خودی اقبال کی شاعری کا سورۂ اخلاص ہے۔ یہ ان کی فکر کا جوہر اور پیغام کا خلاصا ہے۔ خودی کو سمجھے بغیر آپ اقبال کو نہیں سمجھ سکتے۔ اس موضوع پر اقبال کے شارحین نے جو کچھ لکھا ہے، اس کے بغیر ان کی فکر کی تفہیم ممکن نہیں تھی۔ لیکن میرا موضوع اقبال کی فکر نہیں، اقبال کی شاعری ہے، اس لیے میں خودی کے مسئلے کو بھی ان کی شخصیت کے حوالے سے سمجھنے کی کوشش کروں گا۔ میرا سوال صرف اتنا ہے: خودی اقبال کی شاعری کا اہم ترین مسئلہ کیوں ہے؟
اقبال کچھ ہیں اور کچھ بننا چاہتے ہیں۔ وہ فلسفی اور شاعر ہیں اور عملی آدمی بننا چاہتے ہیں۔ ناکام آدمی ہیں اور کامیاب آدمی بننا چاہتے ہیں۔ موت کی زد میں ایک فانی انسان ہیں اور ابدی انسان بننا چاہتے ہیں۔ یہ بننا ہی اقبال کی شخصیت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ میں نے ’’غالب کون؟‘‘ میں لکھا تھا کہ ہمارے وجود کے تین حصے ہیں، (۱) جیسے ہم ہیں۔ (۲) جیسے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ہیں (۳) جیسے ہم دوسروں پر ظاہر ہوتے ہیں۔ مؤخر الذکر دونوں باتوں کا تعلق ہماری شخصیت سے ہے اور پہلی بات کا تعلق ہماری ذات سے۔ ذات کے بارے میں ہم اس کے سوا اور کچھ نہیں جانتے کہ وہ ہے۔ باقی ہم اپنے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں یا دوسرے ہمیں جو کچھ سمجھتے ہیں، وہ ہماری شخصیت ہے۔ اقبال جو کچھ ہیں اور جو کچھ بننا چاہتے ہیں، اس کا تعلق ان کی شخصیت سے ہے اور یہ شخصیت جو کچھ ہے، اس کے سوا کچھ اور بننا چاہتی ہے۔ جو کچھ وہ ہے، اسے ہم ان کی شخصیت کا حقیقی پہلو کہیں گے۔ جو کچھ وہ بننا چاہتی ہے، وہ اس کا مثالی پہلو ہے۔ اسے ایک مثال سے سمجھیے۔ آپ نے کبھی پہلی کا چاند دیکھا ہے؟ آپ اسے غور سے دیکھیں تو اس کے گرد نور کا ایک ہلکا سا دائرہ نظر آئے گا جو اس کی تکمیلی صورت ہے۔ چاند جب مختلف منزلوں سے گزر کر اس دائرے تک پہنچے گا تو مکمل ہوجائے گا۔ پہلی کا چاند شخصیت کا حقیقی پہلو ہے جب کہ نور کا دائرہ اس کی مثالی صورت ہے۔ اقبال بھی پہلی کے چاند کی طرح بدرِ کامل بننا چاہتے ہیں۔ صرف اقبال ہی نہیں، ہم آپ سب۔ یہ ہماری شخصیت کا ایک لازمی عمل ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم اپنی شخصیت کے مثالی پہلو تک کیسے پہنچتے ہیں؟ ہماری شخصیت کے مثالی پہلو کا تعلق ہمارے کلچر کی بہترین قدروں سے ہوتا ہے۔ ہم ان قدروں کو اپنے اندر جذب کرنا چاہتے ہیں اور ایک ایسا نمونہ بننا چاہتے ہیں جس میں وہ قدریں اہمیت کے ساتھ زندہ ہوں۔ اس کے لیے ہمیں خود ایک نمونے کی ضرورت ہوتی ہے جسے ہم ہمیشہ اپنے سامنے رکھتے ہیں اور آئینے کی طرح اپنے مثالی عکس کو اس کے ذریعے دیکھنا چاہتے ہیں۔ مختلف کلچر مختلف نمونے پیش کرتے ہیں لیکن ہمارا کلچر ایک خدا مرکز کلچر ہے۔ اس کلچر کی بہترین قدریں اپنی تکمیلی صورت میں اس کے تصورِ اللہ میں ظاہر ہوتی ہیں۔ اس لیے ہمارے کلچر میں انسان کی مثالی شخصیت اسی تصور سے وابستہ ہے۔ انسان اگر اپنی شخصیت کے مثالی پہلو تک پہنچنا چاہتا ہے تو اس کا کام خدا کی صفات کو اپنے اندر جذب کرنا ہے۔ تخلقوا باخلاق اللہ، ’’اپنے اندر اللہ کی صفات پیدا کرو۔‘‘ یہ حضور نبیِ کریمﷺ کا ارشاد ہے جو صفاتِ الٰہیہ کا کامل ترین مظہر ہیں۔ اقبال کے سامنے بھی ان کا مثالی نمونہ ان کا خدا ہے۔ وہ اپنے خدا کے ہم صفات بننا چاہتے ہیں۔ اب ان کی خودی اور خدا کا رشتہ ظاہر ہے۔ خودی ان کی شخصیت کا حقیقی پہلو ہے، خدا مثالی پہلو۔ خودی اور خدا کے رشتے کے بارے مں ی وہ جو کچھ کہتے ہیں، وہ ان کے اسی تصور میں بند ہے۔ ان کا خدا ان کی خودی کا مثالی عکسہے۔ یا یوں کہیے کہ ان کی خودی، خدا کے آئینے میں اپنا عکس دیکھتی ہے۔ یہ عکس و آئینہ کی مثال کئی لحاظ سے اہم ہے۔ اس سے آپ کو ان کے اس تصور کو سمجھنے میں آسانی ہوگی کہ خودی کبھی خدا میں ضم نہیں ہوتی، جس طرح شخص کبھی عکس میں ضم نہیں ہوتا۔
خودی سے خدا تک پہنچنے کے تمام تکمیلی مراحل تعمیرِ خودی کے مراحل ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ خودی ضبطِ روایات سے مستحکم ہوتی ہے۔ ضبطِ روایات کے معنی ہیں ضبطِ اقدار۔ اطاعت اور ضبطِ نفس اس کا ایک حصہ ہیں۔ خودی ان مراحل سے گزر کر اپنی تکمیل تک پہنچتی ہے۔ یہ نیابتِ الٰہی کا درجہ ہے۔ اس درجے میں پہنچ کر خدا بندے میں جذب ہوجاتا ہے۔ یعنی اس کی شخصیت کا مثالی پہلو اس کا حقیقی پہلو بن جاتا ہے۔ اقبال کے شارحین کچھ بھی کہیں لیکن اقبال کے تصورِ خودی میں اس سے زیادہ کچھ نہیں رکھا۔ اس لیے ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔
کہا جاتا ہے کہ اقبال نے خودی کا تصور عجمی تصوف کی مخالفت میں پیش کیا۔ عجمی تصوف فنا فی اللہ پر زور دیتا ہے جس سے بے عملی اور انحطاط پیدا ہوا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اقبال اسلامی تصوف کے حامی ہیں جو فنا فی اللہ کے بجائے بقا باللہ پُرزور دیتا ہے۔ یہ اتنی بڑی اصطلاحیں ہیں کہ مجھے ان کے سمجھنے کا دعویٰ نہیں۔
آدمی فنا فی اللہ کیسے ہوتا ہے اور اس کے صحیح صحیح معنی کیا ہیں؟ یہ سمجھنا آسان نہیں ہے۔ شاعروں نے قطرے اور دریا کی مثال پیش کی ہے۔ لیکن قطرہ دریا مں ی مل کر باقی نہیں رہتا، جب کہ آدمی فنا فی اللہ ہوکر بھی موجود رہتا ہے۔ پھر وہ فنا کیسے ہوتا ہے۔ یعنی موت کے بعد کی بات تو اور ہے لیکن زندگی میں؟ تو پھر کیا فنا فی اللہ کے معنی مر جانا ہیں؟ لیکن یقینا ایسا نہیں ہے۔ فنا فی اللہ کا رتبہ زندگی میں حاصل ہوتا ہے اور اس میں اگر موت ہوتی بھی ہے تو وہ کسی اور قسم کی موت ہوتی ہے۔ اس موت کے کیا معنی ہیں؟ افسوس چند الفاظ کے سوا ہمارے پاس کچھ نہیں ہے اور اور ان الفاظ کے معنی کم از کم شارحینِ اقبال ہمیں نہیں بتاتے۔
فنا فی اللہ کے کیا معنی ہیں؟ میں چونکہ اس کی کوئی ذمے داری نہیں لینا چاہتا، اس لیے صرف نقل نویسی کروں گا۔ رسالہ ’’قشیریہ‘‘ میں فنا فی اللہ کے کئی معنی درج ہیں جو فنا کے مختلف مدارج کو ظاہر کرتے ہیں۔ مثلاً فنا کا ابتدائی درجہ صفاتِ مذمومہ سے فنا ہونا ہے۔ یہ تصور ظاہر ہے کہ اخلاق ہے۔ لیکن فنا کا آخری درجہ فنا کے خیال سے فنا ہوجانا ہے؛ یعنی پہلے صفاتِ مذمومہ کو ختم کیا جائے، پھر اوپر اُٹھ کر دوسری صفات سے اپنے رشتے کو توڑا جائے، یہاں تک کہ ہر چیز ختم ہوکر صرف فنا کا خیال باقی رہے۔ اور آخری درہ یہ ہے کہ فنا کا خیال بھی فنا ہوجائے۔ پتا نہیں میں کچھ کہہ بھی سکا یا نہیں، لیکن مکھی پر مکھی ضرور مار دی ہے۔ اچھا اب ایک شعر دیکھیے،
می روم سوئے نہایات الوصال
می ز تن عریاں شوم، او از خیال
یعنی میں نہایات الوصال کی طرف جا رہا ہوں جس کے لیے ضروری ہے کہ میں تن کو چھوڑ دوں اور وہ ’’خیال‘‘ سے آزاد ہوجائے۔ عسکری صاحب نے سوال اٹھایا ہے کہ یہ خیال کس کا ہے؟ اور جواب دیا ہے کہ خدا کا خیال تو ہو نہیں سکتا۔ انسان ہی کا خیال ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ وصل کے لیے ضروری ہے کہ طالبِ وصال خدا کے خیال سے آزاد ہوجائے۔ اب میں صرف اپنی تفہیم کے لیے اس ساری بحث کو اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہوں۔ غلطی ہو تو اللہ معاف کرنے والا ہے۔ ہمارے وجود کے دو پہلو ہیں؛ ذات اور شخصیت۔ ہم اپنی ذات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے لیکن ہماری شخصیت اُس خیال سے پیدا ہوتی ہے جو ہم اپنی ذات کے بارے میں رکھتے ہیں۔ اقبال نے خودی کو ’’نقطۂ نورے‘‘ کہا ہے۔ یہ نقطۂ نورے ہماری ذات کے بارے میں ہمارا وہی مرکزی خیال ہے جس کے تنے بانے سے ہماری شخصیت پیدا ہوتی ہے۔ جس طرح بیج میں درخت بند ہوتا ہے، اسی طرح ہمارے اس خیال میں ہماری پوری شخصیت بند ہوتی ہے۔ اب جب ہم خدا کے ہم صفات بننا چاہتے ہیں تو ہماری شخصیت کا مرکزی نقطۂ نور، یعنی ہماری خودی، ہمارے اُس تصور سے وابستہ ہوتی ہے جو ہم خدا کے بارے میں رکھتے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس تصور ہی سے ہماری خودی بنتی ہے۔۔۔ اس فرق کے ستاھ کہ جب ہم اپنی شخصیت کے حقیقی پہلو کو بیان کرتے ہیں تو اسے اپنی خودی کہتے ہیں اور جب اس کے مثالی پہلو کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں تو اسے خدا کہتے ہیں۔ اس طرح ہماری ذات کی نامعلوم اکائی ہمارے تصور میں ہماری شخصیت کی معلوم اکائی کے مقابل ہوتی ہے۔ ہم اپنی ذات کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ ہم جو کچھ جانتے ہیں، اپنی شخصیت کے بارے میں جانتے ہیں؛ بالکل اسی طرح جیسے ہم آئینے میں اپنی صورت دیکھتے ہیں۔ ہماری صورت کیا ہے؟ ہمیں نہیں معلوم، مگر ہمارا عکس ہمیں نظر آتا ہے۔ یہ عکس ہی ہماری شخصیت ہے جو ذات کے مقابل ہے۔ جس طرح ہماری ذات نامعلوم ہے، اسی طرح خدا بھی نامعلوم ہے۔ خدا کے بارے میں ہمیں جو کچھ معلوم ہے، وہ ہمارا تصور ہے، خدا نہیں ہے۔ فنا فی اللہ کا تصور یہ ہے کہ ہماری ذات اور خدا عین یک دگر ہیں، لیکن ان کے درمیان ہمارا تصور حائل ہے؛ یعنی ہماری خودی۔ ہم اس خودی کو فنا کردیں تو ہم اور خدا ایک ہیں۔ اب اوپر والے شعر کو ایک بار پھر پڑھیے،
می روم سوئے نہایات الوصال
می ز تن عریاں شوم، او از خیال
اس شعر میں ’’تن‘‘ کا لفظ اہم ہے اور خیال کے مقابلے پر عجیب لطف دے رہا ہے۔ لیکن اس لطف سے بھی قطع نظر اصل بات یہ ہے کہ یہاں تن اور خیال ایک ہوگئے ہیں۔ یہ خیال ہی ہے جس نے انسان کی حقیقت کو، جو اس کی ذات ہے اور خدا کا عین ہے، حقیقتِ جسمانیہ میں تبدیل کرکے دا سے الگ کرلیا ہے، اور یہی خیال خود خدا کی حقیقت کے لیے بھی حجاب بن گیا ہے۔ اس لیے وصل کے لیے ضروری ہے کہ ایک طرف انسانی حقیقت تن کے خیال سے آزاد ہوکر عریاں ہو اور دوسری طرف خدا کا خیال خدا کی حقیقت سے الگ ہو۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ممکن ہے؟ یعنی کیا انسان خود اپنے ’’خیال‘‘ سے آزاد ہوسکتا ہے؟ عجمی تصوف کا جواب یہ ہے کہ یہ نہ صرف ممکن ہے بلکہ انسانی وجود کا اوّلین مقصد ہی ’’خیال‘‘ سے یہ آزادی ہے۔ اسی کو صوفیانہ اصطلاحوں میں نفیِ خودی اور فنا فی اللہ کے الفاظ سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
آیئے اب ہم مسئلے کے ایک اور رخ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اقبال جب نفیِ خودی کے بجائے اثباتِ خودی پر زور دیتے ہیں تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ اوپر کی تشریح کے مطابق اس کا مفہوم یہ ہے کہ اقبال ذات سے گریزاں ہیں اور صرف شخصیت کو تقویت دینا چاہتے ہیں۔ لیکن شخصیت انسان کے لیے ایک مصنوعی چہرے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ یہ ایک خول ہے جو انسان اپنی ذات پر چڑھاتا ہے تاکہ اپنے ماحول سے اپنا تعلق پیدا کرسکے۔ ماحول سے تعلق ایک عمل ہے اور کل اعمال کی بنیاد۔ اس لیے شخصیت ایک عملی ضرورت ہے۔ اب غالباً ہم اس خیال کے قریب پہنچ گئے ہیں کہ نفیِ خودی سے بے عملی پیدا ہوتی ہے، جب کہ عمل کا تقاضا اثباتِ خودی ہے۔ یقینی طور پر یہ ایک غلط خیال ہے جس کو ہم ابھی واضح کریں گے۔ ہمارے ہر عمل کی بنیاد کچھ بننے کے تصور پر ہے۔ ہم ناکام ہیں اور کامیاب بننا چاہتے ہیں، ہم غیر اہم ہیں اور اہم بننا چاہتے ہیں، ہم اپنے آپ کو دوسروں سے کم تر محسوس کرتے ہیں اور برتر بننا چاہتے ہیں۔ عمل کے پیچھے ہمارے یہ محرکات ہمیشہ موجود رہتے ہیں اور ان محرکات کے پیچھے ہمیشہ ہمارا ایک خیال ہوتا ہے۔ وہ خیال جو اپنے ’’ہونے‘‘ سے مطمئن نہیں ہوتا اور کچھ اور بن جانا چاہتا ہے۔ انسان میں یہ خیال کہاں سے پیدا ہوا؟ اسرائیلی اساطیر میں حکایتِ آدم میں اس خیال کی پیدائش کا بیان ہے۔ جنت میں شجرِ حیات اور شجرِ علم ایک تھا۔ شیطان نے آدم کو بہکایا کہ تم فانی ہو۔ اگر تم اس درخت کا پھل کھاؤ گے تو تمھیں حیاتِ ابدی حاصل ہوجائے گی۔ آدم نے شیطان کے بہکانے سے شجرِ ممنوعہ کا پھل چکھا۔ یہ گناہِ آدم تھا۔ گناہِ آدم سے شجرِ علم، شجرِ حیات سے الگ ہوگیا، یعنی حیات اور حیات کا علم دو چیزیں ہوگئیں۔ آدم اپنے فانی ہونے سے نامطمئن ہوا اور ابدی بننے کی خواہش میں مبتلا ہوا۔ حیات سے یہی بے اطمینانی گناہِ آدم کا ثمر ہے۔ انسان موت سے ہم آہنگ نہیں ہونا چاہتا۔ موت سے بھاگنا چاہتا ہے اور موت سے بھاگنے کی یہی خواہش اس کے تمام اعمال کی بنیاد ہے۔ دنیا میں انسان موت سے ایک جھوٹا تحفظ پیدا کرتا ہے۔ تحفظ کی خواہش اس کے وجود میں سرایت کر گئی ہے اور اسی تحفظ کے لیے وہ، وہ سب کچھ کرتا ہے جو اس کی حیاتِ فانی کو بچانے کے بجائے اسے اور زیادہ خراب کرتا ہے۔ ہم بے ایمانی کرتے ہیں، جھوٹ بولتے ہیں، خود غرضی سے کام لیتے ہیں، ایک دوسرے کو دھوکا دیتے ہیں، ظلم و تشدد، قتل و اغوا، لڑائی جھگڑا اور جنگیں یہ ہے ہماری چند روزہ زندگی کی تصویر۔ فرشتوں نے آدم کی تخلیق سے پہلے انسان کی جو تصویر پیش کی تھی، ہماری زندگی اس کا ایک ایسا نمونہ ہے جس پر شیطان بھی شرمندہ ہو۔ کیا یہ ہمارے اعمال نہیں ہیں؟ نفیِ خودی ان اعمال کا رستہ بند کرتی ہے۔ وہ فنا کو قبول کرکے موت سے پہلے موت سے ہم آہنگ ہو جانے کا عمل ہے۔ وہ حیات سے، اس فانی حیات سے جو آدم کی تقدیر ہے، خوشی خوشی گلے ملنے کا نام ہے۔ نفیِ خودی ہماری نامطمئن زندگی کے اعمال کو روک کر ایک نئے عمل کا دروازہ وا کرتی ہے۔ یہ حیات کی قبولیت کا عمل ہے۔ یہ بے اطمینانی سے پیدا نہیں ہوتا۔ یہ سر تا سر اطمینان اور سکون کی پیداوار ہے۔ ہندوؤں میں اس عمل کی علامت کنول کا پھول ہے جو پانی میں ڈوبا ہونے کے باوجود پانی سے الگ رہتا ہے۔ یہ اُس انسان کا عمل ہے جس کی شخصیت ذات سے وصال کے بعد ذات کا آئینہ بن گئی ہے۔ یہ نفیِ خودی کے بعد خودی کا وہ اثبات ہے جو حسن، خیر اور قوت کا سرچشمہ ہے۔ حدیثِ قدسی ہے کہ جو لوگ قربِ نوافل کے طالب ہیں، اللہ اُن کے ہاتھ بن جاتا ہے جن سے وہ کام کرتے ہیں، اُن کے پاؤں بن جاتا ہے جن سے وہ چلتے ہیں، اُن کی آنکھیں بن جاتا ہے جن سے وہ دیکھتے ہیں۔ خودی کا یہ مقام نفیِ خودی کے بعد ہی حاصل ہوتا ہے اور یہی بقا باللہ کا مقام ہے۔ اقبال چند صوفیانہ خیالات کی مدد سے اس مقام تک پہنچتے تو ہیں مگر اس کی تہ میں نہیں اُتر سکتے۔ جو تھوڑی بہت کسر باقی رہ جاتی ہے، اسے شارحینِ اقبال پوری کردیتے ہیں اور اسلام کی حقیقی تعلیمات نطشے اور فشتے اور برگساں کی پریشاں خیالی کا شکار ہوجاتی ہیں۔
لیکن جیساکہ ہم متعدد بار کہہ چکے ہیں، ہمیں اقبال کے خیالات سے کوئی تعلق نہیں۔ ان خیالات کی اہمیت پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے اور وہ اقبال کی تفہیم کے لیے کافی ہے۔ ہمارا سوال صرف اتنا ہے کہ اقبال کی شخصیت میں خودی سے یہ وابستگی ان کی شاعری سے کیا تعلق رکھتی ہے؟ شاعری شخصیت سے ذات کی طرف مراجعت سے پیدا ہوتی ہے؛ یعنی بنفسہٖ نفیِ خودی کا عمل ہے۔ اقبال، وہ جو کچھ ہیں، اس سے نامطمئن ہیں۔ وہ اسے اپنی روح کی گہرائیوں میں قبول نہیں کرتے۔ موت سے دوچار ہوکر وہ موت سے گریزاں ہیں۔ اپنی فطرت کے فطری رجحان کو قبول کرنے کے بجائے عمل کے پیچھے بھاگتے ہیں۔ اپنی شاعرانہ تقدیر کو قبول کرنے سے ڈرتے ہیں اور مردانِ عمل کی دھما چوکڑی کی قصیدہ خوانی کرتے ہیں۔ یہ اقبال کی شخصیت کا عمل ہے، ذات کا نہیں۔
دوسرے لفظوں میں ان کی شخصیت اپنے حقیقی پہلو سے خائف اور اپنے مثالی پہلو کی پرستار ہے۔ یہاں تک کوئی گڑبڑ نہیں۔ گڑبڑ اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب کوئی شخصیت کے ان دو دائروں ہی کو کل حقیقت سمجھ لیتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ شخصیت کے یہ دونوں پہلو انجام کار ذات ہی سے وابستہ ہیں اور ذات کیطرف مراجعت کیے بغیر وہ اپنی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتا۔ اقبال جب تک اپنی شخصیت کے دائرے میں رہتے ہیں، اسی طرحس وچتے ہیں۔ لیکن اقبال کی شاعری شخصیت سے ذات کی طرف سفر کا انعام ہے۔ شاعری اپنی ماہیت سے ان کی خواہش کے بغیرانھیں اس مقام کی طرف لے جاتی ہے جو ان اعلیٰ ترین مقام ہے۔ اقبال نے اعتراف کیا ہے کہ ’’میرے قلب کی کیفیت بعض اوقات ایسی ہوتی ہے کہ میں شعر کہے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘‘ یہ شعر کہنے کی خواہش نہیں ہے۔ یہ قلب کی وہ پکار ہے جو ہر شاعر کو شخصیت کے خول سے نکال کر اس کی ذات سے دوچار کرتی ہے۔ اقبال کی خودی کا حقیقی اثبات ان کی شاعری میں ہے، یعنی شخصیت سے ذات کی طرف سفر میں۔ اس سفر کے ذریعے ہی اقبال اقبال بنتے ہیں اور اپنے باطن کی عمیق گہرائیوں کی آگاہی کے ساتھ ایک ایسی تخلیقی زندگی بسر کرتے ہیں جو دنیا کے عظیم ترین شاعروں کی حقیقی زندگی ہے۔ اقبال اس تجربے کے ذریعے ہی اس طرح زندہ رہتے ہیں جس طرح صرف ایک شاعر ہی زندہ رہ سکتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.