نشاۃ الثانیہ میں جمالیاتی افکار
تقریباً ایک ہزار سال کی گہری نیند کے بعد چودھویں صدی میں یورپ بیدار ہونا شروع ہوا۔ اس براعظم کو پوری طرح بیدار ہونے میں تقریباً تین صدیاں لگیں۔ بیدار ہونے کے اس زمانے کو ہم نشاۃ الثانیہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ بیداری کا یہ عمل شروع میں آہستہ تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ عمل تیز تر ہوتا گیا اور سترھویں صدی میں یورپ نے دورِ جدید میں قدم رکھا۔ یورپ کی اس بیداری کی مختلف وجوہ تھیں۔ روما کے زوال کے بعد یورپ تباہی کی آخری منزل تک جاپہنچا تھا۔ اس منزل تک جس کے آگے راہ مسدود تھی۔ قدرتی طور پر اب اسے واپس لوٹنا تھا۔ اس واپسی میں بہت سے داخلی اورخارجی اسباب اور حالات نے اس کی مدد کی۔ ان اسباب میں سب سے بڑا سبب وہ تھا جس کا اعتراف کرتے ہوئے اہل یورپ ابھی تک کچھ ہچکچاتے ہیں۔ اور یہ سبب تھا اہل یورپ کا مسلمانوں سے تعلق پیدا ہونا۔
آٹھویں صدی میں مسلمان فاتحانہ طور پر یورپ میں قدم رکھ چکے تھے۔ ہسپانیہ میں سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے بعد انہوں نے اس ملک کو علم و فن کا گہوارہ بنایا اور تعلیم عام کی۔ ہسپانیہ کے مدارس میں تعلیم پائے ہوئے عیسائیوں اور یہودیوں نے جنوبی اور مغربی یورپ میں علم کی روشنی پھیلانی شروع کی۔ بعض مقامات اور یونیورسٹیاں اسلامی علوم کے مرکز بنے۔ ان میں طالیدہ، نیپلز۔ بولونا اور پاڈوا کی یونیورسٹیاں خاص طور پر مشہور ہیں۔ روم کا شہنشاہ فریڈرک ثانی اسلامی علوم کا شائق اور مسلم مفکرین سے بہت متاثر تھا۔ اس نے ان علوم کی اشاعت میں کافی کوشش کی۔ اہل یورپ کے لیے ان علوم نے مسیحائی کا کام کیا اور یورپ کے تن مردہ میں جان آنی شروع ہوئی۔ صلیبی جنگوں نے یورپ کے عوام کو مسلمانوں سے ملنے کے مواقع مہیا کیے۔ اور ان کے دل میں اپنے اور مسلمانوں کے عام حالات کا مقابلہ کرنے کا خیال پیدا ہوا۔
۱۴۵۲ء میں مسلمانوں نے قسطنطنیہ کو فتح کیا۔ وہاں کے اکثر عیسائی عالم اور مفکر یورپ کے دوسرے ممالک میں منتقل ہوگئے۔ اور اپنے ساتھ یونانی علوم و فنون کا ذخیرہ بھی لیتے گئے۔ نتیجۃً یورپ کے ان ممالک میں یونانی علوم کی طرف اور زیادہ توجہ مبذول ہونا شروع ہوگئی جس کی ابتدا مسلمانوں کے اثر کی وجہ سے پہلے ہی سے ہوچکی تھی۔ علم کی روشنی ایسی روشنی ہے جو دل و دماغ کو منور کردیتی ہے۔ یورپ میں ایک طرف علم و ادب کی ترقی کی طرف قدم بڑھایا گیا اور دوسری طرف فنونِ لطیفہ پر توجہ مبذول کی گئی۔ مختلف علوم نے تو آہستہ آہستہ ترقی کی۔ لیکن بعض فنونِ لطیفہ صرف کچھ عرصے میں اپنی انتہائی بلندیوں تک پہنچ گئے۔ جہالت کی تاریکی کم ہوتے ہی مذہب میں بھی اصلاحی تحریکیں اٹھیں اور انہوں نے عمل اور ردِّعمل کے اصول کے تحت عوام کو اور زیادہ آگے بڑھایا اور علم و ادب کی ترقی کا موجب بنیں۔ بہرحال یہ چیزیں خاص طور پر قابلِ غور ہے کہ یہ تمام تحریکیں ان علوم کانتیجہ تھیں جو اہل یورپ نے مسلمانوں سے حاصل کیے تھے۔
ان حالات کے علاوہ کچھ اور بھی اسباب تھے جنہوں نے یورپ کو بیدار ہونے میں مدد دی۔ قسطنطنیہ فتح ہوجانے کے بعد مشرق سے تجارت کے لیے نئے راستے تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس طرح ایک طرف امریکہ دریافت کیا گیا اور دوسری طرف ہندوستان کا ایک نیا راستہ معلوم کرلیا گیا۔ چھپائی اور بارود کی ایجاد کافی دور رس نتائج کی حامل ثابت ہوئی۔ طبی علوم کی ترقی نے لوگوں کی فکر کاانداز ہی بدل دیا۔ کوپرنیکس۔ کیپلر اور گیلیلیو نے فلکیات کو ترقی دی۔ فرانسس بیکن نے مشاہدہ اور تجربہ کو علم کی بنیاد قرار دیا۔ جس کی وجہ سے تنقید نے تقلید کی جگہ حاصل کرلی۔ قومی زبانوں نے ترقی شروع کی۔ قرونِ وسطیٰ میں اہل علم کی زبان لاطینی تھی اور عوام اس سے محروم تھے۔ عوام پر تو اس زمانے میں علم کے دروازے ہی بند تھے۔ اور ان پر گرجا کے ٹھیکیداروں کا پہرہ تھا۔
نشاۃ الثانیہ میں ذہن کی بیداری کے ساتھ ساتھ قومی زبانوں کی ترقی کی طرف بھی دھیان دیا گیا تاکہ عوام بھی علم و ادب سے مستفید ہوسکیں۔ اٹلی میں دانتےؔ، پڑارک اور کیچیو نے یونانی اور لاطینی زبانوں کے ساتھ ساتھ اطالوی زبان کو بھی ترقی دی۔ انگلستان میں یہی کام چوسرؔ نے کیا۔ اور پھر سولہویں صدی میں قومی ڈرامے نے اس قدر ترقی کی کہ اس سے زیادہ ترقی آسان نہیں۔ مارٹن لوتھر نے اپنے خیالات کو جرمن زبان میں پیش کیا تاکہ عوام ان سے واقف اور متاثر ہوسکیں۔ فرانس میں اِبلےؔ، اور اسپین میں سروینٹس نے قومی زبانوں کو آگے بڑھایا۔ غرض اس طرح لاطینی زبان جو عرصۂ دراز سے واحد علمی زبان مانی جاتی تھی، آہستہ آہستہ اپنی وقعت کم کرتی گئی اور قومی زبانیں اس کی جگہ لیتی رہیں۔ اس کا اثر زندگی کے ہر ہر پہلو پر ہوا اور یورپ میں زندگی نے من حیث الکل ترقی شروع کی۔
علم و ادب کے ساتھ ساتھ یورپ میں فنونِ لطیفہ نے بھی ترقی کی۔ قرونِ وسطیٰ میں تمام فنونِ لطیفہ کا مقصد مذہبی اور صرف مذہبی تھا۔ مصوری، تعمیر اورسنگ تراشی کو اوّل تو وہ وقعت ہی حاصل نہ تھی جس کے حقیقتاً یہ فنون ہیں اور جو کچھ وقعت حاصل بھی تھی وہ صرف مذہبی مقاصد کے ذرائع کی حیثیت سے فنونِ لطیفہ، اصول اور قانون میں اس حدتک مقید تھے کہ ان کی آزادی ختم ہوچکی تھی۔ رنگوں تک کے انتخاب میں آزادی نہ تھی۔ نشاۃ الثانیہ میں اگرچہ فنونِ لطیفہ کا موضوع عام طور پر مذہبی ہی تھا۔ لیکن وہ آہستہ آہستہ آزادی کی راہ پر گامزن ہو رہے تھے۔ اٹلی میں ’پاٹکل انجلورافیل‘ اور لئونارڈو دادنچی نے فن کو انتہائی بلندیوں تک پہنچانے کی کوشش کی۔ ہالینڈ میں روبان اور ریمبرانؔ۔ اسپین میں ویلیز کیوز۔ جرمنی میں ڈیورر اور ہالباٹن نے فن کو ترقی دی۔ غرض اس زمانے میں یورپ کے اکثر ممالک میں فنونِ لطیفہ کی طرف توجہ مبذول کی گئی اور اکثر فنونِ لطیفہ نے کافی ترقی کی۔
اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ نشاۃ الثانیہ میں بعض فنونِ لطیفہ نے زبردست ترقی کی۔ لیکن اس دور میں ہمیں فن اور حسن پر نظری بحث زیادہ نہیں ملتی۔ کروچے رقم طراز ہے۔ ’’یہ کہا جاسکتا ہے کہ قرونِ وسطیٰ کی ادبی اور فنی تحریکوں اور نظریات کی جو وقعت ہے وہ تاریخ تمدن میں ہے نہ کہ علوم کی تاریخ میں۔ نشاۃ ثانیہ کے متعلق بھی یہی کہا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس زمانے میں بھی قدیم نظریات کو کچھ آگے نہیں بڑھایا گیا۔ ان لوگوں نے تمدنی طور پر ترقی کی۔ اصل کتابیں ان کے زیر مطالعہ ہیں۔ قدیم مصنفین کی کتابوں کا ترجمہ کیا گیا اور ان کی شرحیں بھی لکھی گئیں۔ شاعری، دیگر فنونِ لطیفہ۔ صرف و نحو۔ خطابت۔ مکالمہ اور حسن و جمال پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ بلکہ نسبتاً کچھ زیادہ ہی لکھی گئیں اور اس طرح علم کی دنیا وسیع تر ہوگئی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے میں جمالیات میں نئے اور جدید خیالات نہیں ملتے۔‘‘
اس زمانے میں جمالیات پر بحیثیت ایک علم کے زیادہ مواد نہ ملنے کے متعدد وجوہ ہیں۔ یہ دور دانتےؔ سے شروع ہو کر شیکسپیئرؔ پر ختم ہوا۔ یہ دور حقیقتاً فنی تخلیقات کادور تھا۔ یورپ ایک ہزار سال کے بعد بیدار ہونا شروع ہوا تھا۔ اس کی توجہ قدرتی طور پر تخلیق کی طرف تھی۔ زندگی کے ہر ہر شعبے میں تجربات کیے جارہے تھے۔ اصول اور قواعد بنانے کا زمانہ ابھی نہ آیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود یہ کہنا کہ یہ دور قرونِ وسطیٰ کی طرح جمالیاتی نظریات کے لحاظ سے تہی دامن ہے، زیادہ صحیح نہیں۔ اس دور میں ہمیں ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کے یہاں جمالیاتی نظریات ملتے ہیں۔ اگرچہ وہ اس قدر جامع، منظم اور منضبط نہیں ہیں جیسے کہ ایک مفکر سے توقع کی جاسکتی ہے۔ مفکرین نے بھی ان مسائل پر غور و خوض کیا۔ لیکن نسبتاً کم۔ کیونکہ اول تو اس دور میں مفکر تھے ہی کم۔ اور جو تھے بھی، وہ مذہبی اور طبعی مسائل کی طرف زیادہ متوجہ تھے۔
اس زمانے میں یونانی علوم کا احیا ہو رہا تھا۔ یونانی علوم کے احیا کے ساتھ ساتھ یونان کے عظیم مفکرین کی طرف توجہ کا مبذول ہونا لازمی اور ضروری تھا۔ یوں تو افلاطون، ارسطو، فیشا غورث اور ہورلیس کے نظریات کو دوبارہ وقعت حاصل ہوئی لیکن جمالیات اور تنقید میں سب سے زیادہ اثر ارسطو کا رہا۔ ارسطو کی کتاب ’فنِ شاعری‘ کے متعدد ترجمے ہوئے۔ سب سے پہلے والاؔ نے ۱۴۹۸ء میں ’فنِ شاعری‘ کا ترجمہ لاطینی زبان میں کیا اور غالباً کسی یورپین زبان میں یہ اس کتاب کاپہلا ترجمہ تھا۔ کچھ ہی عرصے بعد ۱۵۱۵ء میں ایک اور لاطینی ترجمہ ہوا اور اس کے ساتھ ہی ابنِ رشد کے خلاصے کا ترجمہ بھی پیش کیا گیا۔ اطالوی زبان میں پہلا ترجمہ سینیؔ ہے جو ۱۵۴۹ء میں فلارنس سے شائع ہوا۔ لیکن اطالوی زبان میں سب سے اہم ترجمہ کاسٹل دی ترو کا ہے۔ یہ ترجمہ پہلی بار دی آنا سے ۱۵۷۰ء میں شائع ہوا۔ بہت سی ایسی روایات جو ارسطو سے منسوب کی جاتی ہیں اس ترجمے کی تشریحات کے باعث پھیلیں۔ چنانچہ ’’وحدتِ مکاں‘‘ کانظریہ کاسٹل دی ترو ہی کے زمانے سے شروع ہوتا ہے۔ اسکالی گر نے جو نشاۃ الثانیہ کا ایک بہت بڑا نقاد تھا۔ ایک رسالہ لکھا جس کانام اس نے ارسطو کے رسالے کے نام پر ’’پوئٹیکا‘‘ رکھا اور اس میں ’’وحدتِ مکاں‘‘ کے نظرئیے کو پیش کیا۔ کاسٹل دی ترو نے اسکالی گر کے نظرئیے کو قبول کرکے اسے بڑی شہرت دی (بوطیقا از عزیز احمد ص۲۹) غرض اس زمانے میں ارسطو کے جمالیاتی اور تنقیدی نظریات کافی مقبول ہوئے اور کچھ ایسی باتیں بھی ارسطو سے منسوب کردی گئیں جو حقیقتاً ارسطو کے قلم سے کبھی نہ نکلی تھیں۔
جہاں تک جمالیاتی افکار کا تعلق ہے ہم نشاۃ الثانیہ کو دانتےؔ کی مشہور شخصیت سے شروع کرسکتے ہیں۔ وہ اگرچہ چودھویں صدی کے شروع ہی میں انتقال کرچکا تھا لیکن اپنے علمی نظریات اور تخلیقی کارناموں کی بناپر وہ حقیقتاً اس بات کا مستحق ہے کہ اسے نشاۃ الثانیہ کا سب سے پہلا ادیب اور مفکر قرار دیا جائے۔ دانتےؔ کے زمانے میں بلکہ اس کے بعد بھی تقریباً دوتین صدیوں تک یورپ میں علمی دنیا کی زبان لاطینی تھی۔ لیکن دانتے نے اپنی مشہور تصانیف لاطینی کے بجائے اطالوی زبان میں پیش کیں اور اس طرح ایک طرف عوام کے لیے علم و ادب کے دروازے کھول دیے اور دوسری طرف وہ اطالوی زبان کی ترقی کا موجب بنا۔ دانتےؔ کے بعد یورپ کے دوسرے ممالک میں بھی قومی زبانوں کی طرف توجہ مبذول کی گئی اور صرف دوصدیوں کے اندر اندر مختلف قومی زبانوں نے لاطینی زبان کی جگہ لے لی۔
دانتےؔ نے ’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ کو لاطینی زبان میں شروع کیا۔ لیکن ابتدا ہی میں اسے مقامی زبان میں منتقل کرکے اسے ایسی زبان میں تکمیل تک پہنچایا۔ ’’تاکہ اس کے ہم وطن اور دوسرے اطالوی باشندے اس سے مستفید ہوسکیں۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر اس نے متقدمین کی طرح لاطینی بحر کو اپنایا تو صرف چند اعلیٰ تعلیم یافتہ اصحاب اس کا مطالعہ کرسکیں گے۔ اور اگر اس نے مقامی زبان میں اپنی تخلیق پیش کی تو وہ ایک ایسا نودرست کارنامہ سرانجام دے گا جس کی پہلے کوئی ہمت تک نہ کرسکا تھا اور اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی اسے سمجھ سکیں گے۔‘‘
دانتےؔ نے قومی زبان کو استعمال کرکے ادب کی زبردست حدمت کی۔ اس کا یہ قدم کافی دور رس اور اہم نتائج کاحامل ثابت ہوا۔ اس کی وجہ سے شعر و ادب کو نئی زندگی ملی۔ ادب قرونِ وسطیٰ کے بندھے ٹکے اصولوں سے آزاد ہوا۔ تخیل نے اس میں راہ پائی۔ وہ زندگی سے زیادہ قریب ہوگیا اور اس کے دروازے عوام پر بھی کھل گئے اور رفتہ رفتہ اس نے مذہبی رہنماؤں کے قبضے سے آزادی حاصل کرلی۔
’’ڈیوائن کامیڈی‘‘ ایک مذہبی تصنیف ہے لیکن وہ عام انداز سے کافی حد تک مختلف ہے۔ یہ احتلاف صرف تھیم ہی تک محدود نہیں، فارم کے لحاظ سے بھی اس عظیم تخلیق کو کسی مروجہ فارم کے مطابق قرار نہیں دیا جاسکتا۔ نہ اسے طربیہ کہا جاسکتا ہے اور نہ المیہ۔ اسے تو ڈراما ہی نہیں کہہ سکتے کہ طربیہ اور المیہ کا سوال پیدا ہو۔ کیونکہ نہ اس کی فارم ڈرامے کی ہے اور نہ ہی اس میں کوئی وحدت ہی موجود ہے۔ اسی طرح نہ اسے صرف رزمیہ نظم کہا جاسکتا اور نہ ہی صرف رومانی شاہکار۔ وہ اپنے فارم کے لحاظ سے یکتا ہے۔ اور یہی اس کی عظمت کی ایک بڑی وجہ اور سب سے زبردست دلیل ہے۔ اس نے اپنی تخلیقات کو اس وقت کے مروجہ فارم سے الگ ایک فارم میں پیش کیا۔ اس نے فن کو ایک انفرادیت بخشی۔ لیکن ایک ایسی انفرادیت جو اجتماعیت کا جوہر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی ’ڈیوائن کامیڈی‘ تیرھویں صدی کی ایک سیاسی، تاریخی اور اخلاقی تصویر ہے۔‘‘ لیکن اس کے باوجود اس کی اصل دلچسپی روح انسانیت کی جدوجہد میں پوشیدہ ہے۔ اور اس طرح اس نے اجتماعیت اور انفرادیت کو ایک ہی جگہ سمودیا ہے۔ انفرادیت اپنی داخلیت کے تنگ دائرے سے نکل کر اجتماعیت اور خارجیت کے وسیع میدان میں داخل ہوگئی ہے اور انفرادیت اور اجتماعیت کی تفریق ختم ہوگئی ہے۔
قرونِ وسطیٰ میں الفاظ کے ظاہری مفہوم کے فرق پر بہت زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ کسی چیز کی تشریح چار مختلف انداز سے کی جاتی تھی۔ لفظی، تمثیلی، اخلاقی اور حقیقی، دانتےؔ بھی مفاہیم کے اس فرق کو مانتا ہے۔ وہ ایک خط میں رقم طراز ہے۔ ’’جو چیز اب میں پیش کرنے والا ہوں (ڈیوائن کامیڈی) اس کے متعلق تمہیں اس بات کا خیال رکھنا پڑے گا کہ اس کا مفہوم آسان نہیں ہوگا۔ بلکہ تم اسے مختلف مفاہیم کی تخلیق کہہ سکتے ہو۔ ایک مفہوم تو وہ ہوتا ہے جو الفاظ سے نکلتا ہے۔ اور ایک وہ جس کی طرف الفاظ اشارہ کرتے ہیں۔ اول الذکر کو ہم لفظی یا ظاہری مفہوم کہہ سکتے ہیں اور موخرالذکر کو تمثیلی۔ اس چیز کو سمجھنے کے لیے یہ جملہ لو۔ ’’جب بنی اسرائیل مصر سے باہر آئے۔ جب حضرت یعقوب کی اولاد غیرقوم کے پھندے سے نکلی تو اس وقت یہودا مظہر خداوندی تھا اور بنی اسرائیل اس کے مخصوص بندے۔‘‘
اگر ہم اپنے آپ کو صرف الفاظ تک محدود رکھیں تو اس کا مطلب حضرت موسیٰ کے زمانے میں بنی اسرائیل کا مصر سے نکلنا ہے۔ تمثیلی طور پر اس کا مطلب حضرت عیسیٰ کی وساطت سے ہماری نجات ہے۔ اخلاقی لحاظ سے اس کا مفہوم روح کا معصیت کے عذاب سے نجات پاکر آغوشِ رحمت میں جگہ پانا ہے۔ اور اس کا اعلیٰ اور ارفع مفہوم روحِ مقدس کاارضی غلامی سے نجات حاصل کرکے آزادی اور ابدی مسرت حاصل کرنا ہے۔ اور اگرچہ بعد کے تینوں مفاہیم کے نام مختلف ہیں لیکن ہم انہیں تمثیلی کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ لفظی اور تاریخی مفہوم سے مختلف ہیں۔‘‘
دانتےؔ، شاعری میں فکر کی اہمیت کا قائل ہے۔ لیکن یہ چیز تشبیہ۔ استعارہ اور تمثیل کے پردے میں چھپی ہوئی ہونی چاہیے۔ عوام تو صرف لفظی معنوں ہی سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ لیکن ان لفظی معنوں کے علاوہ بھی ایک معنی ہوتے ہیں جن تک رسائی ہر ایک کاکام نہیں۔ عوام کے لیے شاعری صرف حسن اور حظ کا موجب ہوتی ہے۔ لیکن اعلیٰ مفہوم تک پہنچنے والوں کے لیے وہ خیر و صداقت کی بھی حامل ہے۔ اور یہی شاعری کااصل مقصد ہے۔
کیچیو (۱۳۱۳ء تا ۱۳۷۵ء) یونانی زبان کا زبردست عالم تھا۔ اس نے عوام کی توجہ یونانی زبان کے حصول کی طرف مبذول کرائی۔ یونانی علم و ادب کانشاۃ الثانیہ لانے میں جو زبردست حصہ ہے اس کے متعلق کچھ کہنا تحصیل حاصل ہے۔ اور کیچیو نے اس سلسلے میں کافی اہم خدمات انجام دیں۔ وہ اپنی کتاب ’ڈیکامیرون‘ کی وجہ سے خاص طور پر مشہور ہے۔ یہ کتاب بہت سی کہانیوں کامجموعہ ہے۔ فلورنس میں طاعون پھیل جانے کی وجہ سے اس شہر کے اعلیٰ طبقے کی خواتین ایک گاؤں میں عارضی طور پر قیام پذیر ہوجاتی ہیں اور وقت گزارنے کی خاطر ایک دوسرے کو کہانیاں سنانی شروع کردیتی ہیں۔ یہ کتاب انہیں کہانیوں کامجموعہ ہے۔ مشہور انگریزی شاعر چوسرؔ نے اپنی کتاب ’’کنٹریری ٹیلز‘‘ کیچیو کی مندرجہ بالا کتاب ہی کی طرز پر لکھی ہے۔
کیچیو نے تنقید اور جمالیات پر کچھ نظریات پیش کیے ہیں۔ وہ شاعری کی تعریف، ابتدا اور مقاصد کے متعلق لکھتا ہے۔۔۔ ’’شاعری جس کو جہلاءایک بیکار سی چیز سمجھتے ہیں، دل و دماغ کی ایجادات میں سے ایک ایسی ایجاد ہے جو ولولہ اور شوق سے بھرپور ہے اور جس کا اظہار پرجوش طریقے سے ہوتا ہے۔ شاعری کاجذبہ خدا کاعطیہ ہے اور میرے خیال صرف چند ہی اشخاص کو یہ نعمت عطا کی گئی ہے۔ یہ عطیہ حقیقتاً اس قدر اعلیٰ ہے کہ حقیقی معنوں میں شاعر بہت ہی کم ہوتے ہیں۔ اس کے اثرات نہایت لطیف ہوتے ہیں۔ شاعری کا جذبہ انسان کو کچھ نہ کچھ کہنے پرمجبور کرتا ہے۔ اور اس طرح دل و دماغ کو ناقابلِ بیان چیزوں کے اظہار پر اکساتا ہے۔ وہ اظہار کے خاص سانچے تخلیق کرتا ہے اور الفاظ اور خیالات کو ایک نئی ترتیب سے منظم کرتا ہے۔ وہ صداقت کو تمثیل کے پردے میں پیش کرتا ہے۔ اور اگر وہ چاہے تو بادشاہوں کو جنگ پر آمادہ کرتا ہے۔ فوجوں کو میدانِ جنگ میں لے آتا ہے۔ بجر و بر کو دوبارہ تخلیق کرتا ہے۔ نوجوان خواتین کی تعریف میں گیت گاتا ہے۔ انسانی کردار کو مختلف زاویوں سے پیش کرتا ہے۔ خوابیدہ کو بیدار، مشتعل کو مطمئن اور مجرم کو مطبع کرتا ہے۔ اعلیٰ اخلاق کی تعریف میں قصیدے کہتا ہے۔ غرض اسی قسم کے بہت سے کام ہیں جو اس جذبے کی بنا پر رونما ہوتے ہیں، اس کے بعد وہ شاعر کے لیے زبان، صرف و نحو، مختلف اخلاقی اور سماجی علوم کے حصول پر زور دیتا ہے کہ ان کے بغیر ایک شاعر خدادا صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار نہیں لاسکتا۔ علاوہ ازیں حسنِ فطرت، تنہائی، اطمینانِ قلب، جوش و خروش اور آرام دہ زندگی کی خواہش کو بھی وہ شاعر کے لیے ضروری خیال کرتا ہے کہ یہ تمام چیزیں ایک شاعر کے لیے معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
کیچیو سیسرؔو سے کافی متاثر ہے۔ وہ اسے شاعر سے زیادہ ایک مفکر مانتا ہے۔ اور اپنے نظریات کی تائید میں سیسروؔ کے اقوال پیش کرتا ہے۔ وہ سیسرؔو کی اس بات سے متفق ہے کہ ’’دوسرے تمام فنون کا دارومدار علم، قواعد اور تکنیک پر ہے لیکن شاعری کی بنیادیں خداداد صلاحیت اور ذہنی استعداد پراستوار ہیں اور یہ آمد اور وجدان کا نتیجہ ہوتی ہے۔‘‘ لیکن وہ مختلف علوم کے حصول کو ضروری خیال کرتاہے۔ تاکہ خدادا صلاحیت کو جلادی جاسکے اور اسے پوری طرح بروئے کار لایا جاسکے۔
کیچیو شاعری اور مذہب کو ایک دوسرے سے بہت قریب سمجھتا ہے۔ وہ ان دونوں کے تعلق کے متعلق رقم طراز ہے۔ ’’میرے خیال میں شاعری اور مذہب کا موضوع ایک ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ بلکہ میں تو یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ مذہب خدا کی شاعری ہے۔ یہ شاعری نہیں تو اور کیا ہے کہ کتابِ مقدس میں حضرت عیسیٰ کو کبھی شیر کہا جاتا ہے اور کبھی میمنا۔ کبھی سانپ اور کبھی اژدہا۔ اور بعض مقامات پر انہیں چٹان بھی کہا گیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی انہیں اور بہت سے ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔ جن کا ذکر بیکار طوالت کا باعث ہوگا۔ مقدس انجیل میں جو انہیں ’’نجات دہندہ‘‘ کہا گیا ہے۔ وہ اگر اس لفظ کا عام مفہوم سے ہٹ کر صرف ایک کنایہ اور استعارہ نہیں ہے تواور کیا ہے؟ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف شاعری ہی مذہب نہیں ہے بلکہ مذہب بھی شاعری ہے۔۔۔ ارسطوؔ بھی اس بات کا قائل ہے کہ ابتداء میں صرف شعرا ءہی مذہب کے پیروکار تھے۔‘‘
اسکالی گر (۱۴۸۴۔ ۱۵۵۸) ارسطو کی طرح ایک مفکر تھا اور اس سے کافی متاثر۔ وہ اپنی مشہور کتاب ’فنِ شاعری‘ میں زبان کی ابتدا، اس کے ماخذ، مقاصد، فوائد اور اصولِ ترقی پر بحث کرتا ہے اور اس کے بعد مفصل طور پر شاعری کی مختلف اصناف کو زیر بحث لاتا ہے۔ شاعری کے مقاصد بیان کرتے ہوئے وہ ہوریسؔ کے اس خیال کی تائید کرتا ہے کہ شاعری کا مقصد ’’سکھانا اور خوش کرنا‘‘ ہے۔ اس زمانے میں مندرجہ بالا دومقاصد عام طور پر مقبول تھے۔ مترنوؔ اپنی کتاب ’’شاعر‘‘ میں شاعری کا مقصد ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ ’’اشعارمیں وہ چیزیں پیش کرنا جس کے ذریعے شاعر کچھ سکھا سکے۔ خوش کرسکے اور جذبات کو بیدار کرسکے۔‘‘ کاسٹل دیؔ ترو بھی اس خیال سے متفق ہے۔ اسکالی گر اس کے متعلق رقم طراز ہے۔ ’’پہلے زمانے کے خطیبوں کا مقصد کسی بات کو صرف ذہن نشین کرانا اور سامعین کو متاثر کرنا تھا۔ اور اس بناپر ان کی زبان سخت اور انداز پرزور ہوتا تھا۔ شعراء کا مقصد صرف خوش کرنا تھا اور اس لیے وہ صرف دل موہ لینے والے اشعار پیش کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ خطیب اور شاعر نے ایک دوسرے سے وہ چیز حاصل کرلی جس کی ان میں بالترتیب کمی تھی۔‘‘ ان مقاصدکو حاصل کرنے کے لیے شاعر کی تخلیقات میں چند صفات کی موجودگی ضروری ہے۔ جن کے بغیر ان مقاصد کاحصول ممکن نہیں۔ ’’شاعر کے لیے سب سے ضروری چیزاپنی تخلیق پر پوری طرح غور و خوض کرنا ہے۔ تاکہ وہ تمام ایک سانچہ میں ڈھلی ہوئی معلوم ہو اور اس میں کسی قسم کا تضاد نہ محسوس ہو۔ علاوہ ازیں شاعر کو گوناگوں واقعات اور احساسات میں توازن کا خیال رکھناچاہیے اور جب تک کہ شاعر اپنی تخلیق سے خود مطمئن نہ ہوجائے اسے دوسروں کے سامنے ہرگز پیش نہ کرنا چاہیے۔ ورنہ قاری اور سامع اس سے حظ حاصل کرنے کے بجائے متنفر ہوجائیں گے۔ شاعری کی تیسری خصوصیت کو جو بہت ہی کم شعراء میں پائی جاتی ہے۔ میں شوخی اور گہرائی کہہ سکتا ہوں۔ اس سے میری مراد خیال اور اظہار میں ایک خاص قسم کی قوت اور زور ہے جو سامع کو اپنی توجہ اس طرف مبذول کرنے پر مجبور کردے۔ چوتھی خصوصیت دلکشی اور دل فریبی ہے۔ جو شوخی کو اعتدال پر لاتی ہے۔ غرض شاعری کی خصوصیت گہری نظر۔ دور بینی۔ تنوع۔ شوخی اور دلکشی ہیں۔‘‘
اسکالیؔ گر، ارسطوؔ کے ’نظریہ نقل‘ کو صحیح مانتا ہے۔ لیکن وہ اس لفظ کو وسیع تر معنوں میں استعمال کرتا ہے۔ اسینگرنؔ کے خیال میں اس زمانے میں نظریۂ نقل نے ارتقا ءکی تین منازل طے کی ہیں اور یہ تینوں منازل وڈاؔ۔ اسکالیؔ گر اور بوآلو کے یہاں واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ وڈاؔ کے خیال میں ادب کی سب سے بڑی خوبی متقدمین کی نقل میں پوشیدہ ہے۔ اسکالی گراس نظریہ کو اور آگے بڑھاتا ہے۔ اس کے لحاظ سے شاعر ایک خالق ہوتا ہے جو ایک دوسری دنیا اور ایک نیا ماحول تخلیق کرتا ہے۔ بوآلو فطرت اور فن کے نوکلاسیکی نظریہ کو اس کی منطقی تکمیل تک پہنچادیتا ہے۔ اس کے یہاں کوئی تخلیق اس وقت تک حسین نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ صداقت پر مبنی نہ ہو۔ اور کوئی تخلیق اس وقت تک صداقت پر مبنی نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ فطرت میں موجود نہ ہو۔ غرض ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ اسکالی گر نظریۂ نقل کو مانتا ہے لیکن اس نے اس لفظ میں اس قدر وسعت پیدا کردی ہے کہ اس نے اپنے دامن میں تخلیق کو بھی سمیٹ لیا ہے اور اس تخلیق ہی کو وہ نقل کہتا ہے۔
کاسٹل وی ترو (۱۵۰۵ تا ۱۵۷۱) اسکالی گر کی طرح کاسٹل دی ترو بھی شاعری کا مقصد حظ آفرینی قرار دیتا ہے۔ وہ اس مقصد پر نہ صرف زور دیتا ہے بلکہ صرف اس ایک ہی مقصد کا قائل ہے۔ ایچ۔ جی چارلٹن کے خیال میں صرف کاسٹل وی ترو ایک ایسا مفکر ہے جو فن اور شاعری کا مقصد صرف حظ اور انبساط سمجھتا ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’کاسٹل وی ترو کانظریۂ شعر‘‘ میں رقم راز ہے۔۔۔ ’’کاسٹل دی ترو کے خیال میں فن اور اخلاق یا فن اور فلسفہ سیاسیات دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ دونوں کے اصول او رمقاصد مختلف ہیں۔ ایک کا مقصد جمالیاتی ہے اور دوسرے کا اخلاقی یا سیاسی۔‘‘ خود کاسٹل وی ترو اس کے متعلق لکھتا ہے۔۔۔ ’’شاعری کا مقصد، نقل کی وساطت سے سامعین کو محظوظ کرنا ہے۔ قدرت کے پوشیدہ رازوں کو سمجھنا اور اس سمجھانا۔ یہ کام مفکرین اور سائنس دانوں کا ہے۔‘‘ وہ افادیت کو شاعری اور فن میں مطلق کوئی جگہ نہیں دیتا بلکہ اسے صرف حظ اور انبساط تک محدود رکھتا ہے۔
اس کے برخلاف فراکاسترو، شاعری میں حظ آفرینی کاقائل نہیں۔ شاعر تمام اعلیٰ فنون کاخالق ہے۔ اس کے لیے یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ اپنے آپ کو صرف ایک مقصد تک محدود کرے۔ وہ شاعری کا مقصد تعلیم دینا اور معلومات بہم پہنچانا بھی نہیں سمجھتا۔ اس کے خیال میں یہ مقصد فلسفہ اور مختلف علوم مثلاً تاریخ، جغرافیہ وغیرہ پورا کرتے ہیں نہ کہ شاعری اور فنونِ لطیفہ۔ شاعری کا مقصد صرف نقل ہے۔ اسکالی گر کی طرح وہ بھی نقل کو تخلیق کے معنوں میں استعمال کرتا ہے اور تخلیق کو شاعری کا مقصد قرار دیتا ہے۔
اس کے لحاظ سے شاعر ہر قسم کے مواد کو پیش کرسکتا ہے بشرطیکہ وہ اسے فنی تراکتوں اور شاعرانہ لطافتوں کے ساتھ پیش کرسکے۔ ماہر علوم جزوی صداقتوں کو پیش کرتے ہیں اور شاعر عالمگیر صداقتوں کو۔ دوسرے اشخاص چیزوں کی ہوبہو نقل پیش کردیتے ہیں لیکن شاعر چیزوں کو اس طرح پیش کرتا ہے جس طرح کہ وہ اس کے خیال میں عالمگیر طور پر موجود ہونی چاہئیں۔ اور وہ انہیں پیش کرتے ہوئے حسین اور لطیف انداز کا خیال رکھتا ہے۔ دوسرے کسی چیز کو ایک خارجی مقصد کے حصول کے لیے پیش کرتے ہیں اور شاعر اس لیے کہ وہ اسے حسین طریقے سے اور پوری طرح پیش کرسکے۔ وہ افلاطون کے اس خیال سے متفق نہیں کہ شاعر ان چیزوں کو پیش کرتا ہے جن کے متعلق وہ کچھ نہیں جانتا۔ اس کے خیال میں وہ ان چیزوں کو جانتا ہے لیکن شاعرانہ نقطہ نظر سے اور یہی وہ چیز ہے جو ایک شاعر کو ماہر علوم سے ممیزکرتی ہے۔
پیکو لومین، فراکاسترو کے اس خیال سے متفق ہے کہ شاعری کامقصدحظ اور انبساط نہیں، لیکن وہ فراکاسترو کے برخلاف اس بات کا قائل ہے کہ اس کا مقصد تعلیم دینا اور معلومات بہم پہنچانا ہے۔ مگر اس کے خیال میں شاعری کا اصل مقصد زندگی کو آگے برھانا ہے۔ وہ کہتا ہے۔۔۔ ’’اگر ماضی اور حال کے شاعر اور فن کار یہ نہ سمجھتے کہ وہ اپنے فن کے ذریعے انسانی زندگی کو آگے بڑھا رہے ہیں اور عوام اس کے ذریعے کچھ سیکھتے اور معلومات حاصل کرتے ہیں تو وہ اس قابل قدر علم کے لیے اپنا اس قدر وقت اور اتنی محنت ہرگز ہر گز صرف نہ کرتے۔‘‘
پاتریزی (۱۵۲۹۔ ۱۵۹۷) کے جمالیاتی نظریات ارسطو کے جمالیاتی افکار سے نہ صرف مختلف ہیں بلکہ بہت متضاد بھی ہیں۔ اس نے اپنی کتاب ’’شاعری‘‘ میں ارسطو پر جابجا اعتراضات کیے ہیں اور اس کے مقابلے میں اپنے نظریات پیش کیے ہیں۔ وہ ارسطو کے نظریۂ نقل پر بحث کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ارسطو کے یہاں اس لفظ کا کوئی واضح مفہوم نہیں ہے اور اس نے اس لفظ کو مختلف مقامات پر مختلف معنوں میں استعمال کیا ہے۔ اس کے خیال میں۔۔۔ ’’یہ کہنا کہ شاعری نقل ہوتی ہے، صحیح نہیں۔ اور اگر یہ نقل ہے تو نقل صرف شاعروں تک محدود نہیں۔ اور پھر شاعری میں جونقل ہے وہ عام نقل نہیں بلکہ کسی ایسی چیز کی نقل ہے جسے نہ ارسطو بتاسکا۔ اور نہ ہی کوئی اور مفکر اس کے متعلق کچھ کہہ سکا۔‘‘ علاوہ ازیں اگر شاعری نقل ہے تو ہماری ہر قسم کی تحریر و تقریر، شاعری ہے۔ کیونکہ ان تمام کا دارومدار الفاظ پرہوتا ہے اور الفاظ نقل ہوتے ہیں۔‘‘ ارسطو نے شاعری اور تاریخ کو اس بناپر ایک دوسرے سے ممیز کیا تھا کہ شاعری عالمگیر صداقت کو پیش کرتی ہے اور تاریخ جزوی صداقت کو۔ لیکن پاتریزی کہتا ہے کہ اگر نظریۂ نقل کو صحیح مان لیا جائے تو شاعری اور تاریخ میں فرق کرنا ناممکن ہوجائے گا کیونکہ بہرحال یہ دونوں نقل ہی تو ہیں۔ اس کے لحاظ سے شاعری اور مختلف علوم میں جو فرق ہے وہ مواد کا نہیں بلکہ اظہار کا ہے۔ شاعری میں ہر قسم کا مواد پیش کیا جاسکتا ہے۔ چاہے اس کا تعلق علوم سے ہو، فن سے ہو یا تاریخ سے۔ شرط صرف یہ ہے کہ اسے ایک خاص انداز سے پیش کیا جائے۔ اس ضمن میں وہ اپنے زمانے کے عام رجحان سے متفق ہے۔
سرفلپ سڈنی (۵۵۴۔ ۱۵۸۶) نے اپنی کتاب ’’ڈیفنس آف پوئٹری‘‘ میں ان اعتراضات کاجواب دیا ہے جو اس زمانے میں بعض اصحاب کی طرف سے عموماً شاعری کے خلاف کیے جارہے تھے۔ یہ اعتراضات مختلف نوعیت کے تھے (۱) شاعری محض تضیع اوقات ہے۔ (۲) ’شاعری‘ مفتری اور کذاب ہوتے ہیں۔ (۳) شاعری سفلی جذبات کو برانگیختہ کرتی ہے اور اس طرح افراد وملل کو کمزور کرتی ہے۔ (۴) افلاطون نے اپنی عینی ریاست سے شعرا ءکو خارج کردیا تھا۔ اور وہ ہم سے بھی اس سے بہتر سلوک کے متمنی نہیں ہوسکتے۔‘‘ سڈنی نے ان تمام اعتراضات کاجواب نہایت مدلل طریقے سے دیا ہے۔ اس کے خیال میں شاعری ایک بہت اہم اور عظیم فن ہے۔ اور اسی وجہ سے ہرزمانے میں شعراء کی تعظیم و تکریم کی گئی ہے۔ شاعری ہمیں اخلاقی سبق سکھاتی ہے۔ نیک اعمال کرنے پر اکساتی ہے تو اس سے بہتر اور کون سافن ہوسکتا ہے۔ اور اسے کسی صورت میں بھی تضیع اوقات نہیں سمجھا جاسکتا۔ دوسرے اعتراض کا جواب وہ یہ دیتا ہے کہ شاعر کسی چیز کو حقیقت کے طور پر بیان نہیں کرتا۔ نہ وہ کسی چیز کی تصدیق ہی کرتا ہے۔ وہ تو محض ایک فرضی واقعہ پیش کرتا ہے، اس لیے اسے کذاب نہیں کہا جاسکتا۔ تیسرے اعتراض کاجواب وہ یہ دیتا ہے کہ دنیا بھر کی ساری شاعری جذبات کو نہیں ابھارتی۔ اگر کسی خاص شاعر کی شاعری ایسا کرتی ہے تو وہ خاص شاعر موردِ الزام ہوسکتا ہے۔ نہ کہ فنِ شعر بنفسہٖ۔ شاعری نہ افراد کو کمزور و بزدل بناتی ہے اور نہ ملل کو۔ آخری اعتراض کا جواب یہ ہے کہ افلاطون کے زمانے میں شعراء اورفلاسفہ کے مابین تنازعہ برپا تھا۔ افلاطون فلسفی تھا اس لیے وہ شعراء کو پسند نہیں کرتا تھا۔ پھر یہ ہے کہ افلاطون بھی فنِ شاعری کی مذمت نہیں کرتا بلکہ چند چھوٹے شعراء کی مذمت کرتا ہے جو اس زمانے کے نوجوانوں کے اخلاق پر برا اثر ڈال رہے تھے۔ اور دیوتاؤں کے متعلق جھوٹے قصے لکھتے تھے۔ (اصولِ انتقادِ ادبیات، از سید عابد)
سڈنی، شاعری کے دو مقاصد قرار دیتا ہے۔ اخلاقی تربیت اور حظ آفرینی۔ اور شاعری کے لیے تین چیزیں ضروری خیال کرتا ہے۔ محنت، نقل اور تجربہ۔ وہ ارسطو کے نظریۂ نقل سے متفق ہے اور لفظِ ’نقل‘ کو اپنے زمانے کے دوسرے نقاد اور مفکرین کی طرح وسیع معنوں میں استعمال کرتا ہے اور شاعر کو ایک ایسا خالق سمجھتا ہے جو اپنے تخیل کی مدد سے ایک نیا اور خوبصورت تر عالم پیدا کرتاہے۔ وہ شاعری کو تمام علوم و فنون سے بلند مرتبہ دیتا ہے۔ کیونکہ اگرچہ دوسرے تمام علوم کا مقصد بھی انسانی زندگی کی فلاح و بہبود ہے لیکن شاعری اس مقصد کو ان علوم کی نسبت بہتر طریقے سے حاصل کرسکتی ہے۔
غرض ہم دیکھتے ہیں کہ نشاۃ الثانیہ میں دوسرے علوم کی طرح جمالیات اور تنقید کی طرف بھی توجہ مبذول کی گئی۔ لیکن چونکہ اس علم کی طرف بہت عرصے کے بعد توجہ دی گئی تھی، اس لیے اس زمانے کے جمالیاتی نظریات میں وہ گہرائی اور گیرائی تو نہیں پائی جاتی جو یونانی اور دور جدید کے نظریات میں پائی جاتی ہے۔ بہرحال اس زمانے کے نظریات کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ ان کی اہمیت صرف تاریخی ہی نہیں بلکہ نظری طور پر بھی وہ وقعت کے مستحق ہیں۔ ان زمانے کے فن کار اور مفکرین نے نظریۂ نقل پر مفصل بحث کی۔ وحدتِ ثلاثہ کے اصول کو زیر بحث لائے۔ شاعری اور فنونِ لطیفہ کے مقاصد کو اپنے نقطۂ نگاہ سے پیش کیا۔ حظ اور انبساط اور تعلیمی مقاصد پر زور دیا۔ شاعری اور فنونِ لطیفہ کی عظمت کے گیت گائے۔ اور عوام کو ان کی عظمت کاقائل کیا۔ فنونِ لطیفہ کومذہبی بندشوں سے آزاد کیا اور سخت اور بے لچک اصولوں کے خلاف کامیاب بغاوت کی۔ یونانی نظریات کو نہ صرف پیش کیا بلکہ ان پر نئے زاویوں سے روشنی ڈالی۔ اس سلسلے میں ان سے غلطیاں بھی سرزد ہوئیں لیکن ان کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ دورِ جدید میں جمالیات کو پوری طرح علمی حیثیت دی گئی لیکن اس کی داغ بیل نشاۃ الثانیہ ہی میں پڑچکی تھی۔ دورِجدید کے جمالیاتی نظریات کو پوری طرح سمجھنے کے لیے نشاۃ الثانیہ کے افکار کا مطالعہ نہ صرف مفید ہے بلکہ اشد ضروری بھی ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر موجودہ زمانے کے جمالیاتی نظریات کو سمجھنا مشکل ہے۔ اور اسی چیز میں نشاۃ الثانیہ اور اس زمانے کے مختلف نظریات کی عظمت اور وقعت پوشیدہ ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.