Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

نئی شاعری، نامقبول شاعری

سلیم احمد

نئی شاعری، نامقبول شاعری

سلیم احمد

MORE BYسلیم احمد

     

    نئی شاعری کی تمام قسموں میں، ان کے تنوع اور اختلاف کے باوجود ایک چیز مشرک ہے، ’’نامقبولیت۔‘‘ آپ اسے پسند کریں یا ناپسند، اس سے خوش ہوں یا ناراض، اس پر شرمندہ ہو یا نازاں، نئی شاعری تمام کی تمام نامقبول شاعری ہے۔ لیکن قبل اس کے کہ میں اس بات کو آگے بڑھاؤں، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ’’نئی شاعری‘‘ کے الفاظ سے غلط فہمی پیدا ہونے کے بعض امکانات کا سد باب کر دیا جائے۔ مثلاً سوال کیا جا سکتا ہے کہ نئی شاعری سے میری کیا مراد ہے اور یقیناً اس سوال کے پیچھے کچھ اور سوال بھی ہوں گے۔ جیسے کوئی پوچھ سکتا ہے کہ فیضؔ نئے شاعر ہیں مگر نامقبول شاعر نہیں ہیں۔ اسی طرح کہا جا سکتا ہے کہ مجازؔ کی شاعری نئی شاعری تھی مگر نامقبول شاعری نہیں ہے۔

    ایک اور جہت سے یہی سوال فراقؔ اور ناصرؔ کاظمی کے بارے میں بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ مجھے جلد از جلد واضح کرنا پڑےگا کہ نئی شاعری سے میری مراد کیا ہے۔ ایک بات ظاہر ہے کہ فیضؔ میری تعریف کی حدود میں نئے شاعر نہیں ہیں۔ آپ احتجاج کرنے میں جلدی نہ کریں اور مجھے کہہ لینے دیں کہ وہ نئے شاعر نہیں، ترقی پسند شاعر ہیں۔ یہی بات مجازؔ کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ مجازؔ کی شاعری بھی نئی شاعری نہیں، ترقی پسند شاعری ہے۔ اسی طرح فراق اور ناصر بھی اس مضمون کی حدود میں نئے شاعر نہیں کہلائیں گے بلکہ نئے غزل گو۔ بات شاید کچھ واضح ہوئی ہے مگر اس پر بھی اعتراض کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً کہا جا سکتا ہے کہ نئی شاعری کی یہ حد بندی اس بنا پر درست نہیں ہے کہ فیض اور مجاز ترقی پسند شاعر ہونے کے باوجود نئے شاعر بھی ہیں۔ اور فراق اور ناصر کا نیا غزل گو ہونا ان کے نئے شاعر ہونے کی نفی نہیں کرتا۔ وہ نئے غزل گو بھی ہیں اور نے شاعر بھی۔

    مجھے اعتراف ہے، ایک خاص معنی میں یہ دونوں اعتراض درست ہیں۔ لیکن اس مضمون کی حد تک میں نئی شاعری کی جو تعریف متعین کرنا چاہتا ہوں، اس کے لیے یہ حد بندی ضروری تھی۔ ایک تو اس وجہ سے کہ میں ہر ممکن ابہام سے بچنا چاہتا ہوں اور دوسرے اس سبب سے کہ اس حد بندی کی گنجائش خود نئی شاعری کی تاریخ میں موجود ہے۔ نئی شاعری بلکہ پورے نئے ادب کی تحریک ابتدا میں جن محرکات سے پیدا ہوئی، جن عناصر کو اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھی، ترقی پسندوں نے بعض اسباب کی بنا پر اپنے آپ کو ان سے الگ کر لیا اور خود کو نیا ادیب یا نیا شاعر کہلانے سے زیادہ ’’ترقی پسند‘‘ کہلانا پسند کیا۔

