گزشتہ باب میں ہم نے غالبؔ کی فکر پر اظہارِ خیال کیا تھا۔ فکر کیا ہے، کسی کا اپنے تجربات کو جوڑنا، اور جوڑ کر ایک کل بنانا ہے۔ تجربات میں سب کچھ شامل ہے، یعنی جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا، جو کچھ مشاہدے میں آیا اور جو کچھ ہم نے مطالعہ کیا یا دوسروں سے سیکھا۔ یہ سب چیزیں مل کر جب ایک ’’کُل‘‘ بنتی ہیں اور اس کل میں ان میں سے ہر چیز کو ایک جگہ مل جاتی ہے تو فکر پیدا ہو جاتی ہے۔ اس سے پہلے ہم دکھا چکے ہیں کہ غالبؔ کس طرح اپنے تجربات کی تعمیم کرتا ہے۔ کس طرح انہیں ان کی انتہاؤں پر دیکھتا ہے اور کس طرح انھیں ربط دے کر ایک نتیجہ نکالتا ہے۔ مگر فکر کا لفظ کسی نہ کسی طرح انفرادی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔ انفرادی فکر کیا ہے، وہ ہے جو ہم نے سوچا ہے، جو کسی اور نے نہیں سوچا، جو کوئی اور سوچ ہی نہیں سکتا۔ آج کل ایسی ہی فکر کا چرچا ہے۔ اور ہر لکھنے والا یا تو اس فکر کا مدعی ہے یا طالب ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ نمایاں تشخص حاصل کر لیں۔ زیادہ سے زیادہ دوسروں سے مختلف ہو جائیں۔ زیادہ سے زیادہ کوئی ایسی بات کریں جو کسی اور نے نہ کی ہو۔ آپ اسے انفرادی فکر کہہ لیجیے، لیکن اس کے علاوہ ایک فکر ہے جو انفرادی نہیں ہے۔ یہ ہماری انفرادی سوچ کو ظاہر نہیں کرتی۔ اس کے مقدمات ہمارے تجربات کا نتیجہ نہیں ہیں، نہ اس کا مقصد دوسروں سے مختلف ہونا ہے، وہ نہ ہماری ملکیت ہے، نہ بننا چاہتی ہے۔ وہ تو بنی نوع انسان کی ملکیت ہے۔ ہم اسے پیدا نہیں کر سکتے، صرف دریافت کر سکتے ہیں۔ وہ ہماری سوچ کا نتیجہ نہیں۔ سوچ صرف اسے اپنا سکتی ہے۔ وہ نہ انفرادی ہے، نہ شخصی۔ وہ تو انسانی فکر یا آفاقی، میں اس فکر کو روایتی فکر کہتا ہوں۔ پہلے لوگ اس کو فکر نہیں کہتے تھے، انکشاف، الہام، القا وغیرہ کہتے تھے۔ یہی چیز اپنی تکمیل یافتہ شکل میں دیوبانی تھی۔ روح القدس کا فیضان تھی۔ آواز سروش تھی۔ صدائے ہاتف تھی، حضورﷺ نے کہا، میں تمہارے لیے نیا دین نہیں لایا، یہ تو دین ابراہیم و موسیٰ ہے، دین آدم ہے۔ اولیاء اللہ کو دیکھو، مکاشفہ و الہام کا ذکر کرتے جاتے ہیں، یہاں تک کہ شاعر بھی اس کی نسبت اپنے آپ سے نہیں کرتے۔ کسی میوز، کسی سرسوتی، کسی اپالو کو دین بتاتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں، ’’ہم نے سوچا‘‘، وہ کہتے ہیں، ’’ہم نے نہیں سوچا۔‘‘ سوچنے والا کوئی اور ہے۔ میں شاہ ولی اللہ کی ایک کتاب پڑھ رہا تھا۔ بار بار تاکید کر کے بتایا ہے کہ یہ کتاب نہ ذاتی تجربے کا نتیجہ ہے، نہ ذاتی فکر کا۔ یہ تو وہ ہے جو انہیں بتایا گیا ہے۔ آپ روایتی فکر اور انفرادی فکر کے اس فرق پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ایک فکر کا تعلق انا سے ہے۔ دوسری کا غیر انا سے۔ ایک میں غالبؔ، اقبالؔ، جوشؔ سوچتے ہیں، دوسری میں غالبؔ، اقبالؔ، جوشؔ کوئی چیز نہیں۔ خود حقیقت سوچتی ہے۔ ہم اس فکر کو اکتساب سے حاصل نہیں کر سکتے۔ کوشش سے معلوم نہیں کر سکتے، خواہش سے اپنا نہیں سکتے، یہ تو ملتی ہے تو مل جاتی ہے۔ نہیں ملتی تو نہیں ملتی۔ مگر ایک کام ہم ضرور کر سکتے ہیں۔ ہمارے سامنے روایتی فکر کے نمونے ہیں۔ ہم سے پہلے بہت سے ایسے لوگ گزرے ہیں جن کو یہ روایتی فکر ملی ہے جنہوں نے ملائے اعلیٰ سے فیض پایا ہے جن کی زبان پر روح القدس جاری ہوئے۔ جنہوں نے دیوبانی سنی ہے، جو آواز سروش سے بہرہ یاب ہوئے ہیں۔ ہم ان کے تجربات جان سکتے ہیں، روایتی فکر کے نتائج کو ذہنی طور پر اختیار کر سکتے ہیں، ان کے فارمولوں کو الجبر والمقابلہ کے فارمولوں کی طرح رٹ سکتے ہیں، ان کے بنیادی افکار کو ہضم کر سکتے ہیں، دوسرے لفظوں میں روایتی فکر کو اپنا سکتے ہیں۔ یہ اپنانا کیا ہے۔ سب سے پہلے یہ ذہن کا عمل ہے۔ آپ انہیں دماغ میں اُتاریے، پھر روح میں رچایئے بسایئے، وہ آپ کے لیے ایسے ہو جائیں جیسے آپ کا گھر۔ آپ سو جائیں گے تو انہیں کی فضا میں، کھائیں گے تو انہیں کے ماحول میں، بیوی بچوں کے پاس جائیں گے تو انھی کی روشنی میں، پھر جب آپ اس طرح ہر وقت ان کے ساتھ رہیں گے تو وہ دماغ سے نیچے اتریں گے۔ وہ ذہن سے محسوسات میں اتر آئیں گے، جذبات میں گھل مل جائیں گے۔ خون میں حل ہو جائیں گے، یہاں تک کہ آپ کا سانس بن جائیں گے۔ اب آپ نہیں بولیں گے، وہ بولیں گے۔ آپ نہیں سوچیں گے، وہ سوچیں گے، آپ نہیں محسوس کریں گے، وہ محسوس کریں گے۔ لیجیے میں نے کتنا آسان نسخہ بتایا ہے، مگر کیا واقعی یہ آسان ہے؟ یہ دنیا کا مشکل ترین کام ہے وجہ یہ ہے کہ ہم انا کے تحت سوچتے ہیں۔ انا کے تحت محسوس کرتے ہیں، ہماری ہر بات کا محرک ہمارا تجربہ ہوتا ہے۔ ہم کہتے ہیں، ہم نے سوچا ہے، روایتی فکر کو اس انفرادیت پسندی سے چڑھ ہے۔ اس کے بیچ میں جہاں آپ بولے اس نے کان پکڑ کر باہر نکال دیا۔ جہاں اس کی بات کو آپ نے اپنے سے منسوب کیا، اس نے آپ سے کلام ترک کر دیا۔ جہاں اس کی بات میں آپ نے اپنی بات ملائی، اس نے نظریں دوسری طرف پھیر لیں۔ ایسی صورتوں میں روایتی فکر یا تو بن نہیں پاتی یا انفرادی فکر میں گڈمڈ ہو جاتی ہے۔ اور جہاں صرف روح القدس کو بولنا چاہیے، وہاں ہم اپنا ٹیپ ریکارڈ لگانے لگتے ہیں۔
تصوف روایتی فکر ہے۔ اس کے تجربات وہ ہیں جو ان لوگوں کو حاصل ہوئے جن پر فیضانِ الٰہی جاری ہوا، جنھوں نے روح القدس سے کلام سنا، جن پر دیوبانی وارد ہوئی۔ اس لییاس کے تجربات غیر شخصی ہیں۔ یہ کسی نسل و قوم کی ملکیت نہیں۔ کسی مذہب و ملت کی جاگیر نہیں۔ کسی فرقہ و طبقہ کی میراث نہیں۔ ہندی، چینی، مسیحی، مسلمان سب کو اس کا فیض پہنچا ہے۔ یہ آفاقی فکر ہے، اس کا تعلق نہ کسی مقام سے ہے، نہ وقت سے۔ یہ ازلی ہے، ہندوؤں میں یہ ویدانت ہے، چینیوں میں یہ تاؤ ازم ہے۔ مسیحیوں میں سریت۔ یہودیوں میں قبالہ، مستشرقین نے ایک گھپلا یہ چلایا کہ اسے بھی انفرادی فکر کی طرح اکتاسیب سمجھ بیٹھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لگے انفرادی فکر کی طرح اس میں بھی کسب و اختیار کی تلاش کرنے۔ محی الدین ابنِ عربی، فلاطونس سے متاثر ہوئے ہیں، فلاطونس، افلاطون سے متاثر ہوا اور افلاطون نہ جان کس سے متاثر ہوا ہے۔ جہاں سرا نہیں مل سکا، وہاں حیرت بھی فرمائی اور کوئی تکّا بھی لگا دیا۔ چنانچہ ہمیشہ سے ان کی عادت یہ ہے کہ مختلف روایتی افکار کی دُم سے دُم جوڑتے چلے جاتے ہیں اور جہاں دُم نہیں ملتی، وہاں۔۔۔ بھی باندھ دیتے ہیں۔ محی الدین ابنِ عربی نے فلاطونس سے لیا مگر فلاطونس نے کیا ویدانت سے لیا ہے اور ویدانت کیا چینیوں سے آیا ہے۔ کیا یہ ثابت بھی ہے کہ یہ قومیں اس طرح ایک دوسرے سے ملیں؟ بعض اوقات ان لوگوں کے بھان متی کا پٹارہ اس بری طرح کھلتا ہے اور اس میں سے ایسی مضحکہ خیز چیزیں برآمد ہوتی ہیں کہ ہنسی بھی آتی ہے اور غصہ بھی۔۔۔ مگر وہ سکۂ رائج الوقت ہیں۔ انھیں ٹھکراؤں گا تو کھاؤں گا کہاں سے۔ مجبوراً آیئے اپنے موضوع کی طرح چلیں، یعنی غالبؔ کا تصوف!
غالبؔ ایک چشتی بزرگ کالے میاں کے مرید ہو گئے تھے اور یہ بھی ثابت ہے کہ ’’عرفا کے کلام سے حقیقتِ حقہ وحدت الوجود کو اپنے دل نشیں کرتے رہتے تھے۔‘‘ سب سے بڑی بات یہ کہ منبعِ تصوف علی ابنِ ابی طالب کرم اللہ وجہہ کے غلام تھے۔ بڑے در کا بڑا فیضان، تو پھر کیا تعجب ہے، اگر بقولِ حالیؔ توحیدِ وجودی ان کی شاعری کا عنصر بن گئی تھی۔ خود لکھتے ہیں، ’’میں زبان سے لا الٰہ الا اللہ کہتا ہوں اور دل میں لا موجود الا اللہ اور لا مؤثر فی الموجود الا اللہ سمجھے ہوئے ہوں۔‘‘ چنانچہ کیا شک ہے اگر ولی پوشیدہ ہوں۔ خیر ولی پوشیدہ ہوں یا کافر کھلا، یہ تو ان کا خدا جانے مگر انہیں یہ دعویٰ ضرور ہے کہ انھوں نے مسائلِ تصوف لکھے ہیں اور خوب لکھے ہیں۔ شعر میں تصوف کے معنی ڈھونڈنا ایک زمانے میں شعر کی اعلیٰ تفہیم کا ایک ثبوت تھا۔ آج کل مدرسوں کا مذاق ہے۔ مدرس بھی اسے مذاق سمجھ کر ہی کرتے ہیں۔ پٹی ہوئی اصطلاحوں اور احمقوں کی تکرارِ بے معنی نے دنیا کی زندہ ترین روایتی فکر کو مردہ اور بے جان بنا دیا۔ پچھلے دنوں تک تو یہ عالم تھا کہ اگر غالبؔ کو صوفی شاعر کہا جاتا تو لوگ ہنستے ہنستے پاگل ہو جاتے یا پاگل کر دیتے۔ مگر کچھ دنوں سے ہوا پلٹ گئی ہے۔ عسکری صاحب نے اعلان کردیا ہے کہ اردو کی اصل شعری روایت تصوف کی ہے۔ ہمارے بزرگوار حمید نسیم صاحب مجھ سے کہنے لگے کہ غالبؔ کو ساری زندگی فلسفی شاعر سمجھ کر پڑھا، اب معلوم ہوا صوفی شاعر ہے۔ جیلانی کامرانی صاحب نے ایک پورا مضمون غالبؔ اور محی الدین ابنِ عربی پر کھینچ مارا۔ اور لکھا کہ ابنِ عربی کو سمجھے بغیر غالبؔ نہیں سمجھ میں آ سکتا۔ یہاں تک کہ بعض ایسے نوجوانوں تک یہ بات پہنچ گئی کہ طبیعت حیران ہوتی ہے۔ عبید اللہ علیم تک کہتے ہیں کہ غالبؔ تصوف کا دردؔ سے بڑا شاعر ہے۔ ہم نے ممتاز حسین صاحب کی کتاب دیکھی، بعض اصطلاحوں اور فقروں کے غلط ترجمے کے باوجود بھی غالبؔ کے تصوف کے منکر نہیں ہیں۔ اب ترقی پسند اور غیرترقی پسند غالبؔ کی سرکار میں پہنچ کر ایک ہوگئے ہیں اور سوئے تصوف سجدہ ریزی شروع کردی ہے۔ ہمارے عسکری صاحب عجیب ہیں۔ انہوں نے داغؔ کو تو صوفی شاعر مان لیا مگر غالبؔ کے سلسلے میں صاف مکر گئے کہ تصوف جانتا تھا۔ انہوں نے تو حد یہ کر دی کہ کہہ دیا کہ ذوقؔ، غالبؔ سے زیادہ تصوف کا شاعر ہے۔ زیادہ بھی اور بہتر بھی۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم نہ تو حسین آزادؔ کے پیرو ہیں، نہ حالیؔ کے مقلد۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ذوقؔ اور غالبؔ میں کس کو بہتر مانیں۔ ویسے ہماری دوسری مشکل یہ ہے کہ ذوقؔ کے ہمیں کل تین شعر یاد ہیں۔ اور غالبؔ کا پورا دیوان حفظ ہے۔ ساری زندگی غالبؔ کو غالبؔ سمجھا، اب ایک دن کے ذوقؔ سے پوری زندگی کے غالبؔ کو کیسے بھول جائیں گے۔ اس لیے آیئے غالبؔ تصوف کا حال خود دیکھیں۔
شاعری میں ایک بڑی دقت یہ ہے کہ یہ لاکھ انفرادی ہو، اسے روایت کا فیض پہنچتا ہی رہتا ہے۔ اور معمولی سے معمولی اشعار میں بھی ایک ماورائی جہت پیدا ہو جاتی ہے۔ میں نے بابا ذہین شاہ تاجی جیسے بزرگ کو بعض ایسے شعرا کے کلام پر وجد کرتے دیکھا جو تصوف سے کوئی واقفیت نہیں رکھتے۔ مگر وجد اس لیے برحق ہے کہ شعر میں وہ سمت موجود ہے۔ فراقؔ صاحب نے مذاق اُڑایا کہ ایک طوائف گا رہی تھی،
اگر یوں ہی توڑا مروڑی رہے گی
تو کاہے کو انگیا نگوڑی رہے گی
اس پر ایک بزرگ کو حال آ گیا۔ فراقؔ صاحب کہتے ہیں کہ یوں تو دنیا کی ہر بات تصوف ہے۔ فراقؔ صاحب کو کیا کہوں، ان کا اپنا یہ عالم ہے کہ مادیت مادیت کرتے ہیں اور شعر میں تصوف ڈالتے چلتے ہیں۔
یہ شعر دیکھیے،
بس ایک تو نہ ملا راہِ شوق میں ورنہ
قدم قدم پہ ملی ہیں نشانیاں تیری
*
ابھی جہاں میں تھی افواہ تیرے آنے کی
چراغِ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا
*
عشق کی آزمائشیں اور فضاؤں میں ہوئیں
پاؤں تلے زمیں نہ تھی، سر پہ یہ آسماں نہ تھا
فراقؔ صاحب کو اپنی کفریات و دہریت پر بڑا ناز ہے مگر کیا ان اشعار پر تصوف کی چھوٹ پڑ رہی ہے یا نہیں؟ اردو شاعری کے بہت بڑے حصے میں تصوف ہو یا نہ ہو، تصوف کی فضا ضرور ہے۔ اس فضا کے ایک بہت نمایاں شاعر اصغرؔ گونڈوی ہیں۔ کچھ ایسا لگتا ہے جیسے اس فضا کے بغیر شعر شعر نہیں رہتا۔ روزمرہ واقعات کی ڈائری بن جاتا ہے۔ آج کل غزلوں میں یہی ڈائری لکھی جا رہی ہے اور ساقیؔ فاروقی اور شہزاد احمد لکھتے ہیں کہ اسے ٹیلی فون کر رہا ہوں یا اخبار پڑھ رہا ہوں۔ آیئے انہیں وہیں اخبار اور ٹیلی فون پر چھوڑیے اور ہم کچھ لمحے غالبؔ کے ساتھ بسر کریں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ غالبؔ نے ذہنی طور پر تصوف اختیار کیا۔ اس کا یہ دعویٰ بھی درست ہے کہ وہ عرفا کے کلام سے مذہبِ حقہ وحدت الوجود کو دل نشیں کرتا رہتا ہے۔ یہاں تک بھی صحیح ہے کہ وہ لا مؤثر فی الوجود الا اللہ سمجھتا ہے۔ مگر غالبؔ کے یہاں ہمیں تصوف کے اس قسم کے اشعار ملتے ہیں،
وہی اک بات ہے جو یاں نفس واں نکہتِ گل ہے
چمن کا جلوہ باعث ہے مری رنگیں نوائی کا
*
محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
*
نفی سے مکرتی ہے اثبات ترا وش گویا
دی ہے جائے دہن اس کو دم ایجاد نہیں
*
نہیں گر سرو و برگ ادراک معنی
تماشائے نیرنگِ صورت سلامت
*
اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
زیادہ اشعار کی ضرورت ہیں، آپ کو خود یاد ہوں گے۔ آپ دیکھیے یہ رسمی اشعار نہیں ہیں۔ ان میں ایک قوت ہے، ایک جان ہے۔ ہم ان کی رفعت اور گہرائی سے متاثر ہوتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ بڑے زور سے بات کہی گئی ہے مگر یہ زور دماغ کا ہے۔ غالبؔ کا دماغ ان خیالات سے، شدت سے متاثر ہوا ہے۔ اور شدت سے متاثر بھی کرتا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ دماغ میں جگہ حاصل کر کے یہ دماغ ہی میں رہ گئے ہیں، جذبہ و احساس میں نہیں اترے، خون میں نہیں گھلے، غالبؔ کی سانس نہیں بنے۔ ہمارے بابا ہم سے کہا کرتے تھے، سلیم احمد! تصوف سے کچھ حاصل کرنا ہے تو اسے گھٹ میں اتار لو۔ تصوف غالبؔ نے حاصل تو کیا ہے مگر گھٹ میں نہیں اترا۔ صرف ذہن ہی میں رہ گیا ہے۔ اس لیے غالبؔ مرعوب تو کر دیتا ہے، اندر نہیں اترتا۔ میر دردؔ نے سیدھا سا شعر کہا ہے،
جگ میں آ کر اِدھر اُدھر دیکھا
تُو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
بات یہ ہے کہ شعر کیسا بھی ہو مگر دردؔ نے دیکھا تو ہے۔ غالبؔ نے شعر کیسے ہی کہے ہوں، بس دیکھا ہی نہیں ہے۔ علمِ سماعی یا علمِ مطالعہ ’’شنید‘‘ تو بہت اچھی طرح ہوا ہے، ’’دید‘‘ نہیں بنا۔ آخری شعر بہت اہم ہے، یہ ہمیں بتاتا ہے کہ تصوف گھٹ میں کیوں نہیں اترا۔ پچھلے دنوں میں نے اپنی چھوٹی بچی کو اردو قاعدہ پڑھانا شروع کیا، ’’الف‘‘ پڑھایا، خیریت تھی، جب ’’ب‘‘ پڑھانا چاہا تو وہ اڑ گئی، ’’ابو یہ ’’ب‘‘ کیوں ہے، الف کیوں نہیں ہے میں نے کہا، بیٹی دیکھو الف یہ سیدھا سیدھا ہے، اور ’’ب‘‘ لیٹا لیٹا۔ بولی تو ’’ب‘‘ لیٹا لیٹا کیوں ہے۔ ابو میں تو اسے بھی ’’الف‘‘ کہوں گی۔ میں نے کہا، بیٹی دیکھو ’’ب‘‘ کے نیچے نقطہ ہے، الف کے نیچے کوئی نقطہ نہیں۔ بولی، نقطہ نہیں ہے تو میں کیا کروں؟ اور نقطہ کیوں نہیں ہے۔ میں نے قاعدہ بند کر دیا۔ اور تعلیم کی نفسیات پر غور کرنے لگا۔ تعلیم کی نفسیات یہ ہے کہ طالب علم جب تک کچھ سیکھے، اس وقت تک سوال نہ کرے، تنقید نہ کرے، اردو پڑھنی ہے تو اردو حروفِ تہجی بغیر سوال کے یاد کرنے ہوں گے۔ ریاضی پڑھنی ہے تو گنتی کا گھوٹا تو لگانا ہی پڑے گا۔ غالبؔ یہی نہیں کرتا۔ اسے سوال پوچھنے کا شوق ہے۔ ابھی یہ بات تجربہ ہی نہیں بنی کہ اصل شاہد و مشہود ایک ہے بھی یا نہیں، نہ تجربہ بنی، نہ پوری طرح سمجھ میں آئی، مگر اسے یہ جاننے کی دھن ہو گئی ہے کہ اگر ان کی اصل ایک ہے تو پھر مشاہدہ کس حساب میں ہے؟ یار لوگ تصوف کے ویسے ہی خلاف ہیں۔ انہوں نے یہ تک نتیجہ نکال لیا کہ غالبؔ تصوف کے ماننے والا تو درکنار، تصوف کا مخالف ہے۔ کسی چیز کی مخالفت کے لیے اس کا جاننا ضروری ہے۔ غالبؔ تصوف جانتا ہی نہیں، مخالفت کیا کرے گا۔ وہ تو بے صبرا طالب علم ہے، میری بچی کی طرح۔ وہ تو حروفِ تہجی ہی نہیں کہنا چاہتا ہے، بس الف پر اڑ کر رہ گیا ہے۔ اسی طرح غالبؔ کی ایک اور غزل ہے، جس میں انہوں نے سبزہ و گل کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔ کچھ لوگ اسے سائنس کی ابتدا کہتے ہیں، کچھ فلسفے کی۔ بعض لوگوں نے اس سے غالبؔ کی تشکیک بر آمد کی ہے۔ رشید احمد صدیقی جیسے آدمی کو دھوکا ہو گیا ہے کہ یہ خدا پر شک ہے۔ خدا پر شک نہیں ہے، وحدت الوجود پر شک ہے،
جبکہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
توحید وجودی کے نقطۂ نظر سے وجود صرف خدا کا ہے۔ غالبؔ کہتا ہے اگر یہ درست ہے تو پھر یہ عالمِ کثرت کیا ہے۔ اس سوال کو غالبؔ نے ایک جگہ کثرت آرائی وہم سے تعبیر کیا ہے اور اعتراف کیا ہے کہ اسے اصنام خیالی نے کافر بنا دیا ہے۔ شعر میں کئی اور پہلو بھی نکلتے ہیں مگر انہیں فی الحال چھوڑیے۔ فی الحال تو دیکھنے کی بات یہ ہے کہ خدا کے وجود پر اعتراض یا استفسار نہیں ہے، توحیدِ وجودی پر سوال ہے۔ سوال کو تصوف کے مخالف قطعی طور پر اعتراض ثابت کرتے ہیں۔ اور جوشؔ صاحب تو یہاں تک کہتے ہیں کہ غالبؔ اگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے محبت نہ کرتا تو بہت بڑا دہریہ ہوتا،
اپنے پہ کرتا ہوں قیاس اہلِ دہر کا
جوشؔ صاحب جو تجربہ خود رکھتے ہیں، اسے غالبؔ پر چپکاتے ہیں۔ غالبؔ کا سوال غالبؔ کے بے صبرے پن کی دلیل ہے۔ غالبؔ مسئلے کو سمجھاہی نہیں ہے، اسیر کا ایک شعر دیکھیے، فہیم کا فرق نظر آ جائے گا۔
باغِ عالم میں یہی فکر رہی مجھ کو اسیرؔ
دیکھیے گل کی طرف یا چمن آرا کی طرف
اسیرؔ نے مسئلے کو پانی کر دیا۔ مسئلہ یہ ہے کہ توحید وجودی خلق سے حق کی طرف لے جاتی ہے۔ حق کی طرف اس سفر میں خلق معدوم ہو جاتی ہے۔ یہ مقام جمع ہے، لیکن پھر نزول شروع ہوتا ہے اور سالک حق سے خلق کی طرف پھر رجوع کرتا ہے، اب خلق پھر موجود ہو جاتی ہے۔ مگر سالک نزول نہیں چاہتا۔ اس کے نفس میں نزول اور صعود کے درمیان کش مکش رہتی ہے۔ اسیرؔ نے اس کش مکش کو بیان کیا ہے۔ غالبؔ تو ابھی بچوں کی طرح الف ہی میں اٹکا ہوا ہے۔ غالبؔ کا ایک قصیدہ البتہ بڑے دھوم دھام سے شروع ہوتا ہے۔
دہر جز جلوۂ یکتائیِ معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خودبیں
حسن خودبیں ہے، اس لیے اپنے آپ کو دیکھنے کے لیے یہ آئینہ پیدا کیا ہے جسے کائنات کہتے ہیں۔ یہ محل ظہور ہے۔
حقیقت واحدہ اور اس آئینے میں بصورت کثرت ظاہر ہوتی ہے۔ چنانچہ حسن نے جب آئینہ دیکھا تو اس سے ہم نمودار ہو گئے۔ لیکن قصیدے کی تشبیب بتاتی ہے کہ غالبؔ اس نموداری اور پیدائی سے خوش نہیں، وہ تو کہہ چکا ہے کہ ’’ڈبویا مجھ کو ہونے نے‘‘، یہ خیال اسے اس کی ذاتی زندگی سے پیدا ہوا ہے۔ اس کی ذاتی زندگی مصائب و آلام سے پُر ہے۔ وہ اپنی زندگی سے حد درجہ بے زار ہے۔ غالبؔ نے تشبیب میں اپنی کیفیت بیان کی ہے۔ یہ کیفیت ظاہر کر رہی ہے کہ غالبؔ کے دل میں وسوسہ ہے کہ اگر دہر حسن خودبیں کا جلوۂ یکتائی ہے تو اے کاش وہ خودبیں نہ ہوتا۔ اور ہم پیدا نہ ہوتے۔ قصیدے کا مقصد یہ ہے کہ اس وسوسے کو دور کیا جائے اور حسن خودبیں کی جلوہ آرائی یعنی اپنے اور دوسرے انسانوں یا کائنات کے وجود کو تسلیم کر لیا جائے اور توحیدی وجود میں اپنی زندگی کا جواز تلاش کیا جائے۔ لیکن یہ سب آگے کی منزلیں ہیں۔ پہلے تو وہ کیفیت دیکھ لیجیے جو غالبؔ کی موجودگی یا وجود انسانی کی موجودگی سے پیدا ہوئی ہے،
توڑے ہے نالہ سر رشتۂ پاس انفاس
سر کرے ہے دلِ حیرت زدہ شغل تسکیں
بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں
ہرزہ ہے نغمۂ زیر و بم ہستی و عدم
لغو ہے آئینۂ فرق جنوں و تمکیں
پاس امثال بہار آئینہ استغنا
وہم آئینہ پیدائیِ امثالِ یقیں
لافِ دانش غلط و نفع عبادت معلوم
دُردِ یک ساغر غفلت ہے چہ دنیا و چہ دیں
یہ اشعار بڑے زوردار ہیں۔ غالبؔ تجربے میں ڈوب گیا ہے اور پوری قوت سے بولا ہے۔ اردو شاعری میں ایسے اشعار کمیاب ہیں۔ اور ایسی تشبیب تو بالکل نایاب ہے۔ امید بنتی ہے کہ تشبیب کا یہ زور آگے چل کر رنگ لائے گا۔ قصیدہ جناب امیرؔ کا ہے یقیناً غالبؔ، جناب امیرؔ کے فیض سے اگلی منزل طے کرے گا۔ وہ اپنے وجود کی بے معنویت سے نکلے گا۔ اور اسے معلوم ہوگا کہ حسنِ خود بیں جس کا وہ عکس ہے، اس نے اس کے وجود کو پیدا کر کے اس کے ساتھ ظلم نہیں کیا بلکہ وجود کیا ہے۔ اس کے وجود ’’محدود‘‘ کی مایوسیاں، ناکامیاں، محرومیاں، تلخیاں، جب وجود کلی کے سمندر سے ملیں گی تو دھل کر پاک ہو جائیں گی اور اسے خود اپنے وجود اور کل وجود کائنات کے مثبت ہونے کا اندازہ ہو جائے گا۔ لیکن قصیدہ جوں جوں آگے بڑھتا جاتا ہے، یہ امید مایوسی میں بدلتی جاتی ہے۔ غالبؔ جذباتی تو زیادہ ہو جاتا ہے مگر اس کا ادراک نہیں بدلتا۔ اس کے تجربے میں تبدیلی نہیں آتی۔ وہ اپنے بے معنی وجود کی بے معنویت سے نہیں نکلتا۔ اس کے سوالات جواب نہیں پاتے۔ صرف حضرت علی کی محبت میں معطل کر دیے جاتے ہیں۔
کس قدر ہرزہ سرا ہوں کہ عیاذاً باللہ
یک قلم خارج آداب وقار و تمکیں
ختم کر ایک اشارت میں عباداتِ نیاز
جوں مہِ نو ہے نہاں گوشۂ ابرو میں چیں
نقشِ لا حول لکھ اے خامۂ ہذیاں تحریر
یاعلیؓ عرض کرائے فطرتِ وسواس قریں
غالبؔ اپنے سوالات کا جواب نہیں پاتا، صرف لا حول پڑھ کر بات ختم کر دیتا ہے۔ لیکن لا حول کہنے سے تشبیب میں شیطان کی شیطانی دور نہیں ہوتی۔ وہ اور زیادہ سچی ہو جاتی ہے، یہاں تک کہ غالبؔ کا یہ قصیدہ اگر یاد رہتا ہے تو صرف تشبیب کی وجہ سے، باقی جو کچھ ہے، جذباتیت تو ہے، ادراک نہیں۔ غالبؔ تصوف کی یہ اعلیٰ ترین مثال تھی مگر آپ نے دیکھا کہ غالبؔ چیں بول گیا ہے۔ در اصل تصوف اس کے لیے نقشِ لا حول سے زیادہ اور کچھ ہے بھی نہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.