مراثی انیس میں جمالیاتی عناصر
شاعری میں جب فنکاری یا اس کے اعلیٰ معیار کا ذکر آتا ہے تو سب سے پہلے ذہن جمالیاتی قدروں کی طرف جاتا ہے۔ یعنی اگر فن پارہ جمالیاتی اعتبار سے کمزور ہے تو اسے اعلیٰ درجے کی تخلیق نہیں قرار دیا جا سکتا۔ جمالیات حسن کا فلسفہ ہے اور یہ ان احساسات میں ہے جو انسان کو جبلی طور پر ملے ہیں۔
یہ بحث کہ حسن کیا ہے یا جمالیات کسے کہتے ہیں، بہت قدیم ہے اور ہر زمانے میں بحث ومباحثے کا موضوع رہی ہے۔ ہر فلسفی اور ماہر جمالیات نے اپنے نقطہ نظر سے اس کی تعبیر وتشریح کی۔ عقلی دلائل نے اسے کچھ بتایا تو محسوسات اور وجدان نے اس کی کوئی اور تصویر پیش کی۔ شعرا اور صوفیوں نے اسے کسی اور رنگ میں دیکھا، تصورپرستوں کے لیے حسن صرف ایک تصور ہے تو مادہ پرست تناسب و توازن سے اس کی تعریف کرتے ہیں اور اخلاق پرست خیر محض کا نام دیتے ہیں۔ ان فلسفیانہ مباحث میں الجھے بغیر اگر زبان وادب کی حد تک اس کے معنی اور مفہوم کے تعین کی کوشش کی جائے تو جمالیات فن میں حسن اور خوبصورتی کا مطالعہ ہے۔ لیکن جمالیاتی مطالعہ کا احاطہ بہت وسیع ہے۔ جہاں تک زبان وادب کا تعلق ہے، اس میں فن کے تمام محاسن، آرائش زبان، بیان کی خوبی، تشبیہ واستعارہ کی آراستگی، دلکش اور حسین پیرایہ اظہار، تخیل کی بلندی، مسرت وحظ کی بازآفرینی سب آ جاتے ہیں۔
ادب اور دوسرے فنون میں موسیقی کے علاوہ یہ فرق ہے کہ فن کار کا تصور تجسیم کے عمل کے ذریعہ اثرانداز ہوتا ہے اور اس کے رنگ اور خدوخال کو دیکھ کر اس کی جمالیاتی کیفیات کا اندازہ کیا جاتا ہے یا اس سے حاصل ہونے والے حظ ومسرت سے۔ جب کہ ادب میں فن کار کا تصور اور فکر الفاظ و اشارات کے ذریعہ ذہنوں میں منتقل ہوتا ہے اور ہر شخص کا ذہن اپنی قدرت کے مطابق انبساط حاصل کرتا ہے اور یہی جمالیاتی ادراک کی پہلی منزل ہے۔ جمالیاتی ادراک دراصل منطقی فکر اور تصور کے امتزاج کا نام ہے۔ یعنی کسی بھی خوبصورت اظہار کے پیچھے صرف تصور اور حسیت ہی نہیں ہوتی بلکہ منطقی فکر کی کارفرمائی بھی ہوتی ہے۔ شاعری میں تشبیہات اور استعارات کی تخلیق اور اس کے عمل سے اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
ادب کے دو پہلو ہیں۔ ایک موضوع اور دوسرا مواد۔ افکار وتصورات، تجزیہ وتخیل ادب کے لیے مواد کا کام کرتے ہیں لیکن مواد اور موضوع کی خوبی اچھا ادب نہیں تخلیق کرتی۔ اچھی تخلیق کے لیے جمالیاتی ادراک کے ساتھ فنکارانہ اظہار پر قدرت ضروری ہے۔ یہی سبب ہے کہ ایک موضوع پر لکھی گئی ساری تحریریں یا شاعری بڑے ادب کا حصہ نہیں بن پاتی۔ مرثیے یا قصائد بہت سے شعرا نے نظم کیے ہیں لیکن انیس ودبیر اور سودا و ذوق کے مرثیے اور قصائد کے مرتبے تک کوئی نہیں پہنچتا۔
اس روشنی میں مرثیے اور خاص طور پر مراثی انیس جمالیاتی مطالعے کا اہم موضوع ہے۔ مرثیے کا ذکر کرتے وقت، میر انیس کا تجزیہ کرتے وقت جمالیات کے تحت آنے والے بعض محاسن زیر بحث آتے رہے ہیں لیکن مجموعی حیثیت سے فلسفہ جمال کی روشنی میں اس پر کام کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
مرثیہ اس لحاظ سے ایک دلچسپ صنف سخن ہے کہ اس کا دائرہ دوسری اصناف سخن کے مقابلے میں بہت وسیع ہے۔ جذبات نگاری، واقعہ نگاری، منظرنگاری، حمد، نعت، منقبت، مدح، تغزل، آداب حفظ ومراتب، رزم وبزم، غرض زندگی کا پورا منظر نامہ اس کے احاطے میں آ جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسری اصناف سخن میں اتنا تنوع نظر نہیں آتا۔ مرثیے کی دلکشی کا سبب صرف اس کا موضوع یا اس کی مذہبی اہمیت نہیں بلکہ میر انیس ومرزا دبیر کی فنکارانہ مہارت اور جمالیاتی ادراک ہے، جس نے ایک عام صنف سخن کو جمالیاتی فن پارے میں تبدیل کر دیا۔
کسی فن پارے کے جمالیاتی عناصر کے مطالعے کی پہلی سطح زبان ہے، اس لیے کہ سب سے پہلے جو چیز متاثر کرتی ہے وہ زبان ہے۔ ایک عام شاعر زبان کو صرف ذریعہ اظہار کے طور پر استعمال کرتا ہے اوراسے اپنی فکر اور تجربے میں دوسروں کو شریک کرنے کا وسیلہ بناتا ہے۔ لیکن میر انیس زبان کو صرف ذریعہ اظہار کے طور پر نہیں استعمال کرتے۔ ان کے یہاں زبان ایک جمالیاتی قدر ہے۔ اس کا اپنا ایک حسن ہے اور طریقہ اظہار اس کی دلکشی کو اور بڑھا دیتا ہے۔ میر انیس کے یہاں لطف اندوزی یا کسب تاثر کے دو مراحل ہیں۔ ایک موضوع اور دوسرا زبان۔ زبان ان کے یہاں ایک تہذیبی طاقت ہے جس سے وہ بیان واقعہ کے بجائے تہذیبی عکاسی کا کام لیتے ہیں۔
میر انیس کا شمار اردو کے عظیم شاعروں میں ہوتا ہے لیکن وہ اس لیے بڑے شاعر نہیں ہیں کہ انہوں نے کئی لاکھ اشعار کا ذخیرہ چھوڑا بلکہ اس لیے سب سے بڑے مرثیہ گو ہیں کہ انہوں ے مرثیے کو زبان واظہار کا اعلیٰ نمونہ بنا دیا۔ میر انیس نے ہمیشہ اپنی زبان پر فخر کیا۔ کبھی اسے خلیق کی زبان کہہ کر کبھی یہ کہہ کر کہ، اس احاطے سے جو باہر ہے وہ بیرون ہے۔ ان کایہ دعویٰ اس عہد میں بڑی جرأت کی بات تھی۔ وہ ناسخ وآتش کا عہد تھا اور، بات پر واں زبان کٹتی تھی۔
اصلاح زبان کا معاملہ کسی تحریک کا رہا ہو یا نہیں لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ناسخ اس وقت زبان کی ٹکسال تھے اور جسے تحریک کہا جاتا ہے وہ ناسخ کے شاگردوں کا بہت بڑا حلقہ تھا جو ملک کے ایک گوشے سے دوسرے گوشے تک پھیلا ہوا تھا۔ اسی لیے کسی لفظ کا ترک ہو یا نیا لفظ اور محاورہ، وہ دیکھتے ہی دیکھتے پھیل جاتا تھا، جس کا اثر اس عہد کے عام شعرا پر تھا۔ بلکہ اشرافیہ کی زبان ہی وہی تھی۔ مرزا دبیر کے مرثیوں کی مقبولیت کا سبب بھی وہی شوکت الفاظ، مضمون آفرینی اور ناسخ کی ٹکسالی کی زبان تھی۔ انیس کو خلیق نے ناسخ کی شاگردی کے لیے بھیجا تھا۔ ان کا تخلص بھی ناسخ کا عنایت کردہ تھا۔ اس کے باوجود انیس نے ناسخ یا اس عہد کی زبان کا اثر قبول نہیں کیا اور اشرافیہ میں مقبول زبان کے بجائے اپنے گھر کی زبان کو شعری اظہار کا ذریعہ بنایا۔
میر انیس کی پیدائش اور پرورش فیض آباد میں ہوئی جہاں کی زبان اودھی تھی۔ یہی اودھی ان کے گھر کی زبان بلکہ ان کی مادری زبا ن تھی۔ ان کے ادبی اظہار کی زبان میر حسن کی زبان تھی جو خلیق سے ہوتی ہوئی میر انیس تک پہنچی تھی۔ انیس کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے بات چیت کی زبان کو اعلیٰ جمالیاتی اظہار کی زبان بنا دیا۔ اس عہد کے دو شاعروں کے لسانی کارنامہ یا اجتہاد کو تاریخ فراموش نہیں کر سکتی۔ ایک غالب جس نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا اور دوسرے انیس جس نے مرثیے کے ذریعہ مکالمے کو جمالیاتی اظہار کا اعلیٰ نمونہ بنا دیا۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ انیس کے مرثیوں کے بیشتر حصے مکالمے پر منحصر ہیں۔ مرزا دبیر اور میر انیس کے مرثیوں میں یہی فرق ہے کہ دبیر اپنی مضمون آفرینی پر مرثیے کی بنیاد رکھتے ہیں اور انیس فارسی وعربی کے بے تکلف استعمال کے باوجود زبان واظہار کے جمالیاتی عناصر سے مرثیے کو ایک خوبصورت ادبی فن پارے میں تبدیل کر دیتے ہیں۔
مرثیے کا میدان واقعے کے لحاظ سے محدود ہے، جس میں شاعرنہ کوئی تبدیلی کر سکتا ہے اور نہ اضافہ جب کہ اس کے مقابلے میں دوسری اصناف سخن میں جولانی طبع کے دکھانے کے بے شمار مواقع ہیں۔ انیس اس محدود فضا میں وسعت پیدا کرنے کے لیے زبان کو اسلحے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ شاعری میں انتخاب الفاظ اور ان کے محل استعمال پر شعری جمالیات کی بنیاد ہے۔ اگر شاعر موقع ومحل کی مناسبت اور موضوع کے تقاضے کے مطابق الفاظ کا استعمال نہیں کرتا تو وہ الفاظ خواہ کتنے ہی علمی، پرمغز اور بھاری بھرکم کیوں نہ ہوں، جمالیاتی کیف وتاثر نہیں پیدا کر سکتے۔ میرا نیس کا کمال یہی ہے کہ وہ ایسے برمحل الفاظ کا استعمال کرتے ہیں کہ واقعہ نگاہوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔ انتخاب الفاظ اور محل استعمال کے سلسلہ میں میرا نیس کے دو مصرعے شبلی سے لے کر آج تک ہزاروں بارپیش کیے گئے ہیں،
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے
کھا کھا کے اوس اور بھی سبز ہ ہرا ہوا
یہاں پربات صرف دوہم معنی الفاظ کی نہیں ہے بلکہ دو قطعا ًمختلف جمالیاتی کیفیتوں کی ہے۔ پروفیسر آل احمدسرور نے اپنے ایک مضمون میں شبنم اور اوس کی جگہوں کو تبدیل کرکے مصرعوں کواس طرح کر دیا،
کیا اوس نے بھرے تھے کٹورے گلاب کے
شبنم کو کھاکے اور بھی سبزہ ہرا ہوا
ان الفاظ کی جگہ بدل دینے سے معنی میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا لیکن زبان کا لطف اور شعریت ختم ہو گئی۔ سرور صاحب نے لکھا ہے کہ: ’’اس طرح صرف زبان کا ہی خون نہ ہوگا بلکہ شعریت جو لفظ کی مناسبت اور اس کی موسیقی دونوں کا مطالبہ کرتی ہے اور صرف معنی کو کسی طرح سمیٹ لینے کو کافی نہیں سمجھتی، رخصت ہو جائےگی۔‘‘
میر انیس زبان کے ان نکات سے اچھی طرح واقف تھے۔ ان کے مرثیے کی جمالیات اور فن کے اپنے کچھ اصول تھے۔ جس میں فن، زبان، اظہار، حسن ادا سب شامل ہیں اور آج تک ان اصولوں کو کلاسیکی مرثیے کے مطالعے میں بوطیقا کی حیثیت حاصل ہے۔
روزمرہ شرفا کا ہو سلاست ہو وہی
لب ولہجہ وہی سارا ہو متانت ہو وہی
سامعیں جلد سمجھ لیں جسے صنعت ہو وہی
یعنی موقع ہو جہاں جس کا عبارت ہو وہی
لفظ بھی چست ہوں مضمون بھی عالی ہوئے
مرثیہ درد کی باتوں ے نہ خالی ہوئے
اور
دبدبہ بھی ہو مصائب بھی ہوں، توصیف بھی ہو
دل بھی محظوظ ہوں رقت بھی ہو تعریف بھی ہو
ان چند مصرعوں میں میر انیس نے مرثیے کی تمام جمالیاتی خصوصیات کی نشاندہی کر دی ہے۔ زبان میں سلاست اور روزمرہ، زبان کے حسن اور ترسیل کے لیے ضروری ہے۔ اسی طرح صنعتوں کو شاعری کا زیور قرار دیا گیا ہے۔ اشعار میں صنعت دلکشی پیدا کرتی ہے لیکن اگر صنعت مغلق اور سمجھ میں آنے والی نہ ہو تو حسن کے بجائے ابہام کا سبب بن جائےگی۔ شعر میں ابہام، الجھاؤ یا شعر کا گنجلگ ہونا عیب ہے۔ ابہام شعر کا عیب ہے لیکن کبھی استعارے کی وجہ سے بھی ابہام پیدا ہو جاتا ہے۔ یعنی استعارہ تلازمے کو فوری طور پر شعو رمیں منتقل نہیں کر پاتا، جس کے لیے شعر علم اور غوروخوض کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ شعر کا عیب نہیں بلکہ حسن ہے کہ اس پر جتنا غور کیا جاتا ہے، اس کے تہہ در تہہ معنی کا انکشاف ہوتا جاتا ہے۔ یہ انسان کے تجربے، نفسیاتی کیفیت، ادراک، واردات اور حسیات پر منحصر ہے۔
لکھنؤ میں اس زمانے میں رعایت لفظی اور صنعتوں کے استعمال کا بڑا زور تھا۔ میر انیس نے بھی صنعتوں اور رعایت لفظی سے کام لیا ہے لیکن صرف اس حد تک جہاں تک ان کا استعمال فطری اور بےساختہ ہو۔ الفاظ کا چست ہونا اور موقع کے مطابق عبارت کا استعمال مرثیے کے جمالیاتی عناصر میں ہے۔ اسی طرح دوسرے بند کی بیت میں دبدبہ، مصائب، توصیف، حظ، رقت، سب مل کر مرثیے کی جمالیات کی تعمیر کرتے ہیں۔
میر انیس کے یہاں انتخاب الفاظ اور ان کے محل استعمال کی بڑی اہمیت ہے اور یہ مرثیے کا ایک بڑا نازک پہلو ہے، اس لیے کہ مرثیے میں طرح طرح کے کردار ہیں اور میر انیس نے ان کرداروں کی عمر، ان کے رشتوں، عہدوں اور تعلق کو نگاہ میں رکھ کر ہر ایک کے لیے مختلف زبان وضع کی ہے۔ ایک ایسی زبان جو تہذیبی اقدار کی بھی نمائندگی کرتی ہے۔ مثلاً یہ بند دیکھئے جس میں ایک بڑے واقعے کو نظم کیا گیا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب امام حسینؑ کا قافلہ فرات کے کنارے خیمے نصب کرنے کی تیاری کر رہا تھا کہ یزیدی فوج کے سپاہی دریا کے کنارے خیمے نصب کرنے سے روکتے ہیں، جس پر بلوے کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔
آغوش میں پھوپھی کے سکینہ دہل گئی
غل پڑ گیا کہ گھاٹ پہ تلوار چل گئی
محمل سے منہ نکال کے فضہ نے یہ کہا
بلوہ کنار نہر ہے اے بنت مرتضیٰ
نیزے بڑھا بڑھا کے ہٹاتے ہیں اشقیا
قبضے پہ ہاتھ رکھے ہیں عباس باوفا
کیا جانے کس نے ٹوک دیا ہے دلیر کو
سب دشت گونجتا ہے یہ غصہ ہے شیر کو
یہاں پر واقعے کا بیان ایک کنیز کی زبان سے کیا گیا ہے، اس لیے جناب زینب کا نام لینے کے بجائے بنت مرتضی کہہ کر مخاطب کیا گیا ہے جو اس عہد کی تہذیب کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ بند گوکہ صرف ایک اطلاع کے لیے تھے لیکن میر انیس نے درجہ بہ درجہ ماجرے کو اس طرح بیان کیا ہے کہ پورا منظر نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ بند سے پہلے کی بیت میں اس ہنگامے سے پیدا ہونے والی دہشت کا بیان ہے کہ آغوش میں پھوپھی کے سکینہ دہل گئی /غل پڑ گیا کہ گھاٹ پہ تلوار چل گئی اور پھر فضہ کا محمل سے منہ نکال کر دیکھنا اور واقعات کی تفصیل کو بیان کرنا کہ اے بنت مرتضی نہر کے کنارے بلوہ ہو گیا ہے اور پھر اس کے ایک ایک پہلو کو الگ الگ بیان کرنا کہ اشقیا نیزے بڑھا بڑھاکر جوانوں کو ہٹا رہے ہیں۔
اس کے بعد ایک تیسری تصویر ہے جو دل میں نہ جانے کتنے وسوسے پیدا کرنے والی ہے کہ عباس کا ہاتھ تلوار کے قبضہ پر ہے۔ یعنی بس غضب ہونے والا ہے اور پھر پورے ماحول کی تصویر کشی ہے یعنی سب دشت گونجتا ہے یہ غصہ ہے شیر کو، جو دوسرے مصرعے بلوہ کنار نہر ہے اے بنت مرتضی سے مختلف ہے۔ اس میں صرف بیان واقعہ تھا اور اس تصویر میں تاثر، ہیبت، خوف، جرأت، دبدبہ، توصیف سب ہے۔
میر انیس کے مرثیوں میں جمالیاتی عناصر کے جائزے میں جوبات شدت سے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے، وہ منظر یا واقعہ کی تصویریں اور تشبیہات و استعارات کا التزام ہے جن سے ان تصویروں میں وہ رنگ آمیزی کا کام لیتے ہیں۔ ایسے بند کا ہر مصرع ایک تصویری اکائی محسوس ہوتا ہے جس کے چھ مصرعے مل کر تصویروں کی ایک خوبصورت سمفنی میں تبدیل ہو جاتے ہیں،
وہ سرخی شفق کی ادھر چرخ پر بہار
وہ بارور درخت وہ صحرا وہ سبزہ زار
شبنم کے وہ گلوں پہ گہر ہائے آب دار
پھولوں سے سب بھرا ہوا دامان کوہسار
نافے کھلے ہوئے وہ گلوں کی شمیم کے
آتے تھے سرد سرد وہ جھونکے نسیم کے
میر انیس نے اس بند میں بڑی خوبصورتی سے صبح کی مختلف کیفیتوں کی تصویروں سے ایک بڑی تصویر تخلیق کی ہے۔
جمالیات کی تعریف کرتے ہوئے ہیگل نے لکھا ہے کہ ’’حسیاتی صورتوں یا وسائل کے ذریعے تصور کے اظہار کا نام حسن ہے۔ اور کروچے اسے حظ انگیز اور ذات کا کامیاب اظہار قرار دیتا ہے۔‘‘ اس روشنی میں اگر مراثی انیس کا مطالعہ کیا جائے تو دونوں پہلو انیس کے مرثیوں میں نمایاں طور پر نظر آئیں گے۔ بظاہر مرثیے اور حظ انگیزی میں تضاد محسوس ہوتا ہے، اس لیے کہ مرثیہ تعزیت اور غم کا اظہار ہے اور حظ مسرت کی نشاندہی کرتا ہے لیکن انیس نے مرثیے میں ایسے بے شمار مواقع پیدا کیے ہیں جنہیں پڑھ کر لطف ومسرت کا احساس ہوتا ہے۔ صبح کے مناظر کا جہاں انہوں نے ذکر کیا یا تلوار کی تعریف، جنگ اور سراپا کے بند۔ کربلا میں رخصت کا منظر بہت اندوہناک ہے۔ ایک ایسی رخصت جس کے بعد زندہ واپسی کا کوئی امکان نہیں۔ خود میر انیس نے رخصت کے مناظر بڑے رقت آمیز انداز میں نظم کیے ہیں لیکن جہاں انہوں نے چاہا ہے، اسے مسرت وانبساط میں تبدیل کر دیا ہے۔ امام حسین کی میدان جنگ کو روانگی کے منظر میں کس طرح دلکشی پیدا کی ہے، ان بند میں ملاحظہ کیجئے،
بیٹھے جو آپ تن کے فرس برق ہو گیا
بوئے بہشت لے کے نسیم سحر چلی
آگے فرس کے فتح تو پیچھے ظفر چلی
خود سر پہ چتر بن کے ضیائے قمر چلی
گھوڑا چلا کہ فتح کی گویا خبر چلی
غرفوں سے حوریں دیکھتی تھیں شہ سوار کو
پریاں طبق لیے تھیں سروں پر نثار کو
درج دہن پہ لعل و عقیق یمن نثار
غنچے نثار پھول تصدق چمن نثار
حسن بیاں پہ طوطی شکر شکن نثار
شور نمک پہ شاعر شیریں سخن نثار
فقروں میں لطف باتوں میں لذت بھری ہوئی
قرآن کی طرح سے فصاحت بھری ہوئی
ان بند کو حسن بیان اور صنائع لفظی و معنوی نے اعلیٰ شعری اظہار کا نمونہ بنا دیا ہے۔ اسی طرح تلوار کے بیان میں میر انیس نے جو حسن اور تغزل پیدا کیا ہے اور جس طرح کی تشبیہات اور استعارات وضع کیے ہیں، وہ حظ انگیز ہی نہیں جمالیاتی کیفیت کی اعلیٰ مثال ہیں،
کاٹھی سے اس طرح ہوئی وہ شعلہ خو جدا
جیسے کنار شوق سے ہو خوبرو جدا
مہتاب سے شعاع جدا گل سے بو جدا
سینے سے دم جدا رگ جاں گلو جدا
گرجا جو رعد ابر سے بجلی نکل پڑی
محمل میں دم جو گھٹ گیا لیلی نکل پڑی
تلوار ہی کی تعریف میں ایک اور بند ہے،
دھار ایسی کہ رواں ہوتا ہے دھارا جیسے
گھاٹ وہ گھاٹ کہ دریا کا کنارہ جیسے
چمک ایسی کہ حسینوں کا اشارہ جیسے
روشنی تھی کہ گرے ٹوٹ کے تارا جیسے
کوندنا برق کا شمشیر کی ضو سے دیکھا
مگر ایسا تو نہ دم خم مہ نو نے دیکھا
ان بند میں خوبصورت تشبیہات، تغزل، حسن الفاظ اور رعایت لفظی کے بے ساختہ استعمال نے مل کر حظ انگیز فضا تعمیر کی ہے۔ دراصل یہ سارا معاملہ قوت زبان اور قدرت اظہار کا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ عہد انیس میں دوسرے شعرا زبان پرقدرت نہیں رکھتے تھے لیکن میر انیس کے یہاں زبان کا جو تخلیقی اور بے تکلف استعمال ہے اور ان کے یہاں رعایتوں اور صنعتوں میں جو بےساختگی ہے، وہی ان کی انفرادیت ہے۔ وہ کسی لفظ، محاورے یا صنعت کے لیے کوئی اہتمام نہیں کرتے، یہاں تک کہ بعض ایسے الفاظ جنہیں غیر فصیح سمجھا جاتا ہے، انہیں بھی نظم کرنے میں نہیں جھجکتے، جب کہ وہ عہدزبان میں کسی رعایت کو روا نہیں رکھتا۔ ایم ایم شریف نے فن اور فن کار کے بارے میں ارسطو کے حوالے سے لکھا ہے کہ،
فنکار موجودہ حسن کو محض فروغ ہی نہیں دیتا بلکہ اکثر معمولی مواد سے اور جیسا کہ خود ارسطو کو علم ہے ’’کریہہ مواد‘‘ سے بھی حسن تخلیق کرتا ہے۔ چنانچہ یوری پڈیز Euripides کی میڈیا تخلیق حسن کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔‘‘ (جمالیات کے تین نظریے)
میر انیس اکثر ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں جو غیر فصیح ہیں یا جنہیں سوقیانہ الفاظ سمجھ کر شاعری میں ا ستعمال نہیں کیا جاتا۔ یہ زبان اور اس کے تخلیقی اظہار پر ان کی قدرت کی مثال ہے مثلا،
کرتا تھا سائیں سائیں وہ صحرائے لق ودق
تھے بیسیوں کے صورت مہتاب رنگ فق
دم گھٹتے تھے اندھیرے سے بچوں کو تھا قلق
آواز سے درندوں کے ہوتے تھے سینے شق
مائیں انہیں سلاتی تھیں منہ ڈھانپ ڈھانپ کے
سینوں سے لپٹے جاتے تھے وہ کانپ کانپ کے
دوسرا بند ہے،
آرام کو ترس گئے جب سے چھٹا ہے گھر
کن آفتوں میں پانچ مہینے ہوئے بسر
یہ آندھیاں یہ گرمی کے ایام یہ سفر
دن بھر چلے ہیں دھوپ میں جاگے ہیں رات بھر
گرمی سے کھیت خشک تھے جنگل اجاڑ تھا
ایک ایک کوس راہ جبل میں پہاڑ تھا
ان بند میں اجاڑ، پہاڑ، دق، فق، قلق اور شق کے قافیے صوتی اعتبار سے ناگوار کیوں نہ محسوس ہوں لیکن میر انیس نے ان آوازوں سے ہیبت اور وسعت کا تاثر پیدا کیا ہے اور روزمرہ محاورے سائیں سائیں کرنا، اندھیرے سے دم گھٹنا، منہ ڈھانپ ڈھانپ کر سلانا، بچوں کا ڈر سے سینوں سے لپٹ جانا ایسی باتیں ہیں جوہر انسان کے تجربے کا حصہ ہیں۔ اس لیے انہیں سن کروہ اسے زیادہ شدت سے محسوس کرتا ہے۔ میر انیس بولیوں اور روزمرہ کے الفاظ استعمال کرکے ایک طرح کا احساس قرب پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ میر انیس نے اس سلسلے میں ایسے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں جو اردوشاعری میں شاید ان سے پہلے کسی نے استعمال نہیں کیے لیکن ان کی خوبی یہ ہے کہ جہاں پروہ استعمال ہوئے ہیں، وہاں کسی طرح کی غرابت یا نامانوسیت کا احساس نہیں ہوتا۔ میر انیس اس طرح کے نامانوس الفاظ سے بھی لسانی ومعنوی حسن پیدا کرتے ہیں۔ ذیل کے بند میں بعض ایسے الفاظ انیس نے استعمال کیے ہیں جو اودھی یا عام بول چال کے ہیں لیکن انہیں پڑھتے وقت یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ یہ الفاظ اردو کے شعری ذخیرہ الفاظ سے باہر کے ہیں،
معجز نما تھی شاہ کی شمشیر آبدار
دکھلائی ماہ صیف میں برسات کی بہار
یاں برق، واں ہوا، تو ادھر ابر رودبار
بہیا کہیں لہو کی کہیں خوں کی آبشار
یوں سر برس گیے یہ روانی تھی باڑھ میں
پڑتا ہے ڈونگرا کبھی جسے اساڑھ میں
ان بند میں اساڑھ ہندی مہینے کا نام ہے اور عوام کی بولی کا لفظ ہے۔ بہیا، باڑھ، ڈونگرا یہ تما م الفاظ اودھی اور ہند ی کے ہیں۔ میر انیس نے باڑھ بہ معنی تلوار کی دھار اور بہ معنی سیلاب دونوں طرح نظم کیا ہے۔ یہاں پر تیزی اور دھار کے معنوں میں ہے لیکن اس کے ساتھ روانی اور سر برسنے کی رعایت سے سیلاب کا تاثر بھی پیدا کیا ہے۔ ایک اورمصرعے میں اسی لفظ سے سیلاب کی کیفیت کو اس طرح پیش کیا ہے۔۔۔ شہہ کہتے تھے ہے باڑھ پہ دریا نہ رکےگا۔ ایک اور بند میں روزمرہ، رعایت لفظی اور صنعتوں کی بےساختگی دیکھئے۔ زبان کا یہ استعمال کوئی غیرمعمولی فنکار ہی کر سکتا ہے۔
پہنچی جو سروں تک تو کلائی کو نہ چھوڑا
ہر ہاتھ میں ثابت کسی گھائی کو نہ چھوڑا
شوخی کو شرارت کو لڑائی کو نہ چھوڑا
تیزی کو رکھائی کو صفائی کو نہ چھوڑا
اعضائے بدن قطع ہوئے جاتے تھے سب کے
قینچی سی زباں چلتی تھی فقرے تھے غضب کے
پہلے گھائی اور رکھائی کے الفاظ دیکھئے جو عوامی زبان کے الفاظ ہیں اور شاید اس وقت لکھنؤ کی عام زبان میں بھی مستعمل نہیں رہے ہوں گے، اس لیے کہ اودھی اور دیہاتی بولیوں میں ہی ایسے الفاظ بولے جاتے تھے۔ پہلے مصرعے میں پہنچی اور کلائی کی رعایت، پہنچی ایک زیور ہے جو دیہاتی عورتیں بازوؤں پر پہنتی ہیں۔ اسی طرح رکھائی اور روکھاپن بھی ہے اور نجاری کا ایک اوزار بھی۔ چوتھے مصرعے میں دو محاوروں کا استعمال قینچی کی طرح زبان کا چلنا اور فقرے کسنا ایک الگ لطف پیدا کرتا ہے۔
میر انیس کے مرثیوں میں رعایتوں، محاوروں اور روزمرہ کا استعمال بڑی خوبصورتی سے ہوا ہے۔ بعض ناقدین رعایت لفظی کے استعمال کو اچھا نہیں سمجھتے لیکن میر انیس کسی رعایت کے لیے رعایت یا محاورے کے لیے محاورہ استعمال نہیں کرتے۔ وہ رعایت لفظی سے لفظی ومعنوی صنائع پیدا کرکے شعر کی معنویت اور دلکشی میں اضافہ کرتے ہیں۔ اس لیے ان کے یہاں مناسبت لفظی ایک جمالیاتی حسن ہے۔ مثلاً ان بند میں رعایتوں اور محاوروں سے معنوی تہہ داری اور صوتی آہنگ ملاحظہ کیجئے،
نہ وہ آنکھیں نہ وہ چتون نہ و ہ تیور نہ مزاج
سیدھی باتوں میں بگڑنا یہ نیا طور ہے آج
تخت بخشائے محمدؐ کے نواسے نے کہ تاج
جن کو سمجھا ہے غنی دل میں وہ خود ہیں محتاج
کون سا باغ تجھے شاہ نے دکھلایا ہے
کہیں کوثر کے تو چھینٹوں نہیں آیا ہے
اس کے علاوہ ایک دوسرے مرثیے کے یہ بند دیکھئے،
سر پٹکے تو موج اس کی روانی کو نہ پہنچے
قلزم کا بھی دھارا ہو تو پانی کو نہ پہنچے
بجلی کی تڑپ شعلہ فشانی کو نہ پہنچے
خنجر کی زباں تیغ زبانی کو نہ پہنچے
دوزخ کی زبانوں سے بھی آنچ اس کی بری تھی
برچھی تھی، کٹاری تھی، سروہی تھی، چھری تھی
جلوہ کیا بدلی سے نکل کرمہ نو نے
دکھلائے ہوا میں دوسرا ایک شمع کی لو نے
تڑپا دیا بجلی کو فرس کی تگ و دو نے
تاکا سپر مہر کو شمشیر کی ضو نے
اعدا تو چھپانے لگے ڈھالوں پہ سروں کو
جبریل نے اونچا کیا گھبرا کے پروں کو
رعایت زبان، روزمرہ اورمحاورے کا لطف اس بند میں دیکھئے،
کیں صفیں صاف مگر منہ کی صفائی نہ گئی
کج ادائی کو نہ چھوڑا، وہ لڑائی نہ گئی
کاٹ چھانٹ اور وہ لگاوٹ و رکھائی نہ گئی
سیکڑوں خون کیے اور کہیں آئی نہ گئی
شور تھا برق پئے جلوہ گری نکلی ہے
جان لینے کوا جل بن کے پری نکلی ہے
یہاں پر آنکھیں، چتون، تیور، مزاج، سیدھی باتوں میں بگڑنا، تخت، تاج، غنی، محتاج، باغ دکھلانا، چھینٹوں میں آنا یا آخر ی بند میں صفیں، صاف صفائی، کج ادائی، لڑائی، کاٹ چھانٹ، لگاوٹ، رکھائی، خون کرنا، آنا نہ جانا، جان لینا، بر ق اور جلوہ گری کی معنویت یا ان بند کی رعایتوں اور صنعتوں کی تفصیل کا موقع نہیں ہے لیکن اس سے یہ سمجھنا کہ میر انیس کی زبان بہت سادہ ہے، درست نہیں ہوگا۔ وہ فارسی و عربی الفاظ کا بلاتکلف استعمال کرتے ہیں اور ان کی صنعتیں ’فہم کامل‘ کا مطالبہ بھی کرتی ہیں لیکن ان کی ایک صفت ایسی ہے جوان کو اردو کے تمام شعرا میں ممتاز کرتی ہے یعنی وہ لفظ کے سب سے بڑے نباض ہیں۔ مشکل الفاظ ہوں یا نامانوس الفاظ، فارسی و عربی کے لفظ ہوں یا اودھی و ہندی کے الفاظ، وہ موقع و محل اور معنوی و لفظی صنعتوں کے ساتھ اس طرح ان کا استعمال کرتے ہیں کہ نہ وہ اجنبی محسوس ہوتے ہیں اور نہ ادراک معنی میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ اسی لیے انیس کے مرثیے جمالیاتی اعتبارسے فنکاری کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.