نئی اور پرانی قدریں
انگریزی کے مشہور نقاد ادیب میتھیوآرنلڈ نے انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں اپنے دور کے انتشار، تذبذب اوربے اطمینانی کوکرب کے ساتھ محسوس کرتے ہوئے کہا تھا، ’’ہم لوگ اس وقت دودنیاؤں کے درمیان سانس لے رہے ہیں، ایک تو مرچکی ہے اوردوسری اس قدر بے سکت ہے کہ کسی طرح پیدا نہیں ہوپاتی۔‘‘
یہ اب سے کم وبیش سو سال پہلے کی آواز ہے جبکہ زمانہ اور زندگی کی نئی ضرورتوں اور بدلتی ہوئی قدروں کا صرف ایک مبہم احساس شروع ہوا تھا اور وہ بھی گنتی کی چند تربیت یافتہ اور روشن دماغ شخصیتوں کے دلوں میں۔ عوامی دنیا مجموعی طور سے اب بھی اس قناعت اور اطمینان میں زندگی گزار رہی تھی جو محض بے حسی کی علامتیں ہیں۔ اگر میتھیو آرنلڈ زندہ ہوتا اور رجعتی یا اصلاحی میلانات نے اس کے احساس و فکر کو کند نہ کر دیا ہوتا تو آج نہ جانے اس کی کیا رائے ہوتی، جبکہ اغراض و مقاصد کے طبقاتی اختلافات اور فکریاتی تصادمات ایسی شدید صورت اختیار کر چکے ہیں۔ جو شکوک اور سوالات اس وقت صرف بعض گنتی کے تربیت یافتہ دلو ں میں ایک مدھم اور نیم محسوس بے چینی پیدا کر رہے تھے وہ اب اپنی تمام سنگینی اور ناگزیری کے ساتھ نمایاں اور واضح ہوکر اپنی آفاقی اہمیت دنیا کے ہر گوشے میں اور بنی نوع انسان کے ہر طبقہ اور ہر فرقہ سے منوا چکے ہیں۔
آج روایت پرست اور قدامت پسند لوگ بھی، جو زندگی کی پرانی قدروں کو سینے سے لگائے رکھنا چاہتے ہیں اور جو مبارک سے مبارک اور خوش آئند سے خوش آئند میلان کو خطرناک بدعت کہہ کر بدنام کر رہے ہیں، اپنے دلوں میں یہ سمجھ چکے ہیں کہ اب تمدن کے پرانے روایات اور مسلمات بے جان ہو گئے ہیں اور ان سے بالکل کام نہیں چل سکتا۔ آج انقلابی سے زیادہ رجعتی یہ یقین رکھتا ہے کہ وہ چاہے نہ چاہے اور اس کے لئے سزاوار یا ہو یا نہ ہو، اب دنیا کا نظام بغیر بدلے ہوئے نہیں رہ سکتا۔ اس لئے کرہ ارض کے وہ حصے جو زندگی کی ترقی پذیر رفتار کو رو کے رہنا چاہتے ہیں، انتہائی خوف و ہراس میں جان پر کھیل کر نئی قوتوں کا مقابلہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
آج فکر اور عمل کے ہر شعبہ میں جس طرح جان پر کھیل کر انقلابی کوششیں کی جارہی ہیں ان کا تصور بیسویں صدی سے پہلے نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جس ’’مریضانہ جلد بازی‘‘ سے اپنے زمانے میں میتھیو آرنلڈ کادم گھٹ رہا تھا وہ آج سرسامی حد تک بڑھ چکی ہے اور اس تمام ابتری اور بدحالی کی ذمہ دار رجعتی قوتیں ہیں۔ ایچ جی ویلس بڑا بدنیت اور گمراہ کرنے والا مفکر تھا اور وہ آفاقی ترقی کا نام لے کر دراصل مروجہ نظام کو نئے بناؤ سنگار کے ساتھ قائم رکھنا چاہتا تھا لیکن اس کی زبان سے ایک بڑی سچی بات نکل گئی ہے۔ اپنے آفاقی نظام کے ڈھونگ کی تبلیغ کرتے ہوئے وہ کہتا ہے، ’’خلاق دماغ انقلابات نہیں پیدا کرتے بلکہ مروجہ اختیار اقتدار کی قدامت پرستی اور ہٹ دھرمی دنیا کو انقلاب پر مجبور کرتی ہے۔‘‘
اس کا خیال ہے کہ ایک منظم ارتقاء کے تصور کو تسلیم کرنے سے صاف انکار کرنا ہر ترقی پذیر اور تعمیری منصوبہ کو انقلابی رنگ دے دیتا ہے۔ بات بہت صحیح کہی گئی ہے، لیکن جیسا کہ ایچ جی ویلس کا طریقہ ہے اس نے حقیقت کے ایک ہی رخ کو پیش کیا ہے۔ حقیقت کا دوسرا رخ یہ ہے کہ رائج الوقت اقتدار و اختیار اپنی ضد اور اندھی قدامت پرستی کو کبھی چھوڑ نہیں سکتا۔ اس لئے کہ یہ عناصر اس کے مزاج میں داخل ہیں۔ جس باد ہوائی تصور کا نام ایچ جی ویلس نے ’’منظم ارتقاء‘‘ رکھا ہے اس کے لئے معاشرت کی تواریخی رفتار میں کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ قدیم اور جدید میں تصادم ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور تصادم کا حل انقلاب ہوگا نہ کہ ’’منظم ارتقاء۔‘‘
اس سلسلے میں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ انسانی تہذیب کی تاریخ کے ابتدائی ادوار میں زندگی کی مائل بہ ترقی قوتیں سست اور منتشر تھیں۔ اس لئے جو تبدیلیاں معاشرت میں ہوتی تھیں وہ بہت طویل میعادوں کے بعد ہوتی تھیں۔ زندگی آہستہ آہستہ بتدریج ترقی کی منزلیں طے کر رہی تھی، لیکن تاریخ کی ترقی پذیر قوتیں روز بروز زیادہ قوی، زیادہ تیزاور زیادہ منظم ہوتی گئی ہیں۔ چنانچہ انسانی معاشرت اور اجتماعی نظام میں تبدیلیاں پہلے ایک صدی بعد ہوتی تھیں، ویسی تبدیلیاں اب ہر دس سال کے بعد ہونے لگی ہیں اوریہ درمیانی میعاد ابھی اور گھٹتی جائےگی۔ اب انسان کو بہتر اور زیادہ شریف انسان یا بقول غالب ’’آدمی کو انسان ہونے میں‘‘ اس کا پاسنگ وقت نہیں لگےگا جتنا کہ بندر کو آدمی ہونے میں لگا۔ ارتقا اور انقلاب (Evolution & Revolution) کے درمیان یہی فرق ہے۔ اس وقت تدریجی ارتقاء کا نعرہ لگانا ایک خطرناک میلان ہے جو ہم کو بہت گمراہ کر سکتا ہے۔ اب واقعی وہ وقت آ گیا ہے کہ بقول اقبال،
پھونک ڈالے یہ زمین و آسمان مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے
لیکن یہ بات یاد رہے کہ جس زمین و آسمان کو ہم نے پھونک ڈالا یا پھونکنے والے ہیں ان کی خاکستر کے بغیر بھی ہمارا کام نہیں چل سکتا۔ اس اجمال کی وضاحت مقالے کے دوران میں ہو جائےگی۔
جب زندگی کا ایک دستور اپنے مقصدر اور اپنی توانائیوں کو مکمل طور پر بروئےکار لا چکتا ہے تو وہ ناکارہ اور ناکافی ہو جاتا ہے اور خود اس کے اندر سے ایک نئے نظام کا مطالبہ شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن پرانے نظام اور نئے نظام کے درمیان جو عبوری دور ہوتا ہے وہ بڑے تذبذب، بڑے مغالطوں اور بڑی الجھنوں اور بڑی آزمائش کا دور ہوتا ہے۔ ہمارا موجودہ دور بھی ایک ایسا ہی دور ہے جس میں زندگی کے ہر شعبہ میں ایک افراتفری، ایک ہل چل اور ایک عدم اعتماد محسوس ہو رہا ہے اور ادب کا شعبہ تو سب سے زیادہ تذبذ ب اور الجھانے والا معلوم ہوتا ہے۔ اس وقت ادب کی دنیا میں جتنی سمتیں، جتنے موڑ اور جتنے باہم متناقص میلانات ہم کو نظر آ رہے ہیں ان کی مثال ادبی تواریخ کا کوئی دوسرا دور پیش نہیں کر سکتا۔
ادب کی دنیا اس وقت ایک بھول بھلیاں ہو رہی ہے جس کے بے شمار پیچ وخم میں ہم کچھ کھوکر رہے جارہے ہیں۔ رجعت اور ترقی، روایت اور انقلاب، تسلیم اور بغاوت، انفرادیت اور اجتماعیت، واقعیت اور تخیلیت، بورژوا اور پرولتاری، افادیت اور رومانیت، ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی وغیرہ جیسی بظاہر باہم متضاد اور پریشان کرنے والی اصطلاحیں اور فقرے ادبی تنقید کے سلسلے میں ہم بار بار سنتے ہیں اور اکثرہماری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔
ہمارے دو رکی ایک سب سے زیادہ اہم اور ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ اس نے انسانی زندگی کی مادی اصلیت کو روشن اور اجاگر کرکے اس کی حرمت اور برگزیدگی ہم سے منوا لی۔ اس سے پہلے ہم زندگی کو ایک آسمان زاد حقیقت تصور کرتے تھے اور اس کی جھوٹی ماورائیت کا رعب ہم پر چھایا ہوا تھا۔ صنعتی دور کا سب سے بڑا احسان یہی ہے کہ اس نے زمین کی مقدس قدر ہمارے دل میں بٹھائی اور ہم کو یہ بتایا کہ ہماری زندگی اسی زمین کی پیداوار ہے اور اسی زمین کی عام خیروبرکت ہماری زندگی کی بھی خیروبرکت کی ضامن ہے۔ مہاجنی تہذیب کا یہ معمولی اکتساب نہیں ہے۔ اس نے ہمارے اندر زندگی کا اقتصادی شعور پیدا کیا جو روز بروز بڑھتا چلا گیا اور ہمارے فکری اور عملی ارادوں میں دخیل ہوتا گیا۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ اقتصادی اسباب انسانی معاشرت میں اس سے پہلے کارفرما نہیں تھے۔ لیکن ہماری شعوری زندگی ان سنگین بنیادی اسباب کا کوئی احساس نہیں رکھتی تھی۔ یہ تصور کہ ’’ساری زندگی صرف ایک گت پر ناچ رہی ہے اور وہ ’’روز کی روٹی، روز کی روٹی کی گت‘‘ ہے۔ ہمارے ہی دور کی خصوصیت ہے۔
روٹی کے علاوہ انسان کی تہذیب و تکمیل کے لئے اور کن کن چیزوں کی ضرورت ہے یا نہیں ہے؟ یہ سوال ابھی اٹھتا نہیں، لیکن خدا کی خدائی ابھی تک کوئی ایسی مخلوق پیدا نہیں کر سکی ہے جو بغیر روٹی کے زیادہ عرصے تک زندہ رہ سکے۔ تغذیہ نہ صرف انسان بلکہ ساری فطرت کا پہلا مطالبہ ہے اوراس مطالبے کو پورا کرنا ارتقا اور تہذیب کی طرف یقیناً پہلا اقدام ہے۔
آج ہم کویہ ماننے اور کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی کہ بھوک اسی قدر قابل احترام جسمانی تحریک ہے جس قدر کہ عشق ومحبت اور تن ڈھانکنے کے لئے کپڑا اور گرمی اور سردی سے پناہ لینے کے لئے ٹھکانے اتنا ہی ضروری اور اہم ہیں جتنا کہ مجازی یا حقیقی معشوق۔ یہ احساس اس صدی سے پہلے ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی، ہمارے کردار و گفتار اور ہمارے تمام افکار واعمال میں اس طرح داخل نہیں تھا جیسا کہ آج ہے۔ زندگی کی مادی بالخصوص اقتصادی اصل و غایت کا بیشتر اور بڑھتا ہوا شعور اس وقت ہمارے جملہ حرکات و سکنات کی طرح ہمارے ادب میں بھی نمایاں طور پر کام کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
اس موقع پر ایک غلط فہمی سے ہوشیار رہنا ضروری ہے۔ انسانی دنیا میں کوئی تواریخی دور ایسا نہیں جس کے ادبی اکتسابات اس کے مخصوص اور مروجہ اقتصادی اور معاشرتی نظام کی پیداوار نہ ہوں۔ لیکن ہمارے دور کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ ہم کو اس تواریخی حقیقت کا شعوری احساس ہو گیا ہے جو ہماری عملی زندگی کے ہر ادوار میں کام کر رہا ہے۔ ہم اب اعلانیہ طور پر جانتے اور مانتے ہیں کہ زندگی اور ادب کی بنیاد اقتصادیات پر ہے اور زندگی کی اقتصادی فلاح جو آگے چل کر ہمہ سمتی فلاح (Multi Dimensional well being) میں تبدیل ہو جاتی ہے، ادب کی اصل غایت ہے۔ اس نئے میلان کی ابتدا ہمارے ادب میں یورپ کی پہلی جنگ عظیم کے بعد ہوئی۔ یہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ انقلاب کی رو کو تسلیم کرتے ہوئے سب سے پہلے جس نے ہماری شاعری میں متانت، سنجیدگی اور اعتمادکے ساتھ اس کو ظاہر کیا وہ اقبال ہیں،
جس کھیت سے دہقا ں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو
یا
خواجہ از خون رگ مزدور و لعل ناب
از جفائے خدایان کشت دہقانان خراب
انقلاب اے انقلاب
یا
اگرنہ سہل ہوں تجھ پر زمیں کے ہنگامے
بری ہے مستی اندیشہ ہائے افلاکی
اقبال کے بعد ہمارے ادب میں اقتصادی میلان کی لے بڑھتی گئی، یہاں تک کہ آج نئی نسل کے ادب کے بہت سے نمونے انقلابی اقتصادیات کے محض نعرے معلوم ہوتے ہیں۔ جیسا کہ شروع میں واضح کر دیا گیا ہے روٹی زندگی کی پہلی ضرورت ہے۔ ہماری زندگی کی بنیاد یقیناً مادی قوتوں بالخصوص اقتصادیات پر ہے۔ اس حقیقت سے انکار یا تجاہل کرنا بڑے خطرناک قسم کا دھوکہ ہے اور ہم اپنے نئے مفکروں اور ادیبوں کے ممنون ہیں کہ انہوں نے زندگی کی اصلیت اور اس کی غرض و غایت سے ہم کو آگاہ کیا۔ لیکن ایک زبردست خطرہ اس کا بھی ہے کہ ہم ایک فریب سے بچ کر کہیں دوسرے فریب میں نہ مبتلا ہو جائیں اور پرانے بتوں کو توڑنے کے بعد کہیں نئے بتوں کی پوجا نہ کرنے لگیں۔
اور بت پرستی اور بے جان تصویروں کے ساتھ والہانہ لگاؤ تو بہرحال ترقی کے راستے میں بڑا مہلک خطرہ ہے۔ روٹی انسان کی پہلی ضرورت اور اس کی زندگی کی بنیادی حقیقت ہے، لیکن پہلی ضرورت کبھی آخری ضرورت نہیں ہوتی اور نہ بنیاد کسی عمارت کا بلندترین منارہ ہوتی ہے۔ ہم اس وقت بجا طور پر یہ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ کیا روٹی ہماری زندگی کی تنہا اور آخری ضرورت بھی ہے۔ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے ہم کو بڑی دیر اور بہت دور تک سوچنا پڑےگا۔ ہمارے اکثر نوجوان رفیق اس سوال سے تجاہل برت کر یا کتراکر نکل جانا چاہئے۔ لیکن اس سے کام نہیں چل سکتا۔
ہم کو یہ تسلیم کرنا پڑےگا کہ جس جدلیاتی قوت کو ہم زندگی کی روح رواں بتاتے ہیں، اس کی اپنی فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ کسی ایک ہیئت یا کسی ایک منزل پر میعاد گزر جانے کے بعد قیام نہ کرے اور آگے بڑھ جائے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو انقلاب اور ترقی کے کوئی معنی نہیں اور اگر ایسا ہے اور ہم تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا ہی ہے تو اس جدلیات کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ ایک حد کے بعد مادی غیر مادی ہو جائے، یعنی وہ ایسا نیا روپ اختیار کر لے کہ اس کی بنیادی شکل بادی النظر میں شناخت نہ کی جا سکے۔
ایک بیل یا گھوڑے کو جو کھلی، بھوسا، گھاس اور دانہ وغیرہ کھلایا جاتا ہے وہ کس قدر ٹھوس اور کثیف معنوں میں مادی ہوتا ہے لیکن یہ ساری غذا اپنے تمام فضلات سے جدا ہوکر اوران کو پیچھے چھوڑ کر قوت میں تبدیل ہو جاتی ہے اور بیل یا گھوڑے کے اندر نئی جان یا توانائی پیدا کر دیتی ہے۔ دوسری مثال معدنی کوئلہ کی ہے جو حسب مراد اور موافق اسباب و حالات پاکر اور انقلابی کیمیائی عمل کے مدارج سے گزر کر ہیرا بن جاتا ہے۔ اسی طرح بدخشاں کے پہاڑوں کے کھردرے پتھر موزوں اور مناسب تربیت پاکر اور یمن کے خارائی پتھر نکھر کر عقیق ہو جاتے ہیں۔
تیسری مثال بھی کچھ کم بصیرت افروز نہیں ہے۔ دو مادی اجسام کی رگڑ سے وہ قوت پیدا ہوتی ہے جوا صطلاحاً برق کہربائی کہلاتی ہے۔ اسی طرح جھرنے سے بجلی پیدا کرنا بھی ہمارے لئے ایک سبق ہے۔ کچھ لوگ مادی اور غیرمادی اصطلاحوں کی سطحی اہمیت میں کھوکر حقیقت سے بیگانہ رہ جاتے ہیں۔ اس کو ہم یا تو اصطلاح پرستی کہیں گے جو بت پرستی سے کسی طرح کم خطرناک نہیں ہے، یا ہم یہ سمجھیں گے کہ لوگوں کو نفس مطلب سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ وہ صرف چند نعروں اور جے کاروں کو زندگی کا ماحصل سمجھتے ہیں۔ مادہ اور قوت، جسم اور روح کی اصطلاحیں اس بات کی علامت ہیں کہ ہم کو زندگی کی پر تضاد اور متصادم اصلیت کا زمانہ قدیم سے ایک مبہم احساس ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارا آبا و اجداد یا تو دھوکے میں پڑ کر یا جان بوجھ کر اس احساس کے اظہار میں سخت غلطیاں کرتے رہے ہوں۔
اگر ہم یہ مان لیں کہ زندگی کی اصلی حقیقت مادہ ہے اور ’’غیرمادی‘‘ کی اصطلاح سے پرہیز کرنا چاہیں تو یہ ماننا پڑےگا کہ مادہ روز ازل سے اپنے اندر فطرتاً شعور رکھتا تھا جس نے لاکھوں اور کروڑوں انقلاب اور ترقی کے ادوار سے گزر کر موجودہ فکرانسانی کی شکل اختیار کی ہے، یعنی مادہ کے اندر یہ صلاحیت پیدائشی طور پر موجود ہے کہ وہ ایک کثیف ہیئت کو چھوڑکر اس سے لطیف ترہیئت اختیار کرے اور اگر ہم روح کو مادہ پر تقدم دینا چاہیں تو یہ تسلیم کرنا پڑےگا کہ روح اپنی پاکیزگی اور طہارت سے آسودہ نہ رہ سکی اور بےچین ہوکر اس نے پہلے سے زیادہ کثیف صورت اختیار کرنا چاہی اور ایک ’کن‘ سے اٹھارہ ہزار ٹھوس مادی دنیائیں پیدا کر دیں۔ غالب کا ایک شعر اسی خیال کا ترجمان ہے۔
دہر جز جلوہ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خودبیں
اور آسی غازی پوری کے اس شعر کو آپ کیا کہیں گے،
لالہ وگل میں اسی رشک چمن کی تھی بہار
باغ میں کون ہے اے بادصبا کیا کہئے
اور اسی کے ساتھ ساتھ اصغر گونڈوی کے اس شعر کو پڑھئے،
ردائے لالہ وگل پردہ مہ وانجم
جہاں جہاں وہ چھپے ہیں عجیب عالم ہے
بہرحال ہم کو یہ تسلیم کرنا پڑےگا کہ یا تو لطافت قوت ارتقا سے بے بس ہوکر مائل بہ کثافت ہے یا کثافت مائل بہ لطافت ہے۔ لیکن ہم اس جھگڑے میں کیوں پڑیں جو دراصل الفاظ کا جھگڑا ہے۔ ہم کیوں نہ مان لیں کہ مادہ ابتدائی حقیقت ہے اور مادی کو غیرمادی پر تقدم حاصل ہے اور کثافت کا ارتقائی میلان لطافت کی طرف ہے۔ اس سے نہ منطقی استدلال کی موشگافیاں انکار کر سکتی ہیں اور نہ عوام کی سمجھ۔
ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ اس وقت ہماری زندگی کا مادی روپ بگڑا ہوا ہے اور جس کو ہم جدلیاتی قوت کہتے ہیں، وہ ہماری زندگی کی مادی سطح پر کام کر رہی ہے۔ اس سطح کو ہموار اور مکمل کر چکنے کے بعدکیا وہ یہیں رہ جائےگی، یا فنا ہو جائےگی، یا یہ ہوگا کہ اس کے بعد زندگی کی اور سطحیں بھی نکلیں گی جن کی تہذیب اور تکمیل اس جدلیاتی قوت کا آئندہ فریضہ ہوگا۔ ہم اس سوال کی طرف سے کچھ غافل اور بےپروا نظر آ رہے ہیں۔
ادب اور زندگی سے متعلق ان تمام اصطلاحوں کو جو زندگی کی مختلف نئی اورپرانی قدروں اور غایتوں کی نمائندگی کے لئے گڑھی گئی ہیں، اگر صرف دو عنوانات کے ماتحت لایا جائےگا تو ہمارا کام رجعتی اور ترقی پسند یا روایتی اور انقلابی سے چل جائےگا اور یہی اصطلاحیں زبانوں پر آج سب سے زیادہ چڑھی ہوئی بھی ہیں۔
ہمارے نو عمر ہم عصروں میں ایسوں کی تعداد کم نہیں ہے جو ہر اس ادیب یا فنکار کی تخلیقی کوششوں کوبے دریغ رجعتی اور ناکارہ کہہ دیتے ہیں جس کا تعلق ایک صف پیچھے کی نسل سے ہو یا جس کے اسلوب اور تصور میں پرانے تصورات اور اسالیب کی کچھ جھلکیاں نظر آئیں یا جس کے اختراعات ان کے مفروضہ معیار سے کلی مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ ان نوجوانوں کو شاید یہ نہیں معلوم کہ انقلاب اور ترقی کے راستے میں سب سے زیادہ خطرناک چٹانیں ادعایت (Domatism) اور مطلقیت (Absolution) ہیں۔
جن لوگوں نے مارکس اور اینگلز کے افکار کا ڈوب کر مطالعہ کیا ہے وہ ہم سے اتفاق کریں گے کہ جدلیاتی مادیت اور مطلقیت یا مارکسیت اور ادعایت کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکتیں۔ جو لوگ مارکسیت کو ادعایت بنائے ہوئے ہیں ان کو سمجھنا چاہئے کہ جو الزام وہ اپنے مخالفین کو دیتے ہیں، وہی الزام ان کے سر آ جاتا ہے۔ کسی ادعائی نظریے کی روسے چاہے وہ کسی جماعت سے تعلق رکھتا ہو، ایک طرز فکر اور ایک اسلوب اظہار صرف ایک مخصوص جماعت کے نقطہ نظر سے صحیح اور قابل قبول ہو سکتا ہے۔ مخالف جماعتیں جو خود اپنا اپنا ادعائی نظریہ لئے بیٹھی ہیں، اس کو کیوں تسلیم کریں اور پھر کوئی جماعت کسی دوسری جماعت کو الزام کیوں دے؟
ہم صحیح طبقاتی یا جماعتی شعور کے قائل ہیں لیکن یہ شعور محض ایک طبقہ یا جماعت کے مشاہدے سے نہیں پیدا ہوتا بلکہ سماج کے سارے طبقات اور اس کے مختلف ادوار کے تمام ذہنی، معاشرتی، اخلاقی اور سیاسی میلانات کے مطالعہ سے پیدا ہوتا ہے۔ اصلی مارکسیت یہی ہے جس کو خود آسودہ فرقہ بندی (Self –Complacent Secterianism) کے خطرے سے بچانا ہے۔ قدامت پسندوں اور روایت پرستوں میں ایک زبردست قباحت یہی ہے کہ وہ کسی قسم کا تغیر یا تنوع گوارا نہیں کر سکتے اور زندگی کو اس مقام سے جہاں وہ خود ہیں، یا ادھر ادھر حرکت کرنے دینا نہیں چاہتے ہیں۔ بعض نوجوانوں میں بھی جب ہم یہی ایک نقطہ پر ٹھہرے رہنے کا میلان پاتے ہیں تو ہم زیادہ اندیشہ ناک ہو جاتے ہیں، اس لئے کہ مقام گزینی کی خواہش بڈھوں سے زیادہ نوجوانوں میں مہلک ثابت ہوتی ہے۔ ہم کو یہ سمجھے رہنا چاہئے کہ زندگی اور ادب دونو ں ایک دائمی تاریخی تسلسل کے نام ہیں۔
یہ سچ ہے کہ حال سے باہر ماضی کے کوئی معنی نہیں ہوتے لیکن اگر ہم دوسری غلطی نہیں کرنا چاہتے تو اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہے کہ ماضی سے بے تعلق اور الگ ہوکر حال اور مستقبل دونوں دھوکے ہیں۔ ہر مستقبل کا ایک ماضی اور ہر ماضی کا ایک مستقبل ہوتا ہے۔ ہم کسی ایسے ماضی کا تصور نہیں کر سکتے جو مستقبل کی پیش رس جھلک اپنے اندر نہ رکھتا ہو اور نہ ایسا مستقبل ہماری سمجھ میں آتا ہے جس میں ماضی کے زندہ اور صالح برق پارے (Electron) پوشیدہ نمایاں طور پر کام نہ کرتے ہوں۔ ادب میں تواریخی احساس کا ہونا ضروری ہے۔ صحیح معنوں میں ادیب یا فنکار وہی ہے جو اپنی ہڈیوں میں نہ صرف اپنے زمانے اور اپنی نسل کی زندگی کو حرکت کرتا ہوا محسوس کرے بلکہ جس کے اندر ماضی کے تمام اکتسابات کی روح بھی کام کر رہی ہو۔ زندہ ماضی حال کی عنصری ترکیب اور مستقبل کی تعمیری تخیل میں اندرونی طور پر داخل ہوتا ہے۔
اونچے قسم کے ادبی کارناموں میں روح عصر کے ساتھ ساتھ دوام کا بھی ایک جزو ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہومر، ڈانٹے اور شیکپسئر، فردوسی، سعدی، حافظ، والمیک، کالی داس، تلسی داس، میر، غالب، میر حسن اور میر انیس اپنے اپنے زمانے کے ساتھ دفن ہو چکے ہوتے۔ ہم کو یہ ماننا ہے کہ انسانی تواریخ کا ہر دور مجموعی حیثیت سے سابق دور کے خلاف بغاوت اور اپنی جگہ پر انقلاب اور ترقی کا ایک اقدام تھا۔ ہر زمانہ کا ادب اپنے زمانے کے اعتبار سے ترقی پسند رہا ہے۔ شیکسپئر، ملٹن، ڈکنس اور ہارڈی اپنے دور کے ترقی پسند نمائندے تھے۔ سب نے اپنے اپنے زمانے کی معاشرت کو زیادہ مہذب اور شائستہ بنایا ہے اور مستقبل کی تشکیل میں زبردست حصے لئے ہیں۔ بعد کی نسلوں نے ترقی کا سبق شعوری یا غیر شعوری طور پر انہیں لوگوں سے لیا ہے۔
یہ دوسری بات ہے کہ ہمارے زمانے میں ترقی کا تصور زیادہ بالغ اور زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے، اس لئے کہ ہماری زندگی کی ضرورتیں بدلی ہوئی ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ جس آزادی، مساوات اور فراغت کا مطالبہ آج ہم کر رہے ہیں وہ دنیا میں دیویوں اور دیوتاؤں کی طرح آسمان سے یکایک نہیں اتری ہیں بلکہ تواریخ کے نہ جانے کتنے انقلابات اور زبردست ہنگاموں سے یہ تصورات نمودار ہوئے ہیں۔ انسان فطرتاً آزاد نہیں تھا۔ یہ تصور کہ قدرت نے ہم کو آزاد پیدا کیا اور روز بروز آزادی کھوتے گئے، ہم کو سیکڑوں برس سے بھٹکاتا رہا ہے۔ انسان قدرت کی طرف سے نہ جانے کتنی کمزوریاں اور مجبوریاں لے کر اس دنیا میں آیا۔ رفتہ رفتہ اس نے خود اپنی قوتوں اور کوششوں سے ان تمام حالات اور موانع کو بڑی مشقت کے ساتھ اپنے راستے سے دور کیا ہے اور روز بروز پہلے سے زیادہ آزاد ہوتا گیا ہے، یہاں تک کہ آج بہ قول اقبال،
توڑ ڈالیں فطرت انساں نے زنجیریں تمام
دوری جنت سے روتی چشم آدم کب تلک
انسان جب عرصہ وجود میں آیا تو اس نے اپنے کو طرح طرح کی غلاظتوں، تاریکیوں اور مجبوریوں میں گھرا ہوا پایا اور وہ اپنا خون پسینہ ایک کرکے اپنی زندگی کو لطیف، روشن اور آزاد بناتا چلا گیا۔ اسی کا نام تہذیب ہے۔ یہ ضرور ہے کہ تخلیق آدم سے لے کر اس وقت تک تہذیب کی لائی ہوئی برکتیں اور توانائیاں ایک چیدہ اور برگزیدہ جماعت کو میسر رہیں اور خلق اللہ ان سے محروم رکھی گئی ہے۔ روس کے مشہور شاعر اور نقاد الیگزینڈر بلاک کا کہنابہت صحیح ہے کہ ’’جس تہذیب پر ہم کو اب تک ناز رہا ہے وہ عمودی رہی ہے، حالانکہ اس کو افقی پہلے ہونا چاہے۔‘‘ یعنی ہماری تہذیب بجائے اس کے کہ عوام میں پھیلے، ایک بافراغت اور خود آسودہ اقلیت کے درمیان محدود رہ کر بلند ہوتی گئی ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج کم تعداد تعلیم یافتہ اور مہذب جماعت اور جاہل اور علم و تہذیب کی روشنی سے محروم عوام الناس کے درمیان ایک بھیانک خلا پیدا ہو گیا ہے۔ اب ہم کو اس کا شعور کا ہو چلا ہے اور شدت اصرار کے ساتھ ہم مطالبہ کر رہے ہیں کہ تہذیب کی تمام لطافتیں اور نفاستیں ہر شخص کو نصیب رہیں اور وہ دن بہت زیادہ دور نہیں جبکہ ہماری یہ کوشش اور ہمارا یہ مطالبہ حسب مراد پورا ہو۔ اسی وقت مارکس وغیرہ کے کہنے کے مطابق زمانہ قبل تاریخ (Pre-History) ختم ہوگا اور تاریخ (History) صیح معنوں میں شروع ہوگی۔
بہرحال ہم کو کہنا یہ تھا کہ انسانی آزادی کی سست اور پرآزار پیدائش میں نہ جانے کتنی پرخار منزلوں میں گزرنے کے بعد یہ آزادی موجودہ مقام پر پہنچی ہے۔ سامنتی بیداری نے پروہتوں کی زنجیروں کو توڑا، صنعتی یامہاجنی انقلاب نے سامنتی نظام کی بیڑیاں کاٹ پھینکیں اور آج اشتراکیت سرمایہ داری کا سنہرا طوق اپنی گردن سے اتار ڈالنے پر تلی ہوئی ہے۔ ہم اس وقت جو کچھ ہیں اور جو کچھ کر رہے ہیں، وہ تاریخ کے لامحدود عمل میں ایک درمیانی ہیئت ہے اور گزشتہ اور آئندہ دونوں ہیئتوں سے یکساں اور لازمی تعلق رکھتی ہے۔
روایت اور انقلاب کے بارے میں ہمار ے خیالات بری طرح الجھے ہوئے ہیں۔ ہم کچھ بھول سے گئے ہیں کہ ہر زمانے کے افکار اور ادبی اختراعات میں کچھ زندہ رہ جانے والے عناصر بھی ہوتے ہیں۔ یہی عناصر، ادبی شکاہکاروں کی مستقل قدرہوتے ہیں اور روایت عظمی سے یہی عناصر مراد لئے جائیں گے جو نئی زندگی کے نئے عناصرکے ساتھ شیروشکر ہوکر ہمارے لئے آئندہ ترقیوں کا سبب بنتے ہیں۔ اسلاف کے کارناموں کے مطالعہ سے ہمارے اندر بصیرت اور سعی وپیکار کی نئی تحریک پیدا ہوتی ہے۔ ہاں شرط یہ ہے کہ ہم صحت مند ذہن رکھتے ہوں۔ ہومر، اسکائلس، ڈانٹے، شیکسپئر، سروانٹیز، گوئٹے، بالزک اور شیلی سے آج ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟ اس کو مارکس سے پوچھئے جس کے لئے ادب المتقدمین کا مطالعہ ہمیشہ نہ صرف تفریح کاسامان رہا بلکہ اس سے اس کے دل میں تازہ ولولے پیدا ہوتے رہے اوراس کے نازک ذہنی لمحوں میں زندگی کی نئی ڈھارس بندھاتے رہے۔
خام اور صحیح موثرات سے غلط اثر قبول کرنے والے دماغ کے لئے اس کااندیشہ ضرور ہے کہ اسلاف کے اکتسابات اور قدیم روایات کا مطالعہ کہیں ان کو بہکانہ دے اور ہمار ے اندر مردہ اور بے جان قسم کی ماضی پرستی کا میلان نہ پیدا ہو جائے۔ اگر اس خطرے سے ا س زندہ قوت کو ہم بچا لیں گے جس کو صحیح اور صالح معنوں میں روایت کہتے ہیں تو وہ و انقلاب کا ایک اہم ترکیبی جزبن کر حال اور مستقبل دونوں کو مالامال کر سکتی ہے۔ ترقی پسند یا انقلابی ادیب کا پہلا فرض یہ ہے کہ بصیرت اور قوت انتخاب سے کام لے کر خوش آئند اور زندگی بخش روایتی تصورات اور اسالیب کو اپنی نئی تخلیقی اپج میں جذب کرے۔ اس بصیرت اور قوت انتخا ب کی موجودہ نسل کے اکثر باحوصلہ نوجوانوں میں کچھ کمی محسوس ہوتی ہے جو اسلاف کے معاشرتی اور ادبی اکتسابات کے مطالعہ سے بر ی طرح بھاگتے ہیں۔
ہم ان کو مارکس کے ان الفاظ کی طرف جو اس نے اپنی تحریر’’تنقید اقتصادیات سیاسی‘‘سپرد قلم کئے ہیں، متوجہ کرنا چاہتے ہیں۔ ’’یونانی آرٹ اور اس کی رزمیہ شاعری کو سماجی ارتقا کی بعض خاص ہیئتوں سے متعلق اور وابستہ سمجھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ لیکن یہ سمجھ لینا ہمارا بہت بڑا اکتساب ہوگا کہ اتنے پرانے زمانے کے یہ کارنامے اب بھی ہمارے لئے جمالیاتی مسرت کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں اور بعض اعتبارات سے آج کی ترقی یافتہ دنیا ان کو اب تک قابل رشک نمونہ اور ناقابل حصول معیار تصور کرتی ہے۔‘‘
یہ سوال واقعی اہم اور قابل غور ہے کہ جن طبقوں کو جھاڑ بہار کر ہم اب تواریخ کے کوڑے کی ٹوکری میں پھینکنے جا رہے ہیں ان کے بعض نمائندوں نے ادب اور دوسرے فنون لطیفہ کے جو نمونے یادگار چھوڑے ہیں اور آخراب تک عوام کے ذہنی ابھار اور ان کی تعلیم و تربیت میں کارآمد محرکات کیوں ثابت ہو رہے ہیں؟ سامنتی اور مہاجنی معاشرت کے زمانوں کی تخلیقات اشراکیت کے دور میں اس قدر دلکش اور مفید کیوں ہیں؟
ہم اس وقت اپنے افکار و میلانات کے اعتبار سے بہت کافی الجھے ہوئے ہیں اور اسی نسبت سے جو ادب آج کل پیدا ہو رہا ہے، اس کا کچھ حصہ تو یقینا زندگی کے صحیح مفہوم اور اس کی توانائیوں کی طرف واضح اشارہ کر رہا ہے، لیکن ہمارے نئے ادیبوں اور شاعروں کی زیادہ تعداد کچھ غیر واضح انتشار اور پراگندگی میں مبتلا نظر آتی ہے۔ ان کے خیالات پریشان اور گڈمڈ ہیں۔ ہمارے نوجوان ساتھیوں میں ایسوں کی کمی نہیں جو ماضی اور اس کے کارناموں کو کچھ حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان میں کبھی یاس پرستی، کبھی لذتیت، کہیں شکست خوردگی اور مغلوبیت، کہیں فراریت اور عزلت گزینی محسوس کرتے ہیں۔ اگر محض آج کے پیمانے سے دیکھا جائے تو یہ میلانات ہم کو ادب المتقدمین میں ملیں گے، لیکن تواریخ کا پیمانہ ایسا غیرمربوط اور بے تعلق پیمانہ نہیں ہوتا۔
تواریخ ایک سلسلے کا نام ہے اور ماضی کے اکتسابات اس سلسلے کی ایک درمیانی کڑیاں ہیں۔ ہم کو ان سے بہت کچھ سیکھنا ہے اور ان کا مطالعہ ہمارے اندر زندگی کے آئندہ فروغ میں کام آ سکتا ہے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم لکیر کے فقیر بنے رہیں اور اپنے آباد و اجداد کی کورانہ تقلید کرتے رہیں۔ مگر ان کے پڑھنے سے ہماری تخلیقی قوتوں کو نئی تہذیب اور شائستگی ملےگی۔ بڑے تماشے کی بات ہے کہ آج کل کے بعض ادیب اور شعراء جو اسلاف کے اختراعات پرطرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں، وہ خود بھی کچھ دوسرے عنوان سے انہیں راگوں کو الاپ رہے ہیں۔
مثلاً رومانیت کے میلان کو عام طور سے رجعتی بتایا جاتا ہے جو زندگی کے نئے دستور میں مضر نہیں تو بیکار ضرور ہے، لیکن صف اول کے چند گنے ہوئے افسانہ نگاروں اور شاعروں کو چھوڑ کر، جن کی تخلیقی کوششیں نئی زندگی کی نئی قدروں اورنئی ضرورتوں کا نہایت واضح تصور پیش کرتی ہیں اوریقیناً قابل ستائش ہیں، جب ہم عصر حاضر کے اکثر افسانوں اور نظموں کو پڑھتے ہیں تو ان میں بھی وہی رومانی راگ کبھی کبھی والہانہ جنسی خود باختگی کا انداز اختیار کر لیتی ہے۔ اس کو ہم کیا کہیں گے ؟ آخر ہم میں سے بعض یا اکثر اب تک انہیں علتوں میں کیوں مبتلا ہیں جن کو ہم پرانے اساتذہ کی خامیاں بتاتے ہیں۔
حقیقت افراط اور تفریط دونوں سے الگ ہے۔ اصل بات تویہ ہے کہ وہ تربیت یافتہ شعور جنسی، جس کو محبت یا رومان کہتے ہیں انسان کے خمیر میں داخل ہے اور اس کی شخصیت کا ایک فطری مطالبہ اور اس کی تواریخی زندگی کی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے لیکن اس کی زندگی کے اور بھی مطالبے ہیں جن کو پورا کرنا محبت اور رومان سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ صحیح اور زندگی بخش رومانی تعلق سے انسان کی زندگی کبھی بھی خالی نہیں رہے گی، لیکن جیسا کہ میں کسی اور موقع پر اشارہ کر چکا ہوں، اصلی اور فطری انسان ایک مجاہد ہے جس کو رومان کے علاوہ اور بھی بہت سی اہم اور سنگین مہمات درپیش ہیں، جن پر قابو پانا ہے۔ ادب کا کام یہ ہے کہ اس مجاہد کے حوصلے بڑھائے اور زندگی کی فتوحات میں ایک محرک کی حیثیت سے اس کے کام آئے۔
اس بحث کے تحت میں ہم کو یہ بھی سمجھنا ہے کہ گزشتہ پندرہ بیس برسوں کے اندر ادب میں واقعیت اور خاص کر جمہوری یا اشتراکی واقعیت کی جو نئی پکار شروع ہوئی ہے اس کا اصلی مفہوم کیاہے؟ رومانیت کو ہم ایک پرانا اور فرسودہ میلان بتاتے ہیں اور اس کی جگہ واقعیت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس وقت اگر یہ سوال کیا جائے کہ واقعیت سے دنیا کے بہترین ادبی اختراعات کب خالی رہے ہیں تو شاید ہم تھوڑی دیر کے لئے سوچ میں پڑ جائیں۔ کیا ہومر کی ایلیڈ میں شروع سے آخر تک واقعیت نہیں ملتی؟ اور کیا میر حسن کی مثنوی اپنے گردوپیش کی معاشرت کی عکاسی نہیں کرتی؟ اس سوال کا جواب نفی میں دیتے ہوئے ہماری زبان ہچکچائےگی۔ برخلاف اس کے کیا ہم خشک اور بےکیف واقعات کے بیان کو ادب میں شمار کریں گے۔
مثلاً اگر کہیں کہ ’’دانت میرے شمار میں بتیس‘‘ تو کیا یہ واقعیت ادب کہلائےگی؟ کیا انگریزی کے وہ موزوں مصرعے جن میں بچوں کو یاد کرانے کے لئے ہر مہینہ کے دنوں کی تعداد گنائی گئی ہے، اپنی تمام واقعیت اور افادیت کے باوجود ادب کے تحت میں آتے ہیں؟ ہندوستان میں اس موقع کے لئے سب سے زیادہ موزوں مثال گھاگھ کی ہے جن کے اشعار یعنی موزوں مصرعے عوام میں ضرب المثل ہو چکے ہیں۔ جہاں تک تجربات اور مشاہدات اور قیاسات کا تعلق ہے گھاگھ کی کہی ہوئی باتیں بیشتر اب تک دو اور دوچار کی طرح صحیح ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ گھاگھ کے کلام کو ہم شاعری نہیں سمجھتے، حالانکہ جہاں تک محض واقعہ نگاری کا سوال ہے، ہندوستان کا کوئی شاعر گھاگھ کا مدمقابل نہیں ہو سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ محض واقعات کو جوں کا توں سپرد قلم کر دینے کا نام ادب نہیں ہے۔ ہم صحافتی تحریروں کو ادبی تخلیق ماننے کے لئے تیار نہیں۔ ادب میں اگر واقعیت نہیں ہے، یعنی اگر اس کی بنیاد زندگی کی ٹھوس حقیقتوں پر نہیں ہے تو وہ صالح ادب نہیں ہو سکتا۔ لیکن اس واقعیت کے ساتھ ساتھ ادب کو ادب کا درجہ دینے کے لئے اس عنصر کا ہونا بھی لازمی ہے، جس کو ہم مبہم طور پر کبھی ’رومانیت‘ کبھی تخیلیت اور کبھی خواب گزینی کہہ کر بدنام کرتے ہیں۔ قدیم یونانی تواریخ کے اخبار اور کتبات کو دوسرے لحاظ سے ہم جس قدر بھی اہم اور قابل قدر سمجھیں لیکن ہم ان کو بھول کر بھی ادب کا عنوان نہیں دیں گے۔ برخلاف اس کے ایسکائیلس کے مشہور ڈرامے ’’اہل فارس The Persian’s, Seven Against Thebes ,اور The Suppliants اپنی تمام تواریخی واقعیت کے ساتھ ساتھ دنیائے ادب کے غیرفانی شہ پارے ہیں۔
ہم تسلیم کرتے ہیں کہ آج اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ انسانی زندگی میں جو معاشرتی اور اخلاقی تصادم اور پیکار جاری ہے اور اجتماعی نظام اور شخصی کردار میں جوا ندرونی تناقصات بڑھتے جا رہے ہیں یعنی انسان کی ہستی کے اندر سرمایہ داری نے جو نراج پیدا کر رکھا ہے، ان کے تہ نشین اسباب کو ابھارکر اوپر لایا جائے اور ان کے نتائج کا تجزیہ کرکے لوگوں کے اندران کا صحیح اور واضح شعور پیدا کیا جائے۔ جو قوتیں اس وقت باہم دست وگریباں ہیں اور انسان کی زندگی کو بگاڑ بنا رہی ہیں، ان کے ادراک سے اگر آج کے کسی ادیب کی کوشش بیگانہ ہے تو وہ ادیب کے منصب کو پورا نہیں کر رہا ہے اور اس کی کوشش پر ادب کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ لیکن ادب میں اس ادراک کو کیسے ظاہر کیا جائے؟ یہ سوال مشکل اور غور طلب ہے۔
اگر ہم اپنے زمانے کے نئے حالات اور اسباب اور ان کی باہمی کشمکش کے اثرات کو سیدھے سیدھے بے کم وکاست بیان کر دیتے ہیں تو وہ ادب نہیں بلکہ اخبار نگاری اور پروپیگنڈا ہوگا جس سے ادیب کو بچنا ہے۔ ادب کا وہ مدرسہ جس کو اشتراکی واقعیت کا نام دیا جاتا ہے اکثر و بیشتر اسی غلطی میں مبتلا ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ کسی ہڑتال یا کسی نئی سماجی تحریک یا کسی انقلابی ابھار یا کسی سیاسی خانہ جنگی کی مفصل تصویر پیش کر دینے ہی کا نام ادب ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام محرکات اور موثرات محض سماجی پس منظر ہیں اور سماجی پس منظر انسان سے بے تعلق ہوکر کوئی قدر نہیں رکھتا۔ اس پس منظر کی قدر اور اہمیت اس لئے ہے کہ انسان اس میں رہ کر اپنے اندر نئی توانائیاں اور نئی بالیدگی پیدا کرتا ہے۔ انسان کی زندگی دراصل ایک مقابلہ ہے خود اس کے اور اس پس منظر کے درمیان۔
یہ سچ ہے کہ جو قوتیں کہ پس منظر میں کام کر رہی ہیں، وہ انسان پراثرانداز ہوتی ہیں اور اس کی ہستی کی تشکیل میں کارفرما ہوتی ہیں، لیکن خود انسان دوران مقابلہ میں اپنی نئی طاقتوں سے اس پس منظر پر قابو پاکر اس کو بدل بھی دیتا ہے۔ انسان صرف زندہ نہیں رہتا بلکہ زندگی کونت نیا روپ دیتا رہتا ہے۔ اس حقیقت کی طر ف ہمارا دھیان بہت کم جاتاہے۔ اشتراکی واقعیت کا نعرہ لگانا آسان ہے لیکن اس کو سمجھنا اور ادب میں اس کو برتنا بڑا مشکل کام ہے۔ ادبی واقعیت اور واقعاتی ادب کے درمیان بڑا تفاوت ہے۔ موخرالذکر کی قدر عارضی اور عصری ہوتی ہے اور ادبی واقعیت ایک مستقل قدر ہے۔
روس میں اشتراکی واقعیت کی باضابطہ اور پرشور تحریک اب سے کوئی بیس برس پہلے شروع ہوئی اور اس کی آواز بازگشت ہر ملک کے ترقی پسند طبقے میں گونجنے لگی، لیکن آج تک اس واقعیت کی تعریف وتعیین نہیں ہو سکی۔ ہم سے مبہم طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ اشتراکی واقعیت وہ میلان ہے جو اشتراکیت کی تعمیر میں مدد دے۔ مگر یہ تو بہت ہی غیر واضح تعریف ہے۔ سوویت روس کے مؤقر اخبار اور رسائل اشتراکیت کی تعمیر میں روز بروز حصہ لیتے رہے ہیں، مگر ان کو ادبیات کی صف میں جگہ نہیں ملےگی۔ برخلاف اس کے گورکی سے لے کر شولوخاف تک جتنے بڑے افسانہ نگار اور شاعر گزرے ہیں، ان کے کارنامے دنیا کے ادبیات میں قابل رشک نمونے ہیں، حالانکہ یہ تمام ادیب اور شاعر انقلاب سے پہلے کی روسی تہذیب کے بہترین عناصر اپنے اندر جذب کئے ہوئے تھے اور ان عناصر کونئی انقلابی قوتوں کے ساتھ سموکر انہوں نے اپنے ملک کی نئی تشکیل و تعمیر میں وہ حصہ لیا ہے جس کو انقلاب روس کی تواریخ کبھی بھلا نہیں سکتی۔
یہ لوگ صرف واقعہ نگار نہیں تھے، بلکہ ایک زبردست روایت عظمی کے سپوت اور وارث تھے۔ ہم کو اس سے بصیرت حاصل کرنا چاہئے۔ گورکی، الکسی ٹالسٹائی، کتیئف، گلیدکاف، لیونیف، شولوخاف، فیدین، جن کوسویت روس کے ممتازترین ادبی معمار کہا جائےگا، سب کے سب انقلاب سے پہلے کے تربیت یافتہ تھے اور ان ادبی دبستانوں سے براہ راست یا بالواسطہ تعلق رکھتے تھے جن کو رمزیت Symbolism اور عوامیت ٖPopulism کہتے ہیں اور ان دبستانوں کے زندہ اور صحت افزا اثرات ان تمام ادبی شخصیتوں کی بہترین تخلیقی کوششوں میں سرایت کئے ہوئے ہیں اور انہیں اثرات کی بنا پر جن کو باقیات الصالحات کہنا چاہئے یہ لوگ اتنے بڑے ادیب ہو سکے۔
ہمارے اس دعوے کا ایک سلبی ثبوت یہ ہے کہ شولوخاف کے بعد جو عرصہ سے عزلت گزینی اور سکوت اختیار کئے ہوئے ہے سویت روس میں کوئی اس حیثیت کا دوسرا افسانہ نگار نہیں پیدا ہو سکا جس کی آواز میں آفاقی تاثیر ہو۔ اس وقت روس میں جو ناول، افسانے یا منظومات لکھے جا رہے ہیں ان کی وقتی اہمیت مسلم، وہ سوویت روس، اس کے وچار مالا (نظام فکر) کی اشاعت اور ترقی میں بہت مددگار ثابت ہوں گے، لیکن وہ ادب کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ وہ زیادہ سے زیادہ صحافتی ادب کی صف میں نمایاں جگہ پا سکتے ہیں۔
جس نئی ادبی تحریک کو ہم اشتراکی واقعیت کہتے ہیں اس کا پہلا علم بردار گورکی ہی تھا جو ایک نسل پہلے ہی کی تمام ثقافتی اچھائیاں اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھا۔ وہ بڑا جری اور بڑھاپے میں بڑا جوان انسان تھا۔ اس نے انقلاب کو ایک مبارک تواریخی عمل سمجھ کے لبیک کہا اور اس کو فروغ دینے میں آگے آگے رہا۔ وہ جانتا تھا اور ڈنکے کی چوٹ اعلان کرتا تھا کہ انسان کی زندگی میں جتنی پستیاں اور افراد کے گفتار و کردار میں جتنی رکاوٹیں اور بےایمانیاں ہیں ان کی ذمہ دار وہ ہیئت اجتماعی ہے جس کی بنیاد ملکیت پر ہے۔ مگر وہ حال کے عارضی اور رفتنی اور گذشتنی میلانات اور مطالبات میں کھوکر رہ جانے والا انسان نہیں تھا۔ وہ اشتراکی واقعیت کا، جو اس وقت ترقی پسند دنیا میں سب سے زبردست ادبی لہر ہے، پہلا محرک اور پہلا مبلغ تھا۔ لیکن وہ خود اس واقعیت کی جو تعریف کرتا ہے وہ بہت بلیغ ہے۔
اس کی رائے میں اشتراکی واقعیت کا فرض یہ ہے کہ وہ انسان کو سعی وعمل کی حالت میں پیش کرے اور اس کا مقصد یہ ہوکہ انسان کے تمام بہترین انفرادی میلانات کو اجاگر کرے اور ان کی ترقی میں مددگار ثابت ہو، تاکہ انسان قدرت کے سارے عناصر پر فتح پاکر اس کرہ ارض کی زندگی کو ایک مسرت پائے جو اس کی روز بروز بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے مطابق خاطر خواہ بدل کر تمام بنی نوع انسان کے لئے ایک عظیم الشان مسکن بن جائے جس میں ساری دنیا کے لوگ ایک متحدہ کنبے کے طور پر خوش و خرم زندگی بسر کرسکیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس وقت جو طبقاتی عداوتیں اور باہمی جھگڑے ہو رہے ہیں ان کو ذاتی قربانیاں کرکے مٹایا جائے۔ لیکن بالآخر اشتراکیت کو انسانی اخوت اور انسانی شرافت کا پیغام ہونا ہے اور ادب اسی پیغام کا حامل ہے۔
اگر جانکو لاورین کا حوالہ صحیح ہے تو مرنے سے دو سال پہلے گورکی نے ایک گفتگو کے دوران میں کہا تھا، ’’میں چاہتا ہوں کہ ادب واقعات کی سطح سے بلند ہو اور بلندی سے واقعات پر نگاہ ڈالے، کیونکہ ادب کا مقصد اسباب کی عکاسی کرنے سے کہیں زیادہ وسیع اور اہم ہے۔ موجودہ واقعات اور اسباب کی مصوری ہی کافی نہیں ہے۔ ہم کو اپنی نئی امیدوں اور آئندہ ترقیوں کو بھی دھیان میں رکھنا ہے اور آئندہ ہم کو کیا کیا حاصل کرنا ہے؟ اور کیا کیا حاصل کر سکتے ہیں؟ اس سوال کو نظر انداز نہ کرنا چاہئے۔‘‘
ادب میں ایک غایتی میلان کا ہونا ضروری ہے۔ جو لوگ کہ ’’ادب برائے ادب‘‘ کی پکار لگائے ہوئے ہیں وہ تواریخ کو جھٹلا رہے ہیں اور ہم کو فریب دے رہے ہیں۔ انسانی تہذیب کی تاریخ میں کوئی بھی دور ایسا نہیں رہا جس میں ادب کی غایت زندگی نہ رہی ہو۔ انسان کی روز بروز بڑھتی ہوئی اور ترقی پذیر جسمانی نقل و حرکت کی طرح ادب کا بھی ہمیشہ یہی مقصد رہا ہے کہ وہ زندگی کی قوتوں کو نئی وسعتیں اور نیاکس بل دے کر اس کو پہلے سے زیادہ کامیاب اور خوشگوار بنائے۔ ادب کی سب سے پرانی اور سب سے اہم صنف شاعری ہے اور شاعری اول اول محض تفریح یا پناہ گزینی کے لئے وجود میں نہیں آئی۔ شاعری کے سب سے قدیم نمونے وہ بھجن اور گیت ہیں جو دیویوں اور دیوتاؤں کو راضی رکھنے کے لئے اور انسان کو ارضی اور سماجی آفتوں سے بچانے کے لئے بنائے گئے۔
شاعری کی ابتدا دیومالا اور سنسار مالا کے ساتھ ساتھ ہوئی۔ زندگی کی اشد ضرورتیں شاعری کی محرک ہیں اور زندگی کا تحفظ اور فروغ اس کا پیدائشی مقصد ہے۔ ادب ہر زمانے میں غایتی رہا ہے اور اس میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی مقصدی میلان پایا گیا ہے۔ چاہے میلان زمانے کے تقاضے کے مطابق فراریت ہی کا میلان کیوں نہ رہا ہو۔ فرق یہ ہے کہ پہلے یہ میلانات پوشیدہ طور پر کارفرما ہوتے تھے اوراب ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ادب کو علی الاعلان غایتی ہونا چاہئے۔ ہم سب ادب میں افادی عنصر کو محسوس طور پر نمایاں رکھنا چاہتے ہیں لیکن اس میں بڑا خطرہ یہ ہے کہ ادب کہیں محض خطبہ یا پروپیگنڈا ہوکر نہ رہ جائے۔
ادیب کا کام منطقی قیاس اور استدلال کے ساتھ اپنے نظریات اور عقائد کو ساری دنیا کے سامنے پیش کرنا نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ جن خیالات اور میلانات کو وہ زندگی کی صحت اور ترقی کے لئے ضروری سمجھتا ہے، وہ اس کے ادبی کارناموں میں لپیٹے ہوئے ہوں اور چھپ کر اپنا کام کریں۔ اسی لئے فریڈرک اینگلس، مناکاتسکی کے ناول Old & New پر اپنی رائے لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’مقصدی میلان کو بغیر کھلے ہوئے اشاروں کے، قصے کے واقعات اس کے افراد اور اس کی فضا سے خودبخود بے ساختہ اور غیر محسوس طور پر ابھرکر اثر ڈالنا چاہئے۔ اس کی ضرورت نہیں کہ مصنف اپنے خیالات اور عقائد کا ڈنکاپیٹ کر زبردستی پڑھنے والے پر اپنا اثر ڈالے۔‘‘
مارگریٹ ہارکنس کو اس کے ناول ’’شہر کی لڑکی‘‘(City Girl) کے متعلق خط لکھتے ہوئے اینگلس بہت صاف الفاظ میں کہتا ہے، ’’مصنف کے نظریات جس قدر پوشیدہ رہیں، فنکاری کے حق میں اسی قدر بہتر ہوتا ہے۔‘‘ ادب میں ایک بے ساختگی یا ظاہری بے غرضی کا ہونا ضروری ہے یہی وہ چیز ہے جو ادب کو پروپیگنڈا رکھتے ہوئے بھی پروپیگنڈا ہو جانے سے بچا لیتی ہے۔
اسی سلسلے میں آئیے ایک اور بحث کو بھی ختم کر دیا جائے۔ آج کل بورژوا اور پرولتاری کے فرق اور دونوں کے باہمی تضاد پر بھی بڑا زور دیا جا رہا ہے۔ ہم بے تکلف ادب کے سلسلے میں یہ دونوں اصطلاحیں استعمال کر رہے ہیں۔ حالانکہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کو بورژوا ادب کہا جائے اور کس کو پرولتاری ادب۔ اگر پرولتاری ادب سے مراد وہ ادب ہے جو مزدور یا کسان یا دونوں طبقوں کی کوششوں کانتیجہ ہو تو وہ ابھی تک وجود میں نہیں آیا ہے اور اس وقت تک وجود میں نہیں آ سکتا جب تک کہ سماج کی بنیاد طبقاتی تقسیم و تفریق پر ہے۔ ہم ابھی ایک خواب دیکھ رہے ہیں جو اس وقت سچ ہوگا جبکہ طبقے مٹ جائیں گے اور زندگی کے حقوق اور زندگی کی فراغتیں سب کے لئے یکساں مہیا ہوں گی اور جب ایسا ہو جائےگا تو بورژوا اور پرولتاری کی اصطلاحیں صرف لغت میں ملیں گی اور زندگی میں ان کے کوئی معنی نہ ہوں گے اس لئے کہ اس وقت غیرطبقاتی ہیئت اجتماعی وجود میں آ چکی ہوگی۔
اس وقت عام طور سے پرولتاری ادب سے مراد وہ ادب ہے جس کا موضوع کسانو ں اور مزدور ں کی محتاج اور پرآزاد زندگی کی کوئی حالت یا اس کا کوئی مسئلہ ہو اور ایسا ادب آج کل وہ ادیب پیدا کر رہے ہیں جن کا تعلق اعلیٰ یا ادنی درمیانی طبقے یعنی بورژوا جماعت سے ہے۔ روس میں آج تک جتنے اشتراکی ادیب پیدا ہوئے ہیں، ان میں سے زیادہ تعداد بورژوا جماعت سے واسطہ رکھتی ہے۔ ان کی ادبی کوششوں کا موضوع یقینا ًزندگی کی نعمتوں سے محروم ادنی طبقے کے بدحالی اور بدنصیبی ہے۔ یہ ادیب سرمایہ داری کے خلاف محنت کی برگزیدگی اور فوقیت کا نعرہ بلند کر رہے ہیں اور یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے، جو انسان کی زندگی کے لئے آئندہ خیر و برکت کی ضامن ہے۔ لیکن یہاں پھر ایک خطرہ محسوس ہوتا ہے۔
بورژوا طبقے کے بعض ادیبوں کے محسوسات اور افکار کا اگر اچھی طرح جائزہ لیا جائے تو اکثر انقلابی تصورات کے بھیس میں رجعتی ذہنیت چور کی طرح کام کرتی ہوئی ملےگی۔ ایسے چور میلانات سے ہم کو ہوشیار رہنا ہے۔ لنکا کی لڑائی یا کربلا کے معرکے میں انقلاب کا رنگ بھرنا یقیناً بڑا دغاباز میلان ہے۔ مگر دوسری طرف اس حقیقت سے انکار نہ کرنا چاہئے کہ بورژوا تہذیب اگرچہ اپنے مقصد کی تکمیل کر چکی ہے اور اب اس کا اپنی میعاد سے زیادہ زندہ رہنا انسانیت کا گلا گھونٹ رہا ہے۔ پھر بھی انسانی آزادی اور فراغت کے حصول اور انسان کی زندگی کو زیادہ مہذب اور جمیل بنانے میں بورژوا طبقے اور بورژوا نظام تمدن نے یادگار خدمتیں انجام دی ہیں۔
مہاجنی دور نے ہمارے لئے ایک ترکہ چھوڑا ہے جس کو فضول یا رائیگاں سمجھنا بڑی نادانی ہے۔ ہمارا فرض یہ ہے کہ اس ترکہ کو طبقہ اعلٰی کے پنجہ غضب سے نکال کر پوری سوجھ بوجھ کے ساتھ عوام الناس کی زندگی کی نئی ضرورتوں کو پورا کرنے میں اور ان کی فلاح و بہبود کے لئے بوجوہ احسن استعمال کریں۔ اس فرض کی طرف سے ہم میں سے بیشتر اس وقت بے پروا ہیں۔
آخر میں ہم کو ایک اور اہم تناقص کو سمجھنا اور سلجھانا ہے۔ اگر غور سے کام لیا جائے اور انصاف کو راہ دی جائے تو بڑی سہولت کے ساتھ اجتماعیت اور انفرادیت کا جھگڑا بھی چک جائے۔ آج ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ادب کو اجتماعی ہونا چاہئے اور انفرادیت کو ہم ایک مریضانہ میلان بتاتے ہیں۔ اگر اجتماعی سے مراد یہ ہے کہ ادب کو مروجہ سماجی نظام کا آئینہ ہونا چاہئے تو یقین مانئے کہ ادب ہر دور میں یہ فرض انجام دیتا رہا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اب تک سماجی نظام ایک ایسی اقلیت کا نظام رہا ہے جو زندگی کے تمام حقوق اور مواقع پر قبضہ کئے ہوئے بیٹھی رہی ہے۔ اب اجتماعی کو صحیح معنوں میں اجتماعی ہونا ہے۔ زندگی کی جتنی برکتیں اور جتنے محاسن ہیں وہ سب کو اس طرح میسر ہونا چاہئیں کہ ادنی اور اعلی، خواص اور عوام کا امتیاز باقی نہ رہنے پائے۔
یہ مطالبہ بڑا فطری مطالبہ ہے اور ہمارے نئے ادب کا یہ منصب ہے کہ وہ اس کو پورا کرے۔ اس احساس کی ابتدا پہلی جنگ یورپ کے بعد ہوئی۔ اس سے پہلے ادب کی تعریف یہ کی جاتی تھی کہ وہ زندگی کی ایک ایسی شبیہ ہے جو کسی ایک مزاج کے آئینہ میں نظر آئے۔ انفرادیت کی یہ بڑھی ہوئی لے ادیب کو یقیناً بہکانے والی ہے۔ باوجود اس کے کہ بیسویں صدی سے پہلے کا ادب بھی بےشمار تواریخی شخصیتیں اور غیرقانونی تخلیقی یادگاریں پیش کر چکا ہے، پھر بھی ہم کو یہ ماننا پڑےگا کہ اب تک ادب نام تھا اپنی ڈفلی اپنے راگ کا۔ دنیا کے بہترین ادبی اختراعات اب تک ’میں ‘ کے مظاہرے رہے ہیں۔ ’ہم‘ کا احساس ان کے اندر قریب قریب صفر رہا ہے۔ اب یہ ادیب یا فنکار کی اس خودمختاری کے قائل نہیں رہے۔
اب ہم پر یہ حقیقت روشن ہو چکی ہے کہ سچے اور پائیدار ادب کی ترکیب میں ’’ہم‘‘ کا احساس ایک مستقل اور اہم جزو ہے۔ لیکن ا س جگہ پر ہم کو ہوشیار رہنا چاہئے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ نئے ادب میں بھی اس انحطاطی میلان کا کچھ غلبہ ہی نظر آتا ہے جس کو انفرادیت کہتے ہیں۔ ’’میں‘‘ کا احساس آج بھی ہمارے ادبی اکتسابات میں چھایا ہوا ہے۔ یہ مجذوبانہ انفرادیت رنگ برنگ کے لباس پہن کر ہمارے سامنے آتی ہے۔ اس لئے اس کو پہنچاننے میں ہم عموماً د ھوکہ کھا جاتے ہیں۔ جس ادیب یا شاعر کو دیکھئے اپنی ایک دھن چھیڑے ہوئے ہے۔ گویا وہ جو کچھ لکھتا ہے اپنے لئے لکھتا ہے اور اس احساس سے بے نیاز ہے کہ دوسرے بھی اس کو سن رہے ہیں۔ ہمارے نوجوان ادیبوں کی اچھی خاصی تعداد اب بھی ماورائیت کا شکار نظر آ رہی ہے۔ ہم میں سے بہتیرے لکھنے والوں کا لہجہ بسااوقات آج بھی کشف والہام کا انداز لئے ہوئے ہوتا ہے۔
ہمارے اکثر نئے ادیبوں کے پاس دراصل کچھ کہنے کو نہیں ہوتا۔ لیکن وہ اس ’’کچھ نہیں‘‘ کو اپنے اسلوب کی جدت اور لفریبی سے بہت کچھ بناکر ہم کو دھوکے میں ڈال یتے ہیں۔ اس قبیل کے ادیبوں اور فنکاروں سے ہماری یہ گزارش ہے کہ کسی بے ہیئت اور بےقرینہ جذبے یا تصور کو تکلف اور تصنع کے ساتھ آراستہ اور پیراستہ کرکے پیش کرنا سب سے بڑی بے ایمانی ہے۔ تربیت یافتہ اور کھری انفرادیت کوئی عیب نہیں ہے، بلکہ زندگی کے اصلی اور مستقل عناصر میں داخل ہے۔ افراد کے شخصی وجود کی اہمیت سے انکار کرکے ہم انقلاب یا ترقی کا کوئی صحیح معیار نہیں قائم کر سکتے۔ لیکن ہر سنک کا نام انفرادیت نہیں ہے۔
میں اپنے مضمون ’’ادب کی جدلیاتی ماہیت‘‘میں مجمل طور پر اس خیال کا اظہار کر چکا ہوں کہ ادب کو مواد کے اعتبار سے اجتماعی اور اسلوب کے اعتبار سے انفرادی ہونا چاہئے۔ کسی ادیب یا فنکار کی شخصیت دراصل اس کے اسلوب میں نمایاں ہوتی ہے جو اس کودوسرے ادیبوں اور فنکاروں سے ممتاز کرتا ہے۔ ہمارے بیشتر نوجوان معاوین کی ادبی کاوشوں میں افسوسناک حد تک اسلوب کا فقدان محسوس ہوتا ہے۔ ہم اس وقت کارل مارکس کے ایک قول کو یاد دلانا چاہتے ہیں جو میگا حصہ اول جلداول میں شائع ہوا تھا، ’’میری اصلی ملکیت ہیئت یا صورت ہے۔ یہی میری روحانی فردیت ہے۔ اسلوب دراصل انسان کی شخصیت ہے۔ ہم قانوناً آزاد ہیں کہ جو چاہیں لکھیں، لیکن شرط یہ ہے کہ اسلوب اپنا ہو۔‘‘
یہ اپنا اسلوب زندگی اور ادب دونوں میں ایک خوشگوار تنوع پیدا کئے رہتا ہے جس کے بغیر زندگی ریگستان ہوکر رہ جائےگی۔ فرض کیجئے کہ میرا میلان مزاح نگاری کی طرف ہے اور فرض کیجئے کہ سماج کا بنایا ہوا قانون مجھے مجبور کرے کہ میں ’’الم نامے‘‘ (Tragedies) لکھوں تو کتنی غلط بات ہوگی اور میں کتنی غلط چیزیں پیدا کروں گا۔ آخر ہم ہر گلا ب کے پھول سے تو یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ وہ بالکل ایک متداولہ نصاب اور نمونے کے مطابق ہو۔ اگر قدرت سے یہ مطالبہ نہیں کیا جا سکتا تو ادیب کو یہ حکم دینا صریحاً ظلم ہوگا۔
غرض کہ اس وقت زندگی اوراد ب میں نئی اور پرانی قدریں بری طرح خلط ملط ہیں۔ ادب قدیم اور جدید میلانات کا ایک گورکھ دھندا بنا ہوا ہے اور ہم کو اس پر نکتہ چینی کا حق اس لئے نہیں ہے کہ ا س وقت دنیا ایک شدید بحرانی اور تشنجی دور سے گزر رہی ہے اور بیماری اورصحت دونوں کی علامتیں لئے ہوئے ہے۔ ہم کو بہرحال آگاہ اور چوکنا رہنا ہے۔ اس وقت ضرورت اس کی ہے کہ صحت بخش اور حیات آفریں میلانات اور تصورات کو ان نئے میلانات اور تصورات کے ساتھ جو محض بے معنی اور لاحاصل بدعتیں نہ ہوں، ملاکر ایک نیا مرکب پیدا کیا جائے جو زندگی کی قوتوں کو فروغ دے اوران میں نئی رسائیاں پیدا کرے۔ انسان کو نہ پھر حیوان ہونا ہے نہ فرشتہ بننا ہے، بلکہ دور بدور پہلے سے زیادہ مہذب اور حسین انسان بنتے جانا ہے۔
ادب کا کام یہ ہے کہ انسانیت کی اس بےحد اور بے نہایت تہذیب و تحسین میں ہر لحاظ سے مددگار ثابت ہوا اور اس کے لئے کسی رومان نگار کی تخئیل بھی اسی قدر اہم ہے جس قدر کہ کم سے کم اجرت کے لئے کوئی اقتصادی عملی تحریک۔ اصلی معنوں میں انسانی دنیا وہی ہوگی جس میں تمام خارجی داخلی اختلافات حل ہوکر ایک آہنگ بن جائیں اور رومانیت اور واقعیت، مادیت اور تصوریت باہوں میں باہیں ڈال کر آگے بڑھیں اور ایک دوسرے کے راستے میں خلل انداز نہ ہوں بلکہ باہم رفیق اور سازگار رہیں۔ ہم اقبال کی شاعری کو مجموعی حیثیت سے رجعتی کہیں یا ترقی پسند لیکن ہم کو چاہئے کہ ان کے اس شعر کو اچھی طرح سمجھ کر زندگی اور ادب دونوں میں اپنا دستورالعمل بنائے رہیں۔
دلم بدو ش و نگاہم بہ عبرت امروز
شہید جلوہ فردا و تازہ آئینم
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.