مجھے ریاضی کی ایک پیچیدہ مساوات حل کرنی ہے۔ یہ کام عقل کا ہے یا عشق کا؟ عشق والے تو شاید ریاضی کا نام سن کر دردِ سر میں مبتلا ہوجائیں، اس لیے میرے خیال میں یہ کام عقل کا ہے۔ ایک دوست نے مجھ سے ایک مشکل مسئلے میں مشورہ مانگا ہے۔ میں اس کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ یہ کام کس کا ہے؟ عشق والے برا نہ مانیں، میرے خیال میں یہ کام بھی عقل ہی کاہے۔ میں حجِ بیت اللہ کے لیے جانا چاہتا ہوں، اس کے وسائل فراہم کرنا اور تیاری میں مدد دینا، یہ کام کس کا ہے؟ چونکہ اس میں پیسوں سے پاسپورٹ تک بیسیوں جھنجٹ ہیں، اس لیے چار و ناچار عقل ہی کا نام لینا پڑتا ہے۔ آخر میں ایک سوال اور؟ میں برٹرینڈ رسل کے ملحدانہ خیالات کا جواب لکھنا چاہتا ہوں۔ یہ کام کس کا ہے؟ افسوس یہ کام بھی عشق کا نہیں، عقل کا ہے۔ پھر عقل میں ایسی کون سی برائی ہے کہ اس سے دشمنی رکھی جائے۔ دین و دنیا کا ہر چھوٹا بڑا کام ہم عقل کی مدد سے کرتے ہیں۔ عقل ہی سے روزی کماتے ہیں، عقل ہی سے انسانی تعلقات کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں، عقل ہی سے نئی نئی آرام دہ اور مفید چیزیں بناتے ہیں۔ عقل ہی سے مذہب کے مسائل پر غور کرتے ہیں اور خدا اور اُس کے رسولﷺ کے احکام کو سمجھتے ہیں۔ پھر اقبال عقل کے مخالف کیوں ہیں؟ اور اسے ابوجہل اور ابولہب کے خطابات سے کیوں نوازتے ہیں؟
لیکن اس سے پہلا سوال یہ ہے کہ عقل کیا ہے؟ ایک فلسفی کا کہنا ہے کہ عقل وقوف کا آلہ ہے۔ اس کی مزید تشریح کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ (۱) عقل وہ قوت ہے جو جزو سے کلاور کل سے جزو بناتی ہے۔ (۲) مشابہت میں فرق اور فرق میں مشابہت تلاش کرتی ہے۔ (۳) حقائقِ معلومہ کے باہمی رشتوں کو دریافت کرتی ہے۔ (۴) معلوم کے ذریعے نامعلوم کو معلوم کرتی ہے وغیرہ۔ ان باتوں میں کوئی بات بھی ایسا نہیں ہے جس سے بنفسہٖ بوئے فساد آتی ہو۔ یہ وہ وظائف ہیں جن کے بغیر دنیا کا کام نہیں چل سکتا۔ اس لیے عقل کی مخالفت کا سبب اور مبہم اور خطرناک محسوس ہونے لگتا ہے۔
اچھا، عقل کی تعریف ہم ایک اور زاویے سے کرتے ہیں۔ میں نے کہا، میں ریاضی کی ایک پیچیدہ مساوات حل کرنا چاہتا ہوں، اپنے دوست کو مشورہ دینا چاہتا ہوں، حجِ بیت اللہ کے لیے جانا چاہتا ہوں۔ ان جملوں میں ’’چاہتا ہوں‘‘ کا لفظ اہم ہے۔ عقل وہ قوت ہے جو، جو کچھ میں چاہتا ہوں، اُس کے لیے وسائل اور اسباب مہیا کرتی ہے یا اُن کو حاصل کرنے کا طریقہ بتا دیتی ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ عقل ہماری خواہشات کی آلۂ کار ہے۔ بالکل اُسی طرح جس طرح میدانِ کارزار میں تلوار ہماری آلۂ کار ہوتی ہے۔ معرکۂ حیات میں کامیاب ہونے کے لیے خدا نے ہمیں عقل کی تلوار دی ہے۔ ہم عقل سے جو کچھ کام لیتے ہیں، وہ ہماری ذمے داری ہے۔ عقل کا کام صرف یہ ہے کہ ہم جو کچھ کام لیتے ہیں، وہ ہماری ذمے داری ہے۔ عقل کا کام صرف یہ ہے کہ ہم جو کچھ چاہتے ہیں وہ ہمیں اس کے حصول کا راستہ دکھا دے۔ اب ہم یہ کہیں گے کہ عقل بجائے خود نہ اچھی ہے، نہ بری۔ برے آدمی کے ہاتھ میں بری ہے اور اچھے آدمی کے ہاتھ میں اچھی ہے۔ یہ چور کو چوری سکھاتی ہے اور سپاہی کو چوروں سے حفاظت کرنا۔ برٹرینڈ رسل کو الحاد کے دلائل سکھاتی ہے، اقبال کو خطبات لکھنے میں مدد دیتی ہے۔ ان معنوں میں عقل کا فرق آدمی آدمی کا فرق ہے۔ ابوجہل کی عقل کا حاصل انکار ہے، صدیقِ اکبرؓ کی عقل کا حاصل اقرار ہے۔
اس مختصر سی بحث کے بعد ہم اپنے سوال کو پھر دُہراتے ہیں۔ اقبال عقل کے مخالف کیوں ہیں؟ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اقبال عقل کے مخالف نہیں ہیں۔ مغرب میں عقل سے جو کام لیا جا رہا تھا، اس کے مخالف ہیں اور چونکہ مغرب اپنی ہر گم راہی اور کارِ فساد کو عقل کے نام پر پیش کر رہا تھا، اس لیے اقبال ’’عقل‘‘ کو برا بھلا کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اقبال کا رویہ ردِ عمل کا رویہ تھا؛ یعنی اُنھوں نے بجائے خود عقل کی ماہیت اور وظیہف کاری پر غور نہیں کیا بلکہ صرف یہ دیکھا کہ مغرب والے کیا کر رہے ہیں اور اس کے ردِ عمل میں وہ وہ کچھ کہہ گزرے جو شاید اس ردِعمل کے بغیر نہ کہتے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے چار ٹھگ آپ کے بکرے کو کتا کہیں اور آپ اُن کے ردِعمل میں خود بھی بکرے کو کتنا سمجھا شروع کردیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اقبال کی مخالفتِ عقل کو روایت کی مدد سے حل کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ عقل کی مخالفت مشرقی شعر و ادب اور تصوف کی عام روایت ہے۔ اس لیے اقبال بھی عقل کے خلاف ہیں۔ اس سلسلے میں رومی اور غزالی دونوں کا نام لیا جاتا ہے۔ غزالی نے عقل کو انسان کی آنکھ قرار دیا ہے۔ آنکھ ایک عطیۂ خداوندی ہے۔ آنکھ کے بغیر دیکھا نہیں جاسکتا۔ لیکن آنکھ دیکھنے کے لیے نورِ آفتاب کی محتاج ہے۔ اس کے بغیر وہ اپنا وظیفہ پورا نہیں کرسکتی اور اندھیرے میں بھٹک جاتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ عقل کی ہدایت کے لیے وحیِ الٰہی کی پیروی ضروری ہے۔ یہ مفہوم صاف ہے، اس پر بحث کی ضرورت نہیں۔ غزالی عقل کے معترف ہیں۔ صرف اُس عقل کے خلاف ہیں جو وحیِ الٰہی کی پیروی سے الگ ہوکر اندھیروں میں بھٹک گئی ہو۔ غزالی کی طرح رومی بھی مذموم عقل اور محمود عقل میں فرق کرتے ہیں۔ مذموم عقل کو وہ جزوی عقل کہتے ہیں، محمود عقل کو عقلِ کلی۔ مختصر ترین لفظوں میں عقل کے بارے میں ان کا مؤقف یہ ہے کہ،
عقلِ جزوی عقل را بدنام کرد
اب سوال یہ ہے کہ عقلِ جزوی کیا چیز ہے اور عقلِ کلی کیا چیز ہے؟ اس سوال سے پہلے ہمیں اپنے وجود کو دیکھنا پڑے گا۔ ہم نے کہا معرکۂ حیات میں عقل ہماری آلۂ کار ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم کیا ہیں؟ ہم نے کہیں کہا ہے کہ ہمارا وجود ایک ہم آہنگ کل ہے اور ہمارے وجود کی یہ کلیت جب کائنات اور ماورائے کائنات کی کلیت سے ہم آہنگ ہوتی ہے تو ہمارا پورا وجود خیر ہے۔ یہ کائنات کی ہر چیز کی طرح قائم بالحق ہے۔ لیکن گناہِ آدم ہمارے وجود میں سرایت کر گیا ہے اور ہم اپنے وجود میں منقسم ہوگئیہیں۔ وہ اپنی کلیت اور ہم آہنگی سے محروم ہوکر پارہ پارہ ہوگیا ہے اور اس کا ہر ٹکڑا ایک دوسرے کے خلاف مصروفِ پیکار ہے۔ ہمارے احساسات، جذبات، خواہشات، جبلّتیں سب ایک دوسرے سے لڑنے میں مصروف ہیں اور ہمارے اندر کا یہ فساد ہمارے باہر کا فساد بن گیا ہے۔ اب ہم نوعِ انسان کائنات اور ماورائے کائنات سے اپنی ہم آۃنگی کھو بیٹھے ہیں۔ اور ایک الگ تھلگ، محدود، خود مرکز اور خدا گریز زندگی بسر کرتے ہیں۔ عقلِ جزوی ہمارے اس پارہ پارہ وجود کی پیداوار ہے۔ عقلِ جزوی کے معنی ہیں، عقل کو اپنے وجود کے کسی جزو کے طور پر استعمال کرنا۔ ہمارا وجودِ جزوی جب عقل کو استعمال کرتا ہے تو وہ عقلِ جزوی ہے، لیکن جب ہمارا پورا وجود عقل کو استعمال کرتا ہے تووہ عقلِ کلی ہے۔ آپ نے دیکھا اس نقطۂ نظر سے بھی فساد عقل کا نہیں ہے، فساد خود ہمارا ہے۔
اچھا اب چونکہ یہ بحث ہم ایک مخصوص کلچر کے پس منظر میں کر رہے ہیں، اس لیے آیئے یہ دیکھیں کہ ہمارے کلچر کا بنیادی سرچشمہ اس بارے میں کیا کہتا ہے؟ میرا اشارہ قرآنِ حکیم اور احادیثِ رسولﷺ کی طرف ہے۔ رسولِ کریمﷺ کی ایک حدیث ہے کہ خدا نے سب سے پہلے میرے نور کو پیدا کیا ہے۔ پھر ایک اور جگہ ارشاد ہوا ہے کہ خدا نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا۔ اور حضورﷺ کا ایک تیسرا قول ہے کہ خدا نے سب سے پہلے عقل کو پیدا کیا ہے۔ ان تینوں حدیثوں کی تطبیق اہلِ علم نے یہ کی ہے کہ نور، قلم اور عقل ایک ہی حقیقت کے تین ام ہیں اور حقیقت، حقیقتِ محمدیہ ہے۔ پھر رسولِ کریمﷺ کا ایک اور ارشاد ہے کہ ’’العقل فی قلب‘‘ یعنی عقل کا محل قلب ہے۔ اور قلب اسلامی روایات میں پورے وجودکا استعارہ ہے۔ قرآنِ حکیم میں جا بجا کہا گیا ہے کہ کائنات کی تمام چیزیں آیاتِ الٰہی ہیں اور عقل سے کام لینے والے ان سے ہدایت حاصل کرتے ہیں۔ جو ان سے ہدایت حاصل نہیں کرتے، وہ بے عقل ہیں۔ گونگے، بہرے اور اندھے ہیں۔ مثل جانوروں کے ہیں۔ میرے خیال میں اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ عقل کی مجرد مخالفت کسی طرح بھی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ نہ دنیاوی معنوں میں، نہ دینی معنوں میں۔ سوال گھوم پھر کر پھر وہیں آجاتا ہے کہ اقبال عقل کے مخالف کیوں ہیں؟
اچھا قبل اس کے کہ ہم اس سوال پر غور کریں، ہمیں ایک حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے؛ اقبال شاعری میں عقل کے مخالف ہیں، لیکن خطبات بھی تو اقبال ہی کی تخلیق ہیں۔ خطبات میں وہ عقلِ استقرائی کے زبردست حامی ہیں اور اسے اسلامی تہذیب کی بنیاد قرار دیتے ہیں۔ یعنی شاعری میں اُنھیں عقل ابوجہل اور ابولہب نظر آتی ہے اور خطبات میں عینِ اسلام۔ ہمیں غورکرنا ہے کہ اس فرق کے کیا معنی ہیں؟ اقبال دو مختلف جگہوں پر دو مختلف باتیں کیوں کرتے ہیں؟ اور جو چیز شاعری میں ’’ناخوب‘‘ ہے، وہ خطبات میں ’’خوب‘‘ کیسے بن جاتی ہے؟ دوسرے لفظوں میں ہمیں غور کرنا ہے کہ اقبال کی فطرت میں وہ کیا ثنویت ہے جو اُنھیں متضاد باتیں کہنے پر مجبور کرتی ہے؟ آیئے اس سوال پر غور کرنے کے لیے اقبال کے ایک اور تصور پر غور کریں جسے وہ عقل کے مقابلے پر پیش کرتے ہیں اور جو ان کے نزدیک کائنات کی سب سے بڑی قوت ہے؛ میری مراد عشق سے ہے۔
اسلامی ادبیات میں عشق اور قلب ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں اور دونوں پورے وجود کا استعارہ ہیں۔ ہمارا پورا وجود، جو ایک ہم آہنگ کل ہے، جب اپنی کلیت کے ساتھ حقیقتِ کلی کے مقابل ہوتا ہے، اور ان کے درمیان ہم آہنگی کا رشتہ پیدا ہوتا ہے، تو ہم اسے عشق کہتے ہیں۔ اس لیے عشقِانسانی کا حقیقی موضوع محبوبِ حقیقی ہے؛ یعنی خدا۔ آپ کہیں گے یہ بڑی بات ہے۔ لیکن ہمیں جس عشق کا تجربہ ہے، وہ محبوبِ حقیقی کا نہیں، محبوبِ مجازی کا ہے۔ اچھا تو ہم اپنی بات سے نزول کرتے ہیں اور کہتے ہیں، ایک محصوص معنوں میں عشق کا مفہوم یہ ہے کہ ایک پورا انسانی وجود، ایک پورے انسانی وجود کے مقابل ہے اور اس سے اپنی خواہشات، جذبات، محسوسات، جبلّتوں اور عقل کے ساتھ ہم آہنگ ہونا چاہتا ہے۔ یعنی روایتی معنوں میں دل و دماغ کی پوری قوتوں کے ساتھ اسے چاہنا چاہتا ہے، اور اس طرح چاہنا چاہتا ہے کہ بقولِ شاعر،
من تو شدم تو من شدی
من جاں شدم تو تن شدی
کا عالم پیدا ہوجائے۔ اقبال کے یہاں عشق کا جو بھی تصور ہو، اس میں یہ ہم آنگی کبھی پیدا نہیں ہوتی۔ ان کے وجود کا کوئی نہ کوئی حصہ ہے جو عشق کے فیضان سے محروم ہوجاتا ہے اور اس کی گرمی سے پگھل کر پورے وجود میں حل نہیں ہوتا، بلکہ الگ تھلگ رہ کر حل کے امکان کو خارج از بحث بنا دیتا ہے۔ اقبال کے یہاں عشق اور عقل کی پیکار ان کے وجود کے اسی حصے سے پیدا ہوتی ہے۔ اقبال کے وجود کا یہ حصہ کیا ہے؟ اقبال نے خود اسے بیان کیا ہے اور اس کے لیے جو استعارہ استعمال کیا ہے، وہ کمال کا ہے،
طور ہوں، یخ پیر بن عقلِ خنک فطرت سے ہوں
اس مصرع میں اقبال اپنی ذات کو طور کہتے ہیں۔ طور تجلیِ الٰہی سے جل گیا تھا، اس لیے اقبال بھی عشق سے جل رہے ہیں۔ مگر جلنے کی اس کیفیت میں ان کے وجود کا ایک حصہ برف کی طرح ٹھنڈا ہے۔ یہ ان کی عقلِ خنک فطرت ہے جو اپنی یخ پیرہنی کے باعث جلنے سے محروم رہ گئی ہے۔ اقبال کی عقل، اقبال کے عشق سے نہیں پگھلتی، وہ عشق کے تجربے کو قبول نہیں کرتی، اس میں شریک نہیں ہوتی۔ وہ برف کے تودے کی طرح ان کی ذات کو ٹھنڈا کرتی رہتی ہے۔ بات چونکہ عشقِ مجازی کی حدود میں ہو رہی ہے اس لیے ایک مصرع اور سن لیجیے۔ اقبال اپنے آپ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں،
حسنِ نسوانی ہے بجلی تیری فطرت کے لیے
لیکن حسنِ نسوانی کی یہ بجلی ان کی عقل کا کچھ نہیں بگاڑتی۔ یہاں پہنچ کر وہ خود ٹھنڈی ہوجاتی ہے۔ اقبال عقل سے لڑنے میں اپنی ذات کے اسی یخ پیرہن حصے سے لڑتے ہیں۔ اب اس سے ایک بہت اہم نتیجہ برآمد ہوتا ہے۔ رشید احمد صدیقی نے کسی جگہ ایک بہت عجیب بات لکھی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’جس آدمی کا تصورِ عورت ناقص ہوتا ہے، اس کا تصورِ خدا بھی ناقص ہوتا ہے۔‘‘ یعنی آدمی عورت سے اپنے تجربے میں اپنے خدا کا تجربہ حاصل کرتا ہے۔ لیجیے بات وہیں پہنچ گئی جہاں سے ہم واپس لوٹ آئے تھے۔ تو کیا ہم یہ کہیں کہ جس طرح حسنِ نسوانی کے تجربے میں اقبال کی عقل اس تجربے سے باہر رہ جاتی ہے، اسی طرح خدا کے تجربے میں بھی اقبال کی عقل اقبال کے پورے وجود کی شریک نہیں ہوتی؟
قلبِ او مومن دماغش کافر است
اقبال کی عقل بھی ان کے قلب سے برسرِ پیکار ہے۔
اقبال کی شاعری اقبال کے وجود کے تحرک سے پیدا ہوتی ہے، اس لیے وہ اپنی شاعری میں سراپا عشق ہیں۔ شاعری کے ذریعے وہ اپنے وجود کو پا جاتے ہیں۔ لیکن خود اپنے وجود سے اس وصل میں ایک چیز حائل ہے-97 ان کی عقل۔ وہ اس سے لڑتے ہیں۔ عقل سے ان کی لڑائی نہ مغرب کی عقل سے لڑائی ہے، نہ اس کا خارج کی کسی اور چیز سے کوئی تعلق ہے۔ ان کی لڑائی خود اپنی عقل سے ہے۔ اُس عقل سے جو انھیں طور کی طرح پوری طرح جلنے نہیں دیتی، انھیں ٹھنڈا بناتی ہے، ٹھنڈا کردیتی ہے۔ وہ جب اس عقل سے ہار جاتے ہیں تو اسے ابوجہل اور ابولہب کہنے لگتے ہیں۔ یہ کسی طرح عشق پر، حیات پر اور خود ان کے پورے وجود پر ایمان نہیں لاتی، کافر ہی رہتی ہے۔ اور اس کافر سے جہاد ان کی شاعری کا اہم ترین موضوع ہے۔ نہیں! یہ شاعری خود اس کافر کے خلاف جہاد ہے۔ اب اقبال کے اس تجربے کی روشنی میں ہم اپنے آپ کو دیکھیں تو ہماری عقل بھی سود و زیاں کے پیچاک میں اُلجھی ہوئی ہے۔ وہ ہمیں اپنے پورے وجود کی آگاہی سے دور رکھتی ہے۔ ہم اس کی وجہ سے اپنے نفسِ باطن کے عمیق ترین تجربات سے بے خبر رہتے ہیں اور اپنے عمل کو صرف پیمانہ، امروز و فردا سے ناپتے رہتے ہیں۔ اس لیے اقبال کی عقل سے لڑائی خود ہمارے لیے بھی جہاد کا مرتبہ رکھتی ہے۔ یہ فرضِ کفایہ ہے جو اقبال نے ہماری طرف سے ادا کیا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.