Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

متروکات

دتا تریہ کیفی

متروکات

دتا تریہ کیفی

MORE BYدتا تریہ کیفی

     

    طب کی کتابوں میں لکھا ہے کہ چند برسوں کے بعد انسان کا گوشت اور پوست نیا بن جاتا ہے۔ زیادہ تر اس وجہ سے کہ وہ اپنی غذا کے لئے بے شمار بیرونی اشیا کا محتاج ہے۔ اس پر بھی جراح نے جو کبھی کسی انسان کے جسم پر نشتر چلایا تھا اس کا نشان مرتے دم تک باقی رہتا ہے۔ یہی حال دنیا کی نئی اور غیر صرفی زبانوں کا ہے، یعنی اخذ و ترک ان میں برابر جاری رہتا ہے لیکن ان کے جگری نشان اور جوہر جوں کے توں رہتے ہیں۔

    حضرت ولیؔ کو اردو کا پہلا صاحب دیوان شاعر مان کر اردو کی عمر دو سو برس سے کچھ اوپر ٹھہرتی ہے۔ ولی مرحوم محمد شاہ گورگانی کے عہد میں دکن سے دہلی آئے 1 اس بادشاہ کی حکومت کا زمانہ1719 سے 1749ء تک شمار کیا جاتا ہے۔ زبان کے باب میں یہ تھوڑی سی مدت بھی کچھ حقیقت رکھتی ہے؟ بلا مبالغہ کہنا پڑتا ہے کہ اردو والوں کا اخذ اور ترک ان دو صدیوں کی قلیل مدت میں تعجب خیز اور تحسین انگیز ہے۔ مرا روئے سخن متروکات سے ہے، اس لئے ماخوذات سے سروکار نہیں رکھا جائے گا۔

    شروع شروع میں جو لفظ یا ترکیبیں متروک قرار دی گئیں، ان کی بنیاد اس اصول پر ہوگی کہ ریختہ یا اردو زبان کا ذاتی تشخص اور اپنی جگہ اس کی ایک مستقل ہستی قائم کی جائے۔ پھر لطافت اور نغریت، ترنم اور سلاست کا نظریہ ترک کا معیار ٹھہرا ہوگا۔ متقدمین اور متوسطین غالباً اسی اصول پر کاربند رہے ہوں گے۔ ہاں کہیں یہ بھی ہوا کہ اردو کی دنیا میں اپنی ایک خود مختار حیثیت تسلیم کرانے کی غرض سے زبان کی گردن پر ترک کی کند چھری ریت کر ایک امر ما بہ الامتیاز قائم کیا گیا۔ یہاں سے اردو میں بدعت کی بنیاد پڑی۔

    زبان مانجھنے اور معقولیت کی بنا پر اخذ اور ترک کا سہرا شاہ حاتم کے سر ہے۔ شاہ صاحب محمد شاہی عہد کے شاعر اور ولی کے ہم عصر تھے۔ یہ تحقیق کرنا مشکل ہے کہ ان کا زمانہ کتنی دور تک ان کے زمانہ کا ہم ردیف ہے۔ شاہ حاتم نے بہت سے ہندی اور دکنی الفاظ جو ولی کے کلام کی زینت تھے، ترک کرکے ان کی جگہ فارسی کے ایسے الفاظ زبان میں داخل کئے جو غیر مانوس نہ تھے بلکہ انہوں نے زبان کی اصطلاح میں یہاں تک کیا کہ اپنے ابتدائی کلام میں جہاں رکیک لفظ نظر آئے، اس حصہ کو ہی اپنے کلیات سے خارج کر کے اپنے کئی دیوانوں سے غزلوں اور غزلوں سے شعروں کا انتخاب کر کے ایک منتخب دیوان ترتیب دیا، جس کا نام دیوان زادہ رکھا۔ اس کے شروع میں ایک دیباچہ لکھا اور اس میں تمام متروکات کی فہرست دے دی۔ غرض کہ شاہ حاتم دہلوی کی ذات سے زبان کی خراش تراش اور اس میں کانٹ چھانٹ کی بنیاد پڑی۔ زبان کی اس خدمت کے اعتبار سے آزاد مرحوم نے شاہ صاحب کو پہلے دور سے نکال کر جہاں ان کی جگہ تھی، دوسرے دور کے شعرا میں رکھ دیا ہے۔

    میں یہاں متروکات کی تاریخ نہیں لکھ رہا ہوں، ورنہ میر تقی، مرزا رفیع السوداؔ، مظہر ؔ، دردؔ جراتؔ، سوزؔ، مصحفی، انشاؔ، نصیر اور اساتذہ ثلاثہ یعنی مومنؔ، ذوق، اور غالب اور ناسخ اور آتشؔ کے متروکات کی عہد بہ عہد کی تفصیل اور تاریخ پیش کرتا۔ مرزا غالب کا اردو دیوان تیسری بار 1278ھ میں چھپا۔ اس کے خاتمہ کی عبارت میں مرزا صاحب لکھتے ہیں،

    ’’ایک لفظ سو بار چھاپا گیا کہاں تک بدلتا۔ ناچار جابجا یونہی چھوڑ دیا یعنی کسو۔۔۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ لفظ صحیح نہیں، البتہ فصیح نہیں۔ قافیہ کی رعایت سے اگر لکھا جائے تو عیب نہیں ورنہ فصیح بلکہ افصح کسی ہے۔‘‘
       
    اسی طرح ذوقؔ کے ہاں کبھو قافیہ کی رعایت سے ایک دو جگہ ہی آیا ہے۔ مومن خاں نے بھی بہت سے الفاظ ترک کئے لیکن چونکہ ذاتی تشخص قائم کرنے کی ضرورت نہ تھی، میر علی اوسط رشک کی طرح ان کی ایک فہرست مرتب کر کے تالے کنجی میں نہیں رکھی۔ جناب شوق لکھتے ہیں،
       
    ’’اس لفظ سے اس امر کا اظہار مقصود ہے کہ ناسخ کے ساتھ اور شعرا بھی زبان کی اصلاح میں شریک ہیں۔ جب مومن و آتش وغیرہ کا کلام بہت سے رکیک مستعملات سے پاک ہے تو میں ان لوگوں کے مصلح زبان ہونے سے کیونکر انکار کر سکتا ہوں۔‘‘ 
     
    کہا جاتاہے کہ حضرت ناسخ کے شاگرد میر علی اوسط رشک نے چالیس پینتالیس کے قریب الفاظ متروک قرار دیے تھے جن سے ان کا تیسرا دیوان پاک تھا لیکن وہ دیوان افسوس ہے کہ چھپا ہی نہیں۔ رشک مرحوم ان متروکات کے دفتر کو ہمیشہ مقفل رکھتے تھے اور اپنے خاص شاگردوں کے سوا کسی کو اس سے مستفیض ہونے نہ دیتے تھے۔ ان صورتوں میں وثوق سے نہیں کہا جا سکتاکہ متروکات کی اس فہرست میں کون کون سے لفظ داخل تھے، وہ متروکات کس اصول پر مبنی تھے اس کا اندازہ ان کے کلام سے کیا جائے تو ان کے اجتہاد کے خلاف شبہات کی بڑی گنجائش ہے۔ نمونہ ملاحظہ ہو،

    چاول الماس، گوشت لخت جگر
    فرقت یار میں پلاؤ نہیں
    میرے کھانے سے کیوں فلک ہے کباب
    پاوروٹی ہے نان پاؤ نہیں
    دیکھو نزاکت آپ کی دھروا کے آئینہ 
    لگواتے ہیں ضماد مہا سے کے عکس پر

    رشک مرحوم کے سینہ بسینہ متروکات سے قطع نظر کر کے اس بحث میں یہ کتابیں اور رسالے قابل ذکر ہیں،
    (1) آب حیات، مصنفہ آزاد مرحوم۔
    (2) اصلاح مع ایضاح شرح اصلاح، مصنفہ جناب مولانا محمد ظہیر احسن صاحب شوقؔ نیموی، مطبوعہ قومی پریس لکھنؤ1887ء
    (3) تسہیل البلاغت مصنفہ جناب مرزا محمد سجاد بیگ صاحب دہلوی1339ھ
    (4) قرار المحاورات و قرار المتروکات، مولفہ جناب سید تصدق حسین قرار شاہجہاں پوری مقیم لکھنؤ۔
    (5) اصلاح زبان اردو، مصنفہ جناب خواجہ عبد الروؤف صاحب عشرت لکھنوی1919ء
    (6) نور اللغات (دیباچہ) مولفہ جناب مولوی نورالحسن صاحب نیر کاکوری1924ء

    (1) آب حیات میں خاص خاص شعرا کے حال ہیں کبھی ایک دور کے شروع یا آخر میں اس کے متروکات کا ذکر آیا ہے مگر وضاحت اورترک کی وجہ مفقود ہے۔

    (2) حضرت شوق نے پہلے پہل اپنی کتاب 1887ء میں لکھنؤ سے شائع کی۔ اس کا پچھلا ایڈیشن کئی برس بعد جناب حسرت موہانی نے مع ازاحۃ الاغلاط اپنے اردو پریس علی گڑھ سے شائع کیا۔ حضرت شوق لکھتے ہیں،

    ’’جس طرح میر و مرزا نے ولی و حاتم کے اکثر مستعملہ الفاظ ترک کردیے تھے اسی طرح مومن و غالب و ناسخ ؔ آتش وغیرہ نے میر و میرزا کے بہت سے لفظ متروک کر دیے۔ جیسے اودھر، ایدھر، بگانہ، بجائے بیگانہ، دوانہ بجائے دیوانہ، پیار و پیاس باشباع یا تئیں کو کے معنی میں، تنک ٹک ذرا کے معنی میں، ستی سوں سجن، کنے کسو، لوہو، مکھ، نت نین، مجھ پاس، کرے ہے، آئیاں جائیاں۔ ان میں سے اکثر الفاظ تو وجوباً ترک کر دیے اور بعض الفاظ ایسے ہیں کہ کسی نے کہیں کہیں استعمال بھی کئے ہیں اس کے بعد ان کے تلامذہ کا دور ہوا انہوں نے بھی کچھ لفظ ترک کئے۔‘‘

    (3) جناب سجاد مرزا صاحب کی تسہیل البلاغت کے صفحہ 49 سے متروک الفاظ کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ اس میں واچھڑے، بہتات، سرس (زیادہ بہتر) نپٹ وغیرہ الفاظ بھی موجود ہیں۔ ان میں سے کئی الفاظ شاہ حاتم متروک ٹھہرا چکے تھے یہی حال زوربل، بے، خوباں اور عزیزاں کا ہے۔ ایسی فہرستوں سے کچھ فائدہ مترتب نہیں ہوتا۔ پڑھنے والا سوچتا ہے کہ جب امیر اور داغ جن کو ہم نے کل دیکھا سنا تھا، تلک اوربل بے لکھ گئے تو ضرورت کے وقت ہم بھی کیوں نہ وہ لفظ استعمال کریں۔

    (4) جناب قرار کی کتاب کے خاتمہ پر چودہ صفحے متروکات کے موضوع پر دیے گئے ہیں۔ شروع میں جولکھا ہے اس میں بہت کچھ عیوب ترکیب وغیرہ کی ذیل میں آتا ہے جس کا تعلق ٹھیٹھ متروکات سے ہر گز نہیں، مثلا (صفحہ 46) ایک جنس کے دو حرفوں کا قریب قریب آنا کلام کا یہ نقص علم معانی میں تنافر حروف کی ذیل میں آتا ہے۔ اگر متروکات کی فہرست کو اس طرح طوالت دی جائے تو کلام کے تمام نقائص جن کا ذکر علم معانی اور علم بیان وغیرہ میں آیا ہے اس میں داخل ہو جائیں گے۔ آخر میں ایک فہرست بھی دی گئی ہے۔ اس میں وہ الفاظ مثالوں کے ساتھ لکھے ہیں جو میر سودا اور مصحفی وغیرہ متقدمین نے استعمال کئے مگر اب متروک ہیں۔

    امیرؔ، داغؔ اور جلالؔ بھی اس فہرست میں آ جاتے ہیں یعنی بقول مؤلف ان کے بھی بعض مستعملہ الفاظ اب متروک ہیں۔ اس اقتباس میں زمانہ وغیرہ کی ترتیب کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ چنانچہ آخری متروک لفظ ’’ہے گی‘‘ ہے اور اس کے لئے سودا کا شعر نقل کیا ہے۔ اس فہرست کے تین خانے میں اول خانے میں جائز الفاظ ردیف وار درج ہیں، دوسرے میں متروک، تیسرے میں مثال کے شعر۔ چاہئے یہ تھا کہ اول خانے میں متروک الفاظ کو لاتے۔

    (5) اصلاح زبان اردو۔ کہتے ہیں لکھنؤ میں ایک انجمن اصلاح سخن تھی وہ ایک رسالہ گلچیں نکالا کرتی تھی۔ اس کے ممبروں نے زبان کے کچھ قواعد مرتب کئے تھے۔ غالباً انہیں قواعد کی بنا پر یہ رسالہ ترتیب دیا گیا۔ راقم اس انجمن، اس کے ممبروں اور رسالہ سے قطعاً ناواقف ہے۔ اگر یہ انجمن ایک دوسری انجمن، انجمن دائرہ کی نوعیت رکھتی تھی جس کا ذکر نومبر 1908ء کے معیار میں آیا ہے تو اس کے معتبر ہونے میں شبہ کی بہت گنجائش ہے۔ یہ چھوٹی تقطیع کا رسالہ 28 صفحوں میں اردو کی اصلاح اور متروکات کو نبٹا دیتا ہے۔

