لکھے پڑھے لوگوں کے سامنے کسی مقبولِ عام چیز کا ذکر کرنا ہے تو بدمذاقی، لیکن فیض صاحب نے اقبال کو موچی دروازے کا شاعر کہہ ہی دیا ہے تو میں بھی اپنی استبذال پسندی کے اظہار سے کیوں ڈروں۔ اقبال موچی دروازے کے شاعر تھے یا جو کچھ بھی تھے، بعض لوگوں کو ان کی یہ بات پسند نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کو اپنی شاعری کا موضوع سمجھتے تھے۔ ان کے خلاف یہ تاثر ان کی شاعری کے ایسے حصوں کے بارے میں نمایاں ہوجاتا ہے جن کا تعلق مسلمانوں سے واضح طور پر ہے، مثلاً فراقؔ صاحب نے کسی جگہ لکھا ہے کہ لکھے پڑھے غیر مسلمان لوگ ’’شکوہ‘‘ کو تو کسی نہ کسی طرح برداشت کرلیتے ہیں لیکن ’’جوابِ شکوہ‘‘ سن کر معنی خیز انداز میں مسکرانے لگتے ہیں۔ میں اس معنی خیز مسکراہٹ میں تحقیر آمیز طنز کا اور اضافہ کرتا ہوں۔ ’’یہ کوئی شاعری ہے جو مسلمانوں کا رونا دھونا کرتی رہتی ہے۔‘‘ اقبال کے اکثر مخالف نقادوں کے دلوں میں یہ چور ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ لیکن فراقؔ صاحب نے اسے لکھے پڑھے غیرمسلمانوں سے منسوب کرکے شاید اپنی ہی پچ کی ہے، ورنہ معنی خیز مسکراہٹ اور تحقیر آمیز طنز میں مسلمان اور غیر مسلمان کی کوئی شرط نہیں۔ میں نے خود بھی ایسے لکھے پڑھے مسلمان دیکھے ہیں جو ’’شکوہ‘‘ اور اقبال کی اس قسم کی دوسری شاعری کا نام سن کر ہی ہنسنے لگتے ہیں۔ اقبال کے حامیوں نے اس کے جواب میں ایک اور اور رویہ اختیار کیا ہے۔ وہ اقبال کے دفاع میں کہنے لگے ہیں کہ اقبال کی شاعری کا مسلمانوں سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے، اور یہ کہ وہ ایک ایسے آفاقی شاعر ہیں جن کے ہاں اسلام اور مسلمانوں کا ذکر صرف علامتی طور پر ہوا ہے۔ ’’شکوہ‘‘ کی سب سے بڑی خوبی یا خرابی یہی ہے کہ اس کے بارے میں ایسی کوئی بات نہیں کہی جاسکتی۔ وہ اچھے یا برے معنوں میں خالص مسلمانوں کی چیز ہے۔ اقبال نے اسے خود بھی صرف مسلمانوں کے لیے لکھا اور مسلمانوں نے بھی اسے صرف اپنی چیز سمجھ کر قبول کیا۔ گویا فیض صاحب کے الفاظ میں ’’شکوہ‘‘ خالص موچی دروازے کی شاعری ہے اور موچی دروازہ صرف لاہور کا ایک محلہ نہیں ہے؛ اس کے معنی ہیں برصغیر کے مسلمان عوام۔ اقبال نے ’’شکوہ‘‘ کے بعد بہت کچھ لکھا اور جو کچھ لکھا اس کی بدولت ’’شاعرِ مشرق’’، ’’دانائے راز‘‘ اور نہ جانے کیا کیا کہلائے، لیکن جہاں تک مسلمان عوام کا تعلق ہے، وہ ’’شکوہ‘‘ والی بات اقبال کی کسی اور نظم کو حاصل نہیں ہوسکی۔ افراد کی طرح قومیں بھی خود غرض ہوتی ہیں، ’’شکوہ‘‘ اور ’’جواب شکوہ‘‘ مسلمانوں کی ایک ایسی اجتماعی ضرورت تھا جسے نہ فیض صاحب سمجھ سکتے ہیں، نہ فراق صاحب۔ اسے سمجھنے کے لیے سب سے زیادہ اُس دل کی ضرورت ہے جو موچی دروازے کے مسلمانوں کے سینے میں دھڑکتا ہے۔ ’’شکوہ‘‘ اسی دل کے دھڑکنے کی آواز ہے۔
’’شکوہ‘‘ صرف مسلمانوں کی شاعری ہے؛ یہ بات اس نظم کی تعریف ہے یا تنقیص؟ کیا کوئی شاعری کسی خاص قوم سے تعلق رکھ کر چھوٹی شاعری ہوجاتی ہے؟ کیا اقبال اگر مسلمانوں کے لیے شاعری نہ کرتے تو زیادہ بہتر اور زیادہ بڑے شاعر ہوتے؟ ’’شکوہ‘‘ پر غور کرتے ہوئے ایسے کئی سوال میرے ذہن میں الجھ جاتے ہیں۔ اقبال آفاقی شاعر نہیں ہیں؟ اچھا اقبال اگر آفاقی شاعر ہوتے تو کیا ہوتا؟ اور ایک سوال یہ بھی ہے کہ آفاقیت کا راستہ کہاں سے گزرتا ہے؟ کیا ہم اپنے وجود کو پھلانگ کر آفاقیت تک پہنچ سکتے ہیں؟ اقبال مسلمان تھے، بحمداللہ میں بھی مسلمان ہوں۔ کیا ہمارے لیے تب تک آفاقیت کا راستہ بند ہے جب تک ہم اپنے مسلمان ہونے کی نفی نہ کر دیں؟ میرے نزدیک آفاقیت کا راستہ میرے باہر سے ہوکر نہیں، میرے اندر سے ہوکر جاتا ہے۔ آفاقی بننے کے لیے ضروریہے کہ میں پہلے ’’میں‘‘ بنوں۔ گویا آفاقیت کی وسعت پہلے ایک محدودیت کا تقاضا کرتی ہے اور سچی آفاقیت اس محدودیت کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتی۔ بہرحال ’’شکوہ‘‘ کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ محدودیت کا اظہار کرتا ہے۔ آفاقیت ہم چاہیں گے تو بعد میں ڈال لیں گے، یا پروفیسر مجنوں گورکھ پوری سے ڈلوا لیں گے۔
’’شکوہ‘‘ مسلمانوں کی شاعری ہے، یہ بات میں ’’شکوہ‘‘ کی تعریف میں کہتا ہوں۔ قبل اس کے کہ اس بات کو واضح کرنے کے لیے مں ی کچھ ایران توران کی اُڑاؤں، آپ کو زحمت نہ ہو تو آیئے ذرا یونان تک چلیں۔ یونانیوں کا عقیدہ تھا کہ کائنات انتشار سے پیدا ہوئی ہے۔ وہ کائنات کو Kosmos کہتے تھے جس کے معنی ہیں نظم و ترتیب۔ یہ کائنات Chaos سے پیدا ہوئی ہے جس کے معنی ہیں انتشار، بے ربطی، بدنظمی۔ Chaos میں کائنات کی تمام چیزیں آپس میں گڈمڈ تھیں۔ ان میں کوئی تنظیم و ترتیب نہیں تھی اور نہ اشیا کا کوئی تعین ہی وجود میں آیا تھا۔ زیادہ صاف لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ اشیا الگ الگ وجود ہی نہیں رکھتی تھیں، کیوں کہ نام، شناخت اور تعین سے محروم تھیں۔ اشیا اس وقت وجود میں آئیں جب Chaos سے Kosmos پیدا ہوئی۔ آغازِ کائنات کی یہ حقیقت ایک عمنوں میں آج بھی موجود ہے۔ آج بھی کائنات، انتشار سے وجود میں آ رہی ہے۔ان معنوں میں نہیں جن معنوں میں اقبال ’’آرہی ہے دما دم صدائے کن فیکون‘‘ کہتے ہیں۔ بلکہ اس خاص معنی میں کہ ہر بچہ انتشار میں پیدا ہوتا ہے اور وہاں سے اپنی عقل و شعور کے ذریعے Kosmos میں داخل ہوتاہے۔ ان معنوں میں Kosmos کے معنی ہیں انسانی معنویت۔ انسان کے سوا کائنات کسی اور کے لیے وجود نہیں رکھتی۔ وہ سر تا سر اضافی چیز ہے اور انسانی آگہی اور بصیرت کے ریعے ہی وجود میں آتی ہے۔ ڈی ایچ لارنس نے اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے، ’’آدمی انتشار (Chaos) میں نہیں جی سکتا، جانور جی سکتا ہے۔ جانور کے لیے تو سب کچھ انتشار ہے۔ اس کے لیے صرف چند حرکات ہوتی ہیں جو بار بار خود کو دُہراتی ہیں، اور چند پہلو ہوتے ہیں جو موجۂ حیات میں اُبھرتے رہتے ہیں۔ جانور اپنے حال کا پابند ہے مگر آدمی پابند نہیں۔ آدمی لازمی طور پر خود کو ایک بصیرت کی آغوش کے سپرد کرتا ہے اور اپنے لیے ایک گھر بناتا ہے جس کی ایک ظاہری وضع ہوتی ہے اور پائیداری اور حد بندی۔ انتشار کے خوف سے وہ اپنی ذات اور ابدی گردش کے درمیان شروع ہی سے ایک چھتری لگا لیتا ہے۔ اس چھتری کے اندر کے رُخ پر وہ آسمان کے رنگ پھیر لیتا ہے اور اس کے سایے میں وہ گھومتا پھرتا ہے، زندگی کے دن گزارتا ہے اور مر جاتا ہے۔‘‘ 1
’’انتشار‘‘ کی غیرمعین، تاریک اور بے نہایت وسعتوں میں ’’کائنات‘‘ دراصل اسی چھتری کا نام ہے جو انسان اپنے شعور اور بصیرت سے پیدا کرتا ہے۔ انسانی کائنات کا یہ تصور جس طرح یونانی لفظ Kosmos میں موجود ہے، اسی طرح انگریزی لفظ World بھی انھی معنوں کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ لفظ قدیم انگریزی کے ایک مرکب لفظ Wear-old سے ماخوذ ہے۔ اس میں Wear کے معنی ہیں، آدمی اور Old کے معنی ہیں عہد، دور، زمانہ۔ اس لیے اپنے مادے کی رو سے World کے معنی ہیں انسانی عہد۔ مراد یہ ہے کہ دنیا کا آغاز بھی انسان کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔ اب یونانی Kosmos اور انگریزی World کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو انسان اپنی کائنات یا دنیا کی تخلیق دو طرح کرتا ہے، (۱) انسان انتشار میں اپنے شخصی شعور اور بصیرت کی مدد سے نظم و ترتیب یا معنویت پیدا کرتا ہے۔ اس طرح جو کائنات تخلیق ہوتی ہے وہ فرد کی شخصی کائنات ہوتی ہے اور اس کی تمام تر معنویت فرد کے اپنے شعور اور بصیرت پر مبنی ہوتی ہے۔ (۲) انسان انتشار میں اپنے اجتماعی شعور سے معنویت پیدا کرتا ہے اور اس طرح جو کائنات وجود میں آتی ہے، وہ بہت سے افراد میں مشترک ہوتی ہے۔ اس کائنات کو آپ اجتماعی کائنات کہہ سکتے ہیں۔ عام طور پر انسانوں کی زندگی میں یہ دونوں کائناتیں ایک دوسرے سے ملی جلی ہوتی ہیں اور ایک دوسرے پر اثر ڈالتی ہیں۔ مثال کے طور پر کائنات کے متعدد تصورات ہیں جو ہمیں مختلف مذاہب سے ملے ہیں، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ مختلف کائناتیں ہیں جو مختلف مذاہب نے پیدا کی ہیں، اور یہ کائناتیں ہر اُس فرد کو ایک نسل سے دوسری نسل تک ورثے میں ملتی ہیں جو ان میں کسی بھی مذہب پر یقین رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان افراد میں کائنات کا ایک تصور ان کے شخصی تجربات سے پیدا ہوتا ہے۔ گویا یہ ایک چھوٹی سی انفرادی کائنات ہوتی ہے جو اس بڑی اجتماعی کائنات کے اندر وجود رکھتی ہے، اور فرد کے شعور میں ان دونوں کائناتوں کی جگہ موجود ہوتی ہے۔ اور یہ دونوں چھوٹے بڑے دائروں کی طرح ایک دوسرے کے اندر وجود رکھتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر میں اپنی بات کی وضاحت کرسکا ہوں تو مجھے ایک قدم آگے بڑھ کر مارٹن بوبر کی مدد سے وہ بات کہہ دینی چاہیے جس سے یہ بحث ہمارے موضوع سے قریب آجائے گی۔ مارٹن بوبر کا کہنا ہے کہ ’’انسانی جذبے کی تاریخ میں دود دور ہیں جن کے درمیان میں فرق کرتا ہوں؛ دورِ سکونت اور دورِ گم شدگیِ سکونت۔ دورِ سکونت میں آدمی دنیا میں یوں رہتا سہتا ہے جیسے ایک عمارت میں رہ رہا ہو، بلہ ایک گھر میں۔ دورِ گم شدگیِ سکونت میں آدمی دنیا میں یوں رہتا ہے جیسے کسی کھلے میدان میں رہ رہا ہو، اور بسا اوقات یوں معلوم ہوتا ہے جیسے اس کے پاس خیمہ لگانے کے لیے چار چوبیں بھی نہیں ہیں۔‘‘ 2 ڈی ایچ لارنس کے الفاظ میں اس بات کو ہم یوں کہیں گے کہ دورِ سکونت وہ ہے جب انسان اپنی انفرادی یا اجتماعی چھتری کے نیچے ہو۔ اور دورِ گم شدگیِ سکونت وہ ہے جب اس کی چھتری اس سے چھن جائے یا موسموں کے سرد و گرم سے پھٹ کر پارہ پارہ ہو جائے۔ مراد دونوں کی ایک ہی ہے کہ افراد اور اقوام دونوں کی تاریخ میں ایسے ادوار آجاتے ہیں جن میں ان کی کائنات پھر انتشار میں گم ہوکر رہ جاتی ہے۔ جو نظم و ترتیب انھوں نے اپنے شعور اور بصیرت سے پیدا کیا تھا، اس کی معنویت ختم ہو کر یا کم زور ہوکر پھر ایک ویسی ہی غیرمعین، تاریک اور بے نہایت وسعت باقی رہ جاتی ہے جیسی ان کی کائنات پیدا ہونے سے پہلے تھی۔
معاف کیجیے گا بات لمبی ہوگئی۔ مجھے احساس ہے کہ آپ کو یہ سوال پریشان کر رہا ہے کہ اس بحث کا ’’شکوہ‘‘ سے کیا تعلق ہے؟ اس لیے میں ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر جلدی سے اس تعلق کو واضح کردینا چاہتا ہوں؛ دنیا کے تمام بڑے مذاہب کی طرح اسلام کی بھی ایک اپنی کائنات ہے جو اسلامی عقائد کے مطابق وحیِ الٰہی کی اس صورت سے پیدا ہوئی جو نبیِ کریمﷺ پر نازل ہوئی۔ دوسرے مذاہب نے جو کائناتیں پیدا کی ہیں، اسلامی کائنات ان سے کچھ مشابہ بھی ہے اور کچھ مختلف بھی۔ لیکن ہے وہ بہرحال اسلام سے مخصوص۔ یہ ایک ایسی کائنات ہے جس کے چاند، سورج اور ستارے خدا کو سجدہ کرتے ہیں اور شجرہ، حجر اور گل بوٹے خدا کی حمد و تقدیس میں لگے رہتے ہیں۔ اور اس کائنات کا ذرّہ ذرّہ خدا کے احکام کی پیروی کرتا ہے۔ کسی کو یک سرِ مو تابِ انحراف نہیں ہے۔ یہ کائنات خدا کی علی الاطلاق حکمرانی کو تسلیم کرتی ہے اور خدا ہی اس کا مرکز ہے۔ لیکن خدا نے اس کائنات میں انسان کو پیدا کیا اور تشریعی آزادی کی بنیاد رکھی۔ خدا نے انسان کو آزاد پیدا کیا تاکہ وہ خیر و شر کے درمیان انتخاب کرسکے، اور خیر و شر کو خود انسان کے نفس پر الہام کیا۔ وہ انسان جنھوں نے خیر کو اختیار کیا، اُن کا رتبہ ملائک سے افضل ہے۔ جو شر کے شکار ہوئے، وہ حیوانوں سے بھی بدتر ہیں۔ خیر کے لوگوں میں سب سے اعلیٰ مرتبہ اُن نفوسِ مقدسہ کا ہے جنھیں خدا کا پیغمبر کہتے ہیں۔ یہ کائنات میں حق کے نائب ہیں اور خلیفۃ اللہ کے منصب پر فائز ہیں۔ ان کا رتبہ یہ ہے کہ وہ خدا کے ہیں اور خدا ان کا ہے۔ پھر انبیا کے اس گروہ میں سب سے افضل نبیِ کریمﷺ کی ذاتِ اقدس ہے۔ وہ خدا کے سب سے چہیتے بندے ہیں۔ خدا نے کائنات کو انھی کی وجہ سے خلق کیا ہے اور وہی ہیں جو اس کائنات کا اوّل و آخر ہیں۔ ان کا حکم خدا کا حکم ہے، ان کا دیدار خدا کا دیدار ہے، ان کی اطاعت خدا کی اطاعت ہے۔ مسلمان نبیِ کریمﷺ کی امت ہیں اور اس نسبت سے خدا کی وہ آخری قوم ہیں جسے خدا نے لوگوں کے درمیان شاہد بنا کر اٹھایا ہے۔ خدا اپنے محبوب سے محبت کرتا ہے اور خدا کے محبوب نبیِ کریمﷺ اپنی امت سے محبت کرتے ہیں۔ وہ اس کے لیے رؤف و رحیم ہیں۔ کوئی ماں اپنے بچے سے ایسی محبت نہیں کرتی جیسی محبت وہ اپنی امت سے کرتے ہیں۔ وہ دنیا میں اس امت کے لیے رحمت اور آخرت میں اس کے شفیع ہیں۔ خدا نے مسلمانوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ زمین پر انھیں غلبہ دے گا۔ وہ حزن سے، خوف سے، بھوک اور پیاس سے، شکست اور مایوسی سے محفوظ رہیں گے۔ تفصیلات بہت ہیں کیوں کہ زندگی کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے کی معنویت انھیں بنیادی تصورات سے وابستہ ہے۔ اس لیے مختصر الفاظ میں صرف اتنا سمجھ لیجیے کہ اسلام کی پیدا کی ہوئی کائنات خود مسلم کائنات ہے، اور مسلمانوں کے لیے اس کائنات میں وہ سب کچھ ہے جس کا خدا نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ مسلمانوں کے یہ عقائد ان کی روحانی زندگی کا سرچشمہ بھی ہیں اور سرمایہ بھی۔ اب آغازِ اسلام کی تاریخ مسلمانوں کے ان عقائد کی عملی تفسیر ہے۔ عرب ایک وحشی، غیرمہذب، جاہل اور ناقابلِ توجہ قوم تھے۔ اسلام کی بدولت وہ اُٹھتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اقوامِ عالم میں مرکزی اہمیت حاصل کرلیتے ہیں۔ وہ چار دانگِ عالم میں پھیل جاتے ہیں اور جہاں جاتے ہیں فتح و ظفر اُن کے قدم چومتی ہے۔ وسیع و عریض سلطنتیں ان کے قدموں کے نیچے ہوتی ہیں اور خدا نے ان سے جو وعدہ کیا تھا، اس کا حرف حرف پورا ہوتا ہے۔ ایک مدت تک ہی حالت قائم رہتی ہے لیکن اس کے بعد ان کے احوال میں تغیر شروع ہوتا ہے اور یکے بعد دیگرے وہ خدا کی ایک ایک نعمت سے محروم ہونا شروع ہوتے ہیں، یہاں تک کہ ساری دنیا کی نظروں میں زوال اور پس ماندگی کی علامت بن جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ خدا اور دنیا مسلمانوں سے کیوں برگشتہ ہوگئے؟ کیا مسلمان نبیِ کریمﷺ کی امت نہیں رہے؟ کیا وہ خدا اور اس کے رسول پر ایمان نہیں رکھتے؟ کیا وہ خدا کی آخری قوم نہیں ہیں جنھیں خدا نے دوسرے انسانوں کے لیے نمونہ بنایا ہے؟ یہ ہے وہ روحانی کش مکش جو مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں سب سے گہری بنیاد رکھتی ہے۔ ایک طرف ان کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ خدا اور اس کے محبوبﷺ کی سب سے چہیتی امت ہیں اور اس لیے خدا کی ساری نعمتوں کی سزاوار، اور دوسری طرف یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ان کا مکمل زوال ہوچکا ہے۔ عقیدے اور حقیقت کے اس ٹکراؤ سے مسلمانوں ا وہ مخصوص المیہ پیدا ہوتاہے جو ’’شکوہ‘‘ کا موضوع ہے،
تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑا درِ خیبر کس نے
شہر قیصر کا جو تھا اس کو کیا سر کس نے
توڑے مخلوقِ خداوندوں کے پیکر کس نے
کاٹ کر رکھ دیے کفار کے لشکر کس نے
کس کی شمشیر جہاں گیر و جہاں دار ہوئی
کس کی تکبیر سے دنیا تری بیدار ہوئی
امتیں اور بھی ہیں، ان میں گنہگار بھی ہیں
عجز والے بھی ہیں، مستِ مئے پندار بھی ہیں
ان میں مفلس بھی ہیں، منعم بھی ہیں، زردار بھی ہیں
سیکڑوں ہیں کہ ترے نام سے بے زار بھی ہیں
رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر
مسلمانوں کے زوال کا پہلا واضح اظہار خلافتِ بغداد کے خاتمے میں ہوا۔ یہ ایک بڑا الم ناک تجربہ تھا جو اُس وقت تک کی اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کے لیے ایک ایسے سانحے کی صورت میں رونما ہوا جس نے انھیں ہڈیوں تک ہلا دیا۔ اس تجربے سے اسلامی تاریخ میں پہلی بار اس کائنات پر زد پڑی ہے جو عام مسلمانوں کے سیدھے سادے رجائیانہ تصورات میں وجود رکھتی تھی۔ عام مسلمانوں کو پہلی بار اجتماعی طور پر معلوم ہوا کہ شکست بھی ایک چیز ہے اور یہ کہ خدا مسلمانوں کے دشمنوں کا بھی ساتھ دے سکتا ہے۔ بقولِ لارنس عام مسلمان اب تک اپنے تصورِ کائنات کی جس چھتری کے سایے تلے موسموں کی دھوپ اور بارش سے محفوظ زندگی بسر کر رہے تھے، اس میں چھید پڑنے شروع ہوگئے اور چھتری کے اندر سے انتشار کا کھلا آسمان جگہ جگہ سے نظر آنے لگا۔ یہی وہ وقت تھا جب چھتری میں نئے پیوند لگانے کی ضرورت محسوس ہوئی اور تصوف کے وہ رجحانات اُبھر آئے جنھوں نے اسلامی کائنات کو مکمل طور پر منہدم ہونے سے بچا لیا۔ تصوف کے یہ وہی رجحانات تھے جن کے خلاف اقبال ہمیشہ آواز اٹھاتے رہے کیوں کہ وہ اس بات کو پوری طرح نہیں سمجھ سکے کہ اسلامی کائنات کو بچانے میں تصوف نے کیا رول ادا کیا۔ ایک طرف تصوف اور دوسری طرف بعض نئے علاقوں میں نئی اسلامی سلطنتوں کے ظہور نے مسلمانوں کو نیا سہارا دیا۔ جلال الدین محمد خوارزم شاہ جب چنگیز خاں سے شکست کھا کر بھاگا اور سندھ میں پنچ کر اس نے التمش سے پناہ مانگی تو التمش نے اسے جواب دیا کہ ’’دنیائے اسلام ایک علم گیر سیلاب کی زد میں ہے۔ میں نے مسلمانوں کو اس سیلاب سے بچانے کے لیے ایک چھوٹی سی کشتی بنائی ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ تیرے بوجھ سے کہیں یہ کشتی ڈوب نہ جائے۔‘‘ اور التمش وہ بادشاہ تھا جس کے زمانے کو صوفیوں نے خیر الاعصار قرار دیا ہے۔ اقبال کا خیال ہے کہ تصوف سے مسلمانوں میں تقدیر پرستی، ترکِ دیا اور بے عملی پیدا ہوئی، لیکن اسلامی تصورِ کائنات کو اگر کسی طرح بچنا تھا تو اس کی منطق تصوف ہی کے ذریعے پیدا ہوئی ہے۔ خیر یہ ایک لمبی بحث ہے جس کا یہ موقع نہیں ہے۔ ابھی ہمیں ’’شکوہ‘‘ کے موضوع تک رہنا چاہیے۔ ’’شکوہ‘‘ مسلمانوں کی روحانی کش مکش کے المیے سے پیدا ہوا ہے، لیکن خود المیے کے رتبے تک نہیں پہنچ سکا۔
میں اس بات کی وضاحت کے لیے بنی اسرائیل کے پیغمبروں کے نوحوں کا ذکر کروں گا۔ یہ نوحے بھی بقول محمد حسن عسکری یہودیوں کی ایک ایسی ہی روحانی کش مکش سے پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن ان میں جو شدت، گہرائی اور علو نظر آتا ہے ’’شکوہ‘‘ پر اس کی پرچھائیں بھی نہیں پڑی۔ یہ میں نعوذ باللہ عہدنامۂ عتیق کا اقبال کی شاعری سے مقابلہ نہیں کر ہرا ہوں، صرف اس بات کی وضاحت مقصود ہے کہ اقبال کے تجربے میں وہ عناصر نہ ہونے کے برابر ہیں جو اتنے بڑے المیے کے بیان میں ہونے چاہییں۔ ’’شکوہ‘‘ المیے کے عناصر سے محفوظ ایک پُرجوش خطیبانہ سی تخلیق ہے جس کی یہ اہمیت تو اپنی جگہ ہے کہ اس میں مسلمانوں کے دلوں کا ایک چور پکڑا گیا ہے، لیکن اقبال میں یہ سہار نہیں ہے کہ اس تجربے کی تہ میں ذرا دور تک اُتر سکیں۔ یہ سہار اقبال میں نہیں ہے یا خود مسلمانوں کے تجربے میں کوئی ایسی بات ہے کہ جس کی وجہ سے وہ اس تجربے کے اندر ہی نہیں اُتر سکتے؟ یہ آسانی سے طے کرنے کی بات نہیں ہے۔ بہرحال ’’شکوہ‘‘ ایک بڑے موضوع پر ایک چھوٹی مگر منفرد تخلیق ہے اور جیساکہ میں ابھی کہہ چکا ہوں عہدنامۂ عتیق کے بعض حصوں کو چھوڑ کر اس سے ملتی جلتی کوئی اور چیز میری نظر نظر سے نہیں گزری۔ مسلمان شاید ’’شکوہ‘‘ سے زیادہ کوئی اور چیز پیدا بھی نہیں کرسکتے تھے۔ خیر ’’شکوہ‘‘ کی برائی میں ہم جو کچھ بھی کہیں اسے برحق مانتے ہوئے اقبال کو اس بات کی داد دینی چاہیے کہ انھوں نے مسلمانوں کے ایک زبردست اجتماعی تجربے کو ان کے عقائد کے مابعد الطبیعیاتی پس منظر میں رکھ کر دیکھا اور خاکم بدہن کہہ کر اس سے پیدا ہونے والے سوالات اور رویوں کا اظہار کردیا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ تجربہ اقبال کے اندر کوئی دہشت ناک استعجاب پیدا کرنے کے بجائے ایک قسم کی شوخ بیانی کی تحریک پیدا کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اقبال اس تجربے کی شدت اور گہرائی کو بیانکرنے کے بجائے صرف اپنی ’’تابِ سخن‘‘ کی داد وصول کرنا چاہتیہیں اور گویا اس بات پر کچھ نازاں سے ہیں کہ دیکھو جو باتیں دوسرے نہیں کہہ سکتے، وہ میں کہہ سکتا ہوں۔ پھر بھی خطابت، شوخ بیانی اور تابِ سخن کے اظہار سے گزر کر جب وہ ’’شکوہ‘‘ کے انجام تک پہنچتے ہیں تو ایک حزنیہ کیفیت غالب آجاتی ہے،
تیری محفل بھی گئی، چاہنے والے بھی گئے
شب کی آہیں بھی گئیں، صبح کے نالے بھی گئے
دل تجھے دے بھی گئے، اپنا صلہ لے بھی گئے
آ کے بیٹھے بھی نہ تھے، اور نکالے بھی گئے
آئے عشق، گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انھیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبا لے کر
یہ حزنیہ کیفیت دل مسوسنے کے ایک سچے احساس سے پیدا ہوئی ہے اور صداقتِ اظہار سے ایک طرح کی غنائیت تک پہنچ گئی ہے۔ اچھا اب ایک دل چسپ سوال یہ بھی کہ سقوطِ بغداد اور سقوطِ دہلی تک مسلمان جن اجتماعی تجربات سے دوچار رہے اور جن کے نتیجے میں وہ روحانی کش مکش پیدا ہوئی جسے ہم نے ’’شکوہ‘‘ کا موضوع قرار دیا ہے، وہ اقبال سے پہلے شکوہ کی صورت کیوں نہیں اختیار کرسکے؟ اس کا جواب ہمیں اقبال کی مخصوص نفسیات میں ملے گا یا اقبال کے زمانے کے تقاضوں میں؟ دوسرے لفظوں میں ہم یہ پوچھیں گے کہ مسلمانوں میں اگر یہ روحانی کش مکش موجود تھی تو اقبال سے پہلے کیوں ظاہر نہیں ہوئی؟ اور اقبال میں ظاہر ہوئی تو اس کا انفرادی اور اجتماعی پس منظر کیا ہے؟ میں نے کہا ہے کہ سقوطِ بغداد وہ پہلا تجربہ تھا جس سے عام مسلمانوں کی کائنات پر زد پڑی۔ اس وقت سے سقوطِ دہلی تک تجربات کے تسلسل میں ہمیں جو تخلیقی دستاویزات ملی ہیں، ان میں ایک ہی رویے کا اظہار ہوا ہے، یعنی نبیِ کریمﷺ کا نام لے کر فریاد کرنا یا آپ کے وسیلے سے رحم طلب کرنا۔ مثلاً سقوطِ بعداد پر شیخ سعدی، نبیِ کریمﷺ سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں،
اے محمدؐ سر بروں آور، قیامت راہ بہ بیں
سقوطِ دہلی کے وقت حالی کی فریاد بھی یہی ہے،
اے خاصۂ خاصانِ رُسل وقتِ دعا ہے
اُمت پہ تری وقتِ عجب آن پڑا ہے
یہ ایک چہیتی امت کی فریاد ہے، خدا کے اُس چہیتے محبوب سے جس کے ذریعے وہ خدا کے ساتھ ایک نئے میثاق میں وابستہ ہے۔ اقبال کے ’’شکوہ‘‘ میں زور نبیِ کریمﷺ کے وسیلے پر نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے اُن حقوق پر جو ان کے کارناموں کی بدولت حاصل ہوئے ہیں یا ہونا چاہییں۔ دوسرے لفظوں میں اقبال رحمت کے طالب نہیں ہیں، اپنا حق الخدمت مانگتے ہیں۔ اقبال کے باطن میں عمل اور صلۂ عمل کا یہ جو مخصوص تصور موجود ہے اس کا ان کی پوری شاعری پر کیا اثر پڑا ہے؟ یہ ایک دل چسپ مطالعے کا موضوع ہے۔ بہرحال اس بات کو تسلیم کرلینے کے باوجود کہ مسلمانوں کی روح میں یہ کش مکش موجود تھی کہ جب وہ خدا اور اس کے محبوب کی چہیتی قوم ہیں تو پھر ان کے ساتھ وہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے، جو ہو رہا تھا؟ یہ بات کہنی پڑتی ہے کہ ’’شکوہ‘‘ کی تخلیق میں خود اقبال کی مخصوص نفسیات کا بھی بہت بڑا دخل ہے۔ اس بات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ہم ذرا دیر کے لیے اس بحث پر لوٹتے ہیں جسے ہم نے ابھی ادھورا چھوڑا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اقبال اگر تصوف کی روایت سے زیادہ گہرا اثر لیتے تو کیا اس سے ’’شکوہ‘‘ کے بجائے صبر و رسا کی کیفیت نہ پیدا ہوتی؟ تصوف کے بارے میں اقبال کا رویہ اتنا اُلجھا ہوا ہے کہ ذاتی طور پر کم از کم میں کوئی بہت واضح فیصلہ نہیں کرسکتا۔ ایک طرف ’’شکوہ‘‘ تقدیر کے تصور کو پوری طرح ہضم نہ کرسکنے کی پیداوار معلوم ہوتا ہے لیکن دوسری طرف اس میں ایک صوفیانہ تصور بھی کام کرتا نظر آتا ہے۔ صوفیا کہتے ہیں کہ صبر کے معنی شکایت نہ کرنا نہیں ہے، بلکہ صبر کے معی ہیں صرف خدا سے شکایت کرنا۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت ایوبf کا صبر مشہور ہے لیکن ’’کتابِ ایوب‘‘ اٹھا کر دیکھ جایئے، پوری کتاب خدا سے شکایت سے بھری ہوئی ہے۔ اس طرح ’’شکوہ‘‘ ایک جہت سے تصوف کی روایت کو رد کرتے ہوئے، دوسری جہت سے اسی کے اندر رہ کر کام کرتا نظر آتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ’’شکوہ‘‘ کی تکمیل ’’جوابِ شکوہ‘‘ میں ہوئی ہے جس کا خلاصا یہ ہے کہ،
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یعنی اقبال اُس تصورِ کائنات کو بحال کرنے میں، جس کی شکست و ریخت سے اُن کا شکوہ پیدا ہوا ہے، دوبارہ پھر نبیِ کریمﷺ کی ذاتِ اقدس پر لوٹ آتے ہیں اور اپنی عمل پرستی کے بجائے گویا ’’شفاعت‘‘ کے روایتی تصور کا سہارا لیتے ہیں۔ بہرحال اقبال کا ’’شکوہ‘‘ تمام سچی شاعری کی طرح پہلے ان کا داخلی اور شخصی معاملہ ہے اور پھر معروضی اور اجتماعی۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ ’’شکوہ‘‘ کی روحانی ضرورتِ اقبال نے پہلے اپنی روح میں محسوس کی، پھر جب وہ تخلیقی فن پارے میں ڈھل گئی تو معلوم ہوا کہ وہ ایک اجتماعی ضرورت ہی تھی۔ اب رہ گیا یہ سوال کہ ’’شکوہ‘‘ اس سے پہلے کیوں پیدا نہیں ہوا؟ تو اس کا جواب مجھے صرف یہ نظر آتا ہے کہ اسلامی کائنات کی شکست و ریخت کا عمل اقبال کے زمانے سے پہلے کبھی اتنا واضح نہیں ہوا تھا، اور خود اسلام کے عمیق باطن میں ان قوتوں کے لیے جگہ موجود تھی۔ تاریخ کے گزشتہ ادوار میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کے توڑ کے لیے مسلمان کوئی نہ کوئی روحانی قوت اپنے اندر سے نکالتے رہے۔ مثلاً جیساکہ میں کہہ چکا ہوں، سقوطِ بغداد کے بعد تصوف نے مسلمانوں کے تصورِ کائنات کو بچانے بلکہ اسے ایک نئی قوت میں تبدیل کرنے کے لیے بہت بڑا کام کیا۔ اقبال کے زمانے میں ایک تو شکست و ریخت کا عمل بہت واضح اور تیز ہوگیا تھا، دوسرے مسلمانوں کی قوتِ مدافعت اس حد تک جواب دے چکی تھی کہ وہ اندر اور باہر کسی طرف سے بھی اس نئی صورتِ حال کا جواب نہیں دے سکتے تھے۔ اقبال کا ’’شکوہ‘‘ ان حالات میں مسلمانوں کے لیے اپنے وجود کے ایک مرکزی مسئلے کی آگاہی کا مسئلہ تھا۔ ’’شکوہ‘‘ نے مسلمانوں کو یہ آگاہی بخشی اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ میں مسلمان اپنی کائنات کی ایک نئی مدافعت کے لیے تیار ہوئے۔
اچھا آیئے اب ’’جوابِ شکوہ‘‘ پر بھی ایک سرسری نظر ڈال لیں۔ ’’شکوہ‘‘ اگر اسلامی کائنات کی شکست و ریخت سیپیدا ہونے والے ان سوالوں کا اظہار ہے تو ’’جوابِ شکوہ‘‘ روحانی لیپا پوتی کے ذریعے اس کائنات کو دوبارہ درست کرنے کا عمل ہے۔ ’’جوابِ شکوہ‘‘ میں اقبال ’’شکوہ‘‘ کے ایک ایک نکتے کا جواب دیتے ہیں۔ لیکن ان سب کا مجموعی خلاصا یہ ہے کہ،
ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں
’’شکوہ‘‘ کا مرکزی مسئلہ یہ تھا کہ خدا اپنے محبوب کی امت کی تباہی کو کیوں دیکھ رہا ہے اور اپنے وعدے پورے کیوں نہیں کرتا؟ ’’جوابِ شکوہ‘‘ کا بنیادی جواب یہ ہے کہ خدا اپنے وعدے سے نہیں پھرا، مسلمان اپنے عہد سے پھر گئے ہیں، گویا ’’شکوہ‘‘ میں عہد شکنی کی نسبت خدا کی طرف تھی، ’’جوابِ شکوہ‘‘ میں مسلمانوں کی طرف ہوگئی ہے۔ ’’شکوہ‘‘ سے اقبال پر کفر کا فتویٰ لگا، ’’جوابِ شکوہ‘‘ سے وہ عاشقِ رسول اور حکیم الامت کہلائے۔ اس طرح اقبال کی بھی نجات ہوگئی اور موچی دروازے کے مسلمانوں کی ضرورت بھی پوری ہوگئی۔ یعنی ایک اجتماعی روحانی مسئلے کا اظہار اور آگہی اور پھر اس مسئلے کا ایک ایسا جواب جو مسلمانوں کو مذہبیت کی حدود میں رہتے ہوئے مطمئن کردے۔
یہاں تک ’’شکوہ‘‘ اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ کے موضوع پر گفتگو تھی۔ اب آیئے ذرا اس کے فنی پہلوؤں پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ ’’شکوہ‘‘ اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ مسدس کی فارم میں لکھے گئے ہیں۔ مسدس کی اردو میں ایک بڑی روایت مرثیے کی صورت میں موجود تھی۔ ’’شکوہ‘‘ اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ پر مرثیے کا اثر واضح طور پر موجود ہے۔ بند کے بند اپنے زورِ خطابت اور رجزیہ انداز میں انیس کی یاد دلاتے ہیں۔ اور پھر شکوہ کی تعمیر اپنی ابتدا سے انجام تک ان تمام مراحل سے گزرتی ہے جن کی داغ بیل مرثیے میں پڑ چکی ہے۔ مرثیہ موجود نہ ہوتا تو اقبال کی مسدس کے استعمال میں شاید اتنی زیادہ کامیابی نہ ہوتی۔ مسدس کی دوسری روایت جو مرثیے کے رتبے کو تو نہیں پہنچتی لیکن بہرحال کسی نہ کسی طرح فنی تکمیل کے درجے میں آ چکی تھی، واسوخت کی روایت تھی۔ ’’شکوہ‘‘ پر اس روایت کا اتنی گہرا اثر ہے کہ میں نے ایک مرتبہ ’’شکوہ‘‘ کو روحانی یا مذہب واسوخت کہا تھا۔ اقبال اردو شاعری کے بارے میں اپنے مطالعے کو کبھی ظاہر نہیں کرتے اور اس سلسلے میں ایک ایسی احتیاط سے کام لیتے ہیں جو بغیر کسی سبب کے حیرت انگیز معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اقبال نے مرثیے اور واسوخت سے کس حد تک شعوری اکتسابِ فیض کیا ہے، لیکن لاشعوری طور پر ان کی دونوں سے اثرپذیری میرے لیے شک و شبہ کی بات نہیں ہے۔ ’’شکوہ‘‘ کی مسدس اپنے بندوں کی تعمیر، اور چھٹے مصرعے کی روایتی قطعیت اور گونج میں، قطعی طور پر روایتی مسدس کی پیروی کرتی ہے۔ وہ اپنے فنی طرزِ عمل میں حالی کی مسدس زیادہ روایتی ہے اور جن لوگوں نے مرثیے اور واسوخت کا مطالعہ کیا ہے، انھیں اس مخصوص پس منظر میں اقبال کا شکوہ اور جوابِ شکوہ ایک نیا لطفِ سخن فراہم کرتا ہے۔ محمد حسن عسکری نے محسن کاکوروی پر اپنے بے مثال مضمون میں لکھا تھا کہ لوگ محسن کاکوروی کو بھول گئے۔ مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ موچی دروازے کے لوگ اب بھی شکوہ اور جوابِ شکوہ کو پڑھتے ہں ی یا نہیں، لیکن فیض صاحب کے آگے پیچھے آنے والی نسل میں شکوہ اور جوابِ شکوہ ضرور ایک بھولی ہوئی چیز ہے۔ اور اس کے نتیجے کے طور پر ہم اپنی آزادی کے دور میں جن حادثات سے گزری ہیں، ان کے بارے میں ہمارے اندر تشویش، اضطراب، دکھ اور درد سب کچھ موجود ہے۔ بس ان کا وہ مابعد الطبیعیاتی پس منظر غائب ہوگیا ہے جس کے بغیر شاعری شخصی معاملات کا بیان تو بن سکتی ہے، ’’شکوہ‘‘ اور ’’جوابِ شکوہ‘‘ کی طرح قوی واردات نہیں بن سکتی۔ کاش آج ہمارے درمیان موچی دروازے کا کوئی اور شاعر موجود ہوتا۔
حواشی
(۱) ترجمہ از احمد علی سیّد
(۲) ایضاً
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.