مرثیہ کی ابتداء، اس کی ہیئت اور واقعۂ کربلا سے تعلق
اردو زبان ایک سائنٹفک اور صحت مند ادب کی حامل ہے۔ اس میں اتنی سکت (Potentiality) ہے کہ وہ ہر اچھی چیز کوبڑی آسانی سے اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ خود میں اس کو اس طرح ملا لیتی ہے کہ اس با ت کا احساس تک فنا ہو جاتا ہے کہ یہ چیز کسی دوسری جگہ کی پیداوار ہے یا کہیں اور سے لی گئی ہے۔
اگر ہم تمام اصناف کا تجزیہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ اردو ادب غزل اور قصیدہ گوئی کے لیے فارسی زبان وادب کا ممنون ہے۔ فن تنقید اور ڈراما کے لیے انگریزی ادب کا احسان مند ہے۔ اسی طرح مرثیہ عرب کی پیداوار ہے، لیکن آج ہمار ے اد ب میں مرثیہ نے جو بلند مقام حاصل کر لیا ہے اور جتنی ترقی کر لی ہے، اس کی وجہ سے یہ خیال تک ذہن میں نہیں آتا کہ ہم نے کسی زمانہ میں اس صنف شاعری کی نقل کی ہوگی۔
مرثیہ گوئی کا وجود دنیا کے وجود کے ساتھ ہوا ہوگا۔ اس لیے کہ خوشی اور غم یہی انسانیت کے دو سب سے زیادہ نمایاں پہلو ہیں۔ اور بقول علامہ شبلی نعمانی کے کہ جب کسی انسان کو ٹھیس لگتی ہے تووہ اس کے اظہار کے لیے کبھی جذباتی حرکتوں سے کام لیتا ہے اور کبھی ان حرکات کو لفظی جامہ پہناتا ہے۔ ایک واقعہ سے یہ بات اور صاف ہو جاتی ہے کہ عرب کی خنساء نامی (۱) ایک عورت پر اس کے بھائی کے انتقال کا بہت اثر ہوا۔ وہ پاگلوں کی طرح دیوانہ وار ادھر ادھر پھرنے لگی اور اسی طرح حج کو گئی۔ وہ طواف کرتی جاتی تھی اور سینہ پر دو ہتڑ مارتی جاتی تھی۔ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ تھا۔ انہوں نے اس عورت کو دیکھا اور اس طرح گریہ وزاری پر منع کیا۔ جذبات کے اس اظہار کے رک جانے کی وجہ سے بےاختیار اس کی زبان پر چند بہت پر درد شعر آ گئے، جس کا مطلع یہ تھا،
ھریقی من دموعک و اثتفیقے
و صبرا ان اطقت و لم تطیقے
(اپنے نفس سے) آنسو بہا اور اس سے تسلی حاصل کر
اور صبر کر اگر تجھ سے کیا جائے لیکن تو کر نہیں سکنے کی
اس طرح صدیوں پہلے عرب میں مرثیہ کا جنم ہوا۔ اس وقت عرب ایک غیرمتمدن زندگی بسر کر رہا تھا۔ عمرانیات، اخلاق اور تہذیب سے عربوں کو دور کا بھی لگاؤ نہیں تھا۔ جہالت اس حد تک تھی کہ لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا کرتے تھے، عکاظ کے میلوں میں برہنگی اور عریانیت کی نمائش ہوتی تھی۔ لیکن اس عالم میں ہونے کے باوجود جذباتی شاعری عربوں میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ اگر ہم مولانا حالی کی یہ بات مان لیں کہ شاعری جہالت کے زمانہ میں زیادہ ترقی کرتی ہے تو یہ بات عربوں پر بالکل صادق آئےگی، اس لیے کہ ظہوراسلام کے بعد عربوں میں اس طرح کے شیریں مقال شاعر نہیں پیدا ہوئے جیسے جہالت کے زمانہ میں ہوئے۔
اردو شاعری کی باقاعدہ ابتدا دکن سے ہوتی ہے۔ اس لیے ابتدائی شاعری کے تمام نمونے ہم کو دکن ہی میں ملتے ہیں۔ مرثیہ بھی سب سے پہلے وہیں کہا گیا۔ ابتدا میں مرثیے کی کوئی ادبی اہمیت نہیں تھی۔ خالص مذہبی نقطہ نظر کے تحت مرثیے لکھے جاتے تھے۔ اس کا مقصد صرف امام حسین علیہ السلام اور دوسرے شہدائے کربلا کا غم منانا تھا۔ عزاداری اور مجالس عزاسے مرثیہ گوئی کو بہت ترقی ہوئی۔ بنوامیہ اور بنو عباس کے زمانہ تک مرثیہ گوئی اس لیے ترقی نہیں کر سکی کہ ان خلافتوں میں عزاداری اور ذکر اہل بیت قانوناً ممنوع تھا۔ ۳۵۲ھ میں مفروالدولہ دیلمی نے بنوامیہ اور بنو عباس کی عائدکردہ اس پابندی کو ختم کیا اور عزاداری کی عام اجازت دی۔ اس کے بعد ہی اس صنف نے ترقی کی۔ دکن میں مجالس عزا کی ابتدا شمالی ہند سے پہلے ہوئی چونکہ عادل شاہی اور قطب شاہی حکمراں شیعہ تھے۔ اس لیے انہوں نے اپنی سلطنتوں کا مذہب بھی شیعہ قرار دیا تھا۔ حاکم وقت کی سرپرستی نے مرثیہ کو بہت زیادہ فروغ دیا۔
بہمنی سلطنت کے خاتمہ کے بعد پانچ حکومتیں وجود میں آئیں۔ قطب شاہی، عادل شاہی، نظام شاہی، برید شاہی اور عماد شاہی۔ ان تمام سلطنتوں کے حکمراں بڑے علم دوست تھے اور انہوں نے شعراء، ادیبوں اورعالموں کی بڑی سرپرستی کی۔ ان میں اکثرحکمراں خود بھی بڑے اچھے شاعر تھے۔ قطب شاہی خاندان کا پانچواں حکمراں محمد علی قطب شاہ پہلا صاحب دیوان شاعر مانا جاتا ہے۔ یہ بات یقین سے کہنا مشکل ہے کہ پہلا مرثیہ کس نے لکھا۔ اس سلسلہ میں اکثر لوگ تحقیق کر رہے ہیں اور ممکن ہے کہ کچھ عرصہ بعد یقین سے کسی کا نام لیا جا سکے۔ اب تک لوگوں نے جو نتیجے نکالے ہیں ان میں ایک دوسرے سے کافی فرق ہے۔
اظہرعلی فاروقی، مسیح الزماں اور ان سے پہلے کے محققین نے قلی قطب شاہ کو پہلا مرثیہ گو قرار دیا ہے۔ چونکہ باقاعدہ طریقہ پر اسی کے دیوان میں مرثیے ملے ہیں، اس لیے اسی کو پہلا مرثیہ گو قرار دیا ہے۔ گارساں دتاسی نے نوری کو اردو کا اولین مرثیہ نگار مانا ہے جس کا زمانہ ابوالفضل اور فیضی کا زمانہ ہے، لیکن اسی تخلص کا شاعر ابوالحسن تاناشاہ (۱۶۷۲ءسے ۱۶۸۲ء) کے عہد میں بھی ملتا ہے۔ اس سلسلہ میں اس وقت تک صحیح طریقہ سے کچھ نہیں کہا جا سکتا جب تک دونوں کے کلام دستیاب نہ ہو جائیں۔ نصیرالدین ہاشمی صاحب نے وجہی کو پہلا مرثیہ گو لکھا ہے۔ انہوں نے ’’دکن میں اردو‘‘میں دکنی مرثیے کے بارے میں لکھتے ہوئے کہا ہے، ’’اس وقت تک قدیم سے قدیم جو مرثیہ دستیاب ہوا ہے وہ گول کنڈہ کے مشہورومعروف شاعر وجہی کا ہے، اس کے بعد گول کنڈہ اور بیجاپور کے دیگر شعراء اور مرثیہ گویوں کے مرثیے ہیں۔‘‘ (دکن میں اردو، نصیرالدین ہاشمی، صفحہ ۱۸۳ تیسرا ایڈیشن)
وجہی ابراہیم قلی کا درباری شاعرتھا۔ ابراہیم نے ۱۵۵۳ءسے ۱۵۸۴ء تک حکومت کی۔ ابراہیم قلی کے بعد سلطان قلی قطب شاہ تخت پر بیٹھا۔ وجہی نے طویل عمرپائی تھی۔ وہ ابراہیم قلی کے بعدسلطان قلی قطب شاہ کے دربار سے بھی متعلق رہا۔ اس کے مراثی جو اب تک ملے ہیں ان کے بارے میں وثوق کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اس نے کس کے زمانے میں کہے ہوں گے۔ مراثی کی تاریخ تصنیف کے بارے میں اب تک کوئی پتہ نہیں چل سکا ہے۔ ’’دکن میں اردو‘‘ کے چوتھے ایڈیشن مطبوعہ ۱۹۵۲ءمیں نصیرالدین ہاشمی صاحب نے وجہی کے بجائے شیخ اشرف کو اردو کا پہلا مرثیہ نگار مانا ہے۔ شیخ اشرف نظام شاہی دور حکومت میں ہوا ہے۔ نظام شاہی دور حکومت ۱۴۹۰ء سے ۱۵۹۹ء تک رہا۔ شیخ اشرف اس حکومت کے آخری دور میں ہوا۔ اس کی ایک مثنوی ’’نوسرہار‘‘ بھی ملی ہے، جو واقعہ کربلا سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ مرثیہ بھی دستیاب ہوا ہے۔
اس کی تاریخ کے بارے میں بھی قطعیت کے ساتھ کوئی بات نہیں کہی جا سکتی کہ اس نے مرثیہ کب لکھا ہوگا اور آخری دور سے ہاشمی صاحب نے کیا مراد لی ہے۔ اس لیے کہ ۱۵۴۴ء میں سلطان محمدقلی قطب شاہ تخت پر بیٹھ چکا تھا۔ اس سے قبل قطب شاہی حکومت کا فرماں رواں ابراہیم قطب تخت نشین تھا اور وجہی اس کا درباری شاعر تھا۔ اس کے پیش نظر ہاشمی صاحب کا اشرف کو پہلا مرثیہ نگارمان لینا کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ اگر وہ نظام شاہی کا آخری دور۱۵۸۰ء کے قریب قرار دیتے ہیں (اس لیے کہ ۱۵۹۹ء میں نظام شاہی دور ختم ہو گیا تھا) تو ابراہیم قطب شاہ کے یہاں وجہی پہلے سے درباری شاعر کی حیثیت سے موجود تھا۔ مجالس عزا کی ابتدا اس سے پہلے سے دکن میں ہو چکی تھی۔ ایسے میں وجہی کا اس زمانہ میں مرثیہ نہ لکھنا جب کہ وہ ایک شیعہ حکمراں کے دربار سے بھی متعلق تھا، قرین قیاس نہیں معلوم ہوتا اور اگر وجہی کے مرثیے اس زمانے کے ہیں تو شیخ اشرف کو ہاشمی صاحب کا پہلا مرثیہ گو لکھنا غلط ہو جاتا ہے۔ بہرکیف یہ ایسی باتیں ہیں جن کے بارے میں فیصلہ کن طریقہ پر کوئی بات نہیں کہی جا سکتی۔ ممکن ہے کل کسی کی تحقیق میں کوئی تیسرا نام آئے اور لوگ اسے اتفاق رائے سے تسلیم کر لیں۔
اپنے ابتدائی زمانے میں مرثیوں نے معنوی یا صوری حیثیت سے کوئی نمایاں ترقی نہیں کی۔ اس وقت نہ توان کی کوئی ہیئت تھی نہ لوازمات اور نہ کوئی تکنیک ہی بن سکی تھی۔ ان میں غلطیاں بھی بہت ہوتی تھیں۔ اغلاط سے مرثیوں کو مرزاعلی ندیم نے پاک کیا۔ ان اغلاط کے سلسلہ میں قدرت اللہ شوق نے لکھا ہے، ’’چوں درشاعری مرثیہ غلطی الفاظ بسیاریافتم، لہذا دریں مختصر درج نہ نمودم۔‘‘ مصحفی نے بھی ’’طرزالشیاں رامطلقاً ناپسندیدہ‘‘ لکھا ہے۔ اس طرح وہ صنف شاعری جو غلطی الفاظ سے پر اور’’مطلقاً ناپسندیدہ‘‘ تھی، میروسودا اور مسکین کے دروں پر جبیں سائی کرتی ہوئی میر ضاحک اور میر حسن کی سحر بیانیاں دیکھتی ہوئی خلیق اور ضمیر کے گلشن کی خوشبو بن کر اڑی۔ انیس ودبیر نے اپنا خون دل دے کراس میں وہ بالیدگی اور تازگی پیدا کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ ذہن اردو پہ چھاگئی اور اپنا ایسا اثر چھوڑا کہ غلطی کا امکان اور ’’ناپسندیدگی‘‘ کا شک دور دور مٹ گیا۔
جہاں تک مرثیہ کی ہیئت کا تعلق ہے، ہم اس پر دو طریقوں سے غور کر سکتے ہیں، ایک اس کی باطنی ہیئت دوسری ظاہری ہیئت۔ عام طورسے مرثیہ اس نظم کو کہتے ہیں جس میں مرنے والے کی تعریف و توصیف کی جائے اور اس کے مرنے پر اظہار افسوس ہو۔ مخصوص طور سے مرثیہ، امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے حال کو دردانگیز پیرائے میں نظم کرنے کو کہتے ہیں۔ شروع میں نہ تواس کی کوئی باطنی ہیئت معین تھی اور نہ ظاہری ہیئت کا کوئی تعین تھا۔ مختلف بحروں میں غزل یا سلام کی طرح مرثیے لکھے جاتے تھے، جس کی مثال ہمیں مندرجہ ذیل شاعروں کے کلام میں ملتی ہے،
یک پوت کو دیتے زہر، یک پوت پہ کھینچے خنجر
کافر کیے کیسے قہریو زخم کا ری وائے وائے
آؤ مل کر ماتمیاں سب اس غم تے لہو روئیں
وا اما ماں یا اماماں کر کر دل کھوئیں
قلی قطب شاہ
سب دکھاں کون انت ہے اس دکھ کے تائیں انت نئیں
فاطمہ کے پوت بن اس جگ نے نئیں نور کہیں
محمد قلی قطب شاہ
حسین کا غم کرو عزیزاں
انجھو نین سو جھڑ عزیزاں
ملا وجہی
روئے فلک سب عرش لک سورج بسار اپنا جھلک
مشرق سے تا مغرب تلک اند کار پایا ہائے ہائے
غواصی
یہ تمام مرثیے مختلف بحروں میں غزل کی طرح لکھے گئے ہیں، جن کا ہر شعر دوسرے شعر سے مختلف ہے لیکن عبداللہ قطب شاہ اور علی عادل ثانی کے زمانہ سے اس میں تھوڑا سا فرق پیدا ہو گیا، بحریں تو اس زمانہ میں بھی مختلف رہیں اور غزل ہی کی صورت میں مرثیے لکھے گئے ہیں لیکن ان میں تسلسل کا اضافہ ہو گیا۔ اب ہمیں اس دور کے جو مرثیے ملتے ہیں ان میں ایک واقعہ تسلسل کے ساتھ نظم کیا ہوا ملتا ہے۔
گول کنڈہ اور بیجاپور کی شیعہ ریاستیں ختم ہونے کے بعد اردو زبان وادب کا مرکز دکن کے بجائے دہلی ہو گیا۔ ولی کے زمانہ ہی سے دہلی میں شعروشاعری کا چرچا ہو گیا تھا۔ لیکن مرثیے کسی نے نہیں لکھے تھے۔ سب سے پہلے شمالی ہند میں مصطفے خاں یک رنگ نے مرثیہ لکھا۔ میر تقی میر نے ان کے مرثیہ کے چند اشعار نمونتاً لکھے ہیں۔ وہ بھی غزل ہی کی طرح ہیں لیکن زبان صاف اور مرثیہ میں تسلسل ہے،
زخمی بہ رنگ گل ہیں شہیدان کربلا
گل زار کی نمط ہے بیابان کربلا
کھانے چلا ہے زخم ستم ظالموں کے ہاتھ
دھو ہاتھ زندگی ستی مہمان کربلا
(یک رنگ)
شمالی ہند کے شعراء دکن کے مرثیہ گو شعراء سے واقف تھے۔ انہوں نے اس فن نے وہاں جتنی ترقی کی تھی، اس سے پورا فائدہ اٹھایا، اس لیے کہ تذکروں میں اکثر مرثیہ گو شعراء کا ذکر ملتا ہے، ’’عبداللہ قطب شاہ۔۔۔ اکثر درمرثیہ حضرت ابی عبداللہ الحسین علیہ الصلوۃ والسلام شعرمی گفت۔‘‘ (مخزن نکات)
یہی وجہ ہے کہ شمالی ہند پہنچ کر بہت جلد مرثیے کی ہیئت میں فرق آ گیا۔ سودا کے زمانہ کے مشہور مرثیہ گو شاعر میاں مسکین نے مربع طرز میں مرثیے لکھے۔ جس میں مطلع کے چار مصرعے ایک قافیہ میں لکھتے تھے پھر ٹیپ کا ایک شعر کہتے تھے۔ اس کے بعد تین مصرعے ایک قافیہ میں لکھ کر چوتھے مصرع میں مطلع کے اسی قافیہ کا اعادہ کرتے تھے پھر ٹیپ کا شعر کہتے تھے۔ مرثیہ کہنے کا یہ طرز سید انشاء کے زمانے تک بہت مقبول رہا۔ میر تقی میر نے بھی بہت سے مرثیے کہے جس میں مطلع کے چار مصرعے ایک قافیہ میں ملتے ہیں۔ بعد کے بند میں تین مصرعے ایک قافیہ میں اور چوتھا مصرعہ مطلع کے قافیہ میں ملتا ہے۔ نمونہ کے طور پر دو بند پیش ہیں،
وقت رخصت کے جو روتی تھی کھڑی زار بہن
بولے شہ روؤ نہ بس اے مری غم خوار بہن
کیا کروں جان کے دینے میں ہوں ناچار بہن
اب رہا روز قیامت ہی پہ دیدار بہن
جن عزیزوں نے کیا تھا مرے ساتھ اک جوگ
دیکھتے دیکھتے ہی چل بسے وہ سارے لوگ
لطف اس جینے کا کچھ ہے کہ رکھا کریے سوگ
ہو جئے کس کس کے لیے آہ عزادار بہن
میر تقی میر
قضانے اس کو کہا فاطمہ کے بیٹے آ
یہ دشت سونا ہے تجھ بن اسے توآ کے بسا
زمین سے تم کو بلایا ہے اس میں آکے سما
اور اپنا نام تو اس میں رکھا حسین غریب
مسکین
سودا نے مرثیوں کو موجودہ شکل دی اور مربع کے علاوہ مخمس ومسدس میں بھی مرثیے لکھے۔ میروسودا کا زمانہ اردو شاعر کا زریں زمانہ کہا جاتا ہے لیکن اس زمانہ میں بھی مرثیے نے کوئی خاص ترقی نہیں کی۔ لوگ مرثیہ کہتے ہچکچاتے تھے۔ ’’بگڑاشاعر مرثیہ گو‘‘(۲) سمجھا جاتا تھا۔ یہ بات اس زمانے کی مرثیہ گوئی کی خراب حالت اور ابتری کی غمازی کرتی ہے۔ مرثیہ کی ظاہری ہیئت میر ضمیر کے زمانہ میں معین ہوئی اور یہی پہلے شخص تھے جنہوں نے اس صنف شاعری کو موجودہ خلعت سے آراستہ کیا اور مرثیہ گو کو بگڑا شاعر کے الزام سے بچایا۔ مرثیہ کے اجزائے ترکیبی کو ہی ہم اس کی ظاہری ہیئت کہیں گے۔ انیس کے زمانے تک یہ ہیئت پوری طرح مکمل ہو چکی تھی اور مندرجہ ذیل چیزیں مرثیہ کے اجزائے ترکیبی میں داخل ہو چکی تھیں۔
(۱) چہرہ: اس میں مرثیہ گو تمہید بیان کرتا ہے جس طرح قصیدے کو شاعر تشبیب سے شروع کرتا ہے اور اپنے مقصد سے پہلے بہار کا موسم یا دوسری چیزوں کا ذکر کرتا ہے، بالکل اسی طرح مرثیہ گو چہرے میں صبح کا منظر، حمد، منقبت، مناجات، رات کا سماں وغیرہ نظم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی شاعر چہرے میں اپنی شاعری کی تعریف، دنیا کی بے ثباتی کا ذکر وغیرہ مضامین بھی نظم کرتا ہے۔
(۲) سراپا: سراپا میں عام طور سے امام حسین علیہ السلام اور ان کے اعزا ورفقاء کی رفتار وگفتار، صورت وشکل وانداز تکلم وغیرہ کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ اس میں ممدوح کے ایک ایک خدوخال، اس کی وضع قطع حتی کہ لباس کا تذکرہ بھی ہوتا ہے، مختلف شعراء مختلف طریقوں سے اپنے ممدوح کا سراپا نظم کرتے ہیں۔
(۳) رخصت: رخصت بذات خود ایک بڑا اندوہ گیں لفظ ہے۔ جدائی کا خیال ہی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ پھر میدان جنگ کی رخصت جبکہ اس بات کا یقین ہوکہ جانے والا زندہ واپس ہی نہیں آئےگا۔ کربلا کی رخصت کو شعراءنے بڑے پر درد الفاظ میں نظم کیا ہے، اس میں جنگ کے لیے جانے والے کا امام حسینؑ سے جنگ کی اجازت لینا، اعزا، احباب سے رخصت ہونا نظم کیا جاتا ہے۔
(۴) آمد: ہیرو کا جنگ کے لیے اجازت لے کر میدان کو چلنا۔ اس کا گھوڑے پر سوار ہونا اور اس کی شان کو نظم کرتے ہیں، اسی میں گھوڑے کی تعریف بھی لکھی جاتی ہے۔ کبھی کبھی گھوڑے کی تعریف جنگ کے مناظر کے ساتھ بھی نظم کرتے ہیں۔
(۵) رجز: ان اشعار کو کہتے ہیں جن میں جنگ کرنے والا اپنے مخالف کے سامنے اس پر اپنی نسلی، خاندانی اور شخصی بہادری و برتری ظاہر کرتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں عربوں کا خاصہ رہا ہے کہ دو قبیلوں میں ذرا سی بات پر نسلاً در نسلاً تلواریں چلتی رہتی تھیں۔ مرثیہ نگار نے اس سے بہت فائدہ اٹھایا اور اس کے ذریعہ مرثیہ میں ایک شاندار اضافہ کیا ہے۔ اس میں ہیرو کی اخلاقی عظمت، روحانی بزرگی، اپنی فتوحات کے قصے، آبا واجداد کی بہادری، خاندان رسالت سے تعلق وغیرہ نظم کیا جاتا ہے۔
(۶) جنگ: عرب کے دستور کے مطابق ہیرو کسی مشہور پہلوان سے جنگ کرتا ہے۔ اس حصہ میں اس کی بہادری، اس کے تمام حرب وضرب کی تصویر کشی کی جاتی ہے۔ تلوار کی تعریف اور اس کی کاٹ بھی اسی میں نظم کرتے ہیں۔ کبھی کبھی گھوڑے کی تعریف بھی جنگ کے ساتھ نظم کی جاتی ہے۔
(۷) شہادت: ہیرو کا لڑتے ہوئے گر کر شہید ہونا دکھایا جاتا ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں مرثیہ میں المیہ کی سب سے بڑی خصوصیت (Pity of Horror) رحم وخوف کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
(۸) بین: لاش پراعزاواقربا اور احباب کی گریہ وزاری واہل بیت کا بکا کرنا دکھایا جاتا ہے۔ اسی حصہ پر مرثیہ ختم ہوتا ہے۔ بین کے حصے شعرا نے حضرت علی اکبرؓ، حضرت عباسؓ، حضرت عونؓ، حضرت قاسمؓ اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت میں لکھے گئے مرثیوں میں زیادہ مؤثر اور دردانگیز نظم کیے ہیں۔
جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے کہ یہ عناصر ترکیبی سودا کے بعد مقرر ہوئے اور مرثیہ کی اس ظاہری ہیئت کو میر انیس نے پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔ جہاں تک واقعہ کا تعلق ہے، مرثیہ امام حسین کی شہادت اور واقعات کربلا سے متعلق باتیں ملتی ہیں۔ اگر ایک نگاہ میں ان واقعات کا جائزہ لیا جائے تو صرف چند باتیں ذہن میں آتی ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کا مدینہ سے سفر کرنا، راستہ میں رسالہ حرکا ملنا اور کربلا لے جانا، اہل بیت پر پانی بند کیا جانا، ۱۰ محرم کو فوج یزید سے جنگ ہونا اور تمام لوگوں کا شہید ہونا۔ بعض مرثیوں میں شعراء نے کربلا سے اہل بیت رسولؐ کا اسیر ہوکر جانا، زندان شام میں قید ہونا اور ہندہ کا رہائی دلاکر مدینہ بھیجنا بھی نظم کیا ہے۔ خود میر انیس کے کئی مرثیے ایسے ہیں جن میں قید اور رہائی تک کے حالات ملتے ہیں۔ تاریخی واقعات کچھ بھی ہوں لیکن ان واقعات کا مختصر جائزہ یہی ہے۔ مرثیہ گو شعراء نے انہیں بنیادوں پر واقعات کے تمام جزئیات کچھ تاریخ سے اور کچھ اپنے ذہن سے اخذ کیے ہیں جنہیں وہ اپنے مرثیوں میں بیان کرتے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ ان شعرا نے مرثیے میں تاریخ کم بیان کی ہے۔
مرثیہ کا لفظ واقعات کربلا سے اس طرح مل گیا ہے کہ مرثیہ کا نام آتے ہی ذہن امام حسین کی شہادت اور کربلا کے اندوہ گیں واقعات کی طرف مڑ جاتا ہے حالانکہ بالعموم مرثیہ کسی بھی مرنے والے پر لکھی گئی نظم کو کہہ سکتے ہیں، جس میں اس کی توصیف کی گئی ہو اور اس کے انتقال پر افسوس کا اظہار ہو۔ لیکن جدید دور میں مرثیے کے دوحصے کر دیے گئے ہیں۔ ایک مرثیہ جس سے صرف وہی مرثیے مراد ہیں جن میں امام حسین کی شہادت اور واقعات کربلا کا ذکر ہو، دوسرے شخصی مرثیے جو کسی بڑے آدمی کے انتقال پر لکھے گئے ہوں جیسے غالب کا مرثیہ عارف، اقبال کا مرثیہ داغ اور حالی کا مرثیہ غالب وغیرہ شخصی مرثیو ں کی بہترین مثال ہیں۔
یہ دیکھنے کے لیے کہ مرثیہ کی ظاہری ہیئت کے مرتب کرنے میں خود واقعات کربلا کا کیا حصہ رہاہے، ایک بار پھر ان عناصر ترکیبی پر نظر ڈالنی پڑے گی جنہیں ہم مرثیے کی ظاہری ہیئت کہتے ہیں اور ان مرثیو ں کو چھوڑ کر جو اقعات کربلا کے بعد کے حصے پر لکھے گئے ہیں اور جن میں ان خصوصیات کا اہتمام نہیں کیا گیا کسی ایک مرثیہ کا بالخصوص مطالعہ کرنا پڑےگا۔
مرثیے کے عناصر کے ترتیب میں عرب کی مخصوص روایات کو شعراء نے خصوصیت کے ساتھ پیش نظر رکھا ہے۔ کسی بھی واقعہ کی ایک ابتدا تمہید ہوتی ہے جس میں ڈرامانگار ہو، ناول نویس ہو یا مرثیہ گو ہو، اپنی بات پیش کرنے کے لیے ماحول بناتا ہے، ڈرامہ میں اس حصہ کو ایپی لاگ (Epilogue) کہتے ہیں۔ ناول میں اس کا کام پہلے باب سے لیا جاتا ہے۔ ناول نویسوں یا نقادوں نے ناول کے اس باب کے لیے کوئی الگ نام نہیں رکھا ہے۔ وہ کہانی یا نفس قصہ میں اس طرح ملا رہتا ہے کہ اس کا کوئی الگ نام دینے کی ضرورت نہیں محسوس ہوئی، پڑھنے والا خود اس حصہ کو پڑھ کر پہلے ہی باب میں ایک اندازہ کر لیتا ہے اور اس ماحول سے پوری طرح متعارف ہو جاتا ہے۔ مرثیہ میں اس حصہ کو چہرہ کہتے ہیں۔
زیادہ تر مراثی میں شعراء نے مرثیہ کا اصل مضمون شروع کرنے سے پہلے چہرہ نظم کیا ہے۔ بعض مرثیے بغیر چہرے کے بھی لکھے گئے ہیں۔ مرثیہ نگار اس حصہ کو اپنی ضرورت کے مطابق کئی طرح سے استعمال کرتا ہے۔ کبھی بہار کا سامان، کبھی صبح کی منظرکشی، کبھی تعلی یعنی اپنے کلام کی تعریف، کبھی وطن سے رخصت، کبھی حمد، نعت، منقبت وغیرہ۔ اس طرح وہ پڑھنے والے یاسامع کے ذہن کو دوسری فکروں سے اپنی طرف رجوع کر لیتا ہے اور جوبات وہ کہنا چاہتا ہے اس کے لیے ایک خاطرخواہ ماحول پیدا کر لیتا ہے، جن مراثی کا چہرہ واقعات سے شروع ہوتا ہے، مثلاً،
فرزند پیمبر کا مدینے سے سفر ہے
یا
جب کربلا میں داخلہ شاہ دیں ہوا۔۔۔
ان کے مطالعہ سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ واقعات نے خود عناصر ترکیبی کے بنانے میں بڑی مدد کی ہے۔ جیسے اوپر کی مثال میں جو پہلا مصرع دیا گیا ہے، اس میں شاعر نے سفر کے واقعات، ابتدا، تیاری اور اس وقت کے تاثرات کو چہرہ قرار دیا ہے۔
ان واقعات کا تصور کرنے پر ذہن میں ایک اس طرح کا خاکہ بنتا ہے کہ ایک قافلہ وطن سے روانہ ہوتا ہے، ایک جنگل میں اس سے ایک فوج سے جنگ ہوتی ہے، ایک ایک آدمی جنگ کرکے شہید ہو جاتا ہے۔ جس طرح واقعات کی یہ ترتیب ذہن میں آتی ہے اسی پر مرثیے کے عناصر ترکیبی بھی بنتے ہیں۔ ابتدا جسے چہرہ کہتے ہیں۔ رخصت، جنگ اور شہادت یہی مخصوص عناصر ہیں۔ سراپا، بین اور دوسرے بعض عناصر کا ضرورتاً اضافہ کر دیا گیا ہے۔
عرب کا عام قاعدہ تھا کہ جب کسی سے جنگ ہوتی تھی تو فوج کا ایک ایک آدمی جاتا تھا اور مبارز طلبی کرتا تھا، میدان جنگ میں جانے سے قبل وہ تمام اعزا احباب اور متعلقین سے رخصت ہوتا تھا۔ یہ ایک بڑا دردناک سماں ہوتا تھا، سب جانتے تھے کہ جانے والا زندہ واپس نہیں آئےگا۔ خود سپاہی کو یہ خیال رہتا تھا کہ وہ اپنے عزیزوں اور دوستوں کو آخری بار دیکھ رہا ہے۔ میدان جنگ میں پہنچ کر وہ اپنے خاندان، قبیلے اور اپنے اجداد کی فتوحات، بہادری اور شجاعت کا بیان کرتا تھا۔ رجز کے بعد جنگ ہوتی تھی، اس کے بعد شہادت اور شہید کی لاش پر بین۔ اس طرح یہ بات پوری طرح واضح ہوتی ہے کہ مرثیہ کی ظاہری ہیئت اور واقعہ کربلا میں بہت گہرا ربط اور تعلق ہے، جس کی بنا پر کسی ایک نام سے واقعات کی تفصیل نظر کے سامنے آ جاتی ہے۔
حاشیے
(۱) موازنہ انیس و دبیر۔ مولانا شبلی
(۲) سودا از شیخ چاند
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.