مراثی دبیر میں مضمون آفرینی کا عمل
مرزا دبیر اردو مرثیے کی عظمت کے بنیادی ستونو ں میں ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی شاعری ہمیشہ سوالیہ نشانوں کی زد پر رہی۔ میرے خیال میں اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ دبیر کو دبیر کی شکل میں نہیں دیکھا گیا۔ ان کی تنقید و تجزیے پر ہمیشہ موازنہ حاو ی رہا اور وہی مراثی دبیر کی شعریات بن گیا۔ اس پونے دو سو سال میں مطالعہ دبیر تقابلی اور دفاعی شعریات سے باہر نہ نکل سکا۔
مرزا دبیر کے مطالعہ کے وقت دو باتوں پر خاص طور سے توجہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اول اس عہد کا تہذیبی مزاج اور اس کا ادبی معیار، دوسرے مرثیے کا نظام اور اس کی تہذیب۔ یوں تو ہرادبی صنف کے نظام اور اس کی تہذیب میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہوتا ہے لیکن مرثیہ ان سب سے بڑی حد تک مختلف ہے۔ وہ دوسری اصناف سے استفادہ بھی کرتا ہے اور الگ بھی ہے۔ بعض باتیں مرثیے اور دوسری اصناف میں مشترک ہیں لیکن مرثیے کے موضوع نے انہیں مختلف بنا دیا ہے۔ مثلاً تغزل عشقیہ اور مسرت آ گیں شاعری کا حصہ ہے اور مرثیہ اظہار غم کے لیے مخصوص ہے لیکن شعرا نے مرثیے میں بھی تغزل کے پہلو پیدا کیے ہیں اور مرثیے کے چہرے، رجز، سراپا اور جنگ میں اکثر تغزل کے جوہر دکھائے ہیں۔
اسی طرح مدح قصیدے کا بنیادی عنصر ہے جس میں ممدوح کی شخصیت، اس کا دبدبہ، اس کی عظمت، اس کا عدل وانصاف، اس کی سخاوت یہاں تک کہ اس کے گھوڑے اور تلوار وغیرہ کی تعریف مبالغہ کے ساتھ نظم کی جاتی ہے۔ مرثیے میں شعرا نے مدح بھی نظم کی اور جنگ کے مناظر بیان کرنے میں گھوڑے اور شمشیر وسنان کی تعریف کا کوئی پہلو تشنہ نہ چھوڑا لیکن مرثیے کا ممدوح عام بادشاہ یا امیر نہیں۔ اس لیے مرثیے کی تہذیب میں مبالغہ، منقبت اور عقیدت واحترام کا اظہار بن گیا۔
جہاں تک اس عہدکے تہذیبی مزاج اور ادبی معیار کی بات ہے تو وہ زمانہ زبان اور اظہار بیان دونوں کے Perfection کا زمانہ تھا۔ آتش (وفات 1847) کی مقبولیت کے باوجود پورے ملک کی ادبی فضا پر ناسخ 1838)۔ 1772) کی حکمرانی تھی۔ یہاں پر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ اٹھارہویں صدی نصف آخر اور انیسویں صدی نصف اول کا یہ زمانہ سیاسی نشیب وفراز، تاریخی کشمکش اور تہذیبی ہیجان کا زمانہ تھا۔ ملک کی بساط پر مہرے گر رہے تھے اور شاہ و وزیر بےبس تھے۔ اس کے باوجود یہ زمانہ ایک مخصوص ادبی رویے اور مزاج کا زمانہ بھی تھا۔ جس پر قصیدے کا طمطراق، صناعی، رعایت لفظی، پیچیدگی اور جدت مضامین حاوی ہے۔ اس زمانے میں سودا (1713-1824) ناسخ (1772-1838) انشا (1817۔ وفات) مصحفی (1748-1824) شاہ نصیر (1838۔ وفات) آتش (1847۔ وفات) ذوق (1789-1854) غالب (1797-1869) میں ایک ناسخ اور آتش کو چھوڑ کر سب قصیدہ گوئی میں منفرد حیثیت رکھتے تھے۔
آتش صوفی تھے۔ ناسخ نے مزاجاً قصیدے نہیں لکھے لیکن زبان اور خیال بندی کے اعتبار سے ان کی شاعری میں قصیدے کی پیچیدگی اور صناعی نمایاں ہے۔ اس طرح یہ ایک ایسی شعریات کا عہد تھا جس کے خمیر میں فارسی یا ایرانی اور ہندی عناصریکساں طور پر شامل تھے۔ اس نئی شعریات نے مقامی تصورات اورغیرمقامی اثرات دونوں سے توانائی حاصل کی تھی اور یہی صناعی اور پیچیدگی اشرافیہ کا مزاج اور ادبی معیار بن گئی تھی۔
مرزا دبیر اسی ادبی منظرنامے اور ادبی تہذیب کا حصہ ہیں۔ ایک سودا نہیں رہے لیکن قصیدے کی پوری فضا موجود تھی۔ ناسخ، آتش، انشاء، مصحفی، شاہ نصیر، ذوق سب موجود تھے۔ آتش کا شاعری کو صناعی اور مرصع سازی قرار دینا یارشک کا اپنے استاد ناسخ کو ’’معنی آراسخن ایجاد‘‘ 1کہنا اس عہد کے ادبی معیار کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح اس عہد کا سارا زور جدت مضامین، خیال آفرینی، ندرت بیان، رعایت لفظی، پیچیدگی اور صناعی پر صرف ہوتا ہے۔ ہر عہد کا ادبی مزاج اس عہد کی قدروں کا تعین کرتا ہے اور انیسویں صدی نصف اول کی ادبی تہذیب نے اسی پیچیدگی، مضمون آفرینی اورصناعی کو اپنا ادبی معیار قرار دیا۔ اس کے سماجی، تاریخی اور نفسیاتی اسباب کی بحث کا یہ موقع نہیں لیکن اس پر دہلی کے زوال اور اودھ کی معیشت اور عیش وفراغت کے اثرات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
ظاہر ہے کہ مرزا دبیر اسی ماحول اور ادبی تہذیب کا حصہ تھے۔ یہی سبب ہے کہ ان کے مرثیوں میں اسی عہد کی عکاسی، وہی تہذیبی ادبی معیار، نازک خیالی اور اکثر پیچیدہ خیالی پر زور ملتا ہے۔ اس عہد میں ان کی مقبولیت کا سبب بھی یہی ادبی معیار ہے۔ انہیں مضمون آفرینی کا سلیقہ اور نکتہ سنجی کا قرینہ آتا تھا۔ اپنی اس خصوصیت کا انہیں خودبھی احساس تھا جس کا ذکر انہوں نے اپنے مرثیوں میں کئی جگہ کیا ہے۔ ان کا مشہور مرثیہ ہے، اے دبدبہ نظم دو عالم کو ہلا دے۔۔۔ کا یہ بند دیکھئے جس میں اپنی مضمون آفرینی کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں،
مضمون نئے کرتا ہوں میں ایجاد ہمیشہ
کہتا ہے سخن حضرت استاد ہمیشہ
کہنے میں ہے تاثیر خدا داد ہمیشہ
بھولے سے بتادوں تو رہے یاد ہمیشہ
بے لطف خدا یہ ہمہ دانی نہیں آتی
پر شمع صفت چرب زبانی نہیں آتی
دبیر اپنی مضمون آفرینی کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن اپنی ہمہ دانی کو الطاف وعنایت خداوندی کہہ کر تعلی کو عاجزی و انکساری میں بدل دیتے ہیں۔ اسی طرح اس بند کی بیت میں اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ میرے دعوے چرب زبانی نہیں ہیں۔ اردو میں چرب زبانی کا استعمال خوشامد کے معنوں میں ہوتا ہے یعنی میٹھی میٹھی باتیں کرکے دل موہ لینا۔ یہاں پر شمع اور چرب زبانی کی رعایت سے ایک لطف پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح تیسرے مصرع میں بتانے کا لفظ استعمال کیا ہے، بھولے سے بتا دوں تو رہے یاد ہمیشہ۔ بتا نے کا مفہوم یوں تو معنی یا کسی بات کے اظہار کے ہیں لیکن رقص و موسیقی میں ’بتانا‘ ہاتھ یا آنکھ کے اشارے سے کسی بات پر شعر کے مضمون کی تصویرکشی کرنے کے ہیں۔ دبیر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مرثیہ خوانی میں جسم، آنکھ اور ہاتھ کے اشاروں سے کام نہیں لیتے تھے۔ اسی لیے ’’بھولے سے بتانے‘‘ کا ذکر کرتے ہیں کہ اگر لاشعوری طور پر بھی اشاروں میں کسی چیز کو ظاہر کر دوں تو وہ بات سننے والوں کو ہمیشہ یاد رہے۔
اس طرح اپنی مضمون آفرینی ہی نہیں، اس مصرعے سے اپنی طرزادا کی اہمیت کو بھی ظاہر کر رہے ہیں۔ دبیر اکثر اس طرح کی رعاتیوں سے وسعت معنی کا کام لیتے ہیں۔ ان کے یہاں اپنی خوبی کے اظہار میں ہمیشہ انکساری کا پہلو نمایاں رہتا ہے۔ وہ اپنی صفت کے طور پر نہیں بلکہ خدا کے انعام کے طور پر اس کا بیان کرتے ہیں۔ اظہار کا یہ انداز بھی اس عہد کی تہذیبی قدروں کی نشان دہی کرتا ہے۔ ذیل کے بند میں وہ اپنی مضمون آفرینی اور قدرت سخن کا ذکر کرتے ہوئے بیت میں صنعت تضاد سے ایک خاص لطف پیدا کرتے ہیں،
میں بلبل خوش لہجہ دبستان سخن ہوں
میں معرکے میں، رستم بستان سخن ہوں
میں وارث اورنگ سلیمان سخن ہوں
ایمان سخن، دین سخن، جان سخن ہوں
عاجز ہوں کہ بندہ ہوں پراعجاز بیاں ہوں
سرتا قدم ہیچ ہوں، لیکن ہمہ داں ہوں
دبیر نے اس بند میں صنف تنسیق الصفات کا استعمال اپنی شاعری کے لیے کیا ہے۔ اس صنعت کا استعمال قصیدے میں عام ہے یعنی ممدوح کی صفات کا ترتیب وار ذکر کرنا۔ دبیر کو اپنی فکر کی بلندی، مضمون آفرینی ومعنی آفرینی پر بڑا ناز ہے۔ وہ چونکہ مداح حسین ابن علی ہیں۔ اس لیے ’مضامین عنقا‘ کو گرفت میں لینے اور ’پری زاد معنی‘ کو شیشہ میں اتارنے کی اپنی قدرت کو تحسین حسینؑ ابن علی کا انعام قرار دیتے ہیں۔ یہاں بھی لفظ خدام اور خلعت وغیرہ اس عہدکی تہذیب کی نشاندہی کرتے ہیں،
ملبوس ترو تازہ ہے چستی میں لگانا
مضمون قلم کار کا دوں ہے نہ پرانا
اس دھیان کے آنے سے کرم شاہ کا جانا
خدام ولا بولے کہ ہاں ہاتھ بڑھانا
لے نور چراغ حرم لم یزلی لے
لے خلعت تحسین حسینؑ ابن علی لے
حامی جو سلیمان دو عالم نظر آئے
مضمون جو عنقا تھے وہ پرجوڑ کے آئے
طاؤسِ تصور کی طرح دل میں درآئے
شیشے میں پری زادِ معنی اتر آئے
یاقوت بدخشاں سے دُر آتے ہیں عدن سے
لعل اگلوں گا میں طوطی سدرہ کے دہن سے
سرکار ہے ہر مجلس شبیر ہماری
مضمون کی طرح بیت ہے جاگیر ہماری
آئینہ سکندر پہ ہے تسخیر ہماری
ہر مہر سلیمان کی تحریر ہماری
تنہا مہ وماہی پہ نہیں سکہ پڑا ہے
سورج کا نگینہ بھی انگوٹھی میں جڑاہے
مداحی سلطان زمن ہم کو مبارک
جبریل کو وحی اور یہ سخن ہم کو مبارک
رضوان کو بہشت اور یہ چمن ہم کو مبارک
موتی کوصدف اور یہ عدن ہم کو مبارک
شہرہ ہے یہ تائید شہ جن وملک سے
مضموں، مرا گھر پوچھتے آتے ہیں فلک سے
دبیر مضمون آفرینی اور بیت مضمون کو اپنی جاگیر بتاتے ہیں اور معنی کو ’پری زاد‘ سے تشبیہ دے کر ایک طرف مضمون پر اپنی ملکیت اور دوسری طرف وسعت معنی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ بیت کے معنی شعر کے ہیں جو مرثیے میں بالعموم مسدس کے تیسرے شعر کے لیے استعمال ہوتا ہے جسے پر زور بنانے پر شعراء اپنی پوری کوشش صرف کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ بیت کے معنی مکان کے بھی ہیں۔ مرزا دبیر مکان کی طرح مضمون کو اپنی ملکیت قرار دیتے ہیں اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مالک مکان کو مکان کے تصرف پر جس طرح کا حق حاصل ہے اسی طرح بیت یعنی شعر کے مضمون پر انہیں تصرف حاصل ہے۔
دبیر نے معنی کو ’پری زاد‘ کہہ کر ایک نازک اور دلچسپ نکتہ پیدا کیا ہے۔ جدید تنقید میں دریدا اور سوسیئر کے حوالے سے لفظ ومعنی کی جس بحث کو جدید ومابعد جدید نظریات ادب سے وابستہ کیا جاتا ہے، اس کا بہت واضح اشارہ ان کے مصرعے، شیشے میں پری زاد معنی اترآئے۔۔۔ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ پری زاد کے معنی پری کی نسل سے، پری صفت، نہایت خوبصورت اور حسین کے ہیں یعنی وہ ایسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جن کے معنی نہایت ہی خوبصورت اور دلکش ہیں۔ اس کے علاوہ پری اور پری زاد کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ کسی ایک جگہ ایک شکل میں محدود نہیں۔ وہ جہاں چاہیں جا سکتے ہیں اور جو شکل چاہیں اختیار کر سکتے ہیں۔ دبیر پری زاد کہہ کر اپنے الفاظ یا مضمون کی معنوی وسعت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ان کے الفاظ و تراکیب معنی میں محدود نہیں۔ ان کی معنوی کائنات بے حد وسیع ہے اور وقت اور موقع کے لحاظ سے اس کے معنی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
اس کا ذکر آ چکا ہے کہ مرزا دبیر کے عہد کی تہذیب کے ادبی معیار پر فارسی شعریات کا غلبہ تھا۔ ناسخ کی اصلاح زبان کی کوشش کسی لسانی تحریک کے زمرے میں آئے نہ آئے لیکن ملک کے طول وعرض میں ان کی مقبولیت اور ان کے کثیر شاگردوں کی زبان واظہار کے سلسلہ میں ان کی پیروی نے نازک خیالی، مضمون آفرینی، صنائع لفظی ومعنوی کے استعمال پر قدرت کواس عہد کا مزاج بنا دیا تھا۔ مرزا دبیر اسی صناعی اور مضمون آفرینی سے اپنے کلام کو آراستہ کرنے کی شعوری کوشش کرتے ہیں۔ نئی تراکیب وضع کرنے اور نیا مضمون پیدا کرنے کی یہ شعوری کوشش ان کے کلام کا حسن بھی ہے اور کمزوری بھی۔
یہی وجہ ہے کہ وقت اور ادبی مزاج ومعیار کی ذرا سی تبدیلی نے انہیں کے عہد میں ان کی مقبولیت پر اثر ڈالنا شروع کردیا تھا۔ لیکن یہ صناعی ان کے مزاج کا حصہ بن گئی تھی۔ وہ ایک ہی مضمون کو طرح طرح سے ادا کرتے اور اس میں نئی سے نئی بات پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ مثلاً ایک مرثیے میں طلوع صبح کا مضمون چھ بند میں چھ مختلف طریقوں سے ادا کرتے ہیں اور اس کے لیے مرثیے میں مسلسل چھ مطلعے نظم کرتے ہیں۔ کسی مرثیے میں مسلسل چھ مطلعے نظم کرنے کی مثالیں بھی کم ہی ملیں گی، جب ماہ نے نوافل شب کو ادا کیا۔۔۔ ان کا مشہور مرثیہ ہے۔ اس میں طلوع صبح کے چھ مناظر اور ان میں دبیر کی فکر کی بلندی، طبع کی جولانی اور صنائع کا التزام ملاحظہ کیجئے،
پہلا مطلع
جب ماہ نے نوافل شب کو ادا کیا
سر قبلہ رو جھکا دیا ذکر خدا کیا
بڑھ کر صف نجوم نے بھی اقتدا کیا
سجدے میں شکر خالق ارض وسما کیا
در کھل گئے عبادت رب غفور کے
خورشید نے وضو کیا چشمے سے نور کے
واقعہ کربلا ایک سنا سنایا موضوع ہے جس کے ہر گوشے سے سامع یا قاری واقف ہے، اس لیے مرثیہ نگار کے لئے نیا مضمون پیدا کرنا یا اس میں نئے پن کا کوئی گوشہ نکالنا دوسری اصناف سخن کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشکل کام ہے۔ اس کے لیے وہ استعارے، تراکیب، رعایت لفظی یا دوسرے صنائع کا سہارا لیتا ہے اور اپنے مضمون کو صبح کا سماں، طلوع آفتاب کا منظر، گرمی کی شدت اور جنگ کے مناظر سے وسعت دیتا ہے۔ یہی مضمون آفرینی شاعر کے کمال کاحصہ بن جاتی ہے کہ وہ بار بار دہرائے جانے والے مضمون کو کس طرح نیا بناکر پیش کرتا ہے۔ اس مطلع کو لیجئے تو مضمون بہت سادہ اور سامنے کاہے کہ صبح ہوئی، سورج طلوع ہوا لیکن مرزا دبیر نے اس مضمون کو ادا کرنے کے لیے لفظی و معنوی رعایتوں سے کام لیا ہے اور عبادت اور نماز کے تلازمات استعمال کرکے مضمون کو نیا کر دیا ہے۔
نوافل شب کا اطلاق شب کے بالکل آخری حصے میں ادا کی جانے والی نمازوں پر ہوت اہے، جو صبح کے قریب ہونے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اسی طرح ماہ کا ذکر حق کے لیے سر کو قبلہ رو ہوکر جھکانا عبادت کے اس ماحول کو ظاہر کرتا ہے جو سورج کے نمودار ہونے سے پہلے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں ایک رعایت یہ ہے کہ قبلہ مغرب میں ہے اور چاند کا مغرب کی طرف جھکنا اس کے غروب ہونے اور صبح کے ورد کا اشارہ ہے۔ دبیر دوسرے مصرعوں میں مزید تلازمات نماز کا ذکر کرتے ہیں۔ نماز کے ادا کرنے میں ایک امام ہوتا ہے تو اس کے ساتھ نمازیوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ چاند امام ہے، اس لیے بڑھ کر صف نجوم نے بھی اقتدا کیا اور سب خالق ارض وسما کے سجدے میں گر گئے۔ سجدے کی صورت میں چہرہ چھپ جاتا ہے اور قمرونجوم کے چہروں کے چھپ جانے کا مطلب ہے کہ سب غروب ہو گئے۔ نماز کے اہتمام میں یا تلازمات نماز میں ایک چیز باقی رہ گئی تھی یعنی وضو جو نماز کا لازمی جز ہے اور چونکہ صبح کے لیے سارے تلازمات نماز کے استعمال کیے ہیں، اس لیے اس تلازمے اور صبح کی نمود کو کس خوبصورتی سے بیت میں پورا کیا ہے،
در کھل گئے عبادت رب غفور کے
خورشید نے وضو کیا چشمے سے نور کے
یہاں بھی دبیر نے ایک نازک پہلو پیدا کیا ہے کہ وضو سے چہرہ صاف اور روشن ہو جاتا ہے۔ اب تک صبح کاذب کا عمل تھا، اس لیے سورج کا چہرہ صاف نہیں تھا۔ اس کے وضو کرنے سے چہرہ صاف اور روشن ہو گیا۔ وضو کرتے وقت آب وضو ہر جانب پھیل جاتا ہے، چونکہ سورج نے نور کے چشمے سے وضو کیا، اس لیے ہر طرف نور پھیلنے لگا یعنی سپیدہ صبح نمودار ہونے لگا۔ ان رعایتوں اور تلازمات نے مضمون کو معنوی وسعت بھی دی اور اسے نیابھی بنا دیا جسے پڑھ کر صبح کی ایک نئی کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔
ان کا دوسرا مطلع ہے،
گلگونۂ شفق جو ملا حور صبح نے
اسپند مشک شب کو کیا نور صبح نے
گرمی دکھائی روشنی طور صبح نے
ٹھنڈے چراغ کر دیے کافور صبح نے
لیلائے شب کے حسن کی دولت جو لٹ گئی
افشاں جبین نجم درخشاں کی چھٹ گئی
طلوع صبح کے مضمون کو اس مطلع میں مرزا دبیر ایک نئے رخ سے بیان کرتے ہیں اور آفتاب کے لیے حور صبح کو استعارہ بالکنایہ کے طور پر استعمال کرکے صبح کے مضمون کو وسعت دینے کے لیے نئے تلازمات مہیا کرتے ہیں۔ وہ طلوع صبح سے نمودار ہونے والی سرخی کو ’حور صبح‘ کا گلگونہ قرار دیتے ہیں۔ اسی طرح رات کی تاریکی کی تشبیہ مشک سے دے کر اسے حور صبح یعنی آفتاب پر صدقہ کر دیتے ہیں۔ یہاں پرشب کی سیاہی کو ظاہر کرنے کے لیے مشک شب کی ترکیب استعمال کی ہے۔ مشک بھی سیاہ ہوتا ہے اور اسپند کے دانے بھی سیاہ ہوتے ہیں۔ صبح کی روشنی کو اسپند اور مشک کی سیاہی کے تضاد سے ایک نئی شکل دے دی ہے اور اس تضاد کو پورے بند میں طور اور روشنی، چراغ اور کافور، لیلائے شب اور جبین انجم کی افشاں کے استعمال سے قائم رکھا ہے۔ ٹھنڈے اور کافور کی رعایت سے صبح کی خنکی اور سفیدی کی طرف جو لطیف اشارہ ہے وہ بھی توجہ کا مستحق ہے۔
مرثیے کا تیسرا مطلع ہے،
پیدا ہوا سپیدہ طلعت نشان صبح
معبود کا وہ ذکر و لطف اذان صبح
باندھا عمامہ نور کا، پہنی کتان صبح
چرخ چہارمی پہ گیا خطبہ خوان صبح
منہ سب کے سوئے قبلہ امید ہو گئے
سرگرم سجدہ عیسی و خورشید ہو گئے
اس مطلع میں بھی عبادت اور اس کے تلازمات سے طلوع صبح کو بیان کیا ہے لیکن یہ بند پہلے بند سے مختلف ہے۔ اس میں صبح سے پہلے عبادت کی تیاری کا بیان ہے یعنی اذان، نماز پڑھنے والے، عمامہ اور لباس۔ لباس کے لیے کتان کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ سپیدہ سحری کے نمودار ہوتے ہی وہ غائب ہو جاتا ہے اور اس کے بعد خطبہ نماز کا دیباچہ ہے۔ اس کے علاوہ نور اور کتان، چرخ چہارمی اور عیسی کی رعایت مضمون کو نئی معنویت عطا کرتی ہے۔
چوتھا مطلع ہے،
آیا عروج پر شہ گیتی ستان مہر
لی روز نے پناہ بہ زیر نشان مہر
پرچم کشا ہوا علم زرفشان مہر
ظاہر ہوئی زمانے پہ تاب وتوان مہر
نیزہ کرن کا دیدہ گردوں میں ڈال کے
مغرب میں پھینکی رات کی پتلی نکال کے
اس مطلع میں مرزا دبیر نے جنگ کے تلازمات سے صبح کے مضمون کو بیان کیا ہے اور پہلے ہی مصرعے سے آفتاب کو شہ گیتی نشان کہہ کر بادشاہ کی فوج کا تصور ذہنوں میں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ نشان، پرچم اور علم، آفتاب کی سر بلندی، اس کی حکومت اور زمانے پر اس کے ’تاب وتواں‘ یعنی طاقت کو ظاہر کرتے ہیں اور بیت میں جس طرح اس مضمون کو مکمل کیا ہے، اس نے صبح کے مضمون پر ان کی جدت کی مہر ثبت کر دی ہے۔
نیزہ کرن کا دیدہ گردوں میں ڈال کے
مغرب میں پھینکی رات کی پتلی نکال کے
پتلی کے نکال کر پھینک دینے کا مطلب سیاہی کا ختم ہو جانا۔ آنکھ سے پتلی اگرن کال دی جائے تو صرف سفیدی باقی رہتی ہے۔
پانچواں مطلع ہے،
مغرب میں جب کہ غرق جہاز قمر ہوا
سلطان شرق، راکب کشتی زر ہوا
پانی کا قحط بہر شہ بحر و برہوا
برباد فخر نوح کا آباد گھر ہوا
دریا دلی نے یاد شہ نیک ذا ت کی
بخشی گناہ گاروں کو کشتی نجات کی
اس بندمیں آفتاب اور صبح کے لیے بعض نئی تشبیہ و استعارے اور تراکیب، جہاز قمر، سلطان شرق، کشتی زر، فخر نوح، بادشاہ نیک ذات، کشتی نجات کے علاوہ کربلا میں بندش آب کا ذکر کرکے صبح کے مضمون اور مرثیے کے اصل موضوع میں ربط پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ دبیر کے ان مطلعوں میں آخری مطلع بہت مشہور ہے جو ترتیب میں مرثیے کا چھٹا مطلع ہے،
یونس دہان ماہی شب میں نہاں ہوا
کنعان بام داد سے یوسف عیاں ہوا
لیلائے شب کے حسن کا گلشن خزاں ہوا
عالم شب فراق سے گرم فغاں ہوا
مجنوں کے رنگ رخ کی طرح دھوپ زرد تھی
تھی صبح یا زمانے کی اک آہ سرد تھی
اس مطلع میں مرزا دبیر نے تلمیح سے استعارے کا کام لے کر مضمون آفرینی و معنی آفرینی کے جوہر دکھائے ہیں اور یونس کو ماہتاب اور یوسف کو آفتاب کے استعارہ کے طور پر استعمال کیا ہے۔ یہاں پر ایک بات کی طرف توجہ چاہتا ہوں کہ اب تک کے تمام مطلعوں میں صبح کی تیاری اور اس کے طلوع ہونے کے آثار تھے لیکن اس چھٹے مطلع میں وہ اپنے مضمون کو مکمل کرتے ہیں یعنی آفتاب طلو ع ہو گیا، دھوپ نکل آئی، اسی لیے پہلے مصرع میں یونس یعنی چاند کا نہاں ہونا، کنعان کی صبح سے یوسف یعنی آفتاب کا ظاہر ہونا دونوں آفتاب کے طلوع ہونے کا اشارہ ہیں اور تیسرے مصرعے میں شپ فراق اور گرم فغاں دھوپ کی شدت کا احساس دلاتے ہیں۔
اس طرح صبح ہونے کے مضمون کو انہوں نے رات کے آخری حصے کی نوافل شب سے شروع کیا ہے اور رفتہ رفتہ صبح کاذب سے صبح صادق کی طرف بڑھتے گئے ہیں اور آخری بیت میں دھوپ کے نکل آنے کا ذکر کرتے ہیں۔۔۔ مجنوں کے رنگ رخ کی طرح دھوپ زرد تھی۔ یہاں بھی وہ ایک بات کا خیال رکھتے ہیں کہ یہ سارا منظرنامہ واقعات کربلا سے متعلق ہے جو غم کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی لیے دھوپ سے زرد صبح کو آہ سرد سے تعبیر کرتے ہیں۔
ان چند بند میں دبیر کی کئی خصوصیات سامنے آتی ہیں۔ ان میں ان کی صناعی بھی ہے، تخیل کی بلند پروازی، استعاروں اور تراکیب کا التزام، معنی آفرینی ومضمون آفرینی اور اظہار پر قدرت بھی۔ دبیر سادہ گو شاعر نہیں تھے۔ ان کے استعارے، تراکیب اور ان کے اسلوب Diction میں مشکل پسندی ہے۔ وہ سادہ بات کو بھی مشکل انداز میں پیش کرتے ہیں اور اس میں مضمون ومعنی کے نئے نکات پیدا کرتے ہیں۔ ان کی تشبیہات، تراکیب اور استعارے خاص توجہ کے مستحق ہیں۔ ان کی اس مشکل پسندی کو اس عہد کے ادبی معیار سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ مشکل پسندی اس وقت اشرافیہ کے ادبی مزاج کا حصہ تھی بلکہ اعلیٰ ادب کے عام تصور میں یہ بات شامل تھی۔ کسی بھی تخلیق کے لیے اس کا عہد سب سے بڑا ناقد ہوتا ہے اور دبیر کی زبان اور اظہار کوا س عہد نے سند دے رکھی تھی۔
مرثیہ ایک طویل بیانیہ ہے۔ اپنے موضوع کے لحاظ سے اس کی کچھ حدیں متعین ہیں جنہیں توڑا نہیں جا سکتا۔ اس کا عمل چند کرداروں کے ذریعے محدود زمان ومکان میں واقع ہوتا ہے جس میں کسی طرح کی تبدیلی مرثیے کے پورے تاثر کو مجروح کر سکتی ہے۔ ایسی صورت میں شاعر کو اس کے بیان میں کسی طرح کی ذہنی آزادی نہیں ہے۔ اس لیے شاعر مضمون آفرینی اور اظہار میں جدت سے دلکشی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مضمون آفرینی ومعنی آفرینی کے مواقع اسے چہرہ، سراپا، رجز اور جنگ میں زیادہ ملتے ہیں۔ رخصت، شہادت میں جذبات نگاری سے وہ فائدہ اٹھاکر مرثیے میں تاثر پیدا کرتا ہے۔ مرزا دبیر کی ایک کمزوری ہے کہ وہ بیانیہ کو طول دینے کے لیے روایتوں کا اضافہ کرتے جاتے ہیں۔ اس سے مضمون آفرینی کی جو فضا قائم کرتے ہیں وہ ٹوٹ جاتی ہے اور طویل روایتوں کے بعد دوبارہ اسے قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی لیے ان کے مرثیوں کے چہروں میں مضمون آفرینی کی مثالیں زیادہ ملتی ہیں جس کا اندازہ چند مرثیوں کے ابتدائی مصرعوں سے ہی کیا جا سکتا ہے مثلاً،
جب لالہ شفق نے دکھائی بہار صبح
ذرہ ہے آفتاب در بو تراب کا
انگشتری عرش کا یارب نگیں دکھا
مفتاح قفل باب سخن ہے زباں مری
آمد ہے تاجدار ثریا جناب کی
اے طبع رواں سیف قلم جلد علم کر
خورشید نے برہم جو کیا دفتر انجم
اے باغ طبع رنگ بہارسخن دکھا
اس طرح مرزا دبیر کے عام مرثیوں میں مضمون آفرینی کا عمل دیکھا جا سکتا ہے۔ یہاں پر ان کے دو مرثیوں سے چند مثالیں دینا چاہوں گا۔ پہلا مرثیہ ہے، خورشید نے برہم جو کیا دفترانجم۔ دبیرکا یہ مرثیہ ان کی مضمون آفرینی کی بہت کامیاب مثال ہے۔ اس مرثیے کے چہرے کے پانچ بند میں پانچ مختلف انداز سے انہوں نے طلوع صبح کا منظر نظم کیا ہے۔ مرثیے میں طلوع صبح کا موضوع انیس ودبیر کا پسندیدہ موضوع ہے اور دونوں حضرات نے بڑی خوبصورتی سے صبح کے مناظرکی تصویرکشی کی ہے۔ اس سے قبل بھی دبیر کے چھ مطلعوں کا ذکر آ چکاہے جو صبح سے متعلق ہیں۔ یہ چہرے مسلسل بند ہیں لیکن دبیر نے ہر بند میں مختلف علوم وفنون کی اصطلاحات اور تلازمات کے ذریعے مضمون آفرینی کے ایسے جوہر دکھائے ہیں جو اردو شاعری میں کمیاب ہیں۔ پہلا بند یا مضامین ایک طرح سے تمہید ہے لیکن اس تمہید میں بھی انہوں نے ہر مصرعے میں نئے مضامین کو پیدا کرنے کی کوشش کی ہے،
خورشید نے برہم جو کیا دفتر انجم
سالار قمر لے کے چلا لشکر انجم
ذروں کی تجلی نے کیا ہم سر انجم
زائل صدف شب سے ہوا گوہر انجم
انگشتری صبح کا خورشید نگیں تھا
کیا خوب نگیں تھا کہ جہاں زیر نگیں تھا
اس بند کے ایک ایک مصرعے میں رعایت لفظی کا جو اہتمام ہے اس نے ایک نیا لطف پیدا کر دیا ہے۔ برہم کر دینے کے ایک معنی تو منتشر کر دینے کے ہیں لیکن برہم کے معنی خفا، غصہ اور ناراضگی کے بھی ہیں۔ یہاں پر ستاروں کے ادھر ادھر ہو جانے کی رعایت اور برہم کی ذومعنویت نے ایک نیا مضمون پیدا کر دیا ہے۔ ساتھ ہی سورج کے طلوع ہونے پر روشنی کا سیاہی اور ستاروں کی چمک پر غالب آ جانا پرانے حاکموں پر نئے آقا کے عتاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرے مصرعے میں قمر جو حاکم شب تھا اس کا پسپا ہوکر اپنے لشکر کو لے کر چلا جانا طلوع صبح کا لطیف اشارہ ہے۔ اسی طرح تیسرے مصرعے میں سورج کی روشنی سے زمین کے ذروں کا ہم سرانجم ہو جانا شکست شب کو ظاہر کرتا ہے۔
چوتھا مصرع آنے والی بیت کی پیش بندی ہے۔ یہاں پر صدف شب سے گوہر انجم کا زائل ہو جانا فلک سے ستاروں کی حکومت کے خاتمے کا ہی اعلان نہیں ہے بلکہ بیت میں صبح کو انگشتری اور خورشید کو نگیں یعنی انگشتری پر لگا گوہر قرار دینے کا جواز پیدا کیا ہے۔ دوسرے مصرعے میں نگیں کی ذومعنویت نے مضمون آفرینی کو حدکمال تک پہنچا دیا ہے۔ دبیر کے عہد میں مکمل سورج گرہن کبھی ہوا تھا یا نہیں لیکن جن لوگوں نے مکمل سورج گرہن میں سورج کی انگشتری کو دیکھا ہے وہ یقیناً دبیر کی مضمون آفرینی کی داد دیں گے۔ دنیا کا زیر نگیں ہونا بھی ایک حقیقت ہے۔ ظاہر ہے کہ سارے موسم، دن ورات، سردی وگرمی، ابروباد، پھل پھول، ان کے رنگ اور خوشبو سب سورج کی روشنی اور گرمی کے محتاج ہیں۔
دوسرے بند میں بھی مرزا دبیر نے طلوع صبح کا منظر نظم کیا ہے لیکن یہاں پر انہوں نے جو اصطلاحات استعمال کی ہیں، وہ دفتری اصطلاحات ہیں اس طرح انہوں نے طلوع صبح کے لیے ایک نئی فکری ومعنوی فضا پیدا کی ہے،
منشی سحر مہر سے لے کر قلم زر
لکھنے لگا معزولی ومنصوبی لشکر
فرد سیہ شب کوکیا خارج دفتر
منصوب ہوا حامل روز اپنی جگہ پر
چہرہ نہ رہا لشکرانجم میں کسی کا
پروانہ چراغوں کو ملا برطرفی کا
منشی، قلم، معزولی، فرد، خارج دفتر، منصوب، چہرہ نہ رہنا، پروانہ ملنا، برطرفی، سب اس عہد کی دفتری اصطلاحات ہیں جنہیں طلوع صبح یا برطرفی شب کے لیے دبیر نے استعمال کیا ہے۔ منشی سحر کا مہر سے قلم زرلے کر لشکر شب کی معزولی کا حکم لکھنا، صبح ہونے کی خوبصورت علامت ہے۔ سورج کی سنہری کرنوں کوق لم زر قرار دینا اور منشی سحر کا اس قلم سے رات کے لشکر کی برطرفی کا حکم لکھنا دبیر کی مضمون آفرینی کی خوبصورت مثال ہے اسی طرح فردسیہ شب، رات کے حساب کتاب (عمل دخل) کو خارج دفتر کر دینا اور روز یعنی دن کو منصوب کرنا، لشکر انجم میں کسی کا چہرہ نہ رہنا معنی کی کئی جہتیں رکھتا ہے۔ پروانہ ملنا دفتری اصطلاح میں حکم ملنا ہے۔ یہاں پر چراغ اور پروانے کی رعایت بھی قابل توجہ ہے جس نے مصرعے میں ایک نیا معنوی حسن پیدا کر دیا ہے۔ دبیر کا شمار اس عہد کے بڑے عالموں میں ہوتا ہے۔ انہیں مختلف علوم پر دسترس حاصل تھی۔ اس مرثیے کے تیسرے بند میں طلوع صبح کے لیے انہوں نے علم ہیئت کی اصطلاحات سے مضمون آفرینی کے جوہر دکھائے ہیں،
جس طرح سے دیوان زحل کو کیا تبدیل
بخشی عطارد کو بھی بخشی وہی تعطیل
پنہاں قلم کاہکشاں کی ہوئی تطویل
روشن تھی دوات مہ بے نور کی تفصیل
تعزیل سبھوں کو شہ خاور نے کیا تھا
پر جائزہ روزوں کا بحالی کا لیا تھا
زحل ایک ستارہ ہے جسے نحس سمجھا جاتا ہے۔ ہندی میں اسے سنیچر کہتے ہیں۔ دیوان دربار اور افسر اعلیٰ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ دیوان زحل جو سیاہی کی علامت تھا اسے عہدہ افسری سے علیحدہ کر دیا گیا یعنی تبدیل کر دیا گیا۔ عطارد جسے منشی فلک یا دبیر فلک کہتے ہیں اور بخشی کے معنی حساب رکھنے والے کے بھی ہیں۔ بخشی اور عطارد میں جو رعایت ہے وہ توجہ کی مستحق ہے۔ اسی طرح کہکشاں ستاروں کا وہ جھرمٹ ہے جو ایک لمبے راستے کی طرح دکھائی دیتا ہے۔ تطویل کے معنی بھی دراز کرنا اور طول دینے کے ہیں۔ اس کے ایک معنی التوا کرنے کے بھی ہیں اس طرح قلم کہکشاں کی درازی ختم ہو گئی۔ قلم سے دبیر نے ایک اور رعایت پیدا کی ہے۔ قلم کرنا کسی چیز کے قطع کر دینے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی درازی کہکشاں کا قطع کر دینا اور مہ بےنور کی تفصیل کا دکھائی دینے لگنا۔ بادشاہ فلک خاور یعنی سورج نے سب کو معزول کرکے دن کی بحالی کا جائزہ لیا یعنی صبح ہوگئی اور دن نکل آیا۔ رعایت لفظی کا یہ اہتمام اور مضمون آفرینی کا یہ انداز دبیر کا حصہ ہے۔
چوتھے بند میں مرزادبیر نے مضمون آفرینی کے لیے علم ہیئت کی اصطلاحات کے ساتھ سامان جنگ یا فوج کی اصطلاحات کو شامل کرکے طلوع صبح کے لیے ایک نیا منظرنامہ پیش کیا ہے۔ اس سے پہلے کے بند میں انتظامی اور دفتری نظم ونسق کو علم ہیئت کی اصطلاحات کے حوالے سے پیش کیا گیا تھا لیکن اس بند میں علم ہیئت کی اصطلاحات کے ساتھ فوج اور جنگ کے تلازمات کے ذریعہ خورشید کی حکمرانی کا اعلان کیا گیا ہے،
مریخ فلک مہر سے روکش ہوا ناگاہ
تو سن فلک اور سلحہ جنگ بھی دل خواہ
انجم زرہ نیزہ عقرب سپر ماہ
پر خنجر خورشید نے کیا کام کیا واہ
جلاد فلک قرص مہر چھوڑ کے بھاگا
خورشید کی دہشت سے سپر چھوڑ کے بھاگا
پہلے اس بندمیں علم ہیئت کی اصطلاحات پر نظر ڈالیے۔ مریخ ایک ستارہ ہے جو منحوس سمجھا جاتا ہے۔ مہر سورج، توسن فلک، استعارہ ہے نویں برج کا جوبچھڑے یا گھوڑے کی شکل کا ہوتا ہے جسے ہندی میں دھنو اور انگریزی میں Sagittarius کہتے ہیں۔ عقرب آٹھواں برج ہے جو بچھو کی شکل کا ہے۔ ماہ، چاند، انجم، ستارے، خورشید، آفتاب، جلادفلک استعارہ مراد مریخ، اس کے علاوہ جنگ کی اصطلاحات اور تلازمات، روکش ہونا، باغی ہونا، پھر جانا، توسن گھوڑا، اس وقت کی جنگ کے لیے ایک ضروری چیز، سلحہ جنگ جنگ کا سازوسامان، زرہ، نیزہ، سپر، خنجر اور دہشت جو جنگ کا ردعمل ہے۔ اس بند سے مرزا دبیر کی مضمون آفرینی ہی نہیں ان کی مشکل پسندی کابھی اندازہ ہوتا ہے۔ دبیر نے پہلے مریخ کو مہر سے روکش کرکے ایک طرح سے انتظام وانصرام جنگ کا جواز پیدا کیا ہے۔
دوسرے اس سے ایک مفہوم یہ بھی نکلتا ہے کہ سورج کے نکلنے سے مریخ کا منہ پھر گیا۔ ظاہر ہے کہ جب کوئی حکومت سے روکشی کرےگا تو نتیجتاً جنگ ہی ہوگی۔ اس کے لیے انہوں نے توسن فلک کا استعارہ استعمال کیا جس سے مراد دھنو راشی ہے اور جس کی شکل گھوڑے کی ہوتی ہے اور اس کا اگلا حصہ انسان کا ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں تیر کمان ہوتی ہے یعنی اسلحہ جنگ سے آراستہ گھوڑے معہ سپاہی کے موجود ہے اورستارے جو بکھرے ہوئے ہیں اور کہیں کڑیوں کی طرح نظر آتے ہیں انہیں زرہ قرار دیا ہے۔ اسی طرح عقرب کے ڈنک کو نیزہ اور چاند کو سپر کہہ کر فوج شب کی جنگ کا سارا سامان مکمل کر دیا۔ اس تمام سازوسامان کے باوجود نیزہ خورشید یعنی سورج کی کرنوں نے یہ جنگ فتح کر لی۔ اس بند کی بیت جنگی تلازمات، جلاد، دہشت، سپر کے ذریعہ حکومت شب کے خاتمے اورحکمرانی خورشید کے آغاز کا اعلان ہے۔ جلادفلک یعنی مریخ کے گرد ایک ہالہ بنا ہوتا ہے جسے اس کی سپر قرار دیا ہے، جو خورشید کی دہشت سے آسمان چھوڑکر بھاگ گیا۔ اس طرح جیسے جیسے طلوع صبح کی منظرکشی میں دبیر آگے بڑھتے ہیں، ان کی مضمون آفرینی کے جوہر کھلتے جاتے ہیں۔
پانچویں بند میں انہوں نے خطاطی کی اصطلاحات اور تلازمات سے رات پر صبح کی فتح کا منظر پیش کیا ہے۔ خطاطی ایک خوبصورت اور دلکش فن ہے۔ دبیر صبح کی دلکشی میں خطاطی کو شامل کرکے ایک نیا مضمون پیدا کرتے ہیں،
اوراق فلک خط شعاعی سے محشا
اطباق زمیں غیرت اوراق مطلا
تھی سورہ والفجر کی تفسیر ہر اک جا
معنی جعل الشمس ضیائی کے ہویدا
دنیا میں نہ ظلمت شب یلدا کی رہی تھی
پر ایک سیاہی رخ اعدا کی رہی تھی
اوراق، خط شعاع، محشا، مطلا، سیاہی، سب خطاطی کی اصطلاحات ہیں اور اس کے لیے سات آسمانوں کو اوراق قرار دے کر خط شعاعی سے محشا کرنا یعنی اس پر حاشیہ لکھنا۔ سورج اور شعاع کی رعایت نے مضمون کا لطف دوبالا کر دیا ہے۔ پرانے زمانے میں کتاب کے صفحات پر چاروں طرف خوبصورت بیل بنائی جاتی تھی اور ایسا بھی ہوتا تھا کہ حوض کے باہر صفحے کے چاروں طرف ترچھی سطروں میں حاشیہ تحریر کیا جاتا تھا۔ اس طرح اس میں شعاع کی رعایت اس تحریر سے بھی پیدا کی گئی ہے جو حاشیے کے باہر حاشیے کے طور پرلکھی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ فن خطاطی میں خط شعاع، نسخ ونستعلیق کی طرح ایک طرز تحریر کا نام ہے۔ اسی طرح بعض اہم کتابوں کے اوراق پر سونے کا پانی چڑھایا جاتا تھا۔ دبیر کہتے ہیں سورج کی شعاعوں نے فرش زمین کو رشک اوراق مطلا بنا دیا ہے۔
بندکے تیسرے اور چوتھے مصرعے میں انہوں نے قرآن مجید کا حوالہ دیا ہے۔ جس کی ایک مشہور سورہ ’سورۃ الفجر‘ہے، جس میں صبح کی قسم کھائی گئی ہے۔ دبیر کہتے ہیں کہ نور کا ایسا تڑکا ہے کہ ہر طرف سورہ والفجر کی تفسیر نظر آتی ہے یعنی ایسی دلکش اور خوبصورت صبح ہے کہ جس کی قسم کھائی جائے۔ چوتھے مصرعے میں قرآن مجید کی ایک اور آیت کا حوالہ ہے جو سورج اور اس کی روشنی سے متعلق ہے۔ قرآن مجید میں سورج کو بنانے اور اس کو روشنی دینے کا حوالہ سورۃ الفرقان، سورۃ نوح اور دوسری کئی سورتوں میں آیا ہے کہ ’بنایا شمس کو اور اسے روشنی دی، ضیا بخشی‘ یعنی اس صبح کو دیکھ کرجعل الشمس ضیا کے معنی روشن ہو جاتے ہیں۔ اس مصرعے میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ اس میں شمس، ضیا، ہویدا سب روشنی کے تلازمات ہیں۔ ان پانچ بند میں طرح طرح سے صبح کا منظر بیان کرنے کے بعدبیت کے ذریعے چہرے سے مرثیے کی طرف گریز ہے کہ دنیا سے شب یلدا جو سب سے طویل اور سب سے زیادہ سیاہ رات کہی جاتی ہے، اس کی سیاہی بھی ختم ہو گئی اور اب ہرطرف نور اور روشنی ہی روشنی ہے سوائے رخ اعدا کی سیاہی کے جو میدان کربلا میں دشمنوں کے چہروں پر نظر آتی ہے۔ یہ بند بھی دبیر کی قدرت کلام، صناعی، معنی آفرینی، پیچیدگی، مشکل پسندی کی مثال ہیں۔
یہاں پر ان کی تشبیہات، استعارے، حسن تعلیل، رعایت لفظی اور دوسری صنعتوں کی تفصیل میں جانا طول عمل ہے، ا س لیے کہ ہر لفظ کسی نہ کسی رعایت کے تحت آیا ہے اور ہر ترکیب لفظی، معنی میں ایک نیا گوشہ پیدا کرتی ہے۔ ان کے ایک اور مرثیے، پیدا شعاع مہر کی مقراض جب ہوئی۔۔۔ کے چہرے کے چند بند صرف اس لیے پیش ہیں کہ اس کا اندازہ ہو سکے کہ کس طرح مختلف مرثیوں میں ان کے یہاں مضمون آفرینی کا عمل انجام پاتا ہے،
پیدا شعاع مہر کی مقراض جب ہوئی
پنہاں درازی پر طاؤس شب ہوئی
اور قطع زلف لیلی زہرہ لقب ہوئی
مجنوں صفت قبائے سحر چاک جب ہوئی
فکر رفو تھی چرخ ہنر مند کے لیے
دن چار ٹکڑے ہوگیا پیوند کے لیے
یوسف غریق چاہ سیہ ناگہاں ہوا
یعنی غروب ماہ تجلی نشاں ہوا
یونس دہان ماہی شب سے عیاں ہوا
یعنی طلوع نیر مشرق ستاں ہوا
فرعون شب سے معرکہ آرا تھا آفتاب
دن تھا کلیم اور ید بیضا تھا آفتاب
روز سفید یوسف آفاق شب نقاب
مغرب کی چاہ میں تھا جو پابند اضطراب
سقائے آسماں نے لیا دلو آفتاب
جس میں رسن شعاع کی باندھی بہ آب و تاب
یوسف کو دلو مہر میں بٹھلاکے چاہ سے
مشرق میں لایا کھینچ کے مغرب کی راہ سے
ظلمت جہاں جہاں تھی وہاں نور ہو گیا
پھر مشک شب جہان سے کافور ہو گیا
گویا کہ زنگ آئینے سے دور ہو گیا
باطل رسالہ شب دیجور ہو گیا
کیا پختہ روشنائی تھی قدرت کے خامے میں
مضمون تھا آفتاب کا ذروں کے نامے میں
ان چند بند کو اگرغور سے دیکھیں تو دبیر کے مزاج کو بہ آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔
دبیرایک کلاسیکی شاعر ہیں اور کلاسیکیت زبان وبیان میں Perfection کا مطالبہ کرتی ہے۔ وہ بار بار نمود صبح کا مضمون نظم کرتے ہیں لیکن ہر بار نئی تراکیب، نئے استعاروں، صنعتوں اور تلمیحات سے اپنے مضمون میں ایک نئی دلکشی پیدا کرتے ہیں۔ اس اقتباس کے دوسرے بند میں انہوں نے حضرت یونس اور حضرت یوسف کی تلمیح کو استعمال کیا ہے۔ یہ تلمیحات اپنے ایک مرثیے کے مطلع میں اس سے پہلے وہ استعمال کر چکے ہیں لیکن یہاں انہوں نے ترتیب اور علامتیں بدل دی ہیں۔ اس کے علاوہ اس بند کی بیت،
فرعون شب سے معرکہ آرا تھا آفتاب
دن تھا کلیم اور یدبیضا تھا آفتاب
نے سارے مضمون کو نیا کر دیا ہے۔ اسی طرح بند میں چرخ ہنرمند کی فکررفو کے لیے، پیوند کے واسطے دن کا چار ٹکڑے ہو جانا ان کے مضمون آفرینی اور جدت فکر کی مثال ہے۔
دبیر کے تخلیقی جوہر اور خیال آفرینی کی مثالیں یوں تو مرثیے میں ہر جگہ نظر ا ٓتی ہیں لیکن چہرے کے بعدان کا سب سے زیادہ زور جنگ کی ہیبت، گھوڑے اور تلوار کی تعریف، رجز اور سراپا میں نظر آتا ہے۔ وہ اکثر مضمون آفرینی کے عمل میں پیچیدہ بیانی تک چلے جاتے ہیں۔ اوپر کے بند میں بھی اس پیچیدہ بیانی کا احساس ہوتا ہے۔ یہاں پر حضرت علی اکبر کے گھوڑے کی تعریف میں ان کی صناعی اور مضمون آفرینی دیکھئے،
وہ رخش تھا یا ابلق ایام کا اقبال
نک سکھ سے درست اور جواں بخت و جواں سال
جادو کی نری آنکھ فقط معجزے کی چال
خورشید کے سم، برق کی دم سنبلہ کی یال
قوت کی طبیعت بھی دلیری کا جگر تھا
سرعت کا بدن، فہم کا دل، عقل کا سر تھا
یہ بندآج کتناہی پیچیدہ کیوں نہ محسوس ہو لیکن اس وقت کی ادبی تہذیب میں یہ حسن زبان اور قدرت اظہار کا نمونہ تھا۔ ثابت علی ثابت نے حیات دبیر میں لکھا ہے کہ آتش نے یہ بندسن کر بلند آواز سے دبیر کو ان کی زباں دانی کی داد دی۔ 2
مرثیوں میں جنگ کے مناظر بے شمار ہیں۔ بعض طویل مرثیوں میں کئی جانثار ان حسینؑ یا افراد بنی ہاشم کی جنگوں کو پیش کیا گیا ہے۔ ایسے موقعوں پر وہ اس شجاع کے کردار کے مطابق جنگ کی فضا تیار کرتے ہیں جس سے مضمون آفرینی کی نئی راہیں پیدا ہو جاتی ہیں۔ مرزا دبیر ان موقعوں پر الفاظ وتراکیب اور تشبیہ واستعارے سے مضمون آفرینی کے جوہر دکھاتے ہیں۔ مثلاً ان کے مرثیے، برہم ہیں صفیں شاہ شہیداں کی ہے آمد، میں امام حسینؑ کی جنگ کی ہیبت اور مضمون آفرینی کے عمل کو دیکھئے،
نے چرخ ہے نے دشت نے کہسار نہ قلزم
وہ سکتہ ہے وہ گرد وہ رعشہ وہ تلاطم
ہر موج ہے گردش میں گرے پڑتے ہیں انجم
جس طرح سے آندھی میں جدا خوشوں سے گندم
خالی ہیں رگیں خون سے اورخون رگوں سے
ناموں کے حروف اڑتے ہیں مہروں کے نگوں سے
یکسرصفت بخت سیہ ڈھالیں تھیں بیکار
تھی تن میں زرہ نامہ عصیاں سے گراں بار
بر ش نہ رہی تیغوں میں عاری ہوئے کفار
اور خوف سے خامو ش تھے گویا لب سوفار
دہشت سے جواں بھاگتے تھے تیر کی مانند
تھا نیزوں کو رعشہ قدم پیر کی مانند
پہلے بند میں سکتہ اور رعشہ وتلاطم جن میں تضاد ہے، ساتھ لاکر دو کیفیتوں کو ظاہر کیا ہے۔ ایک کیفیت جنگ دیکھنے والوں کی ہے جنہیں معرکہ آرائی دیکھ کر سکتہ ہو گیا ہے یعنی وہ جنبش بھی نہیں کر سکتے اور دوسرے رعشہ وتلاطم سے ان لوگوں کی کیفیت دکھاتے ہیں جو جنگ میں حصہ لے رہے ہیں اور امام حسین کی جنگ نے انہیں خوف ودہشت سے رعشہ و تلاطم میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس بند کی بیت خاص توجہ کی مستحق ہے۔ اس میں جنگ کی دہشت اور تلوار کی کاٹ کو جس طرح پیش کیا گیا ہے، وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایک چھوٹے سے مضمون کو کتنی وسعت دی جا سکتی ہے، ناموں کے حروف اڑتے ہیں مہروں کے نگوں سے۔ معرکہ میں بے شمار مقتولین کے تواتر قتل کا اشارہ ہے جو بالواسطہ امام حسینؑ کی شجاعت اور حرب و ضرب کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک اور مرثیے، اے دبدبہ نظم دوعالم کو ہلادے۔۔۔ میں تلوار کی تعریف میں مضمون آفرینی کے جوہر ملاحظہ کیجئے،
ہیبت میں تزلزل میں سماتا بہ سمک ہے
ہفت آئینہ چرخ سے پار اس کی چمک ہے
شور آب دم تیغ کا زخموں کا نمک ہے
بجلی کی تڑپ ہے کبھی شعلہ کی لپک ہے
گہہ مرگ مفاجات ہے اور گاہ فضا ہے
گہہ ابر ہے گہہ رعد ہے گہہ سیل فنا ہے
چھل بل تھی چھلاوا تھی طلسمات تھی اسرار
چالاک، سبک سار، طرح دار نمودار
نیزہ کہیں، خنجر تھی کہیں اور کہیں تلوار
بجلی تھی کسی جاتو کہیں نور کہیں نار
سیماب تھی سیلاب تھی طوفان تھی ہوا تھی
شعلہ تھی شرارہ تھی قیامت تھی بلا تھی
مرزاد بیر تلوار کی کاٹ اور جنگ کے مناظر دکھانے کے لیے ہر بار نئے تلازمات اور تشبیہات وضع کرتے ہیں اور سامع کو ایک نئی جنگ کا احساس دلاتے ہیں۔ ان بند میں تکرار، تواتر، ہم صوت الفاظ اور ابر، رعد کے استعاروں سے نئی فضا تخلیق کر دی ہے۔ ان کی اس کوشش میں اکثر نازک خیالی کا دامن ان کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور کلام پیچیدہ ہو جاتا ہے لیکن ان کے کلام میں ہر قدم پر ان کی صناعی، مضمون آفرینی اور خیال انگیزی ایک نئی بہار دکھاتی ہے۔
حاشیے
(۱) شعر گوئی میں ہیں استاد جناب ناسخ
معنی آراسخن ایجاد جناب ناسخ
(۲) حیات دبیر ص 154 بحوالہ انتخا ب مراثی دبیر مرثیہ ڈاکٹر اکبر حیدری ص 28
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.