آپ نے اقبال کی وہ تصویر دیکھی ہے جس میں وہ شال اوڑھے ہوئے آنکھیں بند کیے ہوئے، کچھ مراقبے کی کیفیت میں بیٹھے ہوئے ہیں؟ یہ تصویر آپ کو کیسی لگتی ہے؟ اس میں اقبال آپ کو شاعر، فلسفی، مفکر نظر آتے ہیں یا مردِ عمل؟ اس تصویر کا مردانِ عمل کی تصویروں سے مقابلہ کرکے دیکھیے۔ ہٹلر، مسولینی، اسٹالن، ان کی تصویروں میں اور اس تصویر میں کیا فرق ہے؟ میں نے اسٹالین کی نوجوانی کی ایک تصویر دیکھی ہے۔ اس میں اس کا چہرہ ایک فن کار کا چہرہ ہے۔ معصومیت، نرمی اور ذہانت سے چمکتا ہوا۔ لیکن عمل کی دنیا میں اس پر نہ جانے کیا گزری کہ جو چہرہ ایک نودمیدہ گلاب کی طرح انسانیت کی خوشبو سے مہک رہا تھا، ایک بچھو کا چہرہ بن گیا۔ مسولینی سے اقبال کو ایک زمانے تک بڑی عقیدت رہی۔ مگر دونوں کی تصویریں دیکھیے۔ کیا مسولینی اقبال سے بڑا آدمی معلوم ہوتا ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا مردانِ عمل اہلِ فکر سے بڑے ہوتے ہیں؟ اقبال کا جواب اثبات میں ہے، ’’لاکھ حکیم سر بجیب، ایک کلیم سر بکف‘‘ لیکن اقبال کی میرے دل میں جو عزت اور عقیدت ہے، وہ ان کے ’’سر بجیب‘‘ ہونے ہی سے ہے، سر بکف ہونے سے نہیں۔ سر بکف ہوکر وہ ایک بار ہی میدانِ سیاست میں آئے تھے لیکن وہ ان کی زندگی کا کوئی بہت دل خوش کن دور نہیں ہے۔ بہرحال اقبال مردانِ عمل کو اہلِ فکر سے برتر قرار دیتے ہیں کیوں کہ ان کے نزدیک عمل، فکر سے بڑی چیز ہے۔ میں اس مصمون میں دیکھوں گا کہ اس خیال کا حقیقت سے، اور اس کے بعد اقبال کی شخصیت سے، کیا تعلق ہے؟
عمل اور فکر کے بارے میں صرف تین رویے ممکن ہیں،
(۱) عمل اور فکر میں تضاد یا تخالف کا رشتہ ہے۔
(۲) عمل اور فکر کے درمیان وہ رشتہ ہے جو اُن چیزوں کے درمیان پایا جاتا ہے جو ایک دوسرے کے بغیر ممکن نہیں ہوتیں، یعنی عمل اور فکر ایک دوسرے کا تتمہ ہیں۔
(۳) عمل اور فکر کے درمیان وہ رشتہ ہے جو ان چیزوں کے درمیان پایا جاتا ہے جو ایک دوسرے سے کم تر یا برتر ہوتی ہیں۔ اس تیسرے رویے کی دو شکلیں ہیں،
(الف) ایک رویہ فکر کو عمل پر فوقیت دیتا ہے۔
(ب) دوسرا رویہ عمل کو فکر پر فوقیت دیتا ہے۔
اقبال کے کلام میں ہمیں جو رویے ملتے ہیں، اُن کے بارے مں ی کسی خاص تحقیق کی ضرورت نہیں۔ بہت واضح اور نمایاں طور پر وہ عمل کو فکر پر فوقیت دیتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی ان کے نزدیک ان دونوں میں ایک ایسا تضاد پایا جاتا ہے جس کا رفع کرنا ممکن نہیں۔ آدمی یا تو فکری ہوسکتا ہے یا عملی۔ اس آخری بات کی وضاحت کے لیے میں ایک مثال پیش کرتا ہوں۔ مسلمانوں کی عظیم ترین شخصیتوں میں سے بعض ایسی شخصیتیں ہیں جو فکر اور عمل میں مساوی درجہ رکھتی ہیں اور جن میں فکر و عمل کا تضاد یا تخالف یا اس سے پیدا ہونے والی کش مکش کسی طرح بھی موجود نہیں ہے۔ مثلاً حضرت علی کرم اللہ وجہہ میں کہ ایک طرف تو وہ مسلمانوں کے پہلے فقیہ، پہلے متکلم، پہلے ماہرِ لسانیات ہیں اور دوسری طرف عظیم ترین صاحبِ سیف، جرنیل اور فاتح ہیں۔ اقبال اگر ان کی شخصیت کو غور سے دیکھتے تو اس میں انھیں فکر و عمل کی، وہ ہم آہنگی نظر آجاتی جو فکر و عمل کا صحیح ترین رشتہ ہے۔ مگر اقبال اپنی مخصوص ذہنیت اور مزاج کے باعث زورِ حیدری کو تو دیکھتے ہیں لیکن علمِ حیدری اور فکرِ حیدری کو نہیں دیکھتے۔ ’’باب العلم‘‘ کی شخصیت سے علم کو خارج کر دینا اور صرف زور یا طاقت کو لے لینا ’’حیدریت‘‘ کی صحیح تفہیم نہیں ہے۔ اقبال کہتے ہیں،
مرے لیے ہے فقط زورِ حیدری کافی
ترے نصیب فلاطوں کی تیزیِ ادراک
اس شعر سے افلاطون کو نکال دیجیے کیوں کہ یہ صرف خلطِ مبحث ہے۔ اب اس شعر پر میرا اعتراض یہ ہے کہ ہمیں زورِ حیدری کی ضرورت بھی ہے اور حیدری تیزیِ ادراک کی ضرورت بھی ہے۔ ’’فقط زورِ حیدری‘‘ کہہ کر اقبال نے حیدریت کو نہیں، اپنی مخصوص ذہنیت ہی کو ظاہر کیا ہے۔ حیدریت کی صحیح تفہیم فکر و عمل یا علم و عمل کی ہم آہنگی ہے۔ اقبال کے اس برعکس زورِ حیدری کو علم و فکرِ حیدری سے الگ کرلیتے ہیں اور پھر دوسری طرف افلاطون کی تیزیِ ادراک کو افلاطون کی عملیت سے اور اس طرح فکر و عمل کو ایک دوسرے سے لڑا دیتے ہیں۔ ہم اس تصور کو حقیقت کے روبرو رکھ کر دیکھیں تو اس کا کھوٹ ہم پر کھل جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فکر و عمل کے اعتبار سے ایک خاص معنی میں انسانوں کی یہ تقسیم غلط ہے۔ کوئی انسان مکمل طور پر نہ عملی انسان ہوتا ہے اور نہ فکری۔ جس طرح فکری انسان کسی نہ کسی درجے کا عمل کرتا ہے، اسی طرح عملی انسان بھی کسی نہ کسی درجے کی فکر کرتا ہے۔ یہ حال افراد ہی کا نہیں، اقوام کا بھی ہے۔ صرف فکری یا صرف عملی نہ فرد پایا جاتا ہے نہ قوم۔ البتہ یہ بات صحیح ہے کہ بعض لوگ زیادہ فکری اور بعض لوگ زیادہ عملی ہوتے ہیں اور اسی اعتبار سے ہم ایک کو فکری اور دوسرے کو عملی آدمی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی فرق فکری اور عملی کی نوعیت کا نہیں ہے بلکہ تناسب کا ہے۔ اقبال اس بات کو پوری طرح نظر میں نہیں رکھتے۔ اب رہ گیا سوال فکر پر عمل کی فوقیت کا، تو پہلے ہم اسے تاریخی تناظر میں رکھ کر دیکھیں گے۔ افلاطون نے اپنی مثالی ریاست کے لیے ’’فلسفی‘‘ بادشاہ کا تصور پیش کیا تھا جس کے معنی ہیں ایک ایسا فرد جس میں فکر کی فوقیت کے ساتھ فکر و عمل کا امتزاج ہو۔ ہندوؤں میں اس تصور نے سماجی نظامِ مراتب کی شکل اختیار کی۔ عمل کے میدان کو تین بڑے تعلقوں میں تقسیم کیا گیا۔ اقتدار و حکومت، تجارت و معیشت اور خدمت و اطاعت اس کے لیے تین طبقات وجود میں آئے۔ چھتری، ویش اور شودر۔ چوتھا طبقہ جو فکر و عمل کی نمائندگی کرتا ہے، ان تینوں سے اوپر رکھا گیا ہے، یعنی برہمن۔ مسلمانوں میں صدیقِ اکبر خلیفۂ اوّل ہیں اور ان کی تمام اصحابِ رسول پر فضیلت مسلّم ہے۔ ان کے بارے میں حضور نبیِ کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ ابوبکر کی فضیلت کا سبب یہ نہیں ہے کہ وہ اعمال میں اوروں پر فوقیت رکھتے ہیں بلکہ اُس چیز کی وجہ سے جو اُن کے دل میں ہے۔ ’’شئی فی قلبہ‘‘ اور قلب کا تعلق فکر سے ہے۔ دوسرے قرآنِ کریم میں ہمیشہ ایمان کو عمل پر فوقیت دی گئی ہے۔ اور اسے عمل سے مقدم رکھا گیا ہے۔ اب اس بات کو عام عقلی معیارات پر دیکھیے۔ ہر عمل جو اضطراری نہیں ہے، اس کا مقصد ہوتا ہے۔ بغیر تعینِ مقصد کے کوئی بامعنی عمل ممکن نہیں اور تعینِ مقصد فکر اور علم کا کام ہے۔ خود اقبال بھی مقصدی عمل کے قائل ہیں اور اس کے لیے ظاہر ہے کہ فکر مقصد مقدم ہے۔ مابعد الطبیعیاتی طور پر عمل کا تعلق اس دنیا سے ہے جو تغیرات کی زد میں ہے، جب کہ فکر کا تعلق اس حقیقت سے ہے جو غیرمتغیر ہے اور غیرمتغیر کو متغیر پر فوقیت حاصل ہے۔
فکر و عمل کے بارے میں اقبال کے تصورات اس تنقید کے باوجود اہم ہیں۔ بنے بنائے تصورات کی حیثیت سے نہیں بلکہ اقبال کی شاعرانہ شخصیت سے اپنے تعلق کی بنا پر۔ دقت اور غلطی دراصل اس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم ان تصورات کو ’’اقوالِ زرّیں‘‘ کے طور پر دیکھنے لگتے ہیں۔ اور گویا ان کی حقیقت کے قائل ہوکر انھیں تبلیغ و تلقین کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ شاعر کی حیثیت سے اقبال کی ہر واردات اہم ہے، خواہ وہ صحیح ہو یا غلط، کیوں کہ شاعری میں صحیح اور غلط کا پیمانہ معروضی نہیں ہے، بلکہ موضوعی ہے۔ یعنی یہاں یہ بات اہم نہیں ہے کہ اقبال نے جو بات کہی ہے، وہ سچ ہے۔اہم یہ بات ہے کہ اقبال نے جو کچھ کہا ہے، وہ اقبال کے لیے سچ ہے، یعنی اقبال کی شخصیت سے گہرا اور اہم تعلق رکھتی ہے۔
ہر سچی شاعری کی طرح اقبال کی شاعری بھی خیال کی نہیں، تجربے کی شاعری ہے۔ اقبال نے خیالات استعمال ضرور کیے ہیں، لیکن یہ منظوم خیالات نہیں ہیں۔ ان کے پیچھے تجربے کی روح ہے۔ یہاں تجربے سے ہماری مراد وہ چیز ہے جسے قدیم روایتی زبان میں ’’وارداتِ قلب‘‘ کہتے ہیں۔ قلب اقبال کے باطن میں ایک مرکز ہے جس سے بجلی گھر کی طرح ان کی سماعت، بصارت اور فکر میں روشنی آتی ہے۔ یہ ایک جینریٹر (generator) ہے جس سے ان کے تمام حواسِ خمسہ اور ذہن کو قوت ملتی ہے۔ وہ جو کچھ دیکھتے، سنتے، محسوس کرتے اورسوچتے ہیں، پہلے ان کے دل پر وارد ہوتا ہے اور پھر وہاں سے ان کے پورے وجود میں پھیلتا ہے۔
اگر ہم اقبال کی شاعری کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ان کے موضوعات کی فہرستیں بنانے سے کام نہیں چلے گا، نہ ان کے ایک ایک خیال کا سراغ لگانے کے لیے نٹشے، برگساں اور رومی کے پیچھے بھاگتے رہنے سے کچھ فائدہ ہوگا۔ یہ کام ہم بہت کرتے رہے ہیں اور اب اسے ختم ہوجانا چاہیے۔ اقبال کی شاعری ہمیں اقبال سے باہر نہیں ملے گی، اقبال کے اندر ملے گی۔ اقبال کے باطن میں ان کے تجربے کا وہ مرکز ہے جسے میں ان کا قلب کہتا ہوں۔ اقبال اسے اپنی ’’رزم گاہِ حیات‘‘ کہتے ہیں۔ ’’رزم گاہ‘‘ کا لفظ معنی خیز ہے۔ اقبال مغرب سے لڑتے ہیں، مشرق کے زوال آمادہ اور فرسودہ ماضی سے لڑتے ہیں، اسلام میں عجمی اثرات کے اثر و نفوذ سے لڑتے ہیں، عہدِ جدید کی سطحیت اور بے یقینی سے لڑتے ہیں۔ مگر اقبال کی ان ساعری معرکہ آرا افواج کا قلب، ان کا قلب ہے۔ اصل لڑائی یہیں ہو رہی ہے۔ آیئے کہیں سے چھپ کر اس میدانِ جنگ کا معائنہ کریں۔ دیکھے والوں کو، اگر ان کے پاس نظر ہو، پہلی بات یہ نظر آتی ہے کہ اقبال کا دل ایک شدید بے چینی کا مرکز ہے،
اک اضطرابِ مسلسل غیاب ہو کہ حضور
میں خود کہوں تو مری داستاں دراز نہیں
’’اضطرابِ مسلسل‘‘ اقبال کی داستانِ دراز کا خلاصا ہے۔ اقبال اسے بڑے بڑے فلسفیانہ نام دیتے ہیں۔ لیکن اپنی اصل میں اقبال کی یہ بے چینی ویسی ہی بے چینی ہے جیسی ہمارے آپ کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ ’’ہمارے آپ کے‘‘ کے الفاظ پر آپ چونکیے نہیں۔ شاعر کوئی آسمانی مخلوق نہیں ہوتا۔ وہ عرش سے پرے مکان بنانے کی کتنی ہی خواہش کرے، رہتا اسی زمین پر ہے اور ایک معنی میں ہمارا آپ جیسا ہی انسان ہوتا ہے۔ پیغمبرِ اسلام(ﷺ) نے کہا، ’’انا بشر مثلکم’’، شاعر کا مرتبہ نعوذ باللہ اس سے بلند نہیں ہوسکتا اور شاعر کے ہمارے آپ جیسے ہونے ہی میں اس کی ’’انسانیت‘‘ ہے۔ غالبؔ کو دیکھیے کتنی اکڑی ہوئی زبان میں بات کرتا ہے۔ میں نے اس پر غیرانسانی زبان بولنے کا الزام لگایا ہے۔ لیکن غالب اندر سے کیا تھا، ایک غم زدہ، شکست خوردہ، زمانے اور خود اپے ہاتھوں کا ستایا ہوا ایک انسان۔ اقبال بھی انھی معنوں میں ہمارے جیسے ایک انسان ہیں اور میں نے کہا ہے کہ ان کے دل میں ویسی ہی ایک بے چینی ہے جیسے کہ ہمارے آپ کے دل میں ہوتی ہے۔ اقبال میں اور ہم میں فرق یہ ہے کہ اقبال کی بے چینی مستقل اور مسلسل ہے جب کہ ہم آپ اپنی بے چینی کو بھول جاتے ہیں، اس لیے راہِ فرار اختیار کرتے ہیں یا کم از کم اس کی دھار کو کند بنا دیتے ہیں۔ اس کے مقابلے مں ی اقبال بے چینی کے ساتھ زندہ رہتے ہیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ ہماری بے چینی اکثر گونگی اور ناقابلِ اظہار ہوتی ہے، جب کہ اقبال جیسا شاعر اسے گویائی کا شاہکار بنا دیتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقبال کی یہ بے چینی کیا ہے؟
مجھے اقبال کی ذاتی زندگی کا کم سے کم علم ہے۔ چند سامنے کی باتیں میں جانتا ہوں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنے پیشے کے کامیاب آدمی نہ تھے، یعنی جیسا کامیاب انھیں ہونا چاہیے تھا۔ اور شاید انھیں کبھی بھی بہت زیادہ معاشی آسودگی حاصل نہیں ہوئی۔ ان کی ازدواجی زندگی بھی کچھ پیچ در پیچ الجھنوں کا شکار رہی جس کا اظہار ان کی تین شادیوں میں ہوتا ہے۔ اولاد کا سکھ بھی جیسا ملنا چاہیے تھا، نہیں ملا۔ یہاں تک کہ انھیں اپنے ایک بیٹے کو عاق کرنا پڑا۔ ان کی صحت بھی اکثر خراب ہی رہی اور کئی امراض ان کی زندگی کو گھن کی طرح کھاتے رہے۔ آخر صرف اکسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی۔ میں جو بات کہنا چاہتا ہوں اس کے لیے یہ کم سے کم معلومات بھی بہت ہیں۔ اقبال عام انسان کی حیثیت سے زیادہ کامیاب آدمی نہیں تھے۔ اقبال کی بے چینی ایک ایسے ہی آدمی کی بے چینی ہے۔ شاید وہ اس ناکامی کے اسباب پر غور بھی کرتے ہوں گے۔ جہاں تک ان کی غیرمعمولی صلاحیتوں کا تعلق ہے، وہ ایک جینیس تھے۔ قدیم اور جدید علوم کے میدان میں ہندوستان میں کون تھا جو ان کا مقابلہ کرسکتا۔ وسائل اور تعلقات کے لحاظ سے بھی ان کی پوزیشن مضبوط تھی۔ اس کے باوجود وہ ’’وابستگانِ شہریار‘‘ میں نہیں تھے تو اس کی کیا وجہ تھی؟ شاید یہ کہ وہ عملی آدمی نہیں تھے۔ انھیں کام دھام سے زیادہ دل چپسی نہیں تھی۔ وہ کامیاب بننے کے لیے وہ سب کچھ نہیں کرسکتے تھے جو دوسرے کرتے ہیں۔ وہ ایک سوچنے اور محسوس کرنے والے آدمی تھے۔ مختصر طور پر یہ کہنا کافی ہے کہ وہ شاعر یا مفکر تھے۔ ہم اگر اس بات کو گہرائی میں جاکر دیکھیں تو ان کی رزم گاہِ حیات مں ی جو جنگ برپا ہے، اس کا تعلق اسی بات سے ہے۔ وہ اپنی ’’بے عملی‘‘ کے خلاف لڑنا چاہتے ہیں۔ انھیں بے عمل کس نے بنایا؟ شاید ان کی شاعرانہ فطرت نے، شاید اس بات نے کہ وہ فلسفیانہ مزاج رکھتے تھے، شاید اس بات نے کہ بچپن میں ان کے اندر تصوف کے اثرات سرایت کر گئے تھے۔ اقبال اپنے نفسِ باطن کی گہرائیوں میں اسی طرح سوچتے ہیں اور ہر اُس چیز سے لڑنا چاہتے ہیں جو انھیں ایسا بنانے کی ذمے دار ہے۔ شاعری، فلسفہ اور تصوف سے ان کی لڑائی کی حقیقی بنیاد یہی ہے۔ اقبال نے اپنے اندر جو کم زوری دریافت کی ہے، اس کی تعمیم کرتے ہیں۔ وہ اپنی قوم کو دیکھتے ہیں کہ وہ غلام ہے، پس ماندہ ہے، زندگی کی جدوجہد میں شکست خوردہ ہے۔ اقبال اپنی قوم کی اس ناکامی کا تجزیہ اپنے باطنی تجربے کی روشنی میں کرتے ہیں۔ جس طرح اقبال فرد کی حیثیت سے بے شمار صلاحیتوں کے آدمی تھے، اسی طرح اقبال کی قوم بھی بڑی صلاحیتوں کی مالک تھی۔ وہ تاریخ میں ان صلاحیتوں کا اظہار کرچکی تھی۔ لیکن یہ صلاحیتیں نہ اقبال کو ناکام بننے سے روک سکیں، نہ ان کی قوم کو۔
اقبال اپنی قوم کی ناکامی کے اسباب کو اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ اقبال ہی کی طرح اقبال کی قوم بھی اپنی بے عملی کی وجہ سے ناکام ہوئی ہے اور بے عملی کے اسباب وہی ہیں جن کو اقبال اپنے اندر دریافت کرچکے ہیں-97 شاعری، فلسفہ، تصوف-97 کبھی وہ اس کی ذمے داری حافظ پر ڈالتے ہیں، کبھی افلاطون پر اور کبھی عجمی اثرات پر۔ ان معنوں میں اقبال مثبت یا منفی طور پر قوم کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں، دراصل اپنے بارے میں کہتے ہیں۔ نٹشے نے کہا تھا، ’’ہر فلسفیانہ نظام ایک قسم کا شخصی اعتراف ہوتا ہے۔‘‘ یہ بات فلسفے سے زیادہ شاعری پر صادق آتی ہے۔ اقبال کی شاعری اپنی عظیم معروضیت کے باوجود ایک شخصی اعتراف ہی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک شاعر اس سے زیادہ اور کر بھی کیا سکتا ہے۔
اقبال نے اپنے اندر اپنی سب سے بڑی کم زوری بے عملی دریافت کی ہے، ’’وہ اک مردِ تن آساں تھا تن آسانی کے کام آیا۔‘‘ اس کے خارجی اسباب اوپر بیان کیے جاچکے ہیں۔ لیکن اقبال نے اس کے داخلی وجوہ پر بھی غور کیا ہے۔ وہ بے عملی کا سبب کبھی جذبے کی کمی کو کہتے ہیں، کبھی مقصد کے عدمِ تعین کو اور کبھی ان کے نزدیک اس کا سبب وہم و گمان کی کثرت اور یقین کی کم زوری ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اس کی تلافی کے لیے اقبال جو نظگام بناتے ہیں، اس میں عشق، تعینِ مقصد اور یقین کو نمایاں اہمیت حاصل ہوجاتی ہے۔ اقبال کی شاعری کو بنے بنائے خیالات کے طور پر پڑھنے کا نتیجہ ہمیشہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ ہم ان خیالات کی تنقید و تردید میں ان کی شاعری کو بھول جاتے ہیں۔ مثلاً ایک فرقہ جوشیہ ہے جو اقبال کے عشق کی تردید میں عقل عقل چلّاتا رہتا ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں نے یہ فلسفیانہ بحث بھی اٹھائی ہے کہ عمل کے لیے یقین کوئی لازمی شرط نہیں ہے۔ لیکن یہ بحثیں اس لیے لاحاصل ہیں کہ ان کی صداقت اتنی معروضی نہیں ہے جتنی موضوعی۔ عشق، تعینِ مقصد اور یقین اقبال کی داخلی ضروریات ہیں اور انھیں ہمیشہ اسی طور پر دیکھنا چاہیے۔
میں نے ابھی تلافی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اس سے ذہن نفسیات کے ایک مخصوص مکتبِ فکر کی طرف جاتا ہے۔ لیکن میں نے یہ لفظ ایک خاص معنی میں استعمال کیا ہے۔ کیا اقبال کے لیے یہ ممکن ھتا کہ وہ عشق، تعینِ مقصد، اور یقین کی بدولت عملی آدمی بن جاتے اور اس طرح خود اپنے آئیڈیل کے مطابق بن جاتے؟ یقینا ایسا ہوسکتا تھا لیکن پھر وہ شاعر نہ رہتے۔ شاعر وہ شخص بنتا ہے جس کی شدید آرزوئیں اور تمنائیں اسے ایک جوہرِ سیمابی کی طرح بے قرار رکھتی ہیں اور جو اپنے پورے وجود سے کسی طلب کے لیے آغوش عاشق کی طرح کشادہ ہوتا ہے۔ لیکن اس کے کردار میں کوئی ایسی کم زوری ہوتی ہے جس کے باعث وہ ان تمناؤں اور آرزوؤں کے حصول میں ناکام رہتا ہے، یا ان کے لیے وہ جدوجہد نہیں کرسکتا جس کا وہ تقاضا کرتی ہیں۔ مدعا اور حصولِ مدعا کے درمیان یہ کم زوری ہی اس کی شاعری کی بنیاد ہوتی ہے۔ گویا وہ ایک طرح ناممکن کا خواب دیکھتا ہے۔ یہ ناممکن ممکن ہوجائے تو وہ شاعر نہیں رہ سکتا۔ اقبال کے تصورات اقبال کی ایک مخصوص باطنی کیفیت سے پیدا ہوئے ہیں اور اسی کے باعث ان کا آئیڈیل بن گئے ہیں اور یہی ان کی شاعرانہ یا تخلیقی اہمیت ہے۔
میں نے اوپر کہا ہے کہ اقبال نے اپنے اندر جو باتیں دریافت کی ہیں، اپنی شاعری میں وہ ان کی تعمیم کرتے ہیں۔ یہ باتیں شخصی تو ہیں لیکن ایک آدھ مقام پر وہ ایک بہت دل چسپ نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ کیا ان کی شخصی کم زوریاں ان کی نسلی کم زوریاں کا نتیجہ ہیں؟ کیا وہ بے عمل اور تفکر زدہ اس لیے ہیں کہ نسلاً برہمن ہیں؟ اپنی ایک نظم ’’فلسفہ زدہ سیّد زادہ کے نام‘‘ میں وہ کچھ ایسی ہی بات کہتے ہیں۔ فلسفے کو زندگی سے دوری کہنے کے بعد وہ اچانک اپنا ذکر کرتے ہیں،
میں اصل کا خاص سومناتی
آبا مرے لاتی و مناتی
ہے فلسفہ میرے آب و گل میں
پوشیدہ ہے ریشہ ہائے دل میں
یہ ذکر نظم میں کیوں آیا ہے اور فخر کا اظہار ہے یا ندامت کا؟ پہلے سوال کا جواب کسی اور جگہ دوں گا لیکن ان دو اشعار میں ایک خاص قسم کی تنقید کے ساتھ ایک خاص قسم کا فخر بھی موجود ہے۔ تنقید شعوری ہے، فخر لاشعوری۔ اقبال برہمنوں کے مقابلے میں سیّدِ ہاشمی کو رکھتے ہیں اور سیّدہ زادہ کو فلسفہ ترک کرنے کا پیغام دیتے ہیں۔ کیا اس کے پیچھے یہ احساس بھی شامل ہے کہ فلسفہ اگر کوئی کام کی چیز ہوتا تو برہمن مسلمانوں سے کیوں ہارتے؟ سیّد ہاشمی اقبال کے نزدیک ’’عمل‘‘ کی علامت ہیں، برہمن فکر کی۔ کیا اقبال کے لاشعور کی تہوں میں کہیں یہ خیال موجود ہے کہ برہمنوں کی شکست کا سبب ان کا فکری ہونا ہے اور مسلمانوں کے جیتنے کا سبب ان کا عملی ہونا ہے؟
پوری نظم کا خلاصا کچھ یوں معلوم ہوتا ہے کہ سوچنا برہمنوں کا کام ہے، مسلمانوں کا نہیں۔ مسلمانوں کا کام تو عمل کرنا ہے اور عمل کرنے ہی کی وجہ سے مسلمان کامیاب ہوئے یں۔ اس لیے ایک سیّد زادے کو تو بدرجۂ اتم سوچنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ یہ میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ ایک شعر کا لب و لہجہ دیکھیے،
میری کفِ خاک برہمن زاد
تو سیّدِ ہاشمی کی اولاد
یعنی اے بھائی سیّد زادے! تجھے فلسفے سے کیا لینا، تو تو تلوار چلا۔ اقبال مشرق کی تمام اقوام کا علاج اسلام کی عملیت میں ڈھونڈتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ زندگی سے قربت رکھتا ہے اور فکر و فلسفہ کے فسانہ و افسوں میں مبتلا ہوکر حقیقت کو نظرانداز نہیں کرتا، یعنی عملی مذہب ہے۔ عمل کے سوا مسلمانوں میں اور جو کچھ نظر آتا ہے (فلسفہ، کلام، تصوف، شاعری) وہ اسلام کے خلاف عجمیت کی سازش ہے۔
میرے خیال میں اقبال کے فلسفۂ عمل کا ان کی شخصیت سے جو تعلق ہے، میں نے اسے کسی حد تک واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اب آخر میں ایک سوال اور؛ اقبال اگر بے عمل تھے تو اس میں کون سی نئی بات تھی۔ شاعر اور فلسفی قسم کے لوگ تو عموماً بے عمل ہی ہوتے ہیں، پھر ان کے یہاں یہ مسئلہ وہ صورت کیوں نہیں اختیار کرتا جو اقبال کے یہاں نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس بیشتر شاعر اور فلسفی اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ بے عمل ہیں اور ان کا تعلق فکر کی بلند تر دنیا سے ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ عمل کی برتری کا تصور اقبال کے یہاں یہ صورت کیوں اختیار کرتا ہے؟ میرے خیال میں یہ کہنا تو بالکل غلط ہوگا کہ اقبال کو کبھی اپنی شاعرانہ یا مفکرانہ عظمت کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ ان کے کلام میں بہت سے مقامات ایسے آتے ہیں جب وہ اس بات پر فخر کرتے نظر آتے ہیں کہ وہ شاعر اور مفکر ہیں اور اُنھوں نے اپنے زمانے کی زندگی کو متاثر کیا ہے۔ لیکن شاعرانہ اور مفکرانہ تنافر کے یہ لمحات بحیثیتِ مجموعی ان کے نقطۂ نظر پر کوئی اثر نہیں ڈالتے۔ ان کی حیثیت صرف ایک ترنگ کی رہتی ہے۔ ان کا مستقل خیال یہی ہے کہ عمل فکر پر برتری رکھتا ہے۔ میرے نزدیک اس کی بنیادی وجہ اقبال نہیں ہیں بلکہ اقبال کا زمانہ ہے۔ اقبال ایک ایسے زمانے میں پیدا ہوئے جس کا ایمان تخلیقی زندگی سے اُٹھ گیا تھا۔ یہ زمانہ افادی اور عملی فلسفوں کا تھا جو انسانوں کو یہ بتاتے تھے کہ جو چیز فوری نتائج نہیں پیدا کرتی اور واضح طور پر مفید نہیں ہے، وہ بے کار اور نظرانداز کردینے کے قابل ہے۔ اس نقطۂ نظر کے نتیجے کے طور پر معاشرتی طرزِ حیات کے وہ سارے نمونے، جو افادیت اور عملیت سے قریب کا تعلق نہیں رکھتے، مطعون کیے جا رہے تھے اور رفتہ رفتہ معدوم ہو رہے تھے۔ لوگ بھولتے جا رہے تھے کہ شعرا، جاذیب اور سیاسی ایک ہی گروہ کے لوگ ہوتے ہیں اور ان کی عزت کرکے معاشرہ کچھ حاصل ہی کرتا ہے، کچھ کھوتا نہیں۔ ہمارے یہاں افادی اور عملی فلسفوں کا اثر جس طرح ظاہر ہوا، اس کا تجزیہ اکثر میں حالیؔ سے کرچکا ہوں۔ اقبال کے عہد تک یہ اثرات اور زیادہ گہرے اور قوی ہوگئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے ان اثرات سیگ ہرا تاثر قبول کیا تھا۔ ان معنوں میں اقبال خاص اپنے عہد کی پیداوار ہیں اور بعض ایسے رجحانات کی نمائندگی کرتے ہیں جو ان سے پہلے ہماری تہذیبی زندگی میں اتنی قوت سے ظاہر نہیں ہوئے تھے۔ مختصر لفظوں میں اقبال کی عمل پرستی ان معنوں میں ان کے زمانے کی دین ہے کہ اقبال اگر کسی اور زمانے میں پیدا ہوتے تو شاید انھیں اپنی بے عملی اتنی زیادہ بری نہ معلوم ہوتی یا پھر وہ فکر کو عمل پر فوقیت دیتے اور اپنی شاعرانہ زندگی کی قدر و قیمت سے زیادہ آگاہ ہوتے، بقولِ حافظ،
گدائے مے کدہ ام لیک وقتِ مستی بیں
کہ ناز بر فلک و حکم بر ستارہ کنم
اب ایک سوال اور؛ اقبال کے فلسفۂ عمل کا مستقبل سے خاص تعلق ہے۔ میں نے اقبال کی شخصیت سے اقبال کے فلسفۂ عمل کا جو تعلق تلاش کیا ہے، کیا اقبال کی مستقبل پرستی کی توجیہ بھی اس سے ہوسکتی ہے؟ اقبال کی عمل پرستی کے بارے میں، میں کہہ چکا ہوں کہ یہ ان اثرات کا نتیجہ ہے جو اُنھوں نے اپنے زمانے سے قبول کیے ورنہ شاید وہ کسی اور زمانے میں اپنی بے عملی کے باوجود عمل پرست نہ ہوتے۔ان کی مستقبل پرستی بھی ان کی شخصیت کے عمل و ردِ عمل کا نتیجہ ہے۔ اقبال ’’مردِ تن آساں‘‘ ہیں اور اپنے زمانے کے اثرات کے مطابق عمل کا آئیڈیل اپنے سامنے رکھتے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ اقبال بدلنا چاہتے یں۔ جو کچھ وہ ہیں، اس سے کچھ اور بننا چاہتے ہیں۔ کچھ اور بننے کا تعلق مستقبل سے ہے، اس لیے اپنے فلسفۂ عمل کے ذریعے مستقبل میں کچھ اور بننا ہی ان کی واحد اُمید ہے۔ یہ اُمید ان کے لیے بھی ہے اور ان کی قوم کے لیے بھی،
طلوعِ فردا کا منتظر رہ کہ دوش و امروز ہیں فسانہ
دوش و امروز فسانہ ہوں کہ نہ ہوں لیکن ہمارے لیے اہم بات یہ ہے کہ اقبال نے اپنی تن آسانی سے اتنی اعلیٰ درجے کی شاعری پیدا کرکے دکھا دی۔ یہ شاعری ہمارے لیے مردانِ عمل کے ہزاروں کارناموں سے بڑا عمل ہے۔ اس لیے نہیں کہ یہ شاعری عمل کا پیغام دیتی ہے بلکہ اس لیے کہ وہ خود ایک ایسے ’’عمل‘‘ کا نتیجہ ہے جو مردانِ عمل کو نصیب نہیں ہوتا۔ یہ وہ عمل ہے جو پیغمبری سے چند قدم دور ہے۔ یہ تلامیذ الرحمن کا عمل ہے۔ کاش اقبال کے عمل پرست شارحین اقبال کی شخصیت اور ان کی شاعری کی حقیقی قدر و قیمت کو سمجھ سکتے۔ اقبال کو سمجھ کر ہی اُنھیں معلوم ہوتا کہ ایک حقیقی شاعر اپنی قوم کے لیے خدا کی کتنی بڑی نعمت ہوتا ہے اور وہ اپنی قوم کے نفسِ باطن کو اپنے تجربات کی جو دولت عطا کرتا ہے وہ اس قوم کے لیے کتنا بڑا سرمایۂ حیات ہوتی ہے۔ کاش ہم سمجھ سکتے کہ اقبال شاعر نہ ہو کر اگر صرف عمل پرستے ہوتے تو کیا ہوتے؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.