Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

لکھنؤ کی پانچ راتیں

علی سردار جعفری

لکھنؤ کی پانچ راتیں

علی سردار جعفری

MORE BYعلی سردار جعفری

    پہلی رات

    راج سنگھاسن ڈانواڈول

    لکھنؤ کی فضا میں ایک نئی آزادی کا احساس تھا، ۱۹۳۷ء میں کانگریس کی پہلی وزارت بنی تھی۔ کھدر کے کپڑوں کی وقعت بڑھ گئی تھی، ہم لوگوں نے اپنے سروں کی گاندھی ٹوپی کو اور زیادہ ترچھا کر لیا تھا۔


    جب میں ۱۹۳۸ء میں دہلی سے لکھنؤ آیا تو مجاز وہاں پہلے سے موجود تھے، ان کے والد نے ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد لکھنؤ میں گھر بنایا تھا، مجاز کے چھوٹے بھائی انصار ہاروانی جو اب پارلیمنٹ کے ممبر ہیں، نیشنل ہیرالڈ میں کام کرتے تھے، وہاں کئی اور بھی احباب تھے، انور جمال قدوائی، سبط حسن، فرحت اللہ انصاری، علی جواد زیدی وغیرہ۔ حیات اللہ انصاری ہفتہ وار ہندوستان کے ایڈیٹر تھے۔ یش پال ہندی اور اردو میں الگ الگ اپنا رسالہ وپلو شائع کرتے تھے۔

    روز بروز ترقی پسندوں کا حلقہ وسیع ہوتا جاتا تھا۔ ڈاکٹر علیم اور احمد علی لکھنؤ یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ ڈاکٹر رشید جہاں جنہیں ہم سب پیار سے رشید آپا کہتے تھے، ڈاکٹری کرتی تھیں، افسانے لکھتی تھیں، اور تمام نوعمر ادیبوں کے ساتھ شفقت سے پیش آتی تھیں، کبھی کبھی الہ آباد سے سجاد ظہیر، ڈاکٹراشرف اور ڈاکٹراحمد آ جاتے تھے، جو پنڈت نہرو کی سرپرستی میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے آفس میں کام کر رہے تھے۔ کان پور میں دو ایک انگریز ترقی پسند پروفیسر تھے۔ وہ بھی لکھنؤ کے چکر لگاتے رہتے تھے۔

    اسی سال ڈاکٹر ملک راج آنند ترقی پسند مصنفین کی دوسری کانفرنس میں شریک ہونے کے لئے (جس کا افتتاح ٹیگور نے کیا) انگلستان سے آئے تھے، ان کی زبان پر اسپین کا ذکر تھا، جس کے کے انقلابی کارنامے پہلے ہی ہم تک پہنچ چکے تھے۔ لاپشناریا اور لور کے نام فضاؤں میں گونج رہے تھے، ایک سال بعد ۱۹۳۹ء میں جذبی بھی لکھنؤ آئے اور جوش ملیح آبادی بھی۔ ان کا رسالہ ’’کلیم‘‘ اب نیا ادب میں ضم ہو گیا اور وہ ایک طرح سے ہمارے ادبی سرپرست بن گئے (اسی زمانے میں سکندر علی وجد بھی لکھنؤ آ گئے۔ وہ نظام سرکار کاسول سروس کا امتحان دے کر ٹریننگ لینے لکھنؤ آئے تھے۔ اس لئے آوارہ گردوں اور چاک گریبانوں میں شامل ہوئے، ویسے جذباتی طور سے وہ بھی ہمارے قریب تھے۔)

    نوعمر ترقی پسندوں کی ٹولی عجیب و غریب زندگی بسر کر رہی تھی، کچھ تو ابھی تک کالج اور یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے لیکن سارے ہندوستان میں مشہور ہو چکے تھے، کچھ ابھی ابھی تعلیم سے فارغ ہوئے تھے۔ ہمارے چار مشغلے تھے۔ تعلیم، ادب، سیاست اور آوارہ گردی۔ اس اعتبار سے ہم مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر پائے جاتے تھے۔ ایک سرے پر فرنگی محل تھا، جس کے روشن خیال اور خوش اخلاق علما کے ساتھ نہایت ادب سے انتہائی بے باک بحثیں کی جاتی تھیں، اور دوسرے سرے پر ریڈیو کی مشہور گانے والی گوہر سلطان کا وہ گھر تھا جسے ہم خرابات کہتے تھے۔

    ان دونوں سروں کے درمیان نیشنل ہیرالڈ، پانیر، ہندوستان، وپلو اور نیا ادب کے دفاتر، یونیورسٹی کے وائس چانسلر شیخ حبیب اللہ صاحب کا گھر، پروفیسر ڈی پی مکھر جی کا کتب خانہ، وائی، ڈبلو، سی، اے کا خوبصورت ہال جہاں مایا سرکار شمع محفل ہوا کرتی تھیں۔ یونیورسٹی کی لڑکیوں کا کیلاش ہاسٹل جہاں ہرسال ہولی کھیلنے پر جرمانہ ہوتا تھا اور نہ جانے کتنے کافی ہاؤس، ریستوراں اور میخانے تھے اور یہ ساری گزرگاہیں کوچہ پار سے ہوتی ہوئی زندانوں کی طرف جارہی تھیں، جن کی دیواروں کے پیچھے آزادی کی خوبصورت صبح کا اجالا دھندلا دھندلا نظر آ رہا تھا اور اس کی دلفریبی ہماری نگاہوں کو دعوت نظارہ دے رہی تھی۔

    ہمارا سارا گروہ جو ویسے تو ہم خیال تھا، مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو اور سبھاش بوس کے درمیان بٹا ہوا تھا، لیکن سوشلزم سے کسی کو انکار نہیں تھا۔

    ہماری بغاوت کا اندازہ رومانی اور انفرادی تھا، جس کا سب سے حسین پیکر مجاز کی دل آویز شخصیت تھی۔ یہ پوری شخصیت اس کی نظم  ’آوارہ‘ اور ’اندھیری رات کے مسافر‘ میں موجود ہے اور اس کے بکھرے ہوئے جلوے ان راتوں میں نظر آتے ہیں، جن میں سے پانچ راتوں کا انتخاب یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

    بیشتر ترقی پسند ادیب اس رومانی مزاجی دور سے گزر رہے تھے۔ ہمارا گروپ ایک طرف تو اس بیرونی حکومت کے خلاف تھا، جس نے ڈیڑھ دو سو برس سے ہمارے ملک اور قوم کو غلام بنا رکھا تھا اور دوسری طرف اس خاندانی شرافت اور رسم و رواج کے خلاف، جو ہماری بے باک فطرتوں کو انگڑائی نہیں لینے دیتا تھا۔ چونکہ ہمارا تعلق کسی منظم سیاسی جماعت سے نہیں تھا اور ترقی پسند تنظیم کم اور تحریک زیادہ تھی، اس لئے ہم اپنی من مانی کرنے کے لئے انفرادی راستے اختیار کرتے تھے۔ صاف ستھرے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر بیڑی پینا، شراب خانوں میں نظمیں سنانا، چوراہوں پر کھڑے ہو کر سیاسی تقریریں کرنا، کتابیں اور رسالے شائع کرنا اور پھر علماء اور پروفیسروں سے ٹیڑھے ٹیڑھے مباحثے کرنا بے چین روحوں کی تسکین کا سامان تھا۔

    ایک دن دوران گفتگو میں یہ بات نکلی کہ لوگ اپنے کتوں کا نام ٹیپو کیوں رکھتے ہیں۔ میں، سبط حسن اور مجاز تینوں اس نتیجے پر پہنچے کہ انگریزوں نے ٹیپو سلطان سے اپنی نفرت کا اظہار کرنے کے لئے ایک طریقہ اختیار کیا ہے اور ٹوڈی قسم (غلامانہ ذہنیت) کے ہندوستانی ان کی نقل میں بے سوچے سمجھے اپنے کتوں کا نام بھی ٹیپو رکھ لیتے ہیں۔ اگر محبت سے رکھنے کا سوال ہوتا توہ یقیناً اپنے کتے کا نام وکٹوریہ نیلسن وغیرہ رکھتے۔ مجاز نے فورا مشورہ دیا کہ ہم لوگوں کو ایک کتا پالنا چاہئے اور اس کا نام نیلسن رکھنا چاہئے۔

    ابھی گفتگو جاری تھی کہ سبط حسن کہیں اٹھ کر چلے گئے اور جب چند گھنٹوں کے بعد واپس آئے تو ان کی گود میں ایک نہایت خوبصورت سفید کتے کا پلا تھا، ہم لوگوں نے فوراً اس کا نام نیلسن رکھ دیا اور گویا اپنے نزدیک انگریزوں سے ٹیپو سلطان کی توہین کا انتقام لے لیا۔

    نیلسن نہایت خوبصورت اور وفادار کتا تھا۔ چند مہینوں میں وہ بڑا ہو گیا، کاٹتا کسی کو نہیں تھا، لیکن بھونکنے میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا، ہم اپنے احباب کی فہرست میں ہمیشہ نیلسن کا نام شامل کر دیتے تھے۔

    ہم تینوں لال باغ کے ایک نئے گھر میں رہتے تھے، جسے ڈاکٹر حسین ظہیر کی بیگم صاحبہ نے بنوایا تھا اور اس کا نام ان کی مرضی کے خلاف ہم نے اکتوبر ہاؤس رکھ دیا تھا۔ گھر دو منزلہ تھا اور ہمارے سوا کوئی کرایہ دار ابھی آیا نہیں تھا، اس لئے ہم زمین کی منزل پر رہتے تھے اور نیلسن پہلی منزل پر۔ ایک مہترانی جو باورچی خانے کے باہر کھڑکی کے پاس کھڑی ہوکر لکھنؤ کے لطیف لہجے اور نفیس زبان میں ہمیں کھانے پکانے کی ہدایات دیتی رہتی تھی، روز نیلسن کو نہلاتی تھی، ہم لوگ سارے دن ماہوار نیا ادب اور ہفتہ وار پرچم کی ترتیب اور اشاعت میں لگے رہتے اور شام کے وقت اپنے کتے کو ساتھ لے کر حضرت گنج کی سیر کے لئے باہر نکلتے۔ اس سیرگاہ کا انتخاب ایک خاص غرض سے کیا گیا تھا، شام کے وقت اس کی سڑکیں اور دکانیں یونیورسٹی کے لڑکوں لڑکیوں کے علاوہ گورے سپاہیوں اور ٹامیوں سے بھری ہوتی تھیں اور ہم لوگ ان کی صورتیں دیکھ کر اپنے کتے کو نیلسن کہہ کر ضرور آواز دیتے تھے اور طالب علموں اور ٹامیوں پر اس کا رد عمل دیکھ کربہت خوش ہوتے تھے، مگر کوئی غیر معمولی واقعہ پیش نہیں آیا۔

    آخر ایک شام کو وہ حادثہ ہو گیا، جس کے لئے ہم بے تاب تھے۔ مے فیرسنیما گھر میں کوئی بہت اچھی تصویر آئی تھی۔ اب نام یاد نہیں ہے۔ شاید واریز تھی، جس میں پال منی، نے میکسیکو کے انقلابی رہنما کا کردار ادا کیا تھا، یا شاید یانوشیک تھی، جس میں چیکو سلواکیہ کے ایک باغی کسان کی ایک کہانی تھی، ایسی فلموں کو دیکھنے کے لئے یونیورسٹی کے طالب علموں کا ہجوم آتا تھا اور فلم کے خاتمے پر عین اس وقت جب انگریزوں کا قومی گیت (ہمارے لئے سامراجی گیت) گاڈسیودی کنگ بجتا تھا، بلند آواز سے انقلابی نعرے لگاتا تھا۔

    ہم تینوں نہایت شان سے اپنے کتے کو ساتھ لے کر مے فیر پہنچے اور چار ٹکٹ خرید کر ہال کے اندر داخل ہونے لگے۔ اس وقت نیلسن میری گود میں تھا۔ دروازے پر ہمیں روک دیا گیا، بڑی دیر تک اس پر ہنگامہ ہوتا رہا کہ نیلسن بھی تصویر دیکھےگا، آخر ہم نے اس کا ٹکٹ خریدا ہے اور کتا نہیں ہمارا دوست ہے۔ سنیما کے منیجر نے جو ہمیں اچھی طرح جانتا تھا، خوشامد کرکے ہمیں راضی کیا، ٹکٹ کے پیسے واپس کئے، چائے پلائی اور رخصت کر دیا۔

    ہم باہر نکلے تو میری ہم جماعت یونیورسٹی کی کچھ لڑکیاں مل گئیں۔ ایک ہجوم سنیما گھر سے نکل رہا تھا اور ایک اندر جا رہا تھا۔ ہم سڑک کے کنارے کھڑے ہوئے اپنے کتے کے کارنامے بیان کر رہے تھے کہ نیلسن کے بھونکنے کی آواز آئی۔ ایک ٹامی جو شراب کے نشے میں دھت تھا اور غالباً تصویر دیکھنے آیا تھا، نیلسن کو اپنے بید سے چھیڑ رہا تھا۔ ہم تینوں نے ایک ساتھ کتے کا نام لے کر اسے آوازیں دیں، نیلسن نیلسن، ٹامی کتے کو چھوڑ ہماری طرف بڑھا۔ ہمارے ساتھ اتنی دیر میں ایک بہت مضبوط قسم کے کشمیری دوست آ گئے تھے، جو اس زمانہ میں غالباً پانیر اخبار میں کام کر رہے تھے۔ ان کے اور ٹامی کے درمیان گھونسے بازی شروع ہوگئی، ہمارا کشمیری دوست چک ہر گھونسے کے ساتھ نیلسن کا نعرہ بلند کرتا تھا اور کتا اپنا نام سن کر اور زیادہ زور سے بھونکتا تھا۔

    لڑکیاں تتر بتر ہو گئیں اور یہ گھونسے بازی کوئی آدھے گھنٹے تک جاری رہی۔ پہلے تو ہم ہنس رہے تھے لیکن جب معاملہ زیادہ سنگین ہو گیا تو میں نے اور سبط حسن نے بیچ بچاؤ کی کوشش کی۔ لیکن نہ توٹامی کا ہاتھ رکتا تھا اور نہ چک کا۔ لیکن دیکھنے کے قابل عالم مجاز کا تھا۔ وہ گھونسے بازی کی گت پر چٹکی بجا بجا کر ناچ رہا تھا اور لہک لہک کر اپنے نامکمل گیت کے دو مصرعے گا رہا رتھا،  

    بول اری او دھرتی بول
    راج سنگھاسن ڈانواڈول

    (اس گیت کی ابتدا چند ماہ پہلے گوہر سلطان ک گھر پر سبط حسن اور فرحت اللہ کے باہمی جھگڑے میں ہوئی تھی)

    اب مجاز کے گیت، گھونسے بازی کے پینتروں، کتے کی بھوں بھوں اور چک کی زبان سے بلند ہوتے ہوئے نیلسن کے نعروں کے ساتھ ہم لوگ لڑتے لڑتے می فیر سے جنرل پوسٹ آفس تک چلے گئے۔ خیریت ہوئی کہ اس آدھے گھنٹے کے عرصے میں کوئی ٹامی ادھر سے نہیں گزرا اور کوئی پولس والا گوری چمڑی کی امداد کے لئے نہیں آیا، آخر ٹامی تھک کے بے دم ہو گیا اور اس نے جنرل پوسٹ آفس کے پاس پہنچ کر صلح کی پیش کش کردی، طے ہوا کہ کل شام کو اس جگہ پھر گھونسے بازی کا مقابلہ ہوگا، چک نے اس کی زمین پر پڑی ہوئی ٹوپی اٹھا لی اور کہا کہ یہ کل شام کو لڑائی کے بعد واپس کی جائےگی۔

    ہم لوگ ہنسنے لگے اور ٹامی لڑکھڑاتا ہوا واپس چلا گیا۔ سبط حسن نے بڑھ کر نیلسن کو اپنی گود میں لے لیا اور اسے اس پیار سے تھپکا جیسے چک کے بجائے اس کتے نے ٹامی سے بازی جیتی ہو۔ مجاز نے ٹامی کی ٹوپی چک سے مانگ لی اور اپنے سر پر پہن لی۔ دوسرے دن شام کو وہ ٹامی وہاں نہیں آیا، ہم لوگ بڑی دیر انتظار کر کے کافی ہاؤس چلے گئے اور نیلسن کو ٹامی کی ٹوپی پہنا کر ایک کرسی پر بٹھا دیا۔

    اس واقعے کے سات آٹھ برس بعد جب ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء کو میں اور مجاز بمبئی کے مسرت سے سرشار شہریوں کے ساتھ اوپیرا ہاؤس کے چوراہے پر آزادی کی خوشی میں ناچ رہے تھے تو یکایک مجاز نے اپنی جیب سے اس ٹامی کی میلی کچلی، پرانی ٹوپی باہر نکالی اور اسے اپنے سر پر رکھ کر ترچھا کر لیا، اب وہ پھر چٹکی بجا بجا کر ناچ رہا تھا، اور گا رہا تھا،  

    بول اری او دھرتی بول
    راج سنگھاسن ڈانوا دول

    گیت مکمل ہو چکا تھا اور سارا مجمع مجاز کے ساتھ گا رہا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے