لکھنا آج کے زمانے میں
حلقہ ارباب ذوق کے نئے عہدیداروں کی خبر نکلنے کے بعد شاکر علی ٹی ہاؤس آئے اور مجھے پرسا دیا کہ ’’آخر کو تم بھی سکتر بن گئے۔‘‘
ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا کہ نئے آرٹسٹ کافی ہاؤس میں ڈیرا رکھتے تھے اور ہم اردو لکھنے والوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے مگر اب وہ ترقی کر گئے ہیں اور لوئرمال سے اٹھ کر اپرمال پر آرٹ کونسل میں پہنچ گئے ہیں۔ شاکر علی کومجھے پرسا دینے کے لئے آرٹ کونسل سے ٹی ہاؤس آنا پڑا اور میں نے اپنی صفائی پیش کی، ’’میں تنخواہ دار سکتر نہیں بنا ہوں۔‘‘
اس جواب سے شاکر صاحب مطمئن نہیں ہوئے۔ ان کا خیال ہے کہ اس زمانے میں ہر ادیب اور ہر آرٹسٹ نے کوئی نہ کوئی دکان کھول رکھی ہے یا کسی دکان سے چپکا ہوا ہے۔ یعنی خود دکاندار ہے یا کسی دکاندار کی پخ ہے۔ وہ سچ کہتے ہیں مگریہ سوچ رہا ہوں کہ باوقار تہذیبی ادارے دیکھتے دیکھتے بنیوں کی دکانیں کیسے بن گئے۔ یہ اپنے ہوش ہی کی بات ہے کہ کسی تہذیبی ادارے سے وابستگی باعث عزت سمجھی جاتی تھی۔ اب یہ نوبت آئی ہے کہ تہذیبی اداروں سے وابستگیاں اور اس کے عہدے دلوں کو بہت للچاتے ہیں مگر دلوں سے ان کا احترام اٹھ گیا ہے اور بےشک ایک ادارہ انعامات کے گڑ چنے تقسیم کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو اور بےشک وہ ادیبوں کی سیروسفر کا اہتمام نہ کرتا ہو اور بےشک وہ کلچرل پروگراموں کی عیاشی کا متحمل نہ ہو سکے پھر بھی اس سے وابستگی دلوں میں سو طرح کے شبہے پیدا کرتی ہے۔
وہ اس لئے کہ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ ادارہ کل ان سارے تکلفات کے لئے ذرائع پیدا نہیں کرےگا۔ ہم نے اداروں اور افراد کو قلندری اور ایثار کے دعوؤں کے ساتھ اتنی بار اٹھتے اور پچکتے دیکھا ہے کہ اب کوئی قرآن کا جامہ پہن کر بھی آئے تو ہم اس کا اعتبار نہیں کریں گے۔ آرٹ اور ادب کی تقدیر اب یہی ہے کہ اس کے وسیلہ سے یاران طریقت ترقی کریں، جو لوئرمال پر ہیں وہ اپرمال پر پہنچ جائیں۔ جو جھاڑو دیتے تھے وہ سکتر بن جائیں۔ میرے ایک دوست نے ایک دوست کے بارے میں کیا خوب مژدہ سنایا ہے کہ وہ بےچارا پہلے خالی شعر میں ٹوں ٹاں کیا کرتا تھا، اب وہ ماشاء اللہ ایک جماعت کا خازن ہے۔ یہ مرتبہ مشتے نمونہ ازخردار ہے۔ باقی مراتب کے لئے تصور شرط ہے۔ تصور کیجئے اور یاروں کو مبارک باد بھجوایئے۔
میں سوچتا ہوں کہ ہم غالب سے کتنے مختلف زمانے میں جی رہے ہیں۔ اس شخص کا پیشہ آبا سپہ گری تھا۔ شاعری کو اس نے ذریعہ عزت نہیں سمجھا۔ غالب کی عزت غالب کی شاعری تھی۔ شاعری اس کے لئے کسی دوسری عزت کا ذریعہ نہ بن سکی۔ اب شاعری ہمارے لئے ذریعہ عزت ہے۔ مگر خود شاعری عزت کی چیز نہیں رہی اور میں سوچتا ہوں کہ خازن تو لوگ غالب کے زمانے میں بھی بنتے ہوں گے اور اس پر خوش ہوتے ہوں گے۔ عہدوں اور مراتب اور ہاتھی اور بگھی کی سواری کی فکریں اوروں کو بھی تھیں اور خود غالب کو بھی بہت ستاتی تھیں۔ اس قسم کی فکر یں سرسید اور اکبر کے زمانے میں بھی آدمی کی جان کے ساتھ لگی ہوئی ہوں گی لیکن کبھی عقائد کے اثرورسوخ نے اور کبھی قومی تحریکوں نے ہمارے معاشرہ میں ایسی پنچایتی فکریں پیدا کیں کہ نجی فکریں محض نجی بن کر رہ گئیں۔ وہ معاشرہ پر حاوی نہیں ہو پائیں۔
پچھلے سو برس سے ہمیں بڑی فکر یہ چلی آتی تھی کہ ہم نے صدیوں کے فکروعمل سے جو سچائیاں دریافت کی ہیں اور جواب ہماری زندگی ہیں، ان سچائیوں کا تحفظ ہونا چاہئے۔ اس قسم کی فکر کے معنی یہ ہیں کہ لوگ اپنی نجی ضرورتوں کے ساتھ بلکہ ان سے بڑھ کر کسی اجتماعی ضرورت میں بھی یقین رکھتے ہیں۔ اس یقین کی بدولت وہ اپنی ذات سے بلند ہوکر کسی اجتماعی مقصد سے ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس صلاحیت کو ایمان کہا جاتا ہے اور ٹی ایس ایلیٹ کا یہ کہنا ہے کہ جو قوم ایمان سے محروم ہے وہ اچھی نثر پیدا نہیں کر سکتی مگراس میں نثر کی کیا تخصیص ہے۔ ایک بے ایمان قوم اچھی نثر نہیں پیدا کر سکتی تو اچھی شاعری کیا پیدا کرےگی۔ ویسے اس بیان کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسے معاشرہ میں اچھے نثرنگار یا شاعر سرے سے پیدا ہی نہیں ہوتے۔ ہوتے تو ہیں مگر وہ ایک مؤثر ادبی رجحان نہیں بن سکتے اور ادب ایک معاشرتی طاقت نہیں بن پاتا۔
ہم لکھنے والے ایک بے ایمان معاشرہ میں سانس لے رہے ہیں۔ ذاتی منفعت اس معاشرہ کا اصل الاصول بن گئی ہے اور موٹر کار ایک قدر کا مرتبہ حاصل کر چکی ہے۔ جب اصل الاصول ذاتی منفعت ہو تو دولت کمانے کے آسان نسخوں کے لئے دوڑ دھوپ روحانی جدوجہد کا سارنگ اختیار کر جاتی ہے۔ عام لوگ موٹرکار کی چابی کی آرزو میں صابون کی ٹکیاں خریدتے ہیں اور معمے حل کرتے ہیں اور اہل قلم حضرات انعاموں کی تمنا میں کتابیں لکھتے ہیں۔ جن کے قلم کو زنگ لگ چکا ہے وہ ادب، زبان اور کلچر کی ترقی کے لئے یا ادیبوں کی بہبود کے لئے ادارے قائم کرتے ہیں اور ادارے اور ادارے والے تو روز افزوں ترقی کرتے ہیں مگر ادب، زبان اور کلچر دن بدن تنزل کرتے چلے جاتے ہیں۔ ادب، زبان اور کلچر کی ترقی کی کوشش میں زیرآسمان ترقی کی نئی راہیں نکلتی ہیں اور ستاروں سے آگے کے جہان دریافت کئے جاتے ہیں۔ ایسے عالم میں جو ادیب افسانہ اور شعر لکھتا رہ گیا ہے وہ وقت سے بہت پیچھے ہے۔ اس کے لئے لکھنا بنفسہ عشق کا امتحان بن جاتا ہے۔
جب سب سچ بول رہے ہوں تو سچ بولنا ایک سیدھا سادہ اور معاشرتی فعل ہے لیکن جہاں سب جھوٹ بول رہے ہوں وہاں سچ بولنا سب سے بڑی اخلاقی قدر بن جاتا ہے۔ اسے مسلمانوں کی زبان میں شہادت کہتے ہیں اورشہادت اسلامی روایت میں ایک بنیادی اور مطلق قدر کا مرتبہ رکھتی ہے۔ جب ایک معاشرہ تخلیق کے فریضہ کو فریضہ سمجھنا ترک کردے اور اسے ترقی کا ذریعہ سمجھے تو جو شخص اس فریضہ کو ادا کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لیتا ہے وہ گویا شہادت پیش کرتا ہے۔
لفظ خود ایک شہادت ہے۔ جس انسان نے پہلی مرتبہ لفظ بولا تھا اس نے تخلیق بھی کی تھی۔ پھر یہ تخلیق فعل وعمل میں شیروشکر ہو گئی اور زبان ایک معاشرتی فعل بن گئی۔ ادب معاشرتی عمل میں پیوست تخلیقی جوہر کی تلاش ہے۔ صدیوں کے قول وعمل، دکھ درد اور خارجی وداخلی مہمات کے وسیلہ سے جو سچائیاں دریافت کی جاتی ہیں اور بعدمیں اقدار کہلاتی ہیں، ان کی کارفرمائی سے معاشرتی عمل تخلیقی عمل بن جاتا ہے۔ جب تک ایک معاشرہ ان اقدار میں ایما ن رکھتا ہے اور ان کی بدولت تخلیقی طورپر فعال رہتا ہے، اسے اس تخلیق عمل کی تلاش پر بھی ایمان رہتا ہے۔ یعنی ادب بنفسہٖ اس کے لئے ایک قدر کا، ایک عظیم سچائی کا مرتبہ رکھتا ہے۔
شاید اسی لئے میر اور غالب اپنے اپنے زمانے میں ہماری قدروں کے امین بھی تھے اور خود اپنی اپنی جگہ بھی ایک قدر کا مرتبہ رکھتے تھے۔ ان کی عظمت میں کچھ ان کے تخلیقی جوہر کا حصہ ہے اور کچھ اس معاشرہ کے تخلیقی جوہر کا، جس میں وہ پیدا ہوئے تھے۔ بڑا ادیب فرد کے تخلیقی جوہر اور معاشرہ کے تخلیقی جوہر کے وصال کا حاصل ہوتا ہے۔ بڑا ادیب ہمارے عہد میں پیدا نہیں ہو سکتا، اس لئے کہ یہ عہد اپنا تخلیقی جوہر کھو بیٹھا ہے اوران اقدار پر اس کا ایمان برقرار نہیں ہے جو اس کی تاریخ کا حاصل ہیں۔ اسے اپنے تخلیقی جوہر کی تلاش میں بھی کوئی معنی نظر نہیں آتے۔ صم بکم عمی فہم لایرجعون۔ یہ لوگ کرکٹ کی کمنٹری سنتے ہیں، موٹر کار اور غیرملکی وظیفوں کی باتیں کرتے ہیں، ہالی ووڈ کی فلمیں دیکھتے ہیں اور کچھ نہیں سمجھتے۔
آج کا لکھنے والا غالب اور میر نہیں بن سکتا۔ وہ شاعرانہ عظمت اور مقبولیت اس کا مقدر نہیں ہے۔ اس لئے کہ وہ ایک بہرے، گونگے، اندھے معاشرے میں پیدا ہوا ہے مگر وہ غالب اور میر سے زیادہ اہم فریضہ انجام دے رہا ہے، اس لئے کہ وقت نے اسے ایسی قدر کا امین بنا دیا ہے جو اس کی تاریخ کی سب سے اہم قدر ہے۔ آج لکھنا شہادت کا مرتبہ رکھتا ہے۔ لکھنا آج اس ایمان کا اعادہ ہے کہ موٹر کار حاصل کرنے کی چیٹک سے بھی زیادہ اہم کوئی چیٹک ہے۔
شعر اور افسانہ بے شک معاشرتی سطح پر معنی کھو بیٹھیں۔ اس کے باوجود ایک سنجیدہ بلکہ مقدس مشغلہ ہیں۔ لکھنا آج غالب کے زمانے سے بھی بڑی سچائی ہے، اس لئے کہ آج کا جھوٹ غالب کے زمانے کے جھوٹ سے زیادہ سنگین ہے۔ اس جھوٹ کوغیرقوم کی حاکمیت نے پیدا کیا تھا۔ یہ جھوٹ ہم نے آپس میں جھوٹ بول کر اپنی کوکھ سے جنا ہے۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ آج کچھ نہیں لکھا جا رہا، اچھا ادب تقسیم سے پہلے تخلیق ہو گیا اور شاعر ۱۸۵۷ سے پہلے گزر گئے وہ شخص جھوٹا ہے۔ وہ اس لئے جھوٹا ہے کہ یہ کہہ کر وہ آج کے ادب یعنی آج کے جھوٹ اور سچ سے آنکھ چرانا چاہتا ہے۔
نقاد اور پروفیسر اور تہذیبی اداروں کے سربراہ جھوٹ بولتے رہیں لیکن اگر کوئی ایسی سبھا ہے جہاں جیتے جاگتے ادیب بیٹھے ہیں تواس کا درد سر اولاً آج کا ادب ہونا چاہئے۔ اگر آج کی تحریر کے کوئی معنی ہیں تو میر اور غالب کی شاعری کے بھی کوئی معنی ہیں۔ آج کچھ نہیں لکھا جا رہا ہے، یا بے معنی لکھا جا رہا ہے تو پھر میر اور غالب کے معنی بھی کتنے باقی رہیں گے۔ مگر آج لکھنا کیا معنی رکھتا ہے۔
آج کا ادب، اگر وہ صحیح اور سچے معنوں میں آج کا ادب ہے تو آج کے چالو معاشرتی معیارات کا ترجمان نہیں ہو سکتا۔ وہ تو اس قدر کو واپس لانے کی کوشش ہوگی جسے ہمارا معاشرہ گم کر بیٹھا ہے۔ آج کا ادب معاشرہ کا نہیں تاریخ کا ترجمان ہے۔ گویا اس کے وسیلہ سے نہ آپ خازن بن سکتے ہیں نہ آپ کو موٹرکار نصیب ہو سکتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ادیبوں کی تو اتنی بہتات ہے کہ پانچ سو تک گنتی پہنچ گئی ہے مگر لکھنے والا اکیلا رہ گیا ہے۔ زمانے کی قسم آج کا لکھنے والا خسارے میں ہے اور بےشک ادب کی نجات اسی خسارے میں ہے۔ یہ خسارہ ہماری ادبی روایت کی مقدس امانت ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.