عشقیہ شاعری کی پرکھ
جنسی یا شہوانی محرکات کا شعر میں اظہارعموماً عشقیہ شاعری سمجھا جاتا ہے۔ لیکن جس طرح کوئلے کو ہیرا نہیں سمجھا جاتا (اگرچہ کوئلہ ہی مدت درازمیں آفتاب کی تابندگی اپنے اندر جذب کر کے ہیرا بن جاتا ہے) اسی طرح شہوانی یا جنسی جذبہ جب تک وہ عشق کے عناصر اپنے اندر جذب نہ کرلے، عشقیہ جذبہ نہیں کہلا سکتا۔ اسی طرح محض جنسی یا شہوانی محرکات کا شعر کے سانچے میں ڈھل جانا عشقیہ شاعری نہیں ہے۔ محض شہوانی یا جنسی اشعار اور عشقیہ اشعار میں تمیز کر سکنا، تنقید کا بڑا نازک و اہم مسئلہ ہے۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ یہ فرق کہاں موجود ہوتا ہے تو میں کہوں گا کہ بسا اوقات یہ فرق شعر کے لہجہ میں یا شعر کی صوتی فضا میں موجود ہوتا ہے۔ مثلاً غالب کا یہ شعر بادی النظر میں عشقیہ شعر سمجھا جائے گا۔
ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
لیکن غالب کے اس شعر کا لہجہ حقیقی معنی میں عشقیہ شعرکا لہجہ نہیں۔ غالب کا شعر تیز و طرار قسم کا جنسی شعر ہے۔ اس کے مقابلہ میں اسی مضمون کو جب یوں ادا کیا جائے،
اک چیز ہے دنیا میں تقدیرمحبت بھی
سب کہنے کی باتیں ہیں اعجاز و مسیحائی
تو شعر کی فضا عشقیہ شاعری کی فضا ہو جاتی ہے۔ یا غالب کی اسی غزل کا یہ شعر ہے،
چال جیسے کڑی کماں کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کوئی
حقیقی عشقیہ شاعری نہیں ہے اور اس کے مقابلہ میں میر کا یہ شعر،
کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ
سو تم ہم سے منہ ہی چھپا کر چلے
حقیقی عشقیہ شاعری ہے۔
کسی کا شعر ہے،
ادھر آؤ زلفوں کے لٹکانے والے
مرے دل کو گلیوں میں اٹکانے والے
لیکن اسی مضمون کا یا اسی موضوع پر اگرآپ کوعشقیہ شعر کی تلاش ہے تو ہم آپ کوغالب کا یہ شعر سنائیں گے،
تو اور آرائش خم کا کل
میں اور اندیشہ ہائے دور و دراز
داغ کا یہ شعر بھی غالب کے مندرجہ بالا شعر کے مقابلے میں عشقیہ شعر کہلانے کا مستحق نہیں۔
تم کو آشفتہ مزاجوں کی خبر سے کیا کام
تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے گیسو اپنا
حسرت موہانی کے یہ اشعار،
اے عشق کی بیباکی کیا تو نے کیا ان سے
جس پر انہیں غصہ ہے، انکار بھی حیرت بھی
خود عشق کی گستاخی سب تجھ کو سکھا لے گی
اے حسن حیا پرور، شوخی بھی شرارت بھی
عشقیہ اشعار ہیں، لیکن بلند نہیں۔
معاملہ بندی اور ادا بندی کی شاعری ہوتی ہے بہت دلکش لیکن آفاقی وسعتیں اس میں نہیں ہوتیں۔ دنیا کے بڑے عشقیہ شاعروں کے یہاں معاملہ بندی اور ادابندی کے اشعار ان کے کلام کے اہم ترین اجزا نہیں ہیں۔ اب سے تیس برس پہلے کی بات ہے، ابھی میں سن شعور کو پہنچا ہی تھا کہ نہایت شد و مد کے ساتھ کچھ لوگوں نے نظام رامپوری کا یہ مشہور عالم شعر مجھے سنایا،
انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دیے مسکرا کے ہاتھ
اور انور دہلوی کا یہ شعر بھی جو مندرجہ بالا شعر سے کم مشہور نہیں،
نہ ہم سمجھے نہ آپ آئے کہیں سے
پسینہ پونچھیے اپنی جبیں سے
اور ایک مدت تک میں بھی ان اشعار کا کلمہ پڑھتا رہا۔ لیکن میرے دل میں ان اشعار کے متعلق ایک دبا دبا چور تھا۔ میرا وجدان ان اشعار سے جہاں ایک طرف متکیف ہوتا تھا وہاں دوسری طرف کچھ مجروح بھی ہوتا تھا۔ لیکن اس ناآسودگی کا سبب ذرا بعد میں سمجھ میں آیا کہ دونوں اشعار میں ان کے محاسن کے باوجود کچھ کمی بھی تھی اور وہ یہ کہ معشوق اور معشوق کی حالت سے ہمدردی و ہم آہنگی کا جذبہ یا احساس ان اشعار میں نہیں ہے، بلکہ ہجو ملیح اور خفیف کا سا انداز واسوخت کا پیدا ہو گیا ہے۔ جہاں تک پہلے شعر کا تعلق ہے، میں ایک بات اور بھی کہہ دوں اور وہ یہ کہ معشوق کے لیے ضمیر کے صیغہ غائب کو جمع میں لانا معشوق سے مغائرت یاغیرت کا اظہار ہے۔ یہ طرز بیان اہل لکھنؤ کی چیز ہے اورمیری نظر میں پسندیدہ نہیں۔
میر کے بہترین عشقیہ اشعار کا تصور کیجیے اور غالب و مومن کے بھی ان اشعار کا تصور کیجیے جو ان کے کلام میں عشقیہ شاعری کے شہ پارے ہیں۔ اس کے بعد ذرا متوازن دل و دماغ سے آتش کے بہترین عشقیہ اشعار یاد کیجئے۔ اس کی،
’’تار تار پیرہن سے آ رہی ہے بوئے دوست‘‘
دالی غزل، یا
’’نکل چلی ہے بہت پیرہن سے بو تیری‘‘
والی غزل، یا
’’آئینہ سینہ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا‘‘
والی غزل کو سامنے رکھیے تو معلوم ہوگا کہ اگر آتش نے اپنے بہترین رنگ کی عشقیہ شاعری کے امکانات کو کچھ اور چمکایا ہوتا، اور اپنے رنگ میں ساٹھ ستر بہترین عشقیہ غزلیں کہہ ڈالتا تو بلند تنقید کی نظر میں غالباً آتش، غالب اور مومن بلکہ میر سے بھی بڑا عشقیہ شاعر کہلائے جانے کا مستحق ہو جاتا۔
میر و مومن کی عشقیہ شاعری کی عظمتیں مسلم، لیکن دونوں کے کلام میں مفکرانہ اور رچے ہوئے سوز و ساز نشاط کا فقدان ہے۔ غالب کے یہاں نشاط کا عنصر کہیں کہیں جگمگاتا ہوا ضرور نظر آتا ہے اور ’’مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے‘‘ والی لافانی غزل کے انداز میں غالب سے اگر تیس چالیس غزلیں ہو گئی ہوتیں تو اردو کی عشقیہ شاعری نہ جانے کہاں پہنچ گئی ہوتی۔
یہ غزل اور ’’ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے‘‘ والی غزل غالب کی عشقیہ شاعری کے بہترین شاہکار ہیں۔ ان میں ایک نشاط رنگ کا شاہکار ہے اور دوسری المیہ رنگ کا۔ غالب کی ہر دل عزیزی، اس کی مسلمہ مقبولیت سدا بہار چیزیں ہیں۔ لیکن خالص عشقیہ شاعری کا بہت بڑا شاعر غالب نہیں ہے۔ غالب کے یہاں معیاری نظر سے دیکھنے پر کئی چیزوں کی کمی نظر آتی ہے۔ اگرچہ ایسا کہتے ہوئے دکھ ہوتا ہے۔ لیکن تنقید کو کبھی کبھی شاعر اور نقاد دونوں کے ساتھ بیدردی برتنی پڑتی ہے اور یہ کہنا پڑتا ہے کہ عموماً محبو ب کے متعلق غالب کا لہجہ غیریت اور استہزا کے عیب سے پاک نہیں رہ سکا ہے۔
کسی اچھے سے اچھے مذاق رکھنے والے آدمی سے آپ غالب کی شاعری کے بارے میں رائے پوچھیں تو وہ وجد آفریں لہجہ میں غالب کا ذکر کرے گا اور ایسا کرنے میں حق بجانب ہوگا۔ لیکن اگر اسی شخص سے آپ اردو کے بلند ترین اور بہترین عشقیہ اشعار سنانے کو کہیں تو وہ میر، مومن کے اشعار سنانے لگے گا اور ممکن ہے کہ غالب کے صرف دوہی تین اشعار پراکتفا کرے بلکہ اس کا بھی احتمال ہے کہ غالب کا ایک شعر بھی نہ سنائے۔
عشقیہ شاعری کے معاملے میں آفاقی کلچر کی نظربہت بلند ہوتی ہے اور آفاقی کلچر کے مطالبے بڑے مطالبے ہوتے ہیں۔ نظم کی عشقیہ شاعری ہویا غزل کی، آفاقی کلچر کی کسوٹی پر بالکل ناقص تو ثابت نہ ہوگی لیکن بلندترین چیز بھی نہ ثابت ہوگی۔ جو لوگ اردو سے دلچسپی رکھتے ہیں اور عشقیہ شاعری سے بھی، ان کے لیے بہت ضروری ہے کہ اردو کی عشقیہ شاعری کے تمام محاسن کو جانیں۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہماری تمام شاعری کا نوے فیصدی حصہ جنسی، شہوانی اور عشقیہ ہے۔ اور انگریزی، فرانس اور جرمنی کی شاعری کا صرف دسواں حصہ جنسی یا عشقیہ ہے۔ انگریزی زبان کے کئی چوٹی کے شاعروں نے عشقیہ شاعری بہت ہی کم کی۔ جیسے ملٹن، ورڈ سورتھ، کولرج، شیلی، کیٹس، میتھو آرنلڈ وغیرہ، پھر بھی یہ حقیقت ہمیں بے چین کر دینے کے لیے کافی ہے کہ بحیثیت مجموعی مغرب کی بلندترین عشقیہ شاعری اردو کی بہترین عشقیہ شاعری سے بہت اعلیٰ و ارفع ہے۔
اردو شاعری نے ہندوستان میں جنم لیا، یہیں پنپی اور پروان چڑھی۔ لیکن کالی داس، بھوبھوتی، بھرتھرہری اور دوسرے سنسکرت شعرا کی عشقیہ شاعری نے جن کے مذاقوں کو رچایا ہے، ودیاپتی اور ہندوستان کی دیگر زبانوں کے شعرا کی عشقیہ شاعری نے جن کے مذاقوں کو رچایا ہے، ودیاپتی اور ہندوستان کی دیگر زبانوں کے شعرا کی عشقیہ شاعری، ٹیگور کی عشقیہ شاعری نے جن کے وجدان کو متاثر کیا ہے، سیتا، ساوتری، شکنتلا، دمینتی، رادھا، تارا، سلوچنا، پاروتی کے جگمگاتے ہوئے تصورات نے جن کے دل و دماغ کو منور کیا ہے، جنہوں نے ہندوستان کی عشقیہ شاعری میں سورگ کے سنگیت سنے ہیں، ان کے سامنے ہم اردو کی بہترین عشقیہ شاعری پیش کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ یہا ں نقاد کا فرض محض ادبیت یا لوازم فن سے گزر کر زندگی کے ان مسلمات سے اپنے آپ کو روشناس کرنا ہوتا ہے جن کے بغیر بنیادی تنقید ممکن نہیں۔
جنسی کشش اور جنسی رجحانات میں جب تک جذباتی پائندگی، جذباتی سوز و ساز، نرمی، مانوسیت اورمعصومیت، حیرت و استعجاب، سپردگی، وجدانی محویت اور ایک احساس طہارت کے عناصرگھل مل نہیں جائیں گے، اس وقت تک تخیل میں وہ حلاوت اور وہ عنصری طہارت پیدا نہیں ہوگی جو بلند پایہ عشقیہ شاعری کو جنم دیتی ہے اورغم و محبت کی کسک میں خیر و برکت کی وہ صفت بھی پیدا نہ ہوگی جس کے بغیر وہ رس جس یا ’’پرسادگن‘‘ پایا جائے گا، جہاں غم و نشاط کا اتحاد ہوتا ہے اور جو دنیا کی بلند پایہ عشقیہ شاعری کی روح رواں ہے۔
ہندوستان کی روح نے صدیوں کی ریاضت کے بعد وہ خلاقانہ نرمی اور تصور کی وہ معصومیت حاصل کی جس نے ہندو کلچر میں عورت کے تصور کو، اس کی دیویت کو اور اس کی انسانیت کو جنم دیا۔ ہندوستان کے عشقیہ کلچر کی معراج گھر کے اس تصور میں نظر آتی ہے جہاں عورت گھر کی لکشمی ہے۔ اسی سے عورت کے تصور میں جو ٹھنڈک اور جگمگاہٹ ہے وہ دنیا بھر کی عشقیہ شاعری میں نہیں ملتی۔ محبوب کے ایک معیاری اور عینی تصور سے اردو کی بہترین عشقیہ شاعری یکسر محروم نہیں لیکن اردو شاعری کے کلچری پس منظر اور کلچری روایات میں وہ نرمی، وہ پاکیزگی، وہ رچاؤ، وہ دوشیزگی اور پختگی نہیں ہے جو سنسکرت ادب کے پس منظر اور کلچری روایتوں میں نظر آتی ہے۔
جو ہندو شعرا اردوغزل یا اردو نظم کہنے کی طرف مائل ہوئے، وہ ہندو کلچری روایات اور ان روایات کی معنویت سے بہت کچھ بے بہرہ تھے۔ اوراگرچہ اردو کے ہندوشعرا کے کلام میں باوجود تمام خامیوں اورخرابیوں کے ایک سنجیدگی ہمیں ضرور ملتی ہے لیکن اردو کے یہ ہندو شعراء اردو شاعری ہی کے کلچر پس منظر اور کلچری روایات کو اختیار کر چکے تھے اور اس لیے اردو کی عشقیہ شاعری میں ان ہندو شعرا نے کوئی ایسی خلاقانہ آواز نہیں بھری، جو ہزار برس سے سنسکرت ادب میں اور ایک حد تک ہندی شاعری میں گونجی ہوئی تھی۔ ورنہ مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ اردو نظم و غزل میں ہندو شاعر وہ نوائے سرمدی پیدا کر دیتا کہ غالب و میر بھی چونک پڑتے۔
ہاں تو اردو شاعری میں گھر کا تصور اورعورت کا تصور بلکہ کائنات و حیات کا تصور کمزور اور ناقص ہونے کے سبب سے اردو کی عشقیہ شاعری بہت کچھ ہوتے ہوئے بھی اپنے اندر بہت کچھ کمی رکھتی ہے۔ ایک وجدانی و جمالیاتی احساس کبھی کبھی خوش نصیب لمحوں میں اردو شاعروں کو ضرور ہاتھ آ جاتا تھا لیکن مناظر قدرت، مادی اور عنصری کائنات، گھریلو اور سماجی زندگی کی جزئیات، زندگی کے بھرپور اور ٹھوس حصوں اور پہلوؤں کو یہ وجدانی احساس بہت کم چھو پاتا ہے اور بسا اوقات ایک متصوفانہ حال و قال کی چیز ہو کر جاتا ہے۔ جس نرم معجزہ سے رابندرناتھ ٹیگور ’’پنگھٹ‘‘، ’’آنگن‘‘، ’’گھر کے چراغ‘‘ اور زندگی کی چھوٹی چھوٹی تفصیلات کو عشقیہ جذبات سے مملو کر دیتے ہیں، جونرم پنکھڑیاں ان کے ہر مصرع میں کھلتی ہوئی نظر آتی ہیں، یہ باتیں ہندوستان کی عشقیہ شاعری کی پرانی روایتوں کی طرف اور اردو کی عشقیہ شاعری کے نئے امکانات کی طرف اشارے کرتی ہیں۔
گزشتہ دو تین برس کے اندر اردو کی کچھ عشقیہ نظموں اورغزلوں میں ہندوستان کی روح سرایت کرتی ہوئے مجھے نظر آتی ہے اور اگر اردو کی عشقیہ شاعری میں اس کیمیائی عمل کا سلسلہ جاری رہا تو اس کا بہت امکان ہے کہ رچے ہوئے دل و دماغ کے ہندو جواب تک اردوکی عشقیہ شاعری میں نمایاں حصہ نہیں لے سکے تھے وہ اپنی پوری اکثریت کے ساتھ اپنے مسلمان ہمنواؤں کی آواز پرآوازیں دینے لگیں گے اوراس طرح اردو کی عشقیہ شاعری میں ایک ایسے دور کا آغاز ہوگا جس پررحمت کے فرشتے سدا بہار پھول برسائیں۔
اب اردو کی عشقیہ شاعری سے معشوق کے متعلق ایک انتقامی جذبے، مغائرت کے لہجے اور واسوخت کے انداز کا دور ختم ہو رہا ہے۔ امرد پرستانہ محبت بھی مستقبل کی اردو شاعری میں کرختگی کے بجائے جیون ساتھی کا نرم تصور پیدا کرتی جائے گی۔ لیکن اردو کی عشقیہ شاعری کے محرک صرف امرو پرستانہ جذبات ہی نہ رہیں گے۔ عورتوں کا پردہ اٹھنے دیجیے، صحیح تربیت کے ساتھ مہذب فضا میں عورتوں اور مردوں کو ملنے دیجیے، بہت سے غلط سماجی بندھن ٹوٹنے دیجیے، شادی بیاہ کے معاملہ میں اور گھر کی زندگی میں غلط داخلی اور خارجی رکاوٹوں کو دور ہونے دیجیے، جب ہم یہ کہہ سکیں گے کہ اگرچہ ہم ماضی کے نہیں ہیں لیکن ماضی ہمارا ہے۔
المیہ اور طربیہ کے بڑے تصورات کو ہمارے شعرا کے وجدان میں آنکھیں کھولنے دیجیے، اس وقت اردو کی نئی عشقیہ شاعری کی آواز میں وہ نرم دمک پیدا ہو جائے گی جو شبنم سے دھلی ہوئی صبح میں ہوتی ہے اور جو گھر کی لکشمی کے ہاتھوں جلائے ہوئے گھر کے چراغ میں ہوتی ہے۔ عشقیہ شاعری کی پرکھ میں ان نازک صفات کی تلاش شامل ہے۔ اردو کی قائم عشقیہ شاعری کبھی کبھی اور کہیں کہیں ان صفات کی کچھ جھلک دیتی ہے، لیکن بہت کم۔ اردو کی عشقیہ شاعری کی قدیم روایتوں سے محض بغاوت کر لینا نئے دور کے عشقیہ شاعر کے لئے کافی نہیں ہے۔ ہمیں جمالیات کی نئی اثباتی قدروں کو دریافت کرنا ہے اور اس کے لیے آفاقی ادب، آفاقی کلچر، تاریخ انسانی کی حیات اور روایات اور نئی تہذیب کے مطالبات سمجھ کر نئی عشقیہ شاعری کرنا ہے۔
اردو شاعری کے نیے دور میں بہت کچھ ہوا ہے اور ہو رہا ہے لیکن نئی اثباتی قدروں کو اجاگر کرنے کا کام بہت بڑا کام ہے نیے دور میں پرعظمت عشقیہ شاعری بہت کم ہو سکی ہے، شاید نئی تنقید اور نیا نقادانہ شعورعشقیہ شاعری کی نئی پرکھ اس کام میں ہمارے شعرا کی رنگین نوائیوں کو چمکا سکے۔ عشقیہ شاعری کی پرکھ کا سوال وہ سوال ہے جو زندگی، نفسیات، اخلاقیات، انسانی دھرم، احساسات حیات و کائنات، تہذیب و تمدن کی گہری جڑوں تک شاعر و نقاد کو اور ان کی رہنمائی میں پورے سماج کو اور سماجی شعور کو لے جاتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.