میں آنے والا اس خطرے کو مول لیتا ہے کہ وہ ایک دفعہ بکھر کر رہ جائے، اور بکھر کر پھر کبھی جمع نہ ہو سکے۔ اقبال یہ خطرہ مول لینے کے لیے تیار نہیں۔ اقبال کا یہی خوف ان کے تصورِ شیطان کی بنیاد ہے۔
ہم نے اوپر کہا تھا کہ انسان خیر اور شر دونوں کا نمائندہ ہے۔ یعنی اس کی فطرت میں ملکوتی اور شیطانی دونوں عناصر پائے جاتے ہیں۔ لیکن خیر و شر کی تقسیم کی وجہ سے اس کی شخصیت میں ثنویت پیدا ہو جاتی ہے۔ اب ایک سوال یہ ہے کہ اس ثنویت کو قائم رکھا جائے یا اسے ختم کرنے کی کوشش کی جائے؟ اخلاقیات پرست ثنویت کے حق میں ہیں کیوں کہ اس ثنویت کے بغیر اخلاق کا کوئی وجود نہیں۔ لیکن وحدت الوجودی نقطۂ نظر ہر ثنویت کی طرح اس ثنویت کے بھی خلاف ہے۔ وحدت الوجود کے ماننے والوں کا شیطان کے بارے میں کیا نقطۂ نظر ہے؟
ایک ہندو ویدانتی کا کہنا ہے کہ شیطان خدا کے وہمِ غیر کا نام ہے۔ خدا پہلے کچھ نہیں تھا۔ پھر اس نے کہا، ’’میں ہوں۔‘‘ اور یہ کہنے کے ساتھ ہی وہ ہو گیا۔ پھر اس نے کہا کہ میں ایک ہوں، اور وہ ایک ہوگیا۔ لیکن تب اس کے دل میں وہم پیدا ہوا کہ کیا میں سچ مچ ایک ہوں۔ کہیں کوئی اور تو موجود نہیں ہے۔ اس وہم نے شیطان کو پیدا کیا۔ لیکن خدا کائنات کی ہر چیز میں ظاہر ہوا اور اُس نے دیکھا کہ وہی وہ ہے اور اس کے سوا کوئی اور چیز نہیں ہے۔ شیطان خدا کے وہمِ غیر کا نام ہے۔ اس کے معنی ہمارے لیے یہ ہیں کہ شیطان انسان کے وہمِ غیر کا نام ہے۔ انسان جس چیز کے بارے میں یہ سوچتا ہے کہ وہ خدا نہیں ہے، یا خدا کی طرف سے نہیں ہے، اسے شیطان کہتا ہے یا شیطان سے منسوب کرتا ہے۔ لیکن یہ وہم ایک وہمِ باطل ہے۔ حقیقتِ نفس الامری یہی ہے کہ کائنات کل کی کل خدا اور اُس کی صفات کی مظہر ہے اور اس میں غیر خدا کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ محی الدین ابنِ عربی اسی خیال کا اظہار کرتے ہیں، جب وہ کہتے ہیں کہ کائنات میں خیر ہی خیر ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے، اچھا ہی ہو رہا ہے۔ شر صرف ایک واہمہ ہے۔ اچھا اب اس تصور کو مسلمانوں کے عام عقائد کی روشنی میں دیکھیے۔ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ شر اور خیر دونوں خدا کی طرف سے ہیں، لیکن شیطان کی شیطنت یہ ہے کہ وہ انسان کو یقین دلانا چاہتا ہے کہ وہ خدا کا مقابل ہے۔ خیر خدا کی طرف سے ہے تو شر اس کی طرف سے ہے، یعنی جس طرح خدا خیر کا خالق ہے، اسی طرح شیطان شر کا خالق ہے۔ شیطان کی اس شیطنت کا علاج لا حول و لا قوۃ ہے۔ یعنی شیطان جب یہ خیال پیدا کرتا ہے تو مسلمان لا حول پڑھتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ حول اور قوت صرف اللہ کے لیے ہے اور شیطان کے پاس کوئی قوت نہیں ہے۔ ایک عیسائی سینٹ کا کہنا ہے کہ شیطان خدا کا گدھا ہے، بوجھ اٹھاتا ہے اور گالیاں کھاتا ہے۔ اقبال وحدت الوجود کے خلاف ہیں، وہ اس سے گھبراتے ہیں۔ ان کے نزدیک خیر اور شر کی ثنویت کا اٹھ جانا زندگی کی حقیقت کو زائل کر دیتا ہے۔ وہ زندگی کو ایک پیکار کی صورت میں دیکھتے ہیں اور اس پیکار کی اوّلین بنیاد خیر اور شر کی ثنویت پر ہے۔ اقبال کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ثنویت کے بغیر زندگی کا کیا بنے گا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس پیکار کے بغیر زندگی سکون کا شکار ہو کر موت بن جائے گی، اس لیے وہ جنت کی زندگی سے بھی خوش نہیں، کیوں کہ جنت میں خیر و شر کی کوئی پیکار نہیں۔ وہ گناہِ آدم کے مغنی ہیں جس کی بدولت انسان جنت کا سکون چھوڑ کر اضطراب اور حرکت کی زندگی میں داخل ہوا، اس لیے اغوائے آدم انہیں شیطان کا سب سے بڑا کارنامہ معلوم ہوتا ہے۔ ان سب خیالات کا خلاصہ ان کے ایک شعر میں آ گیا ہے،
مزی اندر جہانِ کور ذوقے
کہ یزداں دارد و شیطاں ندارد
ان تصورات کو پھر ان کی شخصیت پر منطبق کریں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی شخصیت میں ثنویت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیر اصولِ تنظیم ہے، یہ جبرئیل ہے، جنت کی زندگی ہے، حقیقتِ نوریہ کا ایک نام ہے۔ ان کا شر قوت، حرکت اور توانائی ہے، یہ شیطان ہے، دنیا کی زندگی ہے اور حقیقتِ ناریہ کا ایک نام ہے۔ وہ شیطان سے متاثر ہوتے ہیں، اس کی طرف کھنچتے ہیں، اس کی ثناخوانی کرتے ہیں، لیکن اپنی حقیقتِ نوریہ کو حقیقتِ ناریہ سے ہم آمیز نہیں کرنا چاہتے، اس لیے کہ ان کا شیطان سب کچھ ہو کر بھی شیطان ہی رہتا ہے، اور وہ عمل، حرکت اور اضطراب کے تقاضوں کی طرح بے پناہ کشش محسوس کرنے کے باوجود قوال ہی رہتے ہیں، حال میں نہیں آتے۔ اقبال کا شیطان خدا ہی سے نہیں، اقبال سے بھی مایوس ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.