میں کیوں لکھتا ہوں؟
غریبم و تو زبان دان من نہ غالب
بہ بند پرسش حالم نمی تواں افتاد
’’میں کیوں لکھتا ہوں؟‘‘
’’سویرا‘‘ نے یہ سوال چھیڑا ہے اور اب تک کئی لکھنے والے اپنے لکھنے کی الٹی سیدھی تاویلیں کر چکے ہیں اوران میں کافی تعداد ایسوں کی ہے جنہوں نے بات کا بتنگڑ نہ سہی تو زیب داستاں کے لئے بہت کچھ بڑھا دیا ہے۔ مجھے یہ زبردستی کا سوال معلوم ہوتا ہے۔ میں کیوں لکھتا ہوں؟ یا کوئی کیوں لکھتا ہے؟ اس کے جواب میں اگر یہ کہہ کر چپ سادھ لی جائے کہ اگر میں کوئی دوسرا کام کرتا ہوتا تو بھی سوال کا خطرہ باقی رہتا تو جواب دینے والے سے پھر کوئی مزید سوال کرنا زیادتی ہوتا۔
اگر میں گھسیارا ہوتا تو آپ اسی تیور کے ساتھ مجھ سے پوچھ سکتے تھے کہ میں گھاس کیوں کاٹتا ہوں؟ اس وقت میں کیا جواب دیتا؟ فی الحال بھی میں لکھنے کے علاوہ کیوں اور کام کرتا ہوں، مثلاً کالج میں لڑکوں کو پڑھاتا ہوں، بیوی بچوں کی ذمہ داریوں کو پورا کرتا ہوں، غم نہ داری بزبجز کے طور پر لڑکیوں کے اسکول کا معتمد اعزازی ہوں جو کافی جگر سوزی اور مغز گدازی کا کام ہے، لیکن کسی نے اب تک یہ نہیں پوچھا کہ میں دنیا کے یہ سارے دھندے اپنے سرکیوں لئے ہوئے ہوں۔ اگر اس سوال کا جواب دیا جائے تو اندیشہ ہے کہ آئندہ لوگ میرے دوسرے مناصب کے بارے میں بھی ایسے ہی سوالات کرنے لگیں گے۔
میں کیوں لکھتاہوں؟ کاش ہاجرہ مسرور کی طرح میں بھی کہہ سکتا کہ ’’جائیے نہیں بتاتے آپ کا جو بھی جی چاہے کر لیجئے۔‘‘ لیکن اس قسم کا جواب شاید میری زبان سے مناسب یا قابل قبول نہ ہو۔ ایک نہایت بے ساختہ جواب ہاجرہ مسرور ہی کی زبان میں یہ ہو سکتا تھا کہ ’’جی چاہتا ہے لکھتے ہیں۔‘‘ اور سوال کا اصلی جواب یہی ہے، مگر ایسے مختصر جواب سے پوچھنے والے کی تشفی نہیں ہو سکتی۔
تو سنئے۔۔۔ میں لکھتا اس لئے ہوں کہ لکھے بغیر رہ نہیں سکتا۔ میں لکھنے کے لئے مجبور ہوں، بالکل اسی طرح جس طرح بچھو ڈنک مارنے کے لئے مجبور ہے۔ اس میں نیک نیتی یا بدنیتی کو بالکل دخل نہیں اور یہ بھی سن لیجئے کہ میں لکھنے کے سوا کوئی کام سلیقہ سے نہیں کر سکتا، بالکل اسی طرح جس طرح بچھو ڈنک مارنے کے سوا کوئی دوسرا کام اسی اعتماد اورحسن اسلوب کے ساتھ نہیں کر سکتا۔ یہ ایک مثال تھی سمجھانے کے لئے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا منطقی غلطی ہوگی کہ میرے قلم کی جنبش اور بچھو کے ڈنک میں کوئی اور قسم کی نسبت بھی ہے۔ کہنے کا مطلب صرف یہ تھا کہ،
رگ سنگم شرارے می نویسم
کف خاکم غبارے میں نویسم
میری اٹھان ہی کچھ ایسی ہے کہ لکھنا پڑھنا میری زندگی کا ایک ضروری مشغلہ ہو کر رہ گیا ہے۔ بچپن سے علم وادب کی قدر اور زندگی کی تمام دوسری قدروں پر اس کی فوقیت کا احساس میرے ریشہ ریشہ میں پیدا کر دیا گیا تھا، اس احساس کی روشنی میں زندگی کے جس دوسرے کام کو دیکھتا تھا ادنی معلوم ہوتا تھا۔ یہ ایک لازمی نتیجہ تھا اس فضا اور ماحول اوران مواقع کا جو بچپن سے لے کر کم وبیش تیس سال کی عمر تک مجھے میسر رہے۔
میرے شجرے میں ایک طرف تو زمینداری تھی اور دوسری طرف علم وحکمت اور فقر و درویشی اور ستم ظریفی یہ ہے کہ مجھے دونوں میں سے ایک کے ساتھ بھی کوئی طبعی مناسبت نہیں تھی۔ میں ہمیشہ ایک کو زبردستی اور دوسرے کوخواب گزینی یا تاویل بازی یا نفاق اور فساد کے لئے ایک ڈھونگ سمجھتا رہا۔ لیکن میرے کردار کی ایک خصوصیت ڈاکٹر جنیویر مرحوم پرنسپل ایونگ کرسچین کالج الہ آباد کے الفاظ میں یہ رہی ہے کہ ’’یہ شخص جانتا ہے کہ کہاں سے یا کس سے کیا چیز لے لے اور کیا چیز چھوڑ دے۔‘‘ میں نے اس کا بڑا خیال رکھا کہ جاگیرداری اور علمی فضیلت اور درویشانہ تصوف دونوں سے جتنی اچھائیاں مل سکیں حاصل کر لوں، اور ان کی تمام نحوستوں کو نہ صرف چھوڑ دوں، بلکہ جہاں تک اور جس جس صورت سے ممکن ہو، ان نحوستوں کو مٹانے کے لئے والہانہ کوششیں کرتا رہوں۔
یہاں ایک بات اور ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔ آپ مارکس اور ہیگل کے نام سے واقف ہیں۔ دونوں کے نظریات میں زمین آسمان کا فرق ہے، یا خود بقول مارکس، ہیگل نے جدلیات (Dialectics) کوسر کے بل کھڑا کر رکھا تھا اور مارکس نے اس کو اپنی ٹانگوں کے بل کھڑا کیا۔ یہ بہت بڑا کام تھا، لیکن اگر ساری بحث کو اسی جملے تک محدود رکھا جائے تو سمجھنے والوں کی سمجھ میں بہت آسانی کے ساتھ آ سکتا ہے کہ ہیگل اور مارکس کے درمیان دراصل حقیقت کا کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ حقیقت کے قیام کے انداز میں فرق ہے۔ کہیں وہ سر کے بل کھڑی ہے کہیں ٹانگوں پر۔ مگر یہ تو مارکس وادیوں (Marxists) کو محض ہوشیار کر دینے کے لئے ایک بات کہی گئی اور مطلب یہ تھا کہ ہم کسی ایک جملے یا ایک فقرے سے خواہ مخواہ مرعوب نہ ہوں اور کسی کی رٹ نہ لگائیں۔
ہیگل اور مارکس کے نظریات زندگی میں محض سر اور پاؤں کانہیں بلکہ واقعی پورب پچھم کا فرق ہے اور مارکسیت ہیگل کے فلسفہ تصوریت پر ایک زبردست تنقید اور ترقی ہے لیکن یہ بھی یاد رکھنے کے قابل بات ہے کہ دنیا کی تواریخ میں کوئی دوبڑی شخصیتیں ایک دوسرے سے باہم اس قدر نزدیک اور پھر ایک دوسرے سے اتنا دور نہیں ہیں جتنا کہ ہیگل اور مارکس۔ دونوں کے درمیان جو زبردست جنس مشترک ہے وہ جدلیات ہے یعنی یہ خیال کہ زندگی بالضد ترقی کرتی ہے۔ ایک صورت اپنے اندر سے دوسری صورت، ایک قوت اپنے بطن سے دوسری قوت پیدا کرتی ہے۔ ایک نفی سے ایک مثبت پیدا ہوتا ہے جو اس نفی کا کفارہ ہوتا ہے۔
امریکہ کا مشہور مفکر اور شاعر ایمرسن جو بالکل دوسرے دبستان خیال کا پروردہ تھا زندگی میں ایک ’’قانون تلافی‘‘ law of Compensation دیکھتا ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے زیادہ فلسفیانہ گہرائیوں میں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ادنی اور پیش پاافتادہ مثالوں سے سمجھئے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ انتہائی کریہہ المنظر عورت یا مرد کو ایسا درد انگیز اور پرگداز گلا ملا ہے کہ اس کے ترانوں کے آگے بلبل کی چہک، کوئل کی کوک بھی مات ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص اندھا ہو جائے تو کچھ عرصہ کے اندر اس کے باقی اور حواس دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ تیز اور قابل اعتماد ہو جاتے ہیں۔ زندگی کی نامیاتی قوت ایک سمت کی کمی کو دوسری سمتوں میں زیادتی سے پورا کر لیتی ہے۔
مجھے اس نظریہ حیات کا حوالہ دینے کی ضرورت اس لئے پڑی کہ میرے خیال میں کچھ نیم شعوری اور کچھ شعوری طور پر میری زندگی میں بھی ایسا ہی ہوا۔ مجھے اور شاید مجھ سے زیادہ میری دادی کو، جو میری تمام ابتدائی تعلیم و تربیت اور مزاج و کردار کی تشکیل کی ذمہ دار تھیں، یہ احساس کانٹے کی طرح کھٹک رہا تھا کہ میری جسمانی ساخت خطرناک حد تک نازک اور کمزور ہے۔ میرا تو خیر بچپن یا لڑکپن تھا۔ میری دادی کو، جو غیر معمولی حد تک دوربین اور عاقبت اندیش تھیں، یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ میں جسمانی اعتبار سے کوئی کامیاب زندگی نہیں بسر کر سکتا۔ اسی کے ساتھ انہوں نے بہت جلد معلوم کر لیا اور مجھے بھی محسوس ہونے لگا کہ میرے اندر کچھ ایسی صلاحیتیں ہیں جو دو پیڑھی پہلے اور دو پیڑھی بعد تک میرے نسب نامہ میں کہیں نظر نہیں آ رہی تھیں۔
میری دادی نے میری ان صلاحیتوں کو تربیت دے کر پروان چڑھانے میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھا اور میں خود اپنی تمام کمزوریوں اور ناتوانیوں کا احساس لئے ہوئے اس پر کمر باندھ چکا تھا کہ اپنی ان قوتوں کو جن کو عام زبان میں غیر جسمانی قوتیں کہتے ہیں جس قدر ہو سکےگا فروغ دوں گا اور انہیں کے بل بوتے پر دنیامیں اپنی ساکھ اور اپنی قدر قائم کروں گا اور اب تک جو میں رہا اور جو کچھ کیا وہ میری دادی کی پیش بندی اور خود میرے عہد کی ایک نمایاں اور مبسوط شہادت ہے۔
میں نے جن صلاحیتوں کو مقبول عام زبان میں غیر جسمانی کہا ہے ان کو بھی جسمانی ہی مانتا ہوں۔ ہمارے اکثر و بیشتر اعضا اور قویٰ کے افعال کا تعلق ہمارے اندر کے بے شمار غدودوں کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔ حواس خمسہ کی طرح ہو سکتا ہے کہ ہمارے کچھ غدود زیادہ قوی اور فعال ہوں اور بعض کم۔ ایسی حالتوں میں سمجھ لیجئے کہ فطرت کا وہی قانون، جس کو ہیگل اور مارکس وغیرہ جدلیات کہتے ہیں اور ایمرسن نے ’’قانون تلافی‘‘ بتایا ہے، کارفرما ہے اور اگر خود ہمارے اندر شعوری طور پر اس کمی بیشی کا احساس پیدا ہو جائے تو ہم اپنی بعض کمزور قوتوں کے مقابلہ میں بعض دوسری قوتوں کو زیادہ توانا، زیادہ شدید اور زیادہ کارگر بنا سکتے ہیں اور جو قوتیں ہمارے اندر کمزور رہ گئی ہیں، ان کی وجہ سے ہماری زندگی خود اپنے لئے اور سماج کے لئے نامراد اور بےکار نہ ہونے پائے گی۔
مجھے ایک طرف تو بہتیروں کے مقابلہ میں ایک خاص عمر تک آزادی، فرصت اور سہولت کے خاطر خواہ لمحات نصیب رہے، دوسری طرف وہ تمام فراغتیں حاصل تھیں جن کو روایتی زبان میں ’’دولت روحانی‘‘ کہتے ہیں۔ میں نے تیرہ یا چودہ سال کی عمر میں جب انگریزی اسکول کے چھٹے درجہ میں نام لکھوایا تو عربی، فارسی اور کافی حد تک ہندی زبان کی شاعری سے پر اعتماد واقفیت رکھتا تھا۔ یہی نہیں، تفسیر و حدیث، علم فقہ، علم کلام، منطق اور معانی وبیان سبھی سے میری واقف کارانہ رسم و راہ ہو چکی تھی۔ نصابی کتابوں کے علاوہ مجھے جتنی باہر کی کتابیں مل سکتی تھیں، حاصل کرکے پڑھتا تھا اور ان پر غور کرتا تھا۔ یہ میری زندگی کا وہ معمول تھا جس کو میں عین زندگی سمجھتا تھا۔
میں بغیر کسی قسم کے پندار یا غرور کے کہہ سکتا ہوں کہ میری ابتدائی تعلیم و تربیت کچھ ایسی رہی کہ میرے مزاج و کردار میں وہ ہمہ گیری، وہ فراخ دلی، وہ آزادی اور وہ حقیقت آشنائی آ گئی جس کی مثال آج تک مجھ کو اپنے عزیزوں، دوستوں اور ملاقاتیوں کے وسیع حلقے میں کسی دوسرے کے اندر نہیں ملتی اور جس کی بنا پر آج باون سال کی عمر تک اپنے کو اپنے ملک کی بھری محفل میں اجنبی پا رہا ہوں۔ نظیری کے ’’غریب در وطن‘‘ کی اس سے زیادہ مکمل اور عبرت ناک مثال شاید ہی کوئی اور ملے۔ مجھے بے باکی کے ساتھ کھرے کو کھرا اور کھوٹے کو کھوٹا، سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ، اصلیت کو اصلیت اور فریب کو فریب کہہ دینے میں کبھی کوئی تامل نہیں ہوا اور میری زبان اور میرے قلم نے اس معاملے میں کبھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ ایسے موقعوں پر بڑے بڑوں کے جی چھوٹ گئے اور کوئی میرا آخر تک ساتھ نہ دے سکا۔ زندگی میں اکثر ایسے نازک لمحے آئے ہیں جب کہ میں نے خود کو اک تنہا اور بےیار و مددگار مجاہد پایا ہے اور اس مصلحت کو ش، مکر و ریا کی دنیا میں اپنے مقدر پر غور کرنے کے لئے مجبور ہو گیا ہوں۔
مشرقی تہذیب و تمدن اور علوم وفنون کے ساتھ بچپن ہی میں اتنا لگاؤ پیدا کر دیا گیا تھا کہ آج تک میرے اندر وہ ایک ذوق کی طرح کام کر رہا ہے، جس کی تکمیل کے لئے میں اپنے مطالعہ میں اس عمر تک اضافے کرتا رہا ہوں اور جہاں سے جو نیا ماخذ مجھ کو مل سکا ہے میں نے اس سے پورا استفادہ کیا ہے۔ بعد کو جب مجھے انگریزی زبان پر کافی قدرت حاصل ہو گئی تو اس کے توسط سے میں نے ساری دنیا کی تواریخ اور تمدن اور علوم و فنون کے متعلق جس قدر مواد اپنے اندر جذب کر سکا، کر لیا۔ یہ کوئی خودستائی نہیں ہے، بلکہ محض ایک امر واقعہ کا اظہار ہے۔ اب آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ اس اٹھان اور اس قماش کا آدمی پڑھنے لکھنے کے سوا اور کس مصرف کا ہو سکتا ہے۔
میں نے ادب کو نہ صرف اپنی زندگی کا ایک تفریحی مشغلہ سمجھا بلکہ اس کو ایک فطری منصب سمجھ کر ا ب تک انجام دیتا رہا۔ ایک زمانہ وہ تھا جب کہ اپنے رسالہ ’ایوان‘ اور اردو کے دوسرے جرائد کے لئے مہینہ میں کم سے کم پچاس صفحے ایک موضوع پر نہیں بلکہ مختلف مسائل پر ذوق و انہماک اور نشاط کار کے ساتھ کسی قسم کے صلہ کی توقع کے بغیر لکھ ڈالتا تھا اور خوش رہتا تھا۔ میں ایک طرف اگر بلند آہنگی کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ،
از نفس انچہ داشتیم صرف ترانہ کردہ ایم
تو دوسری طرف بڑی بے نیازی کے ساتھ یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ،
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
اردو کے ہر چھوٹے بڑے ادیب نے اپنے رشحات قلم سے میرے مقابلہ میں بہت زیادہ کمایا ہے۔ میں نے ادب کو اب تک اپنی معاش کا ذریعہ نہیں بنایا۔ اس سے زیادہ اس سلسلہ میں اب اور کیا کہوں۔ میرے لئے ادب زندگی تھا۔ لیکن اب میں یہ دعویٰ کس منہ سے کروں، اس لئے کہ،
اب تو یہ شغل بھی اے دیدہ گریاں چھوٹا
حقیقت یہ ہے کہ میرے اک اک نفس میں ابھی نہ جانے کتنے ترانے چھپے ہوئے ہیں۔ اگر حالات نے مساعدت کی اور جس دور انتشار سے اس وقت میں گزر رہا ہوں اس سے اگر محفوظ اور سلامت گزر گیا تو یہ نئے اور ان سنے ترانے بھی سناتا رہوں گا۔ فرصت اور اطمینان شرط ہے۔ ذوق وجدان کی ایک طرف فراوانی اور فرصت اور فراغت کا دوسری طرف یکسر فقدان، زندگی کی سب سے زیادہ عبرت ناک المناکی ہے اور ہمارے زمانے کا تو یہ ایک معمولی دستور ہو گیا ہے۔
ہماری نسل میں ایسوں کی تعداد اکثریت کا حکم رکھتی ہے جن کو جوہر قابل کہنا چاہئے اور جن کے اندر تخلیقی ذوق اور صلاحیت اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں، لیکن یا تو ان کے لئے فرصت کے لمحے یا مناسب مواقع مہیا نہیں کئے گئے اور وہ اپنا سارا ولولہ کار اور سارا نشاط تخلیق اپنے اندر لئے بیٹھے رہے، یا سماج کی بے درد اور مخالفت قوتوں نے ان کو بالکل غلط سمتوں میں ڈال دیا اور وہ مجبور ہو گئے کہ اپنی زندگی کی کثیف حاجتوں کو پورا کرنے کے لئے اپنی ساری تخلیقی قوتوں کو فنا ہو جانے دیں۔ شاذ و نادر دوچار شخصیتیں ایسی نکل آتی ہیں جو زمانہ کی ناہنجاری اور ہیئت اجتماعی کی جو ہر ناشناسی کا مقابلہ کرکے ایک باغیانہ انداز کے ساتھ اپنی انفرادیت کو کامیاب رکھنے کی مسلسل جدوجہد کرتی رہتی ہیں۔
لیکن ایسے انفرادی مزاج کے ساتھ زمانہ اور سماج کی قوتیں برابر برسرپیکار رہتی ہیں اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایسے نازک مقامات پر بڑے سلیقہ کے ساتھ شخصی مزاج کو اپنی تمام بغاوتوں کو سمیٹ کر وقت سے سمجھوتہ کر لینا پڑتا ہے نہیں تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ کھری سے کھری انفرادیت اور خالص سے خالص شخصیت کو اپنے دور کی مخالف شکتیوں کے ہاتھوں فنا ہو جانا پڑ رہا ہے۔ سعدی کا مشہور قول ہے کہ،
زمانہ با تونہ ساز دتو با زمانہ بہ ساز
اور یہ قول ان کے زمانے سے لے کر آج تک صحیح ہے لیکن زمانہ کے ساتھ سازباز کرنے کا بھی ایک سلیقہ ہے۔ اگر کسی کو یہ سلیقہ معلوم نہیں ہے تو وہ یا تو بہت جلد مٹ کر رہ جائےگا، یا زمانہ اس کو اپنا غلام بے دام بنا لےگا، اس لئے کہ زمانہ بھی شخصیت کو پہچان کر اس کے ساتھ سلوک کرتا ہے اور بقول اقبال ’’کسی کا راکب کسی کا مرکب کسی کو عبرت کا تازیانہ‘‘ ہوتا ہے۔ ہم کو نہ تو زمانہ کے ہاتھوں مٹنا ہے اور نہ زمانہ کا مرکب بننا ہے، بلکہ کبھی للکار کر، کبھی چمکارکر اور کبھی کسی دوسرے داؤں پیچ سے اس کو اپنے قابو میں رکھنا ہے۔
۱۹۳۲ء میں مجھے کچھ ایسا محسوس ہونے لگا کہ کاروبار شوق اور ذوق جمال کی تکمیل کے لئے جس فراغت اور یک سوئی کی ضرورت ہے وہ اس دور میں دنیا میں اور بالخصوص ہمارے ملک میں عنقا ہے۔ میر ے لئے بہترین مشغلہ لکھنا اور پڑھنا تھا جو ولولہ اور جو نشاط کسی کو معشوق کی معیت میں محسوس ہو سکتا ہے وہ مجھے ادب کے مطالعہ اور اس کی تخلیق میں محسوس ہوتا تھا۔ لیکن جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں اسباب و حالات میری امنگوں کا ساتھ نہ دے سکے۔ نہ رسالہ ’’ایوان‘‘ میری زندگی کا کفیل ہو سکا اور نہ ’’ایوان اشاعت‘‘ کی مطبوعات۔ مجبوراً مجھے رک کر سوچنا پڑا کہ وہ کون سی صورت ہو جو میرے مزاج اور ذوق کی رعایت رکھتے ہوئے میرا ذریعہ معاش بھی بن سکے۔
میرے کردار میں ایک نمایاں خصوصیت میرے ارادہ کی ضد کی حدتک بڑھی ہوئی پختگی تھی۔ تمام حائلات و موانع کے باوجود میں اب تک اپنے ارادہ میں برے بھلے کامیاب رہا۔ میں نے بہت جلد فیصلہ کر لیا کہ میرے لئے دوسرا بہترین مشغلہ درس وتدریس ہوگا۔ چنانچہ اب میں کالج میں پڑھاتا ہوں۔ اس سے بھی ایک حد تک میرا ذوق اظہار پورا ہوتا رہتا ہے۔ جب کبھی فرصت کے کچھ لمحے میسر ہو جاتے ہیں تو احباب کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ لکھ ڈالتا ہوں، جو نہیں نہیں پر بھی اتنا ہوتا ہے کہ میرے نام کی یاد کو سال بہ سال زندہ رکھے۔
زندگی نے مجھے بہت سے ایسے مواقع دیے کہ اگر میں اپنے لکھنے پڑھنے کے ذوق سے، جس کو میرے اکثر احباب ایک بے سود علت سمجھتے آئے ہیں، قطع نظر کر لیتا تو دنیوی نقطہ نظر سے ایک دوسے نہیں سیکڑوں سے بہتر رہتا۔ لیکن’’ثواب طاعت وزہد‘‘کی طرف ایسے لوگوں کی کمی نہیں جن کی طبیعتیں کسی طرح مائل نہیں ہوئیں۔ میں بھی انہیں لوگوں میں سے ہوں۔ میں نے اپنی وضع بھی قائم رکھی اور زمانے کے ساتھ بھی رہا۔ میں نے جس مجاہدے کے ساتھ ناموافق ماحول اور مخالف قوتوں کے مقابلہ میں اپنی اصلی فطرت یا سالمیت Integrity یا سیدھی سادی اصطلاح میں اپنی شخصیت کو قائم رکھا اس کا حال کچھ میں ہی جانتاہوں۔ مجھے یہ کہنے کا حق ہے کہ،
ایک میں دل ریش ہوں ویسا ہی دوست
زخم کتنوں کے سنا ہے بھر چلے
اس کو تعلی سمجھیے یا امر واقعہ یا مجبوری و بےچارگی کا اظہار۔ اب آخر میں مجھے پھر اپنا جملہ دہرانے دیجئے کہ لکھنا پڑھنا میری طبیعت کی افتاد ہے، اور میں لکھتا پڑھتا یا پڑھاتا اس لئے ہوں کہ دنیا کا کوئی دوسرا کام اس سے زیادہ ذوق اور قرینہ کے ساتھ نہیں کر سکتا۔
لیکن ’’سویرا‘‘ کے ادارے نے کم سے کم مجھ سے یہ سوال ناحق کیاکہ میں کیوں لکھتا ہوں۔ اس سے زیادہ موزوں اور برمحل سوال تو یہ تھا کہ میں اب کیوں نہیں لکھتا، یا اتنا کم کیوں لکھتا ہوں۔ یہ زیادہ اصلی سوال ہوتا اور اس کا جوجواب میں دیتا وہ میرے اہل وطن کے لئے زیادہ دلچسپ، زیادہ عبرت انگیز اور زیادہ بصیرت افروز ہوتا۔ ’’میں کیوں لکھتاہوں؟‘‘ اس سوال کا جواب نسبتا ًآسان تھا جو میں نے دے دیا لیکن ’’میں کیوں نہیں لکھتا‘‘اس سوال کا جواب دینا ایک پوری ’’ہفت خواں‘‘ کو دہرانا ہوگا جو خود میرے لئے بڑی آزمائش کا کام ہوگا۔ امید ہے کہ میرے اس ’’سرود بہ مستاں یاد دہا نیدن‘‘سے ’’سویرا‘‘ والے فائدہ نہ اٹھائیں گے اور مجھ سے وہ سوال نہ کریں گے جس پر میں خود اکثر ایک کسک کے ساتھ غور کیا کرتا ہوں اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ اس وقت اگر مجھ سے کوئی میرے آغاز و انجام کے بارے میں پوچھے تو سوا اس کے کچھ نہ کہہ سکوں گا کہ،
حال من بنگرد از عاقبت کارمپرس
عمر خود گشتم و درغصہ بہ پایاں رفتم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.