Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مولانا آزاد کا اسلوب نثر

آل احمد سرور

مولانا آزاد کا اسلوب نثر

آل احمد سرور

MORE BYآل احمد سرور

    ڈاکٹر عابد حسین نے مولانا آزاد کے ادبی اسلوب کے تین دور قائم کئے ہیں، زعیمانہ، حکیمانہ اور ادیبانہ۔ سجاد انصاری نے کہاتھا کہ ’’اگر قرآن اردو میں نازل ہوتا تو اس کے لئے ابوالکلام کی نثر یا اقبالؔ کی نظم منتخب کی جاتی۔‘‘ حسرتؔ کو ابوالکلام کی نثر کے بعد اپنی نظم پھیکی معلوم ہوتی تھی۔ مولوی عبدالحق الہلال کے اسلوب پر خوش نہیں اور مولانا عبدالماجد دریابادی نے الہلال کے دنوں میں انہیں لکھا تھا، ’’سیاسیات اور مذہب ایک مدت سے آپ کی تیغِ خطابت کے زخم خوردہ ہورہے ہیں۔ اب مہربانی کرکے علمی مسائل کی جان پر تو رحم فرمائیے۔‘‘

    مگر وہ الہلال کا دور تھا اور ترجمان القرآن اس وقت تک منظر عام پر نہ آئی تھی۔ یعنی مولانا آزاد کے اسلوبِ نثر کے متعلق ایک طرف تعریف میں غلو ہے دوسری طرف تنقیص میں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا آزاد کی ساری تصانیف نثر اور موضوع کے لحاظ سے ہر ایک میں واضح فرق کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔ صرف ان کی انشا پردازی اور خطابت کی بنا پر ان کی مدح و قدح ہوئی۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم مولانا آزاد کے اسلوب نثر کے ارتقاء کو ملحوظ رکھیں اور اس کے جلوہ ہائے رنگ رنگ کو سمجھیں اور پرکھیں۔ اس کے لئے پہلے مولانا کی شخصیت اور کارناموں کے متعلق کچھ کہنا ضروری ہے۔

    اگرچہ مولانا برابر سمجھتے رہے کہ میں اپنے زمانے کے بہت بعد کا آدمی ہوں مگر در اصل مولانا کی شخصیت اور ان کے کارناموں کو سمجھنے کے لئے ان کے دور کی بعض خصوصیات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ مولانا کے دور میں جو پڑھا لکھا طبقہ تھا وہ عام طور پر اردو کے علاوہ فارسی جانتا تھا اور عربی سے بھی مس رکھتا تھا۔ وہ انگریزی زبان و ادب سے بھی متاثر ہو رہا تھا۔ مولانا آزاد کی دلچسپی مذہب، ادب اور سیاست سے شروع سے تھی۔ مذہبی مسائل پر اظہار خیال کے لئے جو زبان رائج تھی اس پر عربی فارسی کا خاصا غلبہ تھا۔ ادب میں سرسید اور حالیؔ کے باوصف محمد حسین آزاد اردوئے معلیٰ کے ہیرو سمجھے جاتے تھے۔ شرؔر کے دلگداز کا خاصا چرچا تھا۔ نئی نسل میں اک رومانی لہر آ گئی تھی جو آگے چل کر ادب لطیف کے روپ میں جلوہ گر ہوئی۔ سجاد حیدر نے شاعرانہ نثر لکھنی شروع کر دی تھی۔

    بیسویں صدی کے آغاز میں ’’مخزن‘‘ کا اجرا ہوا اور بہت جلد نئی نسل کے فکر و فن کا گہوارہ بن گیا۔ اس نے اردو کو اقبالؔ، ابوالکلام آزاد، نیاز فتح پوری، شیخ عبدالقادر، غلام بھیک نیرنگ اور بہت سے شاعر اور ادیب دیے۔ آزاد ایک قدامت پرست ماحول میں پلے بڑھے تھے۔ ان کے والد ایک ممتاز عالم اور ایک ممتازخطیب تھے۔ اس زمانے کے علماء کے ہاں خطابت کے بغیر کسی کی شہرت نہ ہوسکتی تھی اور نہ اس کے خیالات کی اشاعت۔ مولانا آزاد نے شروع سے مطالعہ میں انہماک کا ثبوت دیا۔ ان کا مطالعہ ہی انہیں خاندانی عقائد سے سرسید کی تفسیر کی طرف، پھر ایک طرح کی دہریت کی طرف اور بالآخر مذہب پر ایک نئے یقین اور عقیدے کی نئی استواری کی طرف لایا۔

    اس زمانے میں انہیں شاعری کا شوق ہوا مگر یہ زیادہ دن نہ چل سکا۔ اس زمانے سے ان کی خطابت کے جوہر کھلنے لگے اور پندرہ سولہ سال کی عمر میں وہ ملک کے ایک ممتاز خطیب مانے جانے لگے۔ شبلی کی صحبت میں ان کے ذوق کو جلا ہوئی۔ خطابت انہیں اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی مگر مذہبی علوم کے علاوہ عربی اور فارسی ادب اور پھر اردو ادب کا گہرا مطالعہ ان کے اپنے ریاض کا آئینہ ہے۔ ان کی والدہ عرب تھیں۔ خود انہیں اردو خاصی دیر میں سکھائی گئی اور پھر اپنے ذاتی شوق کی وجہ سے انہوں نے کلاسیکی اردو ادب اور نئی مطبوعات دونوں کا مطالعہ کیا۔ ان کا خاندان دہلوی تھا مگر ان کا بچپن زیادہ تر کلکتے میں گزرا۔ مولویوں کی اردو اور کلکتے کی اردو کے کچھ نہ کچھ اثرات ان کے یہاں برابر رہے۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ شروع سے ان کی تحریروں میں کچھ انگریزی الفاظ ملنے لگتے ہیں۔ مثلاً تصویر کے بجائے فوٹو اور تبصرے کے بجائے ریویو۔

    کہنا یہ ہے کہ مولانا آزاد نے چونکہ شروع سے تحریر و تقریر دونوں پر توجہ کی اس لئے دونوں میں خطابت کے عناصر قدرتی ہیں۔ خطابت بہر حال ایک ادبی اسلوب ہے۔ اس میں منطق بھی ہوتی ہے، جذبات بھی، تکرار بھی اور لفظوں کا ایک خاص استعمال بھی۔ ایسا نہیں ہے کہ مولانا آزاد خطابت کے بغیر ’’لقمہ نہ توڑ سکتے ہوں۔‘‘ ان کی ابتدائی تحریروں میں سے یہ اقتباسات ملاحظہ ہوں۔

    ’’مخزن‘‘ میں ان کا پہلا مضمون مئی ۱۹۰۲ء میں فن اخبار نویسی پر شائع ہوا تھا۔ اس میں سلوب یہ ہے،

    ’’کیا اخبار کے سوا کوئی بڑی سے بڑی ایسی دوربین ہے جس سے آپ دنیا کو اپنا منظر بنا سکیں اور کیا اخبار کے سوا کوئی اونچے سے اونچا بلند مقام یا کوئی پہاڑ ہے جس پر بیٹھ کر آٖپ دنیا کا نظارہ کر سکیں؟ نہیں ! ہرگزنہیں! نہ دنیا میں ایسی کوئی دوربین ہے نہ کوئی ایسا بلند مقام ہے۔ یہ صرف اخبار ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے ملاحظے سے آپ تمام دنیا کو ملاحظہ فرما سکتے ہیں اور جس کے حاصل کرنے سے آپ تمام دنیا کے نظارے حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘ (مخزن، جلد۳، نمبر۲، مئی ۱۹۰۲ء)

    اسی سال ایک دوسرے مضمون خاقانی شروانی میں فرماتے ہیں،

    ’’اس زمانے میں فردوسی اور محمود غزنوی کی حکایتیں زبان زد خاص و عام تھیں۔ ہر ایک شخص کو شاعری کا شوق و ذوق تھا اور اس خیال میں سرمست تھا۔ جس علمی مجلس میں جاؤ تو وہاں منطق اور فلسفہ کی پریشان کن دماغ بحثوں کی بجائے شاعری کی خوش کن بحثیں ہوتی ہوئی نظر آئیں گی۔ جس دربار میں پہنچو اس میں شاعری کے دلکش راگ گاتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ خون لگا کے شہیدوں میں داخل ہونا آج ہم کہتے ہیں لیکن اس مثل کا سچا مصداق وہی زمانہ تھا اور یہ نہ تھا کہ لوگ شہیدوں داخل ہوجاتے تھے بلکہ شہید بھی ہو جاتے تھے۔ ہر ایک شخص یہی چاہتا تھا اور اعلیٰ سے اعلیٰ خدا تعالیٰ سے اس کی یہی دعا ہوتی تھی کہ میں فردوسی ہو جاؤں۔‘‘

    (مخزن لاہور، اگست ۱۹۰۲)

    ’’آپ جانتے ہیں اور یقیناً مجھ سے اچھا جانتے ہیں کہ محرکین تعلیم انگریزی کی، انگریزی کی اشاعت سے کیا غرض تھی۔ اشاعت علوم نہ ہوئی مگر افسوس ہے کہ یہ غرض تو حاصل نہ ہوئی اور انگریزی ذریعہ ٔ ملازمت سمجھ لی گئی۔ اب نہ کوئی سائنس سے غرض ہے نہ فلسفے سے۔ بس انٹرنس یا ایف۔ اے تک انگریزی حاصل کی اور؟ روپے پر ملازم ہو گئے۔ پس حالت موجودہ کے لحاظ سے اس وقت اس کی بڑی ضرورت ہے کہ اپنی ملکی زبان میں علوم مغربی کا ترجمہ کیا جائے اور سینٹی فک سوسائٹی اور پنجاب یونیورسٹی کی پالیسی سے اتفاق کیا جائے۔‘‘ (مرقع علم میں خط۔ ۱۱؍ جون ۱۹۰۲ء)

    ’’جب سید احمد خاں بریلوی سکھوں سے جہاد کرنے کی غرض سے ہندوستان کا دورہ کر رہے تھے اور ان کا کچھ عرصہ تک قیام پٹنہ میں بھی ہوا تو خاندان صادق پور کے تمام افراد نے سید صاحب کے ہاتھ پر بیعت جہادکی اور جان و مال سے فدا ہونے کو تیار ہوگئے۔ تاریخ ہند کا وہ عجیب زمانہ جب کہ وہابیت کے مضمون نے جہاد اور بغاوت کی صورت سے گورنمنٹ کے دل میں جگہ پائی تھی۔ ایسا پرآفت زمانہ تھا کہ کسی شخص کو وہابی کہنا یہ مفہوم رکھتا تھا کہ اب بیچارہ کا ارادہ بحر اسود کی سیر کرنے کا ہو چلا ہے۔‘‘

    (تقریظ و تبصرہ تذکرۂ صادقہ لسان الصدق ۱۹۰۳)

    لسان الصدق کے چار مقاصد پر بھی ہماری نظر رہنی چاہیے،

    (الف) سوشل رفارم

    (ب) اردو زبان کے علمی لٹریچر کے دائرے کو وسیع کرنا۔

    (ج) علمی مذاق کی اشاعت۔

    (د) تنقید یعنی اردو تصانیف پر منصفانہ ریویو کرنا۔

    لسان الصدق کے بعد الندوہ کی ادارت میں شرکت، وکیل کی ادارت میں شرکت اور اس کے بعد الہلال کی ادارت کا نمبر آتا ہے۔ ابتدائی تحریروں میں مقصدیت غالب ہے۔ عبارت میں اگرچہ بعد کی روانی نہیں مگر ایک عزم، ایک جوش ملتا ہے۔ خطابت کی چاشنی بھی نظر آنے لگتی ہے۔ یہاں یہ بات پھر دہرانے کی ضرورت ہے کہ آزاد جتنا وقت تحریر کو دیتے تھے لگ بھگ اتنا ہی تقریر کو۔ اس زمانے میں جب بہت سے خطیب اپنا لوہا منوا چکے تھے، مولانا کی خطابت کی شہرت بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ چنانچہ تحریر میں خطابت کی چاشنی اور تقریر میں ایک مرتب اظہار دونوں مولانا کے مزاج کے آئینہ دار ہیں۔ بچپن سے ہی وہ باتیں نہیں کرتے تھے خطاب کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ ہجوم میں بھی تنہا رہے۔

    خطاب پر آج کل لوگ ناک بھوں پڑھاتے ہیں۔ بیان و بدیع کے علم کی زبان کے برتنے کے سلسلہ میں جو اہمیت ہے اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ پھر جو کام آج رسالے کرتے ہیں وہ بڑے پیمانے پر تقریروں کے ذریعہ سے ہونا تھا۔ ہزاروں کے مجمع کو اپنے خیالات کے ذریعہ متاثر کرنا، ان کے ذہن کو کسی بڑی شخصیت، کسی بڑی تحریک، کسی بڑے مسئلے پر روشنی کے ذریعے سے متاثر کرنا، ان کو مذہب، علم، سیاست، تعلیم کے کسی پہلو سے آشنا کرکے عمل کی تحریک ان کے اندر پیدا کرنا یہی خطابت کا مقصد تھا۔ اس کے لئے نہ صرف زبان پر قدرت بلکہ علم بیان و بدیع کے تمام اسرار و رموز سے کام لینا ضروری تھا۔

    مولانا کو الندوہ کی ادارت میں شرکت یا وکیل کی ادارت میں شرکت اس لئے مطمئن نہ کرسکی کہ وہ خود اپنے ایک اخبار کے ذریعہ سے پوری قوم کو روشنی اور گرمی دینا چاہتے تھے۔ ان کے سامنے جمال الدین افغانی، مفتی محمد عبدہ اور رشید رضاکی مثالیں تھیں۔ شبلی سے بھی وہ خاصے متاثر تھے۔ وہ قدیم علوم سے واقف مگر قدیم طریقۂ تعلیم سے ناآسودہ تھے۔ وہ روشن خیال اور حالات حاضرہ پر نظر رکھنے والے علماء پیدا کرنا چاہتے تھے۔ وہ علی گڑھ گروپ کی برطانیہ نواز پالیسی سے بیزار تھے۔ وہ بنگال کے شورش پسندوں سے بھی رابطہ رکھتے تھے۔ ان کا خطاب اگرچہ مسلمانوں سے تھا مگر وہ صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہ سوچتے تھے۔ ان کی نظر میں پوری ہندوستانی قوم تھی۔ وطن کی آزادی کا جذبہ شروع سے ان کے دل میں موجزن تھا۔ الہلال کا پہلا شمارہ اپریل ۱۹۱۲ء میں شائع ہوا۔ اس میں فرماتے ہیں،

    ’’۱۹۰۶ء کے موسم سرما کی آخری راتیں تھیں جب امرتسر میں میری چشم بیداری نے ایک خواب دیکھا۔ انسان کے ارادوں اور منصوبوں کو جب تک ذہن و تخیل میں ہیں، عالم بیداری کا ایک خواب ہی سمجھنا چاہیے۔ کامل چھ برس اس کی تعبیر کی عشق آمیز جستجو میں صرف ہو گئے۔ امیدوں کی خلش اور ولولوں کی شورش نے ہمیشہ مضطرب رکھا۔ یہاں تک کہ آج اس خوابِ عزیز کی تعبیر عالم وجود میں پیش نظر ہے۔‘‘

    آگے چل کر انہوں نے الہلال کے عظیم مقاصد کا ذکر کیا ہے اور ایک تجارتی، کاروبار اور دوکاندارانہ شغل کے ذریعہ سے قومی خدمت اور ملت پرستی کے نام سے گرم بازاری پیدا کرنے کے بجائے الہلال کے بلند مقاصد اور جامع پروگرام کا ذکر کرکے لکھتے ہیں، ’’باغوں کے سرسبز و ثمردار درختوں کی حفاظت کی جاتی ہے مگرجنگل کے خشک درختوں کو جلانا ہی چاہیے۔ جس دل میں خلوص اور صداقت کو جگہ نہیں ملی اس کو کامیابی کے لئے کیوں باقی رکھا جائے۔‘‘

    الہلال کا اہم ترین حصہ اس کا دینی حصہ تھا۔ شروع ہی سے اس بات پر زور تھا کہ الہلال ایک اہم دعوت لے کر اٹھا ہے۔ اس کی بنیاد پر حزب اللہ کے نام سے ایک دینی پارٹی کی بنیاد بھی ڈال دی گئی تھی۔ اس کا باقاعدہ دستور العمل بھی مرتب ہو چکا تھا مگر درحقیقت یہ پارٹی وجود میں نہ آسکی۔ بقول مولانا کے یہ ساری تحریک کام سے زیادہ‘‘ کام کی پکار‘‘ تھی۔ انہوں نے الہلال میں یہ لکھا بھی کہ میرے اعتقاد میں پہلی چیز کاموں کی تلاش نہیں ہے بلکہ کام کرنے والوں کی تلاش ہے۔ دنیا میں کاموں کی کمی نہیں رہی اصل کمی کام کرنے والوں کی ہے۔ پس قبل اس کے کہ میں اپنے کاموں کا معرکۂ زار دکھلانا چاہتا ہوں کہ معلوم کروں کہ کتنے سپاہی مستعد ہیں اور کتنے ہیں جو اپنے خدا اور اپنی ملت کو اپنی زندگی اور اپنی قوت کاکچھ حصہ دے سکتے ہیں۔‘‘

    اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ پہلے مولانا حزب اللہ کے نام سے ایک جماعت تیار کرنے کی ضرور سوچ رہے تھے۔ شاہ ولی اللہ کی طرح ان کو بھی مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگانے اور ان میں اسلام کی روح بیدار کرنے کا جذبہ تھا۔ شاہ ولی اللہ کی طرح وہ بھی اجتہاد کے قائل تھے مگر انہوں نے جلد یہ محسوس کرلیا کہ ایک ایسی جماعت کا تیار کرنا بہت مشکل ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اس کی قیادت کے لئے اپنے آپ کو موزوں نہ پاتے ہوں۔ بہر حال کچھ عرصے کے بعد حزب اللہ کی اسکیم تو طاق نسیاں کی نذر ہو گئی مگر ترجمان القرآن کی طرف مولانا کی پوری توجہ ہوگئی۔ بیچ میں ایک دوست کے اصرار پر تذکرہ بھی لکھا گیا۔

    الہلال کے اسلوب کی وجہ سے مولانا کے اسلوب میں خطابت اورعربی فارسی الفاظ کی کثرت پر اعتراض کئے جاتے رہے ہیں۔ بلاشبہ الہلال کے اسلوب میں خطابت ہے۔ چونکہ الہلال کی تحریک میں ایک دعوت تھی۔ اس لئے اس میں خطابت کا عنصر ناگزیر تھا۔ مولانا نے تذکرہ میں جو الہلال کے فوراً بعد یعنی ۱۹۱۶ ء کی تصنیف ہے، لکھا ہے،

    ’’بحث و نظر کی راہ میں جذبات کی شرکت نقص ہے مگر دعوت و تبلیغ کی راہ سراسر جذبات سے معمور ہوتی ہے۔‘‘ یہ بھی واقعہ ہے کہ الہلال میں جابجا قرآنی آیات کا حوالہ ملتا ہے۔ عابد رضا بیدار کا اندازہ یہ ہے کہ قرآن کاایک چوتھائی حصہ کسی نہ کسی طریقہ سے الہلال میں ضرور آ گیا تھا۔ قدرتی طور پر ان حوالوں اور اقتباسات کے اثرات اسلوب بیان میں بھی ملتے ہیں بلکہ اسلوب کو ان کی وجہ سے ایک رفعت، جلال، برگزیدگی اور عظمت بھی ملی ہے۔ مولانا آزاد کی علوم اسلامیہ پر بھی گہری نظر تھی۔ جواہر لال نہرو نے تلاش ہند میں اس نظر کے طفیل الہلال کی نئی زبان پر زور دیاہے۔

    اگر جواہر لال نہرو کی رائے کو اس معاملے میں ایک حامی کی رائے کہہ کر نظر انداز بھی کر دیا جائے تو یہ بات بہر حال یقینی ہے کہ مولانا کے اسلوب میں محمد علی اور ظفر علی خاں سے زیادہ علمیت ہے اور اس علمیت میں ملائیت یا یبوست نہیں ایک گرمی، ایک روانی، ایک جرأت اور مردانگی ہے۔ یہ صحیفوں کا اسلوب ہے۔ اس میں جوئے کہستاں کی تندی اور موسیقی ہے۔ اس میں عام رائے سے انحراف اور ایک انفرادی مزاج ہے، ظرافت کی ایک ہلکی سی چاشنی بھی ہے۔

    الہلال میں تصویروں کی اشاعت کے بارے میں لکھتے ہیں، ’’سچ پوچھئے تو تصویروں کی اشاعت تو ہمارا ایک ضمنی کام ہے اور زیادہ تر اس لئے ہے کہ بزم میں اہل نظر بھی ہیں، تماشائی بھی۔‘‘ مولانا نذیر احمد کے ورثا ان کی قومی خدمات کے اعتراف میں علی گڑھ کالج میں ان کی کوئی یادگار قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بارے میں مرحوم کے ورثا کو خطاب کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’اس دروازے کو کسی بوجھل جیب سے کھٹکھٹائیے تو جواب ملےگا۔‘‘

    مولانا سیاسی نوعیت کے جو مضامین الہلال میں لکھتے تھے ان پر سخت اعتراض اخبار ’’پانیر‘‘ الہ آباد کی طرف سے ہوا تھا اور حکومت نے اس کا نوٹس بھی لیا تھا۔ ان اعتراضات میں مولانا کے اسلوب پر بھی ایک دلچسپ تبصرہ ہے۔ پانیر نے لکھا تھا کہ، ’’آغاز جنگ کے وقت سے اس (الہلال) کی روش حیرت نگیز طور پر پروجرمن رہی ہے۔ جو لوگ اخبارات پڑھتے رہتے ہیں ان کے لئے یہ امر تعجب انگیز ہے کہ کیوں کر گورنمنٹ اب تک اس کی تحریروں کو برداشت کرتی رہی۔ ایک اور سبب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے سب سے زیادہ شرارت انگیز مضامین کااسلوب کنایہ آمیز، مخفی استہزاء یا پوشیدہ تمسخر اور اشارات سے لبریز ہوتاہے جن میں سے اکثر کا یہ حال ہوتا ہے کہ جب ان کاترجمہ انگریزی میں کیا جاتا ہے تو یا تو ان کا اثر غایب ہوجاتا ہے یا وہ اثر کارگر نہیں ہوتا۔ اس کا ایڈیٹر جو قرآن سے اقتباس کرنے کا بیحد شائق ہے اس نے قرآن کی مشہور آیت (جرمنی کی پیرس کی طرف پیش قدمی کے موقع پر) اقتباس کی تھی جس میں مکڑی کے جالے کے کمزور ہونے کا ذکر ہے۔‘‘

    پانیر کااس زمانے میں بڑا دبدبہ تھا اور حکومت اس کی آواز پر بہت توجہ کرتی تھی۔ اکبرؔ نے اسی لئے تو کہا تھا،

    کام وہ ہے جو ہو گورنمنٹی

    بات وہ ہے جو پانیر میں چھپے

    اکبرؔ کا ایک اور شعر بھی اس سلسلے میں بڑے گہرے طنز کا حامل ہے،

    گھر سے خط آیا ہے کل ہو گیا چہلم ان کا

    پانیر کہتا ہے بیمار کا حال اچھا ہے

    اس شعر کے سیاسی سیاق و سباق پر زور دینے کی ضرورت نہیں۔

    ’’برن و خرمن‘‘ کے عنوان سے ۱۹۱۶ء سے ۱۹۲۱ء تک کی سرگزشت مولانا نے اس طرح بیان کی ہے، ’’علم کی زندگی سیاست کی زندگی سے کچھ اس طرح مختلف واقع ہوئی ہے کہ دونوں کا ایک ہی وقت اور محل پر جمع ہونا بہت مشکل ہے۔ میری زندگی کی مشکلات میں پہلی شکل یہ واقع ہوئی کہ میں نے چاہا دونوں کو بیک وقت محل جمع کر دوں۔‘‘

    غبار خاطر میں مولانا نے اس دور کے متعلق لکھا ہے، ’’چوبیس برس کی عمر میں جب کہ لوگ عشرتِ شباب کی سرمستیوں کا سفر شروع کرتے ہیں میں اپنی دشت نوردیاں ختم کرکے تلووں کے کانٹے چن رہا تھا۔ گویا اس معاملے میں بھی اپنی چال زمانے سے الٹی ہی رہی۔ لوگ زندگی کے جس مرحلے میں کمر باندھتے ہیں میں کھول رہا تھا،

    کام تھے عشق میں بہت پرمیرؔ

    ہم تو فارغ ہوئے شتابی سے۔‘‘

    الہلال کے اسلوب میں چونکہ دعوت ہے اس لئے خطابت بھی ہے مگر یہ صرف خطابت کی طلسم بندی نہیں ہے۔ اس میں گنجینہ معنی بھی ہے۔ اس میں ایک وسیع مطالعے، عربی، فارسی، اردو، فرانسیسی اور ترکی زبانوں کے برگزیدہ اسالیب کا عطر بھی ہے۔ اس میں آیات اور اشعار کے برمحل حوالوں سے ایک لطف و کیف بھی ہے۔ اس میں خندۂ تیغ اصیل بھی ہے اور گریۂ ابر بہار بھی۔ اس پر یہ اعتراض کہ آج کے قاری کے لئے زود ہضم نہیں دیر ہضم ہے۔ رشید احمد صدیقی نے ابتہاج و اہتزاز جیسے الفاظ استعمال کرتے ہوئے لکھا تھا کہ آج کل لوگ اس رنگ پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں حالانکہ بات صرف اتنی سی ہے کہ سخن شناس نئی دلبرا خطا اینجاست۔

    جب الہلال کے بعد البلاغ بھی بند ہوگی اور مولانا کو رانچی کے قرب ونواح میں قیام کرنا پڑا تو اس زمانے میں ایک دوست کی فرمائش پر تذکرہ لکھا گیا۔ اصل مقصود تو مولانا کی خودنوشت سوانح عمری تھی مگر بزرگوں کا تذکرہ ہی اتنا طویل ہوگیا کہ اس کی صرف پہلی جلد شائع ہو سکی۔ اس کے آخر میں ناشر کے اصرار پر ایک باب میں مولانا نے اپنے حالات بھی قلم بند کیے ہیں۔ باب کے شروع میں لکھا ہے، ’’کئی سو صفحے روشن دلانِ سلف کے تذکرۂ آثار و مناقب سے نورانی ہو چکے ہیں، اب دو چار صفحے اپنی سیہ رؤیوں اور سیہ بختیوں کے سوادِ تحریر سے بھی سیاہ کرتا ہوں۔‘‘ تذکرہ کے متعلق ضیاء احمد بدایونی نے ’’اردو ادب‘‘کے ’’آزاد نمبر‘‘ میں لکھا ہے۔ ’’یہ کتاب ایک طرف علمی نکات، مذہبی اشارات، تاریخی بصائر، اخلاقی بصیرت کا گنجینہ ہے اور دوسری طرف بداعت اسلوب اور لطافت بیان کا خزینہ۔‘‘ تذکرہ میں چونکہ مولانا نے اپنے ان اسلاف کا ذکر کیا ہے جن کی مذہبی و علمی خدمات قابل قدر تھیں اس لئے موضوع کی رعایت سے قدرتی طور پر عربی فارسی کے الفاظ و تراکیب نمایاں ہوگئے ہیں۔ اسلوب عالمانہ بھی ہے، خطیبانہ بھی اور ادیبانہ اور شاعرانہ بھی۔ چند اقتباسات سے یہ بات واضح ہو جائےگی،

    ’’ستاروں سے تمام فضائے آسمانی بھری پڑی ہے لیکن دمدار ستارے ہمیشہ طلوع نہیں ہوتے۔ یہی حال اصحابِ عزائم کا بھی ہے۔ وہ کائنات ہستی کا ایک بالکل الگ گوشہ ہے اور وہاں کے احکام و قوانین کو دنیا کے اعمال مادیہ پر قیاس کرنا غلطی ہے۔‘‘

    علمائے سو و فقہائے وجل جنہوں نے دین بیچ کر دنیا خریدی ان کا حال مولانا کے قلم سے اس طرح رقم ہوا ہے، ’’سانپ اور بچھو ایک سوراخ میں جمع ہو جائیں گے لیکن علمائے دنیا پرست کبھی ایک جا اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ کتوں کا مجمع ویسے تو خاموش رہتا ہے لیکن ادھر قصائی نے ہڈی پھینکی ادھر ان کے پنجے تیز اور دانت زہر آلود ہو گئے۔ یہی حال ان سگانِ دنیا ہے۔‘‘

    اپنے عہدِ شباب کی سرمستی و تردامنی کے متعلق بڑے بلیغ اشارے ہیں۔ کوئی بات صاف صاف نہیں کہہ دی مگر پردے پردے میں سب کچھ کہہ دیا، ’’ایک قید ہو تو ذکر کیجئے، ایک زنجیر ہو تو اس کی کڑیاں گنیے۔ ایک دل تھا مگر تیر ہزاروں ہاتھوں میں تھے۔ نظر ایک تھی مگر جلوؤں سے تمام عالم معمور تھا۔ ہر کشش نے اپنا تیر چلایا، ہر رہزن نے اپنی کمند پھینکی، ہر فسوں ساز نے اپنا فسوں محبت پھونکا، ہر جلوۂ ہوش ربا نے صرف اپنے ہی دامِ الفت میں اسیر اور اپنی ہی فتراک اسیری کا نخچیر رکھنا چاہا۔ بقول مہدی افادی اب خیال کے لئے کیا باقی رہا۔‘‘

    اس میں شک نہیں کہ تذکرہ میں مولانا کے اسلوب کی علمیت اور خطابت دونوں اپنے عروج پر ہیں۔ کہیں کہیں بے جا تفصیل اور تکرار بھی ہے مگر الہلال کے دور کے اسلوب کی رفعت و جزالت اور اس کے ساتھ اس کی خواص پسندی (ELITISM) بھی اپنے شباب پر ہے۔ مگر مولانا صرف اس روش پر نہیں چلے۔ ترجمان القرآن میں مولانا کا اسلوب نسبتاً سادگی بھی لئے ہوئے ہے اور زیر باری بھی۔ یہ حکیمانہ اسلوب ہے۔ یہ خطیبانہ نہیں مگر عالمانہ ہے مگر عالمانہ ہوتے ہوئے روشنی کے ساتھ گرمی بھی رکھتا ہے۔ اب جملے اتنے طویل نہیں، عربی فارسی کا استعمال تو ناگزیر ہے مگر ان کے ’’پہاڑ نہیں لڑھکائے گئے۔‘‘ ترجمان کے انتساب کا یہ اقتباس دیکھئے جو ایک ایسے شخص کے نام ہے جو قندھار سے چل کر رانچی مولانا سے ترجمان القرآن کے بعض نکات سمجھنے کے لئے آیا تھا جس نے سفر کا بیشتر حصہ پیدل طے کیاتھا مگر مولانا سے ملے بغیر چلا گیا تھا۔

    ’’مجھے اس کا نام یاد نہیں۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ زندہ ہے یا نہیں لیکن اگر میرے حافظے نے کوتاہی نہ کی ہوتی تو میں یہ کتاب اس کے نام سے منسوب کرتا۔‘‘

    ترجمان کے اسلوب کا اندازہ تو انتساب کے اس اقتباس سے ہی ہو جاتا ہے مگر مزید وضاحت کے لئے پہلی جلد کی تمہید کا یہ حصہ بھی ذہن میں رہے تو اچھا ہے، ’’اب کہ ترجمان القرآن کی پہلی جلد شائع ہو رہی ہے اور دوسری زیر طبع ہے۔ میں یہ کہنے کی جرأت کرتا ہوں کہ مسلمانوں کی مذہبی اصلاح کی راہ سے وقت کی سب سے بڑی رکاوٹ دور ہو گئی۔‘‘ ۵۲)

    ترجمان القرآن کا ایک مسودہ حکومت نے مولانا کی نظر بندی کے وقت ان کے کاغذات کے ساتھ ضبط کر لیا تھا۔ ایک عرصے کے بعد جب وہ کاغذات واپس ملے تو مسودہ اس قابل نہ رہا تھا کہ اسے پڑھا جاسکے۔ چنانچہ مولانا کو بہت جبر کرکے اسے دوبارہ لکھنا پڑا۔ یہ کام کتنا مشکل اور صبر آزما ہوتا ہے اس کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو اس عذاب سے دوچار ہو چکا ہو۔ بہر حال مولانا پر بھی یہ سخت دور گزرا مگر پھر موضوع کی اہمیت اور فرض کا احساس غالب آیا۔ انہوں نے ترجمان القرآن کے آغاز میں لکھا بھی ہے، ’’ابتدا میں چند دنوں تک طبیعت رکی رہی ہے لیکن جونہی ذوق و فکر کے دوچار جام گردش میں آئے طبیعت کی ساری رکاوٹیں دور ہوگئیں اور پھر تو ایسا معلوم ہونے لگا گویا اس شورش کدۂ ہستی میں کبھی افسردگی و خمار آلودگی کا گزر ہی نہیں ہوا تھا۔‘‘ (ص۶۴ ترجمان)

    ترجمان القرآن کے یہ اقتباسات ہی اس بات کا ثبوت ہیں کہ اس کا اسلوب وہ نہیں جو الہلال اور تذکرہ کا ہے۔ الہلال اور تذکرہ کے اسلوب میں خطیبانہ لب و لہجہ اور آہنگ زیادہ تھا۔ ترجمان میں حکیمانہ لہجہ نمایاں ہے گو خطابت کی ایک زیریں لہر یہاں بھی مل جاتی ہے کیوں کہ یہ مولانا کے مزاج کی ایک خصوصیت ہے اور وہ اسے یکسر ترک نہیں کر سکتے۔ مولانا کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ موضوع کوئی ہو، وہ کسی نہ کسی طرح اپنے متعلق کچھ اشارے ضرور لے آتے ہیں۔ یہ انانیت اور میں کی یہ تکرار عام حالتوں میں ناگوار ہوتی مگر مولانا اس کا رشتہ بعض حقائق اور مسائل سے اس طرح ملا دیتے ہیں کہ یہ نہ صرف گوارا ہوجاتی ہے بلکہ بات کو کچھ اور مستحکم بنا دیتی ہے۔ ترجمان کے آغاز میں انہوں نے لکھا ہے،

    ’’جو کچھ قدیم ہے وہ مجھے ورثے میں ملا اور جو کچھ جدید ہے اس کے لئے اپنی راہیں آپ نکالیں۔ میرے لئے وقت کی جدید راہیں بھی ویسی ہی دیکھی بھالی ہیں جس طرح قدیم راہوں کے چپے چپے کا شناسا رہا ہوں۔‘‘ ۷۵ ترجمان)

    آگے چل کر یہی حکایت کچھ شاعرانہ انداز میں بیان ہوئی ہے، ’’میرے دل کا کوئی یقین ایسا نہیں ہے جس میں شک کے سارے کانٹے نہ چبھ سکے ہوں اور میری روح کا کوئی اعتقاد ایسا نہیں ہے جو انکار کی ساری آزمائشوں سے نہ گزر چکا ہو۔ میں نے زہر کے گھونٹ بھی ہر جام سے پیے ہیں اور تریاق کے نسخے بھی ہر دارالشفا کے آزمائے ہیں۔ میں جب پیاسا تھا تو میری تشنگیاں بھی دوسروں کی طرح نہ تھیں اور جب سیراب ہوا تو میری سیرابی کا چشمہ بھی شاہراہ ِ عام پر نہ تھا۔‘‘ ۷۶ ترجمان)

    تمہید میں بہر حال شاعرانہ انداز کی کچھ گنجائش ہوتی ہی ہے۔ شبلیؔ کے سیرۃ النبی کا آغاز اس کا ثبوت ہے۔ مگر ترجمان کا عام اسلوب یہ ہے جو ہر لحاظ سے موضوع کی مناسبت سے سادہ، پرکار اور حکیمانہ کہا جاسکتا ہے، ’’یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا میں جو چیز زیادہ حقیقت سے قریب ہوتی ہے اتنی ہی زیادہ سہل اور دل نشین بھی ہوتی ہے اور خود فطرت کا یہ حال ہے کہ کسی گوشہ میں بھی الجھی ہوئی نہیں ہے۔ الجھاؤ اور اشتعال جس قدر بھی پیدا ہوتا ہے بناوٹ اور تکلف سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جو بات سچی اور حقیقی ہوگی ضروری ہے کہ سیدھی سادی اور دل نشین بھی ہو۔‘‘ ۴ ترجمان)

    ترجمان کا مرکزی خیال اس طرح بیان ہوا ہے، ’’ایک چیز دین ہے۔ ایک شرع و منہاج ہے۔ دین ایک ہی طرح پر سب کو دیا گیا ہے البتہ شرع و منہاج میں اختلاف ہوا، اور یہ اختلاف ناگزیر تھا کیوں کہ ہر عہد اور قوم کی حالت یکساں نہ تھی اور ضروری تھا کہ جیسی جس کی حالت ہو ویسے ہی احکام و اعمال اس کے لئے اختیار کئے جائیں۔ پس شرع و منہاج کے اختلاف سے اصل دین مختلف نہیں ہوجاتے۔ تم نے دین کی حقیقت تو فراموش کردی ہے محض شرع ومنہاج کے اختلاف پر ایک دوسرے کو جھٹلا رہے ہو۔‘‘ ۱۹۲ ترجمان)

    قبل اس کے کہ میں مولانا کے ادبی شاہکار غبارِ خاطر کے اسلوب پر تبصرہ کروں، چند باتیں کہنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ۱۹۲۶ء کے بعد یعنی ترجمان القرآن کی دو جلدوں کی اشاعت کے بعد مولانا کا زیادہ تر وقت سیاسی سرگرمیوں میں گزرا۔ ان کے خطبات کو مالک رام نے یکجا کرکے شائع کردیا ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ ان میں سے کئی خطبے پہلے سے لکھے نہیں گئے تھے اور زود نویسوں کے ذریعہ ان کا جو روپ سامنے آیا ہے اس میں اگرچہ مولانا کی خطابت کا آہنگ موجود ہے مگر یہ قطعی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ ان کی تحریر بھی ہیں۔ مثلاً مولانا نے عربی نصاب کمیٹی کے سامنے جو تقریر لکھنؤ میں فروری ۱۹۴۷ء میں کی تھی۔ اس کے سامعین میں میں بھی موجود تھا اور یہ تقریر کسی تحریری مواد کے بغیر ہوئی تھی۔

    اسی طرح مسلمانان دہلی کے اجتماع میں ان کی جو تقریر ہوئی تھی وہ بھی کسی تحریری مواد کے بغیر تھی۔ اس کے علاوہ میں نے دسمبر ۱۹۴۷ء میں لکھنؤ میں مولانا کی تقریر سنی تھی جس میں مسلمانوں کو کانگریس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ پھر ۱۹۵۲ء، ۱۹۵۳ء میں یومِ غالبؔ کے موقع پر مزار غالبؔ کے قریب ان کی تقریر اور فروری ۱۹۵۸ء میں انجمن ترقی اردو ہند کے اختتامی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ان کی تقریریں بھی میں نے سنی تھیں۔ آخری تقریر تو انتقال سے ایک ہفتہ پہلے ہی ہوئی تھی۔ ان کے آخر زمانے کی تقریریں، ان کے عہد شباب کی تقریروں سے بالکل مختلف تھیں۔ ان میں خطابت برائے نام تھی۔ عام اسلوب کام کی بات سیدھے سادے انداز میں کہنے کاتھا۔

    اس طرح اصغرؔ کے ’’سرور زندگی‘‘ پر پیش ِ لفظ یا بہاء الدین کے‘‘ گلستاں ہزار رنگ‘‘ پر اظہار خیال یا مثنویات میر بخت میر پر تمہیدی کلمات کا اسلوب الہلال اور تذکرہ کے اسلوب سے بالکل مختلف ہے۔ ہاں اشعار کے برمحل استعمال کا ذوق ان تقریروں اور تبصروں میں بھی اپنا رنگ دکھائے بغیر نہیں رہتا۔ اشعار کے برمحل استعمال سے ان کے اسلوب میں ایک خاص کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ محمد اجمل خاں نے ’’اردو ادب‘‘ کے ’’آزاد نمبر‘‘ میں مولانا کی گھریلو زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک جگہ لکھا ہے کہ،

    ’’وہ لکھنے سے پہلے بہت سے اشعار مستحضر کر لیتے تھے اور انہیں مضمون میں اس طرح سموتے تھے کہ شاعر سنتا تو خود حیران رہ جاتا کہ شعر کس قدر بلند، لطیف اور سلیس ہو گیا ہے۔ ان کی عادت تھی کہ عبارت میں ایجاز پیدا کرنے کے لئے لکھتے تھے اور نظر ثانی سے پہلے ہی کاٹتے چلے جاتے تھے، لفظوں اور خیالوں کو تولتے تھے اور ایک عدیم النظیر صناع کی طرح انہیں موزوں ترین مقامات پر جڑ دیتے تھے۔ اب کس کی مجال ہے کہ ان کو اپنی جگہ سے ہلائے۔‘‘ (اردو ادب آزاد نمبرص ۲۱)

    اس مضمون سے دو اور اقتباسات شاید مولانا کی شخصیت اور ان کے اسلوب کو سمجھنے کے لئے مفید ہوں، ’’صحبتِ عوام سے گریز کرتے، خواص سے بھی بہت کم ملتے تھے۔ وہ احباب جو مہمان ہوتے (مثلاً قاضی عبدالغفار اور غلام رسول مہرؔ) ان سے بھی ملاقات کا موقع بہ مشکل ہی میسر آتا تھا۔ مولانا نے عربی اور خصوصاً فارسی کی اکثر کتابیں پڑھ ڈالی تھیں لیکن بعد میں انگریزی کتابوں کا شوق بے حد بڑھ گیا تھا۔ کھانے کی میز پر، اپنے گھر پرہوں یا باہر، وہ گل افشانی کرتے تھے کہ جی چاہتا تھا کہ صبح سے شام تک کھائے جاؤ اور ان کی شیریں گفتاری اور نمکینی ادا سے ذائقۂ سماعت حاصل کرتے رہو۔ سگرٹ اور کتاب زندگی کے دو جزو لاینفک تھے۔‘‘

    مجھے آخری چار پانچ سال میں کئی دفعہ مولانا سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ خاص طور سے ساہتیہ اکادمی کے اردو مشاورتی بورڈ کے جلسوں میں میں نے یہ بات نوٹ کی کہ انگریزی کا ایک لفظ بے ساختہ ان کی زبان پر آگیا تھا مگر اس کا تلفظ مولویانہ تھا۔ اس وجہ سے مولانا گفتگو میں کوئی لفظ انگریزی کا آنے ہی نہ دیتے تھے۔ دوسری بات یہ قابل ذکر ہے کہ مولانا کوئی دلچسپ فقرہ اکثر کہہ جاتے تھے۔

    ایک دفعہ میں نے اخترالایمان کی ایک نظم ساہتیہ اکادمی کے نظموں کے سالانہ انتخاب کے لئے پیش کی۔ ہنس کر کہنے لگے کہ ان کی نظم کیسے شامل کریں، ان کا تو نام ہی غلط ہے۔ میں نے فوراً جواب دیا کہ اس نام میں وہی غلطی ہے جو خورشیدالاسلام کے نام میں ہے۔ خورشیدالاسلام کے ایک مضمون کی مولانا کچھ عرصہ پہلے تعریف کر چکے تھے۔ دونوں نام واقعی عربی قاعدے سے غلط ہیں۔ میرا اشارہ اسی طرف تھا۔ قاضی عبدالغفار اور ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ تو سناٹے میں آگئے۔ مگر مولانا نے ہنس کر جواب دیا کہ اچھا میرے بھائی سمجھوتہ ہوجائے۔ یہ اپنا نام بدل دیں، ہم ان کی نظم شامل کردیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ سب کچھ تفریحاً کہا گیا تھا مگر اخترالایمان نے اس کا برا مانا اور ایک نظم اس سلسلے میں لکھ ڈالی۔

    ان باتوں کا تذکرہ اس لئے ضروری معلوم ہوا کہ غبار خاطر کے اسلوب کے مطالعے میں ان سے کچھ مدد ملتی ہے۔ غبار خاطر کہنے کو تو ان خطوط پرمشتمل ہے جو نواب صدر یار جنگ کو لکھے گئے مگردر اصل یہ ایک طرح کے انشائیے ہیں جن میں نواب صدر یار جنگ کو مخاطب کرکے انہوں نے سیاست کے علاوہ بہت سے دوسرے موضوعات پر اظہار خیال کیا ہے۔ ڈگلس (DOGLAS) نے مولانا آزاد پر اپنی کتاب میں، جو حال میں شائع ہوئی ہے یہ سوال اٹھایا ہے کہ مولانا آزاد نے احمد نگر جیل میں ترجمان القرآن کا کام پورا کیوں نہیں کیا جب کہ جواہر لال نہرو نے پانچ مہینے میں‘‘ تلاش ہند‘‘ لکھ ڈالی۔

    اس کی ایک وجہ تو یہ ہوسکتی ہے کہ مولانا کو جیل میں وہ تمام کتابیں میسر نہ ہوتیں جن کی ترجمان القرآن کے سلسلے میں ضرورت پڑ سکتی تھی۔ دوسری وجہ میرے نزدیک یہ تھی کہ مولانا اگرچہ ۱۹۲۱ء کے بعد ترجمان کے کام سے قطعاً غافل نہ رہے تھے مگر دس بارہ سال سے سیاسی مصروفیات نے انہیں اتنی مہلت ہی نہ دی تھی کہ وہ ترجمان القرآن کو مکمل کر سکتے۔ اس لئے جب احمد نگر جیل میں انہیں پھر وہ تنہائی نصیب ہوئی جو انہیں مرغوب تھی تو انہوں نے زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر اپنے تاثرات اور اپنے مرکزی خیالات کے آزادانہ اظہار کو زیادہ پسند کیا۔ بہر حال غبار خاطر اس لحاظ سے ایک ادبی کارنامہ ہے کہ مولانا کی شخصیت، افتادِ مزاج، ان کے ذوق، ان کی دلچسپیوں اور مشاغل، فلسفے، مذہب، فنون لطیفہ، تاریخی معلومات کے متعلق اس میں بڑے دلکش اشارے ملتے ہیں۔

    غبارِ خاطر کا اسلوب ہے تو صاحب الہلال کا مگر الہلال کے اسلوب سے خاصا مختلف ہے۔ غبار خاطر میں معمولی واقعات سے زندگی کے قوانین اخذ کرنے، فطرت کے مظاہر میں زندگی کے ارتقا کے رموز دریافت کرنے، موسم کی تبدیلیوں، پھولوں کے رنگوں، پرندوں کی پرواز میں کائنات کے حقائق دیکھنے اور دکھانے کا ایک ایسا دفتر ہے جس کے ہر ورق سے ہمیں معرفت اور بصیرت کے کتنے ہی نکتے ہاتھ آتے ہیں۔ یہ اقتباسات دیکھئے،

    ’’اس کارخانۂ ہزار شیوہ و رنگ میں کتنے ہی دروازے کھولے جاتے ہیں تاکہ بند ہوں اور کتنے ہی بند کئے جاتے ہیں تاکہ کھل سکیں۔‘‘

    ’’فلسفہ شک کادروازہ کھول دے گا اور پھر اسے بند نہیں کرسکے گا، سائنس ثبوت دے گا مگر عقیدہ نہیں دے سکے گا لیکن مذہب ہمیں عقیدہ دے دیتا ہے۔‘‘ (ص۳۷)

    ’’مذہب کی تسکین صرف ایک سلبی تسکین نہیں ہوتی بلکہ ایجابی تسکین ہوتی ہے کیوں کہ وہ ہمیں اعمال سے روندتی اقدار کایقین دلاتا ہے اور یہی یقین ہے جس کی روشنی کسی دوسری جگہ سے نہیں مل سکتی۔‘‘ ۴۱)

    ’’جب لوگ کام جوئیوں اور خوش وقتیوں کے پھول چن رہے تھے تو ہمارے حصے میں تمناؤں اور حسرتوں کے کانٹے آئے۔ انہوں نے پھول چن لئے اور کانٹے چھوڑ دئیے۔ ہم نے کانٹے چن لئے اور پھول چھوڑ دیئے۔‘‘ ۴۶)

    ’’دعائیں ضرور فائدہ پہنچاتی ہیں مگر انہیں کو فائدہ پہنچاتی ہیں جو عزم و ہمت رکھتے ہیں۔ بے ہمتوں کے لئے تو وہ ترکِ عمل کا حیلہ بن جاتی ہیں۔‘‘ (ص۱۴۹)

    ’’جوں ہی اس کی کھوئی ہوئی خود شناسی جاگ اٹھی اورا سے اس حقیقت کا عرفان حاصل ہو گیا کہ میں اڑنے والا پرندہ ہوں، اچانک قالب بے جان کی ہر چیز ازسرِ نو جاندار بن گئی۔‘‘

    ’’رات کاسناٹا، ستاروں کی چھاؤں، ڈھلتی ہوئی چاندنی اور اپریل کی بھیگی ہوئی رات، چاروں طرف تاج کے منارے سر اٹھائے کھڑے تھے۔ برجیاں دم بخود بیٹھی تھیں۔ بیچ میں چاندنی سے ڈھلا ہوا مرمریں گنبد اپنی کرسی پر بے حس و حرکت متمکن تھا۔ نیچے جمنا کی رو پہلی جدولیں کل کھا کھا کر دوڑ رہی تھیں اور اوپر ستاروں کی ان گنت نگاہیں حیرت کے عالم میں تک رہی تھیں۔‘‘ ۲۵۹)

    اگرچہ رام گڑھ کا خطبہ غبارِ خاطر سے پہلے کا یعنی ۱۹۴۰ء کا ہے مگر میں اس کا ذکر خاص طور سے اس لئے آخر میں کرنا چاہتا ہوں کہ اس سے مولانا کے آخری دور کا اسلوب اپنی ساری بلاغت اور تاثر کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ خطبہ لکھا گیا تھا اور جواہر لال نہرو نے اس کا انگریزی میں ترجمہ بھی کیا تھا۔ اس میں مسلمان اور متحدہ قومیت پر انہوں نے جس طرح اظہارِ خیال کیا ہے وہ ان کی گہری سیاسی بصیرت کے ساتھ ان کے اسلوب کی ان ناگزیریت (Inevitability) کی بھی دلیل ہے جو بقول برنارڈشا اسلوب کی روح ہے۔ ذہن میں روشنی، دل میں کیفیت اور شخصیت میں گداز پیدا کرنے کے لئے اس حرفِ شوق میں کیا کچھ نہیں۔

    ’’میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ مسلمان ہوں۔ اسلام کی تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں۔ میں تیار نہیں کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں۔ اسلام کی تعلیم، اسلام کی تاریخ، اسلام کے علوم و فنون، اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں۔ بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرے میں اپنی ایک خاص ہستی رکھتا ہوں اور میں برداشت نہیں کر سکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتا ہوں جسے میری زندگی کی حقیقتوں نے پیدا کیاہے۔ اسلام کی روح مجھے اس سے نہیں روکتی۔ وہ اس راہ میں میری رہنمائی کرتی ہے۔ میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں۔ میں ہندوستان کی ایک اور ناقابلِ تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں۔ میں اس متحدہ قومیت کا ایک ایسا عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورارہ جاتاہے۔ میں اس کی تکوین (بناوٹ) کا ایک ناگزیر عامل (FACTOR) ہوں میں اپنے اس دعویٰ سے کبھی دست بردار نہیں ہو سکتا۔‘‘ ۲۸۹ خطبات)

    مولانا آزاد کی مذہبی اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کی ادبی کاوشوں اور کارناموں کی پوری پرکھ نہ ہو سکی۔ آزادی کے بعد اردو داں طبقہ اپنے کلاسیکی سرمائے سے کم ہی آشنا رہا۔ اردو کی تعلیم میں نظم و نثر کے نمائندہ اسالیب کا علم و عرفان کم ہوگیا۔ اس لئے اس تعجب نہیں کرنا چاہیے کہ مولانا کے اسلوب کو صرف الہلالی اردو میں محدود سمجھ لیا گیا اور ترجمان اور غبار خاطر کی بصیرت اور مسرت کو نظر انداز کر دیا گیا۔ بہر حال یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اردو نثر میں مولانا آزاد کا اسلوب بھی اپنی لالہ کاری اور تازہ کاری کی وجہ سے ایک خاص درجہ رکھتا ہے۔ بقول غالبؔ،

    ہے رنگ لالہ و گل و نسریں جدا جدا

    ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے