عصمت چغتائی: اردو افسانے کی ٹیڑھی لکیر
ترقی پسند عہد کے تین بڑے افسانے نگار کرشن چندر منٹو اور بیدی کے ساتھ عصمت چغتائی کا ذکر ناگزیر ہے۔
عصمت چغتائی نے آزادی سے کچھ پہلے لکھنا شروع کیا اور اپنی باغیانہ فکر، بے باکانہ طرزِ اظہار، زنانہ بامحا ورہ زبان، شوخ اور بے لاگ مکالموں کے سبب اردو افسانے میں بہت جلد اپنا ایک منفرد مقام بنالیا۔
ان کے افسانوں کا مرکز اور محور شمالی ہندوستان کے نچلے متوسط مسلم گھرانے ہیں جہاں جدید تعلیم کی کمی اور جنسی دباؤ کے سبب افرادِ خاندان اعصابی تناؤ اور جنسی کج روی کے شکار ہوجاتے ہیں۔ عصمت چغتائی کے افسانے اسی قدامت پسند ماحول، فرسودہ روایات اور ان کے بوسیدہ اخلاقی نظام کو بے نقاب کرتے ہیں۔ بالخصوص عورت کے جنسی دباؤ اور نفسیاتی گھٹن کی بے لاگ بلکہ بے درد ترجمانی ان کے افسانوں کی اہم خصوصیت ہے۔ وہ خود ایک جگہ لکھتی ہیں۔
’’جنس کا موضوع، گھٹے ہوئے ماحول اور پردے میں رہنے والی بیویوں کے لیے بہت اہم ہے۔ میری افسانہ نگاری اس گھٹے ہوئے ماحول کی عکاسی ہے۔ فوٹوگرافی ہے۔‘‘
طالبِ علمی کے زمانے میں کرشن چندر اور ابن صفی میرے پسندیدہ ادیب تھے۔ اس وقت تک میں نے عصمت چغتائی کے شاید دو چار افسانے پڑھے ہوں گے۔ بعد ازاں میں نے ۶۳ء کے آس پاس بمبئی میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ ابھی باقاعدہ لکھنا شروع نہیں کیا تھا۔
میں بمبئی میں نووارد تھا اس لیے بمبئی کی ادبی محفلوں سے بھی کوئی علاقہ نہیں تھا۔ چند برس بعد جب مکتبہ جامعہ پر میرا آنا جانا شروع ہوا تو دھیرے دھیرے بمبئی کے ادبی ماحول سے بھی شناسائی ہوئی۔ کرشن چندر، سردار جعفری، ظ۔ انصاری، ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی اور اختر الایمان وغیرہ کو ادبی جلسوں، مشاعروں یا محفلوں میں دور دور سے دیکھ لیتا تھا۔ عصمت چغتائی اپنی فلمی مصروفیات کے سبب بمبئی کی ادبی محفلوں میں کم ہی شریک ہوتی تھیں۔ مگر اتفاق کی بات ہے کہ میری ان سے پہلی ملاقات ایک ادبی نشست میں ہی ہوئی۔
غالباً ۷۵۔ ۷۴کی بات ہوگی اس وقت میرے افسانے، شاعر، کتاب، آہنگ، شب خون جیسے جرائد میں چھپنا شروع ہوگئے تھے۔ ناگپاڑہ نیبرہڈ ہاؤس میں کسی ادبی تنظیم نے شام افسانہ کی محفل منعقد کی تھی۔ انور خان، انور قمر اور علی امام نقوی سمیت اس زمانے کے تقریباً چھے سات نئے لکھنے والوں کو افسانہ خوانی کے لیے مدعو کیا گیا تھا مجھے بھی افسانہ پڑھنا تھا۔ اس سے قبل چھوٹی موٹی نشستوں کے علاوہ کسی بڑے جلسے میں افسانہ سنانے کا یہ میرا پہلا اتفاق تھا۔ جلسے کی صدارت عصمت آپا کرنے والی تھیں۔ ان کے بارے میں سنا تھا کہ وہ محفلوں میں برق جہندہ کی طرح چمکتی ہیں اور جس پر گرتی ہیں اسے خاکستر کر کے رکھ دیتی ہیں۔
جلسہ گاہ میں جاتے ہوئے میں قدرے نروس تھا لیکن یہ بھی اطمینان تھا کہ وہاں افسانے پڑھنے والے سبھی میری طرح نو آموز اور نووارد ہیں۔ نیبرہڈ کا بڑا سا ہال سامعین سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ جلسہ شروع ہوا۔ عصمت آپا کرسئ صدرات پر متمکن تھیں۔ میں نے اپنا افسانہ ’ٹوٹے شیشے کے عکس‘ سنایا جو بعد میں ’البم‘ کے نام سے میرے افسانوں کے پہلے مجموعہ’ ننگی دوپہر کا سپاہی‘ میں شامل ہے۔ افسانہ کافی پسند کیا گیا۔ افسانہ خوانی کے بعد سامعین نے افسانہ نگاروں سے کچھ سوالات بھی پوچھے۔ افسانہ نگاروں نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق جوابات دیے۔ درمیان میں افسانہ نگاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے عصمت آپا بھی لقمہ دیتی تھیں۔
میرے افسانے میں ایک سچویشن ایسی تھی جس میں راوی کے باپ کا انتقال ہوجاتا ہے۔ موت کے تیسرے دن مرحوم کی روح کو سکون پہنچا نے کی خاطر فقیروں کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔ کھانے کے بعد کرتے پاجامے کے لیے چھے چھے گزنیا کپڑا بھی نذر کیا جاتا ہے تاکہ عالم بالا میں اس کی روح کو ثواب ملے۔ جب فقیر رخصت ہونے لگتے ہیں تب راوی جو ابھی نو عمر ہے ان کے پاس جاتا ہے اور انہیں دس روپے کا نوٹ پیش کرتے ہوئے کہتا ہے۔
’’شاہ صاحب! میرے والد اچھے کھانوں کے ساتھ شراب کے بھی شوقین تھے۔ یہ چھوٹی سی رقم نذر کرتا ہوں اس کا ایک ایک پیگ لے لیجیے کہ مرحوم کی آخری خواہش یہی تھی۔‘‘
وقفۂ سوالات کے درمیان ایک باریش شخص نے کھڑے ہوکر پوچھا۔ ’’سلام بن رزاق بتائیں کہ ان کے افسانے میں فقیروں کو دس روپے کیوں دیے گئے۔‘‘ سوال پوچھنے والے کے لہجے میں ہلکی سی برہمی بھی تھی۔ میں گھبرا گیا۔۔۔ کیا جواب دوں؟۔۔۔ عصمت آپانے میری طرف دیکھ کر کہا ’’سلام جواب دو‘‘ میں بوکھلایا ہوا سا مائک پر آیا اور اسی بوکھلائے ہوئے انداز میں بولا۔ ’’اس لیے کہ اس وقت میرے پاس دس ہی روپے تھے۔۔۔‘‘ اور فوراً جاکر کرسی پر بیٹھ گیا۔ میں نے یہ جواب تو بوکھلاہٹ میں دے دیا مگر پتا نہیں سامعین نے اس کا کیا مطلب نکالا۔ ہال میں قہقہوں کا طوفان سا آگیا۔۔۔ دو ایک طرف سے ’بہت خوب بہت خوب ‘کے فقرے بھی بلند ہوئے۔۔۔ عصمت آپا بھی ہنسنے لگیں اور وہ باریش شخص کھسیایا ہوا سا اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔۔ عصمت آپا نے صدارتی تقریر میں نئے افسانے نگاروں کی خوب تعریف کی۔۔۔ میرے افسانے کا بطور خاص ذکر کیا۔۔۔ یہ ان سے میری پہلی شناسائی تھی۔
انہیں دنوں ممبئی میں دور درشن نیا متعارف ہوا تھا۔ سردار جعفری صاحب ’گفتگو‘ کے نام سے ایک ادبی پروگرام کی میزبانی کرتے تھے۔ ایک مذاکرے میں انہوں نے مجھے اور انور قمر کو مدعو کیا۔ عصمت آپا بھی ہمارے ساتھ مذاکرے میں شامل تھیں۔ نیا اور اور پرانا افسانہ موضوع گفتگو تھا۔ مذاکرے کی پوری تفصیل تو یاد نہیں صرف جعفری صاحب کا ایک سوال یادرہ گیا جو انہوں نے مجھ سے پوچھا تھا۔ ’’جدیدیت کے حامی ترقی پسندوں سے اس قدر بدظن کیوں رہتے ہیں؟‘‘ جعفری صاحب نئے لکھنے والوں کو بھی شاید جدیدیت کا حامی سمجھ رہے تھے۔ اس سوال پر پہلے تو میں گومگو کی کیفیت میں مبتلا رہا۔ پھر قدرے سنبھل کر بولا۔
’’انہیں ترقی پسندوں کے آمرانہ رویے سے شکایت ہے۔‘‘
جعفری صاحب نے مسکرا کر کہا۔ ’’آمرانہ رویے سے کیا مراد ہے؟‘‘
اس سے پہلے کہ میں یا انور قمر کچھ کہتے۔۔۔ عصمت آپا نے بات اچک لی اور جدید یوں اور جدیدیت نوازوں کو بے نقط سنانا شروع کر دیا۔
’’ارے کوئی آمر وامر نہیں۔ انٹی کمیونسٹ بلاک والوں نے یہ الزام تراشا ہے۔ وہ کیا جانیں ترقی پسند ادیبوں نے کس طرح Surviveکیا ہے۔ جدید ادیبوں کو چاہیے کہ ترقی پسندوں کو بجائے گالیاں دینے کے اپنی تحریروں پر بھروسا کرنا سیکھیں۔‘‘
جعفری صاحب نے درمیان میں ٹوکا۔ مگر انہوں نے سن کر نہ دیا۔ پورے انٹرویو میں وہ اسی طرح بار بار مزاحمت کرتی رہی۔ انٹرویو کے اختتام پر جعفری صاحب نے عصمت آپا سے کہا۔
’’عصمت! تم نے ان نوجوانوں کو کچھ بولنے ہی نہیں دیا۔‘‘ آپا اپنے مخصوص انداز میں بولیں۔
’’اے ہے اب بولیں۔۔۔ میں نے کب منع کیا ہے انہیں۔‘‘
۱۹۹۰ کی بات ہے۔۔۔ میں مہاراشٹر اردو اکیڈمی کا ممبر تھا۔ سردار جعفری وائس چیرمین اور یوسف ناظم ممبر سکریٹری تھے۔ میں نے ایک مٹینگ میں محفل افسانہ کی تجویز رکھی جو منظور ہوگئی۔ جلسے کی ذمہ داری بھی مجھی کو سونپی گئی۔ صدارت کے لیے عصمت آپا کا نام تجویز ہوا۔ جعفری صاحب نے مجھ سے کہا۔
’’آج کل ان کی طبعیت کچھ ناساز رہتی ہے۔ اگر وہ آمادہ ہوجائیں تو ضرور لے آؤ‘‘
دوسرے دن میں نے انہیں فون کیا۔ فون آپا نے ہی اٹھایا۔ میں نے مختصراً پروگرام کے بارے میں بتایا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔‘‘
چار بجے کا وقت طے ہوا۔ میں ٹھیک چار بجے ان کے فلیٹ پر پہنچ گیا۔ وہ صوفے پر بیٹھی تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی نعرہ لگایا۔ ’’کانچ کا بازی گر‘‘
میں سمجھ گیا کہ وہ مجھے افسانہ نگار شفق سمجھ رہی ہیں۔۔۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں شفق کے طویل مختصر افسانہ کانچ کا بازیگر اور سریندر کاش کے بجو کا پر اپنی پسندیدگی کی مہر لگائی تھی۔ جدید اور نئے لکھنے والوں کے غالباً انہیں یہی دو افسانوں کے نام یاد تھے۔۔۔ میں آداب کر کے صوفے پر بیٹھ گیا اور کہا۔ ’’آپا! میں سلام بن رزاق ہوں کانچ کا بازی گر شفق کا افسانہ ہے۔‘‘
ہوگا بھئی۔۔۔ اب نام یاد نہیں رہتے تم بھی تو افسانے لکھتے ہو۔ ابھی چند روز پہلے میں نے اپنے ایک انٹرویو میں تمہارا ذکر کیا ہے۔ (یہ انٹرویو ڈاکٹر شمع افروز زیدی نے لیا تھا اور آپا کی موت کے بعد شائع ہوا تھا غالباً یہ ان کا آخری انٹرویو تھا۔) تمھاری کوئی کتاب نہیں چھپی؟‘‘
میں نے کہا۔۔۔ ’’آپا میری دو کتابیں چھپ چکی ہیں۔ ایک آپ کے لیے لایا ہوں۔‘‘
میں نے اپنے افسانوں کا دوسرا مجموعہ معبّرِ انہیں پیش کیا۔۔۔
’’یہ آپ نئے لوگ افسانوں کے نام خوب رکھتے ہیں۔ کانچ کا بازی گر، بجو کا۔۔۔ معّبِر۔۔۔‘‘
کتاب کو ادھر ادھر الٹ پلٹ کر دیکھا۔۔۔ اور ایک طرف رکھتی ہوئی بولیں۔
’’اب پڑھنا نہیں۔۔۔ ہوتا۔۔۔ مگر تمھاری کتاب پڑھوں گی۔۔۔ اچھا اس میں سب سے اچھا افسانہ کون سا ہے‘‘
میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’آپا میں کیسے بتاؤں۔۔۔ یہ تو آپ بتائیں گی۔‘‘
لمبی ’’ہوں، ۔۔۔ بھری۔ پھر گردن ہلا کر پوچھا۔ ’’کیا پروگرام لے کر آئے ہو؟‘‘
میں نے محفل افسانہ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔ ’’اس میں ممبئی کے چند افسانہ نگار اپنے افسانے پڑھیں گے اورآپ کی صدارت ہوگی۔ آپ کا نام بطور خاص جعفری صاحب نے تجویز کیا ہے۔‘‘
’’آج کل میں کہیں آتی جاتی نہیں۔ جلسہ کہاں ہے؟ اگر دور ہوا تو نہیں آؤں گی۔‘‘ میں نے کہا ’’جلسہ انجمن اسلام کے اکبر پیر بھائی ہال میں ہے۔ میں آپ کو لینے آجاؤں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے‘‘ پھر انہوں نے اپنی ملازمہ سے چائے بنانے کے لیے کہا۔
میں نے پوچھا۔۔۔ ’’آپ اکیلی رہتی ہیں؟‘‘
اکیلی کہاں۔۔۔ یہ رہتی ہے نا میرے ساتھ میری کیئرٹیکر۔۔۔ یہ میرے سرکی مالش سے لے کر مساج تک سب کام کرتی ہے۔‘‘ انہوں نے اپنی ملازمہ کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے کہا۔
یہ مضبوط ہاتھ پاؤں اور اچھے قد کاٹھی کی ایک سیاہ فام خاتون تھی۔ عمر چالیس پینتالیس کے قریب رہی ہوگی۔ ناک نقش معمولی مگر چہرے پر مردوں جیسی کرختگی تھی۔ اسے دیکھ کر جانے کیوں مجھے ان کے افسانوں کے کتنے ہی کھردرے کردار یاد آگئے۔ ’مٹھی مالش‘ کی گنگابائی اور رتی بائی گھر والی کی ’لاجو‘ ’لحاف ‘کی ’ربوّ‘ چڑی کی دُگی، کی عالمہ، گیندا کی گیندا، چائے پیتے ہوئے میں نے ان کی مصروفیات کے بارے میں پوچھا کہنے لگیں۔
’’کوئی مصروفیت نہیں۔۔۔ بس گھر میں بیٹھی تاش کھیلتی رہتی ہوں۔‘‘
’’تاش کھیلتی ہیں، کس کے ساتھ؟‘‘
’’اکیلی کھیلتی ہوں۔۔۔‘‘
’’اکیلے۔۔۔؟‘‘ میں نے قدرے حیرت سے کہا۔
’’اور کیا۔۔۔ سامنے تکیہ رکھ دیتی ہوں اسی کو پارٹنرتصور کرتی ہوں اور کھیلتی ہوں۔‘‘
میں نے آپا کو غور سے دیکھا۔ مجھے ان کی بوڑھی آنکھوں سے ایک نٹ کھٹ کھلنڈری لڑکی جھانکتی نظر آئی۔۔۔ پرانی داستان کی ایک شہزادی کا قصہ بھی یاد آیاجو تنہائی میں اکیلی بیٹھی گنجفہ کھیلا کرتی تھی۔ آپا آگے کہہ رہی تھیں۔ ’’تاش کھیلتے کھیلتے تھک جاتی ہوں توٹی وی دیکھنے لگتی ہوں۔‘‘ انہوں نے سامنے رکھے ہوئے ٹی وی سیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ پھر اچانک پوچھا۔
’’تم بلیو فلمیں دیکھتے ہو۔۔۔؟‘‘
میں ذہنی طور پر ان کے ایسے کسی سوال کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا۔ انہوں نے آگے کہا۔ ’’میں تو دیکھتی ہوں۔‘‘ میں جواب میں کیا کہتا صرف ’جی‘ کر کے رہ گیا۔
تھوڑی دیر بعد میں جب ان سے رخصت ہو کر باہر آیا تو مجھے ماضی میں ان کی بیباکی اور حاضر جوابی کے کتنے ہی قصے یاد آئے جو جستہ جستہ رسالوں اور کتابوں میں نظروں سے گزرے تھے۔ انہوں نے منٹو جیسے بیباک افسانہ نگار کو زچ کر دیا تھا۔ میں کس شمار قطار میں تھا۔ مذکورہ محفل افسانہ میں وہ آئیں۔ سب کے افسانے سنے اور صدارتی تقریر بھی کی مگر ان کی تقریر میں کوئی ربط نہیں تھا۔ وہ وہاں پڑھے گئے افسانوں پر اظہار خیال کرنے کی بجائے اپنے ماضی کے ادھورے قصے سناتی رہیں۔ ان کی یاد داشت پر ان کی عمر کا سایا پڑ چکا تھا اور وہ بار بار فراموش گاری کی دھند میں کھو جاتی تھیں۔
۲۴ اکتوبر ۱۹۹۱ ء کو عصمت آپا کا انتقال ہوگیا۔ انہوں نے اپنے آخری ایام میں ایک جگہ لکھا ہے ’’مرنے کے بعد مجھے سمندر میں پھینک دیا جائے تاکہ مچھلیوں کے پیٹ میں کانٹا بن جاؤں اور کسی بہت زیادہ بھاشن دینے والے کے حلق میں پھنس کر کسی کار نیک کا باعث بن سکوں۔‘‘
اگرچہ مرنے کے بعد سمندر میں پھینک دیے جانے کی خواہش غالب نے بھی کی تھی۔
ہوئے مرکے ہم جو رسوا ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کہیں جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
غالب غالباً اپنی کسی نا معلوم رسوائی سے بچنے کے لیے غرق دریا ہونا چاہتے تھے جب کہ عصمت آپا مرکر بھی کسی بھاشن دینے والے کے حلق میں پھنس کر اسے کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہتی تھیں۔ مرنے کے بعد انہیں سمندر میں بہایا نہیں گیا۔۔۔ بلکہ جلایا گیا۔۔۔ غالباً انہیں کی وصیت کے مطابق۔۔۔ ان کی یہ وصیت بھی روایت کے حلق کا کانٹا بن گئی۔ اردو دنیا میں ان کی وصیت کو لے کر عرصے تک چناں چنیں کا بازار گرم رہا۔ ان کی میت میں اردو کا کوئی ادیب شریک نہیں تھا۔ سردار جعفری ترقی پسند شاعر اور بے نیاز دین مذہب بھی ان کی ارتھی یا جنازے میں شریک ہونے کی بجائے یہ کہتے ہوئے وہاں سے کھسک گئے کہ ’’بھائی انہوں نے تو جلانے کی وصیت کی ہے۔‘‘
ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر عصمت آپا نے جلانے کی وصیت کیوں کی؟ کیا وہ قبر میں کیڑے مکوڑوں کی غذا بننے سے گھبراتی تھیں یا انہیں یہ ڈر تھا کہ اگر وہ پوری طرح مری نہیں اور انہیں قبر میں دفن کردیا گیا اور وہ قبر میں اچانک جی اٹھیں تو کیا ہوگا۔۔۔ ایسی کیفیت کو انہوں نے اپنے ایک افسانے ’تھوڑی سی پگلی‘ میں بیان بھی کیا ہے۔۔۔ ’’وہ مری نہیں تھی۔ مرجاتی تو اسے گلابی چار خانے کا فراک کیوں کر یاد آتا۔ اس نے کروٹ بدلنے کی کوشش کی مگر اس کے سینے پر ایک بھاری بَلّی پڑی ہوئی تھی۔۔۔ پھر بھی وہ زور لگاتی رہی۔ وہ رینگ رینگ کر آگے کھسکتی رہی، پھر بے ہوش ہوگئی۔‘‘
کیا بعد از مرگ قبر کی اس اندیش ناک زندگی کے تصور نے انہیں جلانے کی وصیت کرنے پر مجبور کردیا تھا؟ یا اپنے بھائی عظیم بیگ چغتائی پر لکھا ہوا وہ بے مثل خاکہ’ دوزخی‘ یاد آگیا تھا، جس میں انہوں نے اپنے بھائی کو بستر مرگ پر دیکھ کر لکھا تھا ’’وہ ایک عفریت تھے جو عذاب دنیا بن کر نازل ہوئے تھے اور اب دوزخ کے سوا ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ اگر دوزخ میں ایسے ہی لوگوں کا ٹھکانا ہے تو ایک بار تو ضرور اس دوزخ میں جانا پڑے گا، صرف یہ دیکھنے کہ جس شخص نے دنیا کی دوزخ میں یوں ہنس ہنس کر تیر کھائے اور تیر اندازوں کو کڑوے تیل میں تلا۔ وہ دوزخ میں عذاب نازل کرنے والوں کو کیا کچھ نہ چڑا چڑا کر ہنس رہا ہوگا۔ بس وہ تلخ طنز سے بھری ہنسی دیکھنا چاہتی ہوں جسے دیکھ کر دوزخ کا داروغہ بھی جل اٹھتا ہوگا۔‘‘
یا پھرہو سکتا ہے عمر کے آخری پڑاؤ پر انہیں خود اپنے ہی لکھے ہوئے ان جملوں کی تیزابیت کا احساس ہوا ہو اور اچانک ان کے دل میں بھائی کی محبت موجزن ہوئی ہو اور وہ بھی دوزخ میں پہنچ کر کہنا چاہتی ہوں۔
’’لومُنّے بھائی! میں بھی آگئی۔‘‘
انہوں نے زندگی بھر روایتوں سے انحراف کیا۔ وہ روایت کی ہر سیدھی لکیر کے آگے ایک’ ٹیڑھی لکیر‘ کھینچنے کی عادی تھیں۔ جلانے کی وصیت بھی کہیں ان کی اسی ضدی طبعیت اور ٹیڑھے پن کی غماز تو نہیں؟
جو بھی ہو۔۔۔ ممکن ہے آنے والے وقت میں لوگوں کو نہ ان کی زندگی کی روایت شکن باتیں یاد رہیں نہ ان کی موت کی وہ متنازع وصیت، لیکن ان کی لکھی ہوئی کہانیاں ہمیشہ زندہ رہیں گی، جب تک ہمارا ادب زندہ رہے گا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.