    دوسرے لفظوں میں ۱۹۳۶ء کی تحریک بہت جلد دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک حصہ ترقی پسند کہلانے لگا اور دوسرا غیرترقی پسند۔ یعنی فیضؔ اور ان کے ہم نوا ترقی پسند کہلائے اور میراجی اور راشد وغیرہ نئے شاعر۔ اور یہ دونوں حصے نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے سے الگ ہوے بلکہ آپس میں متصادم بھی رہے۔ چنانچہ فیض اور مجازؔ اور ان کے قبیلؔ کے دوسرے بہت سے شاعروں کو نیا شاعر نہ کہہ کر میں نے ان کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی ہے۔ یہ زیادتی اگر واقعی زیادتی ہے اور ان بےچاروں کے ساتھ روا رکھی گئی ہے تو اس کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہے، بلکہ ترقی پسند تحریک پر ہے یا پھر یہ کہنا چاہئے کہ زیادتی تاریخ ادب کی ہے۔

    اب رہ گیا دوسرا مسئلہ نئی غزل کا، تو اس سلسلے میں مجھے صرف اتنا کہنا ہے کہ نئی شاعری کی تحریک اصلاً نظم نگاری کی تحریک تھی۔ نہ صرف ۱۹۳۶ میں بلکہ اس سے پہلے ۱۹۲۰ء میں، اور اس سے بھی پہلے ۱۸۷۶ میں نئی شاعری کے معنی نئی نظم ہی کے رہے ہیں اور کئی لحاظ سے یہاں تک کہا جا سکتا ہے کہ نئی شاعری کی تحریک کسی نہ کسی طرح غزل گوئی کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر دور میں غزل اس مخالفت کا سامنا کرتی رہی ہے اور چپکے ہی چپکے نئی نظم کے مختلف عناصر قبول کرکے خود کو نئی شاعری کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش بھی کرتی رہی۔ بہرحال اس وضاحت کے بعد میرے لیے یہ کہنا ممکن ہو گیا ہے کہ نئی شاعری سے میری مراد وہ نظمیہ شاعری ہے جو میراجی اور راشد سے شروع ہوکر افتخار جالب، اور پھر وہاں سے نیچے اتر کر پروز پوئم تک پہنچتی ہے اور تمام کی تمام نامقبول شاعری کی تعریف میں آتی ہے۔

    اب ایک وضاحت مجھے ’’نامقبول شاعری‘‘ کی اصطلاح کے بارے میں کرنی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نامقبول شاعری سے میری کیا مراد ہے اور کیا کسی شاعر یا شاعری کا نامقبول ہونا جامد حقیقت کی حیثیت رکھتا ہے؟ غالب اپنے زمانے میں نامقبول یا نسبتاً کم مقبول شاعر تھا۔ اب مقبولیت کے سارے ریکارڈ توڑ چکا ہے۔ اس کے برعکس ذوق اپنے زمانے کا مقبول ترین شاعر تھا، اب نامقبول شاعر ہے۔ اقبال کی شاعری بھی مقبولیت، زیادہ مقبولیت اور انتہائی مقبولیت کے کئی مرحلوں سے گزر رہی ہے۔ فیضؔ ابھی چند برس پہلے بہت مقبول شاعر تھے اب نسبتاً کم مقبول شاعر ہیں اور ہو سکتا ہے کہ آئندہ اخترؔ شیرانی کی طرح اتنی مقبولیت بھی قصہ پارینہ بن جائے۔

    ان مثالوں سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ شاعری کی مقبولیت اور نامقبولیت کا گراف وقت، ماحول اور ذوق کے تقاضوں کے مطابق گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ چنانچہ کسی بھی شاعری کو مستقل طور پر نامقبول یا مقبول نہیں قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ بات یقیناً بالکل درست ہے لیکن میں نئی شاعری کو جن معنوں میں ’’نامقبول شاعری‘‘ کہتا ہوں، وہ اس سے مختلف ہے۔ اپنی بات کو واضح کرنے کے لیے میں ایک اور اصطلاح استعمال کروں گا۔۔۔ پسندیدہ شاعری۔

    میرے نزدیک وہ شاعری جو کبھی ناپسندیدہ تھی، پھر پسندیدہ ہو گئی یا کبھی پسندیدہ تھی پھر ناپسندیدہ ہو گئی۔۔۔ نامقبول شاعری سے مختلف چیز ہے۔ ناپسندیدہ شاعری کی ناپسندیدگی اتفاقی، عارضی اور حادثاتی ہوتی ہے، جب کہ نامقبول شاعری وہ ہے جس کی نامقبولیت اس کی فطرت کا ایک لازمی، جوہری اور دائمی عنصر ہے۔ نئی شاعری انہی معنوں میں نامقبول شاعری ہے۔ یعنی وہ شاعری جو کل بھی نامقبول تھی، آج بھی نامقبول ہے اور اپنی فطرت اور ماہیت کے بعض تقاضوں کے باعث کل بھی نامقبول رہےگی۔ غالباً اب میں نے اپنی بات پوری وضاحت سے کہہ دی ہے۔ اگر کچھ ابہام اب بھی باقی ہے تو آپ کی گفتگو سے استفادے کے بعد اسے اور واضح کر دیا جائےگا۔ بہرحال اب ہم آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    میرا خیال ہے کہ نئی شاعری کی نامقبولیت کی جو تعریف میں نے کی ہے اس پر سب سے پہلا اعتراض یہ کیا جائےگا کہ نئی شاعری کے بارے میں ممکن ہے یہ بات صحیح ہوکہ وہ کل نامقبول رہےگی۔ کیا اس کے برعکس یہ ممکن نہیں ہے کہ آئندہ نئی شاعری ہی مقبول شاعری ثابت ہو؟ یقیناً یہ سوال بہت اہم ہے۔ مگر کہنے والے کہتے ہیں کہ پوت کے پاؤں پالنے ہی میں نظر آتے ہیں۔ کیا آپ واقعی یہ سوچتے ہیں کہ میراجی کی نظم ’’اونچا مکان‘‘ کسی زمانے میں بھی مقبول شاعری کے زمرے میں شامل ہو سکےگی۔ اور کیا افتخار جالب کی ’’قدیم بنجر‘‘ کسی وقت بھی پسندیدگی کا وہ معیار حاصل کر سکےگی جسے ہم مقبو شاعری کہتے ہیں؟ اگر ایسا ہوا تو یقیناً یہ فن کی دنیا کا ایک معجزہ ہی کہلائےگا۔

    بہرحال مستقبل کس نے دیکھا ہے اور میں نہ پروفیسر گوگیا پاشا ہوں، نہ ترقی پسند کہ مستقبل کے بارے میں فیصلے اور پیش گویاں کرنے لگوں۔ اس لیے اپنی بات میں تھوڑی سی ترمیم کرتے ہوے میں آپ سے سمجھوتے کا راستہ کھولتا ہوں اور اب تھوڑی دیر کے لیے میرا موقف یہ ہے کہ نئی شاعری اپنی پیدائش سے لے کر اب تک نامقبول شاعری ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کل بھی اس صورت حال میں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ چنانچہ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ نئی شاعری کی فطرت اور ماہیت میں کوئی ایسی بات ہے جو اسے نامقبول بناتی ہے، یا یہ صرف ایک عارضی صورت حال ہے جو وقت، ماحول اور ذوق کے بدلنے کے ساتھ تبدیل ہو جائےگی۔ دوسرے لفظوں میں نئی شاعری کی نامقبویت اس کی جوہری، دائمی اور لازمی صفت ہے یا محض اتفاق، عارضی اور حادثاتی بات ہے۔

    آپ نے دیکھا، جو بات میں نے پہلے ایک فیصلے کے طور پر کہی تھی، اب اسے سوال کی شکل دے دی ہے۔ یہ میری نیک نیتی اور کشادہ دلی کا ثبوت ہے۔ ایسے ثبوت میں آئندہ عملاً بھی پیش کروں گا۔ اب دوسرا سوال یہ ہے کہ عارضی طور پر ہی سہی لیکن نئی شاعری ماضی اور حال میں نامقبول ہے تو اس کے بارے میں ہمارا رویہ کیا ہونا چاہئے۔ ہم اسے اس کی نامقبولیت کی بنا پر غیر اہم اور بے کار شاعری قرار دیں، جیسا کہ عام لوگ کہتے ہیں بلکہ بہت سے ادب کے دل دادگان، یہاں تک کہ نقاد بھی اس رویے کا اظہار کرتے ہیں یا اسی نامقبولیت کو دلیل بناکر نئی شاعری کی اہمیت اور عظمت کے قائل ہو جائیں۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے ہمارے درمیان دونوں رویے موجود ہیں۔ یہاں ہمارے درمیان سے میری مراد معاشرے کا وسیع تر ماحول نہیں ہے بلکہ صرف ادبی حلقے، یعنی وہ لوگ جو خود شاعری کرتے ہیں یا شاعری پر تنقید اور تبصرہ وغیر ہ لکھتے ہیں اور شاعری کے بارے میں مختلف تصورات رکھنے کی بنا پر یا مختلف قسم کی شاعری کرنے کی وجہ سے ایک دوسرے کی مخالفت کرتے ہیں۔

    مثلاً جو لوگ نئی شاعری کے مخالف ہیں ان کا رویہ کچھ اس قسم کا ہے، ’’بھئی اس نئی شاعری کو تو کوئی ٹکے سیر بھی نہیں پوچھتا۔ یہ تو بس رسالوں میں چھپتی ہے اور بجا طور پر وہیں دم توڑ دیتی ہے۔‘‘ اس کے برعکس جو لوگ نئی شاعری کے حامی ہیں، ان کا رویہ کچھ یوں ہے، ’’ نئی شاعری نامقبول شاعری ہے اور یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ کوئی اسے ٹکے سیر بھی نہیں پوچھتا۔ کیوں کہ ٹکے سیر پوچھی جانے والی شاعری کی حیثیت ہمیں معلوم ہے۔ نئی شاعری کی نامقبولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سچی اور اعلیٰ شاعری ہے۔‘‘

    ان دونوں رویوں کے ذریعے ابتدائی رد عمل سے لے کر بڑی بڑی فلسفہ طرازیوں کا اظہار کیا جاتا ہے اور ذوق کے اختلاف سے لے کر تہذیبوں کے فرق اور جدید و قدیم کی پیکار کی ہزار پہلو بحثوں کا دروازہ کھولا جاتا ہے۔ ہمیں ابھی ان تمام باتوں سے کوئی غرض نہیں۔ اس میں ہمارے کام کی صرف اتنی بات ہے کہ نئی شاعری کے حامی اور مخالف دونوں اس کی نامقبولیت کو اپنے رویے کی بنیاد بناتے ہیں اور اس کی مدد سے اپنے استدلال کی تعمیر کرتے ہیں۔ یعنی طرفین کی دلیلوں کی بنیاد ایک ہے۔ نتائج البتہ مختلف بلکہ متضاد ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئی شاعری کی نامقبولیت اس کی کوئی خوبی یا خامی ہے یا نہیں۔ جو لوگ نئی شاعری کی نامقبولیت کو اس کی خوبی قرار دیتے ہیں وہ مقبول شاعری میں پست مذاقی، عامیانہ پن مردہ روایت پرستی، فکری اور گھسی پٹی باتوں کی تکرار کے عناصر ڈھو نڈتے ہیں اور اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ مقبول شاعری کے معنی ہی پست شاعری یا مردہ شاعری کے ہیں۔

    اس کے برعکس جو لوگ نئی شاعری کی نامقبولیت کو اس کی خامی قرار دیتے ہیں، ان کے نزدیک مقبول شاعر ی معاشرے کی روح کی ترجمانی کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غالبؔ کی شاعری بھی تو مقبول ہے اور اقبال بھی تو معاشرے کی ہر سطح تک پہنچے ہیں، اس لیے مقبولیت شاعرانہ عظمت کا اظہار کرتی ہے۔ ہمارے نزدیک ان دونوں رویوں میں کچھ نہ کچھ صداقت موجود ہے اور کسی نہ کسی حد تک دونوں گروہ ٹھیک کہتے ہیں۔ بے شک مقبول شاعری کا بہت بڑا حصہ سطحی اور بازاری ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بات بھی سچ ہے کہ دنیا کی عظیم ترین شاعری بھی مقبول شاعری ہے۔

    لطف کی بات یہ ہے کہ نئی شاعری دونوں معنوں میں نامقبول شاعری ہے۔ اچھے معنوں میں بھی اور برے معنوں میں بھی۔ ایک طرف اس کی نامقبولیت کے یہ معنی ہیں کہ یہ بہزاد لکھنوی اور شعری بھوپالی جیسی شاعری نہیں ہے لیکن دوسری طرف اس کے یہ معنی بھی کہ وہ غالب اور اقبال جیسی شاعری بھی نہیں ہے۔ آپ نے دیکھا نئی شاعری کے بارے میں تحقیر اور تفاخر کے دونوں رویے ایک ہی حقیقت سے پیدا ہوئے ہیں۔ یعنی نئی شاعری کی نامقبولیت سے۔

    غالباً اب وقت آ گیا ہے کہ میں اس بحث کو آگے بڑھاکر اس سوال تک پہنچاؤں جس کے لیے یہ مضمون لکھا گیا ہے۔ جب ہم کسی شاعری کو نامقبول کہتے ہیں تو اس کے بارے میں ہمارے فیصلے کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟ہم اسے نا مقبول کہہ کر اس کی جمالیاتی قدر وقیمت کے بارے میں فیصلہ کرتے ہیں یا اخلاقی اہمیت یا نااہمیت کے بارے میں اپنا رویہ متعین کرتے ہیں؟ دراصل میرے نزدیک کسی شاعری کی نامقبولیت نہ کسی جمالیاتی فیصلے کا اظہار کرتی ہے نہ اخلاقی۔ اس کے سیدھے ساد ے معنی سے صرف ایک معاشرتی امرواقعہ کا اظہار ہوتا ہے۔ یعنی ہم نامقبول کہہ کر صرف یہ بتاتے ہیں کہ ایک متعین معاشرے میں یا معاشرے کی اکثریت میں، یا اس معاشرے کے ان تمام لوگوں میں جو شعر و ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں، یہ شاعری قبول نہیں کی جا سکی ہے یا کم قبول کی گئی ہے۔ نئی شاعری کی نا مقبولیت اس کی معاشرتی حقیقت ہے، اس کی جمالیاتی یا اخلاقی حقیقت نہیں۔

    چنانچہ جب ہم نئی شاعری کو نامقبول شاعری کہتے ہیں تو ہم یہ فیصلہ نہیں کرتے کہ جمالیاتی نقطہ نظر سے یہ شاعری اچھی ہے یا بری۔ نہ اخلاقی اعتبار سے یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ یہ اہم ہے یا غیر اہم بلکہ صرف اتنا کہتے ہیں کہ اسے معاشرے نے قبول نہیں کیا، یا کم قبول کیا ہے۔ اب اس بحث کا آخری سوال یہ ہے کہ نئی شاعری نا مقبولیت کے جس معاشرتی امر واقعہ کا اظہار کرتی ہے، اس کے اسباب ہمیں معاشرے میں تلاش کرنے چاہئیں یا نئی شاعری میں یا دونوں میں۔ کیا ہمارے معاشرے میں کوئی بنیادی بات ایسی ہے کہ وہ نئی شاعری کو قبول کرنے سے قاصر ہے، یا نئی شاعری میں کوئی جوہری عنصر ایسا ہے جو اسے معاشرے میں مقبول ہونے سے روکتا ہے یا معاشرے اور شاعری دونوں میں کوئی ایسی بات ہے جو دونوں کو ملنے نہیں دیتی؟ بس اس سوال پر میں آج کی گفتگو ختم کرتا ہوں۔ بعد میں آپ کی گفتگو سے استفادہ کرنے کے بعد مجھے امید ہے کہ یہ مسئلہ اور زیادہ وضاحت سے کھلے گا اور اس کے بعض اہم پہلو اس طرح نمایاں ہوں گے کہ ہم نئی شاعری کی نامقبولیت کے ذریعے اس کے بہت سے ایسے پہلوؤں پر غور کرسکیں گے جو اب تک ہمارے سامنے نہیں آ سکے ہیں۔

    (۲)
    ایذرا پاؤنڈ نے کہا ہے کہ نقاد کو کبھی کبھی ایسے سوال بھی اٹھانے چاہئیں جن کا جواب خود اسے بھی معلوم نہ ہو۔ خیر نقاد تو میں کہاں کا ہوں لیکن بعض اوقات گڑھے گڑھائے سوالوں کے بنے بنائے جواب سنتے سنتے طبیعت اتنی اکتا جاتی ہے کہ ایذرا پاؤنڈ کے مشورے پر عمل کرنے کو جی چاہنے لگتا ہے۔ میں نے پچھلے ہفتے حلقے میں جو مضمون پڑھا تھا، اس کی نوعیت کچھ اسی قسم کی تھی۔ اس مضمون میں، میں نے جو سوال یا سوالات اٹھائے تھے، یقین کیجئے ان کا جواب خود مجھے معلوم نہیں تھا۔ میں نے غلط کہا، اب بھی معلوم نہیں ہے۔ چنانچہ یہ مضمون میں نے جوا ب کے لیے نہیں لکھا تھا بلکہ آپ کی مدد سے مل جل کر جواب ڈھونڈنے کے لیے لکھا تھا لیکن مضمون پڑھنے کے بعد مجھے یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ لوگ میرے خیالات سے اتنے واقف ہو چکے ہیں کہ انہیں نہ صرف یہ معلوم ہے کہ میں نے اب تک کیا لکھا ہے بلکہ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ میں آئندہ کیا لکھوں گا اور ان میں بعض دوستوں کے لیے یہ سننا بھی ضروری نہیں رہا کہ میں کیا کہتا ہوں۔ میرے کہنے سے پہلے صرف عنوان سن کر وہ بتا سکتے ہیں کہ میں کیا کہنے والا ہوں۔

    تار باجا، راگ بوجھا کی مثل سنی تھی۔ زمانہ ا تنی ترقی کر گیا ہے کہ سجاد میر کے ہوتے راگ کو بوجھنے کے لیے تار کا بجنا کوئی لازمی شرط نہیں ہے۔ وہ صرف گویے کی صورت دیکھ کر بتا سکتے ہیں کہ وہ کیا راگ گائےگا۔ بہرحال سجاد میر صاحب نے میرا ابتدائی مضمون سن کر نہ صرف یہ بتا دیا کہ میں نے سوال کے پردے میں نئی شاعری پر حملہ کیا ہے۔ یہ انکشاف بھی کر دیا کہ آئندہ میں نئی شاعری کو ناشاعری قرار دینے والا ہوں۔ یہ بات مجھے اس لیے دلچسپ معلوم ہوئی کہ نئی شاعری سے میری وابستگی دوچار برس کی بات نہیں ہے۔ نصف صدی نہ سہی، نصف صدی کا نصف حصہ ضرور میں نے اس شاعری کو پڑھنے، بساط بھر سمجھنے اور اس کے بارے میں بری بھلی آرا کا اظہار کرنے میں گزارار ہے۔

    ’’نئی نظم اور پورا آدمی‘‘ کی ادبی اور تنقیدی حیثیت جو کچھ بھی ہو، لیکن جن لوگوں نے یہ کتاب پڑھی ہے، انہیں معلوم ہے کہ اس میں میرے ہیرو وہی لوگ ہیں جو اس نئی شاعری/ نامقبول شاعری کے بانی تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اب اگر اس کے باوجود سجاد میر جیسے ذہین اور باخبر آدمی کے ذہن میں یہ تاثر موجود ہے کہ نئی شاعری کا مخالف ہوں تو یقیناً اس کی کوئی مضبوط بنیاد ضرور ہوگی۔ بنیاد شاید یہ ہوگی کہ میرے اکثر مضامین میں، جو پچھلے آٹھ دس سال میں لکھے گئے ہیں، اس خیال کا اظہار کیا گیا ہے کہ جدید مغرب کی روح مشرق کی تمام روایتی تہذیبوں کے خلاف ہے بلکہ خود مغربی روایت کے ایک پرستار کی حیثیت سے مجھے ضرور نئے ادب اور نئی شاعری کا مخالف ہونا چاہئے۔ جدید مغرب اور روایتی تہذیبوں کے تصادم کے بارے میں میرے آدھے تہائی تجزیوں سے یہ نتیجہ برآمد بھی ہوتا ہے یا نہیں، یہ ایک لمبی بحث ہے، جس کا یہ موقع نہیں لیکن میں اختصار مگر وضاحت کے ساتھ یہ بتا دیا چاہتا ہوں کہ روایتی تہذیبوں کی شکست دریخت کے اس تجزیے میں، جو میری تحریروں میں پایا جاتا ہے، کہیں بھی نئے شعروادب کی اہمیت سے انکار نہیں کیا گیا ہے بلکہ نئی شاعری خود ان ذرائع میں سے ایک ہے جس کی مدد سے یہ تجزیہ ممکن ہو سکا ہے۔

    دوسرے لفظوں میں جدید مغرب اور روایتی تہذیبوں کا مقدمہ اگر واقعی کہیں کرایا جاے تو نئی شاعری کی حیثیت اس میں ایک ایسے سچے گواہ کی ہے جس کی اہمیت اور ضرورت کو کسی طرح بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ میں معذرت کرنے کا زیادہ قائل نہیں ہوں لیکن دوستوں کی غلط فہمی دور کر دینا ایک اچھی بات ہے، اس لیے میں سجاد میر کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میرے مضمون کا محرک ہرگز نئی شاعری کی مخالفت کا جذبہ نہیں ہے۔ میں نے یہ مضمون نئی شاعری پر منفی حملے کے لیے نہیں لکھا اور نہ میں نئی شاعری کو اب یا کسی بھی وقت ’’ناشاعری‘‘ یا ’’نامقبول شاعری‘‘ قرار دینا چاہتا ہوں۔

    اس کے برعکس اس مضمون کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ ان لوگوں کو جو اپنی زبان کے تخلیقی مسائل سے دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنی شاعری میں نئے تجربات کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں، انہیں ماضی وحال کی روشنی میں یہ دیکھنے کی دعوت دی جائے کہ معاشرہ نئی شاعری اور اس کے تجربات کے بارے میں کیا رویہ رکھتا ہے تاکہ اس رویے کے تجزیے ے ساتھ ایک طرف معاشرے کو سمجھا جا سکے، دوسری طرف نئی شاعری کی ماہیت، فطرت اور طریقہ کار پر غور کیا جا سکے اور پھر ان دونوں کے درمیان افہام و تفہیم کا دروازہ کھولا جا سکے۔ یا کم از کم اس بات کا فیصلہ کیا جا سکے کہ دونوں کے درمیان افہام وتفہیم کی کوئی راہ پیدا بھی ہو سکتی ہے یا نہیں؟

    سجاد میر کے علاوہ مجھے ایک اور اہم بات ضیا جالندھری صاحب کی گفتگو میں نظر آئی۔ انہوں نے ایک فقرہ ایسا کہا جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ شاید انہیں میرے مضمون کے بنیاد ی خیال ہی سے اتفاق نہیں ہے۔ یعنی وہ تسلیم نہیں کرتے کہ نئی شاعری نا مقبول شاعری ہے لیکن چونکہ انہوں نے اپنی بات تفصیل سے نہیں کہی جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ گفتگو کم اور صدارت زیادہ کر رہے تھے۔ اس لیے اس کا جواب میں ان کا مضمون سننے کے بعد ہی دوں گا۔ ایک صاحب نے جن کا نام مجھے یاد نہیں رہا، کچھ اس قسم کی بات کہی کہ شاعری کو مقبولیت یانا مقبولیت کے پیمانے سے ناپناہی درست بات نہیں ہے۔ اس کے جواب میں، میں صرف اتنا کہوں گا کہ میں نے اپنے مضمون میں وضاحت کر دی تھی کہ نئی شاعری کی نامقبولیت نہ اس کی جمالیاتی حقیقت ہے نہ اخلاقی۔ یہ صرف ایک معاشرتی امر واقعہ ہے جس کی مدد سے ہم صرف کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے نے اسے قبول نہیں کیا ہے یا کم قبول کیا ہے۔

    اب اگر سوال یہ ہے کہ شاعری کو معاشرتی نقطہ نظر سے دیکھا ہی کیوں جائے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ شاعری کا تعلق صرف شاعر سے نہیں ہوتا۔ شاعری کا تعلق ان لوگوں سے بھی ہوتا ہے جو شاعری سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ یعنی شاعر کے علاوہ دوسرے لوگوں سے۔ شاعری کو معاشرتی نقطہ نظر سے دیکھنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ اسے شاعری سے الگ کرکے اس حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے کہ دوسروں پر کس طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ چنانچہ اس نقطہ نظر سے نئی شاعری کی نامقبولیت کے معنی یہ ہیں کہ وہ دوسروں پر اثر اندازی سے محروم ہے یا کم اثر ڈال رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں گویا نئی شاعری پر یہ الزام درست ہے کہ وہ چند ایسے لوگوں کا ذہنی چونچلا ہے جو پورے معاشرے سے الگ ہو گئے ہیں۔ فاطمہ حسن کی بات جہاں تک میں سمجھا ہوں، انہوں نے اس بات سے انکار نہیں کیا کہ نئی شاعری نامقبول شاعری ہے لیکن انہوں نے اس کی وجہ بھی معاشرتی بتائی۔ انہوں نے کہا کہ ’’میر، غالب اور اقبال وغیرہ اس لیے مقبول ہیں کہ اتنے عرصے سے نصابوں میں پڑھا ئے جا رہے ہیں۔ جب کہ نئی شاعری نصاب میں شامل نہیں ہے اور اسے ہم صرف اپنے طور پر پڑھتے ہیں۔‘‘ سوال یہ ہے کہ نئی شاعری نصاب میں شامل کیوں نہیں ہے؟جواب وہی ہے جو ضیا صاحب نے دیا، ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ نئی شاعری اساتذہ میں مقبول نہیں ہے۔‘‘

    عزیر ہاشمی بھی نئی شاعری کی نامقبولیت پر متفق تھے لیکن انہوں نے اس کی وجہ زیادہ بنیادی چیزوں میں ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا، ’’ہمارا معاشرہ ایک مابعد الطبیعیات پر قائم تھا۔ نئی شاعری اس مابعد الطبیعیات سے بغاوت کرتی ہے، اس لیے نامقبول ہے۔‘‘ لیکن اس مابعد الطبیعیات سے تو فیض اور مجاز نے بھی بغاوت کی تھی، وہ مقبول کیوں ہیں؟ احمد ہمیش نے خیالات سے زیادہ جذبات کا اظہار کیا۔ انہوں نے جارحانہ انداز میں کہا کہ ’’نئی شاعری اس لیے نامقبول ہے کہ معاشرہ مجرا سن رہا ہے اور مشاعروں میں جھوم رہا ہے۔ اس لیے مقبولیت یا نامقبولیت کسی نئے شاعر کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘ اس جواب کے پیچھے جو جذباتی شدت تھی، اس سے مجھے ایک ایسی خوب صورت مگر بدنصیب عورت کا خیال آتا ہے جس کا شوہر اسے چھوڑ کر ’’تماش بینی‘‘ کرنے لگے۔ دوسرے لفظوں میں احمد ہمیش نے تسلیم کیا کہ نئی شاعری نامقبول شاعری ہے لیکن انہوں نے اس کی ذمہ داری معاشرے کے ذوق کی پستی پر ڈالی۔

    سوال پھر وہی ہے۔ مجرا سننے والا معاشرہ غالب اور اقبال کو کیوں پسند کرتا ہے، نئی شاعری کو کیوں نہیں کرتا؟ ساقی فاروقی نے بھی کچھ کہا مگر ان کا گلا خراب تھا۔ اور جب سے وہ لندن سے آئے ہیں، ان کا ا ٓدھا وقت معذرتیں کرنے میں صرف ہوتا ہے۔ اس لیے مجھے ان کی معذرت کے سوا اور کچھ یاد نہیں رہا۔ ہاں ایک بات انہوں نے یہ ضرور کہی تھی کہ نئے شاعر لفظوں کی حرمت کا پاس نہیں کرتے، اس لیے لفظ بھی ان سے اپنا انتقام لیتے ہیں۔ اور نئی شاعری کی نامقبولیت کی اصل وجہ یہی ہے لیکن یہ بات شاید افتخار جالب اور ان جیسے چند اور شعرا کے بارے میں تو کہی جا سکتی ہے مگر یہ بات کیا ہم میراجی اور راشد کے بارے میں بھی اسی طرح کہہ سکیں گے؟ تو یہ تھیں وہ باتیں جو میرے مضمون کے مرکزی موضوع پر ہوئیں۔

    اس کے علاوہ ایک آدھ بات کسی ضمنی مسئلے پر بھی ہوئی۔ مثلاً عبید اللہ علیم کو اس خیال سے تکلیف پہنچی کہ میں نے نئی غزل کو نئی شاعری سے خارج کر دیا۔ انہوں نے اس پر احتجاج کیا اور کہا کