نیا ادب اور پرانی کہانیاں
علی گڑھ میں کیلے کا ایک باغ تھا۔ طوائفوں کی رسم تھی کہ ہر شبِ عاشور کو اس باغ میں کیلے کا پتا توڑنے جاتی تھیں۔ ایک برس شہر میں فساد ہو گیا۔ باغ کے ہندو مالک نے لٹھ بند جاٹ بٹھا دیے کہ شب عاشور کو وہاں کوئی قدم نہ رکھے۔ اس پر وہ رسم جو طوائفوں کے لئے مخصوص تھی، شہر بھر کے مسلمانوں کا مسئلہ بن گئی۔ تاہم طوائفوں نے طے کیا کہ مردوں کا کوئی گروہ ان کے ساتھ نہیں جائےگا کہ یہ رسم کے خلاف بات ہوگی۔ تو وہ اپنے دستور کے مطابق گئیں اور کیلے کاپتا توڑ کر صحیح و سلامت واپس آ گئیں۔
ہماری دادی اماں کہا کرتی تھیں کہ اصل میں اس جلوس کے ساتھ سبز پوش سوار تھے۔ جنہیں دیکھ کر لٹھ بند جاٹ دہل گئے اور باغ کادر کھول دیا اور خواجہ حسن نظامی کہتے ہیں کہ سن ستاون میں دلی والوں نے حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کے مزار کے قریب دو سبز پوش سواروں کو گزرتے دیکھا تھا۔ اس طور کے سوار مسلمانوں کو سب سے پہلے بدر میں نظر آئے تھے۔ تب سے یہ روحانی واردات ہماری ذات کا حصہ ہے اور ان سبز پوش سواروں پر ایسا اعتبار قائم ہوا کہ جب جب پیمبری وقت پڑا، یہ سبز پوش سوار ضرر دکھائی دیے۔ سبز پوش سوار نہ ہوتے تو سیاہ نقاب ڈالے تلوار باندھے کوئی سوار آتا اور مشکل کشائی کرتا۔ نقاب پوش سوار نہ آتا تو خواب میں کوئی سفید عمامہ باندھے نورانی صورت آتی اور گرہ کشائی کرتی۔
مگر سن ستاون میں دلی والوں کو سبزپوش سوار نظر آئے اور انہیں قیامت سے نہ بچا سکے۔ ہم نے اس نازک وقت میں ذاتی شجاعت سے لے کر اجتماعی عقائد تک اپنی ایک ایک شے کو جس میں ہمیں ایمان تھا، آزماکر دیکھ لیا۔ ہماری کوئی شے ہمیں نہ بچا سکی۔ اس سے ہمارا اپنی ذات سے اعتبار اٹھ گیا اور سبزپوش سوارو ں میں ایمان صرف علی گڑھ کی عورتوں کو رہ گیا۔ علی گڑھ والے سرسید ان کے قائل نہیں رہے تھے۔
سرسید احمد خاں کے وقت سے تقسیم تک دیومالائی طرز احساس فرسودہ خیالی کی علامت بنا رہا۔ سرسید تحریک، نیاز فتحپوری گروپ، ۱۹۳۹ء کی ادبی تحریک، سب نے اپنے اپنے وقت میں اسے معیوب اور قابلِ تنسیخ جانا اور ۱۹۳۹ء کی تحریک کے ماتحت تو ماضی کے حوالے سے سوچنا بھی قدامت پسندی کی دلیل بن گیا تھا۔ ان کے لئے حاضر پوری حقیقت تھا۔ ان فکری تحریکوں کے ماتحت ہم نے اپنے آٖپ کو بہت بدلا اور اپنی دانست میں اوہام پرستی اور قدامت پسندی سے بڑی حد تک پیچھا چھڑا لیا تھا۔ بھول چوک میں کوئی میرا جی پیدا ہو گیا تو اسے مستثنیات کے خانے میں ڈال دیا۔ لیکن فسادات کے زمانے میں وہ سبزپوش سوار جانے کس کھوہ سے پھر نکل آئے اور بستی بستی گھرے ہوئے لوگوں کو سوار، خواب اور معجزے دکھائی دینے لگے۔ 1 معلوم ہوا کہ انیسویں صدی کے یورپ کے عقلی نظریے اور علی گڑھ یونیورسٹی کی تعلیم سب ظاہری ٹیپ ٹاپ تھی۔
ہمارا لباس، ہماری گفتگو، ہمارے ادب آداب ضرور بدلے تھے، ہمارے خیالات او رنظریات بھی بہت بدل گئے تھے مگر ہمارا بنیادی طرز احساس جوں کا توں تھا۔ اس رستاخیز میں نقل وطن کرنے والے مہاجر کہلائے۔ جن شہروں میں وہ پہنچے وہاں کے لوگوں نے اپنے آپ کو انصار سمجھا۔ قدیم تاریخی اصطلاحوں کا یہ بے ساختہ استعمال اپنے ایک فعل کو ایک مخصوص معنی پہنانے کا عمل تھا۔ ہم گویا اپنے اس وقت کے عمل سے پیوند کرکے دیکھ رہے تھے۔
ہجرت کرنے والے اسپیشل گاڑیوں میں لد پھند کر پاکستان پہنچے، مگر انہوں نے اپنی ریل گاڑیوں کے متوازی بیلیوں اور رتھوں میں لدے ہوئے قافلے بھی چلتے دیکھے ہوں گے۔ مشرقی پنجاب کے دور دراز علاقوں سے آنے والے ان دیہاتیوں میں ایسے گروہ بھی تھے جو ابھی قبائلی عہد کی فضا میں جی رہے تھے۔ ان میں وہ میو قبلے بھی تھے جو اپنے علاقے میں جاٹوں سے اس وضع سے لڑے تھے کہ صبح کو نقارۂ جنگ پہ چوب پڑی اور فریقین بلم اور بھالے لے کر نکل آئے۔ شام کو التوائے جنگ کا نقارہ بجا اور لڑنے والے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ ان لوگوں نے ابھی دستی بنانے نہیں سیکھے تھے اور نہ چھپ کر چھرے بازی کی وارداتیں کرتے تھے اور نہ اس علاقے میں برہنہ عورتوں کا کوئی جلوس نکلا۔ ہمیں اس ہنگام میں پہلی بار پتہ چلا کہ ہمارے معاشرہ میں انگریزی تعلیم سے آراستہ طبقوں کے پہلو بہ پہلو ابھی وہ قبیلے بھی موجود ہیں، جن کی قدیم اخلاقیات میں بال برابر فرق نہیں آیا ہے اور جو محبت اور نفرت کے برملا اظہار کے قائل ہیں۔
پس اس رستاخیز میں چھپی ہوئی چیزیں سامنے اور دبی ہوئی صورتیں سطح پر آ گئیں۔ یوں معلوم ہوا کہ اگلی پچھلی کئی صدیاں بیک وقت ہمارے وقت میں سانس لے رہی ہں۔ اس ادراک کے طفیل احساسات کے قدیم سانچے اور اظہار کی پرانی صورتیں جنہیں ہم متروک سمجھ بیٹھے تھے، پھر سے بامعنی اور کارآمد نظر آنے لگیں۔ نئی نظم یکایک ایسے فیل ہوئی جیسے پنجاب میں گاڑیوں کا سلسلہ فیل ہوا تھا۔ اس وقت سے اب تک نئی نظم کی حیثیت اسپیشل ٹرین کی سی چلی آتی ہے۔ دور کے بدلنے کے ساتھ ذریعہ ٔ اظہار اکثر بدل جایا کرتا ہے۔ فسادات کے دنوں میں ہماری بستی کی چڑیوں نے یکایک صبح کو چہکنا بند کردیا تھا۔ کہتے ہیں کہ کوئی آفت آنے والی ہو تو چڑیاں پہلے سے سونگھ لیتی ہیں اور ان شاخوں سے ہجرت کر جاتی ہیں۔
غالب کا وجدان چڑیوں سے کم تیز نہیں تھا۔ غالب کا دور سن ستاون کی آفت کے ساتھ ختم ہوا۔ مگر اس نے غزل کہنی کئی برس پہلے سے چھوڑ رکھی تھی۔ پھر اس نے یاروں کو اردو میں خط لکھنے کا شغل پکڑا۔ سن ستاون میں یہی شغل اس کے لئے تخلیقی اظہار کا ذریعہ بن گیا۔ اس طور غالب اپنے زمانے کے بعد بھی تھوڑی مدت زندہ رہا۔ حالی اور آزاد نے، انگریزی شاعری کی جتنی معلومات ان تک پہنچی تھی، اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غزل کو تر ک کیا اور نظم کو اختیار کیا۔ یوں اکبرالہ آبادی بہت قدامت پسند بنتے تھے مگر انہیں یہ پتا چل گیا تھا کہ اونٹ پہاڑ کے نیچے آ گیا ہے اور ملک میں ریل گاڑی جاری ہو گئی ہے۔ اس لئے ذریعہ اظہار انہوں نے بھی نئی قسم کی نظم ہی کو بنایا اور ڈپٹی نذیر احمد نے داستان کی روایت سے کنارہ کرکے ناول لکھنے پر کمر باندھی۔
۱۹۴۷ء میں سواری کا سلسلہ پھر درہم برہم ہو گیا۔ ریل گاڑیاں بند ہو گئیں اور دیہاتی ہی نہیں بہت سے تعلیم یافتہ شہری بھی مشرقی پنجاب کی طرف سے بیلیوں اور رتھوں میں سوار ہوکر اور کھوکھرا پار سے اونٹوں پر لد کر پاکستان پہنچے اور لکھنے والے قدیم اصناف سخن میں طبع آزمائی کرنے لگے۔ پچھلے لکھنے والوں نے تو صرف پٹری بدلی تھی۔ مگر تقسیم کے آس پاس پیدا ہونے والوں نے آغاز ہی غزل سے کیا اور غزل کا معاملہ یہ تھا کہ اس ہنگام میں جب نئی نظم والے نئے سماجی تقاضوں اور نئی سائنسی حقیقتوں کا غل مچا رہے تھے، بچارے فراق گورکھپوری، میرومصحفی کی باتیں کر رہے تھے اور غزل کو فانی اور اصغر کے چنگل سے نکال کر نئے رستے پر ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ تقسیم کے بعد نئی شاعری کی ذمہ داری اسی غزل کے سر پڑی۔
تقسیم کے آس پاس پیدا ہونے والوں کی پہلی کھیپ سے ناصر کاظمی، جمیل الدین عالی، شہرت بخاری اور سلیم احمد برآمد ہوئے۔ انہوں نے آغاز غزل سے کیا۔ ابنِ انشا کے بات ذرا دیر میں سمجھ میں آئی۔ پہلے انہوں نے الف لیلہ کے زور پر نظم ہی میں قدیم وجدید کو ملانے کی کوشش کی مگر پھر ہار کر غزل پر آ رہے اور ابن انشاؔ جی بن گئے۔ پھر غزل کے سوا بھی اظہار کے قدیم سانچے آزمائے جانے لگے۔ جمیل الدین عالی غزل کی دنیا سے نکل کر دو ہے تک گئے۔ پچھلوں میں سے مختار صدیقی اپنے ہم عصر قیوم نظر کو نئی ہیئتوں کے تجربوں میں مصروف چھوڑ کر سی حرفی کی طرف نکل گئے۔ انجم رومانی نے نظم آزاد کو یکسر ترک کرکے اس وضع سے غزل کہنی شروع کی گویا یہی ان کا اسلوب بیان تھا۔ ن م راشد کہ جنہوں نے غزل اور حالیؔ کی ایک سانس میں مخالفت کی تھی، نظم آزاد کا عربی و عجمی قصص و حکایات سے جوڑا ملایا۔ یوں انہوں نے اپنے دوسرے مجموعہ میں غزلوں کا ضمیمہ شامل کرنے میں بھی مضائقہ نہیں جانا۔
سرحد کے ادھر کی نگارشات اس وقت میرے پیشِ نظر نہیں ہیں۔ ویسے وہاں کے نئے لکھنے والے مسائل کو سمجھنے کی زیادہ سنجیدگی سے کوشش کر رہے ہیں۔ اسی لئے بنگلور کے پرچہ ’سوغات‘ میں نئی نسل کا حوالہ آتا ہے تو اس کے کچھ معنی بھی نظر آتے ہیں۔ یوں وہاں کی تحریروں اور یہاں کی تحریروں کا ایک ہی طرح سے تجزیہ کرنا شاید درست نہ ہو مگر قدیم اصنافِ سخن نے ادھر بھی نئے لکھنے والو ں کو اپنی طرف کھینچا ہے۔ قدیم اصناف کے رواج پانے کے ساتھ وہ اسالیب بیان بھی جو ماضی ہو گئے تھے، پھر سے بامعنی نظر آنے لگے۔ بعض اسالیبِ بیان تو پرانی اصناف کے حوالے سے آئے۔ مثنوی، شہر آشوب اور ساقی نامہ ایسی اصناف کو برتا گیا تو ان کے ساتھ اس اسلوب بیان کو بھی جو ان سے متعلق چلا آتا ہے، استعمال کیا گیا،
بعدِ تسبیح و حمد ربِ جلیل
لب کشا یوں ہے خاکسار خلیلؔ
اور جب عزیز احمد نے امیر تیمور کے زمانے کو افسانے کا موضوع بنایا تو نثر کے پرانے اسالیب بیان کو کام میں لانا بھی لازم آیا۔ قرۃ العین حیدر کے لئے مشکل یہ تھی کہ اردو نثر میں بیان کا کوئی ایسا اسلوب جو قدیم آریائی عہد کی فضا سے ہم آہنگ ہو، ڈھلی ڈھلائی شکل میں موجود نہیں تھا۔ انہو ں نے اس قسم کا اسلوبِ بیان وضع کرنے کی کوشش کی مگر خود انہیں اس پر اعتبار نہیں آیا۔ شاید اسی لئے وہ فٹ نوٹ میں سنسکرت اور ہندی لفظوں کے معنی دینا بھی ضروری سمجھتی ہیں۔
غزل اگرچہ پرانی صنفِ سخن ہے لیکن چونکہ اس کی روایت منثوی یا داستان کی طرح درمیان میں منقطع نہیں ہوئی تھی، اس لئے وقت کے ساتھ اس کے زبان و بیان کا رنگ بھی بدلتا چلا گیا۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ بعد میں آنے والے شاعروں نے اس کی زبان کو دھو مانجھ کر جدید بنا دیا تھا۔ مگر غزل میں نئے قدم رکھنے والے اس دھلی منجھی زبان سے مطمئن نہیں ہوئے۔ ناصر کاظمی، ابنِ انشا اور شہرت بخاری نے ناسخؔ سے حسرت موہانی تک سب بزرگوں کی تعلیمات کو فراموش کر دیا اور متروک لفظ اور عاق کئے ہوئے لہجے بلا تکلف برتنے لگے۔ بات یہ ہے کہ ان نئے لکھنے والوں نے پرانے تاریخی زمانوں کو موضوعِ سخن بنایا ہے۔ پرانی اصناف کو ذریعۂ اظہار چنا ہے یاپرانے اسالیب بیان کو برتا ہے تو شوقیہ ایسا نہیں کیا ہے۔ ان کے لئے تو یہ گمشدہ ماضی سے رسائی حاصل کرنے کے ذریعے ہیں۔ شاید متروک لفظوں، لہجوں اور ترکیبوں کے استعمال کا بھی یہی مطلب ہے۔
ہر متروک لفظ ایک گمشدہ شہر ہے اور ہر متروک اسلوبِ بیان ایک چھوڑا ہوا علاقہ۔ لفظ جب ڈوبتا ہے تو اپنے ساتھ کسی احساس یا کسی تصور کو لے کر ڈوبتا ہے اور جب کوئی اسلوب بیان تقریر اور تحریر کے محاذپر پٹ جاتا ہے، تو وہ تصویروں، اشاروں، کنایوں تلازموں اور کیفیتوں کے ایک لشکر کے ساتھ پسپا ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ موجودہ براعظموں کے منجملہ پہلے ایک اور بر اعظم تھا جو سمندر میں غرق ہو گیا۔ اردو کی پرانی داستانوں اور پرانی شاعری میں جو رنگارنگ اسالیب بیان اور ان گنت الفاظ نظر آتے ہیں، وہ پتا دیتے ہیں کہ اردو زبان بھی ایک پورا براعظم غرق کئے بیٹھی ہے۔ یہ گمشدہ زبان اب اس کا لاشعور ہے۔ اس کی بازیافت احساسات کے گمشدہ سانچوں کی بازیافت ہوگی اور احساسات کے گمشدہ سانچوں کو ہم پاسکے تو گویا اپنی ذات کے کھوئے ہوئے حصوں کو ہم نے ڈھونڈ لیا۔
تو گویا یہ نئے لکھنے والے کھوئی ہوئی روح کو ڈھونڈتے ہیں، قدیم اصنافِ سخن، متروک الفاظ، گمشدہ لہجے، روکے ہوئے اسالیب ِبیان، یہ سرا کھڑاگ اس لئے پھیلایا گیا ہے کہ کوئی شے گم ہو گئی ہے اور اسے ڈھونڈا جا رہا ہے۔ کچھ کھو جانے اور اس کی وجہ سے غریب ہو جانے اور ادھورا رہ جانے کا احساس شاید آج کی غزل کا بنیادی احساس ہے۔ اس احساس نے غزل میں تو بالعموم عشق کے استعاروں میں اظہار کیا ہے مگر نظم اور افسانے میں عشق کے سوا بھی استعارے استعمال ہوئے ہیں اور بات تاریخ اور دیو مالا تک گئی ہے۔ سن ستاون، الجزائر، قدیم ہند کے قصص وروایات، گویا ان نشانات سے اپنے آپ کو پانے کی، مختلف زمانوں اور زمینوں میں اپنے رشتے تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اشفاق احمد کے رپورتاژ عرشِ معلیٰ، میں لاہور اور قرطبہ دو شہر رفتہ رفتہ ایک شہر بن جاتے ہیں۔ قرۃ العین حیدر قدیم آریائی عہد تک جاتی ہیں اور بکھری ہوئی کڑیاں ملانے کی کوشش کرتی ہیں۔ عزیز احمد نے امیر تیمور کے عہد کو کہانیوں کا موضوع بنایا اور وسطی ایشیا کی طرف نکل گئے۔ ممتاز شیریں نے مختلف دیومالاؤں کو جوڑ کر اپنا ناولٹ میگھ ملہار لکھا اور نظم میں مادھو اپنی زمین سے ٹوٹا ہوا رشتہ جوڑنے پر زور دیتے ہیں۔ تاریخ کے حوالے سے زمین سے پرے رشتے تلاش کرنے کی مثال سعید محمود کی نظم ’الجزائری دوست کے نام‘ ہے جو اس احساس پر ختم ہوتی ہے،
جلتے ہیں تیرے پانو تو جلتے ہیں میرے ہاتھ
رشتوں کی تلاش ایک درد بھرا عمل ہے۔ مگر ہمارے زمانے میں شاید وہ زیادہ ہی پیچیدہ اور درد بھرا ہو گیا ہے۔ مولانا حالی اور ان کے بعد علامہ اقبال نے مسلمانوں کی تاریخ کو پورا حوالہ جانا اور اس بنیاد پر ماضی سے رشتہ قائم کیا۔ ان کے بعد میراجی آئے، جنہوں نے یہ کہہ کر جان چھڑائی کہ میں تو آریائی ہوں اور ہندو دیو مالا میں اپنی جڑیں تلاش کیں۔ اس عہد کے لکھنے والے پر یہ کھلا کہ خون مکمل حقیقت نہیں ہے اور مذہبی عقیدہ غالب حقیقت سہی مگر پوری حقیقت وہ بھی نہیں تھا۔ بہت سے رشتے آپس میں گھل مل کر ذات کی تشکیل کرتے ہیں۔ یہ آگاہی آج کے لکھنے والے کے احساس ِ ماضی کو مولانا حالیؔ اور علامہ اقبالؔ کے احساسِ ماضی سے اور دوسری طرف میراجی کے احساسِ ماضی سے الگ کرتی ہے اور اسے مخصوص طور پر اس عہد کا احساسِ ماضی بناتی ہے۔
اصل میں ہماری ذات کئی دیومالاؤں کا سنگم ہے۔ قصص وروایات کے مختلف سلسلے یہاں آکر ملتے ہیں۔ کچھ سلسلے علاقوں اور نسل کے حوالے سے، کچھ سلسلے مذہبی عقائد کے راستے سے اور کچھ سلسلے ان مذہبی عقائد کے دیس دیس سفر کے واسطے سے۔ اپنا بچپن کے دنوں میں یہ وطیرہ رہا کہ رام لیلا کے دنوں میں رام لیلا، ایامِ محرم میں ماتم مرثیہ۔ باقی دن یوں گزرتے کہ گھر بیٹھے تو قصص الانبیا پڑھی۔ باہر نکلے تو پڑوس میں ایک عطار صاحب تھے جو شاہنامہ کا منظوم اردو ترجمہ سنایا کرتے تھے وہ سنا۔ یوں بیک وقت میں نے چاروں کھونٹ اپنے دشمن پیدا کر لیے۔ فرعون، یزید، راون اور افرا سیاب، اور ہم حضرت علیؑ کو دنیا کا سب سے بڑا پہلوان سمجھتے تھے اور اس کے بعد رستم کو۔
اور اب جب میں بڑا ہوا ہوں اور مال روڈ کے کتب فروشوں کے پاس امپورٹ لائسنس اور یارو ں کے پاس یونانی دیومالا پر رنگارنگ کتابیں ہیں تو میں دل ہی دل میں جھینپتا ہوں کہ ایکلیز کا اپن کو پتا ہی نہیں تھا۔ اس پر بھی اتنا ڈھیٹ ہوں کہ اس بودی ایڑی والے پہلوان کو رستم کا مد مقابل نہیں سمجھتا اور اس کے صبا رفتار گھوڑے اس رتھ کے سامنے گرد نظر آتے ہیں، جس کے رتھ بان کرشن جی تھے۔ اگر یہ معاملہ مجھ تک محدود ہوتا تو سمجھ لیتا کہ یہ اپنی تربیت کا گھپلا ہے۔ لیکن پوری برادری کا یہی حال ہے۔ جس نے محرم نہ کیا، اس نے قصص الانبیا پڑھی ہے اور جو قصص الانبیا پڑھنے یا سننے سے رہ گیا تو اس کے ساتھ یہ واردات گزری کہ اس کے باپ دادا نے یہ قصے پڑھ اور سن رکھے تھے اور اب یہ مختلف تصورات حیات پر مبنی قصے اور واقعات ہمارے دل و دماغ میں آپس میں اس طرح شیر و شکر ہوئے کہ نسلی اثر بھی ان کے نیچے دب کر رہ گیا۔
ن، م راشد حرفِ مطلب ادا کرنے کے لئے عجمی قصوں کو برتتے ہیں۔ مرزا جمیل الدین عالیؔ خالص ہندی صنف دو ہے میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔ سیدہ قرۃ العین حیدر قدیم ہند کا سفر کرتی ہیں اور مجھ ایسا نا خلف آریائی بات بے بات کربلا کی بات کرتا ہے۔ ہم لوگ پلے بڑھے ایسی سرزمین پر جہاں صدیوں سے آریاؤں نے ڈیرے ڈالے تھے اور اپنی دیومالا پھیلا رکھی تھی۔ ہمارے خیالات وعقائد کا سرچشمہ صحرائے عرب میں ہے۔ ہم اگر حیوان ہوتے تو نسلی اور جغرافیائی حقیقت پوری حقیقت ہوتی۔ مگر آدمی کا قصہ یہ ہے کہ اس کی زندگی میں دل و دماغ نے زیادہ جگہ گھیر لی ہے۔ اس لئے نسلی اور جغرافیائی اثرات اور بسا اوقات خیالات و عقائد سے پیدا ہونے والے اثرات غلبہ پا لیتے ہیں۔
یوں وہ اثرات بھی بالکل زائل نہیں ہو جاتے اور ہمارے خیالات و عقائد کسی فلسفہ کی کتاب کی صورت میں تو ہمارے پاس پہنچے نہیں تھے۔ وہ زیادہ تر مقدس نبیوں کے قصوں اور تشبیہوں اور استعاروں کی صورت میں ہم تک پہنچے تھے پھر آخر انہیں قبول کرنے والوں کے بھی، محسوس کرنے اور قبول کرنے کے کچھ اسلوب تھے۔ اس لئے اس نظامِ تصورات کو قبول کرنے میں جہاں یاروں نے اپنے آپ کو بدلا، وہاں تھوڑا سا اپنا رنگ بھی اس میں شامل کر دیا۔ اس صورت حال نے وہ برہمی پیدا کی ہے کہ کبھی ہم ہندو تہذیب کو کوستے ہیں کبھی عجمیت کی گالی تراشتے ہیں اور کبھی دور بیٹھے بیٹھے مصریوں کو دیکھ کر کڑھتے ہیں کہ وہ اہرام مصر کو بھی اپنی تاریخ کا حصہ سمجھتے ہیں اور اسی کے ساتھ موہن جوداڑو میں کھدائی بھی جاری ہے۔
بات یہ ہے کہ گھروں میں پلنے والے بچے نیک اٹھتے ہیں۔ لیکن جن کا گھر سے پانو نکل جاتا ہے وہ دوسرے محلوں کے لڑکوں سے کچھ اچھی بری گالیاں اور کچھ نئے کھیل سیکھ آتے ہیں۔ جو قومیں ایک زمین میں سمٹ کر رہیں یا نکلیں تو اس طرح کہ نہ خود نسل کے قلعہ سے نکلیں نہ مذہب کو قلعہ سے باہر جانے دیا، ان کے سوچنے اور محسوس کرنے کے طریقوں میں ایچ پیچ پیدا نہیں ہوتے اور ان کی تہذیب بھی یک رنگ رہتی ہے۔ مگر عربوں نے نہ اپنی نسل کو سمیٹ کر رکھا، نہ مذہب کو گھر سنگراکر رکھا۔ یہ تو وہ لوگ ہیں جو ہنڈیا کا گرم مسالا لینے کے لئے ہندچین تک جاتے تھے اور جس قوم کی ہنڈیا خالص نہ ہو اس کی تہذیب کیسے خالص رہ سکتی ہے۔
گڑ کھائیں اور گلگلوں سے پرہیز۔ کھانے بارہ مسالے دار ہوں۔ پرچم ملکو ں پر لہرائیں مگر تہذیب نخالص رہے، یہ کیونکر ممکن ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کا دسترخوان جتنا رنگارنگ ہوا، اتنی ہی رنگارنگ ان کی تہذیب بن گئی اور اسلام کی لطافت عجمیت، ہندیت غرض قسم قسم کی کثافتوں کے ساتھ مل کرجلوہ دکھانے لگی۔ تو ہمارے لئے مشکل ہمارے بزرگوں کے چٹورپن اور آوارہ مزاجی نے پیدا کی ہے۔ ہندو قوم کتنے آرام میں ہے کہ اس کی تاریخ، جغرافیہ، نسل، مذہب، وطن سب ایک رشتے کی صورت رکھتے ہیں۔ ہماری ذات کے رشتے پیچ در پیچ اور تہ در تہ ہیں۔
اس زمانے کے لکھنے والے کا مسئلہ اس اجتماعی ذات کو اس کے تمام رشتوں سمیت دریافت کرنے اور شعور میں لانے کا مسئلہ ہے۔ یہاں سے اس غریب کی خرابی کا آغاز ہوتا ہے۔ اجتماعی ذات کو اس کے تمام رشتوں سمیت تخلیقی سطح پر دریافت کرنے اور قبول کرنے کا عمل رویے کی تبدیلی چاہتا ہے۔ یعنی یہ کہ سن ستاون کی شکست کے بعد اپنی ذات سے اعتبار اٹھ جانے کے باعث، اپنی روحانی واردات میں، اپنے احساسات میں شک پیدا ہو جانے کے سبب ہمارے یہاں مختلف اوقات میں جو ذہنی رویے پیدا ہوئے، ان کو ترک کیے بغیر یہ عمل ممکن نہیں۔ اسی لئے آگ کا دریا میں بعض رشتوں کی دریافت سانپ کے منہ میں چھچھوندر کی مثال بن جاتی ہے۔ بہر حال قرۃ العین حیدر نے دریافت کی ہمہمی تو باندھی اور کئی مختلف رشتوں کو لشٹم پشٹم شعور کے دائرے میں لے آئیں۔ اکثر لکھنے والوں کا تو یہ حال ہوا کہ کسی ایک رشتے سے ایسا جذباتی لگاؤ پیدا کیا کہ باقی رشتوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں۔
غزل کہنے والوں کو جو ایک آسانی تھی، اسی نے ان کے لئے ایک مشکل پیدا کی۔ آسانی یوں کہ غزل ہمارے یہاں صدیوں سے شعور ذات کا ذریعہ چلی آتی ہے، وہ ہماری ذات کے رنگوں اور رشتوں سے خوب آشنا ہے۔ اس لئے تو وہ ہمارے عہد میں نمائندہ ذریعہ اظہار بنی۔ لیکن صدیوں تک شعور ذات بنے رہنے سے اس کے ہاں احساسات کے کچھ اسلوب معین ہو گئے ہیں یا یوں سمجھ لیجئے کہ اس میں کچھ نشیب بن گئے ہیں۔ ذرا بے احتیاطی برتیے تو پانی انہیں نشیبوں میں مرتا ہے۔ اس زمانے کے شاعروں کو ان نشیبوں کا احساس تو شدت سے ہے مگر انہوں نے ان سے بچنے کے عجب عجب ڈھنگ نکالے ہیں۔
سلیم احمد نے تغزل سے باغی اس غزل کی روایت سے رشتہ جوڑا جسے جرم بغاوت میں کچل دیا گیا تھا۔ اس زور پر انہوں نے نئی غزل بھی کہی مگر طبیعت کا امروہہ پن نہیں جاتا۔ ہر پھر کر زبان کی شاعری پر آ جاتے ہیں۔ شہرت بخاری کی جان کے ساتھ امروہہ پن رقیق القلبی کی صورت میں لگا ہے۔ اس نشیب سے وہ بار بار نکلتے ہیں مگر بار بار پانو رپٹتا ہے اور شہرت بخاری اور قرۃ العین حیدر کو جو دل بستگی رقیقی القلبی سے ہے، وہی شغف ناصر کاظمی کو افسردگی سے ہے۔ اس شیریں کیفیت میں انہیں وہ لذت ملی ہے کہ وہ اس سے باہر نہیں نکلنا چاہتے۔ ابن انشاؔ وقتاً فوقتاً اپنے آپ کو انشاؔ جی کہہ کر ہی سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے شوق کے سارے مرحلے طے کر لیے۔
جمیل الدین عالی نے خدانخواستہ دوہے نہ لکھے ہوتے تو سیدھے سادھے دلی والے غزل گو ہوتے۔ احمد مشتاق ان لوگوں کے بعد میں آئے ہیں، وہ ایک طرف احساسات وجذبات کے معین اسالیب اور روایتی انداز ِبیان سے بچنے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں۔ دوسری طرف وہ اپنے سے زیادہ عمر والے بعض ہم عصروں کے سایے سے بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں کبھی کبھی وہ اتنا انوکھا امیج بناتے ہیں کہ وہ دھندلا جاتا ہے۔ ویسے جب ان کی بنائی ہوئی تصویر روشن ہو تو اس کی صورت یہ ہوتی ہے،
خالی کمروں میں پھر رہا ہوں
بجھ جاتی ہیں بار بار شمعیں
تصویر سازی کی یہ صورت اس صورت سے احساس کے اعتبار سے مختلف ہے جس میں ماضی کو ایک محسوس شکل میں گرفت کیا گیا ہے۔ مثلاً،
پھر کئی لوگ نظر سے گزرے
پھر کوئی شہرِ طرب یاد آیا
(ناصر کاظمی)
یا سایہ خیال بھی اب سر سے اٹھ گیا
یا وہ چھتیں تھیں جن میں تھے ہیرے جڑے ہوئے
(انجم رومانی)
اس صورت میں تو ماضی یادوں کی صورت حافظہ میں محفوظ ہے، جن سے رنگا رنگ تصویریں بنتی ہیں۔ مگر اول الذکر صورت میں ماضی بالکل گم ہے، بس ایک خالی پن کا احساس ہے۔
تو یہ لکھنے والے اپنی اپنی جگہ ادھورے سہی، البتہ یہ سب مل جل کر اس عہد کے طرز احساس کو ضرور پیش کرتے ہیں اور اس طرز احساس کی بنیاد اس تصویر پر ہے کہ آدمی حاضر میں جیتا ہے مگر اس کی جڑیں ماضی میں پھیلی ہوئی ہیں اور ماضی تاریخ، نسل، دیومالا اور مذہب ایسے مختلف علاقوں میں بکھرا ہوا ہوتا ہے۔ اسی لئے ان لکھنے والوں کے یہاں ماضی اور حال ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ افسانے میں ایک زمانے کے بیان میں کئی کئی زمانے لپٹے چلے آتے ہیں اور شاعر اس انداز میں سوچتے ہیں،
ہر قدم شوق بھی ہے منزل کا
ہر نفس یادِرفتگاں بھی ہے
(ناصر کاظمی)
گویا یہ لوگ ان معنوں میں نئے نہیں ہیں کہ انہوں نے نئے سماجی تقاضے پورے کئے ہیں یا نئی سائنسی ایجادات کو اپنے ادب میں سمویا ہے۔ ویسے اگر اس بات پر نئے پن کا انحصار ہوتا تو ایچ جی ویلز صاحب بیسویں صدی کے نمائندہ ناول نگار ہوتے اور ٹامس مان، جس نے پرانے عہد نامے کے چند قصوں کی مدد سے ناولوں کا سلسلہ لکھ ڈالا، دقیانوسی ناول نگار قرار پاتا اور ہمارے یہاں اس زمانے میں جب مختلف شاعر ریل گاڑی اور ہوائی جہاز پر نظمیں لکھ کر جدید بننے کے جتن کررہے تھے، بچارے علامہ اقبال نوسٹلجیا میں مبتلا تھے اور مسجدِ قرطبہ لکھ رہے تھے۔ اس زمانے اور اس زمانے کے جدیدوں میں ایک ہی فرق ہے کہ ریل گاڑی اور ہوائی جہاز ان کے لئے دید تھے، ان کے لئے اسٹپنک شنید ہے اور تیسری جنگ کا خطرہ اخبار کی خبر۔
اور جہاں تک علامہ اقبال کا معاملہ ہے تو ان سے آج کے لکھنے والوں کا رشتہ ضرور ہے مگر اس فرق کے ساتھ کہ ان کے لئے ماضی ایک واضح اور معین رشتہ تھا۔ یہ رشتہ ان کے دائرہ ادراک میں آ گیا تھا اور اس کی صداقت پر ان کا ایمان تھا، اس لئے وہ یقین کے ساتھ کہہ سکتے تھے کہ،
میں کہ مری غزل میں ہے آتشِ رفتہ کا سراغ
آج کے لکھنے والوں کے لئے ماضی کوئی واضح اور معین رشتہ نہیں رہا ہے۔ بلکہ رشتوں کا ایک گچھا ہے جس کے مختلف سرے ان کے ہاتھ میں آ آکر پھسل جاتے ہیں اور ان رشتوں کی صداقت پر بھی انہیں ایسا یقین نہیں ہے۔ ایسی صورت میں وہ زیادہ سے زیادہ اداس ہوکر اتنا ہی کہہ سکتے ہیں،
مل ہی جائےگا رفتگاں کا سراغ
اور کچھ دن پھر و اداس اداس
(ناصر کاظمی)
رفتگاں کا سراغ ہمارے لئے کیلے کا پتا لانے کا معاملہ ہے۔ ہم اپنے باغ سے دور ہو گئے ہیں۔ ماضی سے رشتہ استوار ہو تو ماضی کو یاد کرنا رسمی معاملہ ہے۔ رشتہ ٹوٹ جائے تو ماضی عہد کا مسئلہ بن جاتا ہے۔
حاشیہ
(۱) ۱۹۶۵ء کی جنگ میں سبز پوشوں نے پھر ظہور کیا اور پھر بستی بستی لوگوں کو سوار، خواب اور معجزے دکھائی دیے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.