    (6) نور اللغات کے دیباچہ پر نومبر 1924ء درج ہے۔ اس لئے اس بحث سے متعلق یہ تازہ ترین کتاب ہے۔ فاضل مولف نے دیباچہ میں 297 متروکات کی فہرست دی۔ یہ فہرست مولف کے خیال میں ساری فہرستوں سے بڑی ہے۔ اس میں تمام ایسے لفظ آ جاتے ہیں جنہیں اردو شعرا نے اول سے آج تک مولف کے قول کے مطابق متروک قرار دیا ہے۔ میں اسے محض فضول طوالت اور تحصیل حاصل کہوں گا۔ گھر جانا، گھر ویران ہونا کی جگہ، گہنا، پکڑنا کے بدلے سوں، سیتی، سیں، سے کی جگہ اب کون لکھتا ہے۔ یا اب سے پچاس برس پہلے کون نظم میں لاتا تھا جو یہ بھی اس فہرست میں داخل کر دیئے گئے ہیں۔ متعلق کو اس فہرست سے کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا۔ چاہئے یہ تھا کہ داغ ؔ اور امیرؔ کے متروک الفاظ اور ان کی وفات سے آج تک جو الفاظ ترک کئے گئے، ان کی فہرست دے دیتے یا زمانہ اور دور کا تعین کر کے ایک مسلسل اور مکمل فہرست پیش کرتے۔ مولف نے اس طویل فہرست کے بعد چند اصول بھی متروکات کی بحث میں قلم بند کئے ہیں جن کی تعداد 49 تک پہنچی ہے۔ ان میں صرف ہدایتیں ہیں، وجہ اور علت کا ذکر کہیں نہیں آیا کہ کیوں فلاں لفظ متروک سمجھا جائے؟ کیوں ایسا ایسا کرنا معیوب ہے؟

    ان چھئوں مطبوعات میں سے کئی ایسے ہیں کہ محض تجارتی مفاد پر نظر رکھ کر شائع کئے گئے ہیں۔ کئی ایسے بھی ہیں جنہیں سندی حیثیت دینا انصاف کے قرین نہ ہوگا کیونکہ ان کی مندرجات مقامی پاسداری سے مبرا نہیں۔ اس کی تفصیل یہ ہے لکھنؤ والے نے جو کچھ لکھا اس میں اس نے وہ الفاظ متروکات کی ذیل میں درج کر دیے، جن کو لکھنؤ والوں نے استعمال ہی نہیں کیا اور ان میں اکثر ہندی کے مانوس الاستعمال الفاظ ہیں۔ جاننا چاہئے کہ ترک، اخذ یا استعمال کے وجود کو ممکن ہی نہیں لازم ٹھہراتا ہے۔ جب ایک لفظ کبھی کسی کے استعمال میں آیا ہی نہیں تو آپ کا اس کو ترک کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟

    اس قبیل سے ایک لفظ سندیسا ہے۔ 2 یہ لفظ لکھنؤ کے مشاہیر شعرا نے استعمال نہیں کیا مگر دہلی میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ مہتاب داغ میں آیا ہے۔ پھر اسے متروکات کی فہرست میں شامل کر کے داغؔ کا شعر لکھ دینا معقولیت سے خارج ہے۔ اگر یہ فرض بھی کر لیں کہ یہ لفظ کسی شاعر نے سوائے داغ کے استعمال کیا ہی نہیں تو اس کے خلاف یہ کہا جا سکتا ہے کہ ناسخ وغیرہ نے ایسے بہت سے الفاظ استعمال کئے ہیں، جو ان کے سوا، اور کسی شاعر نے استعمال کئے ہی نہیں۔ خواہ وہ کہیں کا رہنے والا اور زبان کے کسی مرکز کا متبع تھا۔ مثلا سپر غم، جریدتین، خالق الاصباح، سباح وغیرہ۔ تو کیوں نہ انہیں بھی متروکات کی فہرست میں درج کیا جائے؟

    ان اصحاب نے یہ بھی کیا ہے کہ عام متروکات کی تمثیل میں چن چن کر دلی والوں کے اشعار اقتباس کئے ہیں اور لکھنؤ والوں کے کلام سے مجبور ی کی حالت میں استفادہ کیا ہے۔ غالباً وہ روش اسی وتیرہ کا جواب ہوگی جو جناب سجاد مرزا بیگ صاحب نے اپنی تسہیل البلاغت میں اختیار کی۔ راقم کے اعتقاد میں ادیب اور نقاد کا مسلک ان دونوں رستوں سے پرے پرے ہونا چاہئے۔ جناب شوق کے ہاں یہ افراط و تفریط نام کو نہیں۔

    تاریخی کوائف کہئے یا مبادیات، ان کے بعد چند امور ناظرین کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ پھر بعض الفاظ کے متروک قرار دینے کے متعلق بحث کی جائے گی۔ سب سے اول جو سوال ذہن میں اٹھتے ہیں یہ ہیں کہ،

    (1) ایک لفظ مدت سے اردو میں مستعمل ہے اب جو اسے ترک کیا جاتا ہے تو کس بنا پر؟ اس کے خلاف کون سی نئی باتیں پیدا ہوگئیں اور اسی معنی اور موقع کا کون سا نیا اور بہتر لغت مل گیا ہے جو اسے متروک الاستعمال قرار دیا جاتا ہے؟

    (2) وہ کون شخص یا اشخاص ہیں جو الفاظ کو متروک قرار دینے کے اہل ہیں؟

    (3) جو الفاظ وغیرہ متروک بتائے جاتے ہیں، آیا وہ اردو زبان سے نکال دیے گئے ہیں یا صرف اردو کی نظم سے؟ اگر صرف نظم سے خارج کئے گئے ہیں تو اس اخراج کا اطلاق محض غزل اور عاشقانہ شاعری پر ہے یا نئے طرز کی شاعری پر بھی جسے بوجہ اختصار نیچرل شاعری کہا جائے گا؟

    اس ضمن میں اور بھی بہت سے امور تنقیح ہیں لیکن طوالت کے خوف سے ان ہی تین امور کا ذکر کیا جائے گا۔

    (1) جن الفاظ یا ترکیبوں کو ہم سب اردو میں ترک کر بیٹھے ہیں، ان میں سے کسی ایک کی نسبت بھی کبھی یہ سننے میں نہ آیا کہ ان وجوہ سے یا اس اصول کے تحت یہ لفظ ترک کیا گیا۔ ابتدا سے اب تک یہ بد عنوانی چلی آئی ہے۔ اس سے بدعت اور طوائف الملوکی کا ہنگامہ گرم ہو گیا۔ جو جس کے جی میں آیا کر گزرا۔ متروکات کی فہرست پر جب غور کی نظر ڈالی جاتی ہے تو ثابت ہوتا ہے کہ چھانٹ چھانٹ کر ٹھیٹھ اردو الفاظ جو زبان میں مدتوں سے رچے پچے تھے، کان پکڑ کر اردو کی سبھا سے باہر کئے جاتے ہیں اور اردو کو عربی فارسی لغات سے گراں بار کیا جاتا ہے۔

    میں اس ضمن میں ان کا ذکر نہیں کروں گا جو دوسری طرف سنسکرت لغات کی بھرمار کر رہے ہیں کیونکہ وہ تعداد اور اثر میں کم ہیں۔ اردو کے کسی ہندو شاعر یا ادیب کو جس کی ادبی حیثیت مسلمہ ہو یہ الزام نہیں دیا گیا کہ وہ زبان میں اس طرح ثقالت پیدا کر رہا ہے۔ مختصر یہ کہ کیا ہندو اور کیا مسلمان اردو لکھنے والے سب ہی ارادی یا غیر ارادی متروکات کے باب میں برابر ہیں۔ میں اس جگہ ہندوستانی کے دو لفظ لکھتا ہوں۔ سندیسا اور بتھا۔ یہ دونوں لفظ اردو لغات میں موجود ہیں۔ ان میں سے سندیسا نور اللغات کی متروکی فہرست میں داخل ہے۔ دوسرا لفظ بتھا اس میں نہیں آیا۔ شاید کسی نے استعمال بھی نہیں کیا۔ راقم نے ایک جگہ استعمال کیا ہے۔ اب ذرا ان دونوں لفظوں کے معنی کو دیکھئے۔

    سندیسا کے معنی ہیں راضی اور خوشی کا پیغام، خیریت کی خبر 3 عربی فارسی کا کوئی لغت جو اس معنی کا حامل ہو اب تک اردو کے علم سے باہر ہے۔ ان زبانوں میں اس کا کوئی مترادف ہوگا بھی تو وہ لغات کے محبس میں قید ہوگا۔ مژدہ یا نوید سندیسا کے مترادف نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ ایک خاص مسرت آمود واقعہ کی خبر دیتے ہیں۔ پیغام بری بھلی دونوں قسم کی خبر پر محتوی ہوتا ہے، صلح کا پیغام بھی ہوتا ہے اور جنگ کا بھی۔ نور اللغات کے جامع سے پوچھنا چاہئے کہ یہ لفظ کس وجہ سے متروکات کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے اور یہ کہ سندیسا کا مترادف لفظ پیغام انہوں نے کس تحقیقات کی بنا پر لکھ دیا ہے۔ وہ اس غلطی پر ہیں۔ اگر پیغام سندیسا کا مترادف ہو سکتا ہے تو سنانی کو بھی کیوں نہ ایسا مانا جائے۔

    آپ کا کوری کے رہنے والے ہیں، جو قصبہ زبان کے لحاظ سے لکھنؤ کا متبع ہے۔ اگر لکھنؤ نے اس لفظ کو ترک کر دیا تو میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس نے اس لفظ کو استعمال کب کیا تھا؟ اخذ، اختیار یا استعمال کئے بغیر ایک شے ترک نہیں کی جا سکتی ہے۔ کسی ہندو کا یہ کہنا کہ ختنے کا ترک کیا جائے یا کسی مسلمان کا یہ کہنا کہ مردے کو جلانا متروک ہے، ایسا ہی لا یعنی ہے جیسے یہ کہنا کہ سندیسا اردو میں متروک ہے کیونکہ یہ لفظ لکھنؤ نے کبھی استعمال ہی نہیں کیا۔ بہر حال انہیں چاہئے تھا کہ لکھنؤ کے متروکات کی اور ان الفاظ کی جنہیں اور مقاموں کے بر خلاف لکھنؤ نے استعمال نہیں کیا، ایک ایک علیحدہ فہرست مرتب کرتے تاکہ پڑھنے والے کو دھوکا نہ ہوتا۔

    متروک الفاظ کی مثالوں میں انہوں نے جابجا دہلی اور لکھنؤ اور سب مقاموں کے شاعروں کے کلام نقل کر دیے ہیں۔ اس سے یہ شبہ ہوتا ہے کہ ان کی یہ فہرست کل اردو دنیا میں مسلمہ ہے مگر جہاں تک اس لفظ کا تعلق ہے یہ ادعا درست نہیں۔ داغ کے ہاں یہ لفظ مہتاب میں آیا ہے۔

    سن کے وہ حال مرا غیر سے فرماتے ہیں
    آئے ہیں آپ محبت کا سندیسا لے کر

    میری رائے میں ہمارے پاس کوئی وجہ موجود نہیں کہ اس لفظ کو متروکات میں داخل کیا جائے۔ دوسرا لفظ جس کا ذکر آگے آیا، بتھا ہے۔ اس کے معنی ہیں تکلیفوں یا مصیبتوں کی روداد یا داستان غم۔ میرے علم میں مختلف زبانوں کے ان لغات میں سے جن سے اردو کو شناسا سائی ہے، ایسا پر معنی مفرد لفظ کوئی نہیں دکھائی دیتا۔ پھر کیوں نہ اسے رواج دیا جائے۔ اب تک ہم یہی سنتے آئے ہیں کہ فلاں لفظ فلاں ترکیب فصحا یا اکثر فصحا نے ترک کردی۔ کوئی پوچھے کہ حضرت آخر اس ترک کی وجہ، اس کا موجب؟ تو جواب ندارد۔

    یہ کبھی ظاہر نہ ہوا کہ فصاحت اورفصیح کی تعریف کیا قرار دی گئی ہے؟ اس کا معیار کیا ہے؟ اس کے موازنہ کے کیا اصول ہیں؟ مزاج کی سودائیت نے ایک حساسی کیفیت پیدا کر کے قوت ممیزہ کو ماؤف کر دیا ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہر شے میں ’’آدم بو‘‘ کا مضمون صورت پذیر ہو گیا۔ نہ لفظ کی صرفی ماہیت پر نظر کی گئی نہ اس کی معنوی اہمیت کا لحاظ ہوا اور خرج یخرج ترک یترک کی گردان شروع ہو گئی۔ یہ دیکھ کر بڑا اچنبھا ہوتا ہے کہ اس اچھوت سدھار، دلت ادھار، تبلیغ اور مساوات کے زمانہ میں جب ہر ایک دوسرے کو اپنے میں لینے کو لپکتا ہے، اردو میں ’’نکالو! باہر کرو‘‘ کے سوا اور کوئی صدا سننے میں نہیں آتی۔ یہ بے وقت کا راگ ہے۔

    اردو والے یاد رکھیں اور خوب یاد رکھیں کہ اگر ان کے متروک الاستعمال کی لے اسی طرح بڑھتی گئی تو ان کی وہی گت ہوگی جو ’خارج از برادری‘ کی لے نے ہندوؤں کی بنائی۔ خوف ہے کہ کہیں اردو ادب کو ان ’’تارکان ادب‘‘ کے ہاتھوں وہی دن دیکھنا نصیب نہ ہو جو چھوت چھات اور سوچم کی مریضانہ حساسی نے ہندوؤں کے قومی ادبار کا منتہا ثابت کیا۔ کوڑھی کے ساتھ کوئی کھانا نہیں کھاتا۔ کھجلی والے سے سب الگ رہتے ہیں۔ ہیضہ اور پلیگ کے مریض سے سب ہی بچنا چاہتے ہیں۔ یہاں تک تو احتیاط کرنا درست۔ اس سے زیادہ بیماری ہے خواہ وہ سوشل معاملہ ہو یا ادبی معاملہ میں۔

    (2-3) اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر داغ اور امیر نے یا غالب اور مومن نے میں کہتا ہوں شاہ نصیر اور ناسخ نے کچھ الفاظ اردو کی برادری سے خارج کئے تو کیا وہ پھر اس میں داخل نہیں ہو سکتے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ سو کوئی تیس چالیس برس متروک رہنے کے بعد اب اردو میں واپس آیا ہے۔ ان سب باتوں سے قطع نظر دیکھنا تو یہ ہے کہ متاخرین اور معاصرین شاہ نصیر سے لے کر داغ تک اور داغ سے لے کر آج تک جن شاعروں نے نظم کے فن کے قاعدے وضع کئے، اور خاص خاص لفظوں یا ترکیبوں کو متروک قرار دیا، ان کی حیثیت اردو نظم کے باب میں کیا تھی، بلحاظ اس کے مختلف اصناف اور موضوع کے تنوع کے متقدمین سے قطع نظر کر کے، شاہ نصیر سے لے کر مرزا داغ تک کیا لکھا کرتے تھے، ان کے کلام کی نوعیت کیا تھی، اس کا میدا ن کتنا وسیع تھا؟ ’’نام نیک رفتگان‘‘ کو ضاع کرنا اپنا شیوہ نہیں، یہ اور دوسرے بزرگ نہ صرف ہمارے لئے بلکہ تمام اردو دنیا کے لئے ہمیشہ واجب التعظیم رہیں گے لیکن سچ کہنے سے چارہ نہیں۔

    کہنا پڑتا ہے کہ غزل اور کبھی کبھی قصیدے کے سوا اور صنف میں یا کسی مفید اور کار آمد موضوع پر انہوں نے کبھی فکر نہیں کی وہ جس وہ جس صنف میں بھی لکھتے اس پر وہی مجاز کا رنگ حاوی تھا۔ لیکن اس سے ان پر کوئی الزام عائد نہیں ہوتا۔ اس زمانہ کی چال یہی تھی اور ملک کا مذاق ہی ایسا تھا۔ آزاد مرحوم نے بے شک چھاتی پر سل رکھ کر یہ سطریں لکھی ہوں گی،

    ’’دوسرے وہ عالی دماغ جو فکر کے دخان سے ایجاد کی ہوائیں اڑائیں گے اور برج آتش بازی کی طرح اس سے رتبہ عالی پائیں گے، انہوں نے اس ہوا سے بڑے کام لئے مگر یہ غضب کیا کہ گرد و پیش جو وسعت بے انتہا پڑی تھی اس میں سے کسی جانب میں نہ گئے، بالاخانوں میں سے بالا بالا اڑ گئے۔‘‘ 4

    جس شاعری کی یہ بساط ہو کہ محض خیال بندی اور قافیہ پیمائی سے شروع ہو کر اسی پر اس کا خاتمہ ہو جائے۔ یعنی غزل اور غزل کی ہر بیت بجائے خود ایک قائم بالذات نظم۔ مطلع میں رستم سے کشتی لڑ رہے ہیں، حسن مطلع میں موت کا فرشتہ شاعر کی روح قبض کرنے آتا ہے لیکن آپ اتنے نحیف اور ضعیف ہیں کہ اسے دکھائی ہی نہیں دیتے اور وہ خالی کا خالی چلا جاتا ہے، اگلے شعر میں آپ کا جنازہ اٹھتا ہے اور آپ شرمسار ہیں کہ نازنین معشوق کو چالیس قدم ساتھ چلنے کی اذیت ہوئی، اس سے اگلے شعر میں آپ ساغر اور پیمانہ پٹک کر مٹکا ہی منہ سے لگا کر شراب پی رہے ہیں اور آگے چل کر آپ کا اپنے محبوب سے اختلاط ہو رہا ہے۔ مقطع میں آپ میں اور آپ کے خدا میں نام کو فرق اور امتیاز نہ رہا۔ یہ گڑبڑ جھالا ایران سے ہندوستان میں آئی اور یہاں اسے اور بھی بگاڑ دیا گیا۔

    مختصر یہ کہ غزل کیا ہے؟ چند قوافی کا خوش اسلوبی سے نباہ۔ قصیدہ کیا ہے؟ مبالغہ کا قطب مینار۔ جس میں شعرگوئی کی یہ کائنات اور غرض و غائت ہو اسے شاعری کہنا ہی معقولیت سے خارج ہے۔ اول تو انہوں نے یا کسی اچھے شاعر نے کوئی قاعدے شعر کے، فن یا متروکات کے کبھی وضع کئے ہی نہیں۔ یہاں یہ ذکر کرنا بر محل ہوگا کہ کسی زبان میں اچھے شاعروں نے شاعری کے قاعدے نہیں باندھے اور اگر اس کے خلاف ہوا ہے تو النادر کا لمعدوم کی مصداق ہے۔

    خیر اردو کے ان استادوں کے کلام یا ان کی اصلاحوں سے لوگوں نے بالواسطہ کچھ باتیں استنباط کر کے ان کا نام قاعدہ اور ضابطہ رکھ لیا۔ بہر حال آج کل کے زمانہ اور موجودہ صورتوں میں نہ وہ قاعدے جوں کے توں واجب التعمیل ہیں اور نہ ان کے وضع کرنے والے یہ اہلیت رکھتے تھے۔ ان کا اطلاق زیادہ سے زیادہ پرانی چال کی عاشقانہ شاعری پر ہو سکتا ہے۔ دوسرں پر کہئے نیچرل شاعری پر لازم نہیں آتا کہ وہ بھی ان الفاظ اور ترکیبوں کے استعمال سے محترز رہیں۔ محض اس بنا پرفلاں استاد نے ایسا کیا وہ دہلی کی سادہ کاری ہو یا لکھنؤ کی مرصع سازی یا پنجاب کی ہفت پروازی، غزل کی شاعری کے متعلق متروکات کے لے جتنی جی چاہے بڑھاتے جائیے، لیکن یہ قیدیں نیچرل شاعری پر عاید نہیں ہو سکتیں۔

    حالی مرحوم کا تقریباً وہ تمام کلام جو مسدس کی تصنیف کے بعد موزوں ہوا، حضرات صفی، چکبست، سرور مرحوم اور اقبال کی اکثر اور بیشتر نظمیں اور اسی قبیل سے اردو کے اکثر اچھے شعرا کا کلام ’’تنگنائے غزل‘‘ سے پرے پرے جاتا ہے۔ جب آپ معشوق سے باتیں کریں گے یا اس کا ذکر تو بے شک چھوٹے چھوٹے سہانے لفظ نازک اسلوب اور میٹھی بولی میں گفتگو ہوگی لیکن جب زندگی کے جید مسائل اور حقیقت اور انسانی جذبات کے شدید موضوعات پر لکھنے بیٹھیں گے تو سخن کا طرز اور ہوگا۔ غرض کہ خیال کی شاعری کام کی شاعری سے جداگانہ ہے۔ اس کے قاعدے اور ضابطے بھی جداگانہ ہونے چاہئیں اور ان کے وضع کرنے والے بھی۔

    ان وجوہ سے میں یہ عرض کرنے کی جرات کرتا ہوں کہ وہ قاعدے جو اب تک نظم کے لئے باندھے گئے ہیں اور الفاظ اور ترکیبیں جنہیں ترک کر دیا گیا ہے ان سب کی نظر ثانی اور ترمیم کی ضرورت ہے۔ جبھی تو ہم دیکھتے ہیں کہ کئی لفظ تیس چالیس سال متروک رہنے کے بعد اب پھر زبان میں داخل ہو گئے ہیں جیسے سو۔ خیر یہ بات تو دور کی ہے، نہ اب تک کسی کے ذہن میں آئی، نہ اب سے پہلے کبھی اس سے بحث ہوئی۔ غزل ہی کولیں تو ظاہر ہوگا کہ جو الفاظ وجوباً یا ترجیحا ًمتروک بتائے جاتے ہیں ان کے ساتھ غز ل کے نامی شاعراور دوسرے شعرا کا کیا عمل ہے؟

    آئندہ مندرجات کے متعلق راقم نے یہ التزام کیا ہے کہ داغ اور امیر کو ایک حد قائم کر کے دکھایا گیا ہے کہ انہوں نے ایک لفظ جسے متروک کہا جاتا ہے استعمال کیا یا نہیں اور یہ کہ ان کی وفات سے آج تک مشاہیر شعرا کا کیا سلوک اس لفظ کے ساتھ رہا ہے۔ اس زمرہ کے اکثر شعرا اس وقت موجود ہیں اور اردو دنیا میں عزت کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔

    اب میں چند ایسے الفاظ سے بحث کروں گا جنہیں متروک ٹھہرا یا جاتا ہے۔ استعمال کے ثبوت میں اساتذہ اور مشاہیر شعرا کے تازہ ترین کلام سے جو دستیاب ہو سکا، اشعار نقل کئے گئے ہیں۔ داغؔ کے تمام اشعار مہتاب سے، امیر کے صنم خانہ سے، جلال کے نظم نگارین سے اور جلیل کے جان سخن اور تاج سخن سے لئے گئے ہیں اورمیرے علم میں ان اصحاب کے یہ سب سے آخری مطبوعہ دیوان ہیں۔ اور حضر ت جلیل کے دونوں دیوان کی عمر دس بارہ برس سے زیادہ نہیں۔ ان شعرا کے کلام کی طرف اس مضمون میں جہاں کہیں اشارہ کیا گیا ہے وہاں ان کی انہیں کتابوں سے مطلب ہے، جن کا ذکر ابھی کیا گیا۔ دوسرے شاعروں کا کلام جہاں تک ممکن ہوا ہے، معتبر کتابوں اور رسالوں سے لیا گیا ہے۔ ناظرین کی آسانی کے لئے ان کی ایک فہرست ذیل میں درج کی جاتی ہے۔

    ابر ؔمرحوم۔ آنریبل پنڈت بشن نرائن در صاحب لکھنوی، بیرسٹرائٹ لا۔
    ابرؔ مقلد میر و غالب جناب حکیم سید علی حسن صاحب لکھنوی
    اقبال۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال۔ ایم اے، پی ایچ ڈی بیرسٹرائٹ لا سیالکوٹی
    اکبرؔ۔ جناب سید اکبر حسین صاحب الہ آبادی مرحوم
    امیرؔ۔ جناب منشی امیر احمد صاحب مینائی لکھنوی مرحوم
    باسط۔ جناب سید محمد باسط علی صاحب بسوانی 
    برق۔ جناب منشی جوالا پرشاد صاحب بی اے لکھنوی۔ سشن جج اودھ مرحوم
    برقؔ۔ جناب منشی مہاراج بہادر دہلوی، منشی فاضل بی اے۔
    برہمؔ۔ جناب حکیم عبد الکریم صاحب گورکھپوری، ایڈیٹر مشرق و فتنہ وغیرہ
    بلیغؔ۔ جناب نواب سید عسکری مرزا صاحب لکھنوی
    بیخودؔ۔ جناب منشی سید وحید الدین صاحب دہلوی
    جلالؔ۔ جناب حکیم سید ضامن علی صاحب لکھنوی مرحوم
    جلیلؔ۔ جلیل القدر فصاحت جنگ جناب حافظ جلیل حسن صاحب مانکپوری
    چکبست۔ جناب پنڈت برج نرائن صاحب چکبست بی اے ایل ایل بی وکیل ہائی کورٹ لکھنوی
    حسرت۔ جناب مولانا سید فضل الحسن صاحب موہانی بے اے ایڈیٹر اردو ے معلیٰ
    داغ۔ فصیح الملک، دبیر الدولہ ناظم یار جنگ، نواب مرزا خاں صاحب دہلوی مرحوم۔
    راسخؔ۔ جناب مولوی سید عبد الرحمان صاحب دہلوی مرحوم
    ریاضؔ۔ جناب سید ریاض احمد صاحب خیر آبادی
    زکیؔ۔ جناب مولانا سید زکریا خاں صاحب دہلوی مرحوم
    سائلؔ۔ جناب نواب سراج الدین احمد خاں صاحب دہلوی
    سرورؔ۔ جناب منشی درگا سہائے صاحب جہاں آبادی مرحوم
    سلیمؔ۔ جناب مولانا وحید الدین صاحب پانی پتی۔ پروفیسر عثمانیہ یونیورسٹی
    شادؔ۔ یمین الملک مہاراجہ سرکشن پرشاد صاحب حیدر آبادی
    شاد۔ خان بہادر جناب مولوی سید علی محمد صاحب عظیم آبادی
    شاعرؔ۔ افسر الشعرا جناب آغا شاعر صاحب دہلوی۔ شاعر دربار جھالاواڑ
    شوقؔ۔ جناب منشی احمد علی صاحب قدوائی لکھنوی مرحوم
    صفدر۔ جناب مولوی صفدر علی صاحب مرزا پوری
    صفیؔ۔ جنا ب مولانا سید علی نقی صاحب لکھنوی
    ضامنؔ۔ جناب مولوی مرزا محمد ہادی صاحب لکھنوی
    ظہیر۔ جناب مولانا سید ظہیر الدین حسین صاحب دہلوی مرحوم
    عزیز۔ جناب مولوی مرزا محمد ہادی صاحب لکھنوی
    محروم۔ جناب حکیم اسد علی خاں صاحب دہلوی
    نادرؔ۔ جناب مولوی نادر علی خاں صاحب کاکوری مرحوم
    نظرؔ۔ جناب منشی نوبت رائے صاحب لکھنوی مرحوم
    نظمؔ۔ نواب حیدر یار جنگ جناب مولانا علی حیدر صاحب طبا طبائی لکھنوی
    وحشت۔ جناب سید رضا علی صاحب کلکتوی
    یاسؔ۔ جناب مرزا واجد حسین صاحب عظیم آبادی

    پہ بمعنی پر، حضرت شوق نے اسے اپنی متروکات کی فہرست میں نہیں شامل کیا۔

    حضرت عشرت لکھنوی نے اس کا ذکر کیا ہے۔ فرماتے ہیں، ’’پہ کا استعمال اب اکثر فصحا نے ترک کر دیا ہے۔ اس کے بدلے پر بولتے ہیں۔ آخر میں داغؔ و جلالؔ نے بھی ترک کر دیا۔‘‘ صاحب نور اللغات اس لفظ کی نسبت یہ لکھتے ہیں کہ ’’بعض فصحا نے اس کا استعمال نثر اور بول چال میں ترک کر دیا ہے۔‘‘ اس بات میں راقم کے خیال میں حضرت عشرت کے مقابلہ میں نور اللغات کا قول زیادہ معتبر ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ نظم میں یہ کلمہ متروک نہیں۔ اکثر شعرا کے کلام سے بھی ایسا ہی پایا جاتا ہے۔ خود داغ اور جلال ؔ کے یہاں یہ لفظ موجود ہے۔

    داغؔ
    کاش تو گور غریباں پہ نہ مضطر پھرتا
    صبر سے ناز سے تمکین سے ٹھہر کر پھرتا

    دیکھو دیکھو مجھ پہ برساتے رہو تیر نگاہ
    صید جس دم آنکھ سے اوجھل ہوا جاتا رہا

    دل کو لے لیتے ہیں در پردہ وہ عیاری سے
     چر یاروں پہ جو کھل جائے تو پھر گھات ہی کیا

    امیرؔ
    کیوں مرے سر پہ نہ ہو لغزش پا کا احساں
    ہاتھ پڑ جائے تو بیساختہ اس شانے پر

    در کار ہے بہانہ پے مغفرت امیر
    تقویٰ پہ منحصر ہے نہ صوم و صلوت پر

    ظہیرؔ
    کسی کو غرض کہ دل کی مصیبت پہ جی جلائے
    اپنی خوشی کسی پہ اگر آئے آئے دل

    شاد عظیم آبادی
    ان محنتوں پہ بھی یہ میرا ہو رہا تھا حال
    لڑکوں کی بھی سند تھی پہ میں غیر مستند

    نظم
    کیوں تن آسانی پہ مائل ہوگئے
    جو فضائل تھے رذائل ہوگئے

    دامن ہستی پہ تھیں داغ سیاہ
    مٹ گئیں اس طرح جیسے دھو گئیں

    جلیلؔ
    میرے زخموں پہ چھڑک کر وہ نمک کہتے ہیں
    وہ تھا تلوار کا جوہر یہ ہے جوہر اپنا

    بیخودؔ
    کیوں الجھتے ہو ہر ایک بات پہ بیخود ان سے
    تم بھی نادان بنے جاتے ہو نادان کے ساتھ

    حصر کعبہ پہ کیا ہے دیر سہی
    حج کا موسم نہیں تو سیر سہی

    سائلؔ
    منہ پہ ملتا ہوں تری خاک قدم رو رو کر 
    کرنا پڑتا ہے وضو کر کے تیمم مجھ کو

    برقؔ لکھنوی
    گھونگٹ اک ناز سے نکالے
    سہرا پھولوں کا منہ پہ ڈالے

    چرخ چارم پہ ہے نمایاں
    فیاض زماں مسیح دوراں

    سید ابرؔ
    غور سے جب کسی دیوانہ کی حالت دیکھی
    دل پہ اک چوٹ لگی ہائے میں وحشی نہ ہوا

    صفیؔ
    حسن رسوا ہو دل اس بات پہ راضی نہ ہوا
    اک نظر دیکھ لیا اس کو جو کوئی نہ ہوا

    عزیزؔ
    طبقہ گور غریباں پہ ذرا یوں نہ چلو
    اک قیامت ہوئی یہ زور جوانی نہ ہوا

    میں نے مجموعہ جذبات پہ کی جب کہ نظر
    تیری تاثیر تھی اے جلوہ جانا نہ جدا

    وحشتؔ
    تیری رعنائی قامت کا بھلا کیا کہنا
    ایسے مصرعہ پہ تو استاد ازل صاد کرے

    چکبستؔ
    موت کے رنگ سے مٹتا ہے کہیں رنگ شباب
    سرد ہونٹوں پہ جوانی کی ہنسی آتی ہے

    سرورؔ
    جس پہ اتراتی ہے اب تک آہ تیری خاک پاک
    دفن ہے زیر زمیں یہ کون فخر روزگار

    مضطر
    ترے وعدہ پہ مرتا ہوں قیامت کے لئے ظالم
    کوئی تہمت لگا مجھ پر کوئی طوفان پیدا کر

    برق دہلوی
    گر مجھ سے تیرا دل نہیں ملتا نہیں سہی
    تو جس پہ جان دیتا ہے کر اس کی دلدہی

    باسط
    آئینہ زانو پہ رکھا جب وفور جوش میں
    ماہ کامل کو لیے بیٹھا تھا میں آغوش میں

    سلیمؔ
    ہیں تیری شمع حسن پہ پروانہ اس لئے
    شعلوں سے کھیلتے ہیں تری انجمن میں ہم

    راسخؔ
    اس پہ عاشق ہیں نگہ باز ہیں راسخ ہم بھی
    دیکھ لیں گے نہ دکھائے رخ روشن سہرا

    میں نہیں جانتا وہ کون سے فصحا ہیں اور کہاں رہتے ہیں جنہوں نے بقول جناب عشرت پہ بمعنی پر اب ترک کر دیا ہے۔ جن شاعروں کے کلام سے ابھی اقتباس کیا گیا ہے وہ بے شک فصیح سمجھے جاتے ہیں اور ان میں سے اکثر اس وقت بفضلہ موجود ہیں۔ حضرت عشرت کو اس قسم کے اجتہاد سے آئندہ احتیاط چاہئے۔ اب رہا نور اللغات کاقول۔ اس مضمون میں ہمارا روے سخن اردو کی نظم کی طرف ہے۔ بول چال کا جو اس میں ذکر آیا ہے سو بول چال کی کوئی سند نہیں۔

    جلال ؔ مرحوم کے ہاں ان کے چوتھے دیوان نظم نگارین میں بے شک یہ لفظ نہیں آیا۔ اس کے بدلے ہر جگہ انہوں نے پر ہی لکھا ہے۔ لیکن بوجہ ادغام کے جو انہیں اکثر و بیشتر موقعوں پرکرنا پڑا ہے۔ بیسوں جگہ ’’پر آیا‘‘ کا پر ایا وغیرہ شکلیں پیدا ہو گئیں۔ اس سے تو کہیں بہتر تھا کہ وہ پہ ہی استعمال کرتے۔ اس کے علاوہ متروکات کے باب میں جناب جلال کو سند پیش کرنا شاید ٹھیک نہ ہوگا کیونکہ ان کے ہاں بہت سے قدیم اورمسلمہ متروکات موجود ہیں جیسے انکھڑیاں، اسی دیوان میں فرماتے ہیں،

    اپنی شوخ انکھڑیوں میں کچھ توحجاب آنے دو
    راہ پر آئیں جو یہ خانہ خراب آنے دو

    اس کے علاوہ چٹیلا، بے مرمٹے نہ جائے، بہ سہل، پری گات، رسوا کن و غماز، جانی بن ٹھن رہنا، پیش اہل مذاق، جاویداں، نڈری، نفس چند کے مہماں، گہ، پھبن کی تذکیر وغیرہ الفاظ اورترکیبیں ان کے ہاں کثرت سے موجود ہیں۔ میں یہ ضرور کہوں گا کہ بعض امور کا لحاظ انہوں نے بہت کیا ہے چنانچہ ان کے ہاں کہیں خود رفتہ نہیں آیا۔ ہر جگہ بڑے جد و جہد سے از خود رفتہ اور از خود رفتگی ہی لائے ہیں۔ حکیم صاحب مغفور کے مداح آزردہ ہوں گے ورنہ یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ چند فارسی اور بعض اردو ’’متروکات‘‘ سے بچنے مین ان کا ذہن اتنا صرف ہو گیا کہ ان کے کلام میں تخیل شاعرانہ کا اتنا نشان بھی نہیں ملتا جتنا بے چاری غزل کے لئے ضروری سمجھا گیا ہے۔

    پر بمعنی مگر یالیکن
    حضرت شوقؔ لکھتے ہیں، ’’پر بمعنی لیکن بعض فصحا نے ترک کر دیا ہے۔‘‘ معلوم نہیں وہ بعض فصحا کون سے ہیں جنہوں نے یہ لفظ متروک قرار دیا۔ جناب عشرت لکھتے ہیں، ’’آخر میں داغ و جلال نے بھی ترک کر دیا تھا۔‘‘ جلال کی متروکات کی نسبت اوپر کچھ ذکر آ گیا ہے۔ داغ کے اخیری دیوان میں ایسے بہت سے لفظ اور ترکیبیں موجود ہیں جنہیں متروک بتایا جاتا ہے۔ مثلا سو، ساقیا، گلابی پوش، وہ ہی، بسا غنیمت، تا بہ حشر، دستگہ، روسیہ، سدا، دیجے بجائے دیجئے وغیرہ۔ اس لئے اس بات میں نہ جلال کی سند مسلم ہو سکتی ہے نہ داغ کی۔ نورا للغات شوق کا ہمنوا ہے۔ چونکہ اس معنی کا حامل اور کوئی لفظ اتنا مختصر نہیں ہے اس لئے اگر اسے صرف عشقیہ غزل کے متعلق متروک سمجھا جائے تو مضائقہ نہ ہوگا، مگر نظموں میں یا نیچرل مضمون کی غزلوں میں ہرگز ایسا نہ ہونا چاہئے۔ اس لفظ میں نہ کوئی ثقالت ہے، نہ ذم کا پہلو اور پھر اتنا مختصر۔ کوئی وجہ نہیں کہ اسے ترک کیا جائے۔ چند فصحا کے کلام سے استفادہ کیا جاتا ہے،

    امیرؔ
    سیہ کاری سے جی بھرتا نہیں پر شرم آتی ہے
    کہاں تک بوجھ رکھئے کاتب اعمال کے سر پر

    لگایا تو گلے سے پر لگائی تیغ بھی آ کے
    ملا تو عید کے دن وہ مگر چیں بہ جبیں ہو کر

    اس قدر ہے دراز ہجر کی رات 
    پر تڑپنے سے جی نہیں بھرتا

     نظرؔ
    نظر ہم کو علاقہ شعر سے کیا پر یہ حسرت ہے
    نہ رہتے ہم تو اپنا ذکر اس محفل میں رہ جاتا

    صفیؔ
    لب پر ایک موج تبسم ہاتھ میں ہلکی سی تیغ
    نیم بسمل سیکڑوں پر نیم جاں کوئی نہیں

    ابر مرحوم
    جو نازک طبع ہیں مٹ جاتے ہیں پر اف نہیں کرتے
    شکست رنگ گل کی کب صدا آتی ہے گلشن میں

    برقؔ لکھنوی
    ہر اک کا جدا ہے رنگ و روغن 
    پر سبزہ پہ ہے بلا کا جوبن

    بظاہر یہ پایا جاتا ہے کہ پر کلمہ استثنا کے معنی میں متروکات دہلی میں سے ہے۔

    گر بجائے اگر
    شوقؔ لکھتے ہیں، ’’گر بجائے اگر بعضوں نے وجوباً ترک کر دیا ہے۔‘‘ عشرت نے اس لفظ کو متروکات میں نہیں لیا۔ نور اللغات اردو نثر میں متروک اور نظم میں اگر کو فصیح قرار دیتا ہے۔ اس کی نسبت بھی میرا وہی قول ہے جو پر کی نسبت آ چکا ہے۔ اب شعرا کا قول سنئے،

    داغؔ
    فتنہ سازی بھی مرے دل کی قیامت ہوتی
    گر ترے کوچے کی مٹی سے بنایا جاتا

    اے واعظ اس کا ڈر ہے کہ آئے نہ آئے راس
    گر بادہ طہور مرے حق میں سم ہوا

    امیرؔ
    کرتے تو ہو سوال امیر اس سے حشر میں
    اور اس کو گر جواب نہ آیا تو پھر کہو

    بیخودؔ
    سنوگے اسی طرح گر بن کے پتھر
    نہ میں کہہ سکوں گا نہ تم سن سکو گے

    جلیلؔ
    یہی عالم ہے گر جوش جنوں میں خاک اڑانے کا
    زمیں بھی سر پہ اک دن آ رہے گی آسمان ہو کر 5

    نظرؔ
    نہ دیتا گر سہارا کچھ امید وصل کا طوفان 
    شناور بحر غم کا حسرت ساحل میں رہ جاتا

    محرومؔ
    ہم کو گرہستی جاوید عطا کی تو نے
    اپنے الطاف پہ اک اور اضافہ کر دے

    برق دہلویؔ
    گر اور ہی کسی پہ ترا دل نثار ہے
    دم بھر بھی گر تجھے مرے ملنے سے عار ہے

    (مثنوی)

    صفدرؔ
    وزیر اس وقت گر ہوتے تو ان سے پوچھتے ہم بھی
    لیا ملک معانی کس نے شاہ شاعراں ہو کر

    راسخؔ
    گر مال طلب کروں تو کتنا چاہو
    کیا مجھ پہ بنی ہے کیوں یہ فتنہ چاہو

    نظمؔ
    الٹ جانے کی شایاں گر زمیں ہے
    تو پھٹ پڑنے کے قابل آسماں ہے

    تلک
    جناب شوق کے قول کے مطابق، ’’اکثر خواص نے ترک کر دیا ہے۔‘‘ اور یہ امر واقعہ ہے کہ ایسا ہوا ہے۔ جناب عشرت کی متروکی فہرست میں یہ لفظ شامل نہیں۔

    بقول نور اللغات، ’’خاص خاص شعرا نے ترک کر دیا ہے۔‘‘ معلوم یہ ہوتا ہے کہ 1887ء کے بعد یہ لفظ پھر تناسخ پذیر ہو گیا اور صرف خاص خاص شعرا ہی اسے مردہ سمجھتے رہے۔ لیکن موجودہ شاعروں کا کلام دیکھنے سے پایا جاتا ہے کہ غالباً اس خوف سے کہ مبادا تنقید کے توپ خانہ کا منہ ان کی طرف موڑ دیا جائے، اول صف کے اکثر شاعر اس کے استعمال سے پرہیز کرتے ہیں۔ جو عہد متروکات کے باب میں تعین کر چکا ہوں، اس میں اس کے استعمال کی مجھے صرف تین نظیریں ملیں۔

     بعض الفاظ خواہ مخواہ مرعوب ہو کر بھی ترک کر دیے جاتے ہیں۔ اگر یہ لفظ ترک کر دینے کے قابل ہے تو اس کی وجہ کیوں نہیں بتائی جاتی۔ مانا کہ تک اس کا مرادف اور اس سے مختصر لفظ موجود ہے مگر جب نظم میں قافیہ کی قید لازمی ہے تو ملک اور فلک کا ایسا بولتا ہوا قافیہ لغات سے کیوں خارج کیا جاتا ہے۔ اگر امیرؔ مرحوم فصاحت کے باب میں خصوصیت رکھتے تھے تو سنئے وہ کیا کہتے ہیں۔

    امیرؔ
    دھوم کرنا ہے تو اے وحشت تو خاطر خواہ کر
    شہر گردی کب تلک صحرا سے بھی کچھ راہ کر

    کعبہ نہ جائے جو وہ نہ پہنچے خدا تلک
    زاہد خدا کے گھر کی یہی ایک راہ ہے

    اقبالؔ
    ہمنشیں افسانہ بیداری جمہور چھیڑ
    قصہ خواب آور اسکندر و جم کب تلک

    (کب تلک ردیف)

    معلوم ہوتاہے کہ تلک کا ترک دہلی کے اجتہادات میں سے ہے۔ نہ داغؔ کے ہاں آیا اور نہ دوسرے مشاہیر کے ہاں ملا۔ لکھنو بھی اس سے محترز ہو چلا ہے۔ بہر حال غزل کے متعلق راقم کو اس لفظ کی حمایت میں اصرار نہیں۔

    یاں واں
    بقول شوق محض غیر فصیح ہے اور اکثر شعرا نے ترک کر دیا ہے۔ قرار نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ نور اللغات کے ارشاد کے بموجب، ’’فصحائے دہلی استعمال کرتے ہیں، لکھنو کے بعض شعرا احتراز کرتے ہیں۔‘‘ لیکن تحقیق کا نتیجہ اس کے برعکس ہے۔ داغ کے ہاں یہ لفظ کہیں نہیں آیا۔ نہ مشاہیر دہلی کے کلام میں دیکھا گیا۔ ہاں لکھنؤ اور اس کے توابعات میں اس کا استعمال کم و بیش پایا جاتا ہے۔ جس لفظ کو امیر آخر تک استعمال کرتے رہے اور جلیلؔ اور چکبستؔ اب تک کر رہے ہیں، وہ بقول شوقؔ غیر فصیح کیسے ہو سکتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ وہ شوق کا اجتہاد اس بات میں دیکھ چکے تھے۔

    امیرؔ
    کسی پہ زخم پڑ ایاں جگر پہ آئی چوٹ
    بھلا ہو زخم کا اپنی ہوئی پرائی چوٹ

    مجھ سے ہو سکتا کہ دیتا بازوئے قاتل کو رنج
    واں ہوئی ابرو کو جنبش یاں بدن پہ سر نہ تھا

    جلیلؔ
    وعدے پہ نہ یاں آنا وعدہ نہ وفا کرنا
    آنا تو الگ رہنا کرنا تو جفا کرنا

    واعظ کی کیا مجال جو مستوں میں آ سکے
    یاں ہوش کا گذر نہ کسی ہوشیار کا

    چکبستؔ
    سنتے ہیں انہیں کے لئے ہے کوثر و تسنیم
    یاں جو رہ مولا میں لٹاتے ہیں زر و سیم

    یاسؔ
    رہائی کا خیال خام ہے یاں کان بجتے ہیں
    اسیرو بیٹھے کیا ہو گوش بر آواز در ہو کر

    ہوا کا دخل نہیں یاں وہاں ہوا کا عمل
    قفس کی سست بنا ہے کہ آشیانے کی

    بلیغؔ
    تم گھر گئے یاں دل میں اٹھا درد قضاآئی
    کیا پوچھتے ہو حال عدم کی سفری کا

    عالم نزع میں اٹھوائے گئے ہم واں سے
    ہائے کس وقت ہوا ہے در جانا نہ جدا

    حسرتؔ
    نکلا جو واں سے پھر نہ فراغت ہوئی نصیب
    آسودگی کی جان تری انجمن میں ہے

    ہوں دولت وحشمت پر ارباب ہوس ناداں
    یاں بے سر و سامانی سامان محبت ہے

    ضامنؔ
    اس کی جمعہ کی کل غنیمت
    واں ہوتی تھی زیب خواں نعمت

    الف ندا کا اختلاط منادی کے ساتھ
    بقول شوق، ’’اب غیر فصیح ٹھہرا ہوا ہے۔‘‘ تعجب ہے کہ مہتاب اور صنم خانہ میں یہ ترکیب کیوں فصیح سمجھی گئی۔ شوقؔ کے یہ لفظ 1887ء سے آج تک کئی بار چھپ چکے ہیں مگر فصحا اور شعرا نے دلا تو ترک کر دیا لیکن ساقیا زاہدا وغیرہ اب تک برابر لکھ رہے ہیں۔ یہ ترکیب مع خوشا کے (جلال ’’خوشا نصیب اس کے‘‘ ایسی ترکیبیں بہت استعمال کرتے ہیں) وجوباً ترک کر دینی چاہئے۔

    ارفع کے وزن پر یعنی اُر۔ اَور کے بدلے، حضرت شوقؔ لکھتے ہیں بعض فصحا واؤ نہیں گراتے۔ جناب عشرت کے رسالہ میں یہ لفظ نہیں آیا۔ قرار صاحب نے بھی اسے چھوڑ دیا ہے۔ نور اللغات میں اسے متروکات کی فہرست میں شامل نہیں کیا گیا۔ راقم کی رائے ہے کہ غزل میں یہ لفظ غور کے وزن پر ہی استعمال کرنا بہتر ہے۔ داغؔ، جلالؔ اور جلیلؔ نے یہ لفظ بروزن فع استعمال نہیں کیا۔ عزیز ؔ، سرور، ؔشوق قدوائیؔ، برق لکھنوی، وحشت، نظمؔ اور نادرکے ہاں کہیں نہیں آیا۔ 6 غزل کے شاعروں نے خوب کیا کہ اسے ترک کر دیا۔

    چکھا، رکھا، لکھا، اٹھا، جناب شوقؔ فرماتے ہیں، ’’دوسرے حرف کی تشدید کے ساتھ فصیح ہے۔ تحتی نوٹ میں لکھتے ہیں، ’’حتی الوسع بالتشدید ہی استعمال کرنا چاہئے مگر بضرورت بالتخفیف بھی بے تکلف استعمال کرسکتے ہیں کیونکہ تلک اور سدا کی طرح یہ متروک نہیں۔‘‘ بارے 7 اصول نہیں تو اصول کی پرچھائیں ہی سہی، کچھ تو پتہ چلا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ضرورت کی شرط اور متروکات سے وابستہ کیوں نہ ہو۔ کیا وجہ ہے کہ تکلف اور سدا ضرورت پر بے تکلف استعمال نہ کئے جائیں؟ جناب قرار کی فہرست میں صرف رکھا ہی ہے۔ راقم کا قول یہ ہے کہ غزل میں ان تینوں لفظوں کا ک تشدید بغیر آنا وجوباً متروک قرار دینا چاہئے۔

    میں نے ایک اور چوتھا لفظ بھی لکھ دیا یعنی اٹھا۔ اس کے ماضی مطلق واحد کے صیغے میں ٹ پر وجوباً تشدید لانی چاہئے تاکہ امر کے و احد حاضر صیغہ اور اسی طرح فعل کے دوسرے صیغوں کا آپس میں التباس بالکل نہ رہے۔ ذیل کے شعرا کا کلام دیکھ کر جن کی فصیح بیانی کے سب قائل ہیں، یہ شبہ ہوتا ہے کہ وہ بزرگ ان ’’تارکان ادب‘‘ کے اجتہاد کو نہیں مانتے جس کا سبب غالباً انہیں کی نازک مزاجی ہوئی۔ جب ترک کی لے بے حد بڑھی تو شاعروں نے ان ’تارکان ادب‘ کو نظر انداز کر دیا۔

    داغؔ
    روزہ رکھیں نماز پڑھیں حج ادا کریں
    اللہ یہ ثواب بھی ہے کس عذاب کا

    لڑیں گے وہ حوروں سے فردوس میں
    یہ فتنہ اٹھے گا قیامت کے بعد

    لکھا ہے داغؔ نے اس کا یہ مصرعہ تاریخ
    ہزاورں سال مبارک یہ جشن سالگرہ

    امیرؔ
    ضبط کرتے ہی اثر نالوں کا ظاہر ہو گیا
    بول اٹھے گھبرا کے ہے ہے لو وہ آخر ہو گیا

    خط طویل یار کو میں نے لکھا مگر
    مطلب کو دیکھئے تو کہیں کچھ پتہ نہیں

    جلالؔ
    بے تمہارے یہ رہی شکل نشست و برخاست
    بیٹھے دل ہو کے اٹھے درد جگر کی صورت

    تقدیر کا لکھا اسے کہتا ہے نامہ بر
    خط آئے غیر کا مرے خط کے جواب میں

    ریاضؔ
    ریاض اب کیا کریں قصد اس شہر جانے کا
    نصیبوں میں لکھا ہے خاک گورکھپور ہو جانا

    جلیلؔ
    دل چیخ اٹھا خیال جو ابرو کا آگیا
    خنجر لگا گیا کوئی خنجر لگا گیا

    لکھا ہے شان میں اس کی جو مہر برج شاہی ہے
    چمک جائے نہ کیوں اس بندہ درگاہ کا سہرا

    عزیزؔ
    پردہ اٹھا تو مرجع دل یہ جہان تھا
    شرمندگی ہوئی مجھے اپنے خمیر سے

    مہاراجہ شادؔ
    ہوا جو تاریخ کا میں خواہاں تو 
    بول اٹھا شاد ہو کے شاداں ؔ

    برہمؔ
    میں نے اے برہمؔ لکھا 
    ترتیب دیواں کا یہ سال

    برقؔ لکھنوی
    مرغان چمن چمک اٹھو تم 
    گلہائے چمن مہک اٹھو تم

    لیجے دیجے بجائے لیجئے، دیجئے، جناب شوقؔ لکھتے ہیں، ’’ایک ی گرانا اور بر وزن فعلن استعمال کرنا غیرفصیح ٹھہرا ہوا ہے۔‘‘ نور اللغات شوق کاہم زبان ہے۔ عشرت اور قرار کے ہاں اس کا ذکر نہیں۔ کیا وجوہ لاحق ہوئے کہ فعل کی ان دو شکلوں میں سے ایک کو قطعاً متروک قرار دینے کی ٹھہرائی؟ پایا جاتا ہے کہ یہ لکھنؤ کے متروکات میں سے ہے۔ وہاں معاصرین کے کلام میں ایسے صیغے فعلن کے وزن پر نہیں آتے۔ ہاں دہلی میں یہ شکل اب تک رائج ہے۔

    داغؔ
    وہ خریدار ہی دل کے نہ ہوئے کیا کیجے
    ہم بھی کچھ دبتے کچھ ان کو بھی دبایا جاتا

    میرے ہی ہاتھ سے مشکل میری آساں ہوگی
    مجھ کو دیجے جو نہیں آپ سے خنجر پھرتا

    بیخودؔ
    ناپ لیجے اپنے گیسو کی درازی قد سے آپ
    اب تو یہ فتنہ قیامت کے برابر ہو گیا

    زکیؔ
    دلیل راہ اس کا نقش پا ہے سر فدا کیجے
    طریق عشق میں یہ ارمغاں ہے پہلی منزل کا

    راسخؔ
    ہے توڑ یہ بھوک کاکہ سم کھا لیجے
    ٹھوکر بھی لگے تو ہر قدم کھا لیجے

    سائلؔ
    دونوں جملوں کو جمع کر لیجے
    سن ہجری کی ہو گئی تکمیل

    شاعرؔ
    سر شوریدہ میں وہ بات نہیں پہلی سی
    اب تو وقت آ گیا کیجے بھی سبکدوش مجھے

    بتلانا، دکھلانا وغیرہ، بتلانا، دکھلانا وغیرہ بتانا، دکھانا وغیرہ کی جگہ استعمال کرنا دہلی کے متروکات میں سے معلوم ہوتا ہے۔ اس کی نسبت بھی راقم کی یہ رائے ہے کہ اگر اس کا ترک واجب رکھا جائے تو غزل تک محدود رہے۔

    امیرؔ
    سنتا ہوں محتسب نے کیا میکدہ کو قرق 
    بٹھلا دیا یزید نے پہرا فرات پر

    آنکھ دکھلاتے ہیں وہ دیکھیں گے مجھ کو بیتاب
    یہ نکالا ہے نیا درد جگر کا تعویذ

    جلالؔ
    وہ ٹھکانا تمہیں بتلا دے جہاں رہتاہے
    ہوش میں اپنے زخود رفتہ کو جب لاؤ بھی

    چکبستؔ
    نہ بتلائی کسی نے بھی حقیقت راز ہستی کی 
    بتوں سے جا کے سر پھوڑا بہت دیر برہمن میں

    عزیزؔ
    ایک حالت ہو تو اس منظر کو دکھلائے کوئی
    سیکڑوں دیکھے تماشے اے بلائے نا گہاں

    سدا
    سدا کے خلاف دہلی اور لکھنؤ نے غضب تلوار سوتی ہوئی ہے۔ حضرت اکبر مرحوم اور جناب جلیل کی جوانمردی توصیف کے قابل ہے کہ انہوں نے اس غریب کو اچھوت نہ مانا۔

    اکبرؔ
    صدائے سر مدی سے مست رہتاہوں سدا اکبر
    مجھے نغموں سے کیا مطلب مجھے سر گم سے کیا مطلب

    جلیلؔ
    جلیل سنگ حوادث کا کیا کریں شکوہ
    ہمارے دل نے سدا چوک پر اٹھائی چوک

    یہ سوال نہایت اہم ہے کہ کیوں اس لفظ کو ترک کیا جائے۔ اگر یہ کہا جائے کہ صدا سے التباس نہ ہو، اس غرض سے اس غریب کو اردو کی برادری سے کان پکڑ کر نکال باہر کیا تو میں کہوں گا کہ ہماری زبان میں بہت لفظ ایسے موجود ہیں جو ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں اور وہ بے تکلف استعمال کئے جاتے ہیں۔ مگر حرف استثنا ہے اور ایک دریائی جانور کا نام بھی ہے اور کسی سے سر گوشی کرنے کا امتیاز بھی رکھتا ہے۔ کیوں نہ اس لفظ کو صرف ایک معنی میں استعمال کیا جائے اور باقی دو میں ترک کر دیا جائے۔

    ایک اور لغت صلوات ہے جو دو بالکل متناقص معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ بھاشا کے ایسے بہت لفظ اردو میں موجود ہیں جو سدا اور صدا سے بھی زیادہ متشابہ باہم ہیں۔ کہئے کہ تلفظ اور املا میں عربی یا فارسی الفاظ سے بالکل یکساں ہیں۔ جیسے کالا، مالی، مور، بندر، در وغیرہ۔ کیوں بھاشا لفظ متروک قرار دیا جائے اور عربی فارسی کے نہیں جن کے مترادف اردو میں موجود ہیں۔

    یہ دیکھ کر نہایت تعجب ہوتا ہے کہ ادھر تو ایک لفظ کو اس کے مقدس معنی سے ہٹا کر نہایت مکروہ معنی پہنائے جاتے ہیں اورادھر ایک لفظ کو جس کا ہم وزن ہم معنی میسر نہیں، اس بنا پر ترک کیا جاتا ہے کہ اس کی آواز ایک اور لفظ کی آواز سے ملتی ہے۔ ہمیشہ، دائم، دائما، مدام وغیرہ الفاظ رباعی ہیں بلکہ بعض ان میں سے خماسی بھی۔ جناب جلیلؔ اور جناب اکبر نے بہت معقولیت سے کام لیا کہ انیس اور مومن کے استعمال کی تقلید کی۔ میں ان ’’تارکان ادب‘‘ سے دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا ان کا عندیہ یہ ہے کہ سے، میں، کا جیسے چند روابط گنتی کے مصدروں، دس پانچ اسمائے ذات اور دو چار صفات کے سوا باقی تمام اردو اور سودیشی لفظ زبان سے خارج کر دیے جائیں اور ان کی جگہ عربی اور فارسی، ترکی، مصری، عراقی وغیرہ الفاظ بھرتی کئے جائیں؟ ایسا ہے تو اس کا اعلان ہونا چاہئے تاکہ کوئی دھوکے میں نہ رہے۔

    جن لوگون نے ہندی اور اردو بنائی وہ ایک اور زبان بھی بنا سکتے ہیں۔ اساتذہ اور مشاہیر کے کلام کے اقتباسات سے واضح ہو سکتا ہے کہ اکثر نام کے متروکات کی متروکی حیثیت کہاں تک اسم با مسمیٰ کی شان رکھتی ہے۔ ان ’’تارکان ادب‘‘ نے یہ بھی کیا ہے کہ ایک شاعر نے کوئی غلطی کی یعنی غلط استعمال کیا یا ایک استاد کے باب میں کہہ دیجئے کہ تصرف کیا تو اسے بھی متروکات میں شامل کر کے اپنی فہرست کی طوالت میں اضافہ کر دیا ہے۔ مثلاً حضرت عشرت، خواجہ آتش کے المضاف کو بھی متروکات کی ذیل میں لے آئے ہیں۔ خواجہ مرحوم نے لا علمی سے یا بے خیالی میں المضاف کو غلط باندھ دیا تھا۔

    زہر پرہیز ہوگیا مجھ کو
    درد درماں سے المضاف ہوا

    اسی طرح صاحب نور اللغات نے خواجہ مرحوم کی دوسری غلطی یا ’’تصرف استادانہ‘‘ یا شاعرانہ مجبوری کو جو ’’حلوہ بے دود‘‘ کی شکل میں ظہور پذیرہوئی تھی، متروکات کی فہرست میں رکھ دیا ہے۔ ’’سندیسا‘‘ کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ یہ واقعات طویل استدلال سے مستغنی کر کے یقین دلاتے ہیں کہ ان کی فہم نے ’’متروک‘‘ کی تعریف ہی متروک قرار دے دی ہے۔ غرابت، مخالفت قیاس لغوی، ضعف تالیف وغیرہ کے تحت میں جو ذمائم اور نقائص بیان کئے گئے ہیں، ان سب کومتروکات میں گڈ مڈ کر دینا ایسا کرنے والوں کی علمی استعداد اور فن کی واقفیت کی قلعی کھولتا ہے۔

    متروک کی تعریف یہ قرار دی جا سکتی ہے، ’’متروک وہ لفظ یا ترکیب ہے جو ایک وقت میں ایک زبان میں بغیر کسی قید یا تخصیص کے مستعمل ہو لیکن پھر اس کا استعمال بالکل یا اس کے ایک مختص معنی میں ترک کر دیا گیا ہو۔‘‘

    اس اہم موضوع پر کسی نے تفصیل اور دلائل کے ساتھ بحث تو کی نہیں، ہاں کیاتو یہ کیا کہ اپنے زعم میں جن لفظوں یا صیغوں کو رکیک اور مذموم یا غلط سمجھا، انہیں آنکھ بند کر کے متروکات کی فہرست میں داخل کر دیا۔ لکھنؤ والوں نے دہلی کی خصوصیات کو اور دہلی والوں نے لکھنو کی خصوصیات اور اغلاط کو متروکات کی مثل میں نتھی کر دیا اور سب نے پنجاب کی خصوصیات کو متروکات قرار دے دیا۔ اردو کے متروکات اور مترادف کی تعریف ہر ایک کے ذہن سے پرے ہی پرے رہی۔ اور یہ بھی ہوا کہ ایک جگہ کے مستقل متروک کی پروا اس شخص نے جو وہاں سے ادبی واسطہ نہیں رکھتا تھا مطلق نہ کی۔

    مثلا آگے ذکر آ چکا ہے کہ صاحب نور اللغات نے اپنے ہاں متروکات کی فہرست کو فضول طول دیا ہے لیکن اس پر بھی وہ فہرست مکمل نہیں۔ جاننا چاہئے کہ دہلی کے فصحا میں ’’دکھنا‘‘ متروک اور غیر فصیح ہے اور اس کے بدلے ’’دکھائی دینا‘‘ کہتے ہیں۔ اگر چہ میں اس ترک کے خلاف ہوں کیونکہ مجھے کوئی برہان ناطق نظر نہیں آتی کہ کیوں کہ ایک چار حرف کا لفظ ترک کر کے اس کی جگہ نو حرف کا لفظ وجوباً استعمال کیا جائے۔ میرے ہاں یہ لفظ ایک جگہ آ گیا تھا۔ احباب نے ٹوکا میں نے کہا آپ سے نکلے تو نکال دیجئے۔ اس میں وہ سب قاصر رہے۔ آخر وہ اسی طرح قائم رہا۔

    اسی ضمن میں ایک اور لفظ کا تذکرہ ضروری معلوم ہوتا ہے۔ وہ لفظ ہے گیرنا، گیر نا قاعدہ تعدیہ کے عین مطابق گرنا سے بنا۔ جیسے پھرنا سے پھیرنا، مرنا سے مارنا، لٹنا سے لوٹنا، گیرنا پہلے لکھنؤ میں پھر دلی میں متروک ہوا لیکن اگر یہ سوال کیا جائے کہ گیرنا کیوں متروک ہے تو اس کا جواب کہیں سے نہیں ملتا۔ یہاں جو ذکر آ گیا ہے تو میں ایک اصول کی بات بتانا چاہتا ہوں۔

    ہم لوگ یعنی ہندوستان کے ہندو مسلمان خواہ کسی خطے اور حصے میں رہتے ہوں، مذہبی عقیدت اور دینی احکام کی پابندی میں نہایت راسخ اور استوار ہونے کے باوجود تہذیب و اخلاق کے باب میں نہ صرف یقین سے بلکہ عمل سے بھی ضعیف الاعتقاد اور ڈھلمل یقین ہیں۔ شبہ شنکا، شگون بد شگون، سعد و نحس وغیرہ ارکان دین کے ساتھ ساتھ ہمارے دلوں پر مسلط ہیں۔ نذر نیاز، بھینٹ چڑھاوا، سامنے سے چھینک پڑی ابھی مت جاؤ، بلی راستہ کاٹ گئی، کسی سے لڑائی ہوگی، اس طاقچے کو جمعرات کے دن سہرا اور گھی کا دیا چڑھاؤ، اس پیپل کے پیڑ کو پورن ماسی کی رات کو دودھ پلاؤ اور کلاوہ پہناؤ، وہ پیر جی پرانے بخارکا تیر بہدف تعویز دیتے ہیں، سول سرجن ہو جائیں تو ضرور ان پیر جی کو بلائیں گے، وہ بھگت جی تلی کا حکمی جھاڑا کرتے ہیں، کل مسہل ہولے تو جھڑوا لایا کرو۔

    مختصر یہ کہ جب افراد کے مزاج میں سودائیت غلبہ پا جاتی ہے تو نظام اعصابی ماؤف ہو کر ذکی الحس ہو جاتا ہے۔ یعنی ذرا سی سردی یا گرمی سے طبیعت بگڑ جاتی ہے۔ برائے نام تری یا خشکی کی زیادتی بیماری کی صورت پیدا کر دیتی ہے۔ خاص اسباب سے جو کیفیت افراد کی جسمانی صحت میں مریضانہ چڑوندا پن کی شکل میں صورت پذیر ہوتی ہے، ویسی ہی کیفیت انسانوں کی من حیثیت الجماعت ذہنی صحت میں احساس کی مریضانہ شدت کی شکل میں صورت پذیر ہو جاتی ہے، جس کی آئینہ برداران کی زبان ہوا کرتی ہے۔ جنہوں نے علمی اصول پر زبانوں کی تحقیق کی ہے، وہ ایک زبان کی ساخت، اس کے محاوروں، کہاوتوں اور صنائع بدائع سے اس کے استعمال کرنے والوں کے سیر اور تہذیب معاشرت کا مجسمہ تیار کر لیتے ہیں۔

    جبکہ ہماری معاشری اور جماعتی حالت وہ ہے جس کی طرف ابھی اشارہ ہوا تو یہ امر لابد تھا کہ ہماری زبان شکوک اور واہمہ کی زیر مشق ہو۔ جبھی تو آپ دیکھتے ہیں کہ نقائص اور سقائم عیوب اور ذمائم جتنے ہمارے ہاں بتائے جاتے ہیں اس قسم کی کسی اور زبان میں نہیں پائے جاتے۔ ایک ذم کا پہلو ہی ایسا جن ہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے کہ شاید کوئی اس سے بچا ہوگا۔ جو بولو وہی لکھو، نہیں تو فصاحت کی ٹکسال سے باہر۔ یہ کانوں کو بھلا نہیں معلوم ہوتا۔ وہ لفظ اب تک کسی نے استعمال نہیں کیا۔ یہ روز مرہ کے خلاف، وہ محاوروں کی سندکا محتاج وغیرہ وغیرہ۔ ان سب باتوں پر طرہ یہ کہ لے دے کے تین حروف علت۔ تو ہماری زبان کی پونجی مگر وہ بھی منہ کھول کر اپنا نام نہیں بتانے پاتے۔

    کوئی کہتا ہے فارسی الفاظ کا الف گرانا جائز نہیں، کوئی حکم لگاتا ہے کہ الف واؤ یا کسی کا بھی تقطیع سے ساقط ہونا جائز نہیں۔ کوئی فتویٰ دیتاہے کہ واؤ اور ی کا مضائقہ نہیں لیکن الف سالم الصوت اور تقطیع کے اندر رہنا چاہئے۔ یہ شاید اس ادب کے پاس سے کہ رام اور خدا میں یہ حرف آیا ہے اور یہ کسی کی سمجھ میں نہ آیا کہ اردو نظم میں آخر ایسی کیا بات ہے کہ اس غریب تثلیث کی گوشمالی ناگزیر ہے۔ 8

    عرصہ
    ایک صاحب فرماتے ہیں، ’’عرصہ بمعنی مدت آج کل زبانوں پر بہت جاری ہے مگر احتیاط لازم ہے کیونکہ عرصہ بمعنی میدان ہے۔‘‘ محض یہ واقعہ کہ یہ لفظ آج کل اس معنی میں زبانوں پر بہت جاری ہے، اس کے ترک کے خلاف بیٹھتا ہے۔ پھر حرج کیا ہے اگر دونوں معنوں میں استعمال کیا جائے۔ لیکن لکھنے والے نے یہ غلط کہا کہ عرصہ بمعنی مدت آج کل زبانوں پر بہت جاری ہے۔ ہم تو شہنشاہ اورنگ زیب کے زمانہ سے اس لفظ کو اس معنی میں سن رہے ہیں۔ نعمت خاں عالی وقائع اول میں فرما گئے ہیں،

    یکے بشرط کہ فرداست کوچ تا دہلی
    تواں بہ عرصہ چہل روز یاد و ماہ رسید

    عادی
    مشکور یہ بھی ہو رہا ہے کہ عرصہ کی طرح فارسی عربی کے وہ الفاظ جو ابتدا سے اب تک ایک خاص معنی میں مستعمل تھے اب ترک کئے جا رہے ہیں۔ وہ لوگ یہ بھولتے ہیں کہ ایک لفظ کے لغوی معنی کے علاوہ اور معنی بھی ہوا کرتے ہیں اور کہ کلام کی عقلی حقیقت یا عقلی مجاز متکلم کے عندیہ اور اعتقاد پر منحصر ہے۔ جب عادی اور مشکور مدتوں سے عادت گیر ندہ اور احسان مند کے معنی میں استعمال ہو رہا ہے اور متکلم اور سامع دونوں کا ذہن انہیں معنوں کی طرف جاتا ہے تواب قاموس اور صراح سے فتویٰ لے کر ان الفاظ کو اردو سے خارج کرنے میں کیا مصلحت ہے؟ میں کہتا ہوں کہ گلاب کی مانند ان کو بھی مہند کیوں نہ مانا جائے۔ جس طرح گلاب سے گلابی بنا لیتے ہیں اسی طرح مشکور سے مشکوری بنا لیا تو کیا حرج ہو گیا؟ معنی یا املا اور ہجا کی تبدیلی کے ساتھ بے شمار الفاظ مفرس اور معرب ہو گئے ہیں۔ زکی مرحوم فارسی عربی میں مسلمہ قابلیت رکھتے تھے اور مرزا غالب کے ارشد تلامذہ میں تھے۔ انہوں نے مشکور استعمال کیا ہے۔

    ہوئی تقدیم احساں احسن تقویم سے ثابت
    نہ ہو مشکور پھر کیوں بندہ لطف کبریائی کا

    جناب ضامن کنتوری ’’گلزار نسیم اور تنقید نقاد‘‘ والے مضمون میں مشکور لکھتے ہیں۔ عادی ہر اہل زبان کی زبان پر ہے۔ حضرت جلالؔ نے اس بنا پر اس لفظ کو اردو سے خارج کیا تھا کہ اس کا وجود اردو کے ثقات شعرا کے کلام میں پایا نہیں جاتا۔ حکیم صاحب اگر نواب مرزا لکھنوی کو ثقات شعرا میں نہیں سمجھتے تھے، جو کہہ گئے ہیں۔

    ہم تو دشمن میں جعل سازی کے
    آپ عادی ہیں ’’رنڈی بازی‘‘ کے

    تو خواجہ وزیر لکھنوی تو یقیناً ان ثقات حضرات کے حلقے کے ایک اعلیٰ رکن ہیں۔ فرماتے ہیں،

    تیغ ابرو کی زبان عادی ہوئی
    بات سیدھی بھی جو کی ٹیڑھی ہوئی

    اسی پر اور الفاظ کے ترک کے اسباب اور علل کو قیاس فرما لیجئے۔

    اضافتیں
    یہ قرار دیا گیا ہے کہ تین مسلسل اضافتوں سے زیاد ہ کلام میں لانا ممنوع ہے لیکن اس کی پابندی کم ہوتی ہے۔ حضرت ریاضؔ ایک جگہ چار اضافتیں لکھ گئے ہیں۔ فرماتے ہیں،

    رہ گئے ہم گرد پس کارواں
    نقش کف رہروان سخن

    نقش کف پا بھی نہیں نقش آب
    خاک سر آب روان سخن

    دیکھئے چھوٹی بحر کے ان چار مصرعوں میں بارہ اضافتیں آئی ہیں۔

    اضافت وہیں تو لابد لانی پڑتی ہے جہاں تشبیہ اور استعارہ سے کام لیا جائے اور ان صنعتوں میں ہندی اردو سے کہیں بڑھی ہوئی ہے۔ ہندی والے کس طرح کسرہ اضافت کے بغیر ان کا نباہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ فارسی میں اضافتوں کی اتنی بھر مار کیوں نہیں ہوتی۔ خواجہ حافظ اور نظیری کی غزلیں پڑھئے۔ اضافت کی وہ بہتات ان کے ہاں ہرگز نہیں جو اردو میں مرزا غالب اور اقبال کے ہاں پائی جاتی ہے بلکہ خود مرزا صاحب کے فارسی کلام میں اضافتوں کا وہ ہجوم نہیں جو ان کے اردو کلام میں موجود ہے۔

     یہ ضرور ہے کہ جب آپ نے دو تین کے سوا باقی تمام حروف تشبیہ متروک قرار دے دیے 9 جیسے آسا، ساں، نمط، صفت، رنگ وغیرہ تو پھر تشبیہ اور استعارہ کا نباہ نا ممکن کے قریب ہو جائے گا۔ ان سب امور کو نظر میں رکھ کر راقم کی رائے ہے کہ نثر میں اضافت وجوباً متروک قرار دی جائے اور نظم میں دو سے زیادہ اضافتیں نہ لائی جائیں۔ نظم میں غزل بھی داخل ہے لیکن غزل گو شعرا سے بھی یہ کہوں گا اگر یہ درست ہے کہ غزل میں معشوق سے بات چیت کی جاتی ہے اور وہ معشوق اناث کی جنس کا ایک فرد ہے، فعل خواہ کسی صیغہ میں لایا جائے تو ان سب ہے کہ ایسی غزل کو اضافت سے معرا رکھا جائے کیونکہ عورتیں اضافت نہیں بولتیں۔ ریختی کے دیوانوں میں اضافت کا نشان کہیں نہ ملے گا۔ غزل کا معشوق اسی زبان میں بات سننا پسند کرے گا جو وہ خود بولتا ہے۔

    نون
    نون کے غنہ رکھنے یا اس کے اعلان کا قاعدہ بھی کلیہ کی حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ تو مانا کہ اضافت کے بعد اس کا اعلان جائز ہے 10 لیکن اضافت کے بغیر اس کے اعلان یا غنہ ہونے کے متعلق کوی التزام نہیں رکھا گیا۔ بس یہی کہہ دیا ہے کہ بلا اضافت نون کا اعلان ہونا چاہئے مگر جن الفاظ کا نون روز مرہ میں غنہ بولا جاتا ہے اس کا اعلان مکروہ ہے۔ ان الفاظ کی مکمل فہرست چاہئے تھی۔

    مت
    بعض ہندو فرقوں میں عورتوں اور ملک کے ایک خاص حصہ میں اس لفظ کا جا و بے جا استعمال دیکھ کر یہ حکم لگا دیا کہ مت نفی کے معنی میں متروک ہے۔ راقم بھی اس معنی میں اس کے ترک کا حامی ہے۔ لیکن فعل نہی حاضر کے صیغہ کے استثنا کے ساتھ اس موقع پر مت کے بغیر نہیں کی تاکید آدھی بھی نہیں رہتی۔

    اب میں اس قسم کی بحث کو فی الحال بند کر کے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اب تک کوئی اصول اور قاعدہ الفاظ اور ترکیبوں کے ترک کرنے کا اردو میں وضع نہیں کیا گیا ہے۔ راقم کے نزدیک ایک لفظ یا مرکب کو متروک اعلان کرنے سے پہلے ان اصولوں کا لحاظ رکھنا چاہئے۔

    (ا) جو لفظ کریہہ الصوت ہو یا ثقیل التلفظ ہو جب کہ اس کا مترادف موجود ہو۔
    (ب) جس میں بالذاتہ دوسرے الفاظ کے ساتھ مل کر ذم کا پہلو نکلتا ہو۔
    (ج) علاوہ ان نقائص کے جو غرابت اور مخالفت قیاس لغوی کے تحت میں آتے ہیں، ایسے الفاظ اور ترکیبیں جن کو پورے طور پر سمجھنے کے لئے عربی یا فارسی لغات دیکھنے کی ضرورت پڑے۔ یعنی اردو کو عربیرانی نہ بنایا جائے۔ (عرب اور ایران کی زبان سے ماخوذ)
    (د) جو الفاظ سلاست، فصاحت اور ترنم کے منافی ہوں اور اردو کی شخصیت کے قیام میں حارج ہوں۔

    ان میں تخرجہ تعمیہ ہو سکتا ہے۔ اصل میں ایسے اصول قائم کرنا کسی ایک انسان کا کام ہے ہی نہیں۔ انجمن ترقی اردو کا فرض ہے کہ وہ ایک جامع اجلاس کسی مرکزی مقام پر منعقد کرنے کا انصرام کرے جہاں ملک کے ہر حصے کے ادیب اور مصنف جمع ہوں اور اس معاملہ اور زبان کے متعلق دوسرے امور کا فیصلہ پوری بحث مباحثہ کے بعدہو کر قرار دادیں قائم کی جائیں۔ راقم کے ذہن میں چند الفاظ اور باتیں ایسی ہیں جنہیں ترک کر دینا چاہئے۔ مگر میرے متروکات دو قسم کے ہیں۔ لفظی اور معنوی۔

    لفظی متروکات کا ذکر ہر شخص کرتا ہے اور انہیں سے اس مضمون میں اب تک بحث کی گئی ہے۔ مناسب بلکہ ضروری ہے کہ متروکات کے دفتر میں معنوی متروکات کی جدا مثل ترتیب دی جائے۔

    معنوی متروکات
    میری رائے میں امور ذیل کا انتظام بطور معنوی متروکات کے ہونا چاہئے۔

    (ا) خط عارض یا معشوق کی ڈاڑھی مونچھ کا تذکرہ قطعاً ترک کر دینا چاہئے۔ مشاہیر میں حضرت جلیل تک اس کا وجود پایا جاتا ہے۔ تاج سخن میں لکھا ہے۔

    نمود سبزہ رخ پر سکوت ان کا ہوا 
    یہ خط وہ آیا جس کا کوئی جواب نہیں

    امید کی جاتی ہے کہ غزل گو حضرات یہ تجویز بلا چوں چرا منظور فرمائیں گے۔

    (2) معشوق کی کم سنی

    داغؔ
    وہ کم سنی میں کھیل بھی کھیلیں گے تو یہی
    مٹی کے تیغ و ناوک و خنجر بنائیں گے

    ابھی سن ہی کیا ہے جو بے باکیاں ہوں
    انہیں آئیں گی شوخیاں آتے آتے

    سہمے جاتے ہیں ڈرے جاتے ہیں وہ عاشق سے
    کم سنی ہے ابھی اس سن میں جھجک ہوتی ہے

    جلیلؔ
    وہ کم سنی کے سبب واقف عتاب نہیں
    دم سحر ہے ابھی گرم آفتاب نہیں

    غزل کی یہ بیہودگی، شرافت اور صالح مذاق کے اس قدر منافی ہے کہ ایراد و تعریض کی محتاج نہیں۔ اس اخلاقی جرم سے بچنا چاہئے۔

    (3) معشوق کا روٹھنا سر آنکھوں پر مگر گالیاں دینا اور کوسنا سوقیت اور رکاکت کی خبر لاتا ہے اس لئے اس ناشائستہ حرکت سے اسے وجوباً باز رکھنا چاہئے۔

    (4) قصابی مضمون۔ یہ نام میں ایسے مضمون کو دیتا ہوں،

    نہ سوچے ہم کہ تہ تیغ ہوگی خلق اللہ
    گھٹا نہ حوصلہ قاتل کے دل بڑھانے کا

    معشوق نہ ہوا کسی شہر کے مسلح کا میر قصاب ہوا۔

    لگائیں لاش پہ تلواریں اس نے مقتل میں
    جو میرے بعد بھی آیا مرا ہی وار آیا

    امیرؔ
    اتر کر اس نے مقتل میں جو کھینچا میان سے خنجر
    قضا میداں سے بھاگی بیٹھ کر قاتل کے تو سن پر

    مہتاب داغ میں 88 جگہ اس قسم کے قصابی مضمون آئے ہیں۔ اس قبیل کے مضامین میں سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ معشوق کی جنسیت کے متعلق سامع کا ذہن ایک خاص جانب منتقل ہوتا ہے اور شاعر کے مذاق کو مسموم ٹھہراتا ہے۔ ستم گر اور ظالم کے ساتھ سفاک اور قاتل معشوقوں کے ناموں میں رہنے دیجے مگر یہ قتل اور سفاکی، بوندی کی کٹاری، سروہی کی تلوار اور اصفہانی شمشیر سے نہیں ہوتی۔ اس کے لئے قدرت نے ان کو اور ہتھیاروں سے مسلح کیا ہے، جیسے تیغ ادا، تیر نظر، شمشیر تغافل، سنان مژگاں۔ قدرت کی کار پردازی آپ کی اصلاح اور ترقی سے مستغنیٰ ہے۔ یہ ہتھیار آپ کے تیغ اور تیر سے زیادہ کاری ہیں اور معشوق کی جنسیت بھی قائم رہتی ہے۔

    (5) وصل۔ اس مضمون کے اشعار میں ایسی بد مذاقی اور عریاں نویسی سے کام لیا جاتا ہے کہ کوئی شاعر سینہ پر ہاتھ مار کر یہ نہیں کہ سکتا کہ میں اپنی غزلیں اپنی ماں اور باپ اور بہن کے سامنے پڑھا کرتا ہوں۔ خلخال پائے دوست کی جھنکار منہ اور زبان کے مضامین اور زیادہ کیا کہوں۔ بھلا ان باتوں میں شاعری کا کون سا کمال اور ادب کا کون سا معجزہ دکھایا جاتا ہے۔ راقم کی ناقص رائے میں اس قسم کے مضامین اور وصل کا یہ مفہوم ایک قلم ترک ہونا لازم ہے۔ اس کا مفہوم صرف اور محض عاشق معشوق کا ایک جگہ بیٹھنا جیسے دو پیارے دوست بیٹھتے ہیں، شکوہ شکایت اور پیار محبت کی میٹھی میٹھی باتیں، باغ میں ساتھ پھرنا وغیرہ وغیرہ ہونا چاہئے۔ سونا، پلنگ اور شبستاں یا خواب گاہ میں معشوق سے تخلیہ کرنا وجوباً متروک ہونا چاہئے۔

    (6) جوبن کی نسبت کچھ قیدیں ہیں لیکن اس پر کار بند کوئی نہیں ہوتا۔ تذکرہ نویسوں اور رسالہ والوں کو چاہئے کہ ایسے شعر قلم زد کر دیا کریں۔ اپنے شاگردوں کی غزل بناتے وقت استادوں کو بھی اس کا اور نیز دوسرے امور کا خیال چاہئے جن کا ذکر اس ذیل میں آیا ہے، مختصر یہ کہ معشوق کا سر اور گردن ہاتھ کہنی تک پاؤں ٹخنے تک شاعری کی ملکیت ہونی چاہئے۔ کمر کو وحدہ لاشریک کی مصداق پر مان کر اس کی نازکی کا تذکرہ کر سکتے ہیں۔ جسم کے باقی حصوں اور عضوؤں سے لا دعویٰ ہونا چاہئے۔

    (7) معشوق کا لباس۔ معشوق کی کج کلاہی اور ایک پیچہ وغیرہ تو اب لوگ بھول گئے ہیں اور زیادہ توجہ زنانہ لباس کی جانب ہے۔ جب یہ تسلیم ہو چکا ہے کہ معشوق ہمشہ اناث کی جنس سے ہے تو اس باب میں اور بھی احتیاط درکار ہے۔ دوپٹہ آنچل اس تذکرہ میں کافی ہے۔ یہ ساڑی پہننے والوں اور دوسری قسم کی پوشاک والوں سب پر عائد ہو سکتا ہے کیونکہ ہندوستان کی ہر زنانی پوشاک میں آنچل کا وجود ثابت ہے۔ دامن اور زیریں لباس کے گھیر کا بھی مضائقہ نہیں۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جو کسی خاص فرقہ یا پبلک کے حصہ سے مختص نہیں۔ پوشاک کی باقی چیزوں کا ذکر وجوباً متروک ہونا چاہئے۔

    (8) غزل میں ایک اور انوکھا سوانگ بھرا جاتا ہے۔ شاعر اپنے آپ کوپرند بنا کر صیاد کے جال میں پھنساتا ہے، وہاں سے پنجرے میں منتقل کیا جاتا ہے جہاں میاں مٹھو بنا کر چڑی مار کو کوسا کرتا ہے۔ کبھی دشت جنوں میں تنکے چننا بھول کر جو اس کا منصبی فرض تھا، سچ مچ کے تنکے چننے لگتا ہے۔ اس سے اپنا گھونسلا بناتا ہے۔ وہ تو خیریت گزری اس نشیمن کو بجلی نے فنا کر دیا ورنہ عجب نہ تھا کہ انڈے بچوں کی نوبت آ جاتی۔ فہم قاصر ہے کہ ان مضمونوں میں عاشقی اور شاعری کی کون سی شان اور نازک خیالی مضمر ہے۔ بلبل اگر پھول کی شیدا ہے تو ہو آپ کو انسان پیدا کیا ہے، انسانیت کی باتیں کیجئے۔

    (9) دل کی تجارت۔ ہمارے شعری عاشق دل کے معاملے میں بھی بد نظمی سے کام لیتے ہیں۔ دل دینے میں ایسی جھک جھک اور تکرار ہوتی ہے کہ چھٹ بھیا دوکانداروں سے سودا کرنا بھول جاتا ہے۔ گلی کوچوں کا وہ نظارہ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوگا جب پھیری والا سرمہ، مسی، فیتے اور چوڑیاں بیچنے آتا ہے یا ایک جہانیان جہاں گشت ’’زری گوٹا پرانا‘‘ کی آواز لگاتا ہے۔ اکثر عورتیں ان سے لین دین کرتی ہیں۔ دام چکانے میں پیسے پیسے پر وہ تکرار ہوتی ہے کہ الہی ا مان۔ یہی گت ان زبانی عاشقوں نے جو انفس جذبات اور لطیف حسیات کے لئے مردہ ہیں دل جیسی چیز بنا رکھی ہے۔ متاخرین تو لکھتے ہی تھے،

    غالبؔ
    کہتے ہیں نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
    دل کہاں کہ گم کیجے ہم نے مدعا پایا

    دل نہ ہوا کسی اچکن کا ٹوٹا ہو ابٹن ہواکہ اس طرح پڑا مل جائے۔ استاد ذوق نے اس پر ترقی کی،

    ذوقؔ
    مال جب اس نے بہت رد و بدل میں مارا
    ہم نے دل اپنا اٹھا اپنی بغل میں مارا

    ’’ہم‘‘ نہ ہوئے ٹٹ پونجئے پھیری والے ہوئے کہ ایک گاہک سے سودا نہ بنا تو اپنا بقچہ باندھ کر چلتے بنے اورآگے جاکر ’’سرمہ مسی‘‘ پکارنے لگے۔ داغؔ اور امیرؔ کے ہاں بھی دل کا سودا ہوا ہے۔ جلال فرماتے ہیں،

    جلالؔ
    جلد دل کا فیصلہ کچھ ہو چکے
    لے چکو سودا یہ جتنے کو چکے

    کبھی عاشق اڑ بیٹھتا ہے کہ ایک بوسہ دو تو دل دوں۔ یہ باتیں نہایت رکیک ہیں۔ ان میں ابتذال کی پھٹکار ہے۔ دل بھی کوئی بیع و شرا کی جنس ہے۔ وہ جب کسی پر آتا ہے تو کسی کی اجازت سے نہیں آتا۔ اپنے آپ آتا ہے اور کسی کے روکے نہیں رکتا۔ قوت ارادی کااس میں دخل نہیں۔ عاشق بیپاری نہیں ہوا کرتے۔ دیکھئے اللہ بخشے میر تقی کس خوش اسلوبی سے دل کے ہاتھ سے جانے کا نقشہ اتار گئے ہیں۔ شاعر پر اگر یہ روحانی کیفیت طاری نہیں ہوئی تو اس کا بیان ہی کیا ضرور ہے۔ اور پھر آپ بیتی نہیں کہہ سکتا تو جگ بیتی ہی کہے لیکن عشق کے مسلک کو پیٹھ اور نخاس تو نہ بنا دے،

    میرؔ
    پڑ گئی اس پہ اک نظر اس کی 
    پھر نہ آئی اسے خبر اس کی

    تھی نظر یا کہ جی کی آفت تھی
    وہ نظر ہی وداع طاقت تھی

    ہوش جاتا رہا نگاہ کے ساتھ 
    صبر رخصت ہوا ایک آہ کے ساتھ

    بے قراری نے کج ادائی کی
    تاب و طاقت نے بے وفائی کی

    یہ چند معنوی متروکات ہیں جن کی طرف شاعروں اور ادیبوں کی توجہ دلائی جاتی ہے۔ اس قبیل سے اور بہت سے امور احتراز کے قابل ہیں جن کا بیان طوالت کے خوف سے اس وقت ملتوی رکھا جاتا ہے۔

    لفظی متروکات
    (1) نثر میں اضافت کا استعمال قطعاً ترک کیا جائے۔ اصطلاحیں، محاورے اور لفظوں کے مقررہ جگ مستثنیٰ ہیں، جیسے علت غائی، نام خدا۔ گوشت خر، دندان سگ وغیرہ۔

    (2) واؤ عاطفہ کے ساتھ بھی اضافت کا سلوک کرنا چاہئے۔

    (3) تا بہ ابد تا بمعنی تک اور جب تک۔ تا چند وغیرہ فارسی روابط سے احتراز لازم ہے۔ یہ اصول قرار پانا چاہئے کہ فارسی روابط اور مرکبات جہاں تک ہو سکے اردو میں کم ملائے جائیں۔

    (4) نظم میں اضافت۔ غزل میں قطعاً متروک سمجھی جائے۔ نیچرل نظموں میں دو سے زیادہ اضافتیں ایک ساتھ نہ لائی جائیں۔ اس کے متعلق آگے مفصل مذکور آ چکا ہے۔

    (5) نظم میں واؤ عاطفہ ایک دفعہ سے زیادہ مسلسل نہ آئے۔ کبھی ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ پورے مصرعے کے تمام الفاظ تسلسل کے ساتھ معطوف معطوف علیہ واقع ہوئے۔ اس اسلوب سے مصرعہ کا مصرعہ فارسی ہو جاتا ہے۔

    آخر میں یہ عرض کرنا ہے کہ یہ مضمون اجتہاد کے طریق پر نہیں بلکہ استشہاد کے طور پر لکھا گیا ہے۔ راقم ممنون ہوگا اگر فن کے واقفوں اور ادیبوں ارو نظم نثر کے لکھنے والوں نے اس طرف توجہ فرمائی۔ یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ متروکات کے باب میں راقم کا یہ مذہب ہے۔

    سر برہنہ نیستم دارم کلاہ چار ترک
    ترک دنیا، ترک عقبیٰ، ترک مولا ترک ترک

    میں ادب اور زبان کے معاملوں میں ’’بر چھی گردی‘‘ کے سخت خلاف ہوں جس کا ثبوت خود میرا کلام ہے۔ ہاں زیادت جیسی کلام کا سقم ہے ویسی ہی فن کے قواعد کی توضیع کا۔ میں دیکھتا ہوں کہ ایک فریق ایک امر میں ایک حد پر جاتا ہے تو دوسرا دوسری حد پر۔ یہ باز گشتی حرکت قدرت کے قانون کا خاصہ ہے۔ شاید اسی نہج پر جناب عزیز نے ایک صدی کے مردہ لفظ کو پھر زندہ کرنے کا خیال فرمایا۔

    ہر داغ دل ہے گویا تاریخ میرے تن میں
    جلوے ہیں رفتگاں کے پیدا اسی چمن میں

    عربی کا ایک مشہور قول ہے۔ ’’یجوز لاشعر مالا یجوز لغیرہ‘‘ یعنی جو دوسروں کو جائز نہیں وہ شاعرکو جائز ہے۔ اس جواز کا جائز استعمال مفقود ہے اگر عریاں نویسی، ابتذال نگاری، با سلیقہ سرقہ اور زبان سے اخلاقی جرائم کا ارتکاب اس قول کا مفہوم ہے تو میں خاموش ہو جاؤں گا ورنہ اتنا ضرور کہوں گا کہ اگر اس کا مفہوم انشا اور اسلوب سے علاقہ رکھتا ہے تو یہ ماننا پڑے گا کہ جتنی قیدیں نظم لکھنے والوں پر عائد کی گئی ہیں وہ سراسر جابرانہ اور ناجائز ہیں اور اس قول کے بالکل منافی۔ نہ اس سے زبان کی ترقی ہوگی نہ تخیل شاعرانہ کی توسیع، ایسی کاجو بھو جو زبان جو ہمارے نقاد اور غیر مصنف ادیب بنانا چاہتے ہیں، سر سبز نہیں ہو سکتی۔ ہمارا دستور العمول یہ ہونا چاہئے،

    مصلحت بیں و کار آساں کن

    ورنہ خوف ہے کہ اگر اس خرج یخرج اور ترک یترک کی لے یوں ہی بڑھتی گئی تو کہیں مرزا غالب کایہ قول ہمارے حال کی مصداق نہ ہو جائے۔

    مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آسان ہو گئیں


    حاشیے

    (1) اس کا ذکر مفصل بعد میں آئے گا۔ 
    (2) بعض اورنگ زیب کا زمانہ بتاتے ہیں۔ دکنی اردو کے پہلے کے دیوان مصنف تک اس لکچر کے بعد پہنچے۔
    (3) اس کا مفصل ذکر آگے آئے گا۔
    (4) دیکھو فرہنگ آصفیہ، مولفہ شمس العلما سید احمد صاحب دہلوی۔
    (5) آب حیات پانچویں دور کی تمہید۔
    (6) تارکان ادب کے قول کے مطابق اس شعر میں دو متروکات موجود ہیں۔ دوسرے مصرعہ میں بجائے پر کے پہ آیا ہے مگر شعر کی شان ملاحظہ کے قابل ہے۔
    (7) امیر مرحوم نے صنم خانہ میں ایک جگہ ضرور استعمال کیا ہے،
    دل جو دیں ان سے تواے جان یہ گہرا پردا
    اور روا رکھتے ہیں پردے میں پھر آنا دل کا
    (8)  راقم ’بارے‘ کو ترک کے قابل نہیں سمجھتا۔
    (9) یہ موضوع اتنا تفصیل طلب ہے کہ اس سے یہاں بحث نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کسی آئندہ وقت پر ملتوی رکھا جاتا ہے۔
    (10) اس بات میں راقم کا کلی اتفاق ادب کے تارکوں کے ساتھ نہیں ہے۔
    (11) بہت سے اچھے شاعر اس قید کو نہیں مانتے۔

     

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے