مقدمہ انتخاب میر
جہاں سے دیکھئے یک شعر شور انگیز نکلے ہے
قیامت کا سا ہنگامہ ہے ہر جا میرے دیواں میں
میر تقی میرؔ سرتاج شعرائے اردو ہیں۔ ان کا کلام اسی ذوق و شوق سے پڑھا جائے گا جیسے سعدی کا کلام فارسی زبان میں۔ اگر دنیا کے ایسے شاعروں کی ایک فہرست تیار کی جائے جن کا نام ہمیشہ زندہ رہےگا تو میرؔ کا نام اس فہرست میں ضرور داخل کرنا ہوگا۔ یہ ان لوگوں میں نہیں ہیں جنھوں نے موزونی طبع کی وجہ سے یا اپنا دل بہلانے کی خاطر یا دوسروں سے تحسین سننے کے لیے شعر کہے ہیں، بلکہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو ہمہ تن شعر میں ڈوبے ہوئے تھے اور جنھوں نے اپنے کلام سے اردو کی فصاحت کو چمکایا اور زبان کو زندہ رکھا۔ شاعری میر صاحب کی زندگی کا جزو تھی۔ گویا فطرت نے انھیں اسی سانچے میں ڈھالا تھا، ان کا احسان اردو زبان پر تا قیامت رہےگا اور ان کے کلام کا لطف کسی زمانے میں کم نہ ہوگا کیوں کہ اس میں وہ عالمگیر حسن ہے جو کسی خاص وقت یا مقام سے مخصوص نہیں۔
جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز
تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا
میرؔ صاحب جیسا کہ خود انھوں نے اپنے تذکرے ’’نکات الشعراء‘‘ میں لکھا ہے، ’’متوطن اکبر آباد است بہ سبب گردش لیل و نہار از چندے در شاہ جہاں آباد است۔‘‘
علی ابراہیم کے تذکرہ ’’گلزار ابراہیم‘‘ میں جس کا ترجمہ میرزا علی لطفؔ نے ’’گلشن ہند‘‘ کے نام سے مسٹر جان گل کرسٹ کی فرمائش سے ۱۸۰۱ء۔ ۱۲۲۵ھ اردو میں کیا، یہ لکھا ہے کہ، ’’میرؔ تخلص، نام نامی اس نگین خاتم سخن آفرینی کا میر محمد تقی ہے۔ متوطن اکبرآباد کے سراج الدین علی خاں آرزو تخلص، آپ کے کچھ رشتہ داروں میں دور کے تھے۔ ابتدائے سن شعور سے پرورش انھوں نے دار الخلافہ شاہ جہاں آباد پائی ہے اور خان مذکور کی صحبت سے نظم ریختہ کی کیفیت، باریکیوں کے ساتھ اٹھائی ہے۔‘‘
غرض یہ کہ اگرچہ میرؔ صاحب اکبر آباد میں پیدا ہوئے اور ان کے بچپن کا زمانہ بھی وہیں گذرا لیکن بعد میں وہ دلی چلے آئے اور دلی ہی کو اپنا وطن بنا لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کو دلی سے نہیں، بلکہ دلی کو ان کے توطن سے فخر ہے۔ پھر دلی ہی کے ہوگئے اور دلی ہی کے کہلائے اور ان کی زبان بھی جو اس زمانے میں مایۂ افتخار اور شرافت کی ایک علامت سمجھی جاتی تھی، دلی ہی کی تھی۔
میرؔ صاحب کے بزرگ اپنے قبیلے کے ساتھ حجاز سے سرحد دکن میں پہنچے اور وہاں سے احمد آباد گجرات میں وارد ہوئے مگر ان کے جد کلاں نے اکبرآباد میں توطن اختیار کیا۔ میرؔ صاحب کے والد میر علی متقی ایک متوکل گوشہ نشین درویش تھے اور ادنیٰ، اعلیٰ سب ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے دو شادیاں کی تھیں۔ پہلی بیوی سراج الدین علی خان آرزو کی بہن تھیں، دوسری بیوی کے بطن سے میر صاحب (میر تقی) تھے۔ اولاد دونوں بیویوں سے ہوئی۔ اس رشتہ سے سراج الدین علی خاں آرزو میرؔ صاحب کے ماموں ہوئے۔ اگرچہ تذکرہ ’’گلزار ابراہیم‘‘ (گلشن ہند) نیز دوسرے تذکروں میں اور خود میرؔ صاحب نے اپنے ’تذکرۂ شعرائے اردو‘ میں خان آرزو کو اپنا استاد اور پیر و مرشد لکھا ہے لیکن حقیقت حال ’’ذکر میر‘‘ سے معلوم ہوتی ہے جو یہ ہے،
میرؔ صاحب والد کی وفات کے بعد ہی کوئی گیارہ سال کے سن میں دلی آ گئے تھے اور نواب صمصام الدولہ امیر الدولہ نے جو ان کے والد سے ارادت رکھتے تھے، میرؔ صاحب کا اپنی سرکار سے ایک روپیہ روزانہ مقرر کر دیا۔ نواب صاحب نادر شاہ کی جنگ ۱۱۵۱ھ میں مارے گئے اور میرؔ صاحب کا روزینہ بند ہو گیا۔ اس وجہ سے انھیں پھر دلی آنا پڑا۔ اس وقت ان کی عمر کوئی پندرہ برس ہوگی۔ لکھتے ہیں کہ،
’’جو لوگ درویش (والد) کی زندگی میں میری خاک پا کو سرمہ سمجھ کر آنکھوں میں لگاتے تھے، اب انھوں نے یک بارگی آنکھیں چرالیں، ناچار پھر دلی گیا اور اپنے بڑے بھائی کے ماموں سراج الدین علی خاں آرزو کا منت پذیر ہوا یعنی کچھ دن ان کے پاس رہا اور شہر کے بعض صاحبوں سے چند کتابیں پڑھیں۔ جب میں کسی قابل ہوا تو بھائی صاحب کا خط پہنچا کہ میرؔ تقی فتنۂ روزگاہے۔ ہرگز ان کی تربیت میں سعی نہ کی جائے۔ وہ عزیز (سراج الدین علی خاں) واقعی دنیادار شخص تھا۔ اپنے بھانجے کے لکھنے پر میرے درپے ہوگیا۔ جب کبھی ملاقات ہوتی، بلا وجہ برا بھلا کہنا شروع کر دیتے اور طرح طرح کی تکلیف پہنچانے کی کوشش کرتے۔ میرے ساتھ ان کا سلوک ایسا تھا جیسا کسی دشمن سے ہوتا ہے۔‘‘ فرماتے ہیں، ’’اگر ان کی دشمنی کی تفصیل لکھوں تو ایک دفتر ہو جائے۔‘‘
غرض اس سے میرؔ صاحب کو اس قدر رنج اور تکلیف ہوئی کہ وہ دروازہ بند کئے ہوئے پڑے رہتے تھے اور اس رنج وغم میں ان کی حالت جنون کی سی ہوگئی تھی۔
اس بیان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ میرؔ صاحب اور خان آرزو کے تعلقات بے حد ناگوار اور تلخ تھے۔ ان کی تربیت اور شاگردی کی روایت فسانے سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نکات الشعرا، ذکر میرؔ سے بہت بعد لکھی گئی ہے۔ ’’ذکر میرؔ‘‘ لکھتے وقت وہ تمام حالات تازہ تھے۔ دل پر صدمہ اور عالم پریشانی کا تھا۔ جو کچھ گذرا تھا، من و عن سب لکھ ڈالا۔ بعد میں جب ایک مدت گذر گئی، پریشان حالی بھی رفع ہو گئی تو اس صدمے کا اثر بھی خود بخود کم ہوگیا۔ ایسی حالت میں ان ناگوار واقعات کا دہرانا مناسب نہ سمجھا اور خوش اسلوبی سے ان پر پردہ ڈال دیا۔ میرؔ صاحب اپنی تعلیم اور شعر گوئی کی ابتداء کے متعلق خود بخود فرماتے ہیں،
’’میر جعفر نامی ایک صاحب سے اتفاقاً ملاقات ہو گئی اور انھوں نے بڑی عنایت اور دل سوزی سے مجھے پڑھانا شروع کیا۔ اچانک ایک روز ان کے وطن عظیم آباد سے خط آیا اور وہ ادھر چلے گئے۔ کچھ دنوں بعد سعادت علی سے جو امروہہ کے سید تھے، ملاقات ہو گئی۔ انھوں نے مجھے ریختے میں شعر موزوں کرنے کی ترغیب دی۔ میں نے جان توڑ کے محنت کی اور ایسی مشق بہم پہونچائی کہ میں شہر کے موزوں گویوں میں مستند سمجھا جانے لگا اور میرے شعر سارے شہر میں مشہور ہوگئے اور چھوٹے بڑے سب شوق سے پڑھتے تھے۔‘‘
ممکن ہے کہ میرؔ صاحب نے خان آرزو کی صحبت سے بھی کچھ فیض پایا ہو مگر ان کے اور خان آرزو کے ذوق میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ میرؔ صاحب فطری طورپر شاعر واقع ہوئے تھے اور ذوق شعر ان کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ وہ کسی کی صحبت یا شاگردی سے بالکل مستغنی معلوم ہوتے ہیں۔ میرؔ صاحب اس زمانے میں بہت پریشان رہے۔ کچھ دن رعایت خان، عظیم اللہ خاں کے بیٹے اور اعتماد الدولہ قمر الدین خاں کے نواسے کی مصاحبت اور رفاقت میں گزرے۔ اس کے بعد نواب بہادر کی سرکار سے تعلق ہو گیا۔
نواب بہادر محمد شاہ بادشاہ کا خواجہ سرا تھا اور بادشاہ کی وفات کے بعد احمد شاہ کے زمانے میں سلطنت میں اسے بڑا دخل ہوگیاتھا۔ جب نواب بہادر دغا سے قتل کردیے گئے تو میرؔ صاحب بھی بے کار ہو گئے۔ اس کے بعد وزیر کے دیوان مہانرائن نے بڑے اشتیاق سے بلا بھیجا اور اس وقت سے ان کی سرکار کے متوسل ہو گئے مگر چند ہی ماہ میں یہاں کا رنگ بدل گیا۔ چند روز گوشہ نشین رہنا پڑا۔
دو تین ماہ بعد راجہ جگل کشور جو محمد شاہ کے عہد میں دیوان بنگالہ تھے، میرؔ صاحب کو گھر سے اٹھا کر لے گئے۔ جب راجہ مذکور بھی زمانے کے ہاتھوں ناچار ہوگئے تو انھوں نے اپنی عنایت سے میرؔ صاحب کی تقریب راجہ ناگرمل سے کرادی جو اس وقت نائب وزیر اور عمدۃ الملک اور مہاراجہ کے خطاب سے ممتاز تھے۔ یہ تمام امراء میرؔ صاحب سے بڑی مہربانی اور عنایت سے پیش آتے تھے اور ان کی بڑی عزت وحرمت کرتے تھے۔ راجہ ناگرمل کی رفاقت میں میرؔ صاحب بہت دنوں تک رہے۔ اکثر مقامات میں راجہ صاحب کے ساتھ جانا پڑا اور بعض معرکے بھی دیکھے اور راجہ کی بدولت دربار اکبر آباد کی زیارت بھی نصیب ہوئی لیکن ایک ایسا واقعہ پیش آ گیا کہ میرؔ صاحب کو راجہ کی رفاقت چھوڑنی پڑی۔
جس زمانے میں جاٹوں نے فساد مچا رکھا تھا، راجہ بھی پریشان تھے۔ اس نے میرؔ صاحب کو شاہی کیمپ میں جو اس وقت فرخ آباد میں سایہ فگن تھا، حسام الدین کے پاس بھیجا جسے بادشاہ کے مزاج میں بڑا دخل تھا۔ میرؔ صاحب گئے اور تمام عہد وپیمان کیے لیکن یہاں راجہ کا چھوٹا بیٹا میرؔ صاحب سے خوش نہ تھا، اس لیے کہ ان سے راجہ کے بڑے بیٹے سے بہت ربط ضبط تھا۔ اس نے برخلاف باپ کو یہ سمجھایا کہ دکھنیوں کے پاس جانا بہتر ہے، چنانچہ راجہ بادشاہ کے لشکر میں نہ گئے اور شہر کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس میں میرؔ صاحب کی بہت سبکی ہوئی اور وہ دلی پہونچ کر راجہ سے علیحدہ ہو گئے۔ اس کے بعد ہی کا زمانہ ہے کہ میرؔ صاحب لکھتے ہیں،
’’فقیر ان ایام میں خانہ نشین تھا۔ بادشاہ اکثر طلب فرماتے تھے مگر میں کبھی نہیں گیا۔ ابوالقاسم خاں پسر ابوالبرکات خاں صوبہ دار کشمیر اور عبد الاحد خان (جو اس وقت بادشاہ کی ناک کا بال تھا) بھائی میرے ساتھ بہت سلوک کرتا تھا، میں کبھی کبھی اس کی ملاقات کو جاتا تھا اور بادشاہ بھی کبھی کبھی کچھ بھیج دیتے تھے۔‘‘
میرؔ صاحب کی زندگی مصائب وآلام کا ایک سلسلہ تھی، جس کا تار بچپن سے لے کر لکھنؤ جانے تک کبھی نہ ٹوٹا۔ لڑکپن ہی میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ سید امان اللہ جو ان کے والد کے نہایت عزیز مرید تھے اور میرؔ صاحب انھیں اپنی کتاب کا ہر جگہ عم بزرگوار لکھتے ہیں اور جو انھیں باپ سے کم عزیز نہ تھے، وہ پہلے ہی دنیا سے کوچ کر گئے تھے۔ باپ کے مرنے پر بھائی اور عزیز و اقارب نے بہت بے مروتی کی۔ دس گیارہ سال کے سن میں بسراوقات کی فکر دامن گیر ہوئی۔ اس سے ظاہر ہے کہ اس وقت ان کے دل ودماغ کی کیا کیفیت ہوگی۔ جب آگرہ اور اس کے گرد ونواح میں کوئی صورت نہ نکلی تو ناچار دلی پہونچے۔
اس وقت کی دلی تاریخ میں خاص حیثیت رکھتی ہے۔ وہ ہندوستان کی جان اور سلطنت مغلیہ کی راجدھانی تھی مگر ہرطرف سے آفات کا نشانہ تھی۔ اس کی حالت اس عورت کی سی تھی جو بیوہ تو نہیں پر بیواؤں سے کہیں زیادہ دکھیاری ہے۔ اولو العزم تیمور اور بابر کی اولاد ان کے مشہور آفاق تخت پر بے جان تصویر کی طرح دھری تھی۔ اقبال جواب دے چکا ہے۔ ادبار و انحطاط کے سامان ہو چکے تھے اور سیاہ رو زوال گرد و پیش منڈلا رہا تھا۔ بادشاہ دست نگر اور امیر امرا مضمحل و پریشان تھے۔
سب سے اول نادر شاہ کا حملہ ہوا۔ حملہ کیا تھا خدا کا قہر تھا۔ نادر کی بے پناہ تلوار اور اس کے سپاہیوں کی ہوس ناک غارت نگری نے دلی کو نوچ کھسوٹ کر ویران و برباد کردیا۔ ابھی یہ کچھ سنبھلنے ہی پائی تھی کہ چند سال بعد احمد شاہ درانی کی چڑھائی ہوئی پھر مرہٹوں، جاٹوں اور روہیلوں نے وہ اودھم مچائی کہ رہی سہی بات بھی جاتی رہی۔ غرض ہر طرف خود غرضی، خانہ جنگی، طوائف الملوکی اور ابتری کا منظر آتا تھا۔ یہ حالات میرؔ صاحب نے اپنی آنکھوں دیکھے اور دیکھے ہی نہیں ان کے چرکے بھی سہے اور ان انقلابات کی بدولت ناکام شاعر کی قسمت کی طرح ٹھوکریں کھاتے پھرے۔ یہ دلی کے اقبال کی شام تھی جس کی سحر اب تک طلوع نہیں ہوئی۔
ایسے وقت میں جب کہ پے در پے آفتیں نازل ہو رہی تھیں، شاعر بیچارے تو کس گنتی میں ہیں، بڑے بڑے وضعداروں اور متوکلوں کے اوسان بجا نہیں رہتے۔ اب تک جو باکمال دلی میں پڑے وضع داری نباہ رہے تھے، ان حادثوں کے بعد وہ بھی نہ ٹک سکے، سوائے ایک خواجہ میرؔ درد کے کہ ان کے پائے استقامت میں کبھی لغزش نہ ہوئی۔
دلی کے اجڑنے کے بعد لکھنؤ آباد نظر آتا تھا۔ آصف الدولہ سالکھ لٹ نواب تھا۔ اہل کمال کی قدر ہونے لگی۔ پھر جو اٹھا وہیں کا ہو رہا۔ سب سے پہلے نادر شاہ کی تباہی کے بعد سراج الدین علی خاں آرزوؔ نے ادھر کا رخ کیا۔ ابھی ان کے لیے کوئی صورت نہ نکلی تھی کہ انتقال کر گئے۔ اس کے بعد مرزا محمد رفیع سوداؔ تشریف لے گئے۔ سوداؔ کے انتقال کے میرؔ صاحب نے نواب آصف الدولہ کے یاد کرنے پر ۱۱۹۷ھ۔ ۱۷۸۴ء میں دلی سے لکھنؤ کوچ فرمایا۔ میرؔ صاحب کے جاتے ہی دلی سونی ہوگئی۔ اور میر حسن، میر سوز، جرأت سب لکھنؤ میں جا بسے اور دلی کی رونق لکھنؤ میں آ گئی۔ میرؔ صاحب نے اپنے لکھنؤ جانے کا حال اس طرح لکھا ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جبکہ دلی میں خانہ جنگی اور ابتری بپا ہے۔
’’فقیر خانہ نشین تھا اور چاہتا تھا کہ شہر سے نکل جائے لیکن بے سروسامانی کی وجہ سے معذور تھا۔ میری عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے نواب وزیر الممالک آصف ا لدولہ بہادر آصف الملک کے دل میں خیال آیا کہ میرؔ میرے پاس چلا آئے تو اچھا ہو، میری طلبی کے لیے نواب سالار جنگ پسر اسحاق خاں، موئمن الدولہ اور نواب اسحٰق خاں کے چھوٹے بھائی نجم الدولہ نے جو وزیر اعظم کے خالو ہوتے تھے، ان قدیم تعلقات کی وجہ سے جو میرے ماموں سے تھے کہا کہ اگر نواب صاحب از راہ عنایت کچھ زاد راہ عنایت فرمائیں تو البتہ میرؔ صاحب آ سکتے ہیں۔ نواب صاحب نے اجازت دی اور انھوں نے سرکار سے زاد راہ لے کر مجھے لکھا کہ نواب والا جناب آپ کو یاد فرماتے ہیں، جس طرح ہو سکے آپ یہاں آ جائیے۔
میں پہلے ہی سے دل برداشتہ بیٹھا تھا۔ خط آتے ہی لکھنؤ روانہ ہو گیا۔ چونکہ خدا کا یہی منشا تھا، میں بے یار و مددگار، بغیر قافلے اور رہبر کے فرخ آباد کے رستے سے گزرا۔ وہاں کے رئیس مظفر جنگ تھے۔ انھوں نے ہر چند چاہا کہ کچھ روز وہاں ٹھہر جاؤں مگر میرے دل نے قبول نہ کیا۔ دو ایک روز کے بعد روانہ ہو کر منزل مقصود پر پہنچ گیا۔ اول سالار جنگ کے یہاں گیا۔ خدا انھیں سلامت رکھے۔ بڑی عزت و توقیر سے پیش آئے اور جو کچھ مناسب تھا، بندگان عالی کی جناب میں کہلا کے بھیجا۔
چار پانچ روز بعد اتفاقاً نواب عالی جناب مرغوں کی لڑائی کے لیے تشریف لائے، میں بھی وہاں تھا، ملازمت حاصل کی، محض فراست سے دریافت فرمایا کہ میر تقی ہو؟ اور نہایت لطف و عنایت سے بغل گیر ہوئے اور اپنے ساتھ نشست کے مقام پر لے گئے، اپنے شعر مجھے مخاطب کرکے سنائے۔ سبحان اللہ ’’کلام الملوک ملوک الکلام۔‘‘ اس کے بعد فرط مہربانی سے مجھ سے فرمائش کی۔ اس روز میں نے اپنی غزل کے صرف چند شعر عرض کئے۔ رخصت کے وقت نواب سالار جنگ نے کہا کہ میرؔ صاحب حسب طلب حاضر ہوگئے ہیں۔ بندگان عالی مختار میں انھیں کوئی جگہ عنایت فرمادی جائے۔ جب مرضی مبارک ہو یاد فرمائیں، فرمایا کہ میں کچھ مقرر کرکے آپ کو اطلاع کردوں گا۔ دو تین روز بعد یاد فرمایا، حاضر ہوا اور جو قصیدہ میں نے مدح میں کہا تھا پڑھا۔ سماعت فرمایا اور کمال لطف کے ساتھ اپنے ملازموں کے سلسلے میں داخل فرمایا اور ہمیشہ میرے حال پر عنایت و مہربانی فرماتے رہے۔‘‘
اب میرؔ صاحب کی دلی کی بود و باش کا خاتمہ ہوتا ہے اور لکھنؤ کی نئی زندگی شروع ہوتی ہے۔ از روئے صاحب گلزار ابراہیم میرؔ صاحب لکھنؤ ۱۱۹۷ھ میں پہونچے۔ اس وقت ان کی عمر ساٹھ برس کی تھی۔ باقی عمر تا دم آخر ۱۴۲۵ھ تک لکھنؤ ہی میں بسر ہوئی۔
لکھنؤ آنے سے پہلے میرؔ صاحب کی شہرت یہاں پہونچ چکی تھی، چنانچہ جب آپ یہاں پہونچے تو لوگوں نے ان کے لیے آنکھیں بچھا دیں۔ امیر سے لے کر غریب تک اور بادشاہ سے لے کر فقیر تک نے اعزاز و قدردانی میں سبقت کی۔ گویا میرؔ صاحب کے آنے سے لکھنؤ کو بھاگ لگ گئے۔ شعر و سخن میں جان پڑ گئی اور مشاعروں کی رونق بڑھ گئی۔ میرؔ صاحب مرجع کمال بن گئے، دور دور سے لوگ اس شوق میں آتے تھے کہ میرؔ صاحب کی زبان مبارک سے ان کا کلام سنیں اور اپنے اپنے شہروں کو ان کے اشعار بطور سوغات کے لے جائیں۔ یہ مقبولیت اردو کے کسی دوسرے شاعر کو نصیب نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت سے اب تک میرؔ صاحب کے کمال کا سکہ لوگوں کے دلوں پر بیٹھا ہوا ہے اوربڑے بڑے شاعروں نے انھیں استاد مانا ہے۔ چنانچہ مرزا غالبؔ فرماتے ہیں،
ریختے کے تمھیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا
ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں،
غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخؔ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں
ذوقؔ کا ایک شعر ہے،
نہ ہوا پر نہ ہوا میرؔ کا انداز نصیب
ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
میرؔ صاحب اپنے کمال سے خود واقف تھے اور انھیں اس پر ناز تھا اور اس کا اظہار انھوں نے جابجا اس طرح سے کیا ہے کہ دوسرے کی مجال نہیں، چنانچہ چند اشعار اس مضمون کے یہاں نقل کیے جاتے ہیں۔
ریختہ خوب ہی کہتا ہے جو انصاف کرو
چاہئے اہل سخن میرؔ کو استاد کریں
ریختہ رتبے کو پہنچایا ہوا اس کا ہے
معتقد کون نہیں میر کی استادی کا
کیا جانوں دل کو کھینچے ہیں کیوں شعر میرؔ کے
کچھ ایسی طرز بھی نہیں ایہام بھی نہیں
جہاں سے دیکھئے یک شعر شور انگیز نکلے ہے
قیامت کا سا ہنگامہ ہے ہر جا میرے دیواں میں
جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز
تا حشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا
اس فن میں کوئی بے تہہ کیا ہوا مرا معارض
اول تو میں سند ہوں، پھر یہ مری زباں ہے
اگرچہ گوشہ نشین ہوں میں شاعروں میں میرؔ
پہ میرے شور نے روئے زمیں تمام لیا
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیے گا
پڑھتے کسی کو سنئے گا تو دیر تلک سردھنیے گا
برسوں لگی ہوئی ہیں جب مہر و مہ کی آنکھیں
تب کوئی ہم سا صاحب، صاحب نظر بنے ہے
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
اس آخری شعر میں تعلی کی انتہا ہو گئی ہے۔ کسی دوسرے شخص کی کیا مجال ہے کہ وہ ’’فرمانے کا لفظ‘‘ اپنے لیے اس طور سے لکھے۔ یہ میر صاحب ہی کو زیبا تھا۔
میرؔ صاحب کی شاعری اپنی بعض خصوصیتوں کی وجہ سے اردو زبان میں نہ صرف ممتاز حیثیت رکھتی ہے بلکہ اپنی نظیر نہیں رکھتی۔ الفاظ کا صحیح استعمال اور ان کی خاص تربیت و ترکیب زبان میں موسیقی پیدا کر دیتی ہے۔ اس کے ساتھ اگر سادگی اور پیرایہ بیان بھی عمدہ ہو تو شعر کا رتبہ بہت بلند ہو جاتا ہے۔ میرؔ صاحب کے کلام میں یہ سب خوبیاں موجود ہیں اور اس کے ساتھ ہی ان کا کلام ایسا درد بھرا ہوا ہے کہ اس کے پڑھنے سے دل پر چوٹ سی لگتی ہے جو لطف سے خالی نہیں ہوتی۔ ان کی زبان کی فصاحت اور سادگی، سوز و گداز، مضامین کی جدت اور تاثیر میں ایسی خوبیاں ہیں جو اردو کے کسی دوسرے شاعر میں نہیں پائی جاتیں۔
ان کی شاعری عاشقانہ ہے لیکن کہیں کہیں وہ اخلاقی اور حکیمانہ مضامین کو اپنے رنگ میں ایسی سادگی، صفائی اور خوبی سے ادا کر جاتے ہیں جس پر ہزار بلند پروازیاں اور نازک خیالیاں قربان ہیں۔ یہ خاص انداز میرؔ صاحب کا ہے مگر ان کا کلام حسرت و ناکامی، حرمان و مایوسی سے بھرا ہوا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ میرصاحب بہت بڑے درویش کے بیٹے تھے۔ ان کے بچپن کا تمام زمانہ درویشوں ہی کی صحبت میں گزرا۔ سید امان اللہ جنھیں میرؔ صاحب چچا کہتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ انہیں کی آغوش شفقت میں پرورش اور تربیت پائی۔ جب کبھی کسی درویش سے ملنے جاتے تو میرؔ صاحب کو ساتھ لے جاتے اور یہ ان کی ملاقاتوں اور صحبتوں میں حاضر رہتے۔ ان کے والد کی خدمت میں بھی اکثر درویش اور دوسرے لوگ حاضر ہوتے۔ یہ چپکے چپکے سب کچھ دیکھتے اور سنتے رہتے تھے۔ خود والد نے سید امان اللہ یا میرؔ صاحب کو تلقین کی وہ بھی درویشانہ اور صوفیانہ اور خاص کر عشق اختیار کرنے کی تاکید فرماتے تھے۔
’’بیٹا عشق اختیار کرو کہ عشق ہی کا اس کارخانے پر تسلط ہے۔ اگر عشق نہ ہوتا تو یہ تمام نظام درہم برہم ہو جاتا۔ بے عشق کے زندگانی و بال ہے اور عشق میں دل کھونا اصل کمال ہے۔ عشق بسازد وعشق بسوزد، عالم میں جو کچھ ہے، وہ عشق ہی کا ظہور ہے۔ بیٹا زمانہ سیّال ہے یعنی بہت کم فرصت، یعنی اپنی تربیت سے غافل نہ رہو۔ اس رستے میں بہت نشیب و فراز ہیں۔ دیکھ کر چلو ایسے پھول کا بلبل بنو جو سدا بہار ہو۔۔۔ فرصت کو غنیمت سمجھو اور اپنے تئیں پہچاننے کی کوشش کرو۔‘‘
جب دن رات یہی صدائیں کان میں پڑتی رہیں تو وہ بچہ بڑا ہوکر درویش نہیں تو درویش منش ضرور ہوکر رہےگا۔ وہ اپنے والد کے متعلق کھتے ہیں،
’’جوان صالح اور عاشق پیشہ تھے، دل میں گرمی اور سوز رکھتے تھے۔ اخلاق سنجیدہ اور اوصاف حمیدہ رکھتے۔ استقامت ایسی تھی کہ شاید کسی میں ہو۔ طبعش مشکل پسند، جانش دردمند، مژگان نم، حال درہم۔‘‘
یہی اوصاف وراثتاً میرؔ صاحب کو بھی ملے، اس پر لڑکپن میں یتیم ہو گئے۔ ایک تو یتیمی کا صدمہ دوسرے عزیز و اقارب کی طوطا چشمی، زمانے کی بے مروتی، بے سروسامانی یہ ایسی حالتیں نہ تھیں کہ ان کے دل پر اثر نہ کرتیں۔ پھر وہ ایسے زمانے میں پیدا ہوئے جبکہ مسلمانوں کے اقبال کا ستارہ گہنا رہا تھا اور ہرطرف مایوسی اور ناکامی نظر آتی تھی اور ان حیرت انگیز اور زہر ہ گداز واقعات اور انقلابات کو دیکھا اور برتا جو چند خاندانوں اور شہروں نہیں ملکوں اور قوموں کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔ ممکن نہ تھا کہ میرؔ صاحب کی سی اثر قبول طبیعت ان حالات سے متاثر نہ ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ ان کے کلام کی فصاحت و شستگی سے خاص لطف حاصل ہوتا ہے مگر پڑھنے والے کے دل پر مایوسانہ اثر پیدا کئے بغیر نہیں رہتا۔ شگفتگی اور زندہ دلی میرؔ صاحب کی تقدیر میں نہیں تھی۔ وہ سراپا یاس وحرماں تھے اور یہی حال ان کے کلام کا ہے۔ گویا ان کا کلام ان کی طبیعت و سیرت کی ہوبہو تصویر ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ وہ اصلیت اور حقیقت سے خالی نہیں۔
یہ رائے قیاسی یا فرضی نہیں۔ ’’ذکر میر‘‘ پڑھنے کے بعد اس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ ان کاہر شعر ان کے درد دل کی تصویر ہے۔ غزلوں سے صرف ان کی طبیعت کا رنگ معلوم ہوتا ہے۔ یہ معلوم ہونا دشوار ہے کہ کون سی غزل کس وقت اور کس حالت میں لکھی ہے۔ لیکن بعض واقعات جو ضمناً آ گئے ہیں، ان کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ میرؔ صاحب کی شاعری کا بہت سا حصہ آپ بیتی اور اپنے دل کی کیفیت ہے۔ مثلاً آرزوؔ کی بے مروتی اور دل آزار سلوک اور اپنی بے نوائی اور بے کسی کا ان کے قلب پر بڑا صدمہ تھا اور وہ بہت ہی شکستہ دل اور دل گرفتہ رہتے تھے۔ اسی غم وغصے میں ان پر جنون کی سی حالت طاری ہو گئی اور انھیں چاند میں ایک عجیب صورت نظر آنے لگی۔ جس سے ان کی وحشت اور دیوانگی اور بڑھ گئی۔ اس حالت کو ہم انھیں کے الفاظ میں نقل کرتے ہیں،
’’در شب ماہ پیکرے خوش صورت باکمال خوبی از جرم قمراند از طرف من می کرد و موجب بے خودی می شد بہرطرف کہ چشمم می افتاد بر آں رشک پری می افتاد، بہرجا کہ نگاہ می کردم تماشئے آن غیرت حور می کردم۔ در و بام و صحن خانۂ ورق تصویر شدہ بود۔ یعنی از حیرت افزائی از شش جہت رومی نمود۔ گاہے چوں ماہ چہارد، مقابل گاہے سیر گاہ او منزل دل اگر نظر ہر گل مہتاب می افتاد آتشے در جان بیتاب می افتاد، ہر شب بہ او صحبت ہر صبح بے او وحشت دمے کہ سفیدۂ صبح می رمید از دل گرم آہ سرد می کشید یعنی آہ می کرد و انداز ماہ می کرد تمام روز جنون می کردم، دل دریا داد خون می کردم، کف بر لب چوں دیوانہ و مست، پارہ ہائے سنگ در دست من افتاں وخیزاں مردم از من گریزاں۔ تا چار ماہ آن گل شب افروز رنگ تازہ می ریخت و از فتنہ خرامی ہا قیامت می انگیخت، ناگاہ موسم گل رسید، داغ سودا سیاہ گردید یعنی چوں پریدار شدم مطلق از کار شدم صورت آن شکل و ہمیں در نظر خیال مشگنیش در سر۔ شائستہ کنارہ گیر شدم زندگانی و رنجیری شدم۔‘‘
اب اس کے بعد میرؔ صاحب کی مثنوی ’’خواب و خیال‘‘ پڑھئے، اس قلبی واردات کی تصویر اور اس خواب کی تعبیر صاف نظر آتی ہے۔ یہ محض خواب وخیال ہی نہیں بلکہ ایک واقعہ تھا جو ان کے مایوس اور حزیں دل پر گذرا تھا۔
یا جب جاٹوں کی سرکرشی اور فتنہ پردازی سے تنگ آکر راجہ ناگر مل بیس ہزار گھروں سمیت جن میں زیادہ تر انھیں سے وابستہ تھے، اپنا عزیز مقام چھوڑ کر کاماں جاتے ہیں (میرؔ صاحب بھی اس سفر میں راجہ صاحب کے ہمراہ تھے) تو میرؔ صاحب نے ایک مخمس لکھا ہے جس میں اپنی پریشان حالی اور برے وقت کا رونا رویا ہے۔ اسی قسم کی اور نظمیں بھی ہیں (مثلاً اپنے گھر کا حال وغیرہ) جن میں اپنی بپتا بیان کی ہے۔ اگرچہ یہ وقتی حالات اور ایک شخص واحد کی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں لیکن سچا شاعر ان کو اس انداز اور خوبی سے بیان کر جاتا ہے کہ ہر شخص لطف حاصل کر سکتا ہے۔ وہ مر جاتا ہے مگر چھوٹے چھوٹے بے حقیقت واقعات اس کے لطف بیان کی بدولت ہمیشہ کے لیے زندہ رہ جاتے ہیں۔
ان کا کلام دور از کار استعارات، بعید از قیاس مبالغے اور خلاف عادت امور سے پاک ہے۔ بھونڈے اور بے جا تکلف و تصنع اور فضول لفاظی کا نام نہیں۔ وہ قلبی واردات اور کیفیات کو نہایت سادہ، شستہ اور صاف زبان میں ایسے دلکش اسلوب سے بیان کرتے ہیں کہ جو بات وہ کہنی چاہتے ہیں وہ دل میں اتر جاتی ہے۔ غرض یہ کہ ان کا کلام بہ لحاظ فصاحت و روانی سہل ممتنع ہے اور سہل ممتنع کلام کا تجزیہ کر کے الگ الگ اس کی خوبی کا گنوانا ناممکن ہے کیونکہ اس سے کلام کی خوبی کا اندازہ تو ہوتا نہیں البتہ اس کی نسبت غلط فہمی پیدا کردینے کا اندیشہ ضرور ہوتا ہے۔
شاعر کے کلام کا ایک بڑا معیار اس کے کلام کی تاثیر ہے۔ اگر اس معیار پر میرؔ صاحب کے کلام کو جانچا جائے تو ان کا مرتبہ شعراء میں سب سے اعلیٰ پایا جاتا ہے۔ ان کے اشعار سوز و گداز اور درد کی تصویریں ہیں۔ زبان سے نکلتے ہی دل میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں۔ میرؔ صاحب کی عمر کوئی نوے برس کی تھی اور ان کو وفات پائے بھی سوبرس سے زیادہ ہوتے ہیں لیکن اب تک یہ حال ہے کہ لوگ ان کے کلام کو پڑھ پڑھ کر مزے لیتے اور سردھنتے ہیں۔
میری یہ رائے میرؔ صاحب کے منتخب کلام کی نسبت ہے۔ ورنہ ان کی ضخیم کلیات میں رطب ویابس سب کچھ بھرا پڑا ہے۔ مولانا آزردہ نے ان کے کلام کی نسبت اپنے تذکرے میں صحیح لکھا ہے کہ ’’پستش بغایت پست، بلندش بغایت بلند است۔‘‘ اس پر مولانا حالیؔ کی عام رائے کا نقل کر دینا جو انھوں نے شعراء کی نسبت لکھی ہے، لطف سے خالی نہ ہوگا،
’’یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دنیا میں جتنے شاعر استاد مانے گئے ہیں یا جن کو استاد ماننا چاہئے ان میں ایک بھی ایسا نہ نکلے گا جس کا تمام کلام اول سے آخر تک حسن و لطافت کے اعلیٰ درجے پر واقع ہوا ہو کیونکہ یہ خاصیت صرف خدا ہی کے کلام میں ہو سکتی ہے۔ شاعر کی معراج کمال یہ ہے کہ اس کا عام کلام ہموار اور اصول کے موافق ہو اور کہیں کہیں اس میں ایسا حیرت انگیز جلوہ نظر آئے جس سے شاعر کا کمال خاص وعام کے دلوں پر نقش ہو جائے، البتہ اتنی بات ہے کہ اس کے عام اشعار بھی خاص خاص اشخاص کے دل پر خاص خاص حالتوں میں تقریباً ویسا ہی اثر کریں جیسا کہ اس کا خاص کلام ہر شخص کے دل پر ہر حالت میں اثر کرتا ہے اوریہ بات اسی شاعر میں پائی جا سکتی ہے جس کا کلام سادہ اور نیچرل ہو۔‘‘
میرؔ صاحب کے کلام میں ایسے حیرت انگیز جلوے نظر آتے ہیں جس طرح بعض اوقات سمندر کی سطح دیکھنے میں معمولی اور بے شور و شر نظر آتی ہے لیکن اس کے نیچے ہزاروں لہریں موجزن ہوتی اور ایک کھلبلی مچائے رکھتی ہیں، اسی طرح اگرچہ میرؔ صاحب کے اشعار کے الفاظ ملائم، دھیمے، سلیس اور سادہ ہوتے ہیں لیکن ان کی تہہ میں غضب کا جوش یا درد چھپا ہوتا ہے۔ الفاظ کی سلاست اور ترتیب کی سادگی لوگوں کو اکثر دھوکا دیتی ہے۔ وہ ان پر سے بے خبر گذر جاتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ شاعر نے ان سلیس الفاظ اور معمولی ترتیب میں کیا کیا کمال بھر رکھے ہیں۔ میرؔ صاحب کا کلام اس بارے میں اپنا جواب نہیں رکھتا اور غور سے پڑھنے کے قابل ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ پڑھنے والے قدیم الفاظ یا محاورہ یا متروک ترکیب کو دیکھ کر شعر چھوڑ دیتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ اسی لفظ یا ترکیب نے جسے وہ متروک سمجھتے ہیں خاص لطف پیدا کر دیا ہے یا کم سے کم شعر کے حسن میں حارج نہیں۔
میں یہاں چند شعر مثال کے طور پر نقل کرتا ہوں جس سے ان کے کلام کی حسن و خوبی اور ان کے خاص انداز کا اندازہ ہو سکتا ہے۔
ہمارے آگے ترا جب کسی نے نام لیا
دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
ہم خاک میں ملے تو ملے لیکن اے سپہر
اس شوخ کو بھی راہ پہ لانا ضرور تھا
یاد اس کی اتنی خوب نہیں میر باز آ
نادان پھر وہ جی سے بھلایا نہ جائے گا
جو اس شور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا
عہد جوانی رو رو کاٹا، پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
یاں کے سفید وسیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا اور دن کو جوں توں شام کیا
گل کی جفا بھی دیکھی، دیکھی وفائے بلبل
اک مشت پر پڑے تھے گلشن میں جائے بلبل
کیوں کر گلی سے اس کی اٹھ کر میں چلا جاتا
یاں خاک میں ملنا تھا لو ہو میں نہانا تھا
کہتا تھا کسو سے کچھ تکتا تھا کسو کا منہ
کل میرؔ کھڑا تھا یاں سچ ہے کہ دوانا تھا
جفائیں دیکھ لیاں، بے وفائیاں دیکھیں
برا ہوا کہ تری سب برائیاں دیکھیں
ہوگا کسی دیوار کے سائے کے تلے میرؔ
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو
اک شخص مجھی سا تھا کہ تھا تجھ سے پہ عاشق
وہ اس کی وفا پیشگی، وہ اس کی جوانی
یہ کہہ کے میں رویا تو لگا کہنے نہ کہہ میرؔ
سنتا نہیں میں ظلم رسیدوں کی کہانی
جب کوندتی ہے بجلی تب جانب گلستاں
رکھتی ہے چھپڑ میرے خاشاک آشیاں سے
خاموشی ہی میں ہم نے دیکھی ہے مصلحت اب
ہر اک سے حال دل کا مدت کہا زباں سے
جب نام ترا لیجے تب چشم بھر آوے
اس طرح سے جینے کو کہاں سے جگر آوے
مستقل روتے ہی رہئے تو بجھے آتش دل
ایک دو آنسو تو اور آگ لگا جاتے ہیں
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
عشق ہمارے خیال پڑا ہے خواب گیا آرام گیا
دل کا جانا ٹھہر گیا ہے صبح گیا یا شام گیا
جی ہی دینے کا نہیں کڑھنا فقط
اس کے در سے جانے کی حسرت بھی ہے
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں
اس آخری شعر پر مولانا حالیؔ نے اپنے مقدمہ دیوان میں ایک بہت ہی پر لطف لطیفہ لکھا ہے جس میں نہ صرف اس شعر کی خوبی بلکہ میرؔ صاحب کے کلام کی خصوصیت کا پورا اندازہ ہوتا ہے، مولانا فرماتے ہیں، ’’مولانا آزردہ کے مکان پر ان کے چند احباب جن میں مومنؔ اور شیفتہؔ بھی تھے، ایک روز جمع تھے۔ میرؔ کا یہ شعر پڑھا گیا۔ شعر کی بے انتہا تعریف ہوئی اور یہ سب کو خیال ہوا کہ اس قافیے کو ہرشخص اپنے اپنے سلیقہ اور فکر کے موافق باندھ کر دکھائے، سب قلم دوات اور کاغذ لے کر الگ الگ بیٹھ گئے اور فکر کرنے لگے۔ اسی وقت ایک اور دوست وارد ہوئے۔ مولانا سے پوچھا کہ حضرت کس فکر میں بیٹھے ہیں؟ مولانا نے کہا، قل ہو اللہ کا جواب لکھ رہا ہوں۔‘‘
مولانا حالیؔ نے اسی شعر کے متعلق یہ رائے ظاہر کی ہے، ’’ظاہر ہے کہ جوش جنوں میں گربیان یا دامن یا دونوں کا چاک کرنا نہایت مبتذل اور پامال مضمون ہے جس کو قدیم زمانے سے لوگ برابر باندھتے چلے آئے ہیں۔ ایسے چیتھڑے ہوئے مضمون کو میرؔ نے باوجود غایت درجے کی سادگی کے ایک اچھوتے، نرالے اور دلکش اسلوب میں بیان کیا ہے کہ اس سے بہتر اسلوب تصور میں نہیں آ سکتا۔ اس اسلوب میں بڑی خوبی یہی ہے کہ سیدھا سادا ہے، نیچرل ہے اور باوجود اس کے بالکل انوکھا ہے۔‘‘
یہی خوبی میرؔ کے تمام منتخب کلام میں پائی جاتی ہے، چنانچہ چند اشعار جو نمونے کے طورپر اوپر لکھے گئے ہیں، ان کے پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ زبان کی سلاست و فصاحت کے ساتھ پیرایۂ بیان کس قدر دل کش، نرالا اور پرتاثیر ہے۔
یوں تو میرؔ صاحب کے تمام نامور ہم عصروں کے کلام میں سادگی، صفائی اور روز مرہ کی پابندی پائی جاتی ہے لیکن محض سلاست اور زبان کی فصاحت کام نہیں آسکتی۔ جب تک بیان میں تازگی، ادائے مطلب میں شگفتگی اور خیال میں بلندی وجدّت نہ ہو، میرؔ صاحب کے کلام میں یہ سب خو بیاں ایک جا جمع ہیں اور پھر اس پر درد اور تاثیر خداداد معلوم ہوتی ہے، اسی وجہ سے وہ اپنے تمام ہم عصروں میں ممتاز اور اردو شاعروں میں خاص درجہ رکھتے ہیں اور ان کی اس ممتاز خصوصیت کو اب تک کوئی نہیں پہونچا ہے۔
البتہ خواجہ میر دردؔ ایک ایسے شاعر ہیں جنھوں نے سلاست و فصاحت زبان کے ساتھ اخلاقی مضامین اور صوفیانہ خیالات کی چاشنی دی ہے اور کلام میں درد پیدا کیا ہے۔ بیان میں جدت اور تازگی بھی پائی جاتی ہے۔ جس سے وہ میرؔ صاحب کے لگ بھگ پہنچ جاتے ہیں لیکن بیان میں گھلاوٹ نہیں ہے جو میرؔ صاحب کے ہاں ہے اور نہ غایت درجہ کی سلاست و سادگی کے ساتھ وہ سوز و گداز ہے اور نہ تخیل کی وہ شان ہے جو شاعری کی جان ہے، خصوصاً بیان کا وہ انوکھا انداز جس میں ایک خاص نزاکت ہوتی ہے، نظر نہیں آتا۔ میرؔ صاحب کا بڑا کمال اسی میں ہے۔ میر انیسؔ بھی جن کا فصاحت میں بہت بلند درجہ ہے اور جو سوز و غم کے بیان میں اپنی نظیر نہیں رکھتے، میرؔ صاحب کو نہیں پہنچتے، میر انیسؔ میں پھر بھی تکلف اور تصنع آجاتا ہے۔ میر اس سے بالکل بری ہے وہ خود سوز و غم کا پتلا ہے اور اس کا شعر سوز و غم کی صحیح اور سچی تصویر ہے جس میں تکلف کا نام نہیں۔
میر انیسؔ کے ہاں خیال کے مقابلے میں الفاظ کی بہتات ہے اور خیال سے پہلے لفظ پر نظر پڑتی ہے۔ لیکن میرؔ کے اشعار میں الفاظ خیال کے ساتھ اس طرح لپٹے ہوئے ہیں کہ پڑھنے والا محو ہو جاتا ہے اور اسے لفظ خیال سے الگ نظر نہیں آتا۔ میر انیس کے ہاں دھوم دھام اور بلند آہنگی ہے۔ میر کے ہاں سکون اور خاموشی ہے اور اس کے شعر چپکے چپکے خود بخود دل پر اثر کرتے چلے جاتے ہیں جس کی مثال اس نشتر کی سی ہے جس کی دھار نہایت باریک اور تیز ہے اور اس کا اثر اسی وقت معلوم ہوتا ہے جب وہ دل پر کھٹکتا ہے۔ میر انیس رلاتے ہیں، میر خود روتا ہے۔ یہ آپ بیتی ہے اور وہ جگ بیتی۔
میرؔ کے کلام کی جن خصوصیتوں کا ذکر ہواہے وہ مثال سے پوری طرح واضح ہوجائیں گی۔ جو اشعار نمونے کے طورپر اوپر لکھے گئے ہیں، ان میں کا ایک شعر یہ ہے،
ہوگا کسی دیوار کے سائے کے تلے میرؔ
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو
اس شعر کا حسن شرح و بیان سے باہر ہے۔ آرام طلب کا لفظ اس کی جان ہے، اس لفظ کو نظر میں رکھئے اور پھر اس شعر کو غور سے ملاحظہ کیجئے تو شعر کا اصلی لطف سمجھ میں آجائے گا۔ ایک شخص جو محبت کے کارن عیش و آرام پر لات مار کے اور گھر بار چھوڑ کر بے یارو بے خانماں، آوارہ و سرگرداں محبوب کی دیوار کے نیچے پڑا ہے، اسے طعنہ دیا جاتا ہے کہ آرام طلب ہے اور ایسے آرام طلب کو محبت سے کیا کام، جب یہ آرام طلبی ہے تو قیاس کرنا چاہئے کہ محت کی مصیبت کیا ہوگی اور شاعر عاشق سے کیا توقع رکھتا ہے۔ ایک دوسری مثال لیجئے۔
اک شخص مجھی سا تھا کہ تھا تجھ سے پہ عاشق
وہ اس کی وفا پیشگی، وہ اس کی جوانی
یہ کہہ کے میں رویا تو لگا کہنے نہ کہہ میرؔ
سنتا نہیں میں ظلم رسیدوں کی کہانی
اس میں کوئی اعلی درجہ کا مضمون یا کوئی مباحثہ یا استعارہ و تشبیہ یا کسی قسم کی صنعت نہیں مگر اظہار مطلب کے لیے کیسا خوبصورت پیرایہ اختیار کیا گیا ہے۔ اس قسم کے اظہار حال میں سخت مشکل پیش آتی ہے اور انسان ہزاروں کوشش کرے اور کیسا ہی پہلو کیوں نہ اختیار کرے، پھوہڑ پنے سے بچ نہیں سکتا۔ شاعر نے اس بدتمیزی سے بچنے کے لیے پردے ہی پردے میں نہایت خوش اسلوبی کے ساتھ درد دل کا اظہار کیا ہے اور اس پیرائے سے جو اثر پیدا ہوسکتا ہے وہ کبھی صاف صاف اپنے حال کے بیان کرنے سے نہیں ہو سکتا، اور پھر لطف یہ ہے کہ اس میں کہیں معشوق کی جفایا بیوفائی کا ذکر نہیں، صرف عاشق کی جوانی اور حال زار کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہ کہہ کے اس کا رونے لگنا، اس کے درد دل کو آشکارا کر دیتا ہے اور یہاں پردہ خود بخود اٹھ جاتا ہے۔ یہ پیرایہ غضب کا درد انگیز ہے اور پھر معشوق کے جواب نے اس درد میں ہزاروں ٹیسیں پیدا کردی ہیں۔ یہ میرؔ صاحب کا خاص کمال ہے اور یہی چیز ہے جو ان کی شاعری کو ہمیشہ زندہ رکھے گی۔
سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
یہ شعر کس قدر سادہ ہے، اس سے زیادہ آسان، عام اور معمولی الفاظ اور کیا ہوں گے لیکن انداز بیان درد سے لبریز ہے اور لفظ لفظ سے حسرت و یاس ٹپکتی ہے۔ اردو کیا مشکل سے کسی زبان میں اس پائے کا اور ایسا درد انگیز شعر ملےگا۔ ایک دوسری بات اس شعر میں قابل غور یہ ہے کہ جو شخص دوسروں کو غل نہ کرنے اور آہستہ بولنے کی ہدایت کر رہا ہے، وہ بھی بیمار کے پاس بیٹھا ہے، اور اس پر لازم ہے کہ یہ بات آہستہ سے کہے۔ اس کے لئے یہ ضرور ہے کہ لفظ ایسے چھوٹے، دھیمے اور سلیس ہوں کہ دھیمی آواز میں ادا ہو سکیں۔ اب اس شعر کو دیکھئے کہ لفظ تو کیا ایک حرف بھی ایسا نہیں جو کرخت ہو یا ہونٹوں کے ذرا سے اشارے سے بھی ادا نہ ہو سکتا ہو۔
جو اس شور سے میرؔ روتا رہےگا
تو ہمسایہ کا ہے کو سوتا رہےگا
اس میں کوئی خاص مضمون یا بات نہیں، مگر شعر کس قدر پردرد ہے، دوسرے مصرعے نے اسے نہایت درد انگیز بنا دیا ہے۔ یہ سلاست اور یہ انداز بیان اور اس میں یہ درد میرؔ صاحب کا حصہ ہے، ان اشعار کے سامنے صنائع و بدائع، تکلف و مضمون آفرینی، فارسی، عربی ترکیبیں کچھ حقیقت نہیں رکھتی ہیں۔
مقدور بھر تو ضبط کروں ہوں پہ کیا کروں
منہ سے نکل ہی جاتی ہے اک بات پیار کی
یہ شعر میرؔ کے اعلیٰ یا منتخب اشعار میں سے نہیں ہے۔ ایک معمولی شعر ہے لیکن دل کی ایک فطری کیفیت کو کس خوبی سے بیان کیا ہے اور جیسا یہ خیال فطری اور سادہ ہے ویسے ہی الفاظ بھی سادہ اور بندش اور ترکیب بھی صاف اور ستھری ہے مگر انداز بیان کا حسن یہاں بھی وہی ہے۔ ایسے اشعار میرؔ کے کلام میں سیکڑوں ملیں گے۔ اس لئے یہاں اور اشعار کا مثال کے طور پر لکھنا مضمون کو طول دینا ہے۔
میرؔ صاحب کے کلام میں اخلاقی اور حکیمانہ اشعار کی بھی کچھ کمی نہیں لیکن اخلاق ہو یا حکمت، اندرونی کیفیت ہو یا بیرونی حالت، انداز بیان وہی ہے، نہایت معمولی اور سادہ الفاظ میں بڑے بڑے نکات اور بلند مضامین اس بے تکلفی سے بیان کر جاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے بلکہ بعض اوقات سرسری طورپر پڑھنے سے خیال نہیں گزرتا کہ ان سادہ اور سلیس ترکیبوں کے پردے میں ایسے ایسے خیالات پنہاں ہیں۔ مثال کے طورپر یہاں چند شعر لکھے جاتے ہیں،
سرسری تم جہاں سے گذرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
(کس قدر بلند اور اعلیٰ مضمون ہے، مگر کس خوبی سے ادا کیا گیا ہے۔)
کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آ گیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا
کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسی کا سر پُرغرور تھا
وصل و ہجراں سے جو دو منزل ہیں راہ عشق کی
دل غریب دن میں خدا جانے کہاں مارا گیا
ہم نہ کہتے تھے کہ مت دیر و حرم کی راہ چل
اب یہ دعویٰ حشر تک شیخ و برہمن میں رہا
یہ بھی طُرفہ ماجرا ہے کہ اسی کو چاہتا ہوں
مجھے چاہئے ہے جس سے بہت احتراز کرنا
اوپر کے ان تین شعروں میں انسان کی حالت کا کس قدر سچا نقشہ کھینچا ہے۔
بارے دنیا میں رہو، غم زدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
بیان کی یہ نزاکت قابل غور ہے،
ہر دم قدم کو اپنے رکھ احتیاط سے یاں
یہ کارگاہ ساری دوکانِ شیشہ گر ہے
اڑنے کی یک ہوس ہے ہم کو قفس ہے ورنہ
شائستہ پر ید بازو میں پر کہاں ہے
ملک کی موجودہ سیاسی حالت پر یہ شعر کس قدر صادق آتا ہے،
اب پست و بلند ایک ہے جوں نقش قدم یاں
پامال ہوا خوب تو ہموار ہوا میں
الٰہی کیسے ہوتے ہیں جنھیں ہے بندگی خواہش
ہمیں تو شرم دامن گیر ہوتی ہے خدا ہوتے
میرؔ صاحب کا کلام عاشقانہ ہے لیکن ان میں اکثر اشعار ایسے ملیں گے جن میں کوئی اخلاقی یا حکیمانہ نکتہ خوش اسلوبی سے بیان کیا گیا ہے۔ انسان کی طبیعت کے دو رنگ ہیں۔ لطف ومسرت یا اندوہ عالم۔ میرصاحب کے اشعار عاشقانہ ہوں یا حکیمانہ، ان میں مایوسی کی جھلک پائی جاتی ہے۔ یہ ان کی طبیعت کی افتاد ہے۔ وہ کسی حال میں ہوں کوئی کیفیت ان پر طاری ہو، ان کے دل سے جب کوئی بات نکلی، وہ یاس و ناکامی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ظرافت کی چاشنی میرؔ صاحب کے کلام میں مطلق نہیں مگر نہ معلوم کیا اتفاق ہوتا تھا اور وہ کیسی شبھ گھڑی ہوتی تھی کہ جب ان کے افسردہ اور حرماں نصیب دل کی کلی کھلتی اور وہ ایک آدھ شعر اس قسم کا کہہ جاتے۔ ان کے کلام میں چند ظریفانہ اشعار بھی پائے جاتے ہیں لیکن یا تو وہ مبتذل قسم کے ہیں کہ ان سے بدمذاقی پائی جاتی ہے یاوہی حسرت ویاس جو ان کے دم کے ساتھ تھی۔ حیرت ہے کہ ظرافت کے وقت بھی یہ رنگ نہ گیا۔ چنانچہ فرماتے ہیں،
تھا میرؔ بھی دیوانہ پر ساتھ ظرافت کے
ہم سلسلہ داروں کی زنجیر ملا جاتا
میرؔ صاحب نے چند قصیدے بھی لکھے لیکن بے مزہ اور پھیکے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اس گوں کے نہیں تھے اور قصیدہ لکھنا ان کی طبیعت کی افتاد کے خلاف تھا جس کی وجہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے قصیدے دوچار سے زیادہ نہیں۔
البتہ مثنویاں قابل ذکر ہیں۔ یوں تو چودہ پندرہ مثنویاں ہیں لیکن بعض ان میں ایسی ہیں کہ اب بھی ان کا پڑھنا لطف سے خالی نہیں۔ مثلاً دو مثنویاں جو اپنے گھر کی خرابی اور برسات کی شکایت میں لکھی ہیں خوب ہیں۔ برسات میں اس مصیبت کا حال بہت ہی دردناک ہے۔ صحیح اور سچی واردات جو ایسی حالت میں واقع ہوتی ہے اس طرح لکھی ہے کہ آنکھوں کے سامنے بے سروسامانی کا نقشہ کھینچ جاتا ہے اور غرباء پر جو اس موسم میں گزرتی ہے اس کی حقیقی تصویر اس سے بہتر کہیں نہیں ملتی۔ اس سے میرؔ صاحب کی قوت مشاہدہ اور بیان واقعہ کی قدرت ظاہر ہوتی ہے۔ عشقیہ مثنویوں میں قصے اور بیان کے لحاظ سے سب سے بہتر ’’شعلہ عشق‘‘ ہے۔ ایک سادہ اور مختصر سا قصہ ہے لیکن جس طرح انھوں نے اسے اٹھایا ہے اور آخر تک نبھایا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ یہ پرس رام کی بیوی کی دردناک کہانی ہے۔ سارے قصے پر یاس و الم کا سایہ سا پڑا ہوا نظر آتا ہے۔ اول ابتدا ہی پر درد انجام کا پتہ دیتی ہے۔ جن اشخاص کا ان میں ذکر آیا ہے ان کی ساری حالت حقیقی رنگ میں دکھائی دیتی ہے۔
قصے کی دل چسپی اس میں نہیں کہ کس کس نے کیا کیا کیا بلکہ اسی راز میں ہے کہ ہوئی ان ہوئی نہیں ہو سکتی۔ مثنوی میں ہر چیز انسانی زندگی سے کامل طور پر مطابق ہے سوائے انجام کے، جسے تخیل کی پرواز حقیقی سے خیالی زندگی میں اڑالے گئی ہے۔ دوسری عشقیہ مثنوی ’’دریائے عشق‘‘ ہے۔ یہ بھی ایک معمولی قصہ ہے۔ ان دونوں مثنویوں میں بیان سادہ اور بے تکلف اور مسلسل ہے۔ کہیں کہیں فارسی ترکیبیں آجاتی ہیں، ورنہ زبان بہت صاف ستھری ہے اور میرؔ صاحب کا اصلی رنگ صاف نظرآتا ہے۔
سب سے بڑی مثنوی ’’شکارنامہ‘‘ کی ہے جس میں نواب آصف الدولہ کے شکار کا حال ہے۔ اس میں جابجا غزلیں آتی ہیں جن کے متعلق کچھ کہنے کی حاجت نہیں۔ ان میں میرؔ صاحب کو خاص کمال ہے لیکن صفائی زبان و بیان میں یہ ادھر کی دو مثنویوں کو نہیں پہونچتی۔ اس میں فارسیت کارنگ غالب ہے۔ مثنوی ’’جوش عشق‘‘ اور ’’خواب و خیال‘‘ بھی پڑھنے کے قابل ہیں۔ اگرچہ بظاہر یہ محض خیال ہیں اور عالم خیال میں بڑے لطف کے ساتھ تخیل کی جولانی دکھائی ہے لیکن خیال کی وسیع فضا میں ایسے واقعات کی کمی نہیں جو خود ان پر گذرے ہیں، اسی طرح جھوٹ کی مذمت، مناجات عاشقاں، عشق خانماں آباد کی مثنویاں بھی اپنی اپنی جگہ پر بہت پر لطف ہیں۔
مثنویوں میں بھی میرؔ صاحب کا انداز بیان بہت سادہ اور دل گداز ہے۔ اس سے پہلے اردو میں مثنوی کا یہ انداز کہیں نہیں پایا جاتا۔ مثنوی اصناف نظم میں بہت مشکل ہے۔ میرؔ صاحب نے اسے خوب نبھایا ہے۔ اردو زبان میں میر صاحب کی مثنویاں سب سے پہلا اور عمدہ نمونہ ہیں۔ مثنوی کو انھیں کی بدولت ترقی ہوئی اور میر حسنؔ اور شوق وغیرہ سب انھیں کے مقلد ہیں البتہ خواجہ میرؔ درد کے چھوٹے بھائی میر اثرؔ کی مثنوی ’’خواب وخیال‘‘ ایک ایسی لمبی نظم ہے جو روز مرہ کی صفائی اور زبان کی خوبی کے لحاظ سے کہیں بڑھی ہوئی ہے لیکن وہ ہجر و وصل، راز و نیاز، تغافل معشوقانہ اور سراپا کی داستان ہے جس میں قصے کا کوئی تسلسل نہیں اور اس لیے میرؔ صاحب کی مثنوی ’’شعلۂ عشق‘‘ کو کسی طرح نہیں پہنچتی بلکہ اس سے مقابلہ کرنا ہی فضول ہے۔ میرؔ کی مثنویوں کے متعلق مولانا حالیؔ کی رائے سچی اور جچی تلی ہے۔
’’اب تک اردو میں جتنی عشقیہ مثنویاں ہماری نظر سے گزری ہیں، ان میں سے صرف تین شخصوں کی مثنوی ایسی ہے جس میں شاعری کے فرائض کم و بیش ادا ہوئے ہیں۔ اول میرؔ تقی جنھوں نے غالباً سب سے اول چند عشقیہ قصے اردو مثنوی میں بیان کیے ہیں۔ جس زمانے میں میرؔ نے یہ مثنویاں لکھی ہیں اس وقت اردو زبان میں فارسیت بہت غالب تھی اور مثنوی کا کوئی نمونہ اردو زبان میں غالباً موجود نہ تھا اور اگر ایک نمونہ موجود بھی ہو تو اس سے چنداں مدد نہیں مل سکتی۔ اس کے سو اگرچہ غزل کی زبان بہت منجھ گئی تھی مگر مثنوی کا راستہ صاف ہونے تک ابھی بہت زمانہ درکار تھا۔ اس لیے میرؔ کی مثنویوں میں فارسی ترکیبیں، فارسی محاوردوں کے ترجمے اور ایسے فارسی الفاظ جن کی اب اردو زبان متحمل نہیں ہو سکتی، اس انداز سے جو آج کل فصیح اردو کا معیار ہے بلاشبہ کسی قدر زیادہ پائے جاتے ہیں، نیز اردو زبان کے بہت سے الفاظ و محاورات جواب متروک ہو گئے، میرؔ کی مثنوی میں موجود ہیں۔
اگرچہ یہ تمام باتیں میرؔ کی غزل میں کم وبیش پائی جاتی ہیں مگر غزل میں ان کی کھپت ہوسکتی ہے کیونکہ غزل میں اگر ایک شعر بھی صاف اور عمدہ نکل آئے تو ساری غزل کو شان لگ جاتی ہے۔ وہ عمدہ شعر لوگوں کی زبان پر چڑھ جاتا ہے اور باقی پُرکن اشعار سے کوئی سروکار نہیں رہتا لیکن مثنوی میں جستہ جستہ اشعار کے صاف اور عمدہ ہونے سے کام نہیں چلتا۔ زنجیر کی ایک کڑی بھی ناہموار اور بے میل ہو جاتی ہے تو ساری زنجیر آنکھوں میں کھٹکتی ہے، بس ان اسباب سے شاید میرؔ کی مثنوی آج کل کے لوگوں کی نگاہ میں نہ جچے مگر اس سے میر کی شاعری میں کچھ فرق نہیں آتا، جس وقت میرؔ نے یہ مثنوی لکھی ہے اس وقت اس سے بہتر زبان میں مثنوی لکھنی امکان سے خارج تھی۔ بایں ہمہ میرکی مثنوی اکثر اعتبارات سے امتیاز رکھتی ہے باوجود یہ کہ میرؔ صاحب کی عمر غزل گوئی میں گزری ہے۔
مثنوی میں بھی بیان کے انتظام اور تسلسل کو انھوں نے کہیں ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور مطالب کو بہت خوبی سے ادا کیا ہے جیسا کہ ایک مشاق اور استاد کر سکتا ہے، اس کے سوا صاف اور عمدہ شعر بھی میرؔ کی مثنوی میں بہ مقابلہ ان اشعار کے جن میں پُرانے محاورے یا فارسیت غالب ہے، کچھ کم نہیں ہیں۔ صدہا اشعار میرؔ کی مثنویوں کے آج تک لوگوں کے زبان زد چلے آتے ہیں۔
اگرچہ میرؔ کی مثنویوں میں قصہ پن بہت کم پایا جاتا ہے، انھوں نے چند صحیح یا صحیح نما واقعات بطور حکایات کے سیدھے سادے طور پر بیان کیے ہیں، نہ ان میں کسی شادی یا تقریب یا وقت اور موسم کا بیان کیا گیا ہے، نہ کسی باغ یا جنگل یا پہاڑ کی فضا یا اور کوئی ٹھاٹھ دکھایا گیا ہے مگر جتنی میرؔ کی عشقیہ مثنویاں ہم نے دیکھی ہیں، وہ سب نتیجہ خیز اور عام مثنویوں کے برخلاف بے شرمی اور بے حیائی کی باتوں سے مبرّا ہیں۔‘‘
اس میں شک نہیں کہ میرؔ کے کلام میں فارسیت کا رنگ زیادہ ہے مگر اس پر بھی صاف اور ستھرے اشعار کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ فصاحت اور سلاست متاخرین کے کلام سے کہیں زیادہ ہے۔ اگرچہ میرؔ اور ان کے ہم عصر شعراء کے کلام میں فارسیت غالب ہے لیکن اس میں عربیت کا جو رنگ غالب ہوتا جاتا ہے وہ اس سے کم نہیں ہے۔ ان بزرگوں نے تو پھر بھی یہ کیا کہ جہاں کثرت سے فارسی الفاظ اور محاورے اور فارسی ترکیبیں داخل ہیں، وہاں بہت سے الفاظ کو اپنا کر لیا اور اپنی صرف و نحو کے خراد پرچڑھا کر اردو بنا لیا لیکن آج کل یہ کوشش کی جاتی ہے کہ عربی الفاظ اور ترکیبوں کو جوں کا توں رکھا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ مقدس الفاظ اردو صرف ونحو کے چھو جانے سے نجس ہو جائیں۔ ان بزرگوں نے زبان کو بنانے اور وسیع کرنے کی کوشش کی اور بہت بڑا احسان کیا مگر آج کل ان کی تقلید کو ننگ سمجھتے اور ان کی کوششوں کو’’غلط العام‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں، حالانکہ وہ صحیح اصول پر چل رہے تھے اور ہم باوجود ہمہ دانی کے زبان کی اصل ترقی و نشو و نما کے گُر سے ناواقف ہیں۔
ایک دوسرا فریق جو فارسی عربی کے مقبول الفاظ نکال کر ان کی جگہ غیرمانوس اور ثقیل سنسکرت کے الفاظ ٹھونسنا چاہتا ہے، اسی نافہمی میں مبتلا ہے۔ ہماری رائے میں یہ دونوں زبان کے دشمن ہیں۔ اس رجحان کے خاص اسباب ہیں جن پر ہم اس وقت بحث کرنی نہیں چاہتے اور کسی دوسرے وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں لیکن اس قدر ضرور جتا دینا چاہتے ہیں کہ اگر ہمیں زبان سے محبت ہے اور در حقیقت ہم اس کی ترقی کے خواہاں ہیں تو ہمیں پھر اسی اصول کو اختیار کرنا چاہئے جو ہمارے اسلاف نے اختیار کیا تھا۔
خود میرؔ صاحب نے فارسی الفاظ و تراکیب کے استعمال کے متعلق اپنے تذکرۂ شعرائے اردو یعنی ’’نکات الشعراء‘‘ میں جو رائے ظاہر کی ہے وہ بہت ہی مناسب اور خوب ہے اور اب بھی قابل عمل ہے۔ وہ لکھتے ہیں، ’’سیوم آں کہ حرف وفعل پارسی بکار برندد ایں قبیح است، چہارم آن کہ ترکیبات فارسی می آرند، اکثر ترکیب کہ مناسب زبان ریختہ می افتد آن جائز است و ایں غیر شاعری داند دترکیبے کہ نامانوس می باشد آن معیوب است و دانستن ایں نیز موقوف سلیقۂ شاعری است ومختار فقیر ہمیں است اگر ترکیب فارسی موافق گفتگوئے ریختہ بود مضائقہ ندارد۔‘‘
بہرحال میرؔ کی مثنویوں میں بیسیوں شعر جو اب تک زبانوں پر چڑھے ہوئے ہیں، اس سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانے میں بہت مقبول تھیں اور اب بھی تاریخی لحاظ سے نیز اپنی بعض خوبیوں کی وجہ سے پڑھنے کے قابل ہیں۔ یہاں بطور نمونے کے چند اشعار نقل کئے جاتے ہیں جو اس وقت بھی زبان زد خاص وعام ہیں۔
ضبط کروں میں کب تک آہ اب
چل اے خامے بسم اللہ اب
نے کعبے نے دیر کے قابل
مذہب ان کا ہے سیر کے قابل
میرؔ جی اس طرح سے آتے ہیں
جیسے کنجر کہیں کو جاتے ہیں
سنو اے عزیزان ذی ہوش و عقل
کہ اس کارواں گہ سے کرنا ہے نقل
پیمبر ہے، شہ ہے کہ درویش ہے
سبھوں کو یہی راہ درپیش ہے
نہ یک بوئے خوش ہی ہوا ہو گئی
وہ رنگینی باغ کیا ہو گئی
جس کسو سے یہ پیار رکھتا ہے
عاقبت اس کو مار رکھتا ہے
کہتے ہیں ڈوبتے اچھلتے ہیں
ڈوبے ایسے کوئی نکلتے ہیں
رفتہ رفتہ ہوا ہوں سودائی
دور پہونچی ہے میری رسوائی
آہ جو ہمدمی سی کرتی ہے
اب تو وہ بھی کمی سی کرتی ہے
ہوش جاتا رہا نگاہ کے ساتھ
صبر رخصت ہوا اک آہ کے ساتھ
میرؔ صاحب کی رباعیاں بھی کچھ کم پرلطف نہیں اور بعض تو بہت اچھی ہیں۔ ان کے علاوہ متفرق مخمس، مستزاد اور فرد وغیرہ ہیں لیکن میرؔ کا اصل رنگ غزل اور مثنوی میں پایا جاتا ہے اور اس میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔ وہ غزل کے بادشاہ ہیں اور ان کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے جو اہل ذوق خود پڑھ کر اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
شاعر نہیں جو دیکھا تو تو ہے کوئی ساحر
دو چار شعر پڑھ کر سب کو رجھا گیا ہے
بعض بعض جگہ میرؔ صاحب نے فارسی اشعار کا اردو میں اس خوبی سے ترجمہ کردیا ہے کہ اصل سے بڑھ گیا ہے۔ سعدی کا ایک شعر ہے،
دوستاں منع کنندم کہ چرا دل تبودارم
باید اول تبو گفتن کہ چنیں خوب چرائی
میرؔ صاحب فرماتے ہیں،
پیار کرنے کا جو خوباں ہم پہ رکھتے ہیں گناہ
ان سے بھی تو پوچھئے تم اتنے پیارے کیوں ہوئے
اس شعر میں پیارے کے لفظ نے جو حسن پیدا کر دیا ہے وہ اہل ذوق سے پوشیدہ نہیں، سعدی کا ایک اور شعر ہے،
گفتہ بودم چوبیائی غم دل باتو بگویم!
چہ بگویم کہ غم از دل برود چوں تو بیائی
میرؔ صاحب نے اسی مضمون کو کس خوبی سے ادا کیا ہے،
کہتے تو ہو یوں کہتے یوں کہتے جو وہ آتا
سب کہنے کی باتیں ہیں کچھ بھی نہ کہا جاتا
ایک فارسی کا شعر ہے،
عنقا سرد برگیم مپرس از فقرا، ہیچ
عالم ہمہ افسانۂ ما دارد و ما ہیچ
میرؔ نے اس مضمون کو کس خوبی سے اپنے خاص انداز میں بیان کیا ہے،
مشہور ہیں عالم میں تو کیا ہیں بھی کہیں ہم
القصہ نہ در پے ہو ہمارے کہ نہیں ہم
کہتے ہیں کہ انسان کا طرز بیان اس کی سیرت کا پرتو ہوتا ہے، یہ مقصود شاعر کے کلام پر اور بھی صادق آتا ہے لیکن غالباً کسی شاعر کے کلام پر اس کی طبیعت اور سیرت کا اس قدر اثر نہ پڑا ہوگا جتنا میرؔ کے کلام میں نظر آتاہے۔ جو شخص میرؔ کے حالات اور ان کے اخلاق وسیرت سے واقف نہ ہو وہ ان کے کلام کو پڑھ کر بغیر کسی تذکرے کی مدد کے خود بخود ان کے انداز، ان کی طبیعت کی افتاد اورمزاج کو تاڑ جائے گا۔ ان اشعار کو پڑھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ایک ایک لفظ، طرز بیان، ترتیب وبندش میں ان کے قلبی واردات و احساسات کا نقشہ کھنچا ہوا ہے۔ وہ شعر میں اپنا دل نکال کے رکھ دیتے ہیں اور ان کی جدت بیان میں صاف ان کے تیور نظر آتے ہیں۔
میرؔ صاحب کی سیرت ان کے کلام سے کچھ کم قابل قدر نہیں بلکہ میری رائے میں زیادہ قابل وقعت ہے۔ کلام میں تو صرف یہی ہے کہ اسے پڑھ کر ایک خاص قسم کی لذت حاصل ہوتی ہے یا اس کے اثر سے متاثر ہوکر لطف ملتاہے لیکن سیرت کی خوبی دوسروں کی اصلاح کرتی اور ان کو بناتی ہے۔ کلام کا لطف تو ممکن ہے کسی کو نہ آئے لیکن سیرت کے اثر سے بہت کم ہیں کہ متاثر نہ ہوں۔ اس میں ایک زبردست اخلاقی قوت ہے جو اصلاح کا بڑا ذریعہ ہے اور کلام وسیرت میں وہی فرق ہے جو قول و فعل میں ہوتا ہے۔
میرؔ کی وضع داری نے کمال کی لاج رکھ لی۔ انھوں نے شاعری کو ذریعہ عزت یا وسیلہ معاش نہیں بنایا۔ ان کا صبر و استقلال، ان کی قناعت و بے نیازی اور ان کی غیرت اور وضعداری وہ خوبیاں ہیں جو انسانیت کو کمال انسانیت پر پہونچاتی اور فرشتوں سے بڑھا دیتی ہیں۔ رنج والم سہے مگر کبھی اف تک نہ کی، فاقے سے رہے مگر کیا مجال کہ بھول کر بھی زبان پر حرف شکایت آیا ہو اور یہی نہیں بلکہ کسی دوسرے کی بھی یہ مجال نہ تھی کہ ان سے معمولی طریقہ پر سلوک کرنے کی جرأت کر سکے یا ایسا خیال بھی دل میں لاسکے۔ محتاج رہے مگر ممکن نہ تھا کہ کسی کے سامنے دست سوال پھیلائیں۔ ان کے مذہب میں یہ کفر تھا۔ وہ اپنے کمال میں مگن تھے اور خود اپنے تئیں اقلیم سخن کا شہنشاہ سمجھتے تھے۔ وہ دنیا کے مال ودولت کو کبھی خاطر میں نہ لائے۔ شاہوں کی شان و شوکت اور امیروں کی جاہ و ثروت ان کے سامنے ہیچ تھیں۔ کسی کے سامنے سر جھکانا یا کسی سے اظہار مدعا کرنا ان کے ہاں سب سے بڑی معصیت تھی۔
سر کسو سے فرو نہیں ہوتا
حیف بندے ہوئے خدا نہ ہوئے
ان سے یہ توقع رکھنی کہ وہ کسی کی مدح میں قصیدہ لکھیں بالکل عبث ہے۔ ان کی غیرت یہ کب گوارا کر سکتی تھی کہ کسی نا اہل کی بھٹئی کریں، یہ ان کی فطرت کے خلاف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دوتین قصیدے جو انھوں نے عمر بھر میں لکھے، وہ ان کے دوسرے کلام کے سامنے بے مزہ، پھیکے اور بے لطف ہیں کہ خود فرماتے ہیں،
مجھ کو دماغ وصف گل دیا سمن نہیں
میں جوں نسیم باد فروش چمن نہیں
اس میں شک نہیں کہ میرؔ کے کلام کی قدر خود انھیں کے زمانے میں ایسی ہوئی کہ کم کسی کو نصیب ہوئی ہوگی لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ قدر زیادہ تر ان کے زبردست کریکٹر یعنی سیرت کی وجہ سے ہوئی ورنہ کمال کی قدر جیسی کچھ ہوتی ہے وہ معلوم ہے۔ یہ ان کے صبر و استقلال اور استقامت و قناعت کی قوت تھی کہ ان کے سامنے اچھے اچھوں نے سر جھکائے اور زانوئے ادب تہہ کئے۔ یہاں تک کہ نواب آصف الدولہ اور نواب سعادت علی خاں بھی ان کا بڑا ادب و احترام کرتے اور بڑی عزت کے ساتھ پیش آتے تھے لیکن ان کی نازک مزاجی اور بددماغی کی کیفیت ان والیان ملک سے بھی وہی تھی جو اوروں کے ساتھ تھی اور صبر وقناعت اور غیرت وخود داری نے اس کے لے اور بڑھا دی تھی حتی کہ بعض وقت وہ لوگ بھی جو ان کے دل سے قدر داں تھے اور ان کی نازبرداری کو اپنا فخر سمجھتے تھے، ان کی بددماغی سے عاجز آجاتے تھے، وہ اپنے کمال کے سامنے کسی کی کوئی حقیقت نہیں سمجھتے تھے اور جا وبے جا بددماغی کر بیٹھتے تھے اور معلوم ہوتا تھا کہ وہ خود بھی اس سے واقف تھے، چنانچہ کہتے ہیں،
حالت تو یہ کہ مجھ کو غموں سے نہیں فراغ
دل شورش درونی سے جلتا ہے جوں چراغ
سینہ تمام چاک ہے سارا جگر ہے داغ
ہے نام مجلسوں میں مرا میرؔ بے دماغ
از بس کہ کم دماغی نے پایا ہے اشتہار
ایک اور جگہ فرماتے ہیں،
تری چال ٹیڑھی، تری بات روکھی
تجھے میرؔ سمجھا ہے یاں کم کسو نے
اس نازک مزاجی اور خود داری کے ہاتھوں وہ زندگی سے بے زار رہے اور ہمیشہ دکھ درد سہتے اور خون جگر کھاتے رہے اور اسی خون جگر سے انھوں نے زمین شعر کو سینچا جو اب تک تر و تازہ ہے۔
مجھ کو شاعر نہ کہو میرؔ کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوان کیا
افسوس کہ آرام و راحت، زندہ دلی اور مسرت ان کی قسمت میں نہ تھی اور انھوں نے اپنی زندگی اس دنیا میں ایک حرماں نصیب قیدی کی طرح کاٹی۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ غم و الم کا ایک ابر سیاہ ہمیشہ ان پر چھایا ہوا ہے جس میں خوشی کی ایک کرن بھی چھن کر ان پر نہیں گرتی اور یہی رنگ ان کے اشعار سے ٹپکتا ہے۔ گویا وہ اور ان کا کلام ایک ہو گئے ہیں اور انتہائے کمال شاعری ہے۔ وہ اپنی اس کیفیت کو خود بیان کرتے ہیں،
یا روئے یا رلایا اپنی تو یوں ہی گذری
کیا ذکر ہم صفیراں یاران شادماں کا
قید قفس میں ہیں تو خدمت ہے نالگی کی
گلشن میں تھے تو ہم کو منصب تھا روضہ خواں کا
ایک دوسری غزل کے چند اشعار ہیں،
یہ میرؔ ستم کشتہ کسو وقت جواں تھا
انداز سخن کا سبب شور و فغاں تھا
جادو کی پُڑی پرچۂ ابیات تھا اس کا
منہ تکے غزل پڑھتے عجب سحر بیاں تھا
جس راہ سے وہ دل زدہ دلی میں نکلتا
ساتھ اس کے قیامت کا سا ہنگامہ رواں تھا
افسردہ نہ تھا ایسا کہ جوں آب زدہ خاک
آندھی تھا بلا تھا، کوئی آشوب جہاں تھا
غافل تھے ہم احوال دل خستہ سے اپنے
وہ گنج اسی کنج خرابہ میں نہاں تھا
باوجود ان حالات کے انہوں نے خود داری کو کبھی ہاتھ سے نہیں دیا اور اضطراب میں بھی کوئی فعل ان سے ایسا سرزد نہیں ہوا جو ان کی شان اور وضع داری کے خلاف ہوتا۔ آج ہم ان کی نازک مزاجی اور خودداری کے واقعات اور لطیفے شوق سے پڑھتے اور ان پر فخر کرتے ہیں اور ان سے وہی لطف حاصل ہوتا ہے جو ان کے کلام سے ہوسکتا ہے بلکہ اثر میں ان کے حالات ان کے کلام سے کہیں زیادہ ہیں، خوب کہا ہے،
باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں ایسی نہ سنیےگا
پڑھتے کسی کو سنئے گا تو دیر تلک سردھنئےگا
یہ وہ لوگ ہیں کہ باوجود مصائب و آلام کے ان کے پائے ثبات کو لغزش نہ ہوئی۔ انہوں نے اپنے کلام کی عزت قائم رکھی اور اپنے افعال سے اس کو ذلیل نہیں کیا۔ کمال کی وجہ سے ان کی عزت نہیں ہوئی بلکہ ان کی وجہ سے ان کے کلام کا رتبہ دو چند بڑھ گیا۔ اسی وجہ سے میرؔ کی زندگی سبق آموز اور عبرت خیز ہے۔ سبق ان کے لیے جو کسب کمال کی راہ میں گامزن ہیں اور ان کے گرد و بیش موافقات اور سامنے ترغیبات کا جال بچھا ہوا ہے، یہی ان کا امتحان ہے۔ ان پر لازم ہے کہ وہ راہ راست پر ثابت قدم رہیں اور اپنے قدم میں لغزش نہ آنے دیں۔
عبرت ان کے لیے جو اپنے کمال کو اپنی ہوس کے پورا کرنے کا ذریعہ قرار دیتے ہیں اور اسے ایک دوکان داری سمجھتے ہیں اور اپنی بے حرمتی سے اپنے کمال کو بٹّا لگاتے ہیں۔ اگر کسی میں ہزاروں کمال ہوں لیکن اس میں میرؔ کی سی خود داری و صبر و استقلال، غیرت، وضع داری نہ ہو تو ایسے شخص کا وجود دنیا کے لیے بیکار ہے اور خود اس کے کمال کے لیے باعث ننگ و عار ہے۔ ان بے تہوں کو جنھیں اتفاق سے ہلدی کی گرہ ہاتھ لگ جاتی ہے اور پنساری بن بیٹھتے ہیں، میرؔ کی زندگی کا مطالعہ غور سے کرنا چاہتے ہیں، تب انہیں معلوم ہوگا کہ ایک صاحب کمال کے تیور ہی اور ہوتے ہیں۔
میرؔ کا کلام اور ان کی سیرت دونوں قابل مطالعہ ہیں اور دونوں نے مل کر میرؔ کا رتبہ اردو شعراء میں نہایت بلند کردیا ہے، ایسے باکمال اور صاحب سیرت لوگ کہیں مدتوں میں پیدا ہوتے ہیں اور ان کا نقش ایسا مستقل اور گہرا ہوتا ہے کہ زمانہ مٹاہی نہیں سکتا، خوب کہا ہے،
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
میرؔ صاحب کو دربارداری اور امراء کی ملاقات سے طبعاً نفرت تھی۔ صاحب ’’آب حیات‘‘ لکھتے ہیں کہ، ’’گورنر جنرل اور اکثر صاحبان عالی شان جب لکھنؤ جاتے، اپنی قدر دانی سے یا اس سبب سے کہ ان کے میر منشی اپنے علوم حوصلہ سے ایک صاحب کمال کی تقریب واجب سمجھتے تھے، میرؔ صاحب کو ملاقات کے لیے بلاتے مگر یہ پہلو تہی کرتے اور کہتے کہ مجھ سے جو کوئی ملتا ہے یا مجھ فقیر کے خاندان کے خیال سے یا میرے کلام کے سبب سے ملتا ہے، صاحب کو خاندان سے غرض نہیں، میرا کلام سمجھتے نہیں البتہ کچھ انعام دیں گے، ایسی ملاقات سے ذلت کے سوا کیا حاصل۔‘‘
اس سے زیادہ قابل لحاظ ایک واقعہ صاحب ’’گلشن ہند‘‘ نے لکھا ہے جس کا یہاں نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں، ’’جن ایام میں کہ درخواست صاحب عالیشان کی زبان دانان ریختہ کے مقدمے میں کلکتے سے لکھنؤ گئی تو کرنیل اسکاٹ صاحب کے روبرو تقریب میرؔ کی ہوئی لیکن علت پیری سے یہ بیچارے مجہول سے محمول ہوئے اور نوجوان نو مشق مربی گری سے قوت بدنی کے مقبول ہوئے۔ زمانہ خوش طبعوں سے نہیں خالی ہے اکثر اہل لکھنؤ پکارتے تھے کہ کلکتے میں شاعری کی جا درخواست حمالی ہے کس واسطے کہ یہ جانتے سب اہل تمیز ہیں کہ آج بھی بوڑھے کے سامنے نوجوان عور لے میں مویز ہیں۔ اب بھی جو بوجھ تمکنت معنی کا جر ثقیل طبع سے ترازو کرکے وہ دکھاتا ہے جوان اگر کوہ بوقبیس ہے تو تحمل سے اس کے کمر چراتا ہے۔‘‘
غالباً اس جگہ کے لیے میر شیر علی افسوس کا انتخاب ہوا۔ یہ اردو زبان کی بدنصیبی تھی کہ میرؔ صاحب کا انتخاب نہ ہوسکا، چونکہ ان کی نظم میں غایت درجہ فصاحت و شیرینی اور سلالت و گھلاوٹ پائی جاتی ہے اس لیے ممکن تھا کہ وہ فورٹ ولیم کالج میں جاکر نثر میں کوئی ایسی یادگار چھوڑ جاتے کہ اہل زبان ان کی نظم کی طرح اسے سر آنکھوں پر رکھتے اور میر امن کے چہار درویش کی طرح اردو ادب میں اس کا نام بھی روشن ہوتا۔
اب ایک سوال یہ باقی ہے کہ میرؔ کی شاعری کا اثر ان کے ہم عصروں اور مابعد کے شاعروں پر کیا پڑا، اگرچہ میرؔ صاحب کی شاعری کی خود ان کے زمانے میں بے انتہا قدر ہوئی اور اب تک لوگ ان کی استادی کا لوہا مانتے ہیں لیکن حیرت ہے کہ ان کے آخر زمانے میں نیز مابعد کی شاعری پر میرؔ کا مطلق اثر نہیں ہوا۔ لکھنؤ کی شاعری کا رنگ بالکل جدا ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل لکھنؤ جس کلام کی اس قدر دل سے داد دیتے تھے اور جسے پڑھ پڑھ کر جھومتے اور سر دھنتے تھے، اس سے وہ مطلق متاثر نہ ہوئے اور اس نے ایک جداگانہ روش اختیار کی جسے میرؔ کے انداز سے کچھ نسبت نہیں۔ مولانا حالیؔ نے اپنے ’’مقدمۂ شعر و شاعری‘‘ میں اس کی وجہ بتائی ہے جسے یہاں بجنسہ نقل کیا جاتا ہے۔
’’شجاع الدولہ کے زمانہ سے سعادت علی خاں کے وقت تک اردو کے تمام نامور شعراء کا جمگھٹا لکھنؤ ہی میں رہا۔ یہاں تک کہ میرؔ، سودا، سوز، جرأت، مصحفی اور انشاء وغیرہ آخر دم تک وہیں رہے اور وہیں مرے مگر متاخرین کی غزل میں ان کے طرز بیان کا اثر بہت کم پایا جاتا ہے۔ ظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جب دلی بگڑ چکی اور لکھنؤ سے زمانہ موافق ہوا اور دلی کے اکثر شریف خاندان اور ایک آدھ کے سوا تمام نامور شعراء لکھنؤ ہی میں جارہے اور دولت و ثروت کے ساتھ علوم قدیمہ نے بھی ایک حد تک ترقی کی تو اس وقت نیچرل طور پر اہل لکھنؤ کو ضرور یہ خیال پیدا ہوا ہوگا کہ جس طرح دولت اور منطق وفلسفہ وغیرہ میں ہم کو فوقیت حاصل ہے، اسی طرح زبان اور لب و لہجہ میں بھی ہم دلی سے فائق رہیں لیکن زبان میں فوقیت ثابت کرنے کے لیے ضرور تھا کہ اپنی اور دلی کی زبان میں کوئی امر مابہ الامتیاز پیدا کرتے۔ چونکہ منطق وفلسفہ وطب وعلم کلام وغیرہ کی ممارست زیادہ تھی، خود بخود طبیعتیں اس بات کی مقتضی ہوئیں کہ بول چال میں ہندی الفاظ رفتہ رفتہ ترک اور ان کی جگہ عربی الفاظ کثرت سے داخل ہونے لگے۔ یہاں تک کہ سیدھی سادی اردو امراء اور اہل علم کی سوسائٹی میں متروک ہی نہیں ہو گئی، جگہ جیساکہ ثقات سے سناگیا ہے معیوب اور بازاریوں کی گفتگو سمجھی جانے لگی اور یہی رنگ رفتہ رفتہ نظم و نثر پر غالب آ گیا۔‘‘
اصل بات یہ ہے کہ ملک کی شاعری اس کے تمدن کے تابع ہوتی ہے۔ جو سوسائٹی جس رنگ میں ڈوبی ہوئی ہوتی ہے، اسی کی جھلک اس کی نظم ونثر میں آجاتی ہے۔ اگر ہم اس زمانے کے لکھنؤ کو دیکھیں اور اس کے تمدن پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ اہل لکھنؤ کے کھانے پینے، رہنے سہنے، لباس، آداب و اطوار غرض تمام طرز معاشرت میں سراسر تصنع اور تکلف پایا جاتا تھا۔ انہیں سوچ سمجھ کر کسی خاص امتیاز کے پیدا کرنے کی ضرورت نہ تھی بلکہ جو عام روش زندگی کے ہرشعبہ میں نظر آتی تھی اسی میں ان کا علم وادب بھی رنگا ہوا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ منطق و فلسفہ اور علم کلام کی ممارست نے ان کے علم وادب پر اثر ڈالا لیکن اس سے قبل دلی میں بھی ان علوم کا چرچا تھا اور دور دور سے طالب علم ان علوم کی تحصیل کے لیے وہاں آتے تھے لیکن وہاں کی بول چال اور نظم ونثر پر کبھی ایسابرا اثر نہیں پڑا مگر اس زمانے کے لکھنؤ کی ممتاز خصوصیت، تصنع اور تکلف تھی اور یہ ان کے تمدن کے ہر پہلو اور ہر شعبے میں صاف نظر آتی ہے۔
وہ نئی تراش خراش اور جدت پر مٹے ہوئے تھے اور عوام و خواص میں اس کی بڑی قدر ہوتی تھی۔ اس کے لیے سب کے سب ادھر ہی ڈھل گئے اور ساری ہمت تکلفات میں صرف کر دی۔ سادگی کی جگہ بناوٹ نے اور فطرت کی جگہ صنعت نے لے لی۔ میرؔ اور ان کے ہمعصروں کا اثر زائل ہو گیا اور ان کے بجائے دوسرے استاد پیدا ہوئے جو اس سوسائٹی کے سپوت اور اس تمدن کے پروردہ تھے۔ حضرت ناسخؔ اور ان کے بعد کے خواجہ وزیرؔ، صبا، رشکؔ اور امانت وغیرہ کے کلام میں سوائے ضلع جگت، لفظی مناسبت اور تلازمہ اور دیگر تکلفات کے کچھ بھی نہیں، نثر میں اس کا سب سے عمدہ نمونہ مرزا رجب علی بیگ سرور کا ’فسانہ عجائب‘ ہے۔
اس دور کا اثر ایک مدت تک رہا اور شاید اب بھی لکھنؤ کی سرزمین میں کہیں کہیں باقی ہو، لیکن یہ چلنے والی چیز نہ تھی۔ آخر اس کا زور ٹوٹا جس میں بیرونی اثر کو بھی دخل ہے۔ میر مجروحؔ اور مولانا حالیؔ کے کلام میں کچھ کچھ میرؔ کا رنگ نظر آتا ہے۔ نثر میں فورٹ ولیم کالج، مرزا غالب، سرسید احمد خاں، مولانا حالیؔ، مولوی محمد حسین آزاد وغیرہ نے ایک نئی روح پھونکی، انجمن پنجاب نے بھی اردو نظم ونثر کی اصلاح میں مدد دی۔ یہ نثر زیادہ تر مغربی رنگ نے پیدا کیا۔
آج کل اردو پھر ایک تذبذب کی حالت میں ہے۔ ہندومسلمان کے اختلاف نے اردو پر بہت برا اثر ڈالا ہے۔ ایک فریق عربی پر تلا ہوا ہے اور دوسرا فریق سنسکرت پر، دونوں غلطی پر ہیں۔ زمانے کے اقتضا سے زبان بچ نہیں سکتی اور یہ اسی کا اثر ہے لیکن جو اسباب اس کے باعث ہوئے ہیں، وہ سب عارضی ہیں اور قائم رہنے والے نہیں۔ جب لوگ اردو زبان کی تاریخ، اس کی ابتدا اور اس کے نشو ونما پر غور کریں گے اور زبان کے عمدہ نمونے ان کے پیش نظر ہوں گے تو اس بے راہ روی سے خود بخود باز آجائیں گے جس میں سب سے بڑی تقویت مغربی تعلیم، وہاں کے عمدہ نمونوں اور صحیح تنقیدی اصولوں سے ملے گی اور گو میرؔکا حقیقی اور اصلی رنگ واپس نہ آئے مگر اس کا کلام پھر بھی اسی شوق وذوق سے پڑھا جائے گا اور جس حسن وسادگی کو ہم بھولے ہوئے ہیں، اس کی یاد کو تازہ کرتا رہے گا اور ہمیں بھٹکنے سے روکتا رہے گا، یہ کیا کم احسان ہے؟
سہل ہے میرؔ کا سمجھنا کیا
ہر سخن اس کا اک مقام سے ہے
حاشیے
(1) ناسخ نے میرؔ صاحب کا سنہ وفات اس مصرع سے نکالا ہے۔ ’’واویلا مُرد شہ شاعراں‘‘
(2) مقدمہ شعر و شاعری از مولانا حالیؔ ص۔۔۔ طبع دہلی۔
(3) بے تہ خاص میرؔ صاحب کا لفظ ہے انھوں نے اسے کم مایہ کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔ آج کل سطحی لفظ کا استعمال ہوتا ہے جو ایک انگریزی لفظ کا ترجمہ ہے اور بے تہہ کے مقابلہ میں بہت بھونڈا اور ثقیل ہے۔ یہ لفظ استعمال کرنے اور رواج دینے کے قابل ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.