Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ناراضگی کی نفسیات

عاقل زیاد

ناراضگی کی نفسیات

عاقل زیاد

MORE BYعاقل زیاد

    منصوبے کی راہ میں رکاوٹ ناراضی کی نفسیات کو جلا دیتی ہے۔خواہشوں کی تکمیل میں کیے جانے والے عمل کے دوران ناکامی سے مایوسی اور مسلسل مایوسی سے بیزاری پیدا ہوتی ہے۔ بیزاری وہ کیفیت ہے جو بعض اوقات نفرت اور بسا اوقات ناراضگی یا حسد کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ ممکن ہے ناراضگی کا سبب بدگمانی،ہٹ دھرمی،معاندانہ سلوک، اختلاف رائے وغیرہ جیسے رویے ہوں پھر بھی ناراضگی کی نفسیات ایک حل طلب مسئلہ ہے۔ ناراض رہنے والا شخص حتمی اقدام سے گریز کرتا ہے جبکہ بیزار رہنے والا شخص کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ظاہر ہے ناراضگی دماغ کی ایک عارضی کیفیت ہے جبکہ بیزاری کے اثرات دیر پا ثابت ہوتے ہیں۔ ہوسکتا ہے بدگمانی یا کسی ناپسندیدہ واقعہ کے سامنے آنے پر اس کا ردعمل ناراضگی یا غصے کی شکل میں ظاہر ہو لیکن بیزاری کسی عمل کے مسلسل اعادے سے پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً کوئی انسان کسی کی بات یا اس کی حرکت سے چڑتا ہے اور ممکنات کی حدتک وہ ضبط بھی کرتا ہے۔ کبھی ایسا بھی دیکھا جاتا ہے کہ چڑنے والا چڑانے والے سے بچنے کے لئے کہیں اور منتقل ہوجاتا ہے۔ پھر کچھ عرصہ بعد وہ اپنی جگہ واپس آ تا ہے اور پھر اسے اسی شخص کے پرانے رویے کا سامنا ہوتا ہے۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس کی حالت میں کیا تبدیلی آسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے وہ شخص بالکل شانت ہوجائے یا پھر ایکدم سے بپھر جائے۔ دونوں حالتوں کی الگ الگ وجہیں ہوسکتی ہیں مگر ان حالات میں خود اعتمادی ایک مشترک رویہ ہے جس کی وجہ سے چڑنے والا شخص ہوسکتا ہے چڑانے والے کو بیوقوف سمجھنے لگے اورخاموشی اختیار کرلے، اسی کی ہنسی اڑائے یا یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی گردن ہی دبوچ لے۔ اس کا دارومدار انسان میں خود اعتمادی کی سطح پر منحصر ہے۔

    خود اعتمادی اور انا پسندی ایک دوسرے سے مختلف بھی ہے اور متوازی بھی۔ جس شخص میں خود اعتمادی یا قوت ارادی کی سطح جس قدر بلند ہوگی انانیت اسی قدر کمزور ہوگی۔اس کے برعکس انا پسندی کی سطح اگر اونچی ہے تو یقینا وہ شخص جذباتیت سے مغلوب ہوگااور اس سے پہلے کہ وہ کوئی فیصلہ کر پائے جذباتیت اس کے اعصاب پر ظاہر ہونے لگے گی۔اس ضمن میں انسان کی پرورش و پرداخت، ماحول، معاشرہ، تربیت، طرز رہائش، ذہنی فعالیت، وسائل کی فراہمی یا عدم دستیابی جیسے امور کا مطالعہ و مشاہدہ ضروری ہے۔ متذکرہ امور شخصیت سازی کی راہ میں آنے والے وہ سنگ میل ہیں جنہیں کسی طرح نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان امور کی بناپر انسان میں انا (EGO)درجہ بدرجہ پروان چڑھتا ہے اور اسی کے ذریعہ شخصیت کی مختلف سطحیں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ اس طرح انا پسندی کی سطح ناراضگی کی حالت کا پتا دے سکتی ہے اور اس کے ذریعہ اسے سمجھنا آسان بھی ہو سکتا ہے، مگر خیال رہے یہ کوئی حتمی پیمانہ نہیں بلکہ انا پسندی اگر وجہ ناراضی ہے تو خود اعتمادی یا دوسرے لفظوں میں قوت ارادی کے زور سے اسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ گویا ناراضی کی نفسیات کا انحصار خواہش، امید، ناکامی، مایوسی، بیزاری، حسد، غصہ، پختہ ذہنی اور ذہنی ناپختہ کاری (طفلانہ سوچ) جیسے نکات پر منحصرہے اور اس لئے ناراضی کی نفسیات کو سمجھنے کے لئے ان نکات کو زیر غور لانا لازمی ہے۔

    خواہش: خواہش سے مقصد کا نمو ہوتا ہے اور مقصد زندگی جینے کی ترغیب دیتا ہے۔اگر زندگی کسی طور بے مقصدیت سے ہم رشتہ ہے تو پھر وہ زندگی تحریک سے یکسر خالی ہے۔ حیوانوں اور حشرات الارض کی زندگیاں ان تمام احساسات سے مبرہ ہیں اور اس لئے وہ جینے کے لئے مار سکتے ہیں مگر ان میں زندہ رہنے کے لئے مرمٹنے کی کوئی تحریک نہیں پائی جاتی۔سماجی زندگی کا نظریہ اپنی جگہ ایک حقیقت ہے اور پرندوں سے لے کر رینگنے والے چھوٹے بڑے جاندار اور حیوانوں تک میں سماجی نظام کا ایک ڈھانچہ قائم ہے، تاہم ان میں انسانوں کی طرح منصوبہ بندی نہیں ہے۔ اس لئے جہد زندگی کے تمام آثار و اشارات موجود ہونے کے باوجود ان کے دماغ میں خوراک اور جنسی آسودگی سے الگ کوئی اور مقصد نہیں پلتا۔ مگر انسانی دماغ منصوبوں کی تعمیر و تشکیلات کی آماجگاہ ہے جس میں ہر آن تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔ مقصد کے بر آنے سے خوش ہونا فطری عمل ہے اور اس کے برعکس نتائج سامنے آنے سے اضطرابی کیفیت بھی عین فطرت ہے۔

    خواہشوں کے مدارج اور اس کے تعین قدر کا محاسبہ کیا جاسکتا ہے، اس طرح اسے مضبوط، کمزور اور معمولی خواہش کے خانوں میں رکھ کر مقصد کی بازیابی کی راہ میں کی جانے والی کوششوں کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔ کبھی کبھی نیند کی حالت میں بھی انسانی دماغ منصوبے بناتا ہے کہ آخر وہ اپنے مقصد کو کس طرح حاصل کرسکتا ہے۔ منصوبوں کی بازیابی کی راہ میں آنے والی مشکلات سے اس کا دماغ حقیقت و ابہام کی حد تک بیدار رہتا ہے اور حسب ضرورت بالواستہ یا بلا واستہ وہ ان مشکلات سے پار پانے کی کوشش کرتا ہے۔ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پے دم نکلے، ممکن ہے اس عرصہ میں انسان خلوت پسندی اختیار کرلے، تاہم اسے ڈپریشن(پژمردگی)کے زمرے نہیں رکھا جاسکتا کہ یہ الگ نکتہ ہے اور اس پر ایک الگ بحث درکار ہوگی۔

    امید: زندگی امید کے ساتھ اس طرح وابستہ ہے جیسے جان جسم سے۔ امید ہے تو منصوبہ ہے، مقصد ہے، جوش ہے اور اگر یہ نہیں تو زندہ ہوتے ہوئے بھی جذبات سے عاری انسان کا تصور کسی قدر پریشان کن ہی ہوسکتا ہے۔ امید و ناامیدی کے درمیان دماغ کی حالت کچھ ایسی رہ سکتی ہے کہ جھنجھلاہٹ اس کی عادت بن جائے۔اس مسلسل جھنجھلاہٹ کے سبب قطع کلامی اور سلوک وبرتاؤ کے معاملے میں اصول و ضوابط کی ان دیکھی ہو سکتی ہے۔باوجود اس کے امید ایک توانائی ہے جس سے زندگی کی راہیں روشن رہتی ہیں۔

    نہ کوئی وعدہ،نہ کوئی یقیں نہ کوئی امید/ مگر ہمیں تو ترا انتظار کرنا تھا۔

    یہاں زندہ رہنے کی چاہت (Will to live) میرا موضوع نہیں ہے، تاہم زندہ رہنے کے لئے جو شے سب سے زیادہ تحریک دیتی ہے وہی امید ہے۔ علاج کے دوران ڈاکٹر اگر زندگی سے مایوس انسان کو یقین دلانے میں کامیاب ہوجائے کہ اس کا زندہ رہنا نہایت ضروری ہے اور یہ امید جب اس میں جاگ جاتی ہے تو علاج آسان ہوجاتا ہے۔دنیا کے عجائب الواقعات(Adventures) پر نظر ڈالیں تو ایسی بے شمار مثالیں مل جاتی ہیں کہ آدمی دریاؤں، پہاڑوں، جنگلوں، صحراؤں کی تمامتر صعوبتوں کے ساتھ ہر لمحہ موت سے متصادم رہا اور بالآخر اس نے موت کو شکست دے دی۔ اور یہ اس لئے ممکن ہوا کہ اس میں امیدکی موجیں موجزن تھیں۔

    ناکامی: مقاصد کے حصول کے لئے کی جانے والی کوششوں میں کامیابی اور ناکامی دو مقام آتے ہیں۔ کامیابی کا مزہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں سرشاری ہوتی ہے مگر ناکامی کی کیفیت بہت کثیف اور تناؤ سے بھری ہوتی ہے۔ پرانی روایت ہے انسان اپنی ناکامیوں سے سیکھتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں، کامیابی کی راہ میں ناکامیاں بہترین راہنما ثابت ہوتی ہیں۔ سماج و سیاست ہی نہیں تاریخ میں بھی ایسے واقعات بھرے پڑے ہیں جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ مگر انسان کا دماغ شاید رد و قبول کی حد سے واقف ہے اور اس لئے مسلسل ناکامی سے اس کا دماغ سست روی کا شکار ہوسکتا ہے یا پھر بہت زیادہ انفعالیت کا مرتکب۔ سست روی کی حالت ہو یا انفعالیت کی دونوں ہی حالتیں دماغ کو کم یا زیادہ متاثر کرسکتی ہیں اور اس کے نتائج برے ہوسکتے ہیں۔ ہاں اگر خود اعتمادی کا معیار بلند ہوتو پھر اس کی نوعیت کچھ اور ہی ہوسکتی ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اچھا خاصہ ایک بزنس مین سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر راہ حق کا مسافر بن جاتا ہے۔ غم رم نہ کر سم غم نہ کھا کہ یہی ہے شان قلندری۔ اس سے الگ کبھی اس تجربہ سے بھی روبرو ہونے کا موقع ملتا ہے کہ سب کچھ لٹ جانے کے بعد انسان پھر سے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور ترقیاتی زندگی میں دوبارہ قدم رکھ کر احساس محرومی سے نجات پانے کوشش کرتا ہے۔ یقینا انسان کے پاس جب کھونے کے لئے کچھ نہیں رہ جاتا، اس کا احساس حمیت اسے قوت دیتا ہے۔

    مایوسی: بسااوقات ناکامی یا شکست تسلیم کرلینے کے بعد شخصیت پر افسردگی کا رنگ اتر آتا ہے۔ یہ رنگ قلیل مدتی ہوسکتی ہے اور طویل مدتی بھی۔ ظاہر ہے اس کا دار ومدار انسان کی انا یعنی ایگو پر منحصر ہے۔ اس پر قابو پانا آسان ہے اگر ساحر کے اس شعر پر توجہ کی جائے۔ غم اور خوشی میں فرق نہ محسوس ہو جہاں / میں دل کو اس مقام پہ لاتا چلا گیا۔ میرا بس چلتا تو آخری مصرعے کو اس طرح کہتا ؎میں ذہن و دل کو ساتھ ملاتا چلاتا گیا۔ واضح ہے کہ ہر قسم کے احساسات کا ذمہ دار دماغ ہے، ظاہر ہے فیصلے کا حق بھی دماغ ہی کا ہے۔ لیکن بیشتر اقوام کی لسانی تہذیبوں میں دل کو جذبات سے جوڑ کر برتنے کی روایت ہے اس لئے یہاں مافی الضمیر کے اظہار کے لئے اس کی رعایت کا لحاظ رکھا جارہا ہے۔ اس سے اختلاف نہیں کہ مایوسی کا رنگ ناامیدی سے پیدا ہوتا ہے۔ جب تک امید باقی ہے حوصلے کا ساتھ رہتا ہے مگر جب ناامیدی دماغ میں گھر کر نے لگتی ہے تو نفرت جگہ پانے لگتی ہے، بددلی میں اضافہ ہونے لگتا ہے اور اس کی شدت کبھی کبھی اتنی تیز ہوتی ہے کہ امید برآنے پر نفرت میں کمی نہیں آتی۔ بہرحال، مایوسی ایک بہت بری کیفیت ہے جس سے خدائے بزرگ بھی اپنے بندوں کو دور رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ اس سے شخصیت تو مضمحل ہوتی ہی ہے شکل و شباحت پر بھی پژمردگی سی چھانے لگتی ہے۔

    بیزاری: احباب، اقربا،سماج یا خود اپنے ہی عادات و اتوار سے کبیدہ خاطر رہنا بیزاری کی وجہ بن سکتی ہے۔ یقینا انا پرستی دماغ کی وہ کیفیت ہے جو زندگی کا سمت متعین کرتی ہے اور خود اعتمادی کے ذریعہ اسے قابو میں لایا جاتا ہے۔ انانیت کی بلند سطح اگر انسان کو بیزاری کی طرف مائل کرتی ہے تو خود اعتمادی کے زور پر اسے اعتدال پر لایا جاسکتا ہے۔انانیت میں کوئی برائی نہیں ہے اور نہ ہی اسے منفی طور لیا جاتا ہے بلکہ حساسیت اور انانیت دونوں متوازی کیفیات ہیں۔ ایک دھندلی سی کیفیت، بعض اوقات اس کا اظہار بہت خفیف ہوتا ہے مگر یہ انڈر کرنٹ کی طرح چلتا رہتا ہے۔ تحفے یا اعزاز قبول کرتے ہوئے رسمی طور پر تکلف کے اظہار کو انانیت سے تعبیر کیا جائے یا حساسیت سے کیا فرق پڑتا ہے۔ مگر اسی رسم کے عدم اظہار سے جو تکدر پیدا ہوتا ہے اسے بیزاری کہا جاسکتا ہے۔بیزاری کو مختصراً اظہار میں لانا ذرا مشکل ہے، تاہم زندگی کی یک رنگی، احباب کا بے جا تکلف، بخل و بے جا تصرفات، شخصیت کے اظہار میں تجاوز، کسی کا مسلسل اشتیاق اور اس کے بدلے بے اعتنائی وغیرہ ایسی بہت سی مثالیں ہیں جن سے بیزاری پیدا ہوتی ہیں۔ایک مدت تک ایسے حالات سے گزرتے رہنے سے انسان کے اندر بیزاری یا بددلی پیدا ہونا فطری عمل ہے۔ اس پر بذات خود قابو پانا قدرے دشوار ہے کیوں کہ جن عادات و اتوار کے سبب اس کا نمو ہوتا ہے اس پر خود اس کا کنٹرول نہیں ہوتا۔ لہٰذایہ سمجھا جاسکتا ہے کہ جس سبب سے بددلی پیدا ہوئی اس کے وجہ ارتکاب سے مخالف عمل کی توقع کی جائے۔

    حسد: رقابت اور حسد دونوں کو ایک دوسرے کے مترادف کے بطور استعمال کیا جائے تو کوئی قباحت نہیں۔دیگر تمام داخلی کیفیات کے مقابلے حسد زیادہ متحرک و مستعمل ہے۔ شایداس کی وجہ یہ ہے کہ مادی اور مقابلہ ذاتی دور میں حسد بھی انسان کے شانہ بہ شانہ سرگرداں رہنے والا احساس ہے۔بہت مشہور فقرہ ہے ’بنا ہے شاہ کا مصاحب چلے ہے اتراتا‘ دماغ کی اس کیفیت کی حدت کو تب بھی محسوس کیا جاتا تھا جب ایک تہذیب تشکیل کے مرحلے میں تھی۔آج ترقی یافتہ دور میں بھی اس کی گرماہٹ اور شدت میں وہی تیزی ہے۔اس کی دوسری مثال ’سنگ سنگ گائے چرائے کرشنا ہوا بھگوان‘ دراصل حسد احساس کی وہ سطح ہے جہاں کینہ پروری کا تخم نمو پانے لگتا ہے۔ ممکن ہے اس کا وجود بہت مختصر مدت کیلئے ہو، تاہم ایک ہی شعبہ میں ساتھ چلنے والے جب آگے نکل جاتے ہیں تو ایسی صورت پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس میں ہار جیت کا مسئلہ نہیں بلکہ حق بہ حقدار رسید سے بالکل الٹ مسئلہ ہے، ظاہر ہے کسی نااہل کا انتخاب اس احساس کو پروان چڑھاتا ہے۔ اس سے ممکنات کی حد تک گریز کرنا ہی دانشمندی ہے کیوں کہ یہ وہ احساس ہے جو انسان کو اندر ہی اندر کھوکھلا اور بے ظرف بنا دیتا ہے۔

    غصہ: دماغ کی تشکیل میں معاشرے اور ماحول کا بڑا ہی اہم کردار ہے اور اس کی سطح میں یکسانیت کا پایا جانا قدرے محال ہے،کیوں کہ دماغ داخلی اور خارجی تمام طرح کے اثرات کے رد و قبول کا محور ہے۔انہیں اثرات کے تحت دماغ فیصلے کرتا ہے جس سے سکوت و انتشار کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے۔ اسے اس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ مثبت اثرات قبول کرنے کی صورت میں آسودگی اور منفی اثرات کی صورت میں بے کیفی پیدا ہوتی ہے۔ بے کیفی مرحلہ وار اکتاہٹ اور بے چینی میں اضافہ کرتا ہے اور اس کی شدت میں مسلسل اضافہ دماغی توازن میں انتشار کا موجب بن جاتا ہے۔ناکامی اور مایوسی سے پیدا ہوئی سراسیمگی انتہا تک پہنچ جائے تو ماحول و معاشرے سے موصول ہونے والے اثرات سے منفی تفکرات کا زور بڑھنے لگتا ہے جو ہر طرح سے دماغی خلجان (بے اعتدالی) کا سبب بنتا ہے۔ لہٰذا یک رخی سوچ کے مرکتب انسان میں بیزاری اس حد تک پہنچ جاتی ہے وہ حتمی اقدام کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔

    پختہ ذہنی: ترقی یافتہ ذہنوں میں ناراضگی کی گنجائش بہت کم رہتی ہے کیوں کہ مصلحت یا مصالحت پسندی اس کی فطرت ہوتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ذمہ داری کا احساس اسے مثبت فکر اور متوازن رویے کی راہ پر گامزن رکھتا ہے۔ یہ وہ دماغی قوت ہے جس کی وجہ سے کسی نازیبا برتاؤ یا ناپسندیدہ واقعہ سے دلبرداشتہ ہونے کے بجائے وہ مصالحت پسندی اور مصلحت کوشی کو ترجیح دینے پر قادر ہوتا ہے۔ ناگزیر حالات میں اس کی ناراضگی کا گھر، دفتر اور سماج میں بھی تذکرہ ہونے لگتا ہے۔ پختہ ذہنی انسان کو باوقار قائد اور راہنما تک بنانے میں معاون ہے۔ اس کے برعکس کچھ لوگ شاطرانہ مزاج کے حامل ہوتے ہیں اور اپنے مفادات کے حصول میں وہ کسی طور تجاوز سے بھی گریز نہیں کرتے۔ کبھی جب ان کے مقابل کوئی کھڑا ہوتا ہے اور ان کی چالبازیوں سے پردہ اٹھا تا ہے تو سراسیمگی اور خجالت کی وجہ سے ان میں انتقام جیسے جذبے نمو پانے لگتے ہیں۔ایسے لوگ اس وقت تک دماغی خلجان کے شکار رہ سکتے ہیں جب تک وہ اپنے ہدف کو حاصل نہیں کرلیتے۔

    ذہنی نا پختہ کاری: تقریباً ہر معاشرے میں بچے اور بوڑھے کو ایک نظر سے دیکھنے کی پرانی روایت ہے۔ اس کی وجہ شاید دونوں میں اپنے مفادات کی بازیابی کی فکر زیادہ رہتی ہے۔ ایک بچے کی سمجھ کا دائرہ اتنا محدود ہوتا ہے کہ وہ اپنی مطلوبہ چیزوں میں دوسرے کے دخول کا متحمل نہیں ہوتا۔اسی طرح ایک بوڑھا انسان جو خود کسی چیز کو حاصل کرنے سکت نہیں رکھتا، احساس محرومی کے سبب حاصل شدہ چیزوں میں کسی کی مداخلت سے کبیدہ خاطر (ناراض) رہتا ہے۔ ایسی کیفیت بالغ العمری اور فعال العمری میں بھی دیکھی جاتی ہے۔ اس صورت میں اس مرض کی جانب واضح اشارہ ملتا ہے جس میں جسمانی و ذہنی ترقی میں توازن قائم نہیں رہتا یعنی عمر آگے نکل جاتی ہے اور دماغ پیچھے رہ جاتا ہے۔ میڈکل سائنس کی رو سے ہارمونل ڈس آرڈر کے بموجب یہ ایک بیماری ہے جو پیدائش کے وقت ہی سے شروع ہوجاتی ہے اور اس کا علاج بھی شاید ممکن ہے۔

    کبھی ایسے لوگ بھی رابطے میں آجاتے ہیں جو خود آپ ہی سے ناراض ہوتے ہیں اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انہیں اپنے زندہ رہنے کا افسوس ہے۔ایسے حالات کا ذمہ دار بہت سارے عوامل ہوسکتے ہیں جن میں امید و ناامیدی، ناکامی اور مایوسی کے علاوہ حسد و کینہ پروری کا کردار نمایاں ہے۔ ایسے لوگ اضمحلالی کیفیت میں مبتلا رہتے ہیں اور اس سے ابرنے کی ترکیب انہیں کسی طور سجھائی نہیں دیتی۔ کیوں کہ ان کی سوچ کا دائرہ محدود ہوجاتا ہے اور قوت ارادی ان کے اندر دم توڑ چکی ہوتی ہے۔ ایسے ملامتی کیفیات کو اوڑھ کر جینے والوں کے ماضی میں جھانکنے کی کوشش کی جائے تو احساس جرم، احساس گناہ یا احساس محرومی جیسے حالات سے پردہ اٹھتا نظر آتا ہے۔اس کی تلافی کی کوششوں میں ایسا انسان سودائی، صحرائی یا حد درجہ مذہبی بھی ہوسکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں وہ نفسیاتی مریض کی صورت کبھی شانت تو کبھی باولا نظرآسکتا ہے۔ایسے انسانوں میں اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ سب کچھ بھول سکتا ہے لیکن وہ ایک احساس جو اس کے دماغ کو اضطراب سے دوچار رکھتا ہے نفسیاتی مرض میں مبتلا رکھنے کے لئے کافی ہے۔

    اخیر میں ایک بار پھر موضوع گفتگو ’ناراضگی کی نفسیات‘ پر توجہ کی جائے تو لفظ ’راضی‘ اگر حمایت ہے ’ناراضی‘ مخالفت ہے۔مگر اس کے نفسیاتی افہام و تفہیم میں سر دست جو بھی عوامل سامنے آئے اس پر مقدور بھر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ باوجود اس کے کہا جاسکتا ہے کہ تمام ذہنی و جسمانی تغیرات کے لئے ایک زندہ جسم ضروری ہے۔ ایک تندرست جسم میں ہی تمام طرح کے ہارمونز موجود ہوتے ہیں جس سے زندگی کا نظام قائم ہے۔ گویا دماغ اگر راجا ہے تو جسم اور جسمانی اعضا ایسی رعایا ہے جو صرف احکامات کے تابع ہوتی ہے۔ہاتھ جلانے سے پہلے دماغ یہ فیصلہ صادر کرچکا ہوتا ہے کہ یہ ایک تکلیف دہ مرحلہ ہے۔ باوجود اس کے اگر وہ اس عمل کی جانب حکم دیتا ہے تو دماغ کی مختلف حالتوں کو جاننا ضروری ہوجاتا ہے۔تجزیاتی سطح پر دیکھا جاسکتا ہے کہ خواندہ سماج میں لڑائی جھگڑے، خود کشی اور قتل جیسے واقعات نسبتاً کم پائے جاتے ہیں۔جرائم اور واردات کی بات نکلی تو اس سچائی کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ مہذب سماج میں واقعات کم رونما ہوتے ہیں اور واردات زیادہ۔ اس موضوع پر الگ سے بحث کی ایک بڑی گنجائش ہے، تاہم صحت مند جسم سے ایک صحت مند دماغ کا تصور مشکل نہیں ہے اور اس طرح ایک صحت مند معاشرہ کے نمائندگان کی زندگیاں بہت آسان ہوسکتی ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے