محمد قلی قطب شاہ: بابائے اردو کی ایک غیرمطبوعہ تحریر
جب سلطنتِ بہمنی میں انتہائی ضعف رونما ہوا اور حکومت کا شیرازہ بکھرنے لگا تو ہرصوبہ خود مختار ہوگیا۔ سلطنتِ بہمنی کی بجائے پانچ نئی سلطنتیں قائم ہوگئیں۔ نظام شاہیہ احمد نگر میں۔ عادل شاہیہ بیجاپور میں۔ عماد شاہیہ برار میں۔ برید شاہیہ بیدر میں اور قطب شاہیہ گولکنڈے میں۔
سلطنتِ بہمنی کے تاجدار محمود شاہ ثانی کے درباری اُمرا میں ایک امیرسلطان قلی تھا۔ جو ترکی شاہی قبیلہ قراقر نیلو کارکن تھا۔ جب ایک دوسرے ترکی قبیلہ نے اس خاندان کو جوبغداد میں برسرحکومت تھا بے دخل کردیا تو سلطان قلی اپنے چچا کے ساتھ دکن آگیا۔ اور محمود شاہ ثانی کے زمرۂ ملازمین میں شامل ہوگیا اور شجاعت و ذہانت کی بدولت ابتدائے عمر ہی میں خطابِ قطب الملک اور صوبہ داریٔ تلنگانہ سے سرفراز ہوا۔ محمود شاہ کی وفات کے بعد سلطان قلی نے قطب شاہ کا لقب اختیار کیااور گولکنڈہ کو اپنایا یہ تخت بنایا۔
محمد قلی بانیٔ سلطنت کاچوتھا جانشین یا قطب شاہی خاندان کا پانچواں فرمانروا تھا۔ اپنے باپ ابراہیم قلی کی وفات کے بعد ۹۸۸ھ میں تخت نشین ہوا۔ اس وقت اس کی عمر تخمیناً چودہ سال سات ماہ تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا۔ جب کہ ہندوستان میں اکبر کی شاہنشہی کا ڈنکا بج رہاتھا۔ محمد قلی کے زمانے میں دکن کی سلطنت کو بڑعروج حاصل ہوا۔
ننال کوٹ کی لڑائی کے بعد مسلمان سلطنتوں میں باہمی نفاق و اختلاف پیدا ہوگیا تھا۔ نظام شاہی اور عادل شاہی حکومتیں برسرجنگ تھیں۔ ابراہیم قلی قطب شاہ نے نظام شاہیوں کی مدد کو اپنی فوج بھیجی تھی۔ اس اثنا میں بیجاپور کے علی عادل شاہ اور گولکنڈے کے ابراہیم قلی کا انتقال ہوگیا۔ محمد قلی کو تخت نشین ہوئے ابھی تھوڑا عرصہ گزرا تھا کہ ابراہیم عادل شاہ اور محمد قلی قطب شاہ میں صلح ہوگئی۔ اور فوجیں اپنے اپنے صدر مقام کو واپس چلی گئیں۔ اس کے چند ہی سال بعد ۹۹۵ھ (۱۵۸۶ء) میں محمد قلی قطب شاہ کی بہن چاند بی بی کاعقد ابراہیم عادل شاہ سے ہوگیا۔ اس سے دونوں خاندانوں کے تعلقات زیادہ خوش گوار ہوگئے اور محمد قلی کو کسی قدر اطمینان سے ملک میں رفاہِ عام کے کاموں کی طرف توجہ کرنے کا موقع ملا۔ چنانچہ اس نے مال گزاری میں کچھ اصلاحیں کیں اور محصولِ اجناس جو گزشتہ سلاطین کے زمانے سے چلاآرہاتھا، معاف کردیا۔
اسے عمارتوں کا بہت شوق تھا۔ اس نے جابجا مدرسے مسجدیں عاشور خانے، شفاخانے تعمیر کیے اور مسافروں اور راہ گیروں کی آسائش کے لیے کنوئیں بنوائے اور لنگرخانے جاری کیے۔ لیکن اس کے عہد کا سب سے بڑاکارنامہ شہر حیدرآباد کی بنا ہے۔ فرشہ نے لکھا ہے۔ ’’ان دنوں گولکنڈے کی آب و ہوا کی خرابی سے لوگ متنفر ہوگئے تھے۔ اس لیے قطب شاہ نے بلدۂ مذکور سے چار کوس کے فاصلے پر ایک نہایت شاندار شہر بسایا۔ اس کانام اس نے اپنی محبوبہ بھاگ متی کے نام پر بھاگ نگر رکھا۔ بعد میں یہ نام بدل کر حیدرآباد کردیا اور اسی نام سے اب تک مشہور ہے۔‘‘ شہر کے وسط میں چارمینار کی بنیاد رکھی۔ بلدۂ حیدرآباد کی یہ عمارت بہت عالیشان اور خوبصورت ہے۔ اس کے علاوہ اس نے متعدد عالی شان محلات تعمیر کیے۔ ان میں داد محل (چارمنزلہ) داد محل (ہشت منزلہ) محل کوہ طور، باغ محمد شاہی حیدر محل، جنان محل، صحبن محل کے نام تاریخوں میں ملتے ہیں۔ یہ عمارتیں زیادہ تر موساندی کے کنارے تعمیر ہوتی تھیں۔ متواتر طغیانیوں نے ان کا نام ونشان مٹادیا ہے۔
اس کے عہد میں علم کا بھی خاصا چرچا تھا خصوصاً شاعروں کی بہت قدر تھی۔ اس کے درباری شاعروں میں وجہیؔ اور غواصیؔ خاص طور پر بہت مشہور ہیں۔ ان کا کلام انجمن ترقی اردو پاکستان نے شائع کیا ہے۔ بادشاہ خود بہت بڑا شاعر تھا۔ اس کا کلیات جو میرے زیر مطالعہ رہا ہے اور جس پر میں نے تبصرہ لکھا تھا بہت ضخیم ہے۔ اور تقریباً ۱۸۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ نسخہ خاص شاہی کتب خانہ کاہے۔ سرورق پر اس کے جانشین محمد قطب شاہ کی مہرثبت ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فتح گولکنڈہ کے بعد یہ کلیات بعض دوسرے مالِ غنیمت کے ساتھ دلی چلا گیا اور وہاں داخلِ کتب خانہ شاہی ہوگیا۔ اول صفحہ پر یہ عبارت لکھی ہوئی ہے۔‘‘ غزلیات محمد قلی قطب الملک کہ مشتمل پر اشعار فارسی و دکنی ازا موال عبداللہ قطب الملک درحیدر آباد داخل کتب خانہ سرکار شد‘‘ ۔ اس شانِ تحریر سے صاف ٹپکتا ہے کہ یہ ملازمانِ شہنشاہ دہلی کی تراوشِ قلم کا نتیجہ ہے۔ افسوس یہ نادر اور بے بہا نسخہ اَب دسترس سے باہر ہے۔ اسے حضور نظام عثمان خاں کتب خانہ آصفیہ حیدر آباد دکن سے مع اور نوادر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ جوان کے محل کے کسی کونے میں پڑا ہوگا۔ محمد قلی نے علاوہ اردو کے فارسی اور تلنگی میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ عبداللہ قطب شاہ نے اس کلیات پر ایک منظوم دیباچہ لکھا ہے۔ جس میں وہ لکھتا ہے کہ بادشاہ نے پچاس ہزار شعر لکھے ہیں۔ اس کی کتابت کاسنہ قطب شاہ نے اپنی تحریر میں ۱۰۲۰ھ بتایا ہے۔ حال میں اس کا ایک اور دیوان نواب سالار جنگ کے کتب خانے سے دستیاب ہوا تھا۔ جواب شائع ہوگیا ہے۔ اس دیوان میں محمد قلی نے اپنا تخلص ’’معانی‘‘ لکھا ہے۔
محمد قلی نے اپنی شاعری کو صرف غزل اور قصیدے تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ انسانی معاشرت اور مظاہر قدرت پر بھی نظر ڈالی ہے۔ مثلاً متعدد مثنویاں پھل اور میوؤں پر ہیں۔ ایک مثنوی سبزی ترکاری پر ہے۔ ایک دوسری شکاری پرندوں کے بیان میں ہے۔ ان کے علاوہ بہت سی مثنویاں اور غزلیں اور قصیدے شاعر نے اپنے محلات اس وقت کے رسوم و رواج اور تیوہاروں، شادی کی رسوم اپنی سالگرہ، شب برات، میلاد نبی۔ عید خم غدید، برسات۔ ہولی۔ بسنت۔ پاں اپنے ہاتھی پر لکھے ہیں۔ ایک مکالمہ صراحی اور پیالے پر اور دو کالی اور گوری پر لکھا ہے۔ اگرچہ یہ نظمیں اورمثنویاں اعلیٰ پائے کی نہیں لیکن اس سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کی نظر وسیع تھی اور وہ عشق و محبت کے تنگ کوچے سے نکل کر صنعت و قدرت کی خوبیوں کی داد دے سکتا ہے۔
محمد قلی کاکلام اردو میں سب سے قدیم ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس سے قبل کی بھی بعض نظمیں ملتی ہیں۔ مثلاً میراں جی شمس العشاق (وفات ۹۰۲) کی دو ایک نظمیں جو مذہبی یا صوفیانہ رنگ کی ہیں یا نظامی (عہدِ علاؤالدین بہمنی) کی عشقیہ مثنوی مگر یہ بہت ہی معمولی ہیں۔ اور ادبی اعتبار سے ان کو محمد قلی کے کلام سے کوئی نسبت نہیں۔ محمد قلی کا کلام بہت بلند ہے۔ اردو زبان میں یہ پہلا کلیات ہے۔ جس کی ترتیب حال کے طرز پر کی گئی ہے۔ عبداللہ قطب شاہ نے اپنے منظوم دیباچے میں اس کی ترتیب اس طرح بیان کی ہے۔ اول مثنویاں پھر قصیدے اس کے بعد ترجیح بند، ترجیح بند کے بعد فارسی مرثیے اور اس کے بعد دکھنی مرثیے۔ دکھنی مرثیوں کے بعد فارسی غزلیں اورسب سے آخر میں رباعیات۔
یہ جومشہور ہے کہ شاہ گلشن نے ولیؔ کو یہ ہدایت کی کہ یہ اتنے سارے فارسی مضامین جو بے کار پڑے ہیں۔ ان کو اپنے ریختے میں کام میں لاؤ۔ تم سے کون مواخذہ کرے گا۔
ممکن ہے ایسا ہو لیکن محمد قلی کے کلام سے صاف ظاہر ہے کہ فارسی شعر کی تمام خصوصیات قدیم دکنی اردو میں آگئی تھیں۔ بحریں تمام فارسی ہیں، تشبیہات۔ استعارات۔ تلمیحات نیز خیالات وہی ہیں جو فارسی شعرا ءکے کلام میں پائے جاتے ہیں۔ البتہ عشق ومحبت کے معاملے میں ہندی کارنگ بھی آگیا ہے۔ ہندی میں عشق کااظہارعورت کی طرف سے ہوتا ہے۔ اور وہ مرد کو بے وفائی کے طعنے دیتی ہے۔ مثلاً،
پیا کس سوں گمائی رات ساری
تمن انکھیاں میں پائی میں خماری
یہ بالکل امیرخسروؔ کے اس شعر کا ترجمہ ہے۔
تو شبانہ می نمای بہ برکہ بودی امشب
کہ ہنوز چشمِ مست اثرِ خمار وارد
زبان کی قدامت بعض خاص ترکیبیں اور کہیں کہیں طرزِ اظہار ایسا ہے کہ اس کے کلام سے پوری طرح لطف اندوز ہونے میں مانع ہوتا ہے۔ اس زبان سے مانوس ہونے کے بعد معلوم ہوگا کہ شاعر کا یہ کچھ کم کمال نہیں کہ اس نے ایک ایسی زبان میں جس کے منہ سے اس وقت تک دودھ کی بو نہیں گئی تھی۔ ان خیالات و جذبات کااظہار کیا ہے جس کی صلاحیت فارسی میں صدہا سال کے منجھنے کے بعد پیدا ہوئی۔ باوجود اس کے بعض مستثنیات سے قطع نظر جن کادرجہ ہماری شاعری میں بلند ہے۔ محمد قلی کا کلام اردو کے اکثر شعراء کے کلام سے کسی طرح کم نہیں اور سوائے زبان کے تغیر اور شستگی کے کوئی اور فرق معلوم نہ ہوگا۔ اس کے اشعار میں سادگی، آمد (یعنی بے تصنع پن) اور محبت میں خلوص پایاجاتا ہے۔ چند شعر نقل کیے جاتے ہیں۔ جن سے قدرتِ اظہار اور حسن بیان ظاہر ہوگا۔
کفر ریت کیا ہور اسلام ریت
ہریک ریت میں عشق کاراز ہے
*
پیاباج پیالا پیاجائے نا
پیاباج یک تل جیا جائے نا
کہے تھے پیا بن صبوری کروں
کہیا جائے امّا کیا جائے نا
قطب شہ نہ دے مج دوانے کوں پند
دوانے کو کج پند دیا جائے نا
عشق و مستی اور تصوف میں اس کا کلام کسی سے پیچھے نہیں۔ بعض اوقات یہ معلوم ہوتا ہے کہ حافظؔ کے فیض نے شاعر کی طبیعت کو گرمادیا ہے۔ اس نے حافظؔ کی بعض غزلوں کاترجمہ بھی کیا ہے۔
پلاسا قیا منجکوں مستانہ مے
کیا ہے بہوت گرم چنگ ہورنے
جکچ عشق کو جے میں ہے سلطنت
نہیں دیکھیا ہے کد ہیں اس کو کے
*
زہد ریا تھی (۲) (۲) بہو دن بدنام رہیا ہوں
پیالے پلا پرم (۳) کے کرنیک نام ساقی
مستی تھی(۴) اپ صراحی کرتی تھی سرکشی نت
کرتی ہے جام کو اب ہر دم سلام ساقی
(۱) سے (۳) ہ بہت سے
(۲) بہت
(۳) محبت (۴) سے
*
اب مست اچھے وایم ہمیں مست اچھے کاہنگام ہے
ساقی صراحی نفل ہور پیالے سوں ہمنا کام ہے
عاشق اول تھی ۵ میں ہمیں سرمست ازل تھی ہیں ہمیں
نا آج کل تھی ہیں ہمیں زاہد کو نہیں یہ فام ہے
(۵ و ۶۔ سے)
غرض اس قسم کے سینکڑوں شعر ہیں۔ جن میں مستی اور مے نوشی صاف بہتی نظر آتی ہے۔ یہ فارسی شاعری کا طفیل ہے۔ جس کا چربہ شاعر نے اپنی زبان میں اتارا ہے۔
محمد قلی نے قصیدے بھی بہت سے لکھے ہیں۔ جو نعت و منقبت، محلات و باغات شاہی، نوروز، بسنت وغیرہ موضوعات پر ہیں۔ ان میں وہی شکوہ اور قوت پائی جاتی ہے جو ہمارے ادب میں قصیدے کی خصوصیت ہیں۔ جس طرح یہ پہلا شاعر ہے جس نے اردو میں غزل کے علاوہ مختلف مضامینِ عشقیہ وغیرہ عشقیہ، مثنویاں اور قصیدے لکھے ہیں۔ اسی طرح یہ پہلا شاعر ہے جس نے واقعۂ کربلا پر پُردرد نوحے اور مرثیے لکھے۔
محمد قلی نے اپنے کلام میں ہندی کے ساتھ فارسی عربی الفاظ کے میل سے نئے مرکبات بنائے ہیں۔ مثلاً پون بیر پھل افثانی وغیرہ۔ اسی طرح ہندی الفاظ کے ساتھ اضافت اورواو حروف عطف کا استعمال کیا ہے۔ جیسے نیرز لال باغ و پھل وجل ایک دوسری بات اس کے کلام میں یہ پائی جاتی ہے۔ کہ عربی الفاظ کو اسی طرح لکھا ہے جس طرح اس زمانے میں لوگ عام طور پر بولتے تھے۔ مثلاً قفل کو کلف منع کو منافہم کو فام، وضع کو وضا، شمع کو شما وغیرہ اسی طرح حرکات و سکنات کی صحت کی پابندی نہیں کی۔ مثلاً عرش تہہ ظلم کی ل وقت کے ق عشق کے ش کو بالفتح استعمال کیا ہے۔ یہ بدعتیں ولیؔ کے زمانے تک دکن دوسرے شاعروں میں بھی پائی جاتی ہیں۔
قطب شاہی بادشاہ شیعہ مذہب کے پیرو تھے۔ محمد قلی کواس مذہب میں غیرمعمولی شغف تھا۔ شیعہ مذہب کی تبلیغ کو بھی وہ ایک فرض سمجھتا تھا۔ محرم کا چاند ہوتے ہی سارے ملک کی فضا بدل جاتی تھی۔ ماتم و عزاداری کے رسوم نہایت اہتمام اور شان سے ادا کیے جاتے تھے۔
کثرتِ مے خواری اور عیاشی کے باعث اس کی صحت کو گھن لگ گیا تھا۔ اس کی تصویر جو برٹش میوزیم میں ہے اس کی شاہد ہے۔ آخر ۱۰۲۰ھ (۱۶۱۱ء) میں کچھ دن بیمار رہ کر ۴۹ سال کی عمر میں انتقال کرگیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.