کیا مرثیہ ڈراما ہے؟
یہ بات واضح ہے کہ مرثیہ اور ڈراما الگ الگ اصناف ہیں لیکن ان کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں میں گہری مماثلت پائی جاتی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ مرثیے کو ڈرامایا ڈرامے کو مرثیہ کہہ سکتے ہیں اور نہ اس طرح کی مماثلت ثابت کرنا اس مقالہ کا مقصد ہے لیکن جیسا کہ گزشتہ اوراق کے مطالعہ سے اندازہ ہوا ہوگا کہ مرثیے میں بہت سے ایسے مقامات آتے ہیں جن کے پیش کرنے میں مرثیہ نگار نے ان فنی اور تکنیکی پہلوؤں سے کام لیا ہے جو ڈرامے کے لیے مخصوص ہیں۔
ہم دیکھتے آئے ہیں کہ ڈرامے اور مرثیے کے عناصر ترکیبی الگ الگ ہیں جنہیں آپس میں دور کا بھی لگاؤ نہیں۔ ڈرامے کے عناصر صدیوں ارتقائی منازل طے کرنے کے بعد اب اس حالت میں پہنچے ہیں کہ انہیں ایک مکمل شکل میں پیش کیا جا سکے۔ مثلاً واقعہ، مکالمہ، تصادم، کشمکش، کردار اورعمل وغیرہ۔ اسی طرح مرثیے کے عناصر بھی ایک طویل مدت میں مرتب ہوئے ہیں جنہیں چہرہ، سراپا، رخصت، آمد اور رجز وغیرہ کہتے ہیں۔ مرثیے کے انہیں عناصر پر نقادوں نے زور دیا ہے جو ظاہری طور پر یا بادی النظر میں ڈرامے کے عناصرسے بالکل مختلف معلوم ہوتے ہیں، پھر بھی یہ ترتیب واقعہ سے لے کرتصادم، عمل اور کشمکش تک مرثیہ میں مشابہت اور اشتراک کے نمایاں پہلو لیے ملتے ہیں۔
جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ گو مرثیے کے عناصر ترکیبی میں مکالمہ، تصادم، عمل اور کشمکش کے نام کے کوئی عناصر نہیں ہیں لیکن اس کے گہرے مطالعے سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ مرثیہ میں عمل کی فراوانی بھی ہے۔ کشمکش اور تصادم اپنے نقطہ عروج پر موجود ہے۔ کردار زندگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ اور متحرک بھی ہیں مرثیے اور ڈرامے کے اجزا میں یہ مماثلت غیرشعوری اور غیرارادی سہی لیکن اس پہلو سے مرثیہ کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں۔
قدمانے ڈراموں کو دو شکلوں میں تقسیم کیا تھا۔ طربیہ (Comedy) اور المیہ (Tragedy) یہاں ان کی خصوصیات سے بحث کرنے کی ضرورت نہیں لیکن واقعہ کربلا میں جو غم والم، سوزوگداز اور رنج وتکلیف کا غیرمعمولی ذخیرہ موجود ہے، اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے طربیہ Comedy کا خیال آہی نہیں سکتا۔ بلکہ اس سلسلے میں جو گفتگو بھی کی جائےگی، اس میں ڈرامے کے انہیں عناصر اور انہیں خصوصیات سے بحث ہوگی جو حزنیہ یا المیہ میں پائے جاتے ہیں۔
المیہ واقعات غمناک ہونے یا غم پر ختم ہونے کی وجہ سے المیہ نہیں ہوتے بلکہ اخلاق کے سنوارنے اور بلندکرنے میں جو مدد دیتا ہے، اسے بھی المیہ Tragedy میں غیرمعمولی جگہ دی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک یا کئی کرداروں کا زبردست مصائب اور آزمائشوں میں مبتلا ہونا اور بہادری کے ساتھ اس کا مقابلہ کرنا اور اپنے اعلیٰ مقاصد کے علم کو بلند رکھنے کے لیے ہر طرح کی مصیبتیں جھیل لینا، روحانی اور جسمانی تکالیف کا سامناکرنا ان ساری باتوں میں جو درس عمل اور درس اخلاق پوشیدہ ہوتا ہے، وہ نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ المیہ میں یہ پہلو کس طرح ابھرتا ہے، اس کی بحث ارسطو نے بوطیقا میں کس قدرفلسفیانہ اندازمیں کی ہے۔ بدقسمتی سے اس کی مختصر کتاب میں یہ بحث بہت تشنہ ہے کہ وہ الم انگیز واقعات کے ذریعہ انسانی جذبات کو کس طرح طاہر اور پاکیزہ بنانا چاہتا ہے۔
ارسطو نے یونانی کا جو لفظ استعمال کیا ہے وہ Katharsis ہے اور اس وقت تک اس کا مناسب لفظی ترجمہ نہیں کیا جاسکا ہے تاہم اس لفظ کی معنوی پیچیدگیوں کو اکثر علما نے کھولنے کی کوشش کی ہے۔ عزیز احمد نے اس کا ترجمہ ’’صحت واصلاح‘‘ کیا ہے۔ ا سی سے ملتا جلتا ترجمہ اثر لکھنوی نے بھی کیا ہے۔ وہ اسے ’’اصلاح وتہذیب‘‘ کہتے ہیں۔ لفظ کی معنوی الجھنوں میں نہ پڑ کر ہمیں ٹریجڈی کے بارے میں غور کرنا ہے۔ ارسطو نے اپنی کتاب (Poetics) بوطیقا میں ٹریجڈی کی چار قسمیں بتائی ہیں۔ ۱۔ پیچیدہ ٹریجڈی ۲۔ المناک ٹریجڈی ۳۔ اخلاقی ٹریجڈی ۴۔ سادہ ٹریجڈی۔ ان سب قسموں میں سب سے زیادہ زور اخلاقی ٹریجڈی پر دیا گیا ہے اور شائد کھیتارسس کا لفظ یوں تو عام ٹریجڈی کے لیے استعمال کیا گیا ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ اسی آخری قسم اخلاقی ٹریجڈی کے ساتھ مخصوص ہے۔
اس لئے کہ کیتھارسس کامفہوم ہے خوف اور رحم کے جذبات کو برانگیختہ کرکے انسانی نفس کی کمزوریوں اور اخلاقی نقائص سے پاک کرنا۔ خود ارسطو نے بوطیقا میں ٹریجڈی پر بہت طویل تفصیلی بحث کی ہے، جس میں جگہ جگہ اس کی تعریف میں اسی بات پر زور دیا ہے۔ بوطیقا کے ترجمے ’’فن شاعری‘‘میں عزیز احمد نے ارسطو کے خیالات کو اپنے الفاظ میں اس طرح لکھا ہے، ’’وہ عمل جو دہشت اور دردمندی کے ذریعہ اثر کرتا ہوا اور اثر کرکے ان ہیجانات کی صحت اور اصلاح کرے۔‘‘ (دیباچہ فن شاعری)
عزیز احمد نے بوطیقا کا مقدمہ لکھتے ہوئے ایک سوال کیا کہ ارسطو کس قسم کی اصلاح چاہتے تھے؟ کیا اصلاح یا Katharsis کے لفظ سے ان کی مراد اخلاقی اصلاح ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کارنے راسین (Racine) اور لیسنگ کا خیال لکھا ہے کہ ان لوگوں نے اس سے اخلاقی اصلاح ہی مراد لی ہے۔ خود ارسطو کے الفاظ پرا گر غور کیا جائے تو یہی مطلب نکلتا ہے انہوں نے لکھا ہے، ’’ٹریجڈی نقل ہے ایسے عمل کی جو اہم اور مکمل ہو اور ایک مناسب عظمت رکھتا ہو، جو مزین زبان میں لکھی گئی ہو، جس سے حظ حاصل ہوتا ہو لیکن مختلف ذریعوں سے جو دردمندی اور دہشت کے ذریعہ اثر کرکے ایسے ہیجانات کی صحت اور اصلاح کرے۔ حظ بخشنے والی زبان سے میری مراد ایسی زبان ہے جو موزونیت اور تقطیع سے مزین ہو۔‘‘ (ارسطو بوطیقا)
ارسطو کے اس بیا ن میں ہمیں چند باتوں کو خصوصیت کے ساتھ غور سے دیکھنا ہے جوکہ شاید مرثیہ کے اس پہلو سے مطالعہ میں بہت مددگار ثابت ہوں۔ سب سے پہلے ارسطو نے حظ بخشنے والی زبان سے جو اپنی مراد بتائی ہے اسے ذہن میں رکھنا ہے۔ اس لیے کہ مرثیہ تقطیع اور موزونیت دونوں کے اعتبار سے ارسطو کے بنائے ہوئے اصول پر ٹھیک اترتا ہے۔ جہاں تک صحت و اصلاح یا اثر صاحب کی زبان میں ’’اصلاح وتہذیب‘‘ کی بات ہے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مرثیہ سے انسانی دنیا کو ایک عظیم الشان اخلاقی وتہذیبی درس ملتا ہے۔ اس بات کی تصدیق امدام امام اثر کے ایک جملے سے ہوتی ہے، ’’غرض ڈراما یہ ہے کہ انسان کو ایک اعلیٰ درجہ کی تعلیم نصیب ہو۔ وعظ موعظت سے بھی وہ کام نہیں نکل سکتا ہے جو اس شاعری (مرثیہ) سے ظہور میں آ سکتا ہے۔‘‘ (کاشف الحقائق)
اس میں شک نہیں کہ میر انیس نے جس انداز میں امام حسین، ان کے عزیزوں اور رفقاء کے کردار پیش کیے ہیں، ان سے وہ درس ملتا ہے جو علما کے خشک وعظ سے کہیں زیادہ پر اثر اور بہتر ہے۔ کربلا میں حق پر ہونے والوں کا ہر کردار اعلیٰ اخلاق کا نمونہ ہے۔ امام حسین جو نبی کے نواسے تھے اور جن کے سامنے ہر مسلمان کا سر احترام وعقیدت سے جھکنا چاہئے، جن کا مرتبہ تمام انسانوں سے بلند ہے۔ خود رسول اللہ نے جن کے لیے فرمایا ہو: حسین منی وانا امن الحسین (حسین مجھ سے اور میں حسین سے) اس کو مسلمانوں نے مسلسل خط لکھ کر بلایا۔ وہ اپنے اہل وعیال اور چند احباب کے ساتھ ان کی دعوت پر ان کی اصلاح کے لیے نکلے۔ پھر انہیں گھیر کر کربلا کے میدان میں لایا گیا۔ عورتوں اور بچوں کا ساتھ، گرمی کا زمانہ، ان کو دریا کے کنارے خیمے نصیب کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ان پر، ان کے اعزا اور رفقا پر پانی بند کر دیا گیا۔ ان کو طرح طرح کی اذیتیں اور تکلیفیں پہنچائی گئیں، لیکن ان کے استقلال میں فرق نہیں آیا۔
یہ تمام صعوبتیں انہوں نے صرف حق پر آنچ نہ آنے دینے کے لیے برداشت کیں۔ اگر وہ بیعت کر لیتے اور خود کو یزید کی مرضی پر چھوڑ دیتے تو ان کو مصیبتوں سے چھٹکارا بھی مل سکتا تھا اور ہر طرح کی آرام وآسائش بھی مہیا ہو سکتی تھی۔ لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا اور ہر حال میں راضی برضا اور اپنے ارادے میں ثابت قدم رہے۔ یہی نہیں بلکہ اپنے بھائی کے کٹے ہوئے شانے دیکھے۔ بہن کے جگر کے ٹکڑوں کی لاشیں اٹھاکر خیمہ تک لائے۔ بھتیجے کو مرتے ہوئے دیکھا۔ جوان بیٹے کو جلتی ہوئی ریت پر ایڑیاں رگڑتے ہوئے دیکھا لیکن اف نہ کی۔ خود اپنے عزیزوں اور دوستوں کو لڑنے کے لیے بھیجا۔ جب بھی کوئی شہید ہوا خود لاش اٹھانے گئے۔ خواہ حبشی غلام ہو۔
جب ابن مظاہر جیسا دوست ہو، عباس جیسا بھائی یا علی اکبر جیسا ہم شکل رسول بیٹا، اس کے ساتھ ان لوگوں کی جاں نثاری اور محبت۔ ہر شخص چاہتا تھا کہ پہلے وہ شہید ہو۔ دوست واحباب چاہتے ہیں عزیزوں سے پہلے وہ جاں نثاری کا مرتبہ پائیں۔ بھتیجے اور بھانجے چاہتے ہیں کہ پہلے وہ چچا اور ماموں پر جاں نثار کریں۔ بھائی اور بیٹا چاہتا ہے کہ سب سے پہلے وہ خاندان پر تصدق ہو۔ غرض کہ ہر شخص کے دل میں یہی امنگ ہے کہ پہلے وہ شہید ہو۔ ماں بچوں کو درس دیتی ہے کہ دیکھو سب سے پہلے تم لڑنے کے لیے جانا اور خبردار اگر دریا تک پہنچ گئے تو پانی کی طرف نگاہ بھی نہ کرنا۔ اگر تم نے ماموں کی پیاس کا خیال نہ کیا اور پانی پی لیا تو یاد رکھو دودھ نہ بخشوں گی۔ ایک رات کی بیاہی دلہن شوہر کو فدا کرنے کے لیے تیار ہے۔ حق پر آنچ نہ آئے خواہ جانیں چلی جائیں۔ اس سے بڑا اخلاقی درس کیا ہو سکتا ہے جو ہمیں مرثیوں سے ملتا ہے۔ اسی کے پیش نظر مولانا الطاف حسین حالی نے لکھا ہے،
’’اس خاص طرز کے مرثیے کو اگر اخلاق کے پہلو سے دیکھا جائے تو ہمارے نزدیک اردو شاعری میں اخلاقی نظم کہلانے کا مستحق صرف انہیں لوگوں کا کلام ٹھہر سکتا ہے بلکہ جس اعلیٰ درجہ کے اخلاق ان لوگوں نے مرثیے میں بیان کئے ہیں ان کی نظیر فارسی بلکہ عربی شاعری میں بھی مشکل سے ملےگی۔‘‘ (مقدمہ شعروشاعری)
میر انیس نے مرثیہ میں اس قسم کا اخلاق یا تہذیب نہیں پیش کی ہے جو محض خیالی ہوکر رہ جائے اور لوگ اسے ایک مثالی نمونہ سمجھیں۔ انہوں نے امام حسین، ان کے اعزا اور رفیقوں کے اعمال اور افعال کے ذریعہ اخلاق کی اعلیٰ اور ارفع باتیں پیش کی ہیں۔ کرداروں میں بلند اخلاق کے ساتھ ساتھ کمزوریاں بھی ہیں جوکہ انسان کے کردار میں لازم ہیں لیکن کمزوریاں اس قسم کی نہیں ہیں جن کا لگاؤ بداخلاقی یا رذالت سے ہو۔ پروفیسر مسعود حسن ادیب نے انیس کی شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے مرثیے کے اخلاقی پہلو پر لکھا ہے، ’’اخلاقی شاعری کے اعتبار سے انیس کا پایہ بہت بلند ہے۔ ان کے تمام کلام میں بلند اخلاقی کی لہر دوڑی ہوئی ہے۔ جن اخلاق فاضلہ کی تعلیم انیس کے مرثیوں سے ہوتی ہے وہ اخلاق نصائح کی کسی کتاب یا وعظ وپند کے ذریعہ سے ممکن نہیں۔ نفس انسانی کی انتہائی شرافت کے نقشے جن مؤثر پیراؤں میں کھنچے ہیں، ان کا جواب ممکن نہیں اور ان کو انتہائی رذالت کی تصویر کے مقابلے میں رکھ کر ان کے اثر کو اور بھی قوی کر دیا ہے۔‘‘ (روح انیس)
لیکن میر انیس کے ایک اور نقاد ڈاکٹر محمد احسن فاروقی کو اس بات سے اختلاف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مراثی میر انیس میں اخلاقی درس نہیں ملتا ہے۔ میر انیس نے امام حسین اور ان کے عزیزوں کا کردار نہیں پیش کیا ہے بلکہ وہ ان تمام کرداروں کو اپنے سامعین کے کردار کی سطح پر لے آئے ہیں۔ فاروقی صاحب کا یہ کہنا درست نہیں۔ انہوں نے یہ اعتراض صرف برائے اعتراض جڑ دیا ہے، اس لیے کہ مرثیوں کا مطالعہ خود اس کا جواب ہے۔ اثر صاحب نے میرا نیس پر فاروقی صاحب کے تمام اعتراضوں کا جواب دیا ہے۔ اسی میں مرثیہ کے اخلاقی پہلو پر بھی بہت مدلل اور تفصیلی بحث کی ہے۔ انہوں نے ٹریجڈی اور مرثیہ میں اخلاقی درس پر فاروقی صاحب کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے، ’’ٹریجڈی کی خصوصیات میں داخل ہے کہ جذبات دہشت و رحم کو انگیز کرکے ان جذبات کو ابھاریں۔ یہ ضرور ہے کہ اکثر موقع پر انیس کی فکران رفعتوں پر مائل پرواز ہے جوکہ مادہ پرست اشخاص کے ذہن کی رسائی سے باہر ہو جاتی ہے۔ اس سے لذت اندوز ہونے کے لیے بقول غالب، پہلے دل گداختہ پیدا کرے کوئی۔‘‘ (انیس کی مرثیہ نگاری، اثر لکھنوی)
فاروقی صاحب کے اس جھگڑے سے قطع نظر کرکے دیکھنا یہ ہے کہ آیا مرثیے دہشت ورحم کے جذبات کو ابھار کر اصلاح وتہذیب کا کام کرتے ہیں یا نہیں۔ اس کے لیے اس بات کو نظرمیں رکھنا پڑےگا کہ کس قسم کے واقعات زیادہ دہشت انگیز ہو سکتے ہیں۔ کیا ایک دشمن کا دشمن کو قتل کر دینا دہشت انگیز ورحم انگیز ہوگا۔ اس کا جواب نفی میں ملےگا، اس لیے کہ ایسے واقعہ کو دیکھ کر تکلیف اور کراہیت ہو سکتی ہے۔ اس بات کے لیے پھر ہمیں ارسطو کی مدد لینی پڑےگی اور ارسطو کا خیال ہے کہ ایسے واقعات اس وقت زیادہ دہشت انگیز اور رحم انگیز ہو سکتے ہیں جب قریبی عزیزوں یا قریبی دوستوں میں پیش آئیں۔ مرثیہ میں یہ واقعات اسی طرح پیش آتے ہیں۔
ایک مذہب کا رہبر ہے۔ اس کو اسی کے ماننے والے، اسی کے پرستار وپیرو طرح طرح کی تکلیف اور مصیبت پہنچاکر شہید کرتے ہیں لیکن وہ مستقل مزاجی، شرافت اور سچائی کو نہیں چھوڑتا۔ اس کے دوست، ساتھی اور اعزابہترین اخلاق کا ثبوت دیتے ہیں اور اپنے آقا پر اپنی جان تک نثار کر دیتے ہیں۔ اس طرح یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ کربلا کا واقعہ دہشت انگیز ورحم انگیز بھی ہے اور اخلاقی وتہذیبی درس بھی دیتاہے۔ اس پر یہ اعتراض ممکن ہے کہ یہ خصوصیات ڈرامے کی ہیں اور ان کو صحیح طور سے اس وقت تک درست نہیں کہا جا سکتا جب تک کہ تمام باتیں اسٹیج پر کرکے نہ دکھائی جانے والی ہوں۔ یہ صحیح ہے اور اسی لیے شروع ہی میں یہ بات کہہ دی گئی ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مرثیے کو ڈراما کہا جائے لیکن یہ ضرور ہے کہ مرثیے میں بھی وہ بہترین خصوصیات پائی جاتی ہیں جو ڈرامے کے لیے مخصوص ہیں۔ جہاں تک ٹریجڈی کے کرکے دکھانے کاسوال آتا ہے توٹریجڈی یا دہشت انگیز اور رحم آمیز وہ چیز بھی ہو سکتی ہے جو صرف پڑھ لی جائے یاسنی جائے اور اس بات کو ارسطو نے بھی اپنی کتاب بوطیقا میں لکھا ہے،
’’دہشت اور دردمندی کا اثر منظر کے ذریعہ پیدا کیا جا سکتا ہے لیکن زیادہ بہتر یہ ہے کہ خود عمل ہی میں ترکیب ایسی ہو کہ اس کی وجہ سے یہ جذبات پیدا ہوں۔ بہتر شاعری کی پہچان یہی ہے کہ روئداد کی ترتیب ایسی ہونی چاہئے کہ اس میں جو واقعات بیان کیے جائیں اگر انہیں صرف سن سکے اور منظر پر نہ دیکھ سکے، تب بھی اس کے دل میں دہشت اور ہم دردی کے جذبات پیدا ہوں۔‘‘ (بوطیقا ارسطو) مرثیہ کے پڑھنے کا طرز پوری طرح سامعین میں دہشت انگیزی اور دردمندی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔
اس طرح ٹریجڈی کے لیے ارسطو کی جو شرط ہے کہ اس میں کیتھارسس ہونا چاہئے۔ اس کی شرط کو مرثیہ بہت حد تک پورا کرتا ہے۔ مجلسوں میں مرثیے کے پڑھنے کا طرز بھی بہت بڑی حد تک ڈرامائی کیفیت پیدا کرتا ہے لیکن ان تمام باتوں کے ہوتے ہوئے بھی مرثیے کو ڈراما نہیں کہا جا سکتا۔ اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ غیرشعوری طور پر سہی لیکن مرثیے میں ڈرامائی عناصر ملتے ہیں جوکہ اسی طرح مرثیے میں سرگرم عمل نظر آتے ہیں جس طرح کہ انہیں ڈرامے میں ہونا چاہئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.