میر انیس کے مرثیوں میں تصویرکشی کا فن
مرثیہ اردو شاعری کی ایک ایسی صنف ہے جس کی کوئی مثال کسی دوسری زبان میں نہیں ملتی۔ دوسری زبانوں میں کچھ شخصی مرثیے ضرور مل جائیں گے لیکن ان میں وہ وسعت اور ہمہ گیری نہیں جو اردو مرثیے میں ہے۔ اردو مرثیوں میں ایسی جمالیاتی فن کاری ہے جس کی مثال خود اردو شاعری کی دوسری اصناف سے نہیں دی جا سکتی۔ میر انیس نے اسے جذبات و احساسات اور تہذیب و ثقافت کا ایسا مرقع بنا دیا ہے کہ لفظ لفظ ایک زندہ اور متحرک تصویر بن گیا ہے۔
اردو شاعری میں یوں تو واقعہ نگاری اور مرقع نگاری کی بے شمار مثالیں مل جائیں گی۔ غزل میں بھی پیکرتراشی کے بڑے نازک نمونے موجود ہیں لیکن مرثیہ میں تصویرکشی ایک آرٹ بن گئی ہے اور شاید مرثیے کی مقبولیت اور اس کی ادبی قدر میں اضافے کا ایک سبب اس میں تصویرکشی کا فن بھی ہے۔ مرثیے میں یہ تصویر کشی قدیم مرثیہ گویوں کے یہاں بھی ہے اور جدید مرثیہ گو شعرا کے یہاں بھی۔ لیکن میر انیس نے تصویرکشی کے فن کی طرف خصوصی توجہ دی ہے اور اس میں الفاظ سے ایسے شاہکار مرقع بنائے ہیں جس کی دوسری مثال مشکل سے ملےگی۔
میر انیس کا تصویرکشی کی طرف خصوصی توجہ د ینے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ مرثیہ ایک طویل بیانیہ نظم ہے، جسے سامعین کے سامنے پڑھا جاتا ہے۔ سننے والوں کو کئی گھنٹے اپنی طرف متوجہ رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ جو کچھ پڑھا جا رہا ہے، سامعین سننے کے ساتھ ساتھ اسے دیکھ بھی سکیں۔ یہ اسی وقت ممکن تھا کہ وہ لمحہ بہ لمحہ رونما ہونے والے واقعات کا خود ایک حصہ بن جائیں۔ ایسی صورت میں ضرورت تھی کہ جو کچھ بیان کیا جا رہا ہے اس کی تصویر سامع کی نگاہوں کے سامنے آ جائے۔ میر انیس نے صرف واقعات اور مناظر کی ہی تصویرکشی نہیں کی بلکہ جذبات کی عکاسی بھی کی اور رزم وبزم کی ایسی متحرک تصویریں پیش کیں کہ شبلی کو کہنا پڑا کہ ’’میر انیس نے واقعہ نگاری کو جس کمال کے درجے تک پہنچایا ہے، اردو کیا فارسی میں بھی اس کی نظیریں مشکل سے مل سکتی ہیں۔‘‘
میر انیس کے یہاں تصویر کشی کے اس فن کی خصوصیت یہ ہے کہ واقعات اور مناظر کی صرف سطحی اور بے جان تصویریں نہیں ہیں بلکہ زندہ اور متحرک تصویریں ہیں۔ شخصی پیکر تراشی کسی لفظ یا اشارے کے ذریعہ اتنی مشکل نہیں جتنی کسی واقعہ یا منظر کی تصویر۔ اس لیے کہ منظر یا واقعہ تنہا نہیں ہوتا، اس سے بہت سی دوسری چیزیں وابستہ ہوتی ہیں اور اگر اس سے متعلق تمام جزئیات کی تصویر نہیں بنتی تو منظرسپاٹ اور واقعہ بے کیف ہو جاتا ہے۔ مرقع اسی وقت تکمیل کو پہنچتا ہے جب تمام جزئیات اور ان کی کیفیات اس میں جھلکنے لگیں۔ تصویرکشی کی یہ مثالیں کم وبیش ہر مرثیہ گو کے یہاں مل جاتی ہیں لیکن اس کی جتنی کامیاب اور پراثر مثالیں میر انیس ومرزا دبیر کے یہاں ملتی ہیں، وہ کم یاب ہیں۔ انہوں نے الفاظ کے ذریعہ تصویرکشی کو ایک آرٹ بنا دیا ہے۔ میر انیس نے کہا تھا،
قلم فکر سے کھینچوں جو کسی بزم کا رنگ
شمع تصویر پہ گرنے لگیں آ آ کے پتنگ
صاف حیرت زدہ مانی ہو تو بہزاد ہودنگ
خون برستا نظر آئے جو دکھاؤں صف جنگ
رزم ایسی ہوکہ دل سب کے پھڑک جائیں ابھی
بجلیاں تیغوں کی آنکھوں میں چمک جائیں ابھی
میر انیس نے اپنی شاعری کے لیے یہ دعا کی تھی۔ ایسی مقبولیت کم دعاؤں کو میسر آئی ہوگی۔ وہ اگر اس کا دعویٰ بھی کرتے تو اس میں ذرہ برابر مبالغہ نہ ہوتا۔ اس لیے کہ وہ جس کیفیت کی تصویر کشی کرتے ہیں سننے والا اسی کیفیت کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ یعنی اگر وہ خنکی و ٹھنڈک یا صبح کا منظر بیان کرتے ہیں تو اس کی صرف تصویر ہی نظر نہیں آتی بلکہ وہی خنکی محسوس ہونے لگتی ہے یا اگر گرمی اور حبس کا ذکر کرتے ہیں تو وہی احساس ہونے لگتا ہے۔ یعنی ان کا زور تصویر سے زیادہ اس کیفیت پر ہوتا ہے جس کے سحر میں وہ سامعین کو گرفتار کر لیتے ہیں۔ یہ بند آپ کئی بار پڑھ چکے ہوں گے۔ اب آپ صبح کی کیفیت کی تصویر کشی کے حوالے سے اسے ملاحظہ کیجئے،
ٹھنڈی ٹھنڈی وہ ہوائیں وہ بیاباں و سحر
دم بدم جھومتے تھے وجد کے عالم میں شجر
اوس نے فرش زمرد پہ بچھائے تھے گہر
لوٹی جاتی تھی لہکتے ہوئے سبزے پہ نظر
دشت سے جھوم کے جب بادصبا آتی تھی
صاف غنچوں کے چٹکنے کی صدا آتی تھی
اس بند کے اہتمام پر توجہ دیجئے۔ اس بند کا ہر پہلا مصرع عام، بیانیہ تصویر یا منظر نگاری ہے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں، بیاباں اور سحر مل کر صبح کا منظر تخلیق کرتے ہیں لیکن دوسرا مصرع میر انیس کی فن کاری ہے جو اس منظر سے پیدا ہونے والی کیفیت کی تصویر پیش کرتا ہے۔ یعنی دم بدم جھومتے تھے وجد کے عالم میں شجر۔ وجد ایک بے خودی اور وارفتگی کی کیفیت کا نام ہے جسے سیل ہوا میں اشجار کے جھومنے کی تصویر میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح دوسرا مصرع اوس نے فرش زمرد پہ بچھائے تھے گہر، صرف ایک تصویر ہے جو صبح کو کسی باغ میں جاکر اپنے کیمرے کی گرفت میں لی جا سکتی ہے لیکن ’’لوٹی جاتی تھی لہکتے ہوئے سبزے پہ نظر‘‘ یعنی نظر کا حسن فطرت کو دیکھ کر قابو سے باہر ہو جانا میر انیس کے کمال فن کا نمونہ ہے۔ اسی طرح گرمی کی شدت کا ایک منظر اس بند میں دیکھئے۔ اس میں بھی پہلے ہی بند کی طرح کا اہتمام نظر آئےگا،
شیر اٹھتے تھے نہ دھوپ کے مارے کچھار سے
آہو نہ منہ نکالتے تھے سبزہ زار سے
آئینہ مہر کا تھا مکدر غبار سے
گردوں کی تپ چڑھی تھی زمیں کے بخار سے
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر
بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر
گرمی میں صبح یا شام کو اگر ٹھنڈی ہوا چلنے لگے تو دن بھر کی تپش سے کیسی راحت ملتی ہے، اس کی کیسی خوبصورت تصویر میر انیس نے مرثیے کی اس بیت میں پیش کی ہے۔ شاید کسی کینوس پر اس کو اتنی کامیابی سے نہ بنایا جاسکے اور اگر بنا بھی لیا جائے تو وہ اثرانگیزی اور تحرک پیدا کرنا ممکن نہیں ہوگا،
زلفیں ہوا میں اڑتی تھیں ہاتھوں میں ہاتھ تھے
لڑکے بھی بند کھولے ہوئے ساتھ ساتھ تھے
واقعہ نگاری کی تصویر کشی کے سلسلے میں بھی میر انیس نے اپنے خوب جوہر دکھائے ہیں۔ بعض جگہوں پر تو محسوس ہوتا ہے کہ واقعی رنگ اور برش سے بھی انہیں اتنی خوبصورتی اور جزرسی کے ساتھ پیش نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں ایک واقعہ کی تصویر ملاحظہ کیجئے۔ اسے شبلی نے بھی مرقع نگاری کے کمال کے طور پر پیش کیا ہے۔ حضرت عباس پانی لینے کے لیے دریا کی طرف گھوڑے پر جا رہے ہیں۔ دریا پر فوج کا پہرہ ہے۔ خیام حسینی میں بچے پیاس سے بے چین ہیں، اس لیے گھوڑے کو دوڑاکر حضرت عباس جلد سے جلد دریا پر پہنچ جانا چاہتے ہیں۔ دریا نشیب میں ہے۔ اب اتنے بڑے واقعے اور اس کی جزئیات کی تصویر میر انیس صرف دو مصرعوں میں اس طرح پیش کرتے ہیں،
گھٹنیوں اڑتا تھا دب دب کے فرس رانوں سے
آنکھ لڑ جاتی تھی دریا کے نگہ بانوں سے
دریا پر پہنچنے کی جلدی میں گھوڑے کو تیزی سے چلانا، پیروں کے دباؤ سے اس کا گھٹنیوں بلند ہوکر ہوکر دوڑنا اور اس طرح دریا کی نگہبانی پرنشیب دریا میں مامور فوج سے آنکھ کا لڑ جانا۔۔۔ یہ پورا منظر ان دو مصرعوں سے نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے۔
کبھی بھی واقعے یا منظر کی تصویر سے زیادہ مشکل جذبات کی تصویر کشی ہے۔ فنکار کے اصل جوہر جذبات کی تصویر کشی میں کھلتے ہیں، جہاں جذبے کے اظہار کے تحت چہرے کے ذرا ذرا سے اتار چڑھاؤ پر نگاہ رکھنی پڑتی ہے۔ مرثیہ ایک کثیرالکردار صنف ہے اور ان کے رشتوں کی نوعیت مختلف ہے، اس لیے مرثیہ نگار کے لیے جذبے کی تصویرکشی اور مشکل ہو جاتی ہے، لیکن جذبات اور احساسات کی تصویریں مرثیوں کے بندمیں اس طرح بکھری ہوئی ہیں کہ اس کے بیان کے لیے ایک دفتر درکار ہے۔ یہاں پر جذبات کی تصویرکشی کی یہ تصویر دیکھئے۔ یہ وہ موقع ہے کہ امام حسین کے تمام رفقا اور اعزا شہید ہو چکے ہیں اور اب اتمام حجت کے بعد امام حسینؑ رجز پڑھتے ہیں۔
پسر فاتح صفین وحنین آتا ہے
لو صفیں باندھ کے روکو تو حسین آتا ہے
رجز کے یہ کلمات سن کر خیام حسینی میں ہلچل مچ جاتی ہے۔ ایک آخری سہارا عورتوں اور بچوں کاباقی تھا وہ بھی ختم ہو جانے جا رہا ہے۔ اس موقع پر الگ الگ لوگوں کی کیفیت کی تصویر یں ملاحظہ کیجئے،
یہ صدا سن کے حرم خیمے سے مضطر دوڑے
شہ کی آواز پہ سب بے کس و بے پر دوڑے
گر پڑیں سر سے ردائیں تو کھلے سر دوڑے
بچے روتے ہوئے ماؤں کے برابر دوڑے
روکے چلائی سکینہ شہ والا آؤ
میں تمہیں ڈھونڈتی ہوں دیر سے بابا آؤ
آؤ اچھے مرے بابا میں تمہارے واری
دیکھو تم بن ہیں گلے تک مرے آنسو جاری
آج یہ کیا ہے کہ بھولے مری خاطر داری
ہاتھ پھیلا کے کہو آ، مری بیٹی پیاری
منہ چھپا نے کی ہے کیا وجہ نہ شرماؤ تم
اب میں پانی بھی نہ مانگوں گی چلے آؤ تم
یہ میر انیس کی فنکاری ہے کہ انہوں نے ایک ایک مصرعے میں ایسی تصویریں اور ایسی کیفتیں رکھ دی ہیں کہ جیسے جیسے ان کے الفاظ اور اس کے دروبست پہ غور کرتے جائیں، وہ مناظر آپ کے سامنے تصویروں میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور مرثیہ مرثیہ نہیں اوراق مصور معلوم ہونے لگتا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.