Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اقبال کا ایک شعری کردار۔۔۔ شاہین

سلیم احمد

اقبال کا ایک شعری کردار۔۔۔ شاہین

سلیم احمد

MORE BYسلیم احمد

    اقبال کے ایک شارح نے لکھا ہے کہ اقبال کو بچپن میں کبوتروں کا بڑا شوق تھا۔ لیکن ان کے کبوتر جب اُڑان پر آتے تو باز، شکرے وار بحریاں ان کے کبوتر پکڑ لے جایا کرتے جس سے اقبال کو بڑا دکھ ہوتا تھا۔ بعد میں بچپن کا یہی تجربہ ان کا تصورِ شاہین کی شکل میں برآمد ہوا۔ ذرا سی نفسیاتی باریک بینی سے اور کام لیا جائے تو ان کا تصورِ قوت امام بخش گاما پہلوان کی کشتی دیکھ کر پیدا ہوا ہوگا۔ اور ممکن ہے کہ ’’ساقی نامہ‘‘ والا تصورِ حرکت سیالکوٹ کی کسی ندی میں نہانے کا ردِعمل ہو۔ بہرحال اس سطح پر بات کرنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اقبال کے بارے میں کوئی بھی بات کرسکتے ہیں۔ لیکن جو لوگ اس سے بلند سطح پر بات کرتے ہیں، وہ بھی اس سے آگے نہیں بڑھتے کہ اقبال نے ’’شاہین‘‘ کی علامت نٹشے سے اُڑائی ہے۔ کچھ لوگ اس کے جواب میں اقبال کے شاہین کی خصوصیات گنواتے ہیں اور یہ منوانے پر ُمصر ہیں کہ اقبال کا شاہین خالص مسلمان قسم کا شاہین ہے اور جرمنوں کے خوں خوار وحشی مزاج شاہین سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ بہرحال آیئے دیکھیں کہ اقبال کا یہ بدنام شعری کردار، جس سے بعض لوگوں نے ان کی فسطائیت برآمد کی ہے اور بعض لوگوں نے ان کی پنجابیت، دراصل ہے کیا؟

    ابھی ہم نے نٹشے کا ذکر کیا ہے تو ذرا پہلے اقبال کے شاہین کے اس پیش رو کو دیکھتے چلیں۔ نٹشے کے ہاں شاہین ’’بقول زرتشت‘‘ کے زرتشت کے دو جانوروں میں سے ایک ہے۔ زرتشت ایک پہاڑ کی چوٹی پر لوگوں سے الگ تھلگ عزلت گزینی کی زندگی گزار رہا ہے۔ جب وہ اس تجربے سے بھرپور ہو جاتا ہے تو دیا کو اپنے تجربے میں شریک کرنے کے لیے پہاڑ سے نیچے اُترتا ہے۔ ایک سورج کی طرح جو نصف النہار پر پہنچ کر زمین پر اُتر آتا ہے۔ نٹشے اپنے سفر کے لیے تیار ہے کہ اسے اپنے جانور یاد آتے ہیں جو عزلت گزینی کے دور میں اس کے واحد رفیق رہے ہیں۔ آخر اس کے جانور آتے ہیں۔ ان میں سے ایک شاہین ہے اور دوسرا سانپ جو شاہین کے پنجوں سے لپٹا ہوا ہے۔ نٹشے کہتا ہے اب میرے جانور میری رہنمائی کریں گے، اور اس کے جانور اس کے آگے آگے چلتے ہیں۔ اس سارے بیان میں پہاڑ سے نیچے اُترنے کا عمل بہت اہم ہے۔ پہاڑ کی زندگی تنہائی، غور و فکر، خود آگہی اور عرفانِ ذات کی زندگی ہے جو ہر اس شخص کا مقدر ہے جو اپنی روح کو پاتا چاہتا ہے۔ لیکن اپنی روح کو حاصل کرنے کے بعد پہاڑ سے اُترنا بھی اس عمل کا لازمی حصہ ہے۔ پہاڑ سے اُترنے کے بغیر پہاڑ پر چڑھنے کا عمل مکمل نہیں ہوتا۔ پہاڑ پر چڑھنا روح کے سفر کی صعودی قوس ہے، جب کہ پہاڑ سے اُترنا نزولی قوس ہے۔ اس نزول کے بغیر صعود کا تجربہ آدھا رہتا ہے۔ نٹشے نے پہاڑ پر جو زندگی بسر کی ہے، وہ شہد کی مکھی کی طرح شہد جمع کرنے کا عمل ہے اور اب جب وہ شہد جمع کرچکا ہے تو لوگوں کو اس کا مزہ چھکانے کے لیے نیچے اُترتا ہے۔ پہاڑ سے نیچے اُترنے کے معنی ہیں لوگوں سے تعلق پیدا کرنا۔ نٹشے کا شہد کیا ہے؟ خود آگاہی کی دولت ہے۔ پہاڑ پر نٹشے عرفانِ ذات کی جو منزلیں طے کرتا ہے، نٹشے کے جانور اس کی علامت ہیں۔ نٹشے کو اپنی فطرت کے بلند ترین حصوں کی جو آگاہی حاصل ہوئی ہے، اس کی نمائندگی شاہین سے ہوتی ہے اور اس کی فطرت کے عمیق، تاریک اور اتھاہ پہلوؤں کی نمائندگی اس کے سانپ سے۔ وجہ ظاہر ہے۔ شاہین بلندیوں پر پرواز کرتا ہے جب کہ سانپ زمین کی تہوں میں رہتا ہے۔ اس طرح جانوروں کا یہ جوڑا انسانی فطرت کی مکمل تصویر ہے۔ وہ انسانی فطرت جس میں بلندی اور گہرائی دونوں موجود ہیں۔ نٹشے جب کہتا ہے کہ اب میرے جانور میری رہنمائی کریں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے سفر میں اس کا تخیل اور اس کی جبلّتیں، یعنی اس کی فطرت کے بلند و پست دونوں حصہ، ہم آہنگی میں اس کے ساتھ ہوں گے۔ دوسرے لفظوں میں وہ لوگوں کے سامنے اپنے پورے وجود کے تجربے کو پیش کرے گا۔

    سانپ کی علامت جبلت کی زندگی سے گہرا تعلق رکھتی ہے اور قدیم ترین اساطیر میں انھی معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ مثلاً اسرائیلی اساطیر میں جنت کا سانپ جنسی زندگی کی علامت ہے اور ہندوؤں میں شنکر کے گلے میں جو سانپ نظر آتا ہے، اس کے بھی یہی معنی ہیں۔ لیکن سانپ کا تعلق زمین سے بھی ہے۔ ایک ہندو روایت کے مطابق زمین خود سانپ کے پھن پر قائم ہے۔ نٹشے کے یہاں سانپ جبلت کی علامت ہے اور جبلت اور زمین ایک ہیں۔ نٹشے جب زمین سے وفاداری کا دم بھرتا ہے تو اس کے داخلی معنی جبلت سے وفاداری کے ہیں اور خارجی معنی زمین سے وابستگی کے۔ جس پیڑ کو زیادہ اونچا اُگنا ہو اسے اپنی جڑیں زیادہ گہرائی تک اتارنی پڑتی ہیں۔ یہ نٹشے کا ایک بہت محبوب خیال ہے۔ انسان کی داخلی جڑیں اس کی جبلت میں ہیں اور خارجی جڑیں زمین میں۔ وہ جبلت اور زمین کے بغیر گہری اور پائیدار زندگی نہیں حاصل کرسکتا۔ لیکن انسان کو گہرائی کے ساتھ بلندی کی بھی ضرورت ہے۔ وہ گہرائی میں اتر کر پھر اوپر اٹھتا ہے اور فضائے بسیط میں سورج کی طرف ہاتھ پھیلا کر کھڑا ہوتا ہے اور تاریکی میں پیدا ہوکر روشنی میں پھیلتا ہے۔ نٹشے کا شاہین اور سانپ زندگی کے اسی دو رُخے تقاضے کی علامت ہیں۔ اقبال کا شاہین بلندی کی علامت ہے۔ لیکن گہرائی کی علامت۔۔۔؟ اقبال نے اسے کیوں چھوڑ دیا ہے۔

    اقبال جبلت اور زمین دونوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ ان کے ابتدائی دور میں ان کی شاعری جبلی زندگی سے وابستہ نظر آتی ہے اور اس کے ساتھ ہی زمین سے وابستگی بھی قائم ہے۔ اپنے اس دور میں وہ عشق، جنسی اور جبلی عشق کے بارے میں بھی نظمیں لکھتے ہیں اور زمین کے بارے میں بھی۔ ابھی وہ وطنیت اور ہندوسانیت کے قائل ہیں اور ان کی پہلی کتاب کا آغاز ’’ہمالہ‘‘ سے ہوتا ہے۔ لیکن سفرِ حیات میں وہ جوں جوں آگے بڑھتے ہیں، یک طرف ان کی شاعری جبلتوں کی رنگا رنگی سے دور ہوتی جاتی ہے اور دوسری طرف وہ زمین سے بھی دامن چھڑانے لگتے ہیں۔ رفتہ رفتہ جبلت اور زمین سے عدم وابستگی باقاعدہ ایک فلسفے کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ شاہین کی علامت اسی دور کی تخلیق ہے۔ نٹشے نے اپنے سانپ کو جبلت اور زمین کی علامت بنا کر زندگی کی تاریک گہرائیوں کو بلندی کے متوازی قائم کیا تھا۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی مدد سے قائم تھے۔ اس کا شاہین جتنا اونچا اڑتا تھا، اس کا سانپ اتنی ہی زیادہ گہرائی میں اتر جاتا تھا۔ لیکن اقبال کے پاس نہ جبلت ہے، نہ زمین اور نہ ان کی کوئی علامت۔ اپنی ایک نظم ’’عقاب اور چیونٹی‘‘ میں وہ جبلت کی گہری زندگی اور فکر و خیال کی بلند پروازی کا مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں، مگر اس طرح کہ جبلت چیونٹی کی طرح حقیر بن گئی ہے۔ ان کا عقاب چیونٹی سے کہتا ہے،

    تو اپنا رزق ڈھونڈتی ہے خاکِ راہ میں

    میں نہ سپہر کو نہیں لاتا نگاہ میں

    رزق کی تلاش جبلت کا کام ہے اور اس کے لیے شاہین کو بھی اپنی بلندیوں سے نیچے اترنا پڑتا ہے۔ لیکن اقبال کے یہاں نیچے اُترنے کا عمل توانائی کے سرچشمے سے قریب ہونے کا عمل نہیں ہے بلکہ ایک ایسا حقیر کام ہے جس کی تذلیل ہی کی جاسکتی ہے۔ اقبال جبلت اور زمین دونوں کی تذلیل کرتے ہیں۔ دونوں ان کے نزدیک گراوٹ اور گرفتاری کی علامت ہیں۔ فرد جبلت سے وابستہ ہوکر اپنی لاہوتیت کھو بیٹھتا ہے اور قومیں زمین سے وابستہ ہوکر اپنی حقیقی زندگی سے محروم ہوجاتی ہیں۔ اقبال کے لیے جبلت کی زندگی سے گریز اتنا ضروری ہے کہ وہ خطبات میں اس بات پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ قرآنِ حکیم نے قصۂ آدم سے سانپ کی علامت کو، جو جنسی زندگی کی علامت ہے، حذف کردیا ہے۔ ڈاکٹر محمد اجمل نے ایک بار لکھا تھا کہ اقبال ہری بھری عورت کے جذبات سے بہت ڈرتے تھے۔ ہری بھری عورت کے جذبات کا خوف جنسی، جبلی زندگی کا خوف ہی تو ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقبال میں یہ خوف کیوں پیدا ہوتا ہے؟ کبھی کبھی میرے دل میں ایک خطرناک خیال آتا ہے لیکن میں کسی ذریعے سے اس کی تصدیق نہیں کرسکتا۔ کیا اقبال کسی خطرناک جسمانی (جنسی؟) عارضے میں مبتلا تھے؟ جنس اور جبلت کا خوف اکثر اسی قسم کے کسی سقم کے نتیجے کے طور پر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن مجھے اعتراض ہے کہ ثبوت کے بغیر اس کی حیثیت میری قیاس آرائی سے زیادہ نہیں ہے۔

    اقبال کا شاہین زمین پر نہیں اترتا لیکن انسان زمین پر رہتا ہے اور اس کی حیاتِ عارضی ایک مدت معینہ تک زمین سے وابستہ ہے۔ جنت میں انسان کی زندگی جو کچھ بھی ہو لیکن اس کی حیاتِ ارضی کے یہی معنی ہیں۔ پھر زمین سے عدمِ وابستگی اقبال کے یہاں کیا معنی رکھتی ہے؟ زمین سے وابستگی ایک سیاسی تصور بھی ہے اور یہ تصورِ سیاست میں ’’قوم پرستی‘‘ کا نظریہ پیدا کرتا ہے۔ اقبال قوم پرستی کے خلاف ہیں اور اس لیے زمین سے وابستگی کے تصور کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس سے ان کا اسلام کی آفاقیت کا وہ نظریہ پیدا ہوا ہے جس کے وہ ایک اَن تھک مبلغ اور مفسر ہیں۔ بعض سیاسی حالات کی وجہ سے اس نظریے کو برصغیر کے مسلمانوں میں بڑا فروغ ملا۔ لیکن کیا اسلام قوم کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا؟ اقبال کی مولانا حسین احمد مدنی سے ایک بحث اس موضوع پر خاصی روشنی ڈالتی ہے۔ مولانا مدنی نے کہا تھا کہ اقوام اوطان سے بنتی ہیں۔ اقبال نے اس کے جواب میں انھیں مقامِ محمدِؐ عربی سے بے خبری کا طعنہ دیتے ہوئے الزام لگایا کہ وہ ملت کو وطن سے وابستہ قرار دیتے ہیں۔ اس بحث کا نتیجہ جو کچھ بھی ہوا ہو اور اُس وقت کی فضا میں اس کے جو بھی معنی نکلتے ہوں لیکن ایک بات ہر دیکھنے والے کو نظر آتی ہے کہ اقبال کی نظر میں قوم اور ملت کا فرق واضح نہیں تھا۔

    جہاں تک مولانا حسین احمد مدنی کی بات کا تعلق ہے، میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ برصغیر کی اُس سیاسی فضا میں، جو اُس وقت موجود تھی، ان کی بات کے غلط معنی نکلتے تھے اور اقبال نے بہت اچھا کیا کہ انھیں ٹوکا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ قوم اور ملت کے فرق کو واضح طور پر سمجھے بغیر ہماری سیاسی اور تہذیبی زندگی کے بہت سے مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ اقبال اور مولانا مدنی کی بحث قیامِ پاکستان پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اور زیادہ تازہ ہوجاتی ہے، کیوں کہ ہمارے سامنے اس وقت بھی یہی مسئلہ ہے کہ ہم پاکستانی کی حیثیت سے پاکستان کی ’’زمین‘‘ سے وفادار ہیں یا نہیں؟

    قوم کے لیے زمین سے وابستگی ضروری ہے، ملت کے لیے نہیں۔ ہم اس فرق کو جتنی جلدی اور جتنی وضاحت سے سمجھ لیں، ہمارے حق میں اتنا ہی اچھا ہے۔

    بہرحال اقبال کا شاہین زمین پر نہیں اُترتا۔ وہ نہ سپہر کو نگاہ میں نہ لانے کے تصور سے مست رہتا ہے۔ اس کی تسکین کبوتر کا لہو پینے کی جبلی تسکین میں نہیں، کسی بہانے لہو گرم رکھنے میں ہے۔ لیکن اقبال ہمیں یہ نہیں بتاتے کہ وہ کھاتا کیا ہے۔ میں نے ایک مرتبہ اقبال پر تنقید کرتے ہوئے لکھا تھا کہ انسان کا ہر وہ تصور، جو معاش اور جبلت کے دائرے میں نہیں آتا، آخر زیٹ زپٹ بن کر رہ جاتا ہے۔ ہماری پہلی تسکین جبلی تسکین ہے۔ وہ رزق جس سے پرواز میں کوتاہی اتی ہو، یقینا اس سے موت اچھی ہے مگر وہ پرواز جو رزق کے بغیر ہو، کم از کم میری سمجھ میں نہیں آتی۔ رزق ہماری زندگی کا سرچشمہ ہے اور انسان خیر الرازقین کی پرستش کرتا ہے۔ رزق ہماری جبلت کا تقاضا ہے اور زمین سے وابستہ ہے، لیکن اقبال کے شاہین ابھی اس سوچ میں ہیں کہ انھیں رزق کے لیے اپنی زمین پر اترنا ہے یا نہیں؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے