Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

میر تقی میر کی شاعری

علی سردار جعفری

میر تقی میر کی شاعری

علی سردار جعفری

MORE BYعلی سردار جعفری

    میران معنوں میں عشقیہ شاعرنہیں ہیں جن معنوں میں بعض نقاد یا نیم رومانی شاعر اردو کی ساری شاعری کوجنسیات تک محدود کر دینا چاہتے ہیں۔ غالب نے بھی ایسی عشقیہ شاعری سے پناہ مانگی ہے اور لکھا ہے کہ عاشقانہ شاعری سے مجھے وہی بعد ہے جوکفر سے ایمان کو ہو سکتا ہے۔ (خطوط غالب، غلام رسول مہر، ص، ۵۶) میر کے یہاں عشق ایک دریائے بیکراں ہے جس کی بہت سی موجیں ہیں۔

    قرون وسطی میں انسان دوستی کی سب سے بڑی تحریک تصوف کی شکل میں ابھری۔ بھگتی اورمسٹی سزم (Mysticism) اس کی غیراسلامی شکلیں ہیں۔ ان تحریکوں کارشتہ دستکاروں اورکسانوں کی بغاوت سے بھی رہاہے، لیکن میر کے عہد تک پہنچتے پہنچتے صرف ایک فکری نظام باقی رہ گیا تھا جوجاگیرداری نظام کی قدروں سے مختلف قدریں رکھتاتھا اوران میں سب سے زیادہ اہم وحدت زمانی کا تصور تھا جومذہب، ذات پات اور پیشوں کی بنیاد پر تقسیم ہو جانے والے انسانوں کو ایک ہی رشتہ میں پرو لیتا تھا۔

    عشق اور دل دولفظ ہیں جو اس تصور کا پوری طرح احاطہ کر لیتے ہیں۔ عشق سب سے بڑا جذبہ ہے اور دل سب سے بڑی چیز۔ کعبہ ہو یامندر اور مسجد، یہ اگر ٹوٹ جائیں تو پھر بن سکتے ہیں لیکن ’’دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے۔‘‘ اس لئے دل ڈھاکر کعبہ بنانے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ حج، نماز یاروزے سے کوئی آدمی نہیں بنتا۔ یہ ظاہری عبادتیں ہیں۔ آدمی دل سے بنتا ہے اور دل پیر و مرشد ہے۔ عشق کا مرکز ہے اور عشق خدا ہے۔ عشق اس کائنات کا خالق ہے، اس کا رنگ وروپ ہے، عشق ہی جلاتا ہے، عشق ہی مارتا ہے۔

    اس طرح انسان اور خدا کا براہ راست رشتہ قائم ہوتا ہے، اس لئے ظاہری عبادت خانوں، ملاؤں اور پنڈتوں کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔ ان کی وہی حیثیت ہے جو عام انسان اور بادشاہ کے درمیان محتسب اور قاضی کی ہے۔ ایک ریاستی نوکرشاہی ہے اور دوسری مذہبی اور دونوں فضول ہیں۔ اس لئے شیخ، زاہد، محتسب، ملا اور قاضی پر پھبتیاں کسی گئی ہیں۔ دونوں عام انسانوں کا استحصال کرنے والے گروہ ہیں۔ ایک بادشاہ کے نام پر لوٹتا ہے اور دوسرا خدا کے نام پر۔

    صرف انسانوں سے محبت کرکے خدا تک پہنچا جا سکتا ہے۔ اس لئے آنکھیں بند کرکے مراقب ہونا، بندے کے درددل کو بھول کر خدا رسیدہ بننا بے کارہے۔ انسانوں میں کھو جانا اور دنیا کو برتنا نجات کا صحیح راستہ ہے۔ برتنے میں گناہ بھی شامل ہے جو رحمت کو برسرکار آنے کی دعوت دیتا ہے۔ اس طرح جنسی محبت، بنی نوع انسان کی محنت، خداکی محبت، تینوں مل کر ایک ہو جاتی ہیں۔ جتنے محبوب کے جلوے ہیں اتنے ہی عشق کے روپ ہیں۔

    میر کی شاعری ان ہی پردوں میں حقیقت کی ترجمانی کرتی رہی ہے۔ اس کو انہوں نے اپنے عہد کی ایک بہت بڑی اور اہم دستاویز بنا دیا ہے۔ ان کا اپنا بیان یہ ہے کہ ’’میری شاعری خواص کی پسند کی ہے، پر مجھے گفتگو عوام سے ہے۔‘‘ انہوں نے اپنے دیوان کو درد و غم کا مجموعہ بتایا ہے۔ کیوں کہ جہاں سارا عالم خاک ہو چکا ہو وہاں صرف اپنے آپ پر رونا بے سود ہے۔ اس لئے میر کے یہاں دل اوردلی کی خرابی کا ذکر ایک ساتھ آتا ہے اور عاشق اور آدمی ہم معنی الفاظ ہیں۔ کلیات میر میں تکرار مضامین کے دوبڑے دلچسپ شعر ہیں۔ ایک میں انہوں نے یہ کہا ہے،

    مارنا عاشقوں کا گر ہے ثواب

    تو ہوا ہے تمہیں ثواب بہت

    اور دوسرے میں یہ،

    کشتن مرد ماں اگر ہے ثواب

    تو ہوا ہے اسے ثواب بہت

    میر کے زمانہ کی طرح میر کی شاعری کا عاشق بھی ایک کچلی ہوئی شخصیت ہے جو اپنا کھویا ہوا وقار واپس مانگ رہی ہے۔ اس میں انانیت کا دور دور پتہ نہیں ہے۔ صرف بے دماغی ہے۔ انانیت، دولت، طاقت یا صلاحیت کے غرور سے پیدا ہوتی ہے اوربے دماغی سب کچھ کھونے کے بعد آتی ہے۔ (غالب اور میر میں یہی فرق ہے)

    حسن عسکری نے اپنے ایک مضمون میں بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ میر کی شاعری کا عاشق محبوب سے محبت کا طالب نہیں۔ بس اتنا چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ انسانوں جیسا برتاؤ کیا جائے۔ اس کے عالم و فاضل ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ انسان ہونے کی وجہ سے۔ (دیباچہ ’’گل نغمہ‘‘ فراق گورکھ پوری) اس تصور میں میر کا بچپن، جوانی اور دلّی کی تباہی اور بربادی ایک ہی تصویر کے کئی رخ ہیں اور میر نے اس تصویر میں اتنے ہی مختلف انداز سے رنگ بھرا ہے۔ میر کی غزلوں میں ایسے اشعار کی تعداد بہت زیادہ ہے جن میں انہوں نے براہ راست سماجی، معاشی اور سیاسی مضامین کو ڈھال دیا ہے۔ انہوں نے کبھی بھی یہ خیال نہیں کیا کہ یہ مضامین غزل کی طبع نازک پر گراں گزریں گے،

    قوت کو پیرانہ سر دلّی میں حیرانی ہوئی

    اب کی جو آئے سفر سے خوب مہمانی ہوئی

    رہتے ہیں داغ اکثر نان ونمک کی خاطر

    جینے کا اس سمے میں اب کیا مزا رہا ہے

    محتاج کو خدا نہ نکالے کہ جوں ہلال

    تشہیر کون شہر میں ہو، پارہ نان پر

    جن کو خدا دیتا ہے سب کچھ، وے ہی سب کچھ دیتے ہیں

    ٹوپی لنگوٹی پاس اپنے ہم اس پر کیا انعام کریں

    چور اچکے سکھ مرہٹے، شاہ گدازر خواہاں ہیں

    چین میں ہیں جو کچھ نہیں کرتے، فقر ہی اک دولت ہے اب

    اے حب جا والو، جو آج تاجور ہے

    کل اس کو دیکھو تم، نے تاج ہے نہ سر ہے

    سبزان تازہ رو کی جہاں جلوہ گاہ تھی

    اب دیکھئے تو واں نہیں سایہ درخت کا

    جوں برگ ہائے لالہ پریشان ہو گیا

    مذکور کیا ہے اب جگر لخت لخت کا

    دلّی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں

    تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا

    خاک سیہ سے میں جو برابر ہوا ہوں میر

    سایہ پڑا ہے مجھ پہ کسو تیرہ بخت کا

    جو ہے سو پائمال غم اے میر

    چال بے ڈول ہے زمانے کی

    نہ مل میر اب کے امیروں سے تو

    ہوئے ہیں فقیران کی دولت سے ہم

    کب شہر میں گنجائش مجھ بے سروپا کو ہو

    اب بڑھ گئے ہیں میرے اسباب کم اسبابی

    غیر از خدا کی ذات میرے گھر میں کچھ نہیں

    یعنی کہ اب مکان مرا لامکاں ہوا

    اس براہ راست انداز بیان کے علاوہ میر نے اپنے عہد کے مظالم اور انسانی شخصیت کی شکست و ریخت کو محبوب کے پردے میں بھی بیان کیا ہے اور پردے کو اٹھانے کی خود ہی ترغیب بھی دی ہے۔

    ہوگا ستم و جور سے تیرے ہی کنایہ

    دو شخص یہاں شکوہ ایام کریں گے

    دہر کا ہو گلہ کہ شکوہ چرخ

    اس ستم گرہی سے کنایہ ہے

    اس طرح کی شاعری میں انہوں نے محبوب کو ظالم، سفاک، گھٹیا، کمینہ، اوباش، بدمعاش، خون خوار، خون ریز، جھوٹا، مکار سبھی کچھ کہا ہے۔ محبوب کی کالی آنکھوں کی سبھی نے تعریف کی ہے لیکن میر نے ان کو’’سیہ رو‘‘ اور ’’سیہ کاسہ‘‘ کہہ کر گالی بھی دی ہے۔ سیہ رو کے معنی بدچلن اور بدنام کے ہیں اور سیہ کاسہ کنجوس کو کہتے ہیں۔ میر کے عہد کی ایک لغت (مرتبہ شیکسپئر) میں اس کے معنی چنڈال بھی لکھے ہیں اور میریقینا ًاس مفہوم س واقف ہوں گے۔ اس شاعری میں صرف آسمان ہی نہیں (جو تقدیر اور وقت کا کنایہ ہے اور سماجی نظام کا مفہوم بھی اختیار کر لیتا ہے) بلکہ محبوب کی آنکھ بھی سیہ کاسہ اور سیہ رو ہے،

    جام خوں بن نہیں ملتا ہے ہمیں صبح کو آپ

    جب سے اس چرخ سیہ کاسہ کے مہمان ہوئے

    گردش چشم سیہ کاسہ سے، جمع نہ رکھو خاطر تم

    بھوکا پیاسا مار رکھا ہے تم سے ان نے ہزاروں کو

    جب سے دیکھا اس کو ہم نے جی ڈوہا جاتا ہے میر

    اس خرابی کی یہ چشم روسیہ بانی ہوئی

    یہی محبوب معشو ق حقیقی یعنی خدا کی ذات میں بھی گم ہو جاتا ہے اور دنیا میں ہوتے ہوئے بھی لاپتہ رہتا ہے اور نہ دیر والوں کو ملتا ہے اور نہ حرم والوں کو۔ کسی نے اس کا رخ دیکھا ہے اورکسی نے زلف اور اس ادھوری سچائی پر شیخ و برہمن لڑ رہے ہیں۔ اس محبوب کی راہ وروش کی شکایت کرتے وقت میر بے باک ہو جاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ’’پردے میں بدسلوکی ہم سے خدا کرے ہے۔‘‘ اور یہ وہ خدا ہے جس کی بارگاہ کی بے نیازی کے خوف سے میر اپنے کام اس کو سونپتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ وہ دنیا کے کاروبار پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور پھر اس سے مخاطب ہوکر سوال کرتے ہیں،

    کوئی ہو محرم شوخی ترا تو میں پوچھوں

    کہ بزم عیش جہاں کیا سمجھ کے برہم کی

    اور پھر یہی محبوب ظالم اور سفاک بادشاہوں، حکمرانوں اور فاتحوں کی ذات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اب اس کی آمدتباہی کا باعث ہوتی ہے، اس کی راہوں میں خون کے دریا موجیں مارتے ہیں، لاشیں پڑی رہتی ہیں اور دھرتی کے سینے پر فوجوں کے قدموں کی چاپ سنائی دیتی ہے،

    جہاں کو فتنے سے خالی کبھو نہیں پایا

    ہمارے وقت میں تو آفت زمانہ ہوا

    نیمچہ ہاتھ میں مستی سے لہو سی آنکھیں

    سج تری دیکھ کے اے شوخ حذر ہم نے کیا

    سنا جاتا ہے اے گھتیے ترے مجلس نشینوں سے

    کہ تو دارو پیے ہے رات کو مل کر کمینوں سے

    سواری اس کی ہے سرگرم گشت دشت مگر

    کہ خیرہ تیرہ نمودار اک غبار ہے آج

    مارا ہو ایک دو کو تو ہو مدعی کوئی

    کشتوں کا اس کے روز جزا میں شمار کیا

    جفائیں دیکھ لیاں، بے وفائیں دیکھیں

    بھلا ہوا کہ تری سب برائیاں دیکھیں

    تری گلی سے سدا اسے کشندہ عالم

    ہزاروں آئی ہوئی چارپائیاں دیکھیں

    صد خانماں خراب ہیں ہر ہر قدم پہ دفن

    کشتہ ہوں یار، میں تو ترے گھر کی راہ کا

    ظالم زمیں سے لوٹتا دامن اٹھا کے چل

    ہوگا کمیں میں ہاتھ کسوداد خواہ کا

    کس تازہ مقتل پہ کشندے تیرا ہوا ہے گزارا آج

    زہ دامن کی بھری ہے لہو سے، کس کو تونے مارا آج

    حنا سے یار کا پنجہ نہیں ہے گل کے رنگ

    ہمارے ان نے کلیجوں میں ہاتھ ڈالا ہے

    نہ ہو کیوں غیرت گلزار وہ کوچہ خدا جانے

    لہو اس خاک پر کن کن عزیزوں کا بہا ہوگا

    فتنے فسادا ٹھیں گے گھر گھر میں خون ہوگا

    گر شہر میں خراماں وہ خانہ جنگ آیا

    کاٹ کر سر عاشق کا ان نے اور بھی پگڑی پھیر رکھی

    فخر کی کون سی جاگہ تھی یاں، ایسا کیا رستم مارا

    حاکم شہر حسن کے ظالم کیوں کہ ستم ایجاد نہیں

    خون کسو کا کوئی کرے واں داد نہیں فریادنہیں

    کیا کیا مردم خوش ظاہر ہیں عالم حسن میں نام خدا

    عالم عشق خرابہ ہے یاں، کوئی گھر آباد نہیں

    جس راہ ہو کے آج میں پہنچا ہوں تجھ تلک

    کافر کا بھی گزار الہی ادھر نہ ہو

    یک جا نہ دیکھی آنکھوں سے ایسی تمام راہ

    جس میں بجائے نقش قدم چشم تر نہ ہو

    ہر اک قدم پہ لوگ ڈرانے لگے مجھے

    ہاں ہاں کسو شہید محبت کا سر نہ ہو

    چلیو سنبھل کے سب یہ شہیدان عشق میں

    تیرا گذار تاکہ کسی نعش پر نہ ہو

    دامن کشاں ہی جاکہ طپش پر طپش ہے دفن

    زنہار کوئی صدمے سے زیر وزبر نہ ہو

    لیکن عبث، نگاہ جہاں کرلے اس طرف

    امکان کیا کہ خون مرے تا کمر نہ ہو

    حیراں ہوں میں کہ ایسی یہ مشہد ہے کون سی

    مجھ سے خراب حال کو جس کی خبر نہ ہو

    آتا ہے یہ قیاس میں اب تجھ کو دیکھ کر

    ظالم جفا شعار ترا ہ گزر نہ ہو

    یہ جفا شعاری شہروں ہی کی نہیں دل کی خرابی کا بھی باعث ہے،

    دل کی آبادی کی اس حد ہے خرابی کہ نہ پوچھو

    جانا جاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر نکلا

    شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے

    دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

    محبوب کے اس تصور کے پیچھے حالات زمانہ کا ایک سماجی شعور ہے اور ان بظاہر سادہ شعروں کی تہہ میں دبا ہوا ایک احتجاج ہے۔ اپنے بعض دوسرے شعروں میں میر نے بادشاہوں کے جلوس کے مقابلے میں مظلوموں کی مظلومیت کو شان و شکوہ عطا کیا ہے،

    ہم بھی چلتے ہیں یک چشم لے کر

    دستہ داغ فوج و غم لے کر

    دست کش نالہ، پیش رو گر یہ

    آہ چلتی ہے یاں علم لے کر

    اوریہ قافلے دوبارہ اٹھنے کے لئے موت کی منزل میں پڑاؤ ڈالتے ہیں،

    مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے

    یعنی آگے چلیں گے دم لے کر

    اس کے بعد ہی میر کی اس عجیب وغریب امیجری کامفہوم سمجھ میں آتا ہے جوکسی اردو یا فارشی شاعر کے یہاں کم سے کم میر ی نظر سے نہیں گزری ہے۔

    اگتے تھے دست بلبل و دامان گل بہم

    صحن چمن نمونہ یوم الحساب تھا

    تڑپ کے خرمن دل پر کبھی گراے بجلی

    جلانا کیا ہے مرے آشیاں کے خاروں کا

    کسی شاعر نے اپنے محبوب کو اس طرح نہیں کوسا ہے اور کسی عاشق نے معشوق کے لئے اتنے سخت الفاظ استعمال نہیں کئے ہیں۔ لیکن ہم اس غزل کے ابتدائی اشعار دیکھتے ہیں (جو میر کی اور بھی کئی غزلوں کی طرح مسلسل ہے) تو گل کے چہرے سے معشوقیت اور محبوبیت کی نقاب اٹھ جاتی ہے اور جسے میر نے گل کہاہے وہ زندگی کے پہلو کا کانٹا معلوم ہونے لگتا ہے،

    سنا ہے حال تیرے کشتگاں بچاروں کا

    ہوا نہ گور گڑھا ان ستم کے ماروں کا

    ہزار رنگ کھلے گل چمن کے ہیں شاید

    کہ روزگار کے سرخون ہے ہزاروں کا

    ملا ہے خاک میں کس کس طرح کاعالم یاں

    نکل کے شہر سے ٹک سیر کر مزاروں کا

    تڑپ کے خرمن گل پر کبھی گراے بجلی

    جلانا کیا ہے مرے آشیاں کے خاروں کا

    ان شعروں میں غالب کی شاعری کے عاشق کی انانیت اور خود پرستی نہیں ہے بلکہ ایک مظلوم اور جھنجھلائے ہوئے بے دماغ آدمی کا جذبہ انتقام ہے۔ بعض دوسرے اشعار میں میر اور بھی کھل جاتے ہیں۔

    اس دشت میں اے سیل سنبھل ہی کے قدم رکھ

    ہر سمت کو یاں دفن مری تشنہ لبی ہے

    کوئی تجھ سا بھی کاش تجھ کو ملے

    مدعا ہم کو انتقام سے ہے

    ہاتھ دامن میں ترے مارتے جھنجھلاکے نہ ہم

    اپنے جامے میں اگر آج گریباں ہوتا

    گیا حسن خوبان بد راہ کا

    ہمیشہ رہے نام اللہ کا

    شیکسپئر کے مشہور ڈرامے میکبتھ میں جب اپنے مجرم ضمیر کی ستائی ہوئی لیڈی میکبتھ خواب میں چلتی ہے توہ اپنے ہاتھوں کو اس انداز سے ملتی رہتی ہے جیسے انہیں دھونے کی کوشش کر رہی ہو۔ لیکن خون بے گناہ کے دھبے کسی طرح نہیں چھوٹتے اور وہ بڑبڑاتی ہے کہ عرب کا عطر بھی اس کے ہاتھوں سے خون کی بوکو دور نہیں کر سکتا۔ میر کا وہ محبوب بھی جو سفاک بادشاہوں اور خون ریز فاتحوں کا کنایہ ہے، اپنے ہاتھ ملتا رہتا ہے۔ اس نے اپنی آرائش مظلوموں کے خون سے کی ہے۔ انسانوں کے کلیجوں میں ہاتھ ڈالا ہے تب ہتھیلیوں نے حنا کا رنگ اختیار کیا ہے۔ اور یہ خون ہے کہ کسی طرح نہیں چھوٹتا،

    کیا ہے خو ں مرا پامال یہ سرخی نہ چھوٹےگی

    اگر قاتل تو اپنے ہاتھ سو پانی سے دھو وےگا

    جم گیا خوں کف قاتل پہ ترا میر زبس

    ان نے رو رو دیا کل ہاتھ کو دھوتے دھوتے

    یہ جنون کی کیفیت ہے جسے عام اصطلاح میں خون چڑھنا کہتے ہیں اور میر نے اس کو ایک جگہ یوں بیان کیا ہے،

    خون کم کر اب کہ کشتوں کے تو پشتے لگ گئے

    قتل کرتے کرتے تیرے تئیں جنوں ہو جائےگا

    اور جب ہم میر کا یہ شعر پڑھتے ہیں تو آج بھی دو سو برس پہلے کی خون میں لتھڑی ہوئی دلّی کی یاد تازہ ہو جاتی ہے،

    شش جہت سے اس میں ظالم بوئے خوں کہ راہ ہے

    تیرا کوچہ ہم سے تو کہہ کس کی بسمل گاہ ہے

    غالباً میر کے وہ اشعار جن میں عاشقانہ نیازمندی کی کمی ہے محبوب کے اس تصور سے تعلق رکھتے ہیں،

    وجہ بے گانگی نہیں معلوم

    تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں

    اپنا شیوہ کجی نہیں یوں تو

    یار جی ٹیڑھے بانکے ہم بھی ہیں

    رکھا ہے اپنے تئیں روک روک کر ورنہ

    سیاہ کر دیں زمانے کو ہم جو آہ کریں

    اگر اٹھیں گے اسی حال سے تو کہیو میر

    جو روز حشر تجھی کو نہ عذر خواہ کریں

    بہت ممکن ہے اس تصور نے میر کو واسوخت لکھنے پر اکسایا ہو۔ یہ بات اہم ہے کہ اردو میں واسوخت کی ابتدا میر نے کی ہے اور واسوخت اس وقت تک نہیں لکھا جاتا جب تک محبوب کے لئے جذبہ احترام میں کمی نہ ہو اور یہ عاشق پیشہ شاعروں کاشیوہ نہیں ہے جب کہ حافظ نے کہا ہے کہ ’’ہیچ عاشق سخن سخت بہ معشوق نہ گفت۔‘‘

    محبوب کے احترام میں کمی کے جذبے کی غمازی وہ اشعار بھی کرتے ہیں جن میں میر نے وصال کے مضمون کو مبتذل بنا دیا ہے۔ ان کے یہاں وصال کی تین کیفیتیں ملتی ہیں۔ ایک تو وہ ہلکی کیفیت جس میں وہ محبوب کے گال کاٹتے ہیں اور نشے میں دھت معشوق کی راتوں کو اٹھ اٹھ کر خبر لیتے ہیں۔

    دوسری کیفیت وہ ہے جہاں وصل کی لذت درد و غم کے اتھاہ سمند رمیں ڈوب جاتی ہے اور عاشق کی مفلسی اور مظلومی کی غمازی کرتی ہے،

    آج ہمارے گھر آیا تو کیا ہے یاں جو نثار کریں

    الا کھینچ بغل میں تجھ کو دیر تلک ہم پیار کریں

    بھری آنکھیں کسو کی پونچھتے گر آستیں رکھتے

    ہوئی شرمندگی کیا کیا ہمیں اس دست خالی سے

    تیسری کیفیت خالص نشاط کی ہے اور یہ اشعار بہت کم تعداد میں ہیں،

    سب مزے درکنار عالم کے

    یار جب ہم کنار ہوتا ہے

    برافروختہ رخ ہے اس کا کس خوبی سے مستی میں

    پی کے شراب شگفتہ ہوا ہے اس نوگل پہ بہار ہے آج

    اس بحر حسن سراسر اوجِ موج و تلاطم ہے

    شوق کی اپنے نگاہ جہاں تک جاوے بوس و کنار ہے آج

    قربان پیالہ مئے ناب

    جس سے کہ ترا حجاب نکلا

    یہ بات بھی غور طالب ہے کہ میر کے یہاں وصال کا ابتذال، درد و کرب اور خالص نشاط سب کچھ ہونے کے بعد بھی ان کا کلام وصال کی اس سادہ لذت اور معشوق نواز ی کی کیفیت سے خالی ہے جس کی مثال پیش رو ولی دکنی کی غزلوں یں ملتی ہے، جیسے،

    سجن تم مکھ ستی الٹو نقاب آہستہ آہستہ

    کہ جیوں گل سے نکستا ہے گلاب آہستہ آہستہ

    عجب کچھ لطف رکھتا ہے شب خلوت میں گلرویوں

    خطاب آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ

    اور ان کے یہاں غالب کا یہ انداز ملتا ہے کہ محبوب کے ساتھ مل کر زمین اور آسمان کو تہ وبالا کر دیں۔ (بیاکہ قاعدہ آسماں مگر وادانیم) اس کے برعکس میر اپنے جفا پیشہ محبوب کو تبدیل کرنے کے لئے زمانے سے انقلا ب کے خواہش مند ہیں اور اس دنیا کی نئی بنیادیں رکھنا چاہتے ہیں،

    شایدکہ قلب یار بھی ٹک اس طرف پھر ے

    میں منتطر زمانے سے ہوں انقلاب کا

    سر دور فلک بھی دیکھوں اپنے روبرو ٹوٹا

    کہ سنگ محتسب پائے خم دست سبو ٹوٹا

    یہ دو ر تو موافق ہوتا نہیں مگراب

    رکھئے بنائے تازہ اس چرخ چنبری کی

    اوپر کے شعر میں انقلاب کا منظر آج کے زمانے کے مطابق سیاسی اور سماجی تبدیلی کے لئے استعمال نہیں ہوا ہے۔ اس کا مطلب صرف غلبہ اور انتشار کے دور کا خاتمہ ہے۔ یہ انداز اور رجحان دراصل عاشق اور معشوق کی دوئی کاپتہ دیتا ہے اور فرد اور سماج، انسان اور زمانے کے ٹکراؤ کو ظاہر کرتا ہے۔

    میر کی شاعری میں دو اور محبوب جھلکتے ہیں اور یہ دونوں ایک دوسرے سے قریب ہیں۔ ایک تو میر کا ذاتی محبوب معلوم ہوتا ہے اس کا نام انہوں نے کچھ نہیں لیا اور کبھی کبھی وہ ان اشعار میں جلوہ گر ہوتا ہے جن میں بظاہر محبوب کا کوئی ذکر بھی نہیں ہے۔ یا تو محبوب کی آمد ہے، یا رخصت ہے۔ عاشق کا اس کی گلی سے نکلنا ہے یا اس کی محفل میں پہنچنا ہے۔ ان شعروں میں وہ کیفیت ہے جو عظیم عشقیہ شاعری کی جان ہے۔ ایک مہذب درد، ایک لذت سے بھری ہوئی کسک اور دل کی ایک ایسی دھڑکن جو لفظوں میں منتقل ہو جاتی ہے،

    رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے

    جیسے تصویر لگادے کوئی دیوار کے ساتھ

    وے تو کھڑے کھڑے مرے گھر آکے پھر گئے

    میں بے دیار وبے دل و بے خانماں ہوا

    ترے فراق میں جیسے خیال مفلس کا

    گئی ہے فکر پریشاں کہاں کہاں میری

    کچھ گل سے ہیں شگفتہ کچھ سرو سے ہیں قد کش

    اس کے خیال میں ہم دیکھیں ہیں خواب کیا کیا

    جیسے حسرت لیے جاتا ہے جہاں سے کوئی

    آہ یوں کوچہ دلبر سے سفر ہم نے کیا

    کچھ نہ دیکھا پھر بجز اک شعلہ پر بیچ وتاب

    شمع تک تو ہم نے دیکھا تھا پروانہ گیا

    گل ہو، آئینہ ہو مہتاب ہو خورشید ہو میر

    اپنا محبوب وہی ہے جو ادا رکھتا ہو

    پھول، گل، شمس وقمر سارے ہی تھے

    پر ہمیں ان میں تمہیں بھائے بہت

    چلانا اٹھ کے وہیں چپکے چپکے پھر تو میر

    ابھی تو اس کی گلی سے پکار لایا ہوں

    نہیں ہے چاہ بھلی اتنی بھی، دعا کر میر

    کہ اب جو دیکھوں اسے میں بہت نہ پیار آوے

    اس محبوب کا سراپا فطرت سے ہم آہنگ ہے۔ اس کے جسم کی ترکیب برگ گل سے ہے۔ اس کا منہ کھلنے سے چاندنی چھٹکتی ہے۔ کلیوں نے کم کم کھلنا اس کی نیم باز آنکھوں سے سیکھا ہے۔ گل کی شاخوں نے اس کے قامت سے انگڑائیاں لینے کا انداز اختیار کیاہے اور اس سے ہم آغوشی زمین وآسمان کو بوس وکنار میں غرق کر دیتی ہے۔ یہ فطرت کا اتنا نکھرا ہوا روپ ہے کہ اس کے سامنے پھول کے منہ سے باس آنے لگتی ہے اور سرو بھونڈا اور بھدا دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس کی پاکیزگی اور لطافت کا یہ عالم ہے کہ بدن ہاتھ لگتے میلا ہوتا ہے۔ یہ فطرت کا کنایہ ہے اور اس سے ہم آغوشی فطرت سے ہم آہنگ ہونے کی خواہش ہے جو صوفیانہ طرز فکر میں، جس کے وارث اردو کے تمام کلاسیکی شعرا ہیں، نہایت اہم درجہ رکھتی ہے۔

    فطرت سے ہم آہنگی کے جذبے نے کبھی کبھی موت کی خواہش کی شکل بھی اختیار کی ہے۔ یہ بڑی حسین صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ زندگی کے اختصار کو میر نے بار بار بوئے گل اور نوائے بلبل سے تشبیہ دی ہے۔ اس کا ثبات کلی کے تبسم کے برابر ہے۔ دنیا کسی شوخ کی قدم گاہ ہے، جس میں گل کے چراغوں سے روشنی ہو رہی ہے۔ اس سے منہ پھیر کے چلے جانے کو کس کاجی چاہےگا۔ پھر بھی فطرت سے ہم آہنگی کی خواہش ہے جس کی تکمیل صرف موت کے ذریعے ہو سکتی ہے،

    رنگ گل و بوئے گل ہوتے ہیں ہوا دونوں

    کیا قافلہ جاتا ہے، جو تو بھی چلا چاہے

    برنگ بوئے گل اس باغ سے ہم آشنا ہوتے

    کہ ہمراہ صبا ٹک سیر کرتے اور ہوا ہوتے

    آہ کی میں دل حیران و خفا کو سونپا

    میں نے یہ غنچہ تصویر صبا کو سونپا

    صوفیانہ طرز فکر میں موت کے دو اور پہلو بھی ہیں اور وہ بھی میر کے یہاں نمایاں ہیں۔ معشوق حقیقی سے وصال یا فطرت سے ہم آہنگی جو رنگ وبوئے گل اور بادصبا کے ہم سفر ہونے کے برابر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موت ایک فطری عمل بھی ہے اور اس کی اس فطری خصوصیت سے ظالموں اور امیروں کو عبرت دلائی گئی ہے،

    منعم نے بنا ظلم کی رکھ گھر تو بنایا

    پر آپ کوئی رات ہی مہمان رہےگا

    بےزری کا نہ کر گلہ غافل

    رہ تسلی کہ یوں مقدر تھا

    اتنے منعم جہان میں گزرے

    وقت رحلت کے کس کنے زر تھا

    صاحب جاہ و شوکت و اقبال

    اک ازاں جملہ اب سکندر تھا

    تھی یہ سب کائنات زیر نگیں

    ساتھ مور و ملخ سا لشکر تھا

    لعل و یاقوت ہم زر و گوہر

    چاہیے جس قدر میسر تھا

    آخرِکار جب جہاں سے گیا

    ہاتھ خالی کفن سے باہر تھا

    کل پاؤں ایک کاسہ سر پر جو آ گیا

    یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا

    کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر

    میں بھی کبھو کسو کا سر پر غور تھا

    یہ وہ منزل ہے جہاں پہنچ کر امیر اور غریب برابر ہو جاتے ہیں چونکہ اس عہد میں معاشی مسائل اور طریق پیداوار اتنے ترقی یافتہ نہ تھے کہ مساوات کا تصور زندگی میں ممکن ہوتا۔ اس لئے موت اس خواہش کی تکمیل کرتی تھی۔ یہ تصور بھگتی کی کویتا اور مسٹک (MYSTIC) شاعری میں بھی عام ہے۔ چیکوسلواکیہ میں ایک مقام تابور ہے۔ اس کے میوزیم میں قرون وسطی کی عیسائی صوفی تحریک مسٹی سزم (MYSTICISM) کے ایک رہنما جان ہس (JAN HUSS) کی یادگار یں محفوظ ہیں اور اس دور کے بعض شعرا کی نظمیں بھی رکھی ہوئی ہیں۔ ایک شاعر کی نظم میں یہ شعر پڑھ کر کہ ’’موت عصائے شاہی اور کسان کے ہل کو ایک ہی قبر میں سلا دیتی ہے۔‘‘ مجھے بے ساختہ میر کا شعر یاد آ گیا،

    سب ہیں یکساں جب فنا اک بارگی طاری ہوئی

    ٹھیکرا اس مرتبے میں کیا سر فغفور کا

    اس سے ملتا جلتا موت کایہ پہلو بھی ہے کہ وہ دکھ درد کو ختم کر دیتی ہے جس کا خاتمہ زندگی میں ممکن نہیں۔ اس لئے یہ سکون و آرام کی تلاش ہے،

    کیا سیر اس خرابے کا بہت اب چل کے سو رہیے

    کسو دیوا ر کے سائے میں منہ پر لے کے داماں کو

    فکر معاش یعنی غم زیست تابہ کے

    مر جائیے کہیں کہ ٹک آرام پائیے

    غالباً زیر زمیں میر ہے آرام بہت

    پھر نہ آئے جو ہوئے خاک میں جا آسودہ

    میر کے یہاں بہت سے اشعار میں یہ احساس بھی ملتا ہے کہ موت حرکت اور تبدیلی کا نام ہے،

    چشم ہو تو آئینہ خانہ ہے دہر

    منہ نظر آتاہے دیواروں کے بیچ

    ہیں عناصر کی یہ صورت بازیاں

    شعبدے کیا کیا ہیں ان چاروں کے بیچ

    ہر جز رومد سے دست و بغل اٹھتے ہیں خروش

    کس کا ہے راز بحر میں یارب کہ ہیں یہ جوش

    ابروئے کج ہے موج کوئی چشم ہے حباب

    موتی کسی کی بات ہے سیپی کسی کا گوش

    یاں بلبل اور گل پہ تو عبرت سے آنکھ کھول

    گل گشت سرسری نہیں اس گلستان کا

    گل یادگار چہرہ خوباں ہے بے خبر

    مرغ چمن نشاں ہے کسو خوش زبان کا

    چراغان گل سے ہے یاں روشنی

    گلستاں کسو کی قدم گاہ ہے

    گل و سنبل ہیں نیرنگ قضا، مت سرسری گزرے

    کہ بگڑے زلف و رخ کیا کیا بنائے اس گلستاں کو

    خاک آدم ہی ہے تمام زمیں

    پاؤں کو ہم سنبھال رکھتے ہیں

    تھے ماہ وشاں کل جو ان کوٹھوں پہ جلوے میں

    ہے خاک سے آج ان کی ہر صحن میں مہتابی

    اس میں یہ تصور شامل ہے کہ حقیقت ایک ہے، تصویر بہت سی ہیں۔

    جلوہ ہے اسی کا سب گلشن میں زمانے کے

    گل پھول کو ہے ان نے، پردہ سا بنا رکھا

    گہہ گل ہے گاہ رنگ گہے باغ کی ہے بو

    آتا نہیں نظر وہ طرح دار ایک طرح

    نیرنگ حسن دوست سے کر آنکھیں آشنا

    ممکن نہیں وگرنہ ہو دیدار ایک طرح

    جاکے پوچھا جو میں نے یہ کار گہ مینا میں

    دل کی صورت کا بھی اے شیشہ گراں ہے شیشہ

    کہنے لا گے کہ کہاں پھرتا ہے بہکا اے مست

    ہر طرح کا جو تو دیکھے ہے کہ یاں ہے شیشہ

    دل ہی سارے تھے یہ اک وقت میں جو کرکے گداز

    شکل شیشے کی بنائی ہے کہاں ہے شیشہ

    اور اس تبدیلی کی وجہ سے فطرت کا حسن ہمیشہ تازہ اور جوان رہتا ہے،

    کیا خوبی اس چمن کی موقوف ہے کسو پر

    گل گر گئے عدم کو مکھڑے نظیر آئے

    پھول چہروں میں بدل جاتے ہیں، چہرے پھولوں میں، خاک سے آدمی بنتا ہے اور آدمی خاک ہو جاتا ہے۔ اس طرح موت اور زندگی ایک سلسلے کی کڑیاں بن جاتی ہیں اور ساری کائنات ایک وحدت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور میر کی شاعری کے تمام بکھرے ہوئے جلوے ایک صد رنگ گلستاں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اس میں پھول بھی ہیں اور کانٹے بھی، بلبل بھی اور صیاد بھی۔ نشیمن بھی ہے اور بجلی بھی، زندہ رہنے کی امنگ بھی ہے اور مر جانے کا حوصلہ بھی اوریہی وجہ ہے کہ یہ شاعری آج بھی عظیم ہے اور زمانے کے بدل جانے کے بعد بھی دو سو برس پرانی زبان میں ہمارے جذبات اور احساسات کا ساتھ دے رہی ہے۔

    (رسالہ شاہکار، الہ آباد ۱۹۶۱ء )

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے