اب جب کہ جدیدیت کے خلاف ردعمل شروع ہو چکا ہے، دقیانوسیت اور ترقی پسندی مل جل کر ’’یلغار‘‘ کرنے والی ہیں۔ یہ وقفہ جدیدیت کی ایک اہم شاخ نثری نظموں کے مطالعے کے لیے وقف کیا جا سکتا ہے۔ یوں نثر اور نظم ایک دوسرے کے حریف نہیں تھے۔ جب تک نثرنے مناسب ترقی نہیں کی تھی، ہم قافیہ نثر کا عام رواج تھا اور پھر نثر اور نظم الگ ارتقائی مراحل طے کرتی رہیں لیکن آزاد نظم کے مقبول ہونے، بحور اور اوزان کی پامالی کے بعد تجربہ کا دوسرا قدم نثری نظموں کی طرف بڑھنا لازمی تھا۔ اصل میں ساری بحث زبان کے استعمال کی ہے۔ لفظ اب بھی گنجینہ معنی کا طلسم ہے اورجب تک ذہن کی پرواز اوردل کی دھڑکن نئی نئی حیرتوں، لذتوں اور تلاش کے لفظی پیکر تراشتی رہیں گی، یہ طلسم ختم ہونے والا نہیں ہے۔
عرصہ ہوا ولیم کارلوس ولیم نے کہا تھا:’’ہم جو کچھ جانتے اور کرتے ہیں، سب الفاظ سے جڑا ہوا ہے۔۔۔ ہمیں اپنی نثر کی کھڑکی، تیز ہوا کے جھونکوں کے لیے کھولنی چاہئے۔ اگر ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہے تو یہ بےحد ضروری ہے، ہمیں لفظوں تک پہنچنے کے لیے صاف شفاف دھلے ہوئے الفاظ چاہئیں۔ اس کی بنیاد میں ایک اخلاقی سوال ہے لیکن سب سے پہلے یہ ایک تکنیکی مسئلہ ہے۔‘‘ اس نے اپنی ایک نثری نظم میں اس بات کو یوں بیان کیا ہے۔ اس نظم میں ایک پہاڑی پھول سائیکسی فراج (Sexifrage) کے حوالے سے پتھر میں پھول اگنے کی علامت بڑی خوبی سے پیش کی گئی ہے۔
سانپ کو گھاس کے نیچے
آرام کرنے دو
اور الفاظ کی تحریر، آہستہ اور تیز
حملہ کرنے میں تیز، انتظار میں خاموش
بےخواب
استعارے کے ذریعے
عام لوگوں اور پتھروں کو
ملنے دو
اور تخلیق کرو (خیالات نہیں
لیکن اشیاہی) ایجاد
سائیکسی فراج۔ میرا پھول
یہ چٹانوں میں شگاف کرتا ہے
ولیم کارلوس ولیم کا نثری نظموں کے فروغ میں بڑا اہم رول رہا ہے۔ اس نے اپنی نظموں میں آہنگ کو موسیقی کی بیٹ پر استوار کیا ہے۔ ا س کا خیال ہے کہ ’’یہ کان کو وہ وسائل فراہم کرتی ہے جس سے زبان بنتی ہے اور جو ہمیں روزانہ سننے کو ملتی ہے۔‘‘ یعنی ہم نثری جملے سنتے ہیں اور زبان کی تخلیق نو کے لیے اس کو بول چال کی زبان سے قریب کرکے ایک طرف تازگی ملتی ہے، دوسری طرف ’’شعری زیورات‘‘ سے نجات دلائی جا سکتی ہے۔
اردو کی نثری نظمیں راشد کی فارسی زدہ لب ولہجہ کے خلاف بھی ایک خاموش ردعمل ہیں اور ترسیل کی ایک کوشش ہیں۔ ان نظموں میں مروجہ آزاد نظم کے آہنگ سے بھی احتراز کیا گیا ہے اور اس طرح اس یکسانیت کو توڑا گیا ہے جو آزاد نظم کا مقسوم رہی ہے۔ یہ اس بغاوت کی تکمیل ہے جس کی طرف آزاد نظم نے پہلا قدم جھجکتے ہوئے اٹھایا تھا۔ میں نے کچھ عرصہ ہوا اپنے ایک مضمون ’’جدیدیت اور ترقی پسندی کی کشمکش‘‘ میں کہا تھا کہ اردو کی جدید شاعری راشد، میراجی اور اخترالایمان کے اثرات سے خود کو بچانے میں کامیاب ہو رہی ہے۔
نثری نظموں کا آہنگ موسیقی کی بیٹ (Beat) ہے۔ تنفس کا زیروبم، دھڑکن کی خاموش سی آواز اور نقارے کی رک رک کر تیز تھاپ۔ سارا جادو تو الفاظ کو نئے انداز سے ترتیب دینے میں ہے تاکہ کوئی پیکر تراشا جا سکے، یا کوئی منظر ایک جھلک دکھا سکے یا کوئی مجرد خیال منجمد ہو سکے، پگھل سکے، کاغذ پر لفظ کی شکل وصورت میں۔۔۔ غرضیکہ جتنی پابندیاں ٹوٹتی جاتی ہیں نئی زنجیریں ڈھلتی جاتی ہیں۔ نہ بحر کا آہنگ نہ قوافی کا سہارا۔ اب سب کچھ لفظوں کے استعمال پر منحصر ہے۔ اگر موسیقی کی لے جگانی ہے تو صرف لفظوں کی قطرہ قطرہ بارش سے یہ کام لیا جا سکتا ہے۔ اگر کسی امیج کو نغمہ سے ٹکراکر یوں بیدار کرنا ہے جیسے خواب ٹوٹنے کی صدا۔۔۔ تو الفاظ کی ترتیب بہت مختلف ہوگی۔ نغمگی اور امیج کا امتزاج اور اس کی آویزش سے پھیلتی ہوئی موسیقی کی لہریں۔ بہرحال، میں نثری نظموں کی اس خوبی کی طرف اشارہ کر رہا ہوں، جس کو’’فن پارہ‘‘ بننا ہی نہیں ہے کیونکہ یہ اینٹی آرٹ (Anti Art) ہے۔
جب بحث اس منزل پر پہنچ جائے کہ نثری نظمیں ایک نئی شعری زبان کی تخلیق کی کوشش سمجھی جانے لگیں، تب ہی اس کے تجربے کی قدروقیمت کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ محمود ایاز نے اعجاز احمد کی نظموں کا تعارف کرتے ہوئے لکھا تھا، ’’اردو شاعری کا جو نیا دور میراجی اور ان کے ساتھیوں سے شروع ہوا تھا اس نے کوئی تیس سال بعد اعجاز احمد کی شاعری میں اپنے منطقی تسلسل کی دریافت کی ہے۔ ردیف، قافیے سے آزادی، اوزان کی مقررہ ترتیب سے انحراف، ایک نظم میں مختلف بحروں کا استعمال، ان سب کے بعد اوزان اور بحور سے آزادی کامل فطری اور متوقع اقدام تھا۔
مجھے اس رائے سے ذرا سا اختلاف ہے، اس لیے کہ افتخار جالب اور ان کے ساتھیوں نے یہ تجربہ اعجاز احمد سے پہلے شروع کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ میراجی کی نظم ’’جاتری‘‘ میں نثری نظم کی طرف چلنے کا اشارہ ملتا ہے اور ایک معنی میں یہ نظم آنے والے تجربے کا اعلانیہ بھی معلوم ہوتی ہے۔ اصل میں اردو زبان اور ہندوستانی سماج ناقابل برداشت حد تک روایتی تھا اور ہے، یہاں معمولی بےضرر زبان وبیان کے تجربے یوں دیکھے جاتے ہیں جیسے کہ کسی نئے جوہری بم کا تجربہ کیا جا رہا ہو۔
نثری نظموں میں کئی اہم شاعر پیش پیش ہیں۔ یہ نئی نسل کے شاعر پابند اور آزاد نظم دونوں طرح کی نظمیں لکھنے پر قادر ہیں جیسے قاضی سلیم اور بلراج کومل۔ البتہ نثری نظموں میں اعجاز احمد کو خاصی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ کامیابی سے مراد وہ شعری لذت ہے جو ان نظموں کے الفاظ کی ترتیب سے پڑھنے یا سننے والے کو حاصل ہوتی ہے۔ جس طرح مصوری اور سنگ تراشی کے نئے نئے تجربے ہو رہے ہیں جو کلاسیکی عظمت کے پیمانے اور معیار رد کر چکے ہیں، اسی طرح نثری نظمیں قدیم شعری عظمت کی روایات کو یکسر رد کرتی ہیں۔ ان کا مقابلہ کبھی ’’ایوان بنانے‘‘ والے شاعر جیسے اقبال وغیرہ سے نہیں کرنا چاہئے اور نہ ان شاعروں کو اس کی فکر ہے کہ وہ کوئی کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ اعجاز احمد کی ایک نظم ملاحظہ ہو۔
مجھے وہ ہتھیلی یاد رہےگی جس میں سورج ابھرا ہے
نہیں، وہ ذہن جو ایک یاد کی تلاش میں تھا
میں نے وہ آواز سنی ہے جو چپ چاپ تمہارے پاس بیٹھی رہی
تم۔۔۔ وہ لفظ کہ خود اپنی تلاش میں تھے
تمہارا چہرہ زمانے کے نام
ایک لازوال خط تھا
کہ میں نے پڑھا تو آس پاس کے سب صفحے
تاریک ہو گئے تھے
میں فقط
اپنے قدم کا نقش تھا
اس میں جو ڈرامائی کیفیت ہے وہی شعری فضا کو بناتی ہے اور امیجری کو ندرت عطا کرتی ہے۔ نثری نظمیں بنیادی مسائل پر بھی کسی طمطراق کے ساتھ نہیں ابھرتی ہیں، وہ سرگوشی کے ذریعے ہم کلام ہوتی ہیں۔
ایک گوشہ نشین شاعرہ صفیہ اریب نے تقریباً دو سو نثری نظمیں لکھی ہیں، شاید ان کی ایک نظم بھی اب تک شائع نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے میں دو نظمیں پیش کر رہا ہوں۔
(۱)
خاموشی کی عادت ڈالو
سکون مل جائےگا
بے آواز خاموشی
ایک بار الفاظ توڑدو
معنوں کے کرب سے نجات مل جائےگی
سار ی جنگیں
آپ ہی آپ رک جائیں گی
میرا المیہ یہ ہے
میں نے الفاظ کو
آخری سچائی جانا ہے
میری آنکھوں سے اب
در د کی بوندیں ٹپکتی رہتی ہیں
جاگتے رہنے کے بہانے بہت ہیں
تمہارے لیے۔۔۔ جاگتے رہنا
مگر میرا مقدر ہے
کتابوں کے جملے بھی
مجھ سے دور دور رہتے ہیں
سگریٹ کا جلتا کنارہ
میری دسترس سے باہر ہے
شراب کی مستی
برستی بیلوں سے ٹپکتی ہے
میری یاد کے کرب سے
تو۔۔۔ تمہیں موٹے ناول ہی اچھے لگتے ہوں گے
میں سادے ورق پر ہی زندہ رہتی ہوں
صفیہ اریب کی نثری نظموں میں لاوے کو موم بناکر آہستہ آہستہ شمع صفت پگھلانے کی وہ دل خراش کیفیت ہے کہ اس کو پوری طرح محسوس کرنے کے لیے اردو شاعری کے روایتی ماحول سے چھلانگ لگانا ضروری ہے، ورنہ یہ سرگوشی اپنی شعریت کو اثرانداز نہ ہونے دےگی۔ اوربھی کئی اہم نام ہیں جیسے عادل منصوری، شہریار، صادق، عین رشید، خلیل مامون، صلاح الدین پرویز، علی، علی ظہیر، یعقوب راہی وغیرہ۔ اس مختصر مضمون میں ان سب کی مثالیں دینا دشوار ہے۔ یہ کام تو ایک تفصیلی مضمون ہی کر سکتا ہے۔ پھر بھی ان میں سے چند نثری نظمو ں کی جھلکیاں پیش کی جا سکتی ہیں۔ ملاحظہ ہوں۔
(۱)
مشتعل حرف اندھیرا اندھا
حرف اندھیرا اندھا
حرف لاحرف تلفظ تنہا
(عادل منصوری)
(۳)
تمہارا شعلہ بجھ چکا ہے
اس لیے نہیں کہ ہوا تیز تھی اور مخالف
بلکہ اس لیے کہ تم نے
اسے ہوا سے دور رکھا ہے
(شہریار)
(۳)
سلیٹی آسماں کے سائے تلے
میں
اک نقطہ معدوم
بڑے صبر سے بڑی دیر سے بیٹھا ہوں
کہ آخر یہ معاملہ کیاہے
(علی)
(۴)
میں نے مروت گھول کے اپنے
جسم کو پھیکا کرنا سیکھا
اتنی بھی امید نہیں اب
تم سے چہرہ مانگ سکوں گا
لاؤ وہ آنکھوں کا بجھتا شعلہ دے دو
راکھ بہت ہے جسم کے اندر
(علی ظہیر)
(۵)
یہ لوگ ہیں ہر حرف کے آغاز سے پہلے کے بکھرتے ہوئے
کاغذ کی سفیدی
یہ لوگ ہیں ہر سرحد انجام کے باہر سے گذرتی ہوئی
خاموش ہواؤں کے سفینے
(خلیل مامون)
(۶)
لیکن جب بھی
میرے تیرے کالے ہاتھ
خالی رہتے ہیں
کیوں خود کو بندوق اٹھانے پر
مجبور پاتے ہیں؟
کیوں؟!
(یعقوب راہی)
نئی نسل کے جدید شاعروں کے بعد جو جدید تر شاعروں کی صف سامنے آئی ہے، وہ نثری نظموں کو اپنا رہی ہے، اس لیے بھی کہ اس نے کلاسیکی شاعری کو استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بہرحال بحث کی کلید زبان وبیان پر قدرت میں ہے اور یہیں اس کا کھرا کھوٹا کھلتا ہے۔ اس کے علاہ جب ایک بار عظیم شاعری کے ستونوں سے نظریں پھیر لی گئیں تو محل اور ایوان بنانے کا خیال بھی خام معلوم ہونے لگا۔ بس ایک لمحاتی کیفیت، ایک ادھورا منظر، خوا ب کی ’’بیداری‘‘، جاگتی آنکھوں کے ٹوٹے سپنے غرضیکہ الفاظ موم بننے اور پگھلنے لگے۔ یہ پتھر کے ٹکڑے، تراشے تراشے ہیرے نہیں بنیں گے اور نہ بننا چاہتے ہیں، ان کی دکان نہیں سجےگی، یہ ریت کے ذروں کی طرح چمک کر رہ جائیں گے۔۔۔ ہماری آپ کی زندگی کی طرح۔۔۔!
ابھی نثری نظموں کا آغاز ہے۔ یہ پہلا دور ہی بڑا صبر آزما ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ شعری پیکروں کو ڈھالا جائے اور آوازوں کے شور میں صرف ایک سرگوشی ہی گونج کر رہ جاتی ہے۔ نثری نظمیں، رزمیہ کلاسیکی اور آزاد نظم کے آہنگ اور عبور کے خلاف احتجاج ہیں اور زبان کی تشکیل دینے کی ایک کوشش خواہ کتنی ہی خام کیوں نہ ہو مگر یہ احتجاج ضروری ہیں۔ میری ایک نثری نظم کی چند سطریں،
میری نظمیں۔۔۔ خود فریبی سے آگے نکلتی نہیں
اور میں۔۔۔ ایک کرم کتابی
تیز آندھی کی ٹوٹی تمنا لیے
کمزور نظموں کی شاخوں سے لپٹا ہوا
زرد پتوں کو اڑتے ہوئے دیکھتا ہوں!
(یہ مضمون ایمرجنسی میں شائع نہ ہو سکا اور آہنگ (گیا) ستمبر ۱۹۷۷ء میں شائع ہوا)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.