Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

مرزا یاس یگانہ کی شاعری

ممتاز حسین

مرزا یاس یگانہ کی شاعری

ممتاز حسین

MORE BYممتاز حسین

    سرسید اور حالی نے اپنی ہم عصر شعروشاعری کی مصنوعیت کو دیکھتے ہوئے اصلیت (نیچرل ہونے) اور تاثر پر اس قدر زیادہ زور دیا کہ حالی کے بعد غزل گو شعرا کی جو کھیپ بالخصوص لکھنؤ میں ابھری، اس نے اپنی شاعری میں ایک نیا طرز اختیار کیا۔ لفظوں سے کھیلنے کی پرانی عادت نہ گئی، لیکن لفظوں کی شعبدہ گری سے متعجب کرنے کی بجائے ایک شعوری کوشش، کچھ اظہار غم، آہ وبکا اور ماتم کی نظر آتی ہے۔ اسی نسبت سے سامعین کو متاثر کرنے کا مقصد بھی ان کی شاعری میں راہ پاتا ہے۔

    عزیز، صفی، ثاقب، محشر، آرزو اور فانی بھی۔۔۔ یہ سب کے سب عاشق کا جنازہ بڑ ی دھوم سے اٹھاتے ہیں۔ میرنے دل غمزدہ کی بات کو دل کے مرثیے کا نام دیا۔ ان شعرا نے پیروی میر میں دل کا مرثیہ سچ مچ میں لکھنا شروع کر دیا۔ شاعری کتنی ہی فطری ہو، ایک مصنوعی شے بھی ہے۔ شاعر کوئی بھی سوانگ رچا سکتا ہے۔ چنانچہ ان کے اشعار میں اظہار غم موجود ہے، لیکن وہ کسی فطری حالت کا نہیں بلکہ زبان کا پردہ اور نقلی چہرے کا معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ ان اشعار میں تاثیر کی بجائے تاثر ہے۔ ثاقب کا ایک غمناک شعر ملاحظہ ہو،

    روتے روتے شام ہوئی ہے کب تک اشک بہائیں گے

    بہتے بہتے تھمتے ہیں دریا، آنکھیں بھی تھم جائیں گی

    انہی کا ایک اور متعجب کرنے والا شعر ملاحظہ ہو،

    غیروں کو دکھایا مرا دل کھول کے مٹھی

    مجھ سے دم پرسش یہ کہا اور ہی کچھ ہے

    مگریہ بزم شاعری کچھ انہیں پر مشتمل نہ تھی، انہیں ایسے شعرا کی ہم عصری کا بھی شرف ملا جو صحیح معنوں میں حقیقی شاعر تھے اور جنہوں نے حقیقی شاعری کی۔ نام تو کئی ایک ہیں اورسب اہم ہیں لیکن اس وقت گفتگو ان کی ہے، جنہوں نے شاعری اکتساب خیال سے نہیں بلکہ اپنے تجربات سے کی ہے۔ اس سلسلے میں جہاں حسرت کا نام لیا جا سکتا ہے وہاں یگانہ کا بھی۔

    حالی سے پہلے ہماری غزل شخصی جذبے کے اظہار کی شے تھے۔ اس شخصی جذبے کے اظہار میں بہت سی باتیں آ جاتیں، قتل عام کا ذکر ہوتا، صید اور صیاد کا ذکر ہوتا، لیکن اس کی حیثیت ایک پبلک فورم کی نہ تھی۔ حالی نے اپنی شاعری کے اصلاحی دور میں، غزل کو پبلک فورم یا منبر کی شے بنا دیا اور اس سے پندوموعظت کا کام لیا اور سایہ عشق بتاں سے مکمل گریز کا انداز اختیار کیا،

    اب بھاگتے ہیں سایہ عشق بتاں سے ہم

    کچھ دل سے ہیں ڈرے ہوئے کچھ آسماں سے ہم

    حالی کا یہ ردعمل کچھ بے جانہ تھا۔ کیونکہ سلاطین دہلی کے زمانے سے لے کر مغلیہ دور حکومت کے اختتام تک، مسلمان امرا کی زندگی تعیش اور اسراف میں بسر ہوتی اور اس کا اثر نچلے طبقوں کے لوگوں کی زندگی پر بھی محسوس کیا جاتا۔ عرس، میلے ٹھیلے سب عیاشی کے اڈے تھے۔ بازار طرح طرح کے ارباب طرب سے مزین رہتا۔ غلام بچے اور کنیزں بازاروں میں بکتیں۔ امرد اور طوائفیں دکانیں سجاکر بیٹھتیں۔ یہ بازاری کلچر مسلمانوں کے اخلاق کو تباہ کئے جا رہا تھا۔ جب دور محکومی میں امرا کا طبقہ باقی نہ رہا کیونکہ وہ سب کے سب خانہ جنگیوں میں کٹ مرکر ختم ہو گئے تھے اور صرف بازار کے لوگ رہ گئے تھے جو ہنرمند یا چھوٹے دکاندار تھے، تو درمیانہ طبقے میں زندگی کی طرف ایک نیا رویہ کفایت شعاری اور بچت وغیرہ کا پیدا ہوا۔

    اس زمانے میں ایک عام تنقید، اوباشی، رندی، امرد پرستی اور طوائف باز ی کے خلاف تھی۔ حالی نے یہ صحیح طور سے محسوس کیا کہ مسلمانوں کا جنسی زندگی سے حد سے بڑھا ہوا شغف ان کی تباہی و بربادی میں مددگار ثابت ہوا۔ چنانچہ یہ اسی کا ردعمل تھا کہ ہماری غزلوں کو ناپاک دفتر کہہ کر اسے غرق دریا کرنا چاہا اور ملک میں یہ منادی کروا دی کہ رسم ورہ عاشقی منسوخ، مگر اس کا ردعمل بھی ہونا لازمی تھا۔ کیونکہ زندگی قطبین کے درمیان نقطہ توازن کی تلاش میں رہتی ہے۔ حسرت نے زندگی کی اسی ضرورت کو محسوس کیا اور رسم عاشقی کو از سرنو تہذیبی عمل کا تقدس بخشتے ہوئے عاشقانہ غزل کا احیا کیا اور اس پر اصرار کیا کہ حسرت کو فاسقانہ غزل کہنے کا بھی حق ہے کیونکہ حسرت حق پرست ہے۔ جنسی زندگی کوئی شر نہیں بلکہ خیر ہے کہ اس سے بقائے حیات انسانی ہے اور بدن روح کا ایک فطری اور مقدس گھر ہے۔ یگانہ بھی حسرت کی طرح حق پرست تھے مگران کی حق پرستی کا میدان مختلف تھا،

    کیا بتاؤں کیا ہوں میں، قدرت خدا ہوں میں

    میری خودپرستی بھی عین حق پرستی ہے

    بظاہر تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ یگانہ کی شاعری کا موضوع خودپرستی ہے۔ مگر ان کی خودپرستی محیط ہے، حیات انسانی کی تفہیم اور اس کی تنقید وتشریح پر اور چونکہ حیات انسانی کو کائنات اور قضاوقدر کے رشتوں کے بغیر سمجھنا مشکل ہے۔ اس لئے ان کے بارے میں بھی یگانہ نے اظہار خیال کیا ہے۔ مگر کس طرح؟ ایک شاعر کے طرز سخن میں جو شخصی جذبات سے مملو ہوتا ہے۔ یگانہ کوئی فلسفی نہ تھے جو بھولے سے شاعری کے میدان میں آ گئے تھے۔ وہ ایک حقیقی شاعر تھے۔ ان کی فکر ان کے اپنے تجربات زندگی کی پروردہ تھی۔ چنانچہ اسی لئے ان کی فکر میں ایسے تضادات بھی ہیں جو بدلتے ہوئے موڈ یا بغیر کیفیت سے پیدا ہوتے ہیں۔ وہ کبھی جبر تو کبھی اختیار کی باتیں بھی کرتے ہیں مگر نہ اس طرح کہ دونوں میں تضاد نہ ہو۔

    زندگی کی کئی صورت حال ایسی ہے جو پرتضاد ہے اور کیا عجب جوآدمی کی زندگی ہی مجموعہ اضداد ہو۔ ایسی صورت میں اس قسم کی حرف گیر ی غالباً جائز نہ ہوگی کہ انہوں نے کہیں کہیں اپنے ہی کو مسترد بھی کیا ہے۔ لیکن جب یگانہ کی مجموعی فکر کا احاطہ کیا جائے گا تو ان کے فلسفیانہ اور مذہبی عقائد کے بہت سے واضح خطوط ابھریں گے اور ان کا شمار ایسے شاعروں میں کیا جائےگا جن کا کوئی مثبت پیغام بجز تنقید عصر نہیں۔ یگانہ چنگیزی بغیر کسی تلوار کے تھے لیکن وہ نوک قلم سے کام تلوار کا لیتے۔ اپنوں بیگانوں کی پیٹھ پر اس مکھی کی طرح بیٹھ گئے تھے جو گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھ کر پیہم ڈسا کرتی ہے اور اگر گھوڑا اچھلتا اور کودتا ہے تو ایسا کیا کرے، وہ اپنا کام کئے جاتی ہے۔ مگر یگانہ کا کام صرف دوسروں ہی کو ڈسنا نہ تھا، موذیوں کے موذی کو فکر نیش عقرب کیا۔ بلکہ اپنے ضمیر کی چبھن کو بھی پیش کرنا تھا۔ ایک کانٹا ضمیر ِملامت شعار کا ان کے دل میں ایسا چبھا ہوا تھا جو انہیں ہر غلط کام پر ٹوکتا اور سرزنش کرتا۔ یہ کانٹا علی الرغم ان کے اس عقیدے کا تھا کہ وہ جبر کے قائل تھے،

    مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانا نہیں آتا

    پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا

    چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی شاعری کا موضوع اخلاق انسانی ہے اور اس نسبت سے نیک وبد کے مابعدالطبعیاتی ماخذ جبر وقدر، سزا و جزا وغیرہ کے مسائل بھی ہیں۔ لیکن وہ ان ساری باتوں کو انسانی رشتوں یا محسوس رشتوں اور حسن تغزل کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کا لب و لہجہ نرم اور شستہ نہیں، بلکہ سخت گیر اور کہیں کہیں جارحانہ بھی ہے۔ وہ ایک خدائی فوجدارکی طرح کہیں اخلاق تو کہیں اصلاح شعر کی جنگ لڑتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے یہ کردار خدائی فوجدار کا خودشناسی کے فریب میں اختیار کیا۔ وہ کٹر لوگوں کا خبط مذہب تو دیکھتے،

    سب ترے سوا کافر آخر اس کا مطلب کیا

    سر پھرا دے انساں کا ایسا خبط مذہب کیا

    مگروہ خود جس خبط میں گرفتار تھے اس کے شدائد دیکھ نہیں پاتے تھے۔ ان کا وہ خبط اصلاح ادب اور تکمیل کردار کا تھا۔ چنانچہ ایک جگہ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ میری شاعری میری عملی زندگی کا آئینہ ہے۔ یگانہ کو اپنے کردار پر ناز تو تھا لیکن ان کی زندگی میں جو ریاضت اپنے کردار پر قائم رہنے، اپنی کھال میں مست رہنے اور اپنی چادر سے باہر پاؤں نہ پھیلانے کی ملتی ہے، وہ اردو شاعروں کی زندگی میں بالعموم نظر نہیں آتی ہے۔ چنانچہ غالب اور اقبال پر وہ معترض اس نقطہ نگاہ سے بھی تھے کہ وہ کردار کے غازی نہ تھے۔ اس کے برعکس وہ اپنے خیال میں میر تقی میر اور آتش کو صاحب کردار سمجھتے۔

    یگانہ، میر کو اردو کاسب سے بڑا شاعر جائز طور سے تصور کرتے اور وہ میر کے فن شعر سے کسی قدر متاثر بھی ہیں۔ لیکن میر کی شاعری کادائرہ ان کی شاعری سے خاصا مختلف تھا۔ میر بنیادی اعتبار سے حسن وعشق اور لہجے کی نرمی اور سپردگی کے شاعر تھے۔ مگر میر کے کردار کا ایک پہلو یگانہ کے کردار سے میل بھی کھاتا۔ وہ پہلو خودشناسی اور خودداری کا تھا،

    اٹھیں میر تجھ سے ہی یہ خواریاں

    نہ بھائی ہماری تو قدرت نہیں

    اور وہ نازک مزاجی بھی جو کبھی کبھی اکل کھرے پن کا روپ اختیار کر لیتی،

    تری چال ٹیڑھی تیری بات روکھی

    تجھے میر سمجھا ہے یاں کم کسو نے

    یگانہ بھی میر کی طرح وحدت الوجودی شاعر ہیں۔ وہ اپنے سے باہر خدا کو ڈھونڈنے کے قائل نہیں اور نہ اس بات کے قائل تھے کہ جز، کل سے الگ ہو سکتا ہے۔ لیکن یگانہ کا یہ وحدت الوجودی تصور ایک غیر شخصی خدا کا تھا۔ وہ خدا کو احساسات کی دسترس سے ماورا تصور کرتے۔ وہ اس کو خواہ تجلی کی صورت میں ہو یا وحدت ذات کی صورت میں، مظاہر فطرت اور انسان میں نہ دیکھ پاتے۔ لہذا ان کا تصو ر وحدت الوجود ایک سیل محبت بن کر ان کے دل میں اتر نہ پایا۔ اس قسم کے اشعار،

    لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

    آفاق کی اس کار گہہ شیشہ گری کا

    یگانہ کے ہاں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتے ہیں۔ قرون وسطی میں فلسفہ وحدت الوجود، انسان دوستی کی تحریک کا ایک زبردست ستون تھا، اسی سے احترام آدمیت، احساس مروت اور ناز و نیاز حسن وعشق کی باتیں تھیں۔ اسی سے زلف وخال، کفراسلام کی بھی حکایتیں تھیں۔ اسی سے مساوات کا رشتہ انسان اور انسان کے درمیان پیدا ہوا تھا۔ ورنہ اس دور میں کوئی آئینی تصور، مساوات کا تو نہ تھا۔ ہمیں یگانہ کے یہاں اس انسان دوستی کی کچھ کمی ملتی ہے، صرف چند اشعار سے اس کی تلافی نہیں ہو سکتی ہے،

    صد رفیق و صد ہمدم پر شکستہ و دل تنگ

    داور انمی زیبد بال و پر بمن تنہا

    مجھے اے ناخدا آخر کسی کو منہ دکھانا ہے

    بہا نہ کرکے تنہا پار اتر جانا نہیں آتا

    ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تلخی حیات نے اور کچھ شعرائے لکھنؤ کی بدسلوکی نے ان سے وہ گداختگی دل چھین لی تھی جس سے دردانسانیت کی قدر مشترک جنم لیتی ہے۔ ایک کڑواگھونٹ زہر کا ان کی روح میں گھلا ہوا نظر آتا ہے۔ کاش وہ اس کو پی کر اسے امرت میں تبدیل کر دیتے۔ وہ اس پائے کے نہ تو کوئی رشی منی تھے اورنہ شاعر۔ اس کے برعکس وہ اس موقف کے قائل تھے،

    خودپرستی کیجئے یا حق پرستی کیجئے

    یاس کس دن کے لئے ناحق پرستی کیجئے

    دنیا مری بلا سے خوش ہوکہ نہ ہو

    میں اپنے سے خوش ہوں تو غم دنیا کیا

    یگانہ کے ہاں اس حق پرستی کا معیار کیا تھا؟ جب میں اس بات پر غور کرتا ہوں تو اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ وہ راہ اعتدال کو پسند کرتے اور ہرچند کہ وہ دل کو ’’دلیل راہ‘‘ (رہ نما) قرار دیتے ہیں، لیکن وہ جنون کی کیفیت سے کبھی دوچار نہیں ہوتے ہیں۔ ذرا اس شعر پر غور کیجئے،

    امید صلح کیا ہو کسی حق پرست سے

    پیچھے وہ کیا ہٹےگا جو حد سے بڑھا نہ ہو

    اور پھر اسی شعر کے ساتھ ساتھ یہ شعر بھی پیش نظر رہے،

    ادب کے واسطے کتنوں کے دل دکھائے ہیں

    یگانہ حد سے گزرنا نہ تھا مگر گزرے

    بہر حال یہ اسی میانہ روی اور اعتدال پسندی کا نتیجہ تھا کہ ہرچند کہ ان کے دل میں ارمانوں کے طوفان اٹھتے مگر وہ دل مار کر رہتے،

    اسیرو! شوق آزادی مجھے بھی گدگداتا ہے

    مگر چادر سے باہر پاؤں پھیلانا نہیں آتا

    مگر وہ اس سیاسی غلامی کو بھی منجملہ اسباب جبر ہی تصور کرتے،

    بڑھ گئی قید خودی سے اوراک قید فرنگ

    آزماتے ہیں وہ اب طوق و سلاسل سے مجھے

    جبر کا یہ فلسفہ یگانہ کے یہاں اتنی بہت سی چیزوں کے حوالے سے آیا ہے کہ اگر اس مسئلے سے متعلق ان کے موقف کی وضاحت نہ کی جائے توان کی تنقید کی تیزی اور کاٹ نمایاں نہ ہو سکےگی۔ جبر و اختیار کے مسئلے پر ہمارے شعرا عام طور سے اظہار خیال اس لئے کرتے آئے ہیں کہ اس سے خیروشر، سزا و جزا کے مسائل وابستہ ہیں اور کسی بھی مذہبی فکر کے دائرے میں رہتے ہوئے انسانی اخلاق کی گفتگو اس مسئلے سے دامن چھڑا کر ممکن نہیں۔ لیکن جبر و اختیار کی بحث ہمیشہ بے معنی بھی رہی ہے کیونکہ یہ مسئلہ ’’یا یہ یا وہ‘‘ کا نہیں۔ نہ تو انسان مجبور محض ہے اور نہ مختار مطلق۔۔۔ وہ اپنی مجبوری میں آزاد اور آزادی میں مجبور بھی ہے۔ یہ دونوں صورتیں اضافی ہیں، لیکن اس سے زیادہ اہم اس بات کا جاننا ہے کہ انسان ایک BECOMING خود گر حقیقت ہے۔ وہ اپنے کو اپنے عمل سے بناتا رہا ہے۔ چنانچہ اسی نسبت سے اس کی آزادی کا دائرہ بھی بڑھتا اور پھلتا رہا۔

    انسان کا ایک ارتقا نوعی یا فطری ہے جس کے ذریعے وہ حیوان ناطق یا صاحب شعور بنا ہے۔ ایک بار اس مرحلہ حیات کو پہنچ کر اس نے ایک تمدنی اور تہذیبی دائرہ اپنی ترقی کا پیدا کیا جس کی رو سے اس نے ترقی کی کچھ نئی جہتیں نکالی ہیں۔ انہیں میں سے ایک یہ ہے کہ انسانی زندگی میں شر کے عنصر کو سماجی رشتوں کی تبدیلی سے کم کیا جا سکتا ہے، اس حد تک کم کیا جاسکتا ہے کہ وہ غیرا ہم ہو جائے لیکن بہت سے لوگ اس بات کو تسلیم نہیں کرتے ہیں کہ فطرت انسانی تغیر پذیر ہے، وہ کچھ سے کچھ ہوتی رہی ہے، بدلتی رہی ہے یاکہ وہ بدل سکتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح حیوانات کی ایک معین فطرت ہے، جس کا اظہار بہ تکرا ر ہوتا رہتا ہے، اسی طرح انسان کی فطرت بھی ہے۔ وہ اپنی ایک فطرت لے کر آتا ہے۔ چنانچہ جو لوگ اس طرح سوچتے ہیں وہ خیر و شر کو اس کی فطرت میں دیکھتے ہیں۔

    سوال یہ ہے کہ کیا انسان کے علاوہ بھی کسی دوسرے حیوان میں خیر و شر کی ملی جلی فطرت ملتی ہے، کیا کوئی شیر جب اپنی غذا کے لئے کسی جانور کا شکار کرتا ہے، یا تحفظ جان کے لئے اپنے سے کسی قوی تر جانور سے لڑ پڑتا ہے یا یہ کہ انسان پر حملہ کرتا ہے تو ایسا اپنی فطرت کے مطابق کرتا ہے یا کسی خیر و شر کے تصور کے تحت۔ جو اب واضح ہے کہ خیر و شر کا مسئلہ صرف انسان کے ساتھ وابستہ ہے، اس سے باہر نہ تو خیر ہے اور نہ شر، بلکہ زندگی کا ایک ایسا سانچہ ہے جو خیر و شر کے سوال سے بے نیاز ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ انسان میں خیر و شر کی تمیز ہے اور ایسا کیوں نہیں ہے کہ وہ خیر و شر کی تمیز سے مبرا ہو۔

    میں اس مسئلے پر گفتگو اس روایتی فکر سے کروں گا جو ہمارے معاشرے میں ابتدائی دور اسلام سے جاری رہی ہے۔ ایک گروہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خیر محض ہے اور خیر محض سے کوئی شر پیدا نہیں ہو سکتا اور اگر یہ کہا جائے کہ قدرت کاملہ سے کچھ بعید نہیں اور نہ کچھ محال تو یہ یوں درست نہیں ہے کہ خدا اپنی نفی پر قادر نہیں ہے۔۔۔ چنانچہ شر کی ذمہ داری ابلیس پر ڈالی جاتی ہے اوریہ وہی ابلیس ہے جس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور پھر بعد میں بی بی حوا کو بہکایا اور پھر بی بی حوا نے آدم کو پھسلایا۔ بہر حال ان کا خیال ہے کہ وہی ابلیس انسان کو شر کے لئے ورغلاتا رہتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو انسان کے سارے برے افعال کی سزا شیطان کو ملنی چاہئے نہ کہ انسان کو اور پھر یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا خدا نے اسے اسی کام کے لئے پیدا کیا ہے ؟ دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ انسان میں ’’منجانب رب‘‘ نیک وبد کی تمیز اسی لئے دی گئی ہے کہ وہ شیطنت اور برائیوں کو پہچانے اور اگروہ شیطان کو دور رکھنے اور برائیوں سے بچنے میں ناکام رہتا ہے تو اس کی ذمہ داری خود اس کے سر ہے نہ کہ شیطان کے سر۔ اسی صورت حال سے متعلق یہ شعر کہا گیا ہے،

    درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای

    باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش

    اب یہاں ایک دوسرا مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان میں نیک وبد کی تمیز کیوں کر پیدا ہوئی۔ کیا یہ تمیز ازخود اس نے اپنے اندر پیدا کی یا یہ کہ یہ شے کسی غلط راستے سے اس کے اندر آئی اور بعد میں ایک خوبی میں تبدیل ہو گئی۔ مذہبی فکر خواہ و ہ مسیحی ہو یا اسلامی، اسی آخرالذکر نقطہ نظر کو اپناتی آئی ہے کہ نیک وبد کی تمیز انسان میں، اس نافرمانی سے پیدا ہوئی جو شیطان کے بہکاوے سے حضرت آدم سے سرزد ہوئی اور ابلیس میں شر پیدا کرنے کی آزادی بھی خدا کے حکم کی نافرمانی سے پیدا ہوئی۔ چنانچہ ان دونوں پہلوؤں سے شر بنیادی حیثیت سے، حکم الہی کی نافرمانی سے پیدا ہوا۔ یعنی اگر ابلیس نے انکار نہ کیا ہوتا، اسے روز ازل انکار کی جرات ہوئی کیونکر اور اگر حضرت آدم شجر ممنوعہ کے پاس نہ گئے ہوتے، جو اللہ تعالی کی حکم عدولی تھی تو نہ تو شر وجود میں آتا نہ تو خیر۔ کیونکہ خیر کو شر ہی کے تضاد سے پہچانا گیا ہے۔

    فلاسفہ یہ تمثیلی انداز اختیار نہیں کرتے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ انسان اور حیوان کے درمیان بنیادی خط امتیاز شعور کا ہے۔ جس کا خارجی روپ زبان (LOGOS) ہے۔ انسان نے اس حیوانی سرحد کو کیونکر پاس کیا۔ ارتقائی فکر کے حکما اس سے متعلق اپنی تاویلیں پیش کرتے ہیں اور مذہبی مفکرین اسے ایک رمز یا سِر الہ تصور کرتے ہیں، لیکن یہ بات سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ جب تک انسان کا پیش رو حیوان اپنی فطرت کے ساتھ متحد تھا اور اس کی ہدایت اس طرح ہوتی جس طرح کہ شہد کی مکھی کی ہوتی ہے۔ وہ نیک و بد سے بے نیاز تھا لیکن جب وہ شعور سے دوچار ہوا یعنی حیوان ناطق بنا، جس کے ایک معنی تمیز کرنے والے انسان کے ہیں جیسا کہ یہ لفظ (HOMO SAPIENS) بتاتا ہے، تو اس نے اپنے کو نہ صرف خارج کی فطرت بلکہ اپنی فطرت سے بھی ممیز کیا۔

    شعور کے پیدا ہوتے ہی جو زبان (LANGUAGE) کی اندرونی حقیقت ہے، اس نے ایک کمی، ہیچ میرزی، نہ کچھ ہونے کا احساس، ایک خلا اپنے اندر محسوس کیا اور پھر اس کے رد عمل میں کچھ بننے، کچھ حاصل کرنے یا تحصیل ذات کا شعور اس میں پیدا ہوا۔ لیکن کسی اثباتی عمل سے پہلے اس نے خود اپنی فطرت کو ’’نہیں‘‘ کہنے، اسے زیر کرنے، اس پر قابو پانے کا حوصلہ بھی اس میں پیدا ہوا۔ آزادی کا پہلا کلمہ ’’نہیں‘‘ ہے، اور اسی ’’نہیں‘‘ سے اخلاق پیدا ہوا ہے۔ چنانچہ اخلاقیات کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ قدیم سے قدیم معاشرے میں بھی اس آدمی کی بڑی عزت کی جاتی جو اپنے نفس کو مارتا، جو اپنی ضرورتوں کو کم کرتا، اپنے غم وغصہ اور شہوانی جذبات پر قابو پاتا۔ اسی عمل نفی سے رشی منی، سادھو سنت، متقی پرہیزگار اور صوفی و صافی بنے ہیں۔

    چنانچہ جب نٹشے نے او ور مین (OVERMAN) کے تصور سے مسیحی بساط اخلاق کو الٹنا چاہا تو اس نے اوور مین کے اخلاق میں پھر بھی اس بات کو قائم رکھا کہ اوور مین وہ ہے جو اپنے اوپر غالب آتا ہے۔ اب دیکھئے کہ اپنے اوپر غالب آنے کی بھی دو صورتیں ہیں۔ ایک زہدتہی دستی سے اور ایک زہد پر دلی سے پیدا ہوتا ہے۔ گوتم ایک راجہ کا بیٹا تھا۔ اس کی تپسیا (تپش-آگ سے گزرنا) پر دلی سے تھی۔ چنانچہ وہ نٹشے کا اوور مین بھی تھا۔ وہ اپنے نفس پر اپنی پر دلی سے غالب آیا تھا۔ لیکن اس کی یہ تپسیا ایک ذریعہ تھی اس شکتی یا قوت حاصل کرنے کا جس سے عالم انسانی وجود میں آتے ہیں۔

    چنانچہ جب گوتم سے اس کے ایک شاگرد نے پوچھا، آپ یہ شکتی کس لئے حاصل کرنا چاہتے ہیں، کیا آپ کا مقصد ملکوں کی فتح کرنا ہے، کیا آپ کا مقصد انسانوں پر حکمرانی کرنا ہے، کیا آپ کامقصد دنیا کے عیش و عشرت کو سمیٹنا ہے، تو گوتم نے جوا ب دیا، میرے عزیز شاگرد یہ سب کچھ نہیں۔ شکتی حاصل کرنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ ایک نیا عالم خلق کیا جائے۔ انسانی ماحول کو ایک بہتر ماحول سے بدلا جائے۔ لیکن افسوس کہ اس کے پیر و بھکشو حضرات اور زاہدان باصفا، گوتم کی اس بات کوپا نہ سکے اور وہ ’’جادہ راہ فنا‘‘ میں کھو گئے۔ لیکن ان کی یہ گمرہی ایک دوسری حکایت ہے، مجھے تویہ بات اس لئے درمیان میں لانی پڑی کہ میں نے محسوس کیا کہ یگانہ کا رویہ انسان کی تخلیقی قوت کے بارے میں وہ نہیں ہے جو اقبالؒ کا ہے،

    تو شب آفریدی چراغ آفریدم

    توگل آفریدی ایاغ آفریدم

    اقبال

    اس کے برعکس وہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں،

    ازل سے تیرا بندہ ہوں ترا ہر حکم آنکھوں پر

    مگر فرمان آزادی بجا لانا نہیں آتا

    مگر اس کے باوجود ان کے بدن میں روح ایک سنیاسی کی تھی۔ وہ تکمیل کردار کی خاطر ہر طرح کی آزمائش سے گزرنا گوارا کرتے تھے اوریہ رجحان ان میں اپنی ذات کو ایذا پہنچانے کی حد تک قوی تھا۔

    وحدت الوجودی صوفیوں کے بار ے میں یہ اعتراض عام طور سے کیا جاتا رہا ہے کہ جب بقول ان کے سب کچھ وہی وہ ہے اورخدا سے باہر کوئی شے نہیں تو پھر نہ تو کچھ شر ہے اور نہ فساد۔ زندگی میں ہر چیز کی آزادی ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ بعض شعرا نے فلسفہ وحدت الوجود کے تحت ایک قسم کی آزادی بعض ایسے امور میں برتی ہے جن پر شریعت نکتہ چیں رہی۔ مثلا سماع اور نشے کی حرمت۔ لیکن اس آزادی سے ان کے کردار کے تنز یہی پہلو میں کوئی خاص نقص واقع نہیں ہوا ہے۔ میر ایک وحدت الوجودی شاعر تھے۔ مگر ان کی زندگی میں تنزیہ اور درویشی بھی تھی۔ بات یہ ہے کہ رندانہ زندگی مانع درویشی نہیں ہے اور قلندر کا رویہ رند کے رویے سے ذرا کم ہی مختلف ہوتا ہے۔ غالب بیک وقت رند بھی تھے اور قلندر بھی،

    کیا زہد کو مانوں کہ نہ ہو گرچہ ریائی

    پاداش عمل کی طمع خام بہت ہے

    چنانچہ قلندر ہو کہ رند، دونوں ہی اس طمع خام سے آزاد ہوتے ہیں جس کا تعلق حور و غلمان کے حصول سے ہے۔ یگانہ کابھی ایک شعرا سی وضع کا ہے،

    یاد خدا کا وقت بھی آئےگا کوئی یا نہیں

    یاد گناہ کب تلک شام و سحر نمازمیں

    وہ ’’یاد خدا‘‘ جو طمع خام سے آزاد ہو اور وہ نماز جو بےنیاز اجر ہو، یگانہ اسی یاد خدا اور نماز کے قائل تھے۔ اس سے ان کی زندگی میں جو تنز یہی اور تجریدی پہلو نکلتا ہے، وہی ان کے ضمیر ملامت شعار کی بھی وضاحت کرتا ہے۔ یگانہ ایک شاعر تھے اور عام طور سے شاعرکی زندگی، دلدادہ حیات کی زندگی ہوتی ہے۔ لیکن یگانہ نے تکمیل کردار کے پیش نظر بہت سی لذتوں کو اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا، اور ایسا صرف کردار کی خاطر تھا، ایک ایسا کردار جو آپ اپنا انعام ہوتا ہے۔ کانٹ کے فلسفے میں تو انسان مرنے کے بعد بھی تکمیل کردار کے عمل کو جاری رکھتا ہے اور وہ ہرقسم کے اجر سے بے نیاز ہوتا ہے۔ ہندوؤں میں تجسیم INCARNATION کا فلسفہ بھی اسی سے پیدا ہوا ہے۔ یگانہ کی شاعری میں اس بے نیازی کا مضمون اکثر و بیشتر ملتا ہے،

    داور حشر ہوشیار، دونوں میں امتیاز رکھ

    بندہ نا امید اور بندہ بے نیاز میں

    وہ خدا کے کرم سے بے نیاز نہ تھے (جیسا کہ بندہ نا امید لاتقنطوا سے پتا چلتا ہے) بلکہ کار خیر کے اجر سے بے نیاز تھے۔ وہ ایک ایسا سجدہ اس کے آستان سے دور اس کے غیب میں چاہتے ہیں جس میں کوئی طمع خام نہ اس دنیا کی ہو نہ ہو اس دنیا کی،

    طاعت ہویا گناہ پس پردہ خوب ہے

    دونوں کا جب مزا ہے کہ تنہا کرے کوئی

    اس شعر کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے جب وہ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں،

    بندہ فطرت مجبور ہوں مختار نہیں

    ہاں ندامت میں ہے شک جرم سے انکارنہیں

    اسی کے ساتھ ساتھ ان کے یہ اشعار بھی پیش نظر رہیں،

    سمجھ میں آ گیا جب عذر فطرت مجبور

    گناہگار ازل کو نیا بہانہ ملا!

    فطرت مجبور کو اپنے گناہوں میں ہے شک

    وا رہےگا کب تلک توبہ کا در میرے لئے

    اول تو یہ کہ یگانہ شک کے عالم میں ہیں، وہ پوری طرح اپنی ذمہ داری سے دست بردار بھی نہیں ہوتے ہیں لیکن دبی زبان سے یہ کہتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں، گناہ کیا ہو تو توبہ کروں۔ چنانچہ اسی نسبت سے انہیں اپنے کردہ گناہوں کی ندامت میں بھی شک ہے۔ لیکن اس سے انکار نہیں کہ انہوں نے جرم کیا۔ ان دونوں پہلوؤں میں ایک خاصا تضاد ہے اور یہ تضاد یگانہ کے یہاں مختلف جگہوں میں ملتا ہے۔ وہ معموں میں پھنسے ہوئے ایک آدمی تھے اور انہوں نے اپنی اس کیفیت کو بیان بھی کیا ہے،

    ہاں وسعت زنجیر تک آزاد ہوں میں بھی

    ہستی مری مجموعہ اضداد رہے گی

    شیطان کا شیطان فرشتے کا فرشتہ

    انسان کی یہ بوالعجبی یاد رہے گی

    یگانہ جس قدوقامت کے شاعر تھے، اس کے لحاظ سے جبر و قدر کے مسائل سے متعلق ان کی یہ فکر خاصی دلچسپ ہے مگر وہ چیز وہیں پر ختم ہو جاتی ہے۔ ان مسائل سے متعلق ان کی شاعری میں وہ لطف نہیں ہے جو غالب کی شاعری میں ہے۔ ضد کی بات اور ہے ورنہ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ بقید ہوش وحواس وہ غالب کے منہ کیوں آئے۔ شاید اس لئے کہ غالب کا ریختہ اولاً فارسی محاورے میں تھا اور جابجا انہوں نے عروضی آزادیوں سے بھی کام لیا ہے اور ایسا ہی غیر معتدل رویہ یگانہ اپنی آتش پرستی میں بھی اختیار کرتے ہیں، جب وہ غالب کے اشعار کے مقابلے میں آتش کے اشعار پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بہرحال یہ تو ایک ضمنی بات تھی جو اس بات کا ایک اشارہ مہیا کرتی ہے کہ جب خود ی بگڑ جاتی ہے تو وہ خودپرستی اور خودرائی کا روپ اختیار کر لیتی ہے۔ یگانہ خودپرستی اور خودرائی کا شکار ہو گئے۔ یگانہ کے سلسلے میں ان کی خودی اور یکتائیت کی بات اکثر درمیان میں لائی جاتی ہے اوران کا یہ دلچسپ شعر بھی نقل کیا جاتا ہے،

    خودی کا نشہ چڑھا آپ میں رہا نہ گیا

    خدا بنے تھے یگانہ مگر بنا نہ گیا

    علامہ اقبال نے خدا کو انسان کی آئیڈیل فطرت قرار دیا ہے۔ (خطبات) اور تخلقوا باخلاف اللہ کہہ کر انسان کو اس راہ پر ڈالنا چاہا ہے کہ وہ خدا کی صفات اپنے اندر پیدا کرے۔ ویسے بھی چونکہ انسان کو اللہ نے اپنی صورت پر خلق کیا ہے اور اس میں اپنی روح پھونکی ہے، اس لئے انسان ایک چھوٹے پیمانے پر ہی سہی، کچھ صفات الہیہ کا حامل ہوتا بھی ہے، چنانچہ اس میں خودبینی اور خودآرائی کی صفات بھی ہیں اور اسی خود بینی اور خودآرائی کو اقبال نے خودگر ی کا نام دیا ہے۔ اس سلسلے میں اقبال کا نقطہ نظر دور حاضر کے وجودیوں کے نقطہ نظر سے بہت قریب ہے۔ وجودیوں کا موقف یہ ہے کہ انسان کسی مخصوص جو ہر ESSSENCE کے ساتھ پیدا نہیں ہوتا ہے جس کو وہ ممکنہ سے حقیقی بناتا ہے یعنی تحصیل ذات کرتا ہے، اس کے برعکس وہ ایک مستقل منیر موجود (FUTURE ORIENTED EXISTANT) ہوتا ہے اور اس کا یہ مقدر ہے کہ وہ اپنا جوہر پیدا کرے خودگری کے ذریعے، چنانچہ اپنے عمل سے اپنے کو بتاتے رہنے کا عمل ساری زندگی جاری رہتا ہے۔

    چنانچہ علامہ اقبال لکھتے ہیں کہ خودی کا فلسفہ معرفت اور علم کا نہیں ہے۔ یہ چیز عشق کے حصے میں آئی ہے، بلکہ کچھ بننے اور ہونے کا مسئلہ ہے۔ چنانچہ اس نقطہ نظر سے وہ جہاں عالم، یعنی مقصد آگاہ عمل اور مستقبلیت پر زور دیتے ہیں وہاں اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ خودی کو خدا میں جذب ہونے سے بچانا بھی ہے کیونکہ انسان کا مقصد آگاہ اور مستقبل منیر عمل، ایک نہ ختم ہونے والا سفر ہے، اس کی زندگی کا انحصار ہی سفر پر ہے، اس میں کوئی منزل نہیں ہے۔ چنانچہ علامہ اقبال مقام بندگی کے بدلے جو اصل میں درد و سوز آرزو مندی کادوسر ا نام ہے، خدائی لینے کے لئے اس لئے تیار نہ تھے کہ خدا ہر خواہش سے بےنیاز ہے۔

    متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی

    مقام بندگی دے کرنہ لوں شان خداوندی

    میر نے اسی خیال کو اور بھی عمدگی سے پیش کیا ہے،

    سراپا آرزو ہونے نے بندہ کر دیا ہم کو

    و گرنہ ہم خدا تھے گر دل بے مدعا ہوتے

    یگانہ مغرب سے واقف تو تھے لیکن غالباً اس حد تک نہیں کہ اس سے صحیح طور سے استفادہ کر سکتے لیکن وہ مشرق اور اپنے معاصر ادب سے خوب واقف تھے جو ان کے زمانے میں مغرب سے خاصا متاثر تھا۔ وہ تنقید میں جہاں ڈاکٹر جانسن کی LIVES OF POETS پڑھے ہوئے تھے وہاں حالی اور شبلی کی تنقیدات کا بھی بڑا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ و ہ رابندر ناتھ ٹیگور کی شاعری سے بھی خاصے متاثر تھے لیکن ان کا نقطہ نظر ادب میں کلاسیکیت کا حامل تھا۔ وہ حالی کی طرح قوت متخیلہ کو قوت ممیزہ کا تابع رکھنا چاہتے اور اشعار میں تعقل کو اس حد تک راہ دیتے کہ ابلاغ معنی میں نہ تو کسی قسم کا ابہام پسند کرتے اور نہ کوئی تعقید۔ ان کا تنقیدی رجحان، ان کے زمانے کے تمام شعری اور تنقیدی رجحان سے مختلف تھا۔ عام رجحان اس انقلاب رومانیت کا تھا جس کی نمائندگی اقبال کا یہ شعر کرتا ہے،

    سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ

    جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

    اور یہی رومانیت شعر و ادب میں نئے فارم اور نئے آہنگ کو اپنانے، الفاظ کو نئے طرز سے برتنے اور ایک جدید جہت کو شاعری میں جگہ دینے میں نظر آتی ہے۔

    یگانہ کے لئے نہ تو اقبال اور نہ جوش، نہ اختر شیرانی اور نہ مجاز، ان میں سے کوئی بھی قابل قبول نہ تھا۔ ان کی تمام تر پسندیدگی اکبرالہ آبادی کے کلام اور کم و بیش ان کے جیسے خیالات کی تھی۔ چنانچہ ان کے فلسفہ خودی کا رخ، باہر کی جانب نہیں یعنی مستقبل آفرینی کی جانب نہیں بلکہ اندر کی جانب یعنی تنقید نفس اور تنقید ذات کی جانب تھا۔ ان کا زمانہ آدمی سے خالی تھا اور وہ چراغ لئے آدمی کو ڈھونڈ رہے تھے۔ مگران کو یہ بتانے والا کوئی نہ تھا کہ وہ جس آدمی کو ڈھونڈ رہے تھے وہ تو رومی کے زمانے میں بھی نہ تھا۔ وہ تو سقراط کے پیدا ہونے سے پہلے ہی مر چکا تھا اور سقراط خود بھی ایک روبہ انحطاط تہذیب کا ناقد تھا۔

    میں یگانہ کا مقابلہ سقراط سے نہیں کر رہاہوں بلکہ یہ بات سامنے لانا چاہتا ہوں کہ یگانہ ایک مرتی ہوئی تہذیب کے ناقد تھے۔ وہ میر اور آتش کی درویشانہ زندگی، ان کی خودداری اور غیوری کی طرف بار بار اشارہ کرتے ہیں۔ چند درویش صفت شعرا اور فقرا نے آئی ہوئی دولت کو ٹھکرا دیا، مگر یہ کوئی معمول زندگی تو نہ تھا۔ مشرق کیا تھا، ایک مطلق العنان بادشاہ اورسب نوکر چاکر، رعایا اور رعیت۔ ہاں چند درویشوں نے اپنی خودی کو ابھارا۔ یگانہ اس سے کچھ فریب سا کھا گئے، بہرحال انہوں نے اسی مشرقی خودی کو اپنایا جس کا اظہار میر کے اس شعر میں ہوا ہے،

    الہی کیسے ہوتے ہیں جنہیں ہے بندگی خواہش

    ہمیں تو شرم دامن گیر ہوتی ہے خدا ہوتے

    یگانہ نے بھی اس معنویت کے کئی شعر کہے ہیں،

    بندے نہ ہوں گے جتنے خدا ہیں خدائی میں

    کس کس خدا کے سامنے سجدہ کرے کوئی

    بندہ خود شناس ہے اپنے ہی پیرہن میں مست

    بوئے خودی کو پیش کیا سجدہ گہ ایاز میں

    زہے معراج انسانی کہ بندہ ہوں تو اپنا ہوں

    چڑھایا خود پرستی نے نگاہ دوست دشمن پر

    نگاہ یاس سے ثابت ہے سعی لاحاصل

    خدا کا ذکر تو کیا بندہ خدا نہ ملا

    مشرق کا وہی سنیاسی اور وہی صوفی جس کی عزت اس لئے ہوتی کہ اس کی حاجت محدود، اسے اپنے نفس پر قابو ہے، ان کے اشعار میں بار بار ابھرتا ہے۔ اس کو سیاست سے بھی کوئی غرض نہیں، اس کو طاقت سے بھی کوئی علاقہ نہیں کہ سیاسی طاقت بھی اس کے نزدیک شرکا سرچشمہ تھی۔ اس کو فخر اپنے دل کی روشنی اور اس بات پر ہے کہ بغیر کسی کسی طمع خام کے اس نے اپنے نفس کو مار رکھا ہے،

    وہ مرد ہے جو زیر کرے دیو نفس کو

    وہ مرد کیا جو پیر فلک سے پچھڑ گیا

    مگر یہ پارسائی، پر دلی اور ہمت عالی سے ہے نہ کہ فیض تنگ دستی سے،

    ترک لذت دنیا کیجئے تو کس دل سے

    ذوق پارسائی کیا فیض تنگ دستی ہے

    یگانہ کی یہ پارسائی یانفس کشی، کہاں تک ان کے معیار کے مطابق تھی، یہ ایک دوسری حکایت ہو گی۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کی شاعری ان کی زندگی کا پرتو ہے، نہ کہ ان کی تخیل کی آفرینش محض۔ ان کی شاعری تمام تر ان کی زندگی کا اظہار ہے۔ مگر زندگی کے صرف ایک پہلو کا اظہار ہے جس کا تعلق دنیا یا زمانے سے پیکار ہے۔ وہ بہت ہی زیادہ ایک منفرد آدمی تھے۔ وہ اپنی خودرائی میں کسی کی پیروی کے قائل نہ تھے،

    خضر منزل اپنا ہوں اپنی راہ چلتا ہوں

    میرے حال پر دنیا کیا سمجھ کے ہنستی ہے

    کوئی بندہ عشق کا، کوئی بندہ عقل کا

    پاؤں اپنے ہی نہ تھے قابل کسی زنجیر کے

    یہ آزاد روش آدمی، یگانہ اپنے کو فرقہ جبریہ میں شمار کرتا۔ لیکن روح ایسی آزاد پائی کہ اس کے جسم میں کسمساتی رہی،

    ایسی آزاد روح، اس تن میں

    کیوں پرائے مکان میں آئی؟

    اور جس طرح ان کی روح ان کے بدن میں اجنبیت محسوس کرتی، اسی طرح وہ پورے معاشرے میں ایک شدید احساس بیگانگی محسوس کرتے، بالخصوص اس زمانے سے اور زیادہ جب شعرائے لکھنؤ ان سے بہ محاورہ غالب ’’گوہار‘‘ لڑنے لگے اور ان پر رزق کے سارے دروازے بند کرنے کی بھی کوشش کی۔ اس زمانے میں اپنی خودداری اور سنسیاسیت کو راہ دیتے ہوئے انہوں نے بڑی سختیاں جھیلی ہیں۔ اس زمانے کی زندگی کا اظہار کئی اشعار میں ہوا ہے مگر اس لطف بیان کے ساتھ کہ وہ عمومیت کے حامل ہیں،

    دل طوفان شکن تنہا جو آگے تھا سو اب بھی ہے

    بہت طوفان ٹھنڈے پڑ گئے ٹکراکے ساحل سے

    دیکھتے رہ گئے یاس آپ نے اچھا نہ کیا

    ڈوبتے وقت کسی کو تو پکارا ہوتا

    چنانچہ ان کا حد سے بڑھا ہوا احساس خودی، جسے انہوں نے خودپرستی کا نام دیا ہے، آدمی تو آدمی خدا کے احسان کا بھی روادار نہ تھا۔ بندہ اور بے نیاز، یہ دو متضاد کیفیتیں ہیں لیکن وہ اس کج مریز سے بھی دوچار تھے، کیونکر بندگی میں شان بے نیازی برتی جائے، وہ اپنی اس جنگ میں ایک شکست خوردہ انسان تھے۔ چنانچہ وہ ساری شکست خوردگی اور شکستگی ان کے طنز اور استہزا کی تلخی میں ڈھل گئی ہے۔ یوں بھی وہ بنیادی جہت سے طنز، نیش زنی، تمسخر اور استہزا کے شاعر تھے۔ ایک شریر مسکراہٹ ان کے چہرے پر ہمیشہ کھیلتی رہتی۔ شاید وہ اپنے طنز کو مزاح سے ملیح اور گوارا کر لیتے مگر شکست خودی نے ان کی روح میں ایک ایسی تلخی گھول رکھی تھی کہ ان کے طنز میں کوئی گداز، نرمی اور شفائے زخم نہیں ہے۔

    اس فن کا ماہر غالب گزرا ہے۔ غالب کسی پر طنز کرنے سے پہلے اپنے کوپستی میں لے جاتے، اپنی قدروقیمت کو گھٹاتے، اپنے کو ہیچ ظاہر کرتے، پھر اپنے حریف پر اس طرح وار کرتے کہ وہ اپنے بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ ڈھیر ہو جاتا۔ یگانہ اکثر اپنے اشعار میں ’’ستم ظریفت Y IRON کی بات کرتے ہیں لیکن وہ Y IRON کے بجائے ایسا کھلا وار کرتے ہیں کہ اس سے وہ گوشمالی فطرت نہیں ہو پاتی جو طنز کا مقصد ہے۔ یگانہ کا طنز کبھی کبھی بہت ہی بھونڈا ہو جاتا ہے اور مخاصمانہ تو ہمیشہ ہی رہتا ہے۔ ان کے طنزیہ کلام میں یہ دونوں ہی عیب ملتے ہیں،

    جیسے دوزخ کی ہوا کھاکے ابھی آیا ہے

    کس قدر واعظ مکار ڈراتا ہے مجھے

    چند اشعار کے ذریعہ انہوں نے اپنے اس طنزیہ اسلوب کی وضاحت خود بھی کی ہے،

    نہ خداؤں کا نہ خدا کا ڈر، اسے عیب جانیے یا ہنر

    وہی بات آئی زبان پر جو نظرپہ چڑھ کے کھری رہی

    مردان عمل کو اجر کی پروا کیا

    خود ذوق عمل اجر ہے، اندیشہ کیا

    دنیا میری بلاسے خوش ہوکہ نہ ہو

    میں اپنے سے خوش ہوں تو غم دنیا کیا

    کہاں یہ دعوی کہ جو کبھی حد سے گزرا نہ ہو، یعنی حق پرست ثابت قدم رہا ہو، وہ پیچھے کیا ہٹے،

    امید صلح کیا ہو کسی حق پرست سے

    پیچھے وہ کیا ہٹے گا جو حد سے بڑھا نہ ہو

    اور کہاں یہ اعتراف لغزش،

    ادب کے واسطے کتنوں کے دل دکھائے ہیں

    یگانہ حد سے گزرنا نہ تھا مگر گزرے

    یگانہ میں ایذاطلبی تو تھی ہی، لیکن سوال یہ ہے کہ ان میں کچھ ایذارسانی بھی تھی۔ یہ بات کہ ’’دوسروں کے دل دکھائے ہیں‘‘ کیا اس رجحان کا ایک اشارہ نہیں ہے۔ ماہر نفسیات کا تو یہ کہنا ہے کہ جس کے یہاں ایذاطلبی ہوتی ہے اس کے یہاں کچھ نہ کچھ ایذارسانی بھی ہوتی ہے۔ جب تک یاس، یگانہ نہ بنے تھے ان کا نشتر یاس اتنا چنگیزی نہ تھا جتنا کہ وہ یگانہ چنگیزی بننے کے بعد ہوا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ بھیک مانگنے سے یادست سوال دراز کرنے سے یا زاویے میں بیٹھ کر درویشی کا سوانگ رچانے اور فتوحات پر گزارا کرنے سے خودی جاتی رہتی ہے۔ خودی کے استحکام کے لئے محنت اور اکل حلال ضروری ہے لیکن اس کے ردعمل میں یہ بھی صحیح نہیں ہے کہ بھیک سے بہتر چنگیزیت ہے،

    خواہ پیالہ ہو یا نوالہ ہو

    بن پڑے تو جھپٹ لے بھیک نہ مانگ

    یہ جارحانہ انداز خواہ وہ کسی شے کے ردعمل ہی میں کیوں نہ ہو، اس بات کا غماز ہے کہ شاعر کے یہاں اصول خودی کے برخلاف، اصول عشق کار فرمانہ تھا جو خودی کو متوازن رکھتا ہے۔ صوفیوں نے اس راز کو سمجھ لیا تھا، اسی لئے جہاں انہوں نے خودی کو بیدار کیا، وہاں انہوں نے تعلیم عشق بھی دی جو نرمی، معصومیت، الفت اور سپردگی کے جذبات سے عبارت ہے اور یہی جذبات عرفان حقیقت میں بھی رہنمائی کرتے ہیں۔ یگانہ گفتگو تو ساری صوفیوں ہی کی اصطلاحوں اور محاوروں میں کرتے ہیں اورمیر اور آتش کی پیروی میں ان سے اسی کی توقع بھی تھی، لیکن ان کے ہاں تصوف کی دل گری نہیں ملتی ہے۔ ان کا فلسفہ وحدت الوجود، غیرشخصی، تعقلی اور ناآشنائے عشق ہے، جیسا کہ میں شروع میں بھی کہہ چکا ہوں۔ صوفیہ کے یہاں عشق ہی منکشف راز ہستی ہے کہ عشق عین حقیقت ہے۔ اس کو مسیحیت میں یوں کہا گیا ہے کہ خدا محبت ہے۔ لیکن یگانہ عشق کو زندگی کا مقصد نہیں بلکہ ایک آلہ کار تصور کرتے،

    عشق ہی عین زندگی تونہیں

    ہاں مگر زندگی کا آلہ کار

    اگر عشق زندگی کا آلہ کار ہے تو پھر مقصد حیات کیا ہے؟ طاقت؟ کیونکہ عرفان الہی اور عشق ایک شے ہے۔ عشق خود ایک قوت ہے جو کائنات میں جاری اور ساری ہے۔ کوئی شخص کائنات میں جاری اور ساری نہیں ہو سکتا۔ وہ اس سے باہر ہوگا۔ اسی لئے اقبال کو فلسفہ وحدت الوجود کی تشریح میں دشواری حائل ہوئی۔ وہ اس کافیصلہ نہ کر سکے کہ خدا عشق ہے یا شخص، بلکہ اس کے برعکس دونوں کو متحد کیا۔ بہر حال موضوع گفتگو کچھ اور ہے۔ یگانہ کم از کم سپردگی عشق سے بیگانہ نظر آتے ہیں،

    ایسے دو دل بھی کم ملے ہوں گے

    نہ کشاکش ہوئی نہ جیت نہ ہار

    عشق کی مدح میں ایک آدھ شعر یا رباعی سے اس کی تلافی نہیں ہوتی ہے،

    کس دھن میں کوہکن نے تیشہ باندھا

    سر پھوڑ کے خود موت کا آگا باندھا

    قدموں سے لپٹ گئی حیات ابدی

    کیاعشق کے سر اجل نے سہرا باندھا

    جب شاعری قوت عشق سے بیگانہ ہوتی ہے تو وہ فلسفیانہ دانش یا عام انسانی تجربات سے حاصل کی ہوئی دانش اور بینش سے علاقہ رکھتی ہے۔ یگانہ نے اسی کو فلسفہ حیات کی تشریح و تنقید قرار دیا اور یہ لکھا کہ میں نے عشق کی چاشنی، زندگی کے تلخ حقائق کو گوارا بنانے کے لئے استعمال کی ہے۔ زندگی سے متعلق دانش و بینش کی شاعری کا بڑا مقام ہے۔ بشرطیکہ اس شاعری کا دائرہ وسیع اور وہ شاعری گوئٹے اور غالب کی شاعری جیسی ہو۔ یگانہ کی شاعری کا دائرہ محدود ہے۔ یہ گھومتی ہے، ان کے اپنے تجربات زندگی کے گرد۔ بہ حیثیت ایک فردان کی زندگی کارشتہ کائنات اور خدا سے بھی تھا، اس لئے وجودی ناتے سے انہوں نے خدا اور کائنا ت کی حقیقت سے متعلق بھی گفتگو کی ہے۔ مگر نہ ایسی کہ کسی نئے وجدان کا در کھلتا ہو۔

    ان کی شاعری میں ایک ضربت، ایک کاٹ، ایک نکیلاپن اور تیزابیت ایسی ہے کہ انہیں کبھی بھی بھلایا نہیں جا سکتا۔ لیکن اقلیم فکر میں ان کا استحقاق مرتبہ بہت ہی کمزور ہے۔ شاید اس لئے کہ انہوں نے اپنی ساری توجہ کلاسیکی طرز کے کمال فن پر صرف کی اور وہ اسی کے لئے یاد رکھے جائیں گے۔ انہوں نے جو مشن اپنے سامنے رکھا تھا، وہ حق گوئی اور شاعری میں تکمیل ہنر کا تھا۔ انہوں نے اپنے ان دونوں عمل سے بہت سے لوگوں کو اپنا دشمن بنایا مگر وہ اپنے مشن میں اتنے ثابت قدم رہے کہ آج میدان انہیں کے ہاتھ ہے۔ وہ کئی ایک جھڑپیں ہارے ہیں لیکن جنگ جیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے پیچھے جو سرمایہ کلام چھوڑا ہے وہ ایک روشن خط کی طرح لوگوں کو یہ بتاتا رہےگا کہ شعر اس محنت اور صفائی کے ساتھ بھی کہا جا سکتا ہے اور یہ کہ شعر میں جب تک کوئی دھار نہ ہو اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور دھار رکھنے کے لئے دو متضاد تصورات کو ٹکرانا ہوتا ہے۔

    مگر یگانہ آرٹ کی یہی چند خوبیاں نہیں ہیں۔ یگانہ ٹھیٹھ اردو کے بھی شاعر تھے۔ ٹھیٹھ اردو کی شاعری کو اپنے دور میں چمکانے میں وہ دوسروں سے پیچھے نہیں رہے ہیں۔ ٹھیٹھ اردو، اردو میں دخیل ہندوی الفاظ کے استعمال سے آتی ہے۔ فارسی الفاظ، فارسی ترکیبوں کی مدد سے شعر کہنا نسبتا آسان ہے کہ ان کا ڈھرا بنا ہوا ہے۔ ٹھیٹھ اردو میں فارسی کی اضافت کے بغیر جذبات سے مملو اور پہلودار اشعار کہنا ذرا مشکل کام ہے۔ یہ ہنر میر کو خوب آتا تھا۔ یگانہ نے بھی اس رنگ میں کچھ اچھے اشعار کہے ہیں،

    پہاڑ کاٹنے والے زمین سے ہار گئے

    اسی زمین میں دریا سمائے ہیں کیا کیا

    بندہ وہ بندہ جو دم نہ مارے

    پیاسا کھڑا ہو دریا کنارے

    ٹکرا کے دیکھیں تم کیا ہو ہم کیا

    جیتے تو جیتے ہارے تو ہارے

    اس قسم کے اشعار خاصی تعداد میں ان کے کلام میں ملتے ہیں۔ یگانہ کے ان اشعار سے دور حاضر کے کچھ نوجوان شعرا بھی متاثر ہوئے ہیں لیکن چونکہ یگانہ کا اسلوب ناقابل تقلید ہے، اس لئے یگانہ کے رنگ میں غزل کہنا بہت مشکل ہے۔ اس کے لئے کسی قدرمنفی شخصیت کا ہونا بھی ضروری ہے۔ یگانہ آرٹ ڈسنے سے، طنز کے دشنے سے اور روح کی تلخی سے پیدا ہوا ہے،

    کیوں اجل! ہے کوئی ایسا جو مرا منہ سی دے

    بات اپنی نہیں بنتی ہے تو اچھا نہ بنے!

    اب میں آخر میں کچھ ان کے عارفانہ کلام کے بارے میں کہنا چاہوں گا۔ ان کے عارفانہ کلام میں کوئی ایسی بات تو نہیں ہے جو اسلاف کے عارفانہ کلام میں نہ ملتی ہو۔ انہیں کے افکار کی تکرار ہے اور بسا اوقات وہ بلندی بھی نہیں جو میر اور غالب، خسرو اور رومی کے کلام میں ہے لیکن لطف ان میں ضرور ہے کہ ا ن کا ایک تعلق ان کی شخصیت سے ہے۔ وہ اشعار رسمی نہیں ہیں بلکہ ان کے وجود کی گہرائیوں سے نکلے ہوئے۔ ان اشعار میں ان کے اپنے تجربات کی تازگی بھی ملتی ہے،

    تڑپ کے آبلہ پا اٹھ کھڑے ہوئے آخر

    تلاش یار میں جب کوئی کارواں نکلا

    جہاں یہ تلاش و جستجو ہے وہاں یہ جذب کامل بھی ہے،

    اے زہے بخت کہ سر تیری امانت کے سوا

    نشہ دولت دنیا سے سسرالی گھربار نہیں

    یہ یگانہ جو چنگیزی نسل کے باقیات صالحات میں سے تھے اور جن کی ترکی اتر چکی تھی، اس مغلیہ تہذیب کے آخری ناقد تھے جو ان کے زمانے ہی میں دم توڑ چکی تھی۔ ان کا سسرالی گھر لکھنؤ اب بالکل ہی بدل چکا ہے۔ اب نہ وہ میر صاحب ہیں نہ میرزا ہیں لیکن انہوں نے ایک زبردست مدافعت اس سیل تغیر کے خلاف پیش کی جس کی زدمیں اکبر بھی بہے جا رہے تھے۔ چنانچہ یگانہ کو یہ بھی کہنا پڑا،

    کون ٹھہرے سمے کے دھارے پر

    کوہ کیا اور کیا خس و خاشاک

    چنانچہ اس کا اثر جابجا ان کے آخری دور کے کلام میں نظر آتا ہے۔ جہاں وہ آزادی، سیاسی آزادی اور تقدیر کے بدلے تدبیر کی زور آزمائی اپنے اشعار میں پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابتدائی دور کے یاس جب کہ فلسفہ جبر کا ان پر غلبہ تھا، آخری دور میں بدلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ تاہم کوئی واضح خیر مقدم ان کے یہاں تغیر، درزنداں کے کھلنے اور نئی قوتوں کے ابھرنے کا نظر نہیں آتا ہے اور جو نیا ادب ان کی زندگی ہی میں وجود میں آ گیا تھا، اس کی طرف ان کا بہت ہی ہتک آمیز رویہ تھا، ہت تیرے نئے ادب کی ایسی تیسی۔

    لیکن جب میں ان کی ساری کمزوریوں اور خوبیوں کو سمیٹتا ہوں تو اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ یگانہ کی جنگ ہماری جنگ ہے۔ ان کی جنگ اس ماحول کے خلاف تھی جو کردار کی تخلیق سے بانجھ ہو چکا تھا اور جس میں ہنر، فن، شعر و ادب کی کوئی قدر نہ تھی۔ یگانہ کی شاعری ہمت اور جرأت اور فکر کی شاعری ہے۔ ان کا اثاثہ فکر زیادہ نہ سہی لیکن یہ کیا کم ہے کہ وہ اپنے وجود کی تہہ تک پہنچے اور چند ایک ایسے سوالات اٹھائے جو آج چیلنج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ تردید غالب میں غالب کے نقال سہی لیکن اتنی اچھی نقالی بھی کم لوگوں کو نصیب ہوئی ہے۔ کون سا ایسا سوال ہے، کون سا ایسا خیال ہے جو ان سے بہتر طور سے غالب کے یہاں نہیں ملتا ہے۔ لیکن ان کی ہمت کی داد دینی چاہئے کہ وہ پہاڑ سے ٹکرائے، مجھے ان کی یہ ستیزہ کاری اور گرم رفتاری پسند آئی۔ شاعروں کے بارے میں صرف یہی نہیں سوچنا چاہئے کہ انہوں نے ہمیں کیا دیا بلکہ اس طرح سوچنا چاہئے کہ وہ کیا تھے۔ ایک خاک کا پتلا یا آگ کا بگولا۔ کیا ہی سرکشی اور بانکپن تھا اس جوان میں۔ آتش سے یگانہ کی نسبت بلا وجہ نہ تھی۔ کیا خوب کہا ہے،

    عجب کیا ہے ہم ایسے گرم رفتاروں کی ٹھوکر سے

    زمانے کے بلند و پست کا ہموار ہو جانا

    جو خاک کا پتلا وہی صحرا کا بگولا

    مٹنے پہ بھی اک ہستی برباد رہےگا

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے