Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عشق اور قحط دمشق

سلیم احمد

عشق اور قحط دمشق

سلیم احمد

MORE BYسلیم احمد

    یوں تو نئے زمانے کے فیض احمد فیض کی طرح پرانے زمانے کے شیخ سعدی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ زندگی کی سب سے بڑ ی حقیقت عشق نہیں ہے۔ لیکن شیخ سعدی نے اسے یارو ں کے لیے تسلیم کیا ہے اور فیض احمد صاحب نے اپنے لیے۔ پھر سعدی میں اس حقیقت کے اثبات سے کرب پیدا ہوتا ہے۔ انہیں اس بات پر حیرت اور عبرت ہوتی ہے کہ قحط اتنی بڑی مصیبت ہے کہ لوگ عشق جیسی چیز کو بھول جائیں۔ اس کے برعکس فیض صاحب کا رویہ اطمینان کا ہے بلکہ شاید کچھ فخر کا بھی۔ انہوں نے ایک نئی حقیقت دریافت کی ہے۔ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا۔ یہاں غم کے لفظ سے دھوکہ نہیں کھائیے۔ فیض صاحب زمانے کے جبر کا اعتراف نہیں کر رہے ہیں جس کا اعتراف شیخ سعدی نے کیا ہے۔ فیض صاحب جو بات کہنا چاہتے ہیں وہ اگلے مصرعے میں مکمل ہوتی ہے۔ راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا۔

    اب یہ معاملہ زمانے کے جبر سے، غم سے، حیرت اور عبرت سے آگے گیا۔ شیخ سعدی کے ہاں ترک عشق ایک جبر ہے۔ فیض کے ہاں ایک اثباتی قدریعنی وہ چیز جس پر معاشرے کی تشکیل ہوتی ہے۔ فیض صاحب کا اطمینان اور فخر یہیں سے پیدا ہوتا ہے۔ انہوں نے کچھ ایسے غم اور راحتیں ڈھونڈ نکالی ہیں جنہیں شیخ سعدی قبول نہیں کر سکتے تھے، نہ وہ سوسائٹی جو شیخ سعدی کو رحمۃ اللہ علیہ کہتی تھی۔ ہماری نئی سوسائٹی کی بنیاد انہی نئے غموں اور نئی راحتوں پر ہے۔ میں اس مضمون میں اپنی آسانی کے لیے پرانی سوسائٹی کو عشق کی سوسائٹی اور نئی سوسائٹی کو ترک عشق کی سوسائٹی کہوں گا۔

    اب شیخ سعدی اور فیض احمد فیض کو ایک بار پھر دیکھئے۔ گویہ دونوں نام ایک ساتھ لیتے ہوئے مجھے ہول آتا ہے۔ شیخ سعدی کے نظام اقدار میں عشق کا مقام جو کچھ بھی ہو، یہ ایک ایسی چیز ضرور ہے کہ شیخ نے قحط دمشق کی ہول ناکی کو اجاگر کرنے کے لیے صرف اتنا کہنا کافی سمجھا کہ لوگ عشق تک کو بھول بیٹھے۔ یاد رہے کہ یہ کسی رومانی کا بیان نہیں ہے بلکہ سعدی علیہ الرحمۃ کا، جنہیں اردو فارسی شاعری کا سب سے بڑ ا حقیقت نگار کہا جاتا ہے۔ شیخ سعدی کے نزدیک عشق ایک ایسی چیز ہے جو بہت سے لوگوں میں بھوک کے خوف سے ختم تو ہو جاتی ہے مگر اسے ختم نہیں ہونا چاہئے۔ ’’چناں قحط سالے‘‘ میں ’’چناں‘‘ کا استعجاب ان کے اسی رویے سے پیدا ہوتا ہے۔ پھر ان کے اس رویے کے کیا معنی ہیں۔ کیا ترقی پسند نقادوں کے قول کے مطابق وہ یہاں عیاش جاگیرداروں کے نمائندے کی حیثیت سے بول رہے ہیں؟

    ترقی پسند نقادوں کا ذکر اس لیے آیا کہ انہوں نے بھی فیض کی طرح نئی سوسائٹی کی اثباتی قدریں متعین کرنے میں حصہ لیا اور ترک عشق کو انسانیت کا سنگ میل قرار دیا ہے۔ اس انسانیت کے بنیادی خدوخال کیا ہیں، اسے ہم ابھی مختصراً متعین کرنے کی کوشش کریں گے۔ فی الحال ہماری گفتگو شیخ سعدی کے رویے یا پرانی سوسائٹی کے نظام اقدار میں عشق کے مقام پر ہے۔

    میرا خیال ہے کہ ہر لکھنے والے کی پہلی ذمہ داری اپنے حدود کو متعین کرنا ہے۔ میری اپنی حدود یہ ہے کہ میں اپنے آپ کو عشق کی حقیقت اور ماہیت بیان کرنے کا اہل نہیں پاتا۔ اس لیے شیخ سعدی کی رہنمائی میں صرف اتنا کہوں گا کہ عشق ایک ایسی چیز ہے جسے شیخ کے نزدیک بھوک کے خوف سے ختم نہیں ہونا چاہئے۔ گو ہولناک حقیقت یہ ہے اور شیخ اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ بعض لوگوں بلکہ شاید انسانوں کی اکثریت میں بھوک کا خوف اسے ختم کر دیتا ہے۔ یہ بھوک کا خوف کیا ہے؟

    بیسوی صدی اپنی نصف دہائیاں تیزی سے پوری کر رہی ہے اور مارکس کے نظریات پر ایک نئی سوسائٹی کو قائم ہوئے تقریبا ًنصف صدی گزر چکی ہے۔ اس لیے اس سوال پر دوچار لفظ کہتے ہوئے بھی مجھے شرم سی محسوس ہو رہی ہے۔ یہ بات تو آپ کو ہر ترقی پسند نقاد بتا سکتا ہے کہ بھوک ایک بنیادی جبلت ہے جس کی مدد سے فرد اپنے وجود کو قائم رکھتا ہے۔ انسان اگر اس جبلت کا تقاضا پورا نہ کر سکے تو تو جسم و جان کا ربط برقرار رکھنا ناممکن ہے۔ گویا بھوک کی جبلت فرد کی خواہش حیات کا مظہر ہے۔ اور چوں کہ حیات کا قائم رکھنا انسانیت کا پہلا فریضہ ہے، اس لیے ترقی پسندوں کے نزدیک انسانیت کی بنیادی اور بلندترین قدریں معاشی ہیں۔ اب اس میں روٹی کے ساتھ وہ تمام چیزیں شامل ہو گئیں جو فرد کی حیات کو قائم رکھنے اور ترقی کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ روٹی، کپڑا، مکان، مادی آسائشیں، تسخیر فطرت۔

    اقبال نے غلط اعتراض کیا تھا جب مارکس کو صرف ’’مساوات شکم‘‘ کا پیغمبر قرار دیا تھا۔ مارکسی سوسائٹی کا بانی لینن اسے اس کی بلندترین سطح پر وہی عمل قرار دیتا ہے جسے خود اقبال نے ’’عناصر پر حکمرانی‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ غالباً اب ہم فیض صاحب کی اثباتی قدروں کے نزدیک پہنچ گئے ہیں۔ فیض صاحب کہتے ہیں یہ اثباتی قدریں ترک عشق سے پیدا ہوتی ہیں۔ اقبال کہتے ہیں کہ عشق سے۔ یعنی دونوں کا اختلاف لفظی ہے نہ کہ معنوی۔ لیکن یہ ایک طویل بحث ہے۔ اس لیے میں اقبال کے عشق کو چھوڑ کر شیخ سعدی کے عشق کی طرف لوٹتا ہوں۔

    شیخ سعد ی کہتے ہیں کہ عشق کو بھوک کے خوف سے ختم نہیں ہونا چاہئے۔ گو ہول ناک حقیقت یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت میں بھوک کا خوف اسے ختم کر دیتا ہے۔ بھوک کی جبلت کو ہم پہلے متعین کر چکے ہیں، فرد کی یہ خواہش کہ وہ زندہ رہے۔ اب بھوک کے خوف کے معنی ہوئے، زندہ نہ رہ سکنے کا خوف۔ گویا شیخ سعدی کہتے ہیں کہ یہ بڑی ہول ناک بات ہے کہ زندہ نہ رہ سکنے کا خوف انسانوں کی اکثریت میں عشق کو ختم کر دیتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عشق کیا ہے؟

    مشہور ترقی پسند نقاد مجنوں گورکھپوری نے کسی جگہ حضرت عیسی کا قول نقل کیا ہے اور اس پر اپنی گراں قدر رائے پیش کی ہے بلکہ ازراہ علمیت اصلاح بھی فرمائی ہے۔ حضرت عیسیٰ نے کہا تھا، ’’انسان صرف روٹی سے زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘ حضرت مجنوں گورکھ پوری کہتے ہیں، یہ بات ٹھیک ہے مگرہم اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ’’انسان روٹی کے بغیر بھی زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘ ہم سے ان کی مراد ظاہر ہے کہ ایک تو خود ان کی اپنی ذات سے ہے اور دوسرے کارل مارکس سے۔ بھوک کی جبلت کے جومعنی ہم نے اوپر متعین کیے ہیں، اس کی مدد سے اگر ہم حضرت عیسیٰ کے قول کو سمجھنے کی کوشش کریں تو اس کا مفہوم یہ نکلتا ہے کہ انسان صرف زندہ رہنے سے زندہ نہیں رہ سکتا۔ آپ کہیں گے، یہ ایک بے معنی فقرہ ہے۔ مگر چوں کہ حضرت عیسیٰ سے منسوب ہے اس لیے ہم ان کے ساتھ اتنی رعایت ضرور کریں گے کہ کم از کم ایک باراسے سمجھنے کی کوشش کریں۔ آپ کویاد ہوگا کہ ہم نے اوپر یہی بیان کیا تھا کہ بھوک وہ بنیادی جبلت ہے جس سے فرد اپنے وجود کو قائم رکھتا ہے۔ اس جملے میں فرد کا لفظ اہم ہے۔ بھوک یا روٹی فرد کوزندہ رکھتی ہے۔ نوع یا نسل کو نہیں۔

    اب دونوں باتوں کو ملاکر دیکھئے۔ انسان صرف ’’روٹی سے زندہ نہیں رہ سکتا‘‘ کے معنی ہیں، انسان صرف فرد کی طرح زندہ رہنے سے زندہ نہیں رہ سکتا۔ مجھے یقین ہے کہ میری طرح آپ بھی چند الفاظ کی تکرار اور لوٹ پھیر سے بدمزہ ہو رہے ہوں گے مگر مجبوری ہے، میں حضرت مارکس اور مجنوں گورکھپوری کی طرح علمیت کے اس مرتبہ پر توفائز نہیں ہوں کہ عیسی کے قول کو جاگیرداری عہد کا ایک نظریہ کہہ کر مسترد کر دوں۔ یہ حضرت عیسی کے تہہ درتہہ مفاہیم کو سمجھنے کی ایک نہایت حقیر کوشش ہے۔ اتنی حقیر کہ مجھے اسے طالب علمانہ کہنے کی جسارت بھی نہیں ہوتی۔ اس لیے آپ سے چند الفاظ کی تکرار اور الٹ پھیر کی معافی کا خواست گار ہوں۔

    ہاں تو حضرت عیسی کے قول کے مطابق انسان صرف فرد کی طرح زندہ رہنے سے زندہ نہیں رہ سکتا۔ یعنی حضرت عیسیٰ ہمیں بتاتے ہیں کہ فرد کی زندگی، زندگی کی ایک بہت محدود شکل ہے جواپنے آپ کو برقرار رکھنے کے لیے زندگی کی کچھ اور شکلو ں کی محتاج ہے۔ جو فرد کی محدود زندگی سے وسیع تر اور عظیم تر ہیں، فرد کی محدود زندگی کا ربط اگر زندگی کی ان وسیع اور عظیم تر شکلوں سے ٹوٹ جائے تو خود فرد بھی فنا کے دائرے سے نکل نہیں سکتا۔

    فرد کی محدود زندگی کے بعد زندگی کی وسیع تر شکلوں کا پہلا تعین یہ ہے کہ انسان بحیثیت نوع کے زندہ رہے، پھر بہ حیثیت حیات محض کے جو ماورائے کائنات ہے اور ازل سے ابد تک یکساں قائم و دائم ہے۔ قطرہ دریا میں جومل جائے تو دریا ہو جائے۔ اب ’’انسان صرف روٹی سے زندہ نہیں رہ سکتا۔‘‘ کا آخری اور قطعی مطلب یہ ہے کہ صرف بھوک کی جبلت انسان کو حیات محض کے وسیع ترین اور عظیم ترین دائرے میں داخل نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے ہمیں انسان کی کسی اور قوت کی طرف دیکھنا چاہئے۔ میں اس وقت اپنی گفتگو صرف زندگی کے دوسرے تعین تک محدود رکھوں گا۔ یعنی انسان کی زندگی بحیثیت نوع کے۔

    اب سے تقریبا ًسولہ سترہ سال پہلے کی بات ہے جب قحط بنگال کے واقعات اخباروں کی سرخیاں بن کر شائع ہوتے تھے اور پورا ہندوستان ایک سن کر دینے والی دہشت کے انداز میں یہ خبریں پڑھتا تھا کہ ماؤں نے بھوک سے بے تاب ہوکر اپنے بچے بھون بھون کر کھا لیے، مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں ترقی پسند نقاد اس بات پر تالیاں بجاتے تھے کہ آخر جیت انہی کے نظریے کی ہوئی، یعنی فرائیڈ ہار گیا اور مارکس جیت گیا۔ جیسا کہ آپ سب کو معلوم ہے، ہمارے اد ب پر اس کے بہت گہرے اثرات رونما ہوئے۔ یہ ترقی پسند تحریک کے عروج کا دور تھا۔ اس نے ان تمام ادیبوں کو ادب کی پہلی صف سے پیچھے دھکیل دیا جو زندگی اور اس کے عوامل کی تشریح جنس کی روشنی میں کرتے تھے۔ بین الاقوامی سطح پر جو چیز فرائیڈ کی شکست تھی، اردوادب کے مختصر اور محدود دائرے میں، میں اسے میراجی کی ہار کہتا ہوں۔ میراجی ہار گیا۔ عصمت سرخ چیونٹیوں پر ایمان لے آئیں۔ منٹو آخر دم تک لڑتا رہا مگر پاگل ہوکر مرا اور مرنے کے چھ مہینے کے اندر اندر بھلا دیا گیا۔ راشد زندہ ہیں اور اسرافیل کی موت کا نوحہ لکھ رہے ہیں۔

    ہاں تو فرائیڈ کی ہار کے کیا معنی تھے؟ غالباً اس حقیقت کو جاننے کے لیے ہمیں فرائیڈ کو ماننے کی کوئی ضرورت نہیں کہ انسان کی زندگی بحیثیت نوع کے بھوک سے نہیں جنس سے قائم رہتی ہے۔ یعنی فرد کی زندگی میں جتنی اہمیت بھوک کی ہے، نوع انسانی کی زندگی میں اتنی ہی اہمیت جنس کی ہے۔ جنس کے بغیر نسل انسانی کا تسلسل قائم نہیں رہ سکتا۔ یہ مرد عورت کا رشتہ ہی تو ہے جس کی مدد سے فرد اپنے آپ کو دوبارہ پیدا کرتا ہے۔ غالباً اب ہم عشق کی تعریف کے بالکل قریب پہنچ گئے ہیں۔ عشق وہ قوت ہے جو انسان کو فرد کی محدود زندگی سے نکال کر اسے زندگی کے ایک وسیع تر دائرے میں داخل کرتی ہے۔ اس دائرے کا پہلا تعین جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں، یہ ہے کہ انسان بحیثیت نوع کے زندہ رہے۔

    عشق کی اس تعریف کے بعداب میں پھر شیخ سعدی کی طرف لوٹتا ہوں۔ ہم نے شیخ سعدی کے شعر کا مفہوم اپنے الفاظ میں یہ متعین کیا تھا کہ شیخ کے نزدیک یہ بڑی ہولناک بات ہے کہ زندہ نہ رہ سکنے کا خوف انسانوں کی اکثریت میں اس قوت کو ختم کر دیتا ہے جو اسے زندگی کے وسیع تر اور عظیم تر دائروں میں داخل کر سکتی ہے اور جس کا پہلا تعین یہ ہے کہ وہ بحیثیت نوع کے زندہ رہے۔ اس لیے قحط دمشق کا سب سے بڑا المیہ یہ نہیں ہے کہ سیکڑوں انسان بھوکے رہے یا بھوک سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر گئے بلکہ یہ کہ لوگ عشق کو بھول بیٹھے۔ شیخ کی حیرت یا عبرت یا تحقیر یا کرب جو کچھ بھی اس شعر میں ہے وہ اسی المیے کے احساس سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ اس سوسائٹی کا المیہ ہے جسے میں نے عشق کی سوسائٹی کہا ہے۔

    یہ سوسائٹی جب قحط دمشق جیسے ہول ناک عذاب سے گزرتی ہے تواس سے ترک عشق کی سوسائٹی پیدا ہوتی ہے، جس کی بنیاد موت یا بھوک کے خوف پر ہوتی ہے یعنی اس سوسائٹی کے تمام افراد، زندگی کی تمام وسیع وعظیم شکلوں سے کٹ کر صرف فرد کی محدود زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن حضرت عیسی نے کہا تھا کہ انسان صرف فرد کی طرح زندہ رہ کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس لئے ’’راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا‘‘ کہنے والے شاعر کو اپنا مرثیہ اپنی موت سے پہلے لکھنا پڑتا ہے اور۔۔۔ شاعر کے ساتھ اس کی سوسائٹی کو بھی!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے