ہوں زرد غم تازہ نہالانِ چمن سے
اس باغ خزاں دیدہ میں برگ خزاں ہوں
اور برگ خزاں کے لیے اٹھارہویں صدی کا ہندوستان اور آج کے عہدمیں مماثلتیں تلاش کر لینا دشوار نہیں ہے۔ وہ جاگیردارانہ بربریت کا دور تھا اور آج مغربی طرز کی جمہوری ’’آمریت‘‘ کا دور دورہ ہے۔ کل نادرشاہ اور احمد ابدالی قتل عام کا بازار گرم رکھتے تھے اور آج جبری الیکشن (آسام میں ۸۳ء) اور میرٹھ کا نیا قتل عام اور فرقہ پرستی کا تشدد روزوشب قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے۔ فرق یہ کہ واویلا اورآہ وفغاں کی صدائیں جابر حکمرانوں کے شورنشور کی طرح ابھرتی تھیں اورآج ہم سکتے کے عالم میں اخبارات کی سرخیاں پڑھتے ہیں۔۔۔
بہت عرصہ ہوا، آڈن نے چیکوسلاویہ کے ایک گاؤں (شاید لیڈیچ) کی مکمل تباہی کی خبر پڑھ کر لکھا تھا۔۔۔ نازی مظالم کی شدت اتنی بڑھ گئی ہے کہ میں اپنی اشتہا کھو بیٹھا ہوں پھربھی عادتاً ناشتہ کرتا ہوں۔۔۔‘‘ یعنی متوسط طبقے کا فنکار چاروں طرف پھیلی ہوئی دہشت کو خاموشی سے دیکھتا ہے اور اپنی بے بسی پر آنسو بھی بہاتا ہے۔ امریکہ کے بیٹ جنریشن کے شاعر طنزاً کہا کرتے تھے کہ ’’ہم تو ہیروشیما کی اولادیں ہیں۔۔۔‘‘ وہ اپنے حکمرانوں کو یاد دلانا چاہتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم میں جاپانیوں سے کم ان کے مظالم نہیں تھے لیکن ہم اپنے کو تقسیم ہند کی اولادیں نہیں کہہ سکتے جیسا کہ سلمان رشدی اپنے کو کہتا ہے، اس لیے کہ آزادی کا سورج جب طلوع ہوا توہمارے شعور نے اپنی ’’پہلی زخمی‘‘ انگڑائی لی تھی۔۔۔
میر نے دوبارہ دہلی کو اجڑتے دیکھا تھا۔ میں نے صرف ایک بار دہلی کے کچھ حصوں کو جلتے دیکھا تھا۔ ہمارا پہلا تعلق میر سے اس وقت پیدا ہوا تھا۔ ادھر پاکستان میں ناصر کاظمی اور ابن انشا میر کے لب ولہجے میں غزلیں کہہ رہے تھے اور ادھر ہندوستان میں جو چند شاعراس رنگ میں طبع آزمائی کر رہے تھے، اس فہرست میں میرا نام بھی شامل تھا۔ میرے دوشعر میر کی مشہور زمین میں تھے،
شہروں شہروں، ملکوں ملکوں آوارہ ہم پھرتے ہیں
راہ وفا کا ذرہ ذرہ نام ہمارا جانے ہے
میر ہوئے تھے کل دیوانے آج ہوئے ہیں ہم دیوانے
فرزانوں کی یہ دنیا انجام ہمارا جانے ہے
میرے پہلے دوست خلیل الرحمن اعظمی کے دوشعر تھے،
خوار ہوئے بدنام ہوئے بے حال ہوئے رنجور ہوئے
تجھ سے عشق جتاکر ہم بھی نگر نگر مشہور ہوئے
میر کے رنگ میں شعر کہے ہے تجھ کویہ کیا سودا ہے
اعظمی اس سورج کے آگے کتنے دیے بے نور ہوئے
ظاہر ہے یہ غزلیں اب کوئی اہمیت نہیں رکھتیں اور پھر میر سے، کون شاعر ہے جو قرابت رکھنا پسند نہیں کرتا، اس لیے کہ اپنی ’’بددماغی‘‘ کی شہرت کے باوجود میر کی شعری شخصیت اپنے قاری سے فوری تعلق قائم کر لیتی ہے۔ یہی طلسمی رشتہ ہے جو ہم سب کومیر تقی میر کا گرویدہ بنائے ہوئے ہے۔ ایک عرصہ گزرا کہ حسن عسکری نے لکھا تھا، ’’۱۹۴۹ء کی دنیا کے لیے میر کی شاعری کہیں زیادہ معنی خیز ہے۔ اس لیے نئے غزل گوؤں کی طبیعت کو میر سے ایک فطری علاقہ ہے۔‘‘ (انسان اور آدمی، ص ۲۲۵، پاکستانی اشاعت ۱۹۵۳ء)
اس کی وجہ تقسیم ہند کے قتل عام کو قرار دیا گیا تھا اور آج (۱۹۸۸ء) میں بھی بڑے عالمی پیمانے پر قتل وغارت گری کا بازارگرم ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ انسانی تاریخ ایک نظریے سے خون معصوم سے رنگی ہوئی ہے، جب ہی تو سیمول بیکٹ کہتا تھا کہ دوہی رشتے ہیں آقا کے مظالم اور غلام کی بغاوت۔ ان ہی دونوں کی کشمکش ہی تاریخ ہے۔ ممکن ہے یہ یک طرفہ نظریہ ہو، اس کی صداقت ادھوری ہو مگر اس میں حقیقت کی روشن پرچھائیاں ہیں۔ میر تو اپنے عہد کے سچے ترجمان تھے۔ میری رائے میں میر کی شاعری صرف ہنگاموں کے دور ہی میں ہماری پناہ گاہ نہیں ہے بلکہ امن کے مختصر وقفے میں ہماری ہم آواز ہے۔ زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ’’غم‘‘ تھا اور آج بھی ہے۔
غم کے کیا معنی ہیں؟ بھوک، پیاس، دربدری، معاشی جدوجہد کی مسلسل ناکام کوششیں، ہجرت اور پھر موت کی پیہم خواہش۔ اس لیے نجات کی ساری راہیں عذاب الیم سے ہوکر گزرتی ہیں اور اس سفر کا زاد راہ ’’صبر‘‘ ہے۔ میر کی شعری شخصیت کا پہلا پتھر’’صبر‘‘ تھا۔ کمسنی میں یتیمی، کم عمری میں تلاش معاش، عزیزوں اور شتہ داروں کی بے رخی، محسنوں کا قتل اوربار بار سر پر مسلسل آلام کی دھوپ، رات آتی بھی ہے تو ایک عذاب اور ساتھ لاتی ہے بے خواب اور بےقراری۔۔۔ ایک کم عمر لڑکاان بحرانی حالات میں پڑوان چڑھتا ہے تو اکثر اس کی شخصیت ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے لیکن میر تو اس برگد کی طرح تھے جس کی شاخیں آندھیوں کو بھی جذب کر لیتی ہیں،
خوگر ہوئے ہیں عشق کی گرمی سے خاروخس
بجلی پڑی رہی ہے مرے آشیاں کے بیچ
ہاں میر کی ’’ذہنی آنکھیں‘‘ متواتر خوں فشاں رہی تھیں۔ یہی ایک سکوں بخش ’’شغل‘‘ تھا۔ میر کی آنکھیں بقا کی بددعا کی وجہ سے ’’دوآبہ‘‘ نہیں بنی تھیں بلکہ وہ ’’تاریخی آنکھیں‘‘ ہیں جو ظالم کو آنسوؤں کی زبان میں رقم کرتی ہیں اور یہ آنسو ایسے تھے کہ آج تک وہ کاغذ نم ہے جس پر یہ ٹپکے تھے۔
میرے رونے کی حقیقت جس میں تھی
ایک مدت تک وہ کاغذ نم رہا
میر کے علاوہ شاید کسی اردو شاعر نے آنسوؤں کو اتنی غیرمعمولی اہمیت نہیں دی ہے۔ ’’صبر‘‘ کے آنسو ہیں،
بہت روئے جو ہم یہ آستیں رکھ منہ پہ اے بجلی
نہ چشم کم سے دیکھ اس یادگار چشم گریاں کو
میر سے پہلے یہ کسے معلوم تھا،
کیونکہ کہیے کہ اثر گریہ مجنوں کو نہ تھا
گرد نمناک ہے اب تک بھی بیابانوں کی
اور صبر کی انتہائی کیفیت کا اندازہ بھی میر ہی کو تھا،
رکا جاتا ہے جی اندر ہی اندر آج گرمی سے
بلا سے چاک بھی ہو جائے سینہ ٹک ہوا آوے
پاؤں کے نیچے کی مٹی بھی نہ ہوگی ہم سی
کیا کہیں عمر کو اس طرح بسر ہم نے کیا
یک جا نہ دیکھی آنکھوں میں ایسی تمام راہ
جس میں بجائے نقش قدم چشم ترنہ ہو
ہر اشک میرا ہے دُرِ شہوار سے بہتر
ہر لخت جگر، رشک عقیق یمنی ہے
ہراک مژگاں پہ میرے اشک کے قطرے جھمکتے ہیں
تماشا مفت خوباں ہے لب دریا چراغاں ہے
اضطراب کی تڑپ کا اتنا خوبصورت اظہار شاذونادر ہی ہوا ہوگا،
بےکلی مارے ڈالتی ہے نسیم
دیکھیے اب کے سال کیا ہوئے
غم کی شدت، بے خوابی، اضطراب، نالہ وشیون، حیرت زدگی اور ان تمام کیفیات کا نفسیاتی اظہار اس وقت تک اردو شاعری میں نہیں ہوا تھا اور یہ میر کے ذہن ودل کی معجزنمائی تھی کہ سیلاب غم شعروں میں یوں جذب ہوا ہے کہ اس کی روانی آج تک باقی ہے مجھے کچھ حیرت ہوتی ہے کہ یہ لغوبحث آج تک جاری ہے کہ میر قنوطی تھے یا نہیں؟ آخر وہ بے کسی اور بےبسی کا اتنا ماتم کیوں کرتے ہیں؟ان سوالات کے جوابات دیتے ہوئے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ میر کی شخصیت ’’صبر‘‘ کے خمیر سے ابھری تھی اور اس کا پہلا امتحان کامیاب عشق کی ناکامیاں تھیں۔ دوسرے ہمارے ملک میں نالہ شیون کی ایک زیست افزا رسم ہے کہ انسان کو سکون ملتا بھی ہے اور نہیں بھی ملتا ہے۔ یعنی آہ وفغاں اور صبر کا امتزاج اور میر جس طبقے میں حالات کی سخت گیری کی وجہ سے شامل ہوگئے تھے وہ طبقہ اپنے ’’غم‘‘ کا اظہار ہمیشہ بے باکی سے کرتا رہا ہے۔ میر نے کاغذی نہیں بلکہ غربت، قناعت اور صبر کے مختلف منازل کے ذاتی تجربے کیے ہیں۔ عشق کے صبر کے سلسلے کے چند شعر پڑھیے تو ’’آتش سیال‘‘ کا کچھ اندازہ ہو سکےگا،
بد رساں اب آخر آخر چھا گئی مجھ پہ یہ آگ
ورنہ پہلے تھا مراجوں ماہ نو دامن جلا
پیدا ہے کہ پنہاں تھی آتش نفسی میری
میں ضبط نہ کرتا تو سب شہر ہی جل جاتا
جو آنسو آویں تو پی جا کہ تار ہے پردہ
ملا ہے چشم تر افشائے راز کرنے کو
میں صید رسیدہ ہوں بیابان جنوں کا
رہتا ہے میرا موجب وحشت میرا سایا
اپنی وارفتگی کو شعری قالب دینا ایک ایسے ہنرمندذ ہن کی علامت ہے جو اپنے نازک سے نازک احساسات کو زبان دینے کا فن جانتا ہے،
کس کے کہنے کوہے تاثیر کہ اک میری ہے
رمزوایماء و اشارات وکنایت کیجئے
یہ ہنرمندی کا فیض تھا کہ میر نے آلام ومصائب کو سلیقگی سے اپنایا۔ وہ ہمیشہ عام آدمی کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی دھن میں لگے رہے تھے اور مرنے کی خواہش کے باوجود میر نے کبھی خودکشی نہیں کی۔ انہوں نے جو بار بار اظہار غم کیا ہے تو اس سلسلے میں یگانہ نے ایک دلچسپ نکتہ پیش کیا ہے،
صبراتنا نہ کر کہ دشمن پر
تلخ ہو جائے لذت آزار
میراپنے غم کی وسعت اورصبر کے حدود سے واقف تھے،
بے تابیوں کو سونپ نہ دینا کہیں مجھے
اے صبر میں نے آن کے لی ہے تری پناہ
میر کی شاعری میں وہ مصنوعی کشمکش دل ودماغ میں نہیں ہے جو ہمارے زمانے کے سر ڈاکٹر محمد اقبال کے یہاں ’’عقل وعشق‘‘ کے نام نامی سے مشہور ہوئی۔ ہاں ان کا عشق مجازی ہوتے ہوئے بھی عبودیت کی منزلیں طے کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے ۔ اس میں جنسی تشنگی بھی ہے،
بے تاب وتواں یونہی کا ہے کو تلف ہوتا
یاقوتی ترے لب کی ملتی تو سنبھل جاتا
اور اس میں لذت واذیت بھی ہے،
دل سے مرے لگا نہ ترا دل ہزارحیف
یہ شیشہ ایک عمر سے مشتاق سنگ تھا
ان کی زندگی اور شاعری کا سب سے حرکی پہلو عشق ہے اور انہوں نے اس کو عظیم تخلیقی قوت سے منسلک کرکے ایک آفاقی سطح بخشی ہے۔ فراق نے آج سے ۴۳ برس پہلے لکھا تھا، ’’عشقیہ شاعر کو خواہ غزل کا ہو یا نظم کا، اپنے عرق میں ہی پکنا چاہئے۔ سوز وساز عشق سوزوساز حیات بن کر کچھ ہو جاتا ہے۔ مثنوی زہرعشق خلوص اور شدت کے باوجود پر عظمت شاعری نہیں ہے۔ میر کے سیکڑوں عشقیہ اشعار کی عظمت ان کی خلاقانہ مرکزیت، وسیع اور دوررس اشاریت میں ہے۔ ان کی آفاقیت میں چھپی ہے۔ میر شدت جذبات کا شاعرنہیں ہے۔ وہ تخیل کا بھی بادشاہ ہے، وہ آپ بیتی کو جگ بیتی بنا دیتا ہے۔‘‘ (اردوکی عشقیہ شاعری، ص ۲۳، سنگم پبلشنگ ہاؤس، الہ آباد، ۱۹۴۵ء)
صبر، عشق اور غم۔۔۔ میر کے یہاں یہ تثلیث مسیحائی کا درجہ رکھتی ہے جب ہی اتنی طویل کربناک زندگی گزارنے کا حوصلہ رکھتے تھے۔
(۳)
میر کے غم کی نوعیت بظاہرعام غم جیسی ہے مگر انہیں فطرت نے وہ ادراک بخشا تھا کہ معمولی بات کو نہایت خوبی سے تخلیقی جذبے کی مدد سے پراثر شعر میں بدل دیتا تھا۔ ان کے غم کی پیچیدگیوں کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ شروع ہی سے تنہا تھے۔ غربت میں طفلی کے ایام بسر کرنے والے بچے خاموش اور اداس رہتے ہیں۔ ان کے دلوں میں شرارت کے جذبے کم ہی ابھرتے ہیں۔ وہ آہستہ آہستہ کم گو اور کم آمیز ہو جاتے ہیں۔ ایک انجانی اداسی ان کی رگ و پے میں آہستہ آہستہ زہربن کر اترتی چلی جاتی ہے۔ اس طرح ان کے نازک دل نرم، آنکھیں نم ناک اور چہرہ اکثر زرد رہتا ہے۔ پھر عنفوان شباب میں ایسے لڑکے کے دل پر پہلی کاری ضرب لگتی ہے تو یہ چوٹ تمام عمر نہیں بھول پاتے،
روز آنے پہ نہیں نسبت عشقی موقوف
عمر بھر ایک ملاقات چلی جاتی ہے
یہ صرف میر کا ظرف تھا کہ انہوں نے پہلے عشق کے غم کو صبر میں پروان چڑھایا اور اسے ’’جوانی کی لغزش‘‘ سمجھ کر بھلا نہیں دیا۔ ان کی شخصیت لاکھ’’غم خور‘‘ سہی مگر وہ اپنے مزاج داں بھی تھی اور پھر یہ عشق یک طرفہ نہ تھا ورنہ اس میں اتنی شدت اور تیزابی کیفیت نہ ہوتی۔ میر نے صبر، عشق اور غم کو ایک فنکار کی ہنرمندی کے تمام جواہر کے ساتھ اپنایا تھا۔ وہ ایک کھلی ہوئی شخصیت کے مالک تھے۔
کچھ رنج دلی میر جوانی میں کھنچا تھا
زردی نہیں جاتی مرے رخسار سے اب تک
ان کی شخصیت کو منقسم کہنے والے جینیس کے عناصر سے واقف نہیں ہیں ورنہ وہ یہ نہ کہتے۔ اس لیے سید عباس جلال پوری میر کو سمجھنے سے قاصر رہ گئے ہیں۔ وہ ان کے اولین عشق کو ان کی بدفعلی کہتے ہیں، یہ نہیں سمجھتے کہ میر کی شخصیت اور شاعری کی بنیاد اسی کامیاب عشق کی ’’ناکامیوں‘‘ نے رکھی تھی۔۔۔ میر کا غم کتنا عام ساغم معلوم ہوتا ہے۔۔۔ بھوک اور پیاس کے تجربات تو غریبوں کے معمولات میں ہیں۔ یہی بنیادی تجربے ہیں دو وقت کی روٹی، تن ڈھانکنے کا کپڑا اور سر چھپانے کے لیے چھت مگر ان اجزا کو حاصل کرنے کی ساری کوشش زندگی کے طلسم خانے کو کھولتی اور بند کرتی ہیں۔ عرصہ ہوا ایک جاپانی فلم دیکھی تھی۔ اس کا ڈائرکٹر کیروکروسوا (Akiro Kurosowa) تھا، فلم کا نام سات تیغ زن تھا۔ انگریزی میں Seven Sumaria کہتے ہیں۔ اس میں ایک جگہ ایک بہادر، کسان کے بچوں سے کہتا ہے :’’تم اپنے والدین کو بزدل نہ سمجھو۔ زندگی کی بقا کی جدوجہد بہادری کی نمائش سے بہتر ہے۔۔۔!‘‘ اور میر اسی جدوجہد میں ایک فن کارانہ طریقہ کار کو آئینہ زیست بنا چکے تھے۔
میں کلیات میر میں سفرکرتے ہوئے سوچتا ہوں کہ ان حالات سے نبرد آزمائی کرنے کی قوت کہاں سے آئی ہے کہ وہ قلندروں میں رہ کر بھی ان سے الگ زیست کر گئے؟ایک جرمن ڈرامانگار پیٹرویس (Peter Weiss) نے ایک ویت نامی ادیب سے پوچھا تھا کہ ناقابل برداشت حالات میں تم لوگ جیتے کیسے تھے؟تو اس نے جواب دیا تھا کہ ’’ہمارے پاس زندگی کے سوا کیا تھا کہ ہم موت کی تمنا کرتے۔‘‘ اور میر نے زندگی سے زندہ رہنے کا ہنر اور شاعری کا فن سیکھا تھا۔ اسی لیے وہ کبھی کبھی سرمستی وسرشاری کا’’کرتب‘‘ دکھاتے تھے۔ ان کی شخصیت بظاہر دونیم نظر آتی ہے مگر وہ کبھی بھی الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں تھی، کشمکش کے باوجود ذہن ودل میں عجیب ہم آہنگی پیدا ہو گئی تھی،
ہمار ے دل میں آنے سے تکلف غم کو بےجا ہے
یہ دولت خانہ ہے ا س کا وہ جب چاہے چلا آوے
میر نے یہ شعر صبر کی کس منزل میں کہا ہوگا۔۔۔؟میں نے شروع میں لکھا تھا کہ وہ بچے جو صبر کی آغوش میں پرورش پاتے ہیں، کبھی کبھی ان میں سے ایک جری بھی ہوتا ہے۔ پرانی نفسیات ایسے شخص کو ایک مہلک مرض میں مبتلا سمجھتی ہے مگر وجودی ماہر نفسیات آر ڈی لینگ (Lang) کا خیال ہے کہ ہم نارمل آدمی کا تصور ہر شخص پر مسلط نہیں کر سکتے ہیں۔ کون پاگل ہے؟ وہ جو اپنی دھن میں زندگی گزارتا ہے، وہ شخص جو کامیابی کی خاطر قدم قدم پر مفاہمتیں کرتا رہتا ہے؟ میر نارمل آدمی نہیں تھے۔ وہ صرف ایک بار (لوگ کہتے ہیں ) پورے پاگل ہوئے اور اس کشمکش نے (جوان کے اندر تھی) انہیں غیرمعمولی تخلیقی قوت عطا کی تھی،
اس دشت میں اے سیل سنبھل ہی کے قدم رکھ
ہر سمت کو یاں دفن مری تشنہ لبی ہے
اس شعر کا لب ولہجہ کتنا پر وقار ہے، ایک طرح کی للکار ہے، صحر انوردی کا سارا کرب اس میں سمٹ کر آ گیا ہے۔ یہ پیچیدہ شعر ایک انوکھی کیفیت کا حامل ہے اور یہ نغمہ تشنگی کی نوا ہے۔ ہم اسی سے اپنا رشتہ استوار رکھتے ہیں۔
(۴)
میرکے ساتھ ہماری تنقید کا کیا رویہ ہے؟زمانے بدلتے رہے مگر اردو تنقید افسوسناک حد تک آہستہ رو رہی ہے۔ میر کبھی گمنامی کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کی قبر پر ریل چل گئی تو کیا ہوا، تمام اردو شعراء نے اپنی دھڑکنوں میں ہمیشہ میر کو جگہ دی۔ ان کی کلیات بھی چھپتی رہی مگر وقفے وقفے سے۔ پھر بھی میر کے پرستاروں کو شکایت رہی کہ ان کی پذیرائی کم ہوئی۔ مجھے اثر لکھنوی اور ڈاکٹر سید عبداللہ سے یہ شکایت نہیں ہے کہ وہ میر کو ہر دل عزیز بنانے میں ناکام رہے ہیں، اس لیے کہ ان بزرگوں نے اپنی ساری ذہانت کو میر کے مطالعے میں صرف کر دیا ہے مگر برا ہو اردو تنقید کا جو شاعری میں افکار اور احساسات وجذبات کو الگ الگ خانوں میں دیکھنے کی عادی ہے۔
ناصر کاظمی ایسا فہیم شاعر بھی میر پر مضمون لکھتے ہوئے قدم قدم پر جھجھکتا ہے اور آخر میں میر اور اقبال کے یہاں مماثلت تلاش کرنے پر مجبور نظر آتا ہے۔ وارث علوی کی زبان میں ’’معنی کس چٹان پر بیٹھا ہے‘‘ یعنی شاعری میں اقداروافکار کی جستجو، جذبات اور احساسات سے الگ چہ معنی دارد؟ غالب ایسا عظیم شاعر بھی میر کی استادی کو اس طرح تسلیم کرتا ہے کہ میر کے انداز یعنی سہل ممتنع میں شاعری کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ میر کے کلام میں بےپناہ تاثر، زبان میں ندرت، جذبات کے اظہار میں شائستگی اور شعری صداقت، ساری نزاکتوں کا ایک آئینہ درآئینہ سلسلہ ملتا ہے۔
میری رائے میں ۱۸۵۷ء کے تباہ کن اثرات سے ہم بے طرح گھبرا گئے تھے۔ حالی نے غیرشعوری طور سے اس روایت کو مجروح کر دیا جس سے ہم میر سے منسلک تھے۔ میں حالی پر الزم نہیں لگاتا، اس لیے کہ انگریز حکومت کے مہلک اثرات کی وجہ سے ہم آج تک اپنی ثقافتی تفہیم کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ کبھی ہم ماضی میں پناہ ڈھونڈتے ہیں بنیاد پرستوں کی طرح اور کبھی مغرب زدہ لوگوں کی بنائی ہوئی ’’جنت‘‘ کو اپنا مستقبل سمجھتے ہیں ۔ یہ نہیں جانتے کہ ہمارا ماحول کیا تھا اور اب کیا ہے؟ نہ جانے کس نے ہمیں یہ سمجھا دیا تھا کہ ’’وقت کی آواز‘‘ عشقیہ شاعری کے خلاف ہے جبکہ میر کی شاعری کا رزار حیات کی سب سے دلکش آواز تھی۔ اسی وقت سے ہماری تنقید نے میر فہمی کی راہ کھول دی تھی۔ حسن عسکری نے ایک مضمون میں لکھا تھا: ’’اگر لوگ میر کے اس شعر کی جدلیات کو سمجھ لیں تو جو انقلاب رونما ہوگا وہ مارکس کے انقلاب سے کہیں بڑا ہوگا۔‘‘ (انسان اورآدمی، ص ۱۵۶، اشاعت ۱۹۵۳ء)
ظاہر ہے کہ یہ جملہ صرف ’’ترقی پسندوں‘‘ کو چھیڑنے کے لیے لکھا گیا تھا۔ میر کا شعر ہے،
وجہ بے گانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہوواں کے ہم بھی ہیں
اس شعر میں جو نکتہ قابل غور ہے وہ علیحدگی، بےگانگی (Alienation) کو جنم دیتا ہے اورہم صنعتی نظام میں داخل ہوئے تھے کہ اس کا شکار ہو گئے۔ اب ہماری بیگانگی دشمنی میں بدلتی جا رہی ہے۔ اردو کی سب سے جاندار روایت عشقیہ شاعری کی تھی۔ عشق ہی تصوف اور بھکتی تحریروں کی جان تھا۔ ہماری مشترکہ تہذیب کی بنیاد تھا (قرۃ العین حیدر کے نئے ناول ’’گردش رنگ چمن‘‘ میں اس دور کے چند مناظر اور کردار دیکھے جاسکتے ہیں ) ہم نے انجانی اصلاحی اقدار کے فریب میں آکر اپنی ’جڑوں ‘سے خود کو کاٹ لیا ہے اور آج ہم زندگی کی سزا پا رہے ہیں اور ادب میں خون ناحق کو بہتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور حیران وششدر ہیں۔ ہم خود اپنے جرائم کی سزا پا رہے ہیں، کم از کم بقول میر ہمارے سینے توسوز عشق سے منور ہوتے،
اعجاز عشق سے ہم جیتے رہے و گرنہ
کیا حوصلہ کہ جس میں آزاریہ سمائے
آج ہمارے پاس عشق کا سوز دروں ہے نہ عمل کی لگن۔ ہم۔۔ سب۔۔۔ ایک معنی میں ایلیٹ کے ’’کھوکھلے آدمی‘‘ بن کررہ گئے ہیں!
(۵)
میرتقی میر بنیادی طور سے رومانی کرب کے شاعر تھے مگریہ کرب صرف جنسی تشنگی اور دیوانگی کی دین نہیں تھا، اس میں آئندہ مستقبل کے خواب کی پنہاں آرزوئیں بھی شامل ہو گئی تھیں۔ یہی نہیں اپنے ماحول کی ساری تہذیبی شکست وریخت بھی شامل تھی۔ اطالوی ناقد ماریوپراز (Mario Praz) نے یوروپی شاعری (اٹھارہویں صدی) کواسی اصطلاح سے جانچنے کی کوشش کی تھی۔ اٹھارہویں صدی کا یورپ بھی ہنگاموں اور انقلابوں کا مرکز تھا۔ انقلاب فرانس نے یورپ کو پہلی بار انسانیت کو مساوات، اخوت اور آزادی کا پیغام دیا تھا۔ اس دور کے شاعر بھی اسی جانکاہ دردوغم سے سرشار تھے جس سے کہ رومانی کرب کی پہچان ہوتی ہے۔
روسو کے اعترافات (دوجلدیں ) کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ فطرت سے انسانی دوری کتنی مہلک ہوگی۔ ماریوپراز کا خیال تھا کہ مسرت کی جستجو ہی درد وغم کی راہ سے گزرتی ہے اور درد ہی مسرت کی جستجو کی منزل ہے۔ اس طرح خوشی اور غم کی جذباتی کشمکش حزنیہ لب ولہجے کو جنم دیتی ہے جو رومانی کرب کی نشاندہی کرتا تھا۔ میر کی شاعری میں جو گھلاوٹ، نرمی اور سپردگی ہے وہ اسی غم کی قبولیت کی وجہ سے کہ درد ہی مسرت کی جان ہے اور مسلسل کرب ہی جہدحیات ہے۔
انگریزی رومانی شعرا سے میر کا تقابل پروفیسر احمد علی نے بھی کیا تھا۔ احمد علی نے اپنی کتاب سنہری روایت (The Golden Tradition) میں میر کی عظمت کا اعتراف کیا ہے، یہ کتاب آج بھی مطالعے کے قابل ہے، گوکہ اس کو شائع ہوئے پندررہ برس گزر چکے ہیں (مطبوعہ کولمبیا یونیورسٹی امریکہ ۱۹۷۳ء) میر تقی میر کی شاعری کو ان کی کشادہ شخصیت، بے پناہ تخلیقی قوت اور فکر خیز تخیل (Imagination) کی رہین منت ٹھہرایا ہے۔ یہی نہیں ان کی (احمدعلی) رائے میں میر کے پائے کا شاعر انگریزی رومانی شعرا میں کوئی نہیں تھا۔ فراق اردو میں یہی بات کہہ چکے ہیں۔ وہ میر کی شاعری میں ’دل‘ کے استعارے کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں۔ مجنوں گورکھپوری یہ بات اپنے مضمون میں کہہ چکے ہیں (سردار جعفری ایک عرصے تک مجنوں سے اس لیے خفا رہے کہ مرحوم نے کئی شعر ایسے لکھے تھے جو میر کے نہیں ہیں۔ خیر) احمد علی کا خیال ہے کہ میر کے ذہن کی جستجو ہمیں ان اشعار سے کرنی چاہئے جو میر نے دل کو محور بناکر کہے تھے، اس لیے کہ دل ہی عشق اور زندگی کا سرچشمہ ہے اور یہ اشعار بھی پیش کیے ہیں،
جاکے پوچھا جو میں یہ کارگہہ مینا میں
دل کی صورت کا بھی ا ے شیشہ گراں ہے شیشہ
کہنے لاگے کہ کدھر پھرتا ہے بہکا ا ے مست
ہر طرح کا جو تو دیکھے ہے کہ یاں ہے شیشہ
دل ہی سارے تھے یہ اک وقت میں جو کرکے گداز
شکل شیشے کی بنائے ہیں کہاں سے شیشہ
یہی نہیں، احمد علی کا خیال ہے کہ ایک معنی میں میر ایک وجودی شاعر تھے اور سارتر کا بیان نقل کرتے ہیں :Existence Precedes Essence یعنی وجود روح سے پہلے ہے۔ میر کا خیال ہے، ’’مقدور سے زیادہ مقدور ہے ہمارا‘‘ کی مثال بھی دیتے ہیں۔ میر پر انگریزی میں جو چند مضامین اور کتابیں میری نظر سے گزری ہیں ان میں یہ کتاب زیادہ ’’شہرت‘‘ کی مستحق تھی، اس لیے کہ اس کتاب میں میر کے اچھے خاصے ترجمے بھی شامل ہیں۔
اورایک سوال میر ے ذہن میں آتا ہے کہ میر کی عشقیہ شاعری کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ کیا اب یہ عہد پارینہ کی ایک شعری داستان ہے اور بس۔۔؟ سرمایہ دارانہ سماج میں ہر شے فروخت ہو سکتی ہے۔ اب عشق یا تو محض جنسی شے (بدن کی تہذیب کہاں؟) یا تفریح کا سامان۔ ایک ایسے دور میں جب ہم میر کی شاعری کامطالعہ کرتے ہیں تو حیرت اور معصومیت سے نئی لذت کے ساتھ دوچار ہوتے ہیں یا یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب وہ ’’رومانی کرب‘‘ اپنی جاذبیت بڑ ی حد تک کھو چکا ہے مگر کسی حد تک معصومیت حسن کی اور عشق کی کشمکش کو بڑی حد تک برقرار رکھے ہوئے ہے۔
عشق میں ہم ہوئے نہ دیوانے
قیس کی آبرو کا پاس رہا
عشق کا گھر ہے میر سے آباد
ایسے پھر خانماں خراب کہاں
رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
دور بیٹھا غبار میر ان سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا
یہ خود کلامی کا ’’جادو‘‘ بھی رکھتی ہے۔ پروفیسر مسعود حسین ادیب نے میر کی شاعری کو ’’عشق کی زبان‘‘ سے تعبیر کیا تھا۔ مجھے اکثر یہ احساس ہوا ہے کہ میر کے آنسو’’پارس پتھر‘‘ تھے، جس لفظ کو چھو لیتے تھے کندن بن جاتا تھا۔ اس طرح جسمانی حسن کا بیان بھی ساری لطافتیں لئے ہوئے ہے،
ساتھ اس حسن کے دیتا تھا دکھائی وہ بدن
جیسے جھمکے ہے پڑا گوہر تر پانی میں
حسن کی بالیدگی کایہ عالم شایدہی کسی اردو شاعرنے کبھی سوچا اور بیان کیا ہوگا۔ میر کی عشقیہ شاعری ایک جمالیات کی نئی دستاویز تھی جس میں انبساط کے کم رنگ تھے مگر زرد رنگ سب سے نمایاں تھا جیسے ڈچ مصوروان گاف کی مصوری! آج میر کی عشقیہ شاعری ایک ایسی ’’فردوس گمشدہ‘‘ کی یاد دلاتی ہے جس میں دوزخ کو سیر کرنے کے لیے ملا دیا گیا ہو۔
(اس مضمون کا ایک حصہ ہندوپاک سمینار جامعہ ملیہ (نئی دہلی) ۲۰ مارچ ۱۹۸۳ء میں پڑھا گیا تھا۔ یہاں نظرثانی کرکے شائع کیا جا رہا ہے۔ ۱۹۸۸ء)
پس نوشت
یہ مضمون دس برس ڈاکٹر اسلم پرویز کے پاس محفوظ رہا۔ آخرکار شمیم حنفی صاحب نے تلاش کرکے ستمبر ۱۹۹۷ء جامعہ میں شائع کیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.