مراثی انیس کا تہذیبی مطالعہ
اردومرثیے کے تمام واقعات اور کردار عرب کی اسلامی تاریخ سے ماخوذ ہیں۔ ان میں کچھ بھی ہندوستان کا نہیں۔ لیکن مرثیہ کو جو فروغ ہندوستان میں حاصل ہوا، عرب ممالک یا ایران میں نہیں ہوا۔ اردو مرثیہ دکن میں بھی لکھاگیا اور دہلی میں بھی لیکن یہ اپنے عروج کو پہنچا لکھنؤ میں۔
ہندوستان کے عہد وسطیٰ میں تاریخی اور سماجی ضرورتوں سے جو مشترک تہذیب وجود میں آئی تھی، جوکبھی صوفیوں اور سنتوں کے اقوال میں اور کبھی بھگتوں کے گیتوں میں یا بابا فرید ونانک وکبیر کے ترانۂ توحید میں ظاہر ہوئی، اودھ میں بالخصوص لکھنؤ میں اسے ایک ایسامعاشرتی قالب مل گیا تھا کہ اس نے نہ صرف اردو زبان کوبلکہ اردو شاعری اور اس کی تمام اہم اصناف کو گہرے طورپر متاثر کیا۔ لکھنؤ میں اردومرثیے کی توسیع وترقی وہاں کے ثقافتی اور معاشرتی تقاضوں سے بے نیاز نہیں۔
یہ بات ہماری ادبی تاریخ کے ایک دلچسپ مبحث کا حکم رکھتی ہے کہ مرثیے کے واقعات کا جتنا گہرا تعلق عرب تاریخ سے ہے، ان کی پیشکش کا انداز اتنا ہی ہندوستانی معاشرت بالخصوص لکھنوی معاشرت، طرز بیان اور بیگمات کے اندازِ تخاطب کی ترجمانی کرتا ہے۔ اردومرثیے میں عرب کرداروں کے ساتھ ہندوستانی معاشرت کاذکر ایک ایسی کھلی ہوئی حقیقت ہے جسے مرثیے کاہر حساس قاری جانتاہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض ادبی مؤرخ اور نقاد اردو مرثیے کے اس پہلو کویعنی اس کی ہندوستانیت کو یکسر رد کردیتے ہیں اور اعتراض کرتے ہیں کہ ’’اس سے تصنع پیداہوتا ہے اور کردارنگاری میں تضاد لازم آتاہے۔‘‘
پھر ایسے ناقدین بھی ہیں جو اردو مرثیوں میں ہندوستانی عناصر کی تاویلیں پیش کرتے ہیں اور ان کی گفتگو اعتذار کی حد سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ یہ بات افسوسناک ہے کہ جو چیز مرثیے کی ادبیت، اس کے حسن ودلآویزی، اثر آفرینی اور شعری کشش کی ضامن ہو، اس کو کمزوری سمجھ کر رد کیا جائے یا اسے قبولا جائے تو بہ امر مجبوری اور طرح طرح کی تاویلیں کرکے۔
سوال یہ ہے کہ ادبی نقطۂ نظر سے اس بارے میں رویہ کیا ہونا چاہیے، یعنی شہدائے کربلا کے بیان میں ہندوستانی معاشرت کا ذکر اردو مرثیوں کی خوبی تسلیم کی جائے یا خامی؟ اس کا ہونا مناسب قرار دیا جائے یا نامناسب؟ اس سے بحث کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بعض ایسے اجزا کو سامنے رکھا جائے جن میں یہ رنگ جھلکتا ہے، میدان کربلا میں حق وباطل کی کشمش اپنی آخری منزل تک پہنچنے والی ہے، حصرت امام حسین اسلحہ زیب تن کرکے وداع ہونے کو آئے ہیں، زینب دیکھتی ہیں کہ اب بھائی کے بچنے کی کوئی صورت نہیں، گھر والوں کی آنکھوں میں دنیا اندھیر ہورہی ہے،
خیمے میں جاکے شہ نے یہ دیکھا حرم کا حال
چہرے توفق ہیں اور کھلے ہیں سروں کے بال
زینب کی یہ دعا ہے کہ اب ربِ ذوالجلال
بچ جائے اس فساد سے خیر الناس کا لال
بانوئے نیک نا م کی کھیتی ہری رہے
صندل سے مانگ بچوں سے گودی بھری رہے
ان اشعارمیں واضح طورپر ہندوستانی خواتین کے احساسات اور جذبات کی جھلک ہے۔ ’’صندل سے مانگ بھرنا‘‘ ہندوستانی رسم ہے، ’’کھیتی ہری رہے اور بچوں سے گودی بھری رہے‘‘ یہ دعائیں بھی ہندوستانی ہیں۔ ماتم میں ’’کھلے ہیں سروں کے بال‘‘ کارواج شاید عرب ملکوں میں بھی ہو، لیکن ہندوستان میں ماتم کا تصور اس کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ ’’لال‘‘ کا تصور بھی ہندوستانی معاشرے سے مخصوص ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جن آرزوؤں اور تمناؤں کا اظہارکیا گیاہے، وہ بھی ہندوستانی عورتوں کی ہیں۔
اس طرح کا ایک اور منظرنامہ ملاحظہ ہو، زینب اپنے بھتیجے علی اکبر کو اپنے بیٹوں سے بھی زیادہ چاہتی ہیں۔ شہادت کے بعد جب علی اکبر کی لاش خیمے میں لائی جاتی ہے تو زینب کا کلیجہ پھٹ جاتاہے۔ وہ بین کرتے ہوئے کہتی ہیں،
ڈیوڑھی پہ لائے لاش پسر کی جو شاہ دیں
باہر نکل کے بی بیاں سر پیٹنے لگیں
زینب کو یوں پکارا وہ زہراکانازنیں
دوڑو بہن کہ قتل ہوا اکبر حزیں
دولہا بنے ہیں خون کی مہندی لگائے ہیں
سہرا تمہیں دکھانے کو مقتل سے آئے ہیں
ہے ہے نہ تیرا بیاہ رچانا ہوا نصیب
ہے ہے دلہن نہ بیاہ کے لانا ہوا نصیب
پوتے کو گود میں نہ کھلانا ہوا نصیب
شادی کے بدلے خاک اڑانا ہوا نصیب
ندی لہو کی چاند سی چھاتی سے بہہ گئی
بہنوں کی نیگ لینے کی حسرت ہی رہ گئی
اور علی اکبر کی ماں بانو یوں بین کرتی ہیں،
ہنس ہنس کے اب یہ ماں کسے دولہا بنائے گی
واری جواب دو دلہن اب کس کی آئے گی
اب سالی کس کے ہاتھ میں مہندی لگائے گی
ماں بیاہنے کو دھوم سے اب کس کو جائے گی
بستی مری اجڑ گئی ویرانہ ہوگیا
بیٹھوں کہاں یہ گھر تو عزاخانہ ہوگیا
روایت ہے کہ امام حسین کی وصیت پوری کرنے کی غرض سے حضرت قاسم کا عقد حضرت امام حسین کی صاحبزادی فاطمہ کبریٰ کے ساتھ کربلا میں شہادت سے ایک دن پہلے کردیاگیا تھا۔ قاسم کی شادی اور شہادت کے بعد کبریٰ کا بین اردومرثیوں کا خاص موضوع ہے۔ اس موقع پر اکثر وبیشتر ان ہندوستانی رسومات کا ذکر آتا ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کی معاشرت کا لازمی جزو بن گئی ہے، مثلاًلگن دھرنا، کنگنا، سہرا، بدھی، اوڑھنی، رنڈ سالہ، تلک، کلاوا، دلہن کے ہاتھوں کی مہندی، آرسی مصحف، جہیز کا نکالنا، رخصتی وغیرہ۔ یہ واقعہ ہے کہ ان مقامات پر صاف صاف ہندوستانی معاشرت کے Motif اور کلیدی نشانات در آئے ہیں۔ ’’پھولا شفق سے چرخ پہ۔۔۔ الخ‘‘ سے یہ بند ملاحظہ ہوں،
ڈیوڑھی پہ لائے لاش جو سلطان بحر و بر
پردا اٹھایا ڈیوڑھی کا فضّہ نے دوڑ کر
لاشے کے پاؤں تھامے کوئی اور کوئی سر
چادر کمر کی تھامے تھے عباس نامور
لٹکی تھیں دونوں خاک میں زلفیں اٹی ہوئی
رخ پرپڑی تھیں سہرے کی لڑیاں کٹی ہوئی
لاشہ ادھر سے لے کے چلے شاہِ کربلا
دوڑے ادھر سے پیٹتے ناموس مصطفاؐ
فِضّہ تھی آگے آگے کھلے سر برہنہ پا
آئی جو صحن میں تو یہ رانڈوں کو دی صدا
چھپ جائے جس سے دور کا ناتا ہے صاحبو
دولہا دلہن کے لینے کو آتاہے صاحبو
بہنیں کدھر ہیں ڈالنے آنچل بنے پہ آئیں
اب دیرکیا ہے حجرے سے باہر دلہن کولائیں
رخصت ہو جلد تاکہ براتی بھی چین پائیں
جاگے ہیں ساری رات کے اپنے گھروں کو جائیں
دل پر سہے فراق کی شمیر تیز کو
ماں سے کہو دلہن کی نکالے جہیزکو
ناگاہ لاش صحن تک آئی لہو میں تر
پیٹے جوسر عروس کو بھی ہوگئی خبر
تھا سامنا کہ لاش پہ بھی جا پڑی نظر
گھبرا کے تب سکینہ سے بولی وہ نوحہ گر
دولہا کی لاش آئی ہے سہرے کو توڑ دو
مسند الٹ دو حجرے کے پردے کوچھوڑ دو
یہ کہہ کے نوچنے لگی سہرا وہ سوگوار
افشاں چھڑاکے خاک ملی منہ پہ چند بار
کہنے لگی لپٹ کے سکینہ جگر فگار
ہے ہے بہن بڑھاؤ نہ سہرے کو میں نثار
وہ کہتی تھی کہ جاگ کے تقدیرسوگئی
بی بی نہ پکڑو ہاتھ کہ میں رانڈ ہوگئی
یہ کہہ کے غش ہوئی جو قلق سے وہ نوحہ گر
حجرے سے دوڑی بالی سکینہ برہنہ سر
آکر قریب صحن پکاری بہ چشم تر
اے بی بیوکسی کو دلہن کی بھی ہے خبر
کیسی دھڑا دھڑی ہے یہ اماں کدھر گئیں
دوڑو پھوپھی جہان سے کبرا گزر گئیں
رو کر بہن سے کہنے لگے شاہِ بحر و بر
اس بدنصیب رانڈ کو لے آؤ لاش پر
بیٹی لٹے گی یوں ہمیں اس کی نہ تھی خبر
اب شرم کیا ہے دیکھ لے دولہا کو اک نظر
زخمی بھی ہے شہید بھی ہے بے پدر بھی ہے
دولہا بھی نام کو ہے چچاکا پسر بھی ہے
حضرت یہ کہہ کے ہٹ گئے باچشم اشکبار
پیٹی یہ سر کہ غش ہوئی بانوئے دل فگار
چادر سفید اڑھا کے دلہن کو بہ حالِ زار
گودی میں لائی زینب غمگین و سوگوار
چلائی ماں یہ گر کے تن پاش پاش پر
قاسم بنے اٹھو دلہن آئی ہے لاش پر
صدقے گئی چچی کو نہ ہووے کہیں ملال
رکھو دلہن کی پیٹھ پہ ہاتھ اے حسن کے لال
واری بس اب اٹھو کہ پریشاں ہے میرا حال
کیسا یہ خواب ہے کہ دلھن کا نہیں خیال
کروٹ تو لو کہ ماں کے جگر کو قرارہو
اس بچپنے کی نیند پہ اماں نثار ہو
ایک اور مرثیہ ’جب ہوئے عازِم گلگشتِ شہادت قاسم‘سے یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔ یہ اقتباسات قدرے طویل ہیں لیکن ادھر اُدھر سے اشعار پیش کرنے کے بجائے ضروری ہے کہ ان تمام حصوں کی کلی جمالیاتی اور معاشرتی فضا پر نظر رکھی جائے کیونکہ ان کی جمالیاتی تاثیر معاشرتی کوائف کی ادبی پیشکش سے پیدا ہوتی ہے،
مادرِ قاسمِ مقتول کو پرسا دیجے
رانڈ بیٹی کو ذرا چل کے دلاسا دیجے
گئے روتے ہوئے ناچار شہ جن و بشر
لاش دامادکی مسند پہ لٹادی رو کر
دیکھ بیٹے کو پچھاڑیں لگی کھانے مادر
خاک پر بانو گری تھام کے ہاتھوں سے جگر
شرم سے منہ بھی نہ رونے کو دلہن ڈھانپتی تھی
بیدکی طرح سر تا بہ قدم کانپتی تھی
آکے تب زینب بیکس نے کہا یہ رو رو
شرم اب کیسی ہے واری گئی گھونگھٹ الٹو
رانڈ ہو خاک تم اس چاند سے چہرے پہ ملو
بولی وہ ہائے پھوپھی جان یہ کیا کہتی ہو
یہ مجھے چھوڑ گئے خاک اڑانے کے لیے
کیا بنایا تھا دلہن رانڈ بنانے کے لیے
کہہ کے یہ کھول دیے گوندھے ہوئے سر کے بال
خاک پر ماتھے سے سہرے کو دیا توڑ کے ڈال
کہتی تھی رو کے یہ اے سیدِمسموم کے لال
تم ہوئے قتل ملا خاک میں میرا اقبال
بد تر از موت ہے مجھ رانڈکاجینا صاحب
کس طرح کاٹوں گی بچپن کا رنڈاپا صاحب
تم نے تو قتل کے میداں میں کٹائی گردن
سمجھیں گے اب مجھے بے وارث و بیکس دشمن
باندھیں گے کنگنے کی جا دستِ حنائی میں رسن
کوفہ وشام میں سر ننگے پھرے گی یہ دلہن
سرِ عریاں پہ ردا لاکے اڑھاوے گاکون
قید سے آپ کی بیوہ کو چھڑاوے گا کون
بین یہ ہوتے تھے جو دولہا کی مادر آئی
فضہ اک کشتی میں رنڈ سالے کاجوڑا لائی
ساس نے پیٹ کے سر بات یہ تب فرمائی
ہائے تو لٹ گئی اے میری بہو دکھ پائی
دل کا میرے کوئی ارمان نکلنے نہ دیا
ہائے یہ جوڑا بھی قسمت نے بدلنے نہ دیا
سامنے لا کے جو رنڈسالے کا جوڑا رکھا
پیٹ کر سینہ و سر کہنے لگی تب کبرا
صاحبو اس کے پہنانے سے کہو فائدہ کیا
رو کے تب مادرِ ناشاد نے بیٹی سے کہا
رسم دنیا کی ہے اے بیکس و غم ناک یہی
پہنو صدقے گئی رانڈوں کی ہے پوشاک یہی
لاش سے دولہاکی پھر کہنے لگی وہ رو رو
رات کے جاگے تھے بس سو چکے صاحب اٹھو
بیاہ کاجوڑا تو پہنے ہوئے دیکھا مجھ کو
اب پہنتی ہوں میں رنڈ سالے کاجوڑا دیکھو
واری حق میں مرے تم کچھ نہیں فرماتے ہو
سادے کپڑے نئی دلہن کو پہنواتے ہو
کہہ کے یہ اوڑھنی سر پر سے اتاری رو کر
اور اوڑھایا اسے دولہا کے تن زخمی پر
کہتی تھی پیٹ کے سر، اے میرے بیکس سرور
دے گا کاہے کو کفن تم کو کوئی بد اختر
یہ نشانی میں تمہیں سوختہ تن دیتی ہوں
اپنے سر کی تمھیں چادر کا کفن دیتی ہوں
مدینہ سے روانگی کے وقت حضرت فاطمہ صغریٰ کا کردار کئی مرثیوں میں بڑے درد کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں جو باتیں ان کی زبان سے ادا کی گئی ہیں، ان کاگہرا تعلق بھی ہندوستانی سماجی رویوں سے ہے۔ حضرت علی اکبر کی شادی کے بارے میں ان کی گفتگو سنیے۔ کیا بہن کے جذبات واحساسات کی یہ تصویر ہندوستانی معاشرتی کوائف Ethos سے تھرتھرا نہیں رہی؟ بہن کو اپنے بھائی کی شادی کی بڑی تمنا ہوتی ہے۔ وہ دہلیز روکتی ہے، نیگ مانگتی ہے، دولہا بنے ہوئے بھائی پر دوپٹے کا آنچل ڈالتی ہے۔ یہ سب ہندوستانی لڑکیوں کے امتیازی سماجی رویے ہیں۔ اظہر علی فاروقی نے ٹھیک لکھا ہے کہ، ’’فاطمہ صغریٰ کے کردار میں وہی روح پائی جاتی ہے جو ایک ہندوستانی لڑکی کے کردار میں ملتی ہے۔‘‘(۱) صغری، علی اکبر سے استدعا کرتی ہیں کہ بہن کی عدم موجودگی میں بیاہ نہ کرلینا اور بہن کو بھول نہ جانا،
جلد آن کے بہنا کی خبر لیجیو بھائی
بے میرے کہیں بیاہ نہ کر لیجیو بھائی
اسی طرح حضرت علی اکبر کی شہادت پر ایران کی شہزادی یہ کہہ کر نوحہ خوانی کرتی ہے،
نتھ چوڑیاں پہننے نہ پائی میں نوحہ گر
جو آج ٹھنڈی کرتی میں صاحب کی لاش پر
(۲)
مرثیے کے اس پہلو پر عموماً یہ کہہ کر اعتراض کیا جاتاہے کہ مرثیہ گو شعرا کا موضوع واقعات کربلا کا بیان تھا، لکھنوی معاشرت کی تصویر کشی نہیں۔ وہ اپنے زور تخئیل سے بھی لکھنؤ سے باہر کی دنیا کا تصور نہ کرسکے یعنی وہ اپنے نوابوں، امرا اور بیگمات کے کرداروں کی تصویر کشی سے آگے نہ بڑھ سکے اور بجائے اس کے کہ اہل بیت کی عظمت وتوقیر کو بلند کرتے، وہ ان کو لکھنوی رنگ میں پیش کرنے لگے۔ کہا جاتاہے کہ اگر انیس چاہتے تو ان کرداروں کو خالص عرب بھی دکھا سکتے تھے۔
بیگم صالحہ عابد حسین کا موقف اس بارے میں ادبی ہے۔ وہ لکھتی ہیں، ’’عربی آداب، عربی رہن سہن سے مسلمانوں کے دلوں میں زیادہ عقیدت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں لیکن محض ادبی عقیدت اتنی محبت اور احترام پیدا نہیں کرسکتی، جب تک کہ وہ ہستیاں جن سے آپ کو عقیدت ہے، ایسے جیتے جاگتے کردار بناکر پیش نہ کی جائیں کہ زمان ومکاں کا بُعد گویا مٹ جائے۔ انیس کے کلام کا یہ کمال ہے کہ اس کو پڑھتے اور سنتے وقت ذرا دیر کو تیرہ سو سال کا فاصلہ جیسے درمیان سے غائب ہوجاتاہے۔‘‘(۲)
بات دراصل یہ ہے کہ اگر انیس نے عرب کرداروں کو ہندوستانی لب ولہجہ نہ دیا ہوتا اور ہندوستانی رسم ورواج کا پابند نہ بنایا ہوتا، جب بھی دل سے ان کا احترام کیا جاتا، لیکن ان کے ساتھ ’’اپنائیت کا حساس اس قدر شدت سے محسوس نہ ہوتا۔‘‘ گویا انیس نے عمداً اپنے کرداروں کو ہندوستانی رنگ دیا۔ ’’کیونکہ انھیں احساس تھا کہ ہندوستانی رنگ میں پیش کیے گئے عباس اور زینب ہندوستانیوں کے دل سے زیادہ قریب ہوں گے۔‘‘(۳)
زمان ومکان کا بُعد مٹانا اور اپنائیت کا احساس پیدا کرنا شعری اعتبار سے ضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا انیس اور دوسرے مرثیہ گو اس معاملے میں کلیۃً آزاد تھے کہ وہ اپنے کرداروں کو کس رنگ میں پیش کریں؟ جو حضرات اردو مرثیے کی ہندوستانیت کو اختیاری چیز سمجھتے ہیں، وہ قوموں کی ملکی روح، افتاد ذہنی اور ان کے لاشعوری اور نسلی تقاضوں کو نیز شاعری کے تخلیقی عمل کو شاید پوری اہمیت نہیں دیتے۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ جب بھی کوئی مذہب یا عقیدہ کسی دوسرے ملک میں پہنچتا ہے تو اس کی بنیادی روح تو برقرار رہتی ہے، لیکن اس کا طرز اظہار اور پیرایۂ بیان وہاں کے مزاج عامہ اور جذباتی تقاضوں کا ساتھ دینے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور متاثر ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب یا عقیدے جو ایک سے زیادہ نسلی آبادیوں یا ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں، معاشرتی اور رسوماتی توسیعات اور امتیازی نسلی رویوں سے بے نیاز نہیں۔
عقائد کی پاکیزگی اور تاریخی واقعات کی صحت کی اہمیت تسلیم، بلاشبہ صحت واقعات کا تقاضا مذہبیات کی سطح پر یا تاریخ کی سطح پر ضروری ہے، لیکن شعر کے لیے یہ ضروری نہیں۔ شعر میں جب تاریخ آئے گی تو شاعری بن کر آئے گی یعنی یہ جذبے وتخیل کی رنگ آمیزیوں کے ساتھ آئے گی اور عمرانیاتی تبدیلیوں سے بے نیاز نہیں ہوسکتی۔ شاعر واقعات یا تاریخ سے متاثر ہوتا ہے، لیکن تخئیلی سطح پر محاورہ وزبان کے ذریعے ایک نئی حقیقت خلق کرتا ہے۔ یہ تخلیقی عمل کا تقاضا ہے۔ ایسا نہ ہو تو یہ اظہار شاعری کا درجہ پاہی نہیں سکتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جب قدیم تاریخی واقعات میں تفصیلات کا رنگ بھرا جائے گا، تو تفصیلات اسی معاشرت اور ماحول سے آئیں گی جس میں انھیں پیش کرنا مقصود ہے اور مرثیے کے معاملے میں یہ ماحول اور معاشرت ہندوستان ہی کی ہوسکتی تھی۔
واقعہ یہ ہے کہ شاعر اپنی معلومات تاریخی واقعات سے اخذ کرتاہے۔ لیکن وہاں سے اسے محض حقائق کا ایک چوکھٹا ملتاہے۔ محض چند خیالی لکیریں یا صرف ایک بنیاد۔ اب اس بنیاد پر تخلیق کا ایوان تعمیر کرتے ہوئے شاعر ایک دوسری ہی دنیا میں آجاتاہے، تخئیلی دنیا میں۔ تخئیل کی سطح پر اسے ایک گم شدہ دنیا کی، ایک نئی دنیا کی بازیافت کرنی پڑتی ہے۔ اس کام میں بہت سا مسالا بالخصوص عمرانیاتی رویے اور معاشرتی Motifs اور دوسرے کوائف، گرد وپیش کی دنیا سے لینے پڑتے ہیں۔ شعور تو صرف تاریخی واقعات کی منطق کو جانتا ہے، جبکہ لاشعور کے پراسرار خزانوں سے وہ ان گنت چیزیں آتی ہیں جو کسی بھی سماج کے جذباتی رویوں، افتاد طبع اور مزاج کی تشکیل کرتی ہیں، نیز جہاں تک کرداروں کے نفسیاتی رد عمل Psychological Reflexes کا تعلق ہے تو اسے بھی شاعر کو اپنے ماحول سے لینا ہی پڑے گا۔ چنانچہ Genuine تخلیقی عمل کے تقاضوں کی رو سے ہندوستانی معاشرتی کوائف Motifs اور جذبات واحساسات سے بچنے کا انیس کو زیادہ اختیار تھا بھی نہیں۔
شاعری میں اہمیت صرف اس بات کی نہیں کہ شاعر اپنے موضوع پر کتنا حاوی ہے بلکہ اس بات کی بھی ہے کہ خود موضوع شاعر پر کتنا حاوی ہے۔ انیس کے کمال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان کا شعور ومزاج تو موضوع کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ موضوع بھی ان کے ذہن وشعور کو جکڑ لیتا ہے، تب کہیں جاکر وہ بے مثال کردار تخلیق ہوئے ہیں جنھیں ان لوگوں نے بھی ’’جیتے جاگتے کردار‘‘ کہا ہے جو ان کی ہندوستانیت پر اعتراض کرتے ہیں۔ ان کرداروں کی شعری اہمیت اسی میں ہے کہ جن اقدار کی ترجمانی کے لیے یہ کردار پیش کیے گئے ہیں یعنی اعلیٰ نصب العین کی پاسداری کے لیے بڑی سے بڑی قربانی یعنی جان دے دینے سے دریغ نہ کرنا، اس کی جمالیاتی ترسیل یہ انتہائی اثر انگیزی سے کرتے ہیں اور اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ ان کے بیان میں شاعر نے جمالیاتی حقیقت کو خلق کیا ہے اور عمرانیاتی سچائیوں سے گریز نہیں کیا۔ اگر کیا ہوتا تو شاید انیس اتنے بڑے فنکار نہ ہوتے۔
یہ واقعہ ہے کہ انیس کا ذہن انیسویں صدی کے لکھنوی معاشرے کا ذہن تھا۔ بارہ سو برس پہلے کی تہذیب ومعاشرت جو انھوں نے نہیں دیکھی تھی، اس کا پرتاثیر اور دل ہلا دینے والا بیان وہ کر بھی کیسے سکتے تھے؟ ان سے ایسی توقع وہی حضرات رکھ سکتے ہیں جو شاعری اور تاریخ کا فرق نہیں جانتے یا جو شعری شاہکار اورتاریخ کے بے روح منظوم چربے میں کوئی فرق نہیں کرسکتے۔ انیس نے وہ کیا جو کسی بھی قوم یا کسی بھی ملک یا کسی بھی عہد میں کوئی بھی اعلیٰ شاعر کرتا ہے۔ ان کے لیے دوسرا راستہ تھا ہی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں عقیدے کی اصلیت کے ساتھ ساتھ اودھ کی زندگی اور اودھ کے معاشرے کی نبض بھی چلتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔
ادب میں فنکار خارجی حقیقت کے مقابلے میں ایک لسانی حقیقت خلق کرتا ہے، انیس نے بھی تاریخی حقیقت کی پیروی کے لیے بنیادی معلومات عرب تاریخ سے لیں لیکن تاثیر پیدا کرنے کے لیے انھیں گوشت پوست کسی حد تک اودھ معاشرت کی مدد سے پہنایا۔ اس طرح وہ نئی تخلیقی حقیقت وجود میں آئی جو مراثی میں ملتی ہے۔ تخلیق کے تقاضوں کی اسی پاسداری سے انیس کے کلام میں وہ شدت تاثیر پیدا ہوئی جس کی مقبولیت کے چمن پر ہمیشہ بہار رہے گی۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اگر اس بحث سے یہ تاثر پیدا ہو کہ انیس کے کرداروں کی معاشرت یکسر ہندوستانی ہے تو یہ بھی صحیح نہیں۔ بات بنانے والوں نے کچھ مبالغے سے بھی کام لیا ہے۔ کیا تمام مرد کردار عماموں، عباؤں اور قباؤں کے ساتھ سامنے نہیں آتے؟ اور کیا معاشرت اور رہن سہن میں بہت سی عرب چیزوں کا ذکر نہیں آتا؟ اس طرح تخلیقی عمل کی باز یافت کے اس گھال میل نے ایک نئی ملی جلی حقیقت کو جنم دیا ہے۔ یہ حقیقت بیک وقت ساتویں صدی کی بھی ہے اور انیسویں صدی کی بھی، پرانی بھی ہے اور نئی بھی۔ حق وایمان اور عزم واستقامت کی قدیم ترین قدروں کے جوش سے معمور بھی ہے اور شاعر کے چاروں طرف پھیلی ہوئی معاشرتی زندگی کی سچائیوں کی ترجمان بھی ہے۔
جیساکہ پہلے کہا گیا کہ تخلیقی عمل کی یہ بنیادی شرط ہے کہ شاعر عام حقیقت سے شعری حقیقت کی تخلیق کرتا ہے خواہ وہ ادبی شاعر ہو یا عوامی شاعر۔ مراثی کا یہ پہلو دلچسپی سے خالی نہیں کہ ادبی شاعری کی سطح پر رونما ہونے سے بہت پہلے یہ شعری حقیقت عزاداری کی مجلسوں اور عوامی مرثیوں میں جلوہ گر ہوچکی تھی۔ یہ عمل صرف انیس ہی کے یہاں نہیں ہوا۔ یہ روایت گجرات اور دکن سے چلی آتی ہے۔ مرثیہ جب خالص عوامی چیز تھا، اس میں یہ رنگ اور بھی گہرا تھا۔ بقول شیخ چاند، ’’گجرات اوردکن کے مرثیہ گویوں نے بلالحاظ زمان ومکاں عرب شخصیتوں کو اپنے زمانے اور مقام کے ماحول میں ڈھال کر پیش کیا ہے۔‘‘ شیخ چاند نے سودا کے مراثی کے اس پہلو پر بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔(۴) لگن بھرنا، منڈپ چھانا، مہندی، برات، جلوہ، شربت پلائی، نیگ وغیرہ کا بیان عوامی مراثی کی روایت میں شہادت کے پہلو بہ پہلو موجود ہے۔
ڈاکٹر مسیح الزماں نے ’’اردو مرثیے کا ارتقا‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’میر کے ہاں بھی ’’قاسم کی شادی اس دن رچائی‘‘ پورا مرثیہ ایسا ہے، جس میں ہندوستانی رسموں کا بیان کیا گیا ہے۔(۵) ’’اظہر علی فاروقی نے دہے یعنی عوامی مرثیوں کاذکر کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’آج بھی دیہات ایسی نظیریں پیش کرسکتے ہیں کہ اگر ہولی اور دیوالی میں ہندو اور مسلمان برابر کے شریک ہیں تو تعزیوں اور محرم کو بھی دونوں اپناسمجھتے ہیں۔ تعزیوں کی قطاروں میں اگر مسلمان مرثیہ خواں مرثیہ پڑھ کر ارباب جلوس پر رقت طاری کرنے کی کوشش کرتا ہے تو عقیدت مند بھگتن اور بھیلنی کی زبان سے دہے بھی سنائی دیتے ہیں جن کی عمر دراصل اردو مرثیوں کی عمر سے بھی زیادہ ہے۔‘‘(۶) گویا یہ روایت اردو میں انیس سے بہت پہلے چلے آتی تھی، بلکہ شاید اس زمانے سے جب سے مرثیہ کہا اور پڑھا جانے لگا۔
ہندوستانی معاشرت کی ترجمانی صرف شادی بیاہ کی رسموں تک محدود نہیں بلکہ بچپن میں پالنے کی معصوم مسکراہٹوں سے لے کر موت تک تمام مراحل کی معاشرتی ترجمانی کا حق ادا کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ مرثیہ کے کرداروں کے ذریعے آج سے دو سو سال پہلے کی ہندوستانی معاشرت کی جیسی تصویریں محفوظ ہوگئی ہیں، شاید مثنویوں کے علاوہ ان کی دوسری نظیر کہیں نہیں ملتی۔ گہوارے میں علی اصغر کا ہمکنا، کاجل لگانا، نظرِ بد کا ٹیکا، کالا دانہ اتارنا، بلائیں لینا، گھونگھٹ کا رواج، ہاتھ جوڑکر بات کرنا، قبروں پر جانا، چراغ روشن کرنا وغیرہ سبھی سماجی تصورات اور رسومات کی تصویریں مرثیوں میں جابجا دکھائی دیتی ہیں،
بیوہ کا لال بچ گیا صدقے حسین پر
اسپند کوئی کردے مرے نورِ عین پر
روئی جو سکینہ قدم شہ سے لپٹ کر
کبریٰ بھی لگی پیٹنے گھونگھٹ کو الٹ کر
مسند کو شہ دین نے منور کیا جاکر
لینے لگی بھائی کی بلائیں بہن آکر
کنگھی کسی کے ہاتھ کی بھاتی نہ تھی کبھی
بے میرے لیٹے نیند انھیں آتی نہ تھی کبھی
بے ان کے ماں کی قبر پہ جاتی نہ تھی کبھی
روئیں پسر یہ ان کو رلاتی نہ تھی کبھی
مٹی سے بچاتے ہیں سدا جس کا تنِ پاک
اس گل پہ گرادیتے ہیں خود سیکڑوں من خاک
تربت میں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا
شمعیں بھی جلاؤ تو اجالا نہیں ہوتا
ننھے سے ہاتھ جوڑ کے بولے وہ نونہال
ہم با وفا غلام ہیں کیا تاب کیا مجال
بولے یہ ہاتھ جوڑ کے عباسِ نامور
خیمے کہاں بپا کریں یا شاہِ بحر و بحر
بین کے معاملے میں بھی سربرہنہ کرنا، سینہ و سر پیٹنا، بال کھسوٹنا، زار وقطار رونا، آہ و واویلا کرنا، ڈیوڑھی پر ماتمی صف بچھانا، بیوگی کی تمام رسمیں، رنڈ سالا، عورتوں کا بین وغیرہ مضامین بھی ہندوستانی سماج سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ اگرچہ بال کھولنے کا ذکر دوسرے معاشروں خصوصاً ایران میں بھی ملتا ہے لیکن سر پیٹنے یا رنڈ سالا پہننے کی رسمیں ہندوستانی ہیں اور ان میں لکھنوی بیگمات کے جذباتی میلانات کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ بیگم صالحہ عابد حسین کا یہ خیال صحیح ہے کہ ’’انیس کے ہاں کربلا کے مرد مجاہدوں میں یہ رنگ ہلکا اور خواتین میں زیادہ شوخ ہے۔‘‘(۷)
اس کی وجہ یہ ہے کہ مردوں کے بیان میں تو شجاعت، دلیری، جواں مردی اور عزم کے تصورات سے تخیل کو غذا مل سکتی تھی اور زیادہ توجہ ان اقدار پر تھی، لیکن اہل حرم کی زندگی کو بیان کرتے ہوئے تخئیل کی جولانیوں کا موقع تبھی نکل سکتا تھا، جب ان کے گہرے درد وغم اور ایثار ومحبت کے جذبات کو بیان کیا جائے اور یہ ان خواتین کے برتاؤ، ان کے بین، ان کی رسوم، رہن سہن اور طرز گفتار ہی کے ذریعے ممکن تھا۔
نکلی حرم سے ایک زن فاطمہ جمال
گویا جناب سیدہ کھولے ہوئے تھیں بال
غل ہواخیمۂ اقدس میں کہ سرور آئے
پیچھے پردے کے حرم کھولے ہوئے سر آئے
دوڑے ادھر سے چھاتیوں کو پیٹتے حرم
ڈیوڑھی سے پہلے آیا لچکتا ہوا علم
ہلتا تھا خیمہ رانڈوں میں تھی یہ دھڑا دھڑی
آہوں کی بجلیاں تھیں تو اشکوں کی تھی جھڑی
کوئی ادھر کو غش تھی کوئی تھی اُدھر پڑی
آفت کاوقت تھا تو قیامت کی تھی گھڑی
دشمن کو بھی نہ بیٹے کا لاشہ خدا دکھائے
حضرت زمیں پہ گر کے پکارے کہ ہائے ہائے
ثابت ہے جو مرنا مجھے رنڈسالا پنھاؤ
ڈیوڑھی پہ چلو ماتمی صف گھر میں بچھاؤ
خود کہہ کے گئے تھے وہ سلامت نہ پھریں گے
عباس بس اب تا بہ قیامت نہ پھریں گے
پھینک دی ہند نے یہ سنتے ہی سر پر سے ردا
پیٹ کر چھاتی کو چلائی کہ ہے ہے آقا
بات صرف بین یا رسومات تک محدود نہیں۔ اردو مراثی میں ہندوستانیت کے دوسرے پہلو بھی ہیں۔ جنگ کے واقعات میں اگرچہ معاشرتی کوائف کی زیادہ گنجائش نہیں تھی، تاہم یہاں بھی یہ جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔
میخیں زمیں کی اس کی تگاپو سے ہل گئیں
دونوں کنوتیاں بھی کھڑی ہو کے مل گئی
دشمن کو کیا نبرد میں بچنے کی آس ہو
لڑلے کٹاریاں یہ فرس جس کے پاس ہو
یوں برچھیاں تھیں چار طرف اس جناب کے
جیسے کرن نکلتی ہے گرد آفتاب کے
تن تن کے جو کاندھے پہ رکھے بچوں نے بھالے
ماں تکتی تھی ہاتھوں سے کلیجے کو سنبھالے
اک صف میں برچھیوں کی چمک تھی کہ الحذر
لچکا رہے تھے ڈانڈ سواران خیرہ سر
تھا اک گلا تو خنجر بے پیر کے لیے
وہ برچھیاں تھیں سب تن شبیر کے لیے
ہتھوانس کے تیغ و سپر اکبر یہ پکارے
کیا بکتے ہو بیہودہ سخن منہ پہ ہمارے
گینڈے کی ڈھال کاٹتی ہے تیغ آبدار
لڑکوں سے فوجیں بھاگی ہیں منہ پھیر پھیر کے
ہاتھی کو مار ڈالا ہے بچوں نے شیرکے
چتلے ہیں جتنے سانپ، وہ ڈستے نہیں کبھی
گرجے ہیں جو بہت وہ برستے نہیں کبھی
جب آئی سن سے کاٹ کے جوشن نکل گئی
اڑ کر صفوں کے بیچ سے ناگن نکل گئی
حملے کے وقت گھوڑے کی کنوتیوں کے کھڑے ہوکر مل جانے اور تیغ کے ہتھوانسنے کا تصور ہندوستانی ہے۔ برچھی، برچھے اور نیزے میں جو فرق ہے، وہ ظاہر ہے۔ کٹاری، ڈانڈ اور بھالے ہندوستانی ہیں۔ شجاعت، دلیری اور بہادری کے سلسلے میں ارجن کا ذکر آتا ہے۔ مرثیوں میں گینڈے، ہاتھی، چتلے سانپ اور ناگن کا تصور بھی اسی سرزمین سے تعلق رکھتا ہے۔ انیس کا کلام بحر زخار ہے۔ یہ چند مثالیں محض نمونے کے طورپر پیش کی گئیں۔ صرف میدان جنگ کے بیانات سے ایسی تمام مثالیں جمع کی جائیں تو ان کی تعداد بلاشبہ سیکڑوں تک پہنچے گی۔
غرض انیس کی شاعری میں ہندوستانیت کے کئی پہلو اور کئی جہتیں ہیں۔ معاشرتی کوائف، جذباتی رویے، رسم ورواج، رہن سہن، بین وبکا، میدان جنگ، ان کی کچھ جھلک اوپر پیش کی گئی۔ انیس کے یہاں اس کا اثر منظر نگاری، فطرت، موسم اور صبح و شام کے بیان پر بھی ہوا ہے۔ بعض اشعار میں کوسوں تک بچھی ہوئی ’’مخمل سی وہ گیاہ وہ گل سبز وسرخ و زرد‘‘ اور ’’تھا موتیوں سے دامن صحرا بھرا ہوا‘‘ کے جو پیکر ہیں، ان کی حسی اور بصری کیفیتوں کا ہندوستانی مناظر سے تعلق ظاہر ہے۔ ڈاکٹر مسیح الزماں نے لکھا ہے، ’’انیس کے یہاں مناظر کے بیانات خصوصاً چہرے میں صبح کے مناظر کے ساتھ لہلہاتے ہوئے سبزے اور چٹکتی ہوئی کلیوں کا ذکر خاص کربلا کی سرزمین کا نقشہ پیش نہیں کرتا۔۔۔ ان بیانات میں بہت سی ایسی چیزیں نظر آتی ہیں جن کے ہونے کا امکان کربلا کے میدان میں نہیں تھا۔‘‘(۸) اظہر علی فاروقی نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ’’یہ مناظر اور کیفیتیں، یہ سبزہ زار اور چمن زار کربلا کے ریتیلے اور تپتے ہوئے میدانوں کی طرف نہیں بلکہ کسی اور طرف اشارہ کرتے ہیں۔‘‘(۹)
پھولا شفق سے چرخ پہ جب لالہ زار صبح
گلزارِ شب خزاں ہوا آئی بہار صبح
کرنے لگا فلک زرِ انجم نثارِ صبح
سر گرم ذکرِ حق ہوئے طاعت گزارِ صبح
تھا چرخِ اخضری پہ یہ رنگ آفتاب کا
کھلتا ہے جیسے پھول چمن میں گلاب کا
چلنا وہ بادِ صبح کے جھونکوں کا دم بدم
مرغان باغ کی وہ خوش الحانیاں بہم
وہ آب و تاب نہر وہ موجوں کا پیچ و خم
سردی ہوا میں پر نہ زیادہ بہت نہ کم
کھا کھا کے اوس اور بھی سبزا ہرا ہوا
تھا موتیوں سے دامنِ صحرا بھرا ہوا
وہ نورِ صبح اور وہ صحرا وہ سبزہ زار
تھے طائروں کے غول درختوں پہ بے شمار
چلنا نسیمِ صبح کا رہ رہ کے بار بار
کوکو وہ قمریوں کی وہ طاؤس کی پکار
وا تھے دریچے باغِ بہشتِ نعیم کے
ہر سورواں تھے دشت میں جھونکے نسیم کے
وہ پھولنا شفق کا وہ مینائے لاجورد
مخمل سی وہ گیاہ وگل سبزو سرخ و زرد
رکھتی تھی پھونک کر قدم اپنا ہوائے سرد
یہ خوف تھا کہ دامنِ گل پہ پڑے نہ گرد
دھوتا تھا دل کے داغ چمن لالہ زار کا
سردی جگر کو دیتا تھا سبزہ کچھار کا
(۳)
اب آخر میں اس بنیادی سوال کو لیجیے کہ انیس کی شاعری کا کتنا حصہ ایسا ہے جہاں کسی ہندوستانی رسم کا ذکر نہیں، یا کسی خارجی ہندوستانی مظہر کی طرف بھی اشارہ نہیں، یعنی سہرا، نیگ، صندل، لگن، منڈپ، کنگنا، ہاتھی، رنڈ سالا، کچھ بھی نہیں تاہم ان اشعار میں ہندوستانی فضا ہے۔ گویا ضروری نہیں کہ ہندوستانی فضا مرئی شکل میں ہو۔ اس کی غیرمرئی کیفیت بھی ہوسکتی ہے۔ اس ضمن میں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ موضوع ہو یا مواد، یہ ذہنی چیز ہے جبکہ اس کے اظہار کے لیے شاعر کو جس چیز کے مختلف النوع سانچوں کا مرہونِ منت ہوناپڑتا ہے، وہ زبان ہے اور واضح رہے کہ زبان خود تہذیب ہے، یہ جہاں معاشرت کو قائم کرتی ہے وہاں معاشرت کا چہرہ بھی ہے۔
مراثی میں ہندوستانیت کی بحث میں آج تک زبان کے اظہاری سانچوں اور شاعر کی لاشعوری مجبوریوں کی طرف نظر نہیں گئی کہ اظہار وبیان کے معاملے میں سب سے بڑا جبر زبان کے روز مرے ومحاورے یعنی خود زبان کی لفظیات کا ہوتاہے۔ کوئی شاعر خواہ کتنا ہی قادر الکلام ہو، یا لفظوں کا کتنا بڑا بادشاہ ہو، زبان سے اس کا رشتہ تخلیقی نادرہ کاری کا ہے تو زبان اپنی ساخت، اپنے مزاج اور اپنے نسلی رویوں سے موضوع کی پیش کش کو متاثر کرے گی ہی کرے گی اور موضوع کے اظہار پر لامحالہ اس معاشرت کی چھاپ لگادے گی جس معاشرت میں وہ زبان بولی جاتی ہے۔
انیس کی زبان لکھنؤ کی اردو تھی، جسے کھڑی نے گودوں کھلایا تھا، لیکن جس کے ناز اودھی نے اٹھائے تھے۔(۱۰) اس میں بیگمات کی گفتگو کا ایک خاص انداز اور ایک خاص لہجہ تھا، حفظِ مراتب کے خاص سانچے تھے، تخاطب کے خاص طریقے تھے۔ خاص ترکیبیں، خاص محاورے اور خاص روزہ مرہ تھا۔ ان سب کا تخلیقی استعمال انیس کے ہاں ہونا ہی ہونا تھا۔ ان تمام لسانی وسائل ولوازم کا استعمال شائستگی کی دلیل اور فصاحت کی ضمانت بھی تھا، نیز یہ بات بھی نظر میں رہنی چاہیے کہ انیس رمز وتجرید کے شاعر نہیں، وضاحت وتمثیل وفضا سازی وصورت کشی کے شاعر ہیں۔ ان کا فن ایجاز واختصار سے عبارت نہیں۔ انھوں نے اطناب کو اوجِ کمال تک پہنچایا۔ خود کہتے ہیں، ’’اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں۔‘‘
یہ بھی معلوم ہے کہ مرثیہ، غزل یا رباعی کی طرح رمزیہ صنفِ سخن نہیں، یہ قصیدے یا مثنوی کی طرح بیانیہ چیز ہے۔ مرثیے کے موضوعات واقعاتی ہیں اور محدود واقعات کو انیس نے لامحدود طورپر لکھا ہے۔ استعارہ سازی انھوں نے بے شک کی، لیکن جو لوگ انیس کی استعارہ سازی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ استعارے کا عمل دخل ان کی شعری اسلوبیات کا غالب عنصر نہیں۔ بیانیہ شاعری استعارے کا نہیں تشبیہ کا کھیل کھیلتی ہے۔ انیس نے جس چیز کو ’’مضامین نو کے انبار‘‘ کہا ہے وہ دراصل بیانِ نو کے انبار ہیں۔ میر انیس کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے مرثیے میں بیانیہ اظہار کو جادو بنا دیا اور اسے ایک نئی شاہراہ پر لگادیا۔ چنانچہ کیفیت اور کمیت دونوں اعتبار سے انیس کی شاعری بذاتہ ایک زبردست شعری روایت بن گئی۔
عین ممکن ہے کہ اس شاعری کا کوئی گہرا تحت الشعوری رشتہ ’’کاویہ‘‘ کی قدیم ہندوستانی روایت سے ہو، جس کے بہترین نمائندوں کا سلسلہ کالی داس سے تلسی داس وجائسی تک پھیلا ہوا ہے۔ ’’کاویہ‘‘ میں بھی موضوع کو پھیلاکر، بڑھاکر پوری تخلیقی وسعت کے ساتھ پیش کرنا ہوتا تھا۔ ایسا ہی فارسی بیانیہ شاعری میں بھی ہوا جس کا بے مثل شاہکار شاہنامہ ہے۔ مرثیہ کا موضوع بھی بیان کی کفایت نہیں، اس کی وسعت چاہتا تھا، چنانچہ مرثیے کی اس نوعیت کے پیش نظر انیس اردو زبان کے ایک بڑے حصے کو اپنے تصرف میں لے آئے۔ زبان کے بڑے حصے کو تصرف میں لے آنے کا ناگزیر نتیجہ یہ ہوا کہ زبان کے خلاقانہ صرف کے زیادہ سے زیادہ امکانات اپنے ساتھ اس زبان کے معاشرتی سماجی رویوں کو بھی لے آئے۔
زبان پر سماج ومعاشرت کی چھاپ ہوتی ہی ہوتی ہے۔ اس سے اگر بچنے کی کوشش کی جاتی تو انیس کو نہ صرف اپنی تخلیقی وشعری آمد وروانی سے بلکہ زبان کی تازگی ونادرہ کاری کے ایک حصے سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے۔ زبان کے ایک حصے کو برتنااور دوسرے سے روگردانی کرنا زبان کو مجروح کرنا اور خود اپنے شعری اظہار کی قوتوں پر پہرہ بٹھانا یا خود کو روایتی زبان کی دسترس میں دینا تھا۔ یہ ایسا جرم ہے جس کا ارتکاب چھوٹے شاعر تو کرسکتے ہیں، انیس جیسا بڑا شاعرنہیں کرسکتاتھا اور وہ بھی ایک بیانیہ شاعر جس کو زبان کی زندگی سے دھڑکتی ہوئی لفظیات کے زیادہ سے زیادہ حصے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذرا ’’جب قطع کی مسافت شب آفتاب نے‘‘ سے یہ حصہ ملاحظہ ہو، جو حضرت عباس کو علم دیے جانے کے موقع پر آیا ہے،
یہ سن کے آئی زوجۂ عباسِ نامور
شوہر کی سمت پہلے کنکھیوں سے کی نظر
لیں سبطِ مصطفیٰؐ کی بلائیں بہ چشم تر
زینب کے گرد پھر کے یہ بولی وہ نوحہ گر
فیض آپ کا ہے اور تصدق امام کا
عزت بڑھی کنیز کی رتبہ غلام کا
سر کو لگا کے چھاتی سے زینب نے یہ کہا
تو اپنی مانگ کوکھ سے ٹھنڈی رہے سدا
کی عرض مجھ سی لاکھ کنیزیں ہوں تو فدا
بانوئے نامور کو سہاگن رکھے خدا
بچے جئیں ترقیِ اقبال و جاہ ہو
سائے میں آپ کے علی اکبر کا بیاہ ہو
قسمت وطن میں خیر سے پھر سب کو لے کے جائے
یثرب میں شور ہو کہ سفر سے حسین آئے
ام البنین جاہ وچشم سے پسر کو پائے
جلدی شبِ عروسیِ اکبر خدا دکھائے
مہندی تمہارا لال ملے ہاتھ پاؤں میں
لاؤ دلہن کو بیاہ کے تاروں کی چھاؤں میں
اس اقتباس کے دوسرے مصرعے میں ’’شوہر کی سمت پہلے کنکھیوں سے کی نظر‘‘ میں لفظ ’’کنکھیوں‘‘ سے کسی رسم کا اظہار نہیں ہوتا، نہ ہی کسی ٹھوس پیکر کا تصور ابھرتا ہے۔ شرم وحیا تو عالم گیر صفت ہے، لیکن لفظ ’’کنکھیوں‘‘ کے استعمال سے معاً اس سماج کی عورت کا جذباتی رویہ سامنے آجاتا ہے، جس سماج میں اردو زبان بولی جاتی ہے، اور اس ایک لفظ کے استعمال سے پورے بند میں بجلی سی دوڑ جاتی ہے اور اپنائیت کی فضا پیدا ہوجاتی ہے جو شعر کی اثر آفرینی میں اضافہ کرتی ہے۔ یہ فضا بیت کے مصرعے ’’عزت بڑھی کنیز کی رتبہ غلام کا‘‘ سے اور بھی گہری ہوگئی ہے۔ اگرچہ ’’غلام‘‘ عربی کا اور ’’کنیز‘‘ فارسی کا لفظ ہے، لیکن ایک خاتون کردار کی زبان سے اپنے شوہر اور نند کی موجودگی میں جس طرح یہ الفاظ بولنے والے کے لیے ادا ہوئے ہیں، وہ انداز ہندوستانی بیگمات کے لہجے اور طرز تخاطب کی غمازی کرتا ہے۔
اسی طرح دوسرے بند میں ’’تو اپنی مانگ کوکھ سے ٹھنڈی رہے سدا‘‘ یا ’’بانوے نامور کو سہاگن رکھے خدا‘‘ یا ’’بچے جئیں ترقی اقبال و جاہ ہو‘‘ ان مصرعوں میں بھی کسی ہندوستانی رسم یا مقامی کا چیز کا ذکر نہیں لیکن یہ جذبات، یہ دعائیں، یہ پیرایۂ اظہار یکسر مقامی وہندوستانی ہے۔ شوہر کی زندگی اور گھر کی خوشی کا تصور کا کہاں نہیں، لیکن ’’تو اپنی مانگ کوکھ سے ٹھنڈی رہے سدا‘‘ کے دعائیہ استعمال سے ایک ایسی جذباتی فضا پیدا ہوجاتی ہے جو کلیتاً ہندوستانی ہے۔ یہی معاملہ لفظ ’’سہاگن‘‘ کا ہے، جس سے ذہن میں ہندوستانی گھر گرہستی اور اس کی گھریلو خوشیوں کا تصور سامنے آتا ہے۔ اسی طرح آخری بند کی بیت ملاحظہ ہو جو دعائیہ ہے،
مہندی تمہارا لال ملے ہاتھ پاؤں میں
لاؤ دلہن کو بیاہ کے تاروں کی چھاؤں میں
لسانی اظہار کے نقطۂ نظر سے یہ بات صاف ہے کہ لفظ ’’لال‘‘ ہو ’’دلہن‘‘ یا ’’سہاگن‘‘، انیس کے ہاں کوئی لفظ بذاتہ نہیں آتا بلکہ پورے معنوی واحدے Semantic Unit کے طورپر آتا ہے جس میں اس لفظ کے متعلقات کی ذہنی تصویریں بھی ہوتی ہیں۔ گویا یہ معنوی اکائیاں اپنی سماجی اور معاشرتی تمثیلوں کے ساتھ آتی ہیں اور ان میں کئی جذباتی اور حسی پیکروں کے سلسلے سموئے ہوئے ہوتے ہیں۔
مثلاً زینب کے مکالمے میں انیس جب علی اکبر کا ذکر کرتے ہیں تو شعری آمد کی رو میں انیس کے ذہن میں علی اکبر کا تصور ایک ایسے ’’لال‘‘ یا دولہا کا تصور بن کر ابھرتا ہے جس کے ’’ہاتھ پاؤں میں مہندی‘‘ لگی ہوئی ہے۔ اسی طرح جب دلہن کا تصور ان کے ذہن میں آتاہے تو اس کے ساتھ ساتھ ’’تاروں کی چھاؤں‘‘ کا تصور بھی دبے پاؤں شعر میں داخل ہوجاتا ہے۔ ایسے اشعار میں ’’لال‘‘ کو ’’مہندی‘‘ سے، ’’دلہن‘‘ کو ’’تاروں کی چھاؤں سے‘‘، ’’بانو‘‘ کو ’’سہاگ‘‘ سے یا ’’مانگ‘‘ کو ’’کوکھ سے ٹھنڈی رہے‘‘ سے یا حضرت امام حسین اور زینب کی موجودگی میں زوجۂ عباس کے تصور کو خدمات اور وفاشعاری میں ’’کنیز‘‘ اور ’’غلام‘‘ کے تصور سے الگ نہیں رکھا جاسکتا۔
گویا یہ سب ایسے جذباتی اور ذہنی سلسلے ہیں جو وسیع تر معنوی اکائیوں کا حصہ ہیں اور اپنے سماجی تعلقات کے ساتھ جامع طورپر استعمال ہوتے ہیں۔ انیس کے ذہن میں یہ الگ الگ نہیں بلکہ ایک کل کے طورپر ایک ساتھ آتے ہیں۔ انیس کے کمالِ فن کا یہ پہلو خصوصی توجہ چاہتا ہے۔ یہ معمولی بات نہیں کہ انیس نے الفاظ کی بڑی سے بڑی تعداد کو زیادہ سے زیادہ تخلیقی سلیقے سے برتا ہے۔ انیس کے نواسے پیارے صاحب رشید سے جو روایت منسوب ہے کہ انیس فرمایا کرتے تھے، ’’حضرات لکھنؤ اس طرح نہیں کہتے۔‘‘ اس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انیس کی زبان کے جامع اور معاشرتی قالب پر کیسی گہری نظر تھی۔ انیس ’’کلام باموقع‘‘ پر بھی اصرار کرتے تھے۔
اس بات کو عام طورپر تسلیم کیا جاتاہے کہ انیس نے ہندوستانی عورتوں کے لہجے اور طرز گفتار کو جس کمال سے شعر میں کھپایا ہے، اس کی اتنی متنوع اور متحرک تصویریں کہیں اور نہیں ملتیں۔ انھوں نے ہندوستانی خواتین کی امیدوں، آرزوؤں، تمناؤں، دعاؤں، ان کے ادب آداب، حفظِ مراتب، لہجے، روز مرے، محاورے اور ذہنی اور جذباتی رویوں کی ایسی تصویر کشی کی ہے کہ پوری اردو شاعری میں اس کا جواب نہیں۔ ذیل کے اشعار میں تخلیقی اعتبار سے ذرا لہجہ اور خطاب دیکھیے، معاً اودھ کے گھرانوں کی فضا سامنے آجاتی ہے،
کیسی دھڑا دھڑی ہے یہ کیوں بین ہوتے ہیں
لوگو نہ غل مچاؤ مرے لال سوتے ہیں
چھپ جائے جس سے دور کا ناتا ہے صاحبو
دولہا دلہن کے لینے کو آتا ہے صاحبو
اولاد بھی پیاری ہے تو حضرت ہی کے دم تک
کہیے تو بلائیں بھی نہ لوں سر سے قدم تک
لو اپنے دودھ کی تمھیں دیتی ہوں میں قسم
اب کچھ کہو گے منہ سے تو ہوگا مجھے بھی غم
کروٹ تو لو کہ ماں کے جگر کو قرار ہو
اس بچپنے کی نیند پہ اماں نثار ہو
وہ کہتی تھی کہ جاگ کے تقدیر سوگئی
بی بی نہ پکڑو ہاتھ کہ میں رانڈ ہوگئی
رکھے خدا سلامت انھیں اپنی جان سے
اٹھ جائے خیر پالنے والی جہان سے
کیا جانے وہ مزا جسے اس کا ملا نہیں
اچھا سدھارو تم سے ہمیں کچھ گلا نہیں
عابد ہوں یا کہ یہ سبھی آنکھوں کے تارے ہیں
پر اب تو یہ نہ آپ کے ہیں نے ہمارے ہیں
جیتے نہ پھرو گے یہ قسم کھاتی ہوں واری
کم سن ہو بہت اس لیے سمجھاتی ہو واری
چہروں کی بلائیں تو مجھے لینے دو واری
پھر کا ہے کو شکلیں نظر آئیں گی تمہاری
بہنیں پکارتی تھیں کہ بیرن ترے نثار
اب تک تو گھر میں آئے تھے میداں سے چند بار
دانتوں میں وہ چمک کہ نظر کو نہیں ہے تاب
خود جس کی برق و شرق سے آکاس کو حجاب
چھیدیں وہی گلا یہ لعینوں کے جی میں تھا
یاں کنٹھ بیٹھ جانے سے دم دھکدھکی میں تھا
فرمایا بہن اب انھیں آغوش میں لو تم
دو شیر مرے مرگئے پرسا مجھے دو تم
وہ بولی کہ ہے ہے یہ نہ فرمائیے بھائی
حضرت کہاں لال کہاں میری کمائی
اس ضمن میں یہ مسلسل حصے بھی اپنی معنویت سے خالی نہیں۔ زینب علی اکبر کے بارے میں کہتی ہیں،
سی کر نئے کُرتے انھیں کس روز پنہائے
اسپند کیا کیا یہ کہیں جاکے جو آئے
رکھتی تھی میں کس دن انہیں دولہا سا بنائے
نازان کی پھوپھی نے کبھی کاہے کو اٹھائے
پوچھے تو کوئی گھٹنیوں جس روز چلے تھے
ان تلووں سے یہ دیدۂ ترکس نے ملے تھے
راتوں کو رہا کون چھٹی چلّوں میں بیدار
کس نے کہو سرمہ دیا ان آنکھوں میں ہر بار
پہلو میں رہا دل کی طرح کس کے یہ دلدار
کس بی بی نے گیسو ہیں یہ منت کے رکھے چار
بے میری اجازت جو یہ مرنے کو چلے ہیں
پوچھے تو کوئی کس کی مرادوں کے پلے ہیں
جب دودھ بڑھانے کا ہواخیر سے ہنگام
اس شادی کا کس نے کیا کنبے میں سر انجام
قرباں رہے اٹھارہ برس جو سحر و شام
پوچھا بھی نہ ہاں سچ ہے اب اس بی بی سے کیا کام
کیوں ان کی بلالے کے نہ پہلے ہی موی میں
سب لوگ تو ان کے ہوئے کوئی نہ ہوئی میں
اس موقع پر شہربانو حضرت امام حسین سے کہتی ہیں،
میں آپ کی، گھر آپ کا، اور آپ کے دلدار
لونڈی کے بھی مالک ہو اور اکبر کے بھی مختار
شکوہ نہیں گر ہیں تو محبت کے گلے ہیں
یہ لعل مجھے آٖپ کے صدقے میں ملے ہیں
ہے کام کا وہ ان میں جو کام آپ کے آئے
ارشاد جسے کیجیے وہ مرنے کو جائے
فرماؤ تو لونڈی علی اصغر کو بھی لائے
حسرت ہے کہ مادر انھیں نوشاہ بنائے
پر غم نہیں اس کابھی کہ یہ ہم سے جدا ہوں
اب تو یہی شادی ہے کہ حضرت پہ فدا ہوں
فاطمہ کبریٰ حضرت قاسم سے کہتی ہیں،
سمجھی کہ جیتے اب نہیں پھرنے کے رن سے تم
پیاسا گلا کٹا کے ملوگے حسن سے تم
سوؤگے منہ چھپا کے لحد میں کفن سے تم
اچھا سلوک کرتے ہو صاحب دلہن سے تم
اک رات کی بنی پہ جفا یوں ہی چاہیے
اے شمعِ بزم مہر و وفا یوں ہی چاہیے
غیرمرئی ہندوستانیت یعنی محض زبان، روز مرہ، محاورے اور لہجے کے استعمال سے تشکیل پانے والی ہندوستانی فضا کی حدود کا تعین خاصا مشکل کام ہے۔ اس کا سلسلہ اندازِ گفتگو اور معمولی لفظوں کے استعمال سے لے کر تشبیہوں، تمثیلوں، ترکیبوں، کہاوتوں اور لفظیات کے دوسرے پیچ در پیچ دائروں تک کچھ اس طرح پھیلا ہوا ہے کہ ہر ہر پہلو کی نشان دہی کرنا تقریباً نا ممکن ہے۔ صرف محاوروں سے ہی اس کا کچھ اندازہ ہوگا۔ ذیل کے اشعار میں محاوروں کا استعمال کم و بیش غیر ارادی ہے۔ غور فرمائیے کہ ایک معمولی سے محاورے کے استعمال سے فضا میں مقامی رنگ کس طرح آجاتا ہے۔
چھل بل دکھائی فوج کو دوڑا تھما اڑا
صورت بنائی جست کی سمٹا جما اڑا
کس سے کہیں جو حال دل درد ناک ہے
تلوار چل رہی ہے جگر چاک چاک ہے
میں اب انہیں بے جان سے مارے نہ پھروں گا
بے تیغ کے گھاٹ ان کو اتارے نہ پھروں گا
وہ نہر، وہ اشجار، وہ سبزہ، وہ ترائی
جنگل بھی ہوا پر تھا کہ آج اپنی بن آئی
کیسی ہوا چلی چمن روزگار میں
سید کا باغ لٹتا ہے فصل بہار میں
آگے ہمارے دعوئے جرات خدا کی شان
گدی سے کھینچ لوں ابھی بڑھ کر تیری زبان
جھونکوں سے ہوا کے جو اڑے پردہ محمل
سینوں میں اچھلنے لگے سیدانیوں کے دل
ذیل کے شعر بھی ملاحظہ ہوں۔ ان میں صرف ایک لفظ یا صرف ایک پیکر کے استعمال سے شعر میں ہندوستانی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔
آفت تھی بے کسی تھی مصیبت تھی یاس تھی
بے فوج بادشاہ تھا ڈیوڑھی اداس تھی
دامن علم کا کھول کے عباس رک گئے
صف باندھ کر سلام کومجرائی رک گئے
رن پر چڑھے جو سوگ کے کپڑے اتار کے
مارے گئے وہ شیر ہزاروں کو مار کے
گرمی یہ اور قحط کئی دن سے آب کا
رخ تمتما گیا ہے مرے آفتاب کا
تر ہے قبا پسینے میں پنکھا کوئی ہلاؤ
سونلا گئے ہو دھوپ میں واری ہوا میں آؤ
بھاگڑ میں خوں سے رن کی زمیں لال ہو گئی
دولہا کی لاش گھوڑوں سے پامال ہو گئی
انیس کے یہاں سے ایسی مثالیں سیکڑوں نہیں، ہزاروں کی تعداد میں پیش کی جا سکتی ہیں، جہاں صرف ایک لفظ یا محاورے یا ترکیب یا پیکر کے استعمال سے جیسے بیرن، آکاس، دھکدھکی، واری، بلائیں، دودھ کی قسم، دھوپ میں سونلانا، چاند سی دلہن، چھل بل، جنگل کا ہوا پر ہونا، تیغ کے گھاٹ اتارنا، گدی سے زبان کھینچنا، باغ لٹنایا معمولی الفاظ جیسے ’’سوگ‘‘، ’’سدھارو‘‘، ’’ڈیوڑھی‘‘، ’’تمتمانا‘‘، ’’رن‘‘، ’’بھاگڑ‘‘ کے تخلیقی استعمال سے شعر کی پوری معنوی فضا بدل گئی ہے۔ لامحالہ انیس کی شاعری میں عقیدے کی روشنی چاندنی بن کر ہر جگہ موجود ہے، خواہ وہ دکھائی دے یا نہ دے۔ اس کا تعلق جیسا کہ وضاحت کی گئی، زبان کے لہجے، روز مرے، محاورے اور بعض اوقات عام لفظوں کے باسلیقہ استعمال سے ہے۔ یہ سب زبان کی ایسی معنوی اکائیاں ہیں جن سے زبان کا بھرپور تخلیقی استعمال کرنے والا کوئی بھی شاعر صرفِ نظر نہیں کرسکتا۔
اب یہ بات واضح ہے کہ زبان کا تازہ کارانہ تخلیقی استعمال اپنے ساتھ ایک مخصوص تہذیبی وذہنی فضا، ایک مخصوص ملکی مزاج اور مخصوص سماجی اور معاشرتی رنگ لے کر آتا ہے اور جس شاعر کی لفظیات اور اس کے تخلیقی استعمال کا دائرہ جتنا بڑا اور پرقوت ہوگا، اسی نسبت سے زبان کا اپنا مخصوص معاشرتی رنگ اس کی شاعری میں زیادہ سے زیادہ جھلکے گا۔ انیس نے زبان اور روز مرے اور اس کی معنوی اکائیوں کے اس انتہائی فیض بخش جبر کو اپنے لیے روا رکھا۔ اب اس کی مزید وضاحت کی ضرورت نہیں کہ کیا انیس نے ہندوستانیت کو عمداً اردو مرثیے میں داخل کیا اور کیا واقعی وہ اس معاملے میں قطعاً آزاد تھے؟ یا ایک بار جب اردو زبان کی لطافتوں، معنوی اکائیوں اور ذہنی پیکروں کے دروازے زبان کے بھرپور تخلیقی استعمال کی بدولت انھیں نے خود پروا کرلیے تو ان کی شاعری میں اردو کے عصری مقامی لسانی سماج کا در آنا فطری تھا اور اردو کا لسانی سماج بہرحال ہندوستانی سماج ہے۔
اس سے زبردست فائدہ یہ ہوا کہ انیس کو ان کی مخصوص شعریت کے لیے ایک وسیع لسانی اور معنوی فضا مل گئی اور مرثیے کے کرداروں کو ایک ایسی طرز گفتار، ایک ایسا لہجہ، ایک ایسا انداز بیان مل گیا جس کی بدولت شعری حقیقت کی تشکیل اور فضا سازی کے لیے Authenticity کی بنیاد فراہم ہوگئی اور اردو والوں سے بالعموم اور لکھنؤ والوں سے بالخصوص ’’اپنائیت‘‘ کا وہ رشتہ قائم ہوگیا، جس کی بدولت کسی بھی شاعر کا کلام دل کی تہوں میں اترتا ہے اور جس کا انیس کی شہرتِ عام اور قبول دوام میں بڑا ہاتھ ہے۔
مصادر
(۱) مراثی میر انیس (جلد۱، ۲، ۳، ۴) نولکشور، لکھنؤ ۱۹۵۸ء
(۲) مراثی انیسں مرتبہ نائب حسین نقوی (جلد، ۱، ۲، ۳، ۴) غلام علی اینڈ سنز، لاہور ۱۹۵۹ء
(۳) روحِ انیس مرتبہ پروفیسر سید مسعود حسن رضوی ادیب، کتاب نگر، لکھنؤ ۱۹۵۶ء
(۴) سودا از شیخ چاند، انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد ۱۹۳۶ء
(۵) اردو مرثیہ از سفارش حسین رضوی، مکتبہ جامعہ، نئی دہلی ۱۹۶۵ء
(۶) خواتینِ کربلا کلامِ انیس کے آئینے میں از بیگم صالحہ عابد حسین، مکتبہ جامعہ، نئی دہلی ۱۹۷۳ء
(۷) اردو مرثیے کا ارتقا از ڈاکٹر مسیح الزماں، کتاب نگر، لکھنؤ، ۱۹۶۸ء
(۸) اردو مرثیہ از اظہر علی فاروقی، الہ آباد ۱۹۵۸ء
(۹) ’’کلام انیس میں ہندوستان‘‘ از دانش لکھنوی، ماہنامہ نیا دور لکھنؤ، اگست ۱۹۹۲ء (انیس شناسی، ۱۹۷۷ء)
حاشیے
(۱) اردو مرثیہ، ۱۶۱
(۲) خواتین کربلا کلام انیس کے آئینے میں، ص، ۲۵
(۳) ایضاً، ص، ۲۷
(۴) سودا، ص، ۳۰۹۔ ۲۰۶
(۵) اردو مرثیے کا ارتقا، ص، ۱۲۱
(۶) اردو مرثیہ، ص، ۳۱۹۔ ۳۱۸
(۷) خواتین کربلا کلامِ انیس کے آئینے میں، ص، ۲۷
(۸) اردو مرثیے کا ارتقا، ص، ۳۶
(۹) اردو مرثیہ، ص، ۱۵۰
(۱۰) میر انیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ قدیم فارسی داستانیں ان کی نظر میں تھیں اور ممکن ہے کہ مہابھارت اور رامائن بھی ان کے مطالعے میں رہے ہوں۔ نیر مسعود کا بیان ہے کہ انھوں نے اودھی باقاعدہ نہ بھی پڑھی ہو مگر وہ اس کے اصولوں سے اچھی واقفیت رکھتے تھے۔ ہندی کی بعض کتابوں میں انیس کے نام سے ایک کبت بھی ملتا ہے (’’انیس، ابتدائی دور‘‘ از نیر مسعود رضوی، دوماہی ا کاڈمی، جنوری فروری ۱۹۸۷ء)
نوبت رائے نظر لکھنوی نے لکھا ہے، ’’غالباً بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ انھیں اس زبان کی (یعنی اودھی) شاعری سے کسی قدر دلچسپی تھی۔ معتبر اشخاص کا بیان ہے کہ انھیں ہزاروں دوہے یاد تھے اور ان کی لطافت کا اثر خاص طورپر محسوس کرتے تھے۔‘‘ (’’میرانیس مغفور‘‘ از نوبت رائے نظر لکھنوی، رسالہ زمانہ کانپور، جنوری فروری ۱۹۰۸ء)
پیمبران سخن میں شاد عظیم آبادی لکھتے ہیں، ’’محلہ میں ایک مندر تھا، وہاں ایک سادھو کسی قدر فارسی عربی پڑھا ہوا تھا بیٹھا کرتا تھا۔ آپ گھڑیوں ٹہل ٹہل کر فارسی اشعار اور دوہے اس کو سنایا کرتے تھے۔ وہ بھی دوہے پڑھا کرتا تھا۔ اجودھیا میں کسی دوست کی تقریب میں گئے، وہاں سیتا جی کی رسوئی اور بہت سے مندر ہیں۔ وہاں کسی سنیاسی سے آپ کی ملاقات ہوگئی۔ تین دنوں تک وہاں اس سے گھڑیوں بات چیت ایسی رہی کہ وہ بھی معترف ہوگیا اور کہنے لگا کہ آپ تو حقیقت میں جوگی اور سنیاسی ہیں۔‘‘
(پیمبران سخن از سید علی محمد شاد عظیم آباد، مرتبہ سید نقی احمد ارشاد فاطمی، سید صفدر حسین، لاہور ۱۹۷۴ء، ص، ۱۸۵۔ ۱۸۴ء بحوالہ دانش لکھنوی، نیا دور، لکھنؤ، اگست ۱۹۹۲ء ص، ۲۴۔ ۲۱)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.