Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

خندہ ہائے بے جا

سلیم احمد

خندہ ہائے بے جا

سلیم احمد

MORE BYسلیم احمد

    انسان کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ ہنسنے والا جانور ہے۔ مولانا حالیؔ نے اپنے انسان ہونے کا ثبوت یہ کہہ کر دیا کہ غالبؔ حیوان ظریف تھا۔ اردو کے دوسرے نقاد بھی اس پر متفق ہیں کہ اردو کے دوسرے شعرا خواہ کسی اور معاملے میں غالبؔ کے برابر پہنچ جائیں مگر ایک بات میں اس کا کوئی ہم سر نہیں ہے۔۔۔ ظرافت میں۔ میں خود بھی اس سے پہلے لکھ چکا ہوں کہ غالبؔ کی وٹ کسی اور اردو شاعر کو نہیں ملی۔ اب تک میں ہر معاملہ میں غالبؔ پر میرؔ کی برتری دکھاتا آیا ہوں، لیکن یہاں میرؔ بھی مار کھا جاتا ہے۔ غالبؔ سچ مچ اردو شاعری کا بے مثال ہنسنے والا ہے۔ اس اعتراف کے بعد ہم دیکھیں گے کہ غالبؔ کی ہنسی کس قسم کی ہے۔ اور اس کی شاعری میں کیا کام دے رہی ہے۔ لیکن اس سے پہلے آیئے اس سوال پر غور کر لیں کہ ہم ہنستے کیوں ہیں؟

    ہنسی جیسی عام بات کیا ہوگی۔ جو ہنسنے والے ہیں، ان کی تو بات ہی کیا ہے، لیکن جو ہنسنے کے خلاف ہیں، وہ بھی یہ کہہ کر ہنسنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہنسی مرض متعدی ہے۔ مگر ہنسی ہے کیا؟ دنیا کے ہر چھوٹے مسئلے کی طرح یہ مسئلہ بھی حل نہیں ہوا ہے۔ اہلِ یورپ کی عادت ہے کہ تعریفیں پیش کرنے کے بادشاہ ہیں۔ تعریف تجربے کی حد بندی ہے۔ اس لیے ساری تعریفیں ہمارے تجربے سے پیدا ہوتی ہیں۔ ان سب کی ظاہری شکلیں کچھ بھی ہوں اور ان کے درمیان کتنا ہی اختلاف کیوں نہ پایا جاتا ہو، مگر ان کے پیچھے ایک حقیقت واحدہ بر سر عمل ہوتی ہے۔ مغربی انسان۔ اس کے علاوہ اہل یورپ میں ایک کمال یہ پایا جاتا ہے کہ وہ مغربی انسان میں جو بات دریافت کرتے ہیں، اسے بنیاد بنا کر شواہد پر شواہد، دلائل پر دلائل پیش کرتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ یہ ثابت کر دیتے ہیں یا کم از کم ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ در اصل مغربی انسان ہی انسان ہے، گویا اہل مغرب کی ہر تحقیق کے پیچھے ایک بن کہا دعویٰ یہ موجود ہوتا ہے کہ دنیا کا ہر انسان ہمیشہ سے ویسا ہی تھا جیسا مغربی انسان ہے۔ بس فرق صرف یہ ہے کہ مغربی انسان دنیا کے دوسرے انسانوں کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ اس تصور کا نام ظالموں نے ارتقا رکھا ہے۔ سب سے پہلے پاسکلؔ نے اس کا اظہار کیا۔ پھر ڈاروِن نے اسے حیاتیات پر اور مارکس نے معاشیات پر منطبق کر دیا۔ ڈاروِن کا ارتقائی حیوان اور مارکس کا معاشی حیوان در اصل مغرب کا انسان ہے جس کا دوسرے انسانوں سے اتنا تعلق ہے جتنا بندروں کا انسانوں سے۔ اس طرح اہل مغرب کی نفسیات، معاشیات، حیاتیات، عمرانیات اور انسانیات مغربی انسان کی تعمیم کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ بندروں کی صرف یہ قیاس آرائی ہے کہ انسان ہمارے ہی جیسے ہوتے ہوں گے۔

    اب مجھے اس بات پر ہنسی آ رہی ہے کہ میں ہنسی کی بات کرنے بیٹھا اور اتنا سنجیدہ ہو گیا۔ آپ چاہیں تو اب بھی اس پر ہنس سکتے ہیں۔ مگر کیا اچھا ہو اگر اس ہنسی ہنسی میں ہم ہنسنے کے معنی بھی دریافت کر لیں۔ آپ مجھ پر ہنسیں گے تو کس بات پر؟ شاید اس بات پر کہ میں ہنسی کی بات میں سنجیدہ ہو گیا۔ یعنی میں نے ایک ایسا عمل کیا جو آپ کی توقع کے خلاف تھا۔ ایسٹ مین نے لکھا ہے کہ آپ ایک بچے کی طرف ہاتھ بڑھایئے جیسے اسے کچھ دے رہے ہوں۔ اس کے بعد جیسے ہی وہ ہاتھ بڑھائے، ہاتھ کھینچ لیجیے۔ وہ بھونچکا ہو جائے گا۔ مگر اس عمل کو پھر دہرایئے، وہ ہنسنے لگے گا۔ سرکس کے مسخرے اسی عمل کا مظاہرہ کر کے ہمیں ہنساتے ہیں۔ ایک پہلوان آ کر ایک بھاری وزن اٹھاتا ہے۔ لوگ طاقت کے اس مظاہرے سے محظوظ ہوتے ہیں۔ اب ایک مسخرہ آتا ہے اور پہلوان کے انداز میں وزن کے پاس آ جاتا ہے۔ اٹھانے کا ارادہ کرتا ہے اور دھم سے گر جاتا ہے۔ لوگ ہنستے ہنستے پاگل ہو جاتے ہیں۔ مگر شاید یہ ثال اور تعریف دونوں غلط ہیں۔ دونوں صورتوں میں ہم توقع کے خلاف عمل ہونے پر نہیں ہنس رہے ہیں بلکہ توقع کے مطابق ہونے پر۔ توقع کے خلاف ہونے پر ہنستا تو بچہ ہمارے پہلی بار ہاتھ کھینچنے پر ہنستا۔ مگر ہم نے دیکھا کہ وہ بھونچکا ہو کر رہ گیا ہے۔ اس طرح اگر ہمیں یہ معلوم نہیں ہو کہ دوسری بار وزن اٹھانے والا مسخرہ ہے تو ہم اس کے گرنے پر قطعی نہیں ہنسیں گے۔ اس سلسلے میں ایک اور مثال دی جاتی ہے۔ ایک سڑک پر پانی پڑا ہوتا ہے۔ ایک سائیکل والا گزرتا ہے اور پھسل کر الٹ جاتا ہے۔ ہم اس پر ہنستے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ گرنے کا عمل چونکہ خلاف توقع تھا، اس لیے ہنسی آئی۔ یہ مثال بھی غلط ہے۔ سڑک پر پانی دیکھ کر ہمیں پہلے سے توقع تھی کہ کوئی گزرنے والا گرے گا۔ اگر یہ توقع نہ ہوتی تو ہم گرنے والے پر ہنسنے کی بجائے اس کی ہمدردی میں دوڑ پڑتے۔

    ہنسی کی ایک دوسری تعریف یہ کی گئی ہے کہ ہنسی اس جذبۂ افتخار یا احساسِ برتری کا نام ہے جو دوسروں کی کمزوریوں یا اپنی گزشتہ خامیوں سے آگاہی کے باعث معرض وجود میں آتا ہے۔ یہ جناب ہابزؔ ہیں۔ اس کے ساتھ ہم ارسطو کی بات اور شامل کرتے ہیں۔ ارسطو کہتا ہے کہ ہنسی کسی ایسی کمی یا بدصورتی کو دیکھ کر پیدا ہوتی ہے جو درد انگیز نہ ہو۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں یہ مضمون لکھنے سے پہلے میں باہر سے گھر واپس آیا تھا۔ میری دونوں بچیاں خوشی سے پھول کی طرح کھلی ہوئی، میری طرف یہ کہتی ہوئی دوڑیں، ’’ابو آگئے، ابو آگئے۔‘‘ ان کے چہرے پر ہنسی نہیں تھی، چاندنی تھی۔ یہ ایسی ہنسی تھی جو روح سے پھوٹ رہی تھی۔ وہ اس ہنسی کی روشنی میں نہا رہی تھیں اور مجھے بھی نہلا رہی تھیں۔ میں نے ہنستے ہوئے دونوں کو گود میں اٹھا لیا اور کہا، ’’ہاں بیٹا ابو آ گئے، ‘‘ اور پورا گھر مسرت انگیز ہنسی سے منور ہو گیا۔ جناب ہابزؔ یا ارسطو بتائیں گے کہ اس ہنسی میں کس کا احساسِ برتری تھا جو کسی کمزوری یا خامی کی آگاہی سے پیدا ہوا۔ یا کون سی کمی یا بدصورتی تھی جو ہنسی کی محرک بنی۔ مگر ہابزؔ اور ارسطو کی یہ تعریف ایک مقام پر رکتی نہیں، پھیلتی جاتی ہے۔ ماہرینِ علم الانسان نے جب ارسطو اور ہابزؔ یا ان کے بھائی بندوں کی رایوں کی روشنی میں تاریخ انسانیت پر نظر ڈالی تو اس نتیجے پر پہنچے کہ قدیم آدمی نے سب سے پہلے دشمن پر اپنی فتح یابی کے بعد قہقہے لگائے۔ اور اس نتیجے سے یہ نتیجہ نکلا کہ ہنسی کی فطرت میں احساس برتری، جارحیت اور دل آزاری شامل ہے۔ البتہ یہ الگ بات ہے کہ انسان نے تہذیب کے دوران اس ہنسی کو بھی ایسے عناصر سے پاک کیا ہے اور دل آزادی کے بغیر ہنسنا سیکھا ہے اور ظاہر ہے کہ ایسی ہنسی مغربی انسان کے سوا اور کون ہنس سکتا ہے کیوں کہ شجر ارتقا کی آخری شاخ یہی تو ہیں۔۔۔ ہنسی کی اس تعریف کے خلاف میں ایک مثال اوپر پیش کر چکا ہوں۔ میری بچیوں میں کوئی احساسِ برتری یا میری کسی کمی کا احساس موجود نہیں تھا، مگر پھر بھی وہ ہنس رہی تھیں۔ حالانکہ یہ ننھی سی جانیں ابھی تہذیب سے بہرہ مند نہیں ہوئی ہیں، کیا قدیم انسان بھی کسی موقعے پر اس طرح نہیں ہنستا ہوگا؟ دوسری مثال بے تکلف دوستوں کی اس ہنسی کی ہے جب ان میں مساوی درجے کی نسبت قائم ہو اور ان میں سے کوئی احساس برتری یا کمتری میں مبتلا نہ ہو۔ اور سب دل کی خوشی سے ایک دوسرے کی باتوں پر ہنس رہے ہوں، کیسی اُجلی رات کی سی کیفیت ہوتی ہے، اس ہنسی میں، جس سے دوستی کا سرور دوگنا چوگنا ہو جاتا ہے۔ اور ایسے لمحات حاصل زندگی معلوم ہوتے ہیں۔ معاف کیجیے گا، میں شاید غیر علمی باتیں کر رہا ہوں۔ ارسطو، ہابزؔ اور ماہر علم الانسان کے مقابلے پر میری بچیوں اور دوستوں کی ہنسی کی طرف کون دیکھے گا۔ بہر حال مجھے کبھی علمی آدمی ہونے کا دعویٰ بھی نہیں رہا۔ اور ہو بھی تو کون مانے گا۔ اس لیے میں تو اپنی ہی مثالوں پر غور کر کے ہنسی کو سمجھنے سمجھانے کی کوشش کروں گا۔

    ہمارے پچھلے سلسلۂ گفتگو میں یہ بات کئی بار دہرائی جا چکی ہے کہ ہماری عام زندگی عمل کی زندگی ہے۔ عمل کی زندگی کے بنیادی محرکات دو ہیں،

    (۱) دوسروں سے اپنا بچاؤ کرنا اور

    (۲) دوسروں کو زیر کرنا

    ہم اس زندگی میں یا تو دوسرے انسانوں، حیوانوں اور کائنات کی دوسری قوتوں سے اپنا دفاع کرتے رہتے ہیں یا انہیں اپنے قابو میں لانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ دفاع اور حملے کا یہ عمل اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنی انا کو بروئے کار نہ لائیں۔ انا خواہش سے ملتی ہے، خواہش ارادہ بناتی ہے، ارادہ عمل کی تخلیق کرتا ہے اور یوں عملی زندگی انا کی قوت سے بر سر عمل رہتی ہے۔ یہ عمل اتنا شدید، الجھانے والا اور ہماری ساری صلاحیتوں کو جذب کر لینے والا ہوتا ہے کہ ہم انا کے ہاتھ میں ایک کٹھ پتلی بن جاتے ہیں۔ اور ہمارے سارے اعمال انا کے غلام ہو جاتے ہیں۔ ہنسی بھی ہمارا ایک عمل ہے۔ جب یہ عمل انا کے ساتھ ہوتا ہے تو ہنسی سے بھی دو کام لیتے ہیں، دفاع یا حملہ۔ ہماری ہنسی یا تو ہماری انا کی قلعہ بندی ہوتی ہے یا گولہ باری۔ ہم ہنسی کے ذریعے یا تو دوسروں کے پھینکے ہوئے گولے سے بچتے ہیں یا دوسروں پر گولے پھینکتے ہیں۔ وہ ہنسی جس میں اپنی برتری یا دوسروں کی کمتری کا احساس ہوتا ہے جو دفاع کرتی ہے یا حملہ۔ جو تکلیف سے بچاتی ہے یا تکلیف پہنچاتی ہے۔ یہی انا کی قابو یافتہ ہنسی ہے۔ مگر کیا ہنسی اپنی فطرت میں یہی ہے۔ انسان کے ہر عمل کی طرح اس کی ہنسی بھی اپنی اصل میں ’’غیر انا‘‘ کی ملکیت تھی۔ اس کا منبع غیر انا کے اہتزاز میں تھا۔ (بیوی بچوں اور دوستوں کی مثال یاد کیجیے) یہ اس وقت دفاع اور حملے دونوں کی میکانکیت میں مبتلا نہیں ہوئی تھی۔ اس میں نہ اپنی برتری کا احساس تھا، نہ دوسروں کی کمتری کا۔ یہ تو بس ایسی ہی ہنسی تھی جیسی پھولوں کی ہوتی ہے مگر غاصب انا نے انسان کے دوسرے اعمال کی طرح اس پر بھی قبضہ کر لیا۔ اور یہ یا تو فتح یابی کا قہقہہ بن گئی یا شکست کو گوارا کرنے کرنے کی کوشش۔ چنگیز اور ہلاکو کی ہنسی تو میں نے سنی نہیں مگر فلموں میں ایسے کرداروں کے قہقہے ضرور سنے ہیں۔ کیا یہ قہقہے فطری ہنسی ہوتے ہیں۔ در اصل ان میں جو چیز نہیں ہوتی، وہ ہنسی ہی ہوتی ہے۔ یہ ہنسی نہیں ہوتی۔ ہنسی کے ساتھ ایک بھیانک مذاق ہوتے ہیں۔ ارسطو اور ہابزؔ اگر اس کو ہنسی سمجھتے ہیں تو اس کا علام انہیں کے معنوں میں ہنسی کے سوا اور کچھ نہیں۔

    مگر سچی ہنسی کی ایک اور قسم بھی ہے۔ یہ ہنسی اس وقت آتی ہے جب غیر انا اسے انا کے خلاف استعمال کرتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا بچہ روٹھ گیا اور منہ پھلا کر بیٹھ گیا۔ چنانچہ ہم اس کی نقل کرتے ہیں۔ ہم اس کی طرح روٹھنے کا انداز بنا لیتے ہیں۔ اور اسے منہ پھلا کر دیکھتے ہیں۔ وہ ہمیں یہ نقل کرتے دیکھ کر اور خفا ہو جاتا ہے اور چڑھ کر رونے لگتا ہے۔ ہمارا عمل انا سے بالکل خالی تھا۔ اس میں صرف خوش دلی تھی۔۔۔ خوش دلی اور محبت۔ ہم نہ اس پر رعب جھاڑ رہے تھے، نہ اسے تکلیف پہنچانا چاہ رہے تھے۔ نہ اس پر حملہ آور تھے۔ ہم تو صرف یہ دکھانا چاہتے تھے کہ بیٹا دیکھو مفت میں بگڑ کر تمہارا منہ ایسا ہو گیا ہے۔ مگر وہ ہمارے اس عمل پر رونے اس لیے لگا کہ اس کی مجروح انا اور تڑپ اٹھی، مگر بعض اوقات انا کے مارے ہوئے لوگوں کا علاج ایسی ہی ہنسی ہوتی ہے۔ جب ہم کسی ایسے افسر پر ہنستے ہیں جو بہت زیادہ ہٹلریت جھاڑ رہا ہو، جب کسی عالم پر ہنستے ہیں جو بہت زیادہ بقراطیت دکھا رہا ہو۔ جب کسی ایسے انسانیت دوست پر ہنستے ہوں جو بہت زیادہ نیک اور ہمدرد بن رہا ہو تو ہماری ہنسی اس کی انا کے خلاف ہوتی ہے۔ ہماری ہنسی اس سے کہتی ہے کہ ’’کھال میں رہ، کھال میں۔‘‘ اب اگر اس میں غیر انا کا عمل جاری ہے اور وہ تمام و کمال ’’انا‘‘ کا بندۂ بے دم نہیں بن گیا ہے تو ہماری غیرانا کی آواز سنتا ہے۔ اس میں بھی ایک خوش دلی پیدا ہوتی ہے اور وہ بھی ہنسنے لگتا ہے۔ اس کا زخم بھی مندمل ہوجاتا ہے اور ہماری تکلیف جو ہمیں اس کے انا پرستانہ عمل سے ہوئی تھی، دور ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر اس کے وجود پر ’’انا‘‘ کا قبضہ مکمل ہے اور اس نے ’’غیر انا‘‘ کے لیے کوئی جگہ نہیں چھوڑی تو وہ اور برہم ہو جاتا ہے اور لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے یا کینہ دل میں لے کر بیٹھ جاتا ہے۔ یہ ہنسی جو ہم انا کے خلاف استعمال کرتے ہیں، خواہ اپنی خواہ دوسروں کی۔ ہمارے ہاتھ میں مقدس ترین تلوار ہے۔ جب ہم اسے صحیح جگہ استعمال کرتے ہیں تو ہم۔ سچ مچ اپنی ہنسی کو بھی اپنے جہاد کا حصہ بنا دیتے ہیں لیکن جب غلط جگہ استعمال کرتے ہیں تو ویسی ظرافت وجود میں آتی ہے جیسی اردو کے صحافتی کالم نگاروں میں پائی جاتی ہے۔ یہ ہنسی بھی چونکہ حملہ اور دفاع کے لیے ہے، اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اس کا مقصد بھی دل آزاری ہے۔ اس کا مقصد دل آزاری نہیں، انا آزاری ہے۔ ہم اس ہنسی کے ذریعے انا کو اس لیے آزار پہنچاتے ہیں تاکہ دل انا سے آزاد ہو جائے اور حقیقی زندگی اور خوشی سے بہرہ یاب ہو۔ مگر اس ہنسی کی تاب لانا آسان نہیں۔ یہ ہماری انا پر اس طرح اثر کرتی ہے جیسے بجلی گری ہو۔ بڑے بڑے آمر اس بجلی کی چمک سے چندھیا جاتے ہیں، انا کے حمق میں زیادہ سے زیادہ مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وہ ہنسنے والوں تک کو قتل کرا دیتے ہیں۔ سنا ہے کہ اسٹالن نہ کبھی ہنستا تھا، نہ کسی کو ہنسنے دیتا تھا۔ ایسے آمر ہم نے بھی دیکھے ہیں، خدا ہمارے ساتھ ایسا مذاق کرتا ہے کہ دوسروں کو اگر اصل آمر دیتا ہے تو ہمارے لیے بھی ایک آدھ کاٹھ کا آمر بھیجتا رہتا ہے۔ ایوب خاں بھی کاٹھ کا آمر تھا، جسٹس کیانی مرحوم نے اس پر چند فقرے لگائے تو شکایت کی کہ تنقید کیجیے، میں برانا نہیں مانتا مگر سنجیدگی سے کیجیے۔ وہ تنقید کا برا کیوں نہیں مانتا تھا؟ کیوں کہ انا اس خیال سے بھی تسکین پاتی تھی کہ میں اتنا بڑا حکمراں ہو کر بھی دوسروں کی تنقید سنتا ہوں۔ اور لوگوں کو نکتہ چینی کی اجازت دیتا ہوں۔ جسٹس کیانی کی ہنسی یہ بتاتی تھی کہ وہ ایوب خاں کی اجازت سے نہیں، خود اپنی طاقت سے ظاہر ہو رہی ہے۔ اور اتنی معصوم ہے جیسے بچہ کسی ننگے کو دیکھ کر ہنس پڑے۔ اتنی معصوم اور اتنی ہی خوں ریز۔ ہنسی کی خوں ریزی کی تاب لانا آسان نہیں۔ انشاء اللہ خاں نے سعادت علی خاں پر ہنس کر دکھایا تھا۔ سعادت علی نے جو کیا، وہ معلوم ہے۔ چھوٹا حکمران اور چھوٹا آدمی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس کے مقابلے پر اکبر اعظم تھا کہ بیربل کو اپنے ساتھ رکھتا تھا اور ایسا دوست سمجھتا تھا کہ ایک بار اس کے گھوڑے کی رکاب پکڑ کر چلا۔ بڑے حکمران ایسے ہوتے ہیں، انہیں معلوم ہوتا ہے کہ تخت نشین انا کے لیے ایک ہنسی کتنی بڑی اصلاح ہے۔ شاید اسی لیے پرانے درباروں میں اور لوگوں کی طرح ایک مسخرا بھی رکھا جاتا تھا۔

    جب ہم ہنسی کو اصلاح کے لیے استعمال کریں تو ہمیں اس کا احساس ہونا چاہیے کہ ہم ہنسی سے یہ کام لے رہے ہیں۔ اس وقت ہنسی ہمارا جہاد بن جاتی ہے۔ مقدس اور بامقصد۔ اکبرؔ الٰہ آبادی ایسی ہی ہنسی ہنسنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ تو ہوئی غیر انا کی ہنسی کی مثالیں، لیکن انا کی ہنسی یقیناً ایسی ہے جو ارسطو اور ہابزؔ کی تعریفوں میں پائی جاتی ہے، اس کی جارحیت، دل آزاری اور سخت دلی میں کلام نہیں۔ یہ واقعی دفاع اور حملے کی میکانکیت کا نتیجہ ہوتی ہے اور ہمیشہ حریف کو نیچا دکھانا اور خود کو اوپر رکھنا اس کا مقصد ہوتا ہے۔ یہ ہمیشہ احساسِ برتری سے پیدا ہوتی ہے اور ہمیشہ دوسروں کی کم تری اور برائی دیکھنے کا نتیجہ ہوتی ہے۔ پتا چلا کہ یورپ نہ صرف انا پسند ہے بلکہ در اصل انا پرستی کے سوا اور کچھ دیکھ ہی نہیں سکتا، اس مضمون کے کچھ حصے میں، میں نے مغرب کی اسی انا پر ہنسنے کی کوشش کی ہے، کیوں کہ میری غیر انا کہتی ہے کہ یورپ کی تاریخ کا بہت کم حصہ اس انا پرستانہ کیفیت سے آزاد ہے تو پھر اب کیا میں کہوں کہ یورپ کو اپنی ہنسی پر بہت ناز ہے مگر در اصل ہنسنا تو صرف مشرق کو آتا ہے جیسے شیخ سعدی کو۔

    آیئے اب اس بحث کی روشنی میں غالبؔ کی ہنسی کو دیکھیں۔ ہم کہہ چکے ہیں کہ اردو شاعری غالبؔ کی وٹ کا جواب نہیں پیش کر سکتی۔ میرؔ بھی نہیں۔ میرؔ نے انا سے آزاد ہونے کے عمل کو رونا بنا لیا تھا۔ میرؔ کا رونا مقدس ہے، غالبؔ کا ہنسنا۔ میرؔ آنسو بہا کر انا سے آزاد ہو جاتے ہیں۔ غالبؔ گریہ کی ہوا باندھنے کے باوجود رو نہیں سکتا۔ وہ ہنس کر اس سے آزاد ہو جانے کی کوشش کرتا ہے، پتہ چلا کہ رونا اور ہنسنا دونوں غیر انا کی ملکیت ہیں اور انا دونوں پر قبضہ کرنے کے بعد دونوں کے قابل نہیں رہتی۔ انا پرست انسان نہ ہنس سکتا ہے، نہ رو سکتا ہے۔ غالبؔ کو دیکھیے کتنا ہی بستیوں کو ویران کرنے کا دعویٰ کرے، در اصل گریہ سے خالی ہے۔ البتہ خدا جانے کس طرح اس نے ہنسنا سیکھ لیا ہے، وہ جب اپنی ہنسی کو غیر انا کے حوالے کر دیتا ہے تو وہ اس کی ذات کے لیے شفا بن جاتی ہے۔ وہ اپنے آپ پر ایسے ہنستا ہے جیسے حضرت موسیٰ فرعون کی ڈاڑھی سے کھیلتے تھے، اس کی انا کی فرعونیت اس ہنسی سے دور ہو جاتی ہے۔ اور ایک بے مثال اہتزاز پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلاً،

    چاہتے ہیں خوبریوں کو اسدؔ

    آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے

    *

    میں نے کہا کہ بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی

    سن کے ستم ظریف نے مجھ کو اٹھا دیا کہ یوں

    *

    رات کے وقت مے پئے ساتھ رقیب کو لیے

    آئے وہ یاں خدا کرے پر نہ خدا کرے کہ یوں

    *

    گدا سمجھ کے وہ چپ تھا مری جو شامت آئے

    اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے

    ایسے اشعار جہاں کہیں بھی ہیں اور جتنے بھی ہیں، غیر انا کی ہنسی کی مثالیں ہیں، اردو شاعری میں ایسی ہنسی نایاب ہے۔ غالبؔ اس کی مدد سے خوب بھی انا پرستی سے شفایاب ہو جاتا ہے اور ہمیں بھی تندرست کر دیتا ہے۔ مگر غالبؔ کی ہنسی صرف ایسی ہنسی نہیں ہے۔ اس کے بیشتر اشعار میں اس کی ہنسی بھی انا زدگی کا شہکار ہے۔ وہ دفاعی بھی ہے اور جارحانہ بھی۔ غالبؔ کی یہ ہنسی بعض لوگوں کو بہت اچھی لگتی ہے۔ کیوں کہ ان کی انا کو بھی تسکین دیتی ہے، وہ بھی جب دیکھتے ہیں کہ غالبؔ اپنے حریف پر حملہ کر رہا ہے، چوٹ لگا رہا ہے۔ یا فتح کر رہا ہے تو ہنسنے لگتے ہیں۔ مگر یہ ہنسی ہنسنے کی نہیں رونے کی بات ہے۔ رونے کی بات یوں ہے کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ غالبؔ ہنسی جیسے مقدس ہتھیار کو بھی غیر انا کے جہاد کی بجائے انا کے فساد کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ایسے اشعار میں غالبؔ کی ہنسی میں احساس برتری، دل آزاری، تشدد اور وہ سب کچھ ملتا ہے، جو انا کی پہچان ہے۔ غالبؔ اس ہنسی کے ذریعے شفایاب نہیں کرتا، قتل عام کرتا ہے۔

    تم جانو تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو

    مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو

    کس آسانی سے محبوب کو بے عصمت، ہرجائی، ٹخیائی کہا ہے، لوگ اس پر ہنستے ہیں۔ رشید احمد صدیقی بھی ہنسے ہیں۔ یہ رونے کا مقام ہے اور اس قبیل کے سارے اشعار بری ہنسی کی بہترین مثالیں ہیں۔ ہم چونکہ احساس کمتری میں مبتلا ہیں اور احساسِ برتری کا مغالطہ پیدا کرنا چاہتے ہیں، اس لیے غالبؔ کے ساتھ ہنسنے میں شریک ہو جاتے ہیں۔ گویا ہماری انا کی لڑائی جو شاید ہم ہار جاتے۔ غالبؔ کی مدد سے ہم اسے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم انا کے سپاہی ہیں اور غالبؔ ہمارا کمانڈر انچیف ہے، وہ دشمن کو ذلیل کرنے، زیر کرنے اور زخمی کرنے کے کیسے کیسے گُر جانتا ہے، کیسے کیسے ہتھیار نکالتا ہے، کبھی گیس چھوڑتا ہے، کبھی تھری ناٹ تھری چلاتا ہے اور کبھی ایٹم بم مار دیتا ہے۔ عسکری صاحب نے چھوٹی بحر پر اپنے ایک مضمون میں غالبؔ کی ذہنیت پر کچھ لکھا ہے، اسے اس تحریر کے ساتھ ملا کر دیکھنا چاہیے۔ چھوٹی بحر غالبؔ کو چوٹ کرنے، پھبتی اُڑانے اور منہ سکوڑ کر ہنسنے میں مدد دیتی ہے۔ میں تو غالبؔ کو جب اس طرح ہنستے دیکھتا ہوں تو غالبؔ کی ہنسی پر ہنسنے کو جی چاہنے لگتا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے