مبادیات فصاحت
ہر زمانہ میں بعض افراد اس خیال کے ہوتے ہیں کہ قاعدہ اور قانون فضول ہیں۔ ان کے زعم میں مشق اور عادت سب کچھ سکھا دیتی ہے۔ وہبیت کا یہ جنوں دماغوں پر آج کل از حد طاری ہے۔ لیکن دیکھا جاتا ہے کہ جو لوگ ادب کے حق میں کٹر بت شکن ہیں وہ پرانے بت توڑ کر اپنے نئے بت بناتے ہیں اور خلقت سے ان کی پرستش کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اس میں کلام نہیں کہ ہر عروضی اچھا شاعر اور ہر صرفی اچھا ناثر نہیں ہوتا لیکن اس سے عروض اور صرف سے واقفیت کی ضرورت زائل نہیں ہو جاتی۔ متمدن جماعت کی مصروفیت کے ہر شعبے میں ضابطے اور قانون کی ضرورت مسلم ہے۔ ہاں قواعد فن اکثر آخری لفظ یا اتمام حجت پر محتوی نہیں ہوا کرتے۔ غرض و غایت علامہ سکا کی کی بھی وہی تھی جو آج کسی کی ہو سکتی ہے۔ لائحہ عمل میں خواہ اختلاف ہو لیکن اس سے قاعدے کی ہستی ساقط و باطل نہیں ہو سکتی۔ ذوق سلیم، معصوم ذہن، تیز تخیل اور سچے کان ضابطہ قدیم میں اصلاح و ترمیم ضرور کریں گے مگر قاعدے سے قطعاً منکر نہیں ہو سکتے۔
الفاظ کی بے جوڑ بندش، معقولیت سے تہی دستی، التزام تالیف کاعدم احساس، حسن ترتیب کلمات کا فقدان، جدت اور تازگی کی کمی، تخیل کی پستی اور فرو مائیگی وغیرہ، انشا کے نقائص مشق سے بہت کچھ رفع تو ہو جاتے ہیں لیکن اس سہولت اور وثوق سے نہیں کہ جب قاعدے سے بھی استمداد ہو۔ اور یہ وہ عیوب ہیں جو مخاطب کے ذہن کو متکلم یا منشی کے ذہن کے قریب نہیں پہنچنے دیتے۔ قدمانے نے جو معائب کلام گنائے ہیں، مثلاً تنافر کلمات، ضعف تالیف، تعقید لفظی و معنوی، حشو و زیادت، شتر گربہ، ذم کا پہلو، تولی اضافت وغیرہ یہ سب ان مدات میں ایک طرح سے موجود ہیں جن کا ذکر ابھی آیا ہے۔ ان کو خواہ مزید علیہ سمجھئے، یہ سب وہ عیوب ہیں جو مخل فصاحت ہیں۔ تاثر کلام کے منافی ہیں۔ ان سے بچنا ہدایت کے بغیر نا ممکن ہوتا ہے۔ ہدایت کا ماخذ استاد کی اصلاح ہو یا فن کی کتابوں کا مطالعہ، بات ایک ہی ہے۔
متقدمین نے جو قاعدے علم معانی کے تحت فصاحت سے متعلق وضع کئے، ان کا مطمح نظر زیادہ تر کلام کی لفظی حیثیت معلوم ہوتا ہے، نہ کہ اس کی معنوی حیثیت۔ قاعدہ وہی مفید اور واثق ہوتا ہے جو سائنٹیفک یا علمی اصول کی میزان میں پورا اترے۔ اس کی توضیح کے لئے میں ایک نہایت معمولی بات پیش کرتا ہوں۔ وہ ہے اسم ذات اور اسم صفت کی ترتیب، یعنی صفت و موصوف کی تقدیم و تاخیر کی طرف آپ کو متوجہ کرتا ہوں۔
سوال یہ ہے کہ کلام میں صفت سے پہلے موصوف لایا جائے یا اس کا الٹ؟ فرانسیسی اور فارسی زبانوں میں موصوف پہلے لایا جاتا ہے اور صفت اس کے بعد، انگریزی اور اردو میں عمل اس کے بر عکس ہے۔ مثال کے لئے، اسپ مشکی کو لیجئے۔ یہ تو ہوئی فارسی کی ترکیب۔ اردو میں کہیں گے ’’مشکی گھوڑا۔‘‘ سطحی نظر کے نزدیک ان دونوں فقروں میں کوئی فرق نہیں پایا جائے گا لیکن سائنس کی نظر میں فرق موجود ہے، اور بڑا فرق ہے۔ علم نفسیات کی رو سے اس دو لفظی فقرے کا تجزیہ اس طرح ہوگا۔ جب ’’اسپ مشکی‘‘ یا ’’گھوڑا مشکی‘‘ کہا گیا تو پہلے گھوڑا سامعہ نے اخذ کیا یعنی سامع کا ذہن گھوڑے، محض گھوڑے کی طرف معاً راجع ہو گیا اور چونکہ گھوڑے کی کوئی خصوصیت اس کے علم میں نہیں آئی ہے، اس لئے کسی گھوڑے کی شکل ذہن پر اثر آفریں ہو جاتی ہے۔
اغلباً سامع کا ذہن کمیت یا سبزہ گھوڑے کی طرف جائے گا کیونکہ ان رنگوں کے گھوڑے عموماً پائے جاتے ہیں اور روز مرہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب لفظ ’’مشکی‘‘ ایزاد کیا گیا تو تخیل کی رفتار میں مزاحمت ڈالی گئی۔ یا تو کمیت گھوڑے کا نقش لوح تخیل سے مٹا کر اس کی جگہ مشکی گھوڑے کا نقش کھینچا گیا یا اگر کمیت گھوڑے کا نقش ابھی مرتسم نہیں ہوا تھا تو اس ارتسام کا میلان روک دیا گیا۔ ان دونوں میں سے کوئی صورت ظہور پذیر ہو، ان میں سے ہر ایک مزاحمت کی منتج ہے۔ اس کے بر عکس اگر صفت کو پہلے اور موصوف کو بعد میں لائیں یعنی ’’مشکی گھوڑا‘‘ کہیں تو مغالطے اور مزاحمت کا امکان نہیں رہتا۔ ’’مشکی‘‘ ایک مجرد صفت کا حامل ہے اور کسی خاص تمثیل کا خالق نہیں۔ وہ ذہن کو اس خاص معروض کے تصور کے لئے تیار کر دیتا ہے جو مشکی رنگ کا ہے اور توجہ لگی رہتی ہے جب تک کہ معروض معلوم نہیں ہو جاتا۔
ان دو الفاظ کی اس ترتیب سے یعنی صفت کو موصوف سے قبل لانے سے ذہن کے فعل کے ساتھ کوئی مزاحمت نہیں ہوئی، نہ مغالطے کا امکان پیدا ہوا۔ لہذا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ ترتیب زیادہ مؤثر یعنی فصیح ہے، اسی طرح ’’جوان‘‘ اور ’’مرد‘‘ کی ترتیب پر نظر ڈالیے۔ اگر مرد جوان کہا جائے تو پہلے ’’مرد‘‘ کی صورت ذہن میں بیٹھے گی اور ذہن بھٹکے گا۔ اس تلاش میں کہ مرد کس قسم کا ہے؟ جوان ہے بوڑھا ہے یا ادھیڑ ہے، یا مغالطے کا شکار ہوگا جب تک کہ ’’جوان‘‘ کا لفظ اخذ نہ کرے۔ لیکن’’جوانمرد‘‘ کہنے سے یہ دقتیں رفع ہو جاتی ہیں اور ذہن کسی قسم کے اختلال اور تذبذب میں مبتلا نہیں ہوتا۔ اس کو میں کہتا ہوں قاعدے کا سائنٹیفک اصول پر مبنی ہونا۔ شاعر نے زندگی اور موت کی حقیقت اپنی طرز میں اس طرح بیان کی،
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
اسی طرح سمجھ لیجئے کہ فصاحت کیاہے، اجزائے کلام میں حسن ترتیب ہے اور انہیں اجزا کا پریشان ہونا فقدان فصاحت ہے۔
کہنا یہ مقصود تھا کہ تہذیب کے اور اداروں کی مانند زبان بھی ضابطے اور قواعد کی محتاج ہے۔ اسلاف نہ تو اس حقیقت سے بے خبر تھے اور نہ بے پروا۔ عوارض اور ضرورت کے مطابق انہوں نے فن انشا و تکلم کے قاعدے مدون کئے۔ اب عہد حاضر میں اگر زبان کا ڈھانچ اور زمانہ کی ضرورتیں کچھ اور ہیں، زاویہ نگاہ اور مطمح نظر بدل گیا ہے، زیادہ وسیع ہو گیا ہے، کلام اور انشاکی غرض و غایت بھی تغیر پذیر ہے، عندیہ بھی منشی کا وہ نہیں جو پہلے تھا، تو کیا پرانا ضابطہ تقویم پارینہ ہو گیا؟ یہ ایک قسم کی خوش فہمی ہے اور کیا کہوں۔ ریاضی اور ہیات کے عالم سے پوچھئے وہ کس طرح تقویم پارینہ کو حرز جان بنا کر رکھتا ہے۔ تازہ مشاہدات اور تحقیقات سے اس پر حاشیے چڑھاتا ہے ا ور اس کی مدد سے نئی تقویم مرتب کرتا ہے۔
اسی طرح زبان کے ان قواعد اور ضابطوں کو سامنے رکھ کر آپ نئے قاعدے انشا اور تکلم کے وضع کر سکتے ہیں اور زبان کے ضابطے کو معقولیت اور سائنس کا جامہ پہنا کر اس سے ہر کام لے سکتے ہیں۔ جاڑوں میں گرمی کے کپڑے پھینک نہیں دیے جاتے۔ ان میں سے کچھ تو گرم کپڑوں کے نیچے شعار کی طور پر استعمال ہوتے ہیں اورکچھ نمونہ کے لئے درزی کو دیے جاتے ہیں کہ وہ اس ٹھنڈی شیروانی کے مطابق گرم کپڑے کی شیروانی تیار کر دے۔ عام انسانی زندگی کایہ اصول تہذیب و تمدن کے تمام شعبوں پر عائد ہے۔ جو لوگ اسے نظر انداز کرتے ہیں وہ مصلح نہیں بلکہ تباہ کار اور ہنگامہ پرداز ہیں۔
سوال کے د وسرے پہلو پر بھی نظر ڈالنی لازمی ہے۔ جہاں دنیائے اردو میں ایسے اصحاب پیدا ہو گئے ہیں جو کسی قاعدے یا ضابطے کے پابند ہی نہیں، وہیبت کا جن ان کے سر پر ایسا سوار ہے کہ ان کی گردن کسی اصول اور ہدایت کے سامنے خم ہونے میں نہیں آتی۔ ایسے اصحاب بھی عنقا کا حکم نہیں رکھتے جو قدیم ضابطے اور دستور العمل میں سر مو تبدیلی اور ترمیم کو کفر و ارتاد کا مرادف سمجھتے ہیں۔ ان کا ادبی جبر و استبداد سیاسی جبر و استبداد سے کم نہیں۔ یہ ادبی سخت جان اور سخت گیر بھی زبان کے حق میں ایک طرح کا مزمن مرض ہیں۔ ان میں اور ان میں فرق وہی ہے جو تپ دق اور طاعون میں ہے۔ دونوں ادب کی جان کے لاگو ہیں۔
ان جملہ امور واقعی کو مد نظر رکھ کر اردو کی ترقی اور زبان کی توسیع متقاضی ہے کہ قدیم ضابطہ کا جائزہ لیا جائے۔ زمانہ کے تغیر اور ضروریات حالیہ کا لحاظ رکھا جائے۔ مستقبل کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے۔ منقول اور سند کے مقابلہ میں معقول اور سائنس کو جگہ دی جائے اور ایسا ضابطہ مرتب کیا جائے جو مقبول خاص و عام ہونے کی وجاہت رکھتا ہو۔ ان امور کو پیش نظر رکھ کر میں نے آج کے لئے یہ موضوع انتخاب کیا یعنی ’’مبادیات فصاحت‘‘ اور میں سمجھتا ہوں کہ حیدر آباد اس کے لئے نہایت موزوں مقام ہے۔ وہ مقامی جذبات سے مبرا ہے۔ دوسرے صوبوں کی ہنگامہ خیزی اردو زبان کے خلاف بے راہ روی سے معصوم ہے۔
جو کچھ عرض کیا گیا اور جواب گذارش ہوگا وہ ان صاحبوں کی طرف خطاب ہے جن کے دل میں اردو کی ترقی اور توسیع کی چیٹک ہے۔ جو اصلاح اور ترمیم ضروری کو ایک فعل حسنہ یقین کرتے ہیں۔ جن حضرات کو ان امور سے دلچسپی نہیں اور جو اپنی بے بضاعتی کو آزادگی اور بے قاعدگی کی خلعت فاخرہ پہنانا چاہتے ہیں ان کی طرف میرا روئے سخن نہیں۔ یہ شعر ان کے حسب حال ہے،
ہوتی نہیں قبول دعا ترک عشق کی
دل چاہتا نہ ہو تو زباں میں اثر کہاں
نظریہ فصاحت قدیم
اکثر سننے میں آتا ہے کہ فلاں شخص افصح الفصحا اور ابلغ البلغا ہے۔ یعنی اس کا کلام فصاحت کی جان اور بلاغت کی روح و رواں ہے۔ عام لوگ کہنے کو تو کہہ دیتے ہیں لیکن فصاحت اور بلاغت کا اصلی مفہوم ان کے ذہن سے اتناہی دور ہوتا ہے جتنا قطب شمالی سے قطب جنوبی۔ وہ سہل، سلیس اور با محاورہ کو فصاحت کی تعریف سمجھتے ہیں اور دبیز، بلند آہنگ و مغلق اور مشکل کلام کو بلیغ جانتے ہیں۔ لیکن خواص کے ذہن میں صرف حقیقت و مجاز، تشبیہ وہ استعارہ، تعریض و کنایہ اور ایجاز و اطناب وغیرہ صنائع بدایع بلاغت کا ماحول ہوتے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ بلاغت کے لئے فصاحت پہلی شرط ہے۔
ایک فلسفی کا قول ہے کہ دنیا میں سجاوٹ کو افادت پر غلط ترجیح دی جاتی ہے۔ شعور کا یہ نقص ادب پر بھی اس طرح حاوی ہے جس طرح تہذیب و تمدن کے دوسرے اداروں پر۔ کلام میں صحت اور تاثر کا لحاظ کم رکھا جاتا ہے۔ بناؤ چناؤ اور خود نمائی پر اکثر و بیشتر نظر رہتی ہے۔ مذاق کی سلامتی اور زبان کی صلاحیت کے تحفظ کو مد نظر رکھ کر قدیم زمانے میں ادیبوں نے قاعدے مقرر کئے اور فلسفہ انشا مدون کیا۔ اردو میں یہ قاعدے فارسی سے آئے اور فارسی میں عربی سے۔ لیکن اصل ماخذ اہل عرب کے دل و دماغ کا مولود نہ تھا بلکہ اہل عجم کا۔ یہ ایک نہایت دلچسپ منظر ہے کہ ان بزرگوں نے جو عربی نژاد نہ تھے، اہل عرب کی زبان میں اور عربی سے متعلق محاسن ومعائب سخن پر قواعد وضع کئے اور کتابیں لکھیں۔
فارسی میں سب سے پہلے سراج المحققین علامہ سراج الدین علی خاں آرزو نے علم معانی و بیان پر دو مختصر کتابیں تالیف کیں۔ ان کے نام ہیں ’’عطیہ کبریٰ‘‘ اور ’’موہبت عظمیٰ۔‘‘ اس کے بعد میر تقی کا اردو تذکرہ ’’نکات الشعرا‘‘ نکلا جس میں شاعروں کے کلام پر جابجا تنقیدی حاشیوں میں فصاحت کے بعض نکات واضح کئے گئے۔ میر مبرور خان آرزو کے عزیز اور ادبی تلمیذ تھے۔ نکات الشعراکی تنقیدوں سے اس امر پر روشنی پڑتی ہے کہ اب تک ادب اور شعر کے متعلق عربی اور فارسی میں جو ہدایتیں جاری ہو چکی تھیں، وہ سب یا ان میں سے اکثر اردو پر عائد ہیں۔ اسی زمانے میں مرزا قتیل کی کتابیں مثل ’’چار شربت‘‘ اور ’’نہر الفصاحت‘‘ وغیرہ نکلیں۔ دو کتابوں کا نام لینا اس تشکیل کی نفی کرتا ہے کہ اب تک قدما اور متوسطین نے ادب اور بیان پر جو کچھ لکھا وہ اردو پر حاوی ہے یا نہیں؟ وہ ہیں سید انشا کی ’’دریائے لطافت‘‘ اور مولانا صہبائی کا ترجمہ ’’حدایق البلاغت‘‘ حدایق البلاغت کا ترجمہ اردو زبان میں ہے اور مثالیہ اشعار بھی اردو کے ہیں۔
’’دریائے لطافت‘‘ اگر چہ اس زمانے کے دستور کے مطابق فارسی میں لکھی گئی لیکن اس کتاب کو اردو کے فن انشا کی اولین کتاب تسلیم کرنا چاہئے۔ زبان دانی کے بنیادی اصول اور قاعدے سید انشا نے قرار دیے۔ ان کی تشریح کی اور تمثیل سے اپنے عندیہ کو واضح کیا لیکن کہنا پڑتا ہے کہ فصاحت کا جہاں تک تعلق ہے، سید انشا کیا آج تک کوئی بھی اس مقام سے ادھر ادھر نہیں ہوا جہاں سکاکی اور قزوینی مقیم ہوئے، وہی ’’الفصاحت یوصف بہا المفرد و الکلام و المتکلم‘‘ کے ترجمے ہر کہیں دیکھنے میں آتے ہیں۔
اس ضمن میں صرف دو امور کی طرف توجہ دلا کر اصل مطلب پر آؤں گا۔ اول یہ کہ عربی کی جن کتابوں میں فصاحت کا تذکرہ آیا ہے وہ اگر چہ عجمیوں نے تصنیف کیں، لیکم ان کا مطمح نظر عجم نہیں بلکہ عرب تھا، اور چونکہ اہل عرب قدیم الایام سے فن خطابت میں طاق تھے اس لئے لابد تھا کہ منشی پر خطیب کو ترجیح ہوتی۔ فصاحت میں تثلیث کا مسئلہ یعنی فصاحت سہ گانہ کا وجود اس کی توثیق کرتا ہے۔ ’’فصاحت متکلم‘‘ سو زبان سے اس کی شہادت دیتا ہے کہ علم معانی و بیان پر جو کتابیں مشہور ہیں، ان میں مقدمہ کی ذیل میں فصاحت کے متعلق جو کچھ درج ہے وہ زیادہ تر خطابت پر عائد ہوتا ہے نہ کہ انشا پر۔ اگر چہ وہ جو کچھ بھی ہے انشا کے بارے میں اس سے بہت کچھ استفادہ ہو سکتا ہے لیکن اس سے فصاحت کی جامع و مانع تعریف مستنبط نہیں ہو سکتی۔ اور وہ تعریف تعریف کہے جانے کی مستحق نہیں جس میں یہ دونوں صفتیں موجود نہ ہوں۔ منطق کی رو سے تعریف جامع و مانع ہونی چاہئے۔ یہاں صرف یہ پچھلی صفت ہی پائی جاتی ہے، یعنی وہ کلام فصیح ہے جو ایسا اور ایسا نہ ہو جس میں تنافر نہ ہو، ضعف تالیف نہ ہو، تعقید نہ ہو وغیرہ۔
دوسرا امر ہے ’’فصاحت کلمہ۔‘‘ اس میں تنافر حروف و غرابت وغیرہ کی ممانعت کا ذکر آیا ہے، اور مثال میں ’’مستشزرات‘‘ 1 پر اعتراض کیا گیا ہے۔ میرا گمان ہے کہ وہ فاضل مولف اس کلمہ کی اتنی چتھاڑ نہ کرتے اگر خطیب اور خطابت انکے ذہن پر مسلط نہ ہوتے۔ میں یہ نہ کہوں گا کہ اگر یہ لغت صرف عربی کے مطابق صحیح ہے اور اجلل کی طرح متروک بھی نہیں قراردیا گیا۔ اسلوب بیان کے اعتبار سے اور معنی کے اعتبار سے بھی صحیح محل پر استعمال ہوا ہے تو پھر اس میں کیا فیہ نکل آئی؟ اگر یہ کہا جائے کہ اس لفظ کی جگہ امر اء القیس ’’مسترفعات‘‘ لکھ دیتا تو بہتر تھا تو اسے زیادہ سے زیادہ ترقی کہا جائے گا نہ کہ اصلاح۔ لیکن ان فاضل مولفوں نے ’’مشتشزرات‘‘ کے بدلے کوئی اور لفظ تجویز فرمانے کی زحمت نہیں اٹھائی۔
چونکہ یہ شعر فصاحت کلمہ کے تذکرے میں اس لفظ کی وجہ سے بہت بدنام ہے، اس لئے میں نہایت ادب سے یہ عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں کہ وہ بزرگ اگر چہ زبان عربی کے جید عالم تھے لیکن صاحب قاموس کی طرح اہل زبان نہ تھے۔ اس وجہ سے ’’مستشزرات‘‘ پر یہ اعتراض کر گئے۔ ممکن ہے میں غلطی پر ہوں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں اعتراض حرف شین کی وجہ سے ہوا۔ یعنی ش جو مہموسہ رخوہ ہے، درمیان ’’ت‘‘ کے، جو مہموسہ شدید ہے اور ’’ز‘‘ کے جو مہجور معجمہ، آ گیا ہے۔ اس سے ثقل تلفظ کا گمان ہوا۔
لیکن مجھے اس استدلال پر اعتراض ہے کیونکہ ’’رائے مہملہ‘‘ بھی تو مہجورہ ہے مثل ’’ز‘‘ کے۔ کہا گیا ہے کہ حرف قریب المخارج کے اجتماع سے بھی ایسا ثقل پیدا ہوتا ہے جو مخل فصاحت ہے۔ ا سی بنا پر اس آیت میں ’’الم آعہد‘‘ 2 میں کہا گیا کہ ایسا ثقل ہے جو تنافر کے قریب اور فصاحت کلمہ کے مخل ہے، مگر اصل میں ایسا نہیں ہے، اس کی تفصیل کے لئے ’’الاتقان‘‘ کا مطالعہ ضروری ہے۔ اگر ایک لمحہ کے لئے مذہبی تقدس کی نظر ہٹا کر محض ادبی نگاہ قرآن مجید پر ڈالی جائے تو ثابت ہوگا کہ اس کا لفظ لفظ فصاحت کی روح و رواں ہے۔ ایسی تعریفوں سے جن کا نقص ظاہر کر چکا ہوں۔ ماثور ہو کر ایک صاحب نے اعتراض کردیاکہ ’’نوح یوحبط‘‘ 3 میں تنافر حروف ہے۔ یہ اور ایسے معترض حروف کے مخارج کی حقیقت سے جاہل مطلق ہیں۔ الف اور عین ہائے ہوز اور حائے حطی کی صحیح اور حقیقی آواز ادا کرنے سے ان کے آلات نطق عاری ہیں۔ جب اس بارے میں اہل زبان کو بھی مغالطہ ہو جاتا ہے، پھر غیر اہل زبان کا تو ذکر ہی کیا ہے۔
دیکھا جاتا ہے کہ آج کل طبائع زیادہ ذکی الحس ہیں۔ علل سے بحث نہیں۔ یہ واقعہ بدیہی ہے کہ عہد حاضر میں ہر امر میں خواہ وہ معاشرت یا ملیات سے متعلق ہو یا دینیات و ادبیات سے، لوگوں کے ذہن زیادہ حساس ہو گئے ہیں۔ اس خوف سے میں صرف یہ عرض کروں گا کہ اہل زبان ہی اپنی زبان کے کلام یعنی عبارت اور الفاظ کو صحیح انداز اور لب و لہجے سے ادا کر سکتے ہیں۔ غیر اہل زبان اس زبان کا خواہ کتنا ہی عالم اور مصنف کیوں نہ ہو، اس کے آلات نطق لب و لہجہ کی صحت اور طرز ادا کی قدرتی شستگی پر حاوی نہیں ہو سکتے۔
آیا فصاحت کا تعلق جیسا کہ متقدمین نے زور دیا ہے کلمہ کی ذات سے ہے؟ یہ مبحث ابھی تشنہ ہے۔ آگے ذکر آیا ہے کہ فارسی میں سب سے اول خان آرزو نے اہل ہند کو علم معانی اور اس کے رموز سے آشنا کیا۔ ممکن ہے اہل فارس نے اس موضوع پر اپنی زبان میں کچھ لکھا ہو لیکن وہ ہم تک نہیں پہنچا۔ خان موصوف ’’عطیہ کبریٰ‘‘ کے دیباچہ میں فرماتے ہیں،
’’دہر گاہ کہ نظر بر کتب قدیمہ وجدید افتاد کتابے در علم بیان کہ یک جز و فصاحت است، در فارسی بہ نظر در نمی آید۔۔۔ پس ایں رسالہ اول کتابے است کہ از آسمان فکر بلند بہ زمین شعر فارسی نازل شدہ۔‘‘
پھر انہوں نے دوسرا رسالہ ’’موہبت عظمیٰ‘‘ لکھا جس کو علم معانی سے متعلق کہا جاتا ہے۔ ان کے مندرجات و طواط کے حدائق السحر اور دوسری عربی کتابوں سے ماخوذ ہیں۔ جیسا عربی کتابوں میں التزام تھا، اس کی تقلید خان آرزو نے کی، یعنی فصاحت کا ذکر ضمناً اور مجمل طور پر دیباچہ میں کر دیا لیکن پھر بھی وہ ’’تلخیص‘‘ سے کچھ زیادہ ہی ہے۔ چونکہ سکا کی زبان سے نکل گیا تھا کہ کلام بلیغ کے لئے فصیح ہونا لازمی ہے، اس لئے انہیں اور ان کے متعاقبین کو چند لفظ فصاحت کی نذر کرنے پڑے۔ تثلیث فصاحت کا نظریہ بس اتنا ہے۔ فصاحت کلمہ، فصاحت کلام، فصاحت متکلم ان اجزائے تثلیث کی تعریفوں میں سب کا اتفاق ہے۔
1۔ فصاحت کلمہ خلوص اوست از تنافر حروف و غرابت و مخالفت قیاس لغوی۔ پہلی خرابی یہ واقع ہوئی کہ محض فصاحت کی تعریف کی طرف کسی کا ذہن راجع نہ ہوا۔ فصاحت کلمہ، فصاحت کلام اور فصاحت متکلم یہ تینوں اضافی ترکیبیں ہیں۔ کلمہ کی تعریف صرف میں اور کلام کی تعریف نحو میں آ جاتی ہے۔ اس لئے ضروری نہ تھا کہ ان کی تعریفیں وضع یا نقل کی جاتیں، کیونکہ صرف و نحو کا علم ان کتابوں کے مطالعے سے پیشتر ہونا لا بد ہے۔ لیکن یہ کسی کے خیال میں نہ آیا کہ اتنا تو فرما دیتے کہ فصاحت اسے کہتے ہیں۔ ان مرکبات میں فصاحت ہی اہم اور جزو اعظم ہے، اور اسی کی اصطلاحی حیثیت بتانے سے احتراز کیا گیا۔ لغت کی کتابوں نے اس لفظ کے معنی بتائے ہیں۔ ’’کشادہ سخن گفتن و تیز زبانی و خوش گوئی۔‘‘ مگر ایک لفظ جب اصطلاحی حیثیت حاصل کر لیتا ہے تو اپنے لغوی معنی سے کم و بیش دور ہو جاتا ہے۔ یہ ایک بدیہی امر ہے۔
خیر اب فصاحت کلمہ کو لیجئے۔ اس کی تعریف جو کچھ بھی کی گئی ہے وہ محض مانع ہے۔ یعنی تنافر حروف، غرابت اور مخالفت قیاس لغوی کا نہ ہونا۔ اس کلمہ کو فصیح کہا گیا جس میں تین عیب نہ ہوں۔ پھر فصاحت کلمہ کی ان تینوں شرائط کی تعریف یوں کی گئی۔
(ا) تنافر ان حروف کے اجتماع کو کہتے ہیں جن کا تلفظ طبع سلیم پر دشوار ہو۔ اسے ایک ذوقی امر بتایا گیا ہے۔
(ب) غرابت کی نسبت کہا گیا کہ وہ کلمہ جو غیر مانوس الاستعمال ہو یعنی جسے اہل زبان استعمال نہ کرتے ہوں۔
(ج) مخالفت قیاس لغوی کی نسبت فرمایا گیا کہ ایک کلمے کاقاعدے، قانون اور محاورے کے خلاف لانا۔ اس کی کئی قسمیں ہیں۔
(1) شعر کا وزن یا قافیہ درست کرنے کو کلمے میں تغیر کرنا جیسا اس شعر میں کیا ہے۔
آب انگور و آب نیلوفل
شد مرا از عبیر و مشک بدل
نیلو فر کی ’’ر‘‘ کو ’’ل‘‘ سے بدل دیا تاکہ قافیہ درست رہے۔ تو مطلب پورا ہو جاتا، مخالفت کا نقص بھی نکل جاتا۔
(2) کلمے کا بے موقع استعمال جیسے ’’ٹوٹنا‘‘ کی جگہ ’’پھوٹنا‘‘ کہنا۔ اس فقرے میں ’’اس کی باتیں سن کر میرا دل ٹوٹ گیا۔‘‘ یہاں ٹوٹ گیا کہ جگہ پھوٹ گیا کہا جائے تو مخالفت کا نقص عائد ہوتا ہے۔ اسی طرح اس جملے میں ’’ساجھے کی ہنڈیا چوراہے پر پھوٹا کرتی ہے۔‘‘ پھوٹنا کے بدلے ’’ٹوٹنا‘‘ کہنا ویسا ہی ہے جیسا پہلی مثال میں پھوٹنا تھا۔
(3) الف اشباع جو بعض کلموں کے آخر میں ضرورت شعری کی وجہ سے بڑھا دیا جائے، جیسے نظامی نے اس مصرعہ میں کاخ کو کا خا باندھا ہے،
بسا کا خاکہ محمودش بنا کرد۔
زیادہ تفصیل غیر ضروری ہے۔
میں یہ عرض کروں گا کہ کاخ کو کاخا کہنا غلط، دل ٹوٹ گیا کو دل پھوٹ گیا کہنا غلط ہے۔ اسی طرح تغیر یا تقلیب وغیرہ سے کلمے کی ہیت بدل دینا غلط اور ممنوعہ ہے۔ جو شخص ’’رحیم بخش‘‘ کو حریم بسک اور ’’قادر‘‘ کو ’’کادر‘‘ کہتا ہے اور غلط اور مہمل الفاظ بول رہا ہے۔
اب دیکھنا ہے کہ فصاحت کلمہ کی جو تعریف قرار دی گئی، معقولیت کے کس درجہ میں رکھی جا سکتی ہے؟ اس بارے میں یہ جتانا ہے کہ کوئی کلمہ جو علم صرف کے قواعد سے مطابقت رکھتا ہے، اپنی لغوی حیثیت میں فصیح یا غیر فصیح نہیں ٹھہرایا جا سکتا، ہاں اس کا مناسب یا غیر مناسب استعمال۔ یا صَرف ہی وہ عمل ہے جو اسے یعنی اس کے استعمال کو فصیح یا غیر فصیح بنا سکتا ہے اور یہ صرف یا استعمال کلام سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ جب ایک جملے یافقرے میں کسی کلمہ کا استعمال ہو تو بداہۃ کلام کی ہستی پیدا ہوگئی۔ لہذا فصاحت یا غیر فصاحت کا اطلاق کلام پر ہوا نہ کہ کلمے پر۔
اگر وضو کے مسئلے کو فقہ کی کسی کتاب میں مطالعہ کر رہے ہوں یا اس سے متعلق تحریر کریں تو جور بین کا کلمہ ضرور استعمال ہوگا اور وہاں وہ کلمہ ہر گز غیر فصیح نہ ہوگا لیکن اگر آپ غزل میں یہ لفظ استعمال کریں جیسے پیرہن، آنچل، نقاب، دامن اور گریبان کا ذکر ہوتا ہے تو یقیناً یہ صرف اس کلمے یعنی جور بین کابے محل ہوگا، اس لئے غیر فصیح۔ یہی حال ان کلمات اور مرکبات کا ہے جو غالب اور ناسخ کے پہلے کے کلام میں پائے جاتے ہیں یعنی ان کی غزلوں میں۔ اگر ان میں سے اکثر قصیدے یا نثر میں صرف کئے جاتے تو مضائقہ نہ تھا۔
جو لفظ متروک ہو چکے ہیں وہ گویا زبان سے خارج کر دیے گئے۔ لغات میں جو وہ پائے جاتے ہیں تو اس غرض سے کہ متقدمین کا کلام سمجھنے میں مدد ملے۔ اب میں فصاحت کلمہ کے نظریہ کا تجزیہ پیش کرتا ہوں۔ پہلی خامی اس نظریہ میں یہ نظر آتی ہے کہ جہاں تک فارسی یا اردو کا تعلق ہے، متقدمین یا متاخرین نے کلمہ میں تنافر حروف کی مثال پیش نہیں کی جس سے ان کے عندیہ کی وضاحت ہوتی لیکن صاحب غیاث اللغات نے اس بارے میں طبع آزمائی کی ہے۔ فرمایا ہے جیسے شمع علم، صدق قول میں ثقل تلفظ ہے۔
اول تو مجھے ان کو کلمہ تسلیم کرنے میں کلام ہے۔ یہ دونوں مرکب وہ نوعیت نہیں رکھتے جو خوش گفتار یا سخن شناس کی ہے۔ بلکہ شمع علم اور صدق قول ایک کلام کے دو ٹکڑے ہیں، جو اس میں سے قطع برید کر کے الگ دکھائے گئے ہیں، شمع اور صدق، علم اور قول کو ضرور کلمہ کہا جائے گا، ان مرکبات کی مستقل حیثیت نہیں۔ بفرض محال اگر صاحب غیاث اللغات کا یہ ادعا مان بھی لیں تو ان کے مذہب کے مطابق ملل، قصص اور اساس وغیرہ سینکڑوں عربی اور فارسی کلمے کلام سے خارج کر دینے پڑیں گے اور خود ان کی کتاب کا نام یعنی غیاث اللغات انہیں کے قول کے مطابق فصاحت کلمہ کے متبائن ٹھہرے گا کیونکہ اس میں دو لام پے در پے آ گئے جیسے صدق قول میں دو قاف اور شمع علم میں دو عین تھے اور شش کا ہندسہ تو اعداد شمار سے خارج ہی کر دینے کے قابل ہے۔ اگر مومن کے اس شعر میں تنافر ہے تو وہ کلام سے متعلق ہے، کلمہ سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ وہ شعر یہ ہے،
پاؤں تربت پہ میری دیکھ سنبھل کر رکھنا
چور ہے شیشہ دل سنگ ستم سے پس کے
اعتراض ہے کہ چار سین ایک جگہ لا کے اکھٹے کر دیے۔ یہ اعتراض شاعر کے شعور تالیف کے خلاف ہو سکتا ہے ورنہ ان کلمات میں سے سنگ ستم سے پس کے کسی میں بھی اپنی مجرد حیثیت میں یعنی با اعتبار مجرد کلمے کے نام کونقل تلفظ یا تنافر نہیں۔ یہی کلمے جب مناسب محل پر صرف کئے جائیں تو اعتراض وارد نہیں کیا جاتا۔ یہی حال فارسی کے ان مصرعوں کا ہے،
(1) زمیں شش شد و آسماں گشت ہشت
(2) از یک کشش شہ شش صد شیر بلرزد
ان مصرعوں میں شش سے لے کر شیر تک کسی کلمہ پر تنافر حروف یا اثقال کا نقص عائد نہیں ہو سکتا۔ نقص جو ہے وہ کلام کا ہے۔ یہی کیفیت غرابت کی ہے۔ جو ربین کا ذکر آگے آ چکا ہے۔ اس ضمن میں یہ بتانا ہے کہ کوئی کلمہ اگر غیر مانوس الاستعمال ہے یعنی اہل زبان یا زبان داں اسے استعمال نہیں کرتے تو وہ اس زبان میں داخل ہی نہیں یا ایک مدت کے استعمال کے بعد متروک ہو گیا۔ متروکات کی طرف ابھی اشارہ ہوا ہے۔ لغات میں ہر علم و فن کی اصطلاحیں، ہر زمانے کے محاورے اور ہر عہد کے مستعملات لکھے ہوتے ہیں۔ اگر آپ ان الفاظ وغیرہ کو چھانٹ چھانٹ کر نکالیں اور کلام میں لائیں۔ محل، مناسبت، موضوع اور بے جا صرف، نیز صنف شعر کا لحاظ نہ رکھیں تو بے شک کلام کی گراں باری غرابت کے الزام کی مستوجب ہوگی۔
مثلاً آج کل کے فصحا اور نیز متاخرین نے فعل حال کی شکل کو جیسے جائے ہے کرے ہے کلام سے خارج کر دیا ہے۔ اب اگر کوئی قدامت پرست فعل حال کے یہ صیغے استعمال کرے تو بے شبہ اس کا یہ فعل اہل زبان کے ا ستعمال سے متجاوز ہوگا اور اس کا کلام غیر صحیح سمجھا جائے گا۔ مرزا غالب نے اپنے اردو دیوان کی تیسری اشاعت کے خاتمے پر لفظ کسو کی نسبت لکھا تھا۔
’’میں یہ نہیں کہتا کہ یہ لفظ صحیح نہیں، البتہ فصیح نہیں۔ قافیے کی رعایت سے اگر لکھا جائے تو عیب نہیں۔ ورنہ فصیح بلکہ افصح کسی ہے۔ ‘‘
اسی طرح بہت سے کلموں کے محل استعمال پر نظر تعمق ڈالی جائے تو یہ تعمیم درست ہوگی کہ کلمہ بجائے خود فصیح یا غیر فصیح نہیں ہوا کرتا بلکہ اس کا محل استعمال یا صرف ایسا ہو سکتا ہے۔ اس ضمن میں یہ واضح کر دینا بھی ضروری ہے کہ بعض متروک الفاظ ایسے ہیں جن کا استعمال عام صورتوں میں جائز نہیں لیکن مرزا کے کسو کی طرح اگر چہ اب کسو قطعا ًمتروک ہے، خاص محل پر جائز اور جاری ہے، جیسے نت کہ اس کا استعمال نیا کے ساتھ تو درست ہے اور صورتوں میں نہیں۔ اس سے واضح ہو گیا کہ فصاحت کا تعلق کلام سے ہے، کلمہ سے نہیں ہے۔ ہاں صحت کلمہ کے لئے لازمی ہے۔
مخالفت قیاس لغوی کو کلمہ پر عائد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اس کا مطلب ہے کلمہ کا قاعدے قانون اور محاورے کے خلاف لانا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جو کلمہ قاعدے اور قانون کے خلاف ہوگا وہ صحت سے محروم ہوگا۔ فصاحت یا غیر فصاحت کا اس میں دخل ہی کیا ہے۔ اگر فصاحت کلمہ کے اس نظریہ کو جس کی تشریح ہو چکی ہے مسلم اور موکد مانا جائے تو آپ ہی فرمائیں، ایران اور ہندوستان کے ان نامی استادوں کے حق میں کیا فتویٰ دیا جائے گا جو فرما گئے ہیں،
لنگنت گر ترا کند فربہ
سیر خوردن تراز لنگن فربہ
نہ دراں دیدہ قطرۂ پانی
حکیم سنائی نے ’’لنگن‘‘ کا کلمہ فاقہ کے معنی میں استعمال کیا ہے جیسا کہ ہندی میں ہوتاہے، قطرۂ پانی پر بھی نظر رہے۔ عرفی فرماتے ہیں،
در چاشت کہ از شبنم گل گرد فشاں است
آں یاد کہ در ہند در آید جکر آید
اس شعر میں جھکڑ آندھی کو ایرانی لہجے میں ’جکر‘ کہا گیا ہے، ارشاد ہوا ہے،
گیت خوانت زہرہ قوال و مکی رانت زحل
آبدا رت ابر نیساں و خواصت آفتاب
اس شعر میں گیت، اور مکی یعنی مکھی کا راگ حسن سماعت چاہتا ہے۔
سالکؔ کا شعر ہے،
سیر گشتم ز کچری ایام
ہوس خو ان سیم و زر نہ کنم
ہندی فارسی کی اس کھچڑی کی قبولیت کو ملاحظہ فرمایئے اور کسرۂ اضافت کا بھی خیال رکھئے۔
از سخن تاثیر ما از لفظ ہائے انتخاب
بستہ ہائے خوش قماش پر زانک آوردہ است
’’انک‘‘ وہ نشاں ہے جو ہندستان میں کپڑا بنانے والے یا بزاز تھانوں وغیرہ پر بنتے یا چھاپ دیتے ہیں۔ یہ سنسکرت کا لغت ہے، اس کے معنی ہیں نشان، پتا، سنسکرت میں خدا کے ناموں میں ’’نرانکار‘‘ بھی آیا ہے۔ اس کے معنی ہیں پہچان کی نشانی نہ رکھنے والا۔ آج کل قماش کے انک’کو‘ مار کا کہتے ہیں جو ٹریڈ مارک کا بگڑا ہوا ملخص ہے۔
امیر خسرو کے ہاں آیا ہے،
ہمہ راز نوک مژگاں زدہ بر جگر کٹارہ
مرزا صاحب نے اضافت سے اس ہندی لفظ کٹارہ کو اور بھی اپنا لیا۔ فرمایا ہے،
دلیر میروی از پے سیاہ چشماں را
کٹارہ نگہت بر جگر نیامدہ است
مرزا غالب نے فرمایا،
سر پہ چڑھنا تجھے زیبا ہے پر اے طرف کلاہ
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے ترا نمبر سہرا
بعض اہل عملہ انگریزی لفظ نمبر کو ’’لمبر‘‘ بھی کہتے اور لکھتے ہیں جیسے رجسٹروں کے اول خانہ کا عنوان لمبر شمار۔ اور مرزا صاحب کے فارسی دیوان میں ہے،
ارے نہ چک بود نہ تمسک زہر کہ ہست
نے دستخط نہ مہر نہ نام و نشاں اوست
مضمون شعر، نوٹ، بودفی زماننا
یعنی بدست ہر کہ بیفتاد آن اوست
اس کے باوجود کہ مرزا قتیل مع اپنی معانی و بیان کی کتابوں کے اتنے برس لکھنؤ میں رہے، شیخ ناسخ نے فرمایا،
ترے رخسار تاباں کا کبھی جو عکس پڑتا ہے
فریم آئینہ بنتی ہے ہالا ماہ کامل کا
’’فریم‘‘ اور ’’ہے ہالا‘‘ قابل ملاحظہ ہے۔
ذوقؔ کا ارشاد ہے،
پکارے سب کہ، قواعد ہے فوج کی شاید
کہ ’’فیر اڑا‘‘ رہے ہر صف میں ہیں قطار قطار
’’لال کتاب‘‘ اپنی اب بادہ لالہ رنگ ہے
میکدہ اپنے واسطے مدرسہ فرنگ ہے
آپ گھبرائیں نہیں، میں اور مثالیں مخالفت یا غرابت کی پیش نہیں کروں گا۔ خلاصہ یہ کہ وہ سکاکی ہوں یا رشید الدین و طواط، خان آرزو ہوں یا مرزا قتیل اور ان کا اجتہاد، نہ استدلال کی میزان میں پورا اترتا ہے نہ اساتذہ ایران و ہندوستان کے عمل کی رو سے قابل تسلیم ٹھہرتا ہے۔
اس فصاحت کلمہ کے فتوے نے ایک بدعت شنیعہ ہمارے ادب میں لا کر داخل کردی۔ خاص کر نظم میں شعرا کا مطمح نظر صرف کلمہ مفرد رہ گیا اور کلام و تخیل پس پشت ڈال دیے گئے۔ جہاں الفاظ پر غیر ضروری زور اور تاکید کا درہ لگایا گیا وہاں یہی نتیجہ ظہور میں آیا۔ اس لفظی فصاحت کے منتر نے عہد ٹیودر میں جوگت انگریزی لٹریچر کی بنائی تھی وہ ہی متاخرین کے زمانہ میں اردو شاعری خاص کر لکھنؤ کے ایک خاص طبقہ کی بن گئی تھی یعنی متکلم کی تمام و کمال توجہ کلام سے ہٹ کر کلمہ پر مرکوز ہو گئی۔ اس زمانہ میں تو انگلستان میں ایک شخص ایسا وسیع النظر پیدا ہو گیا جس نے کلمہ کے ساتھ کلام کا بھی لحاظ رکھا یعنی جان ملٹن، لیکن ہندوستان میں کلمہ اور مفرد کا جادو ایسا چلا کہ آج تک کلام اس کی بھول بلیاں میں چپر غٹو ہے۔
الفاظ کا تقابل اور مناسبت کا جنون بھی ا س ذیل میں آتا ہے جو منشی اور متکلم کے ہاتھ سے تخیل اعلیٰ کا سلسلہ چھڑا دیتا ہے اور کلام صرف الفاظ کا گورکھ دھندا رہ جاتا ہے۔ یہ ساری خرابی دلی والوں نے جن میں خان آرزوؔ اور مرزا قتیل کا بڑا حصہ ہے، لکھنؤ کی نو توڑ سر زمین میں جا کر پھیلائی اور پھر یہ ادبی بدعت کشش باز گشت کے قانون کے تحت خود دہلی پر بھی عائد ہو گئی۔ آج کل کے اکثر لوگوں کو اپنے زعم میں کلام کی آراستگی کا یہ سہل لٹکا ہاتھ آ گیا ہے جیسا کہ سیاست کا اصول ہے کہ ایک موقع جو خود بخود پیدا ہو گیا ہے کیوں نہ اس سے فائدہ اٹھا لیا جائے۔ یہی اصول آج کل ادبیات پر حاوی ہے۔ ہلدی لگے نہ پھٹکری رنگ چھوکھا دے۔
گیتا نے فلسفہ عمل پر اس ہدایت کے ساتھ اتمام حجت کیا کہ جو فعل تمہارا فرض ہے اسے انجام دیے جاؤ اور اس کے ثمر کے پھیر میں نہ پڑو۔ اسی طرح لوگ اچھے اچھے کلمات، شاندار ترکیبیں، بلند آہنگ لغات استعمال کرتے ہیں۔ بھئی اس سے مطلب کیا نکلا؟ اس کلام کا ماحصل کیا ہے؟ یہ سب اگر کہیں ہے تو شاعر کے بطن میں یعنی ذی رعب کلمات استعمال کئے جاؤ، کلام کی معنوی خوبی سے غرض نہیں۔ جب ہی تو مولانا صہبائی 4 نے تاکید کی،
’’مدار حسن قبول بر فصاحت کلام است۔‘‘
کلموں کے تقابل و تناسب وغیرہ کے بارے میں موصو ف کا شاکیانہ لہجہ بھی قابل غور ہے، فرمایا ہے، ’’پائے بند مناسبات شدن و آنگاہ بر ایں قدر کہ گامے بے مراعات آں بر ندارند و لقمہ بے ملاحظہ، آ درد دہن نہ گزارند ساپئے سعی رالنگ و مائدہ سخن را تنگ کردانیدن است۔ 5
یہاں ایک جملہ معترضہ ذہن میں آیا جس کا ذکر اگر چہ فصاحت کلمہ کی ذیل میں تو نہیں آتا لیکن فلسفہ کلمہ سے اس کا بہت تعلق ہے۔ اس لئے اس کا مجمل تذکرہ کئے دیتا ہوں۔ بعض کا خیال بلکہ یقین ہے کہ فارسی یا عربی الفاظ کا استعمال کلام میں زور پیدا کر دیتا ہے۔ خدا معلوم وہ لوگ زور سے کیا مراد لیتے ہیں۔ ایک ریل انجن لمبی ٹرین کو لے کربھاگے جاتا ہے ا ور جلدی سے منزل پر پہنچا دیتا ہے۔ یہ ہوئی ایک بات۔
آپ کسی کام کو گھر سے نکلتے ہیں، راستے میں آپ کو ایک گھوڑا نظر آتا ہے، جس کا رنگ نہایت ہی دلفریب ہے، بدن سڈول کہ سانچے میں ڈھلا ہوا، مور کی سی ٹھمک چال ہے، رگ و ریشے میں بجلیاں بھری ہوئی ہیں، اٹکھیلیاں کرتا جا رہا ہے۔ آپ ٹھہر جاتے ہیں اور اس گھوڑے کو دیکھتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ دکھائی دیتا ہے۔ اب غور طلب امر یہ ہے کہ آیا اس انجن میں زور تھا یا اس گھوڑے میں۔ آپ ذہن مبارک کو ضغطے میں ڈالیں۔ میں جلدی سے کہے دیتا ہوں کہ انجن میں بھی زور ہے اور گھوڑے میں بھی، مگر میں ایک زور کو جناتی کہوں گا اور دوسرے کو ملکوتی، کیونکہ انجن کا زور اضطراب آگیں ہے اور گھوڑے کا زور سکوں آفریں۔ اگر ا ٓپ اس گفتگو کو اقلیدس کی ایک شکل کے دعوے کی حیثیت دیں تو ثبوت میں چند شعر اساتذہ کرام کے سنیئے جن مین مشکل سے دو تین فارسی یا عربی الفاظ واقع ہوئے ہیں بلکہ انہیں فارسی یا عربی نہیں اردو ہی کہنا چاہئے۔ ناخواندہ شخص بھی انہیں سمجھتا بولتا ہے۔
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
مومن کے اس شعر میں صرف ایک فارسی لفظ ’’گویا‘‘ آیا ہے۔
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
ذوقؔ کے اس مطلع میں ایک لفظ بھی فارسی یا عربی نہیں آیا۔
وہ نہیں بھولتا جہاں جاؤں
ہائے میں کیا کروں کہاں جاؤں
ناسخ کے اس شعر میں بھی فارسی عربی کا کوئی لفظ دخل نہ پا سکا۔
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
غالب کے ا س شعر میں رونق، حال، بیمار یہ تین لفظ آئے ہیں۔ انہیں جو چاہئے سمجھ لیجئے۔
سامعین کرام کے مذاق اور ذہنیت کی تحقیر ہوگی اگر میں ان اشعار کی خوبیاں اور زور دکھانے بیٹھوں۔ بس اتنا کہوں گا کہ یہ وہ شعر ہیں جن پر سینکڑوں دیوان نثار ہیں۔ ادب میں زور اس موسل کو نہیں کہتے ہیں جو اوکھلی میں دھان کوٹتا ہے بلکہ زور نام ہے اس تاثر کا جس کا تعلق نفسیات سے ہے۔
حیطہ ادب میں یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ لفظ کے ٹکڑے جسے انگریز ی میں سلیبل کہتے ہیں اور ایکسنٹ، جسے ایک لفظ کے کسی جزو کی صوت کا توڑ کہئے اس کی معنوی حیثیت سے قطع نظر سامع کے ذہن کو تسخیر اور متاثر کرنے میں حد درجہ دخل رکھتے ہیں۔ انگریزی لفظ گرینڈ کے مقابلہ میں میگنیفیسنٹ اور اسی طرح ہمارے شاندار کے مقابلے میں عظیم الشان میں جو مابہ الامتیاز ہے، اس کی تفسیر کی ضرورت نہیں، فلسفہ انشا کا یہ ایک کنبہ ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
ہاں گفتگو تھی فصاحت کلمہ سے متعلق۔ میرا مذہب یہ ہے کہ جو کلمہ صحیح اور لغوی یا اصطلاحی یا مجازی معنی میں مستعمل ہو، اہل زبان کے محاورے کے مطابق ہو اور مناسب محل پر صرف ہوا ہو، موضوع کے اعتبار سے بھی درست اور بجا ہو، ایسے کلمے کلام میں استعمال کرنا اس کی خوبی اور تاثیر کو بڑھا دیتا ہے۔ اس سے زیادہ کہنا عبث ہے۔ جس کلمے میں غرابت یا مخالفت کا نقص ہو، اسے متروک سمجھنا چاہئے۔ نپٹ اور انجھواں، نین اور ندان کبھی مستعمل تھے، ان سے کلام چمک اٹھتا تھا مگر آج غریب ہیں۔ اسی طرح مخالفت قیاس لغوی کو قیاس کر لیجئے۔
تنافر حروف کا ذکر ’’مستشزرات‘‘ کی ذیل میں آ چکا ہے۔ اس بحث کا ملخص یہ ہے کہ آج تک فصاحت کے اول رکن کے باب میں جو کچھ فرمایا گیا وہ زیادہ تر موشگافی اور فصاحت کلام سے متعلق ہے۔ اس کے ذکر کی ضرورت نہیں کہ کوئی خوش فہم، موقع محل اور موضوع کو اونچے سے طاق پر رکھ کر لغت کی کتابوں سے لفظ لے لے کر کلام میں بھر دے۔
اب میں آپ کو فصاحت کی دوسری حد پر لے جانا چاہتا ہوں۔ میرا مطلب ہے فصاحت متکلم۔ آگے کہہ چکا ہوں کہ اس کا تعلق زیادہ تر خطابت سے ہے، ضمناً مکالمہ بھی اسی میں آ جاتا ہے۔ اگر کوئی شخص زنجیر کو زنزیر یا جنجیر، شام کو سام، قلم کو کلم کہے تو صاحب مذاق سننے والے ضرور بدمزہ ہوں گے۔ اس لئے ضروی ہے کہ بولنے میں لفظ صحیح تلفظ میں ادا ہو اور ہر حرف سے اس کی صحیح آواز پیدا ہو۔ بعض مقامی خصائص ایسے ہیں جو صحیح علم کے باوجود مکالمہ کو صحیح نہیں ہونے دیتے، اس کی وجہ آلات نطق کی بناوٹ کی خصوصیت اور عادت ہے، جس کا مداوا صحبت اور مزاولت کے سوا کچھ نہیں۔ ایک مفرد نظیر سے اس کی وضاحت ہو جائے گی۔
سید انشا نے دریائے لطافت میں جو گفتگو اور لہجہ میر غفر غینی کا لکھا ہے۔ اس سے اس امر پر تیز روشنی پڑتی ہے۔ میر غفر غینی کے آلات نطق کچھ ایسے واقع ہوئے تھے کہ ’ل‘ ا ور ’ر‘ وغیرہ کی آواز صحیح ادا نہ کر سکتے تھے بلکہ ان حروف کی جگہ ’غ‘ اور ’ف‘ وغیرہ کی آواز ناگزیر تھی۔ سحر البیان کے اس شعر کو،
چلی واں سے دامن اٹھاتی ہوئی
کڑے کو کڑے سے بجاتی ہوئی
وہ یوں کہتے تھے،
چغی واں سے دامن اٹھاتی ہوئی
کفے کو کفے سے بجاتی ہوئی
اس لہجے کی وجہ سے ان کا نام ہی غفر غینی پڑ گیا۔ ایسی ہی کیفیت قوموں کی ہے۔ مختلف ملکوں یا ایک ملک کے مختلف حصوں کے رہنے والوں کا لہجہ خصوصی طور پر خاص حروف کی آواز نکالنے میں مختلف ہوتا ہے۔ صحت تکلم اہل زبان کے لہجے سے وابستگی رکھتی ہے اور یہ امتیاز ہر ملک اور ہر زبان میں موجود ہے۔ قریش کے لہجے اور سبعہ احرف کا محض حوالہ دینا، امید ہے اس بارے میں کافی سمجھا جائے گا۔
ابھی کلمے کے جز یعنی سلیبل اور توڑ یعنی ایکسنٹ کا ذکر آ چکا ہے اور زبانوں میں توڑ کے فرق اور رد و بدل سے کلمے کے معنی بدل جاتے ہیں۔ کبھی اسم سے فعل اور فعل سے اسم بن جاتا ہے، اگر چہ کتابت وہی جوں کی توں رہتی ہے مثلاً انگریزی میں کنٹریکٹ اور کونٹریکٹ۔ مکالمے میں ایک اور چیز بھی ہے، جو کلام کے معنی اور متکلم کے عندیہ پر جید اثر رکھتی ہے۔ یعنی لہجے سے الفاظ پر زور ڈالنا جسے انگریزی میں امفیسس کہتے ہیں اس کا تعلق کلام سے ہے، کلمے سے نہیں۔ اس کی تشریح ایک جملے سے بخوبی ہو جائے گی جس میں یہی کلمات کا صوتی زور مختلف معنی پیدا کر دیتا ہے۔ وہ جملہ ہے۔
’میں کل دہلی جاؤں گا‘
(1) میں کل دہلی جاؤں گا؟ (آپ نے یہ کس سے سنا میں نے تو ایسا ارادہ نہیں کیا)
(2) میں کل دہلی جاؤں گا! (یہ کون کہتا ہے کہ کل جاؤں گا ابھی جانے کی تاریخ مقرر نہیں ہوئی)
(3) میں کل دہلی جاؤں گا! (اور لوگ کل جائیں گے میرا ابھی طے نہیں پایا)
(4) میں کل دہلی جاؤں گا۔ (اور کوئی جائے نہ جائے میں ضرور جاؤں گا)
(5) میں کل دہلی جاؤں گا۔ (آج یا پرسوں نہیں کل جاؤں گا)
(6) میں کل دہلی جاؤں گا۔ (بمبئی یا بنگلور نہیں، دہلی جاؤں گا)
آپ نے دیکھا کہ لہجے اور صوت کے اتار چڑھاؤ نے ان چاروں لفظو ں میں کیا معنی پیدا کئے۔ جملہ استفہامیہ ندائیہ سے خبریہ اور انشائیہ ہو گیا۔ اسی نہج پر اور آدھی درجن صورتیں اس جملے کی نکل سکتی ہیں۔ فصاحت متکلم کی حقیقت بس یہی اور اتنی ہے۔ اس سے زیادہ فن خطابت سے تعلق رکھتا ہے۔ اب فصاحت کلام کے بارے میں عرض کرنا ہے۔ اس کی تعریف کی گئی ہے، ’’خلوص آنست از ضعف تالیف و تنافر کلمات و تعقید۔‘‘
فصاحت کلام کی یہ تعریف کتب قدیمہ سے ماخوذ ہے۔ ایک صاحب نے ان تین عیوب مخل فصاحت میں ایزدی کی اور تکرار کلمہ واحد، توالی اضافت، ابتذال، تغیر، اثقال اور تناقص کی ایزا دی فرمائی۔ 6 ایک اور صاحب نے اس فہرست کو اتنی طوالت دی کہ فصاحت کی تعریف میں بیس عیوب گن کر دس عیوب قافیہ بھی شامل کر دیے۔
وہ تین عیبوں سے خلوص درکار ہو یا تیس عیبوں سے، معائب کلام کی ان فہرستوں کو فصاحت کلام کی تعریف قرار دینا معقولیت سے خارج ہے اور پھر توجیہہ و استدلال کا سایہ تک نہیں پڑنے پاتا۔ اس لٹریچر کے ملاحظہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ان عیوب کی کیفیت و کمیت کے بارے میں اختلاف رائے بھی ہے۔ بوستاں کا مطلع ہے،
بنام جہاں دار جاں آفریں
حکیم سخن بر زباں آفریں
ایک بزرگ دوسرے مصرعہ میں ضعف تالیف کا نقص نکالتے ہیں کہ دو کلموں میں جو فاعلیت کے معنی رکھتے ہیں، فصل جائز نہیں اور پھر خون دل آشام کی طرح بوجہ فصل محض اضافت ہی نہیں بلکہ یہاں حرف جار ہے۔ دوسرے بزرگ اس مصرعہ میں ضعف تالیف مانتے ہی نہیں۔
ضعف تالیف، تنافر کلمات، تعقید و غیرہ کی ماہیت بتانا اور مثالیں پیش کرنا فضول معلوم ہوتا ہے۔ وہ سب کچھ کتب متداولہ میں آ چکا ہے جو آپ کے ملاحظے سے گذر چکی ہیں۔
یہاں ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیوں متقدمین نے فصاحت کلام کی تعریف میں صرف تین عیوب سے خلوص کی تاکید کی اور کیوں متوسطین اور متاخرین نے اس تعداد کو دس گنا کر دیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ قدیم زمانہ میں کلام پر اور عیوب عائد ہو ہی نہیں سکتے تھے، لوگ زیادہ فصیح لکھتے تھے۔ جوں جوں کلام فصاحت کے معیار سے گرتا گیا عیوب کی فہرست بڑھتی گئی۔ یہ دلیل اس وقت پذیر ا ہو سکتی تھی جب ایک عہد کے کلام کا موازنہ دوسرے عہد کے کلام سے کیا جاتا۔ جیسے زمانہ جاہلیت کی شاعری کا موازنہ بعثت کے بعد کے زمانہ کی شاعری سے کیا جاتا ہے۔
فصاحت علم معانی کا جز و اعظم ہے۔ زیادہ تر اس وجہ سے کہ کلام بلیغ کے لئے پہلے فصیح ہونا لابد ہے۔ علم معانی و بیان وغیرہ کی تعریفیں وہی برقرار ہیں، لیکن فصاحت کی تعریف کہئے فصاحت کلام کی تعریف میں کیوں تبدیلیاں ہوتی رہیں؟ اس کے دو وجوہ ذہن میں آتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ متقدمین کی وضع کی ہوئی تعریف جو کچھ کہ تھی جامع و مانع نہ تھی اور دوسرے یہ کہ فصاحت کے باب میں تقریباً سب کا ذہن غیر مستقل تھا۔ ان کے مزاج کو چوں و چرا کی برداشت نہ تھی۔ اسی وجہ سے ان کے ملفوظات میں تخرجے تعمیے کا دخل دیکھا جاتا ہے۔ سبھوں نے زور طبع بلاغت پر صرف کیا۔ فصاحت کا ذکر چلتے چلتے کسی نے مقدمہ میں کر دیا کسی نے خاتمہ پر۔ جبھی تو آج ہر کوئی اچھے سے اچھے شاعر کو منہ کھول کر کہہ گزرتا ہے۔ فصیح نہیں، یہ لفظ فصیح نہیں۔ بھئی وجہ علت کیوں فصیح نہیں؟ جواب ملتاہے سنا نہیں کانوں کو بھلا نہیں معلوم ہوتا۔
اردو میں جو برچھے گردی اور طوائف الملوکی پھیلی ہوئی ہے اس کی علت غالی ادیبوں کا اختلال طبع اور اضطراب ذہن ہے۔ اسلاف ہر حال میں مستحق تشکر ہیں کہ وہ ایک داغ بیل تو ڈال گئے۔ متعاقبین کا فرض تھا کہ اگر اس میں کہیں کجی اور لرزش کے آثار تھے تو اسے خط مستقیم کی شکل دیتے تاکہ تمام الجھاؤ اور گلجٹیاں نکل جاتیں۔ سکاکی اور وطواط، خاں آرزو یا شمس الدین فقیر کا کہنا کوئی آیت و حدیث تو تھا ہی نہیں کہ اس پر کہیں انگلی رکھنا کفر تھا یا گناہ کبیرہ۔ بات یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا ہے، مشاطگی کو افادیت پر ترجیح دی گئی، اس سے کلام میں بہت سے نقص عارض ہو گئے۔ اس کی تشریح میں غالب اور ناسخ کا ایک ایک شعر پیش کیا جاتا ہے۔ میں اس کی نسبت اپنی رائے محفوظ رکھوں گا کہ جو اعتراض ان اشعار پر وارد کئے گئے ہیں وہ درست ہیں یا نہیں؟ میرا عندیہ ان اشعار کے پیش کرنے میں بس یہ ہے کہ خواص کو بھی ان کی صحت و فصاحت میں شبہ ہے اور شبہ کرنے والوں کی ادبی حیثیت سب پر روشن ہے کہ مسلم ہے۔ غالب کا شعر مطلع دیوان ہے۔
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
ناسخ کا مشہور اور روشن مطلع ہے،
میرا سینہ ہے مشرق آفتاب داغ ہجراں کا
طلوع صبح محشر چاک ہے میرے گریباں کا
اول شعر کو غلط بتایا گیا 7 اور دوسرے کو مہمل۔ 8 اعتراض کی نوعیت سے غرض نہ رکھ کر ضرور آپ کی بھی یہ رائے ہوگی کہ کلام کی مشاطگی کی بہتات نے فاضل معترضوں کو ایراد و تعریض کا موقع دیا۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ان دونوں شعروں میں مشاطگی کس کمال کی ہے۔ چیزے فزوں کندکی گنجائش نہیں۔
جیسا کہ گزارش ہوا ہے، سجاوٹ کا شوق جب غلبہ پا جاتا ہے تو انسان کا نفس ناطقہ افادت کی طرف سے بطی الحس ہو جاتا ہے اور شعور یا کہئے اس کی تمام ذہنیت، سجاوٹ اوربناوٹ کی حلقہ بگوش ہو جاتی ہے۔ آپ کو انتظار ہوگا کہ فصاحت کی تعریف آخر میں نے اپنے ذہن میں کیا قرار دی ہے۔ سنیئے گوش حق نیوش سے سنیے اور نظر اصلاح سے دیکھئے، ’’فصاحت کلام کا وہ وصف ہے جو قاری یا سامع کے ذہن کو منشی یا متکلم کے ذہن کے قریب ترین پہنچا دیتا ہے۔‘‘
اب یہ دیکھنا ہے کہ ذہنی قربت کن طریقوں سے مترتب ہو سکتی ہے، اس کے کئی مدارج ہیں۔ پہلا درجہ افہام و تفہیم ہے۔ کلام ایسا ہو کہ منشی اپنا مافی الضمیر قاری کو سمجھا سکے اور قاری بغیر دقت اور زحمت کے اسے سمجھ سکے۔ دوسرا درجہ ہے لطف اندوزی یا تلذذ یعنی سننے اور پڑھنے والے کو اس کلام سے لذت اور راحت حاصل ہو۔ او رسبحان اللہ بے ساختہ اس کی زبان سے نکلے۔ کہئے روح و جد میں آ جائے۔ تیسرااور آخری درجہ ہے تاثر، اس کے معنی ہیں مخاطب آپ کے کلام سے متاثر ہو کر آپ کا ہم خیال ہو جائے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہئے کہ دونوں میں کامل ذہنی قربت اور یگانگی پیدا ہو جائے۔ ان تینوں کیفیتوں کو فصاحت کہئے یا ارتقائے انشا، یہی کلام کی معراج ہے۔
فصاحت کے اس تدریجی ارتقا کے مدارج میں درمیانی درجہ وضاحت چاہتا ہے۔ ہر زبان اور ادب کے ثقات اس لطف کو مستحسن نہیں سمجھتے جس میں تہیج یا ایک قسم کی بربریت کا خروش پایا جائے۔ حسین ساگر سے جب آپ کی بنسی نے ایک بڑی کم خار مچھلی نکال کر کنارے پر ڈالی، اس وقت آپ کو لطف آیا ہوگا اور آپ خوش ہو ئے ہوں گے اور جب آپ نے اسی حسین ساگر سے ایک ڈوبتے ہوئے شخص کی جان بچائی تو اس وقت بھی آپ کو خوشی ہوئی اور راحت ملی۔ اب آپ خود دیکھ لیں کہ ان دونوں کیفیتوں کی ذہنی نوعیت میں کیا مابہ الامتیاز ہے۔ وہ نفسانی ہیجان جس میں بربریت کا جوش خروش ہو، دل گزیں نہیں ہوا کرتا۔ اس لئے دیر پا نہیں ہوتا، کیونکہ اس کی بنیاد میں روحانیت نہیں بلکہ مادیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ شاعر کہہ گیا ور کس حسرت سے کہہ گیا ہے،
حقیقت تم پہ کھل جائے ابھی اس درد الفت کی
گھڑی بھر تم جو میرے دل کو اپنے دل میں رہنے دو
شاعر نے اپنی دھن میں دل میں دل ڈالنے کی تمنا ظاہر کی۔ میں اسے دوسرے پیرایہ میں ذہنی قربت سے تعمیر کرتا ہوں۔ دونوں باتیں اصل میں ہیں ایک ہی۔ جب ایسے شخص سے آپ کا واسطہ پڑے جو وجیہہ ہو، خوش گفتار ہو، ستودہ اخلاق اور نیک سیرت رکھتا ہو تو اس کے لئے ضرور آپ کے دل میں انس کا احساس پیدا ہوگا۔ اسی طرح جب ایسا کلام پڑھنے یا سننے میں آئے جس میں الفاظ صحیح اور ترنم ریز ہوں، جس کے فقروں کی بندش چست اور سلجھی ہوئی ہو، جس میں اول سے آخر تک شباب تخیل کی اٹھان ہو، جس کا موضوع دلکش اور مطلب دل آویز ہو، مگر جس جواہر کے لیے آپ کو ہمالہ الٹ دینے کی ضرورت نہ پڑے، ایسا کلام قاری اور سامع کے ذہن کو، اس کے دل و دماغ کو اپنی طرف کھینچے گا اور انہیں کم سے کم وقت اور توجہ اس کلام کواپنے ذہن میں جذب کرنے کے لئے صرف کرنی پڑے گی۔
اسے میں کہتا ہوں ایک ذہن کا دوسرے ذہن کے قریب ترین ہونا۔ جن ہستیوں نے انسانوں کی ذہنیت پلٹ دی، معما گوئی اور بدیع گفتاری ان سے نامحرم تھیں۔ کلام مجید کی فصاحت بالا اتفاق ضرب المثل ہے۔ مستشرقین اس پر اتفاق کرتے ہیں کہ رگ وید میں جو رچائیں اوشا یعنی طلوع سحر کی شان میں ہیں، ان سے بڑھ کر فصیح کلام اور زبانوں کی نظم میں نہیں ملتا۔ اسی ضمن میں آتا ہے وہ اثر اور جذب ذہنیت جو مارٹن لوتھر کے کلام سے یورپ کی ذہنیت پر مترتب ہوا۔
پہلے درخت ہوا یا بیج؟ یا اولیت خیال کا حصہ ہے یا نطق کا؟ ایسے سوالوں کی ادھیڑ بن میں پڑنا سعی لا طائل ہے۔ وہ کچھ بھی ہو، یہ امر تو بدیہی حقیقت ہے کہ تخیل بغیر الفاظ کے ناممکن ہے۔ اسی استدلال کی بنا پر اسلوب کا اثر تخیل پر مسلم ہے۔ اچھی بات اچھے خیال کے لئے زبان اور اسلوب بھی اچھا چاہئے، بلکہ ان کا اثر بری بات کو بھی دل پذیر بنا دیتا ہے۔ متنبی نے ایک شاعر کو سن کر کہا،
واسمع من الفاظ اللعت للتی
یلذ بہا سمعی و لو ضمنت شتمی
(اس کی زبان سے میرے کان لذت پاتے ہیں، اگر چہ ان میں گالیاں بھری ہوں اور وہ مجھی پر پڑ رہی ہوں۔)
قصہ مختصر پھر عرض کیا جاتا ہے، ’’فصاحت کلام کا وہ وصف ہے جو قاری یا سامع کے ذہن کو منشی یا متکلم کے ذہن کے قریب ترین کر دیتا ہے۔‘‘
قربت ذہن نہایت جامع کلمہ واقع ہوا ہے۔ اس مبحث پر نہ صرف علم لسان بلکہ نفسیات کے تحت بہت کچھ کہا جا سکتا ہے۔ اگر میں یہ رام کہانی سنانے بیٹھوں تو لکچر دفتر ہو جائے اور مضمون پھر بھی تشنہ رہے۔ اس لئے بہتر ہے کہ قربت ذہن کی نظیر یا تشریح میں استاد کا شعر سنا کر آپ سے رخصت ہوں، فرمایا ہے،
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
حاشیے
(1) امرء القیس کا شعر ہے،
غدا یرہ مستشزرات الی العلی تضل العقاض فی مثنیٰ و مرسل
(2) سورۂ یسین
(3) سورہ ہود
(4) قول فیصل مولفہ مولانا امام بخش صہبائی دہلی۔
(5) قول فیصل مولفہ مولانا امام بخش صہبائی دہلی۔
(6) بحر الفصاحت، ص، 344
(7) شرح دیوان غالب مولفہ طبا طبائی
(8) گنجینہ تحقیق مصنفہ بیخود موہانی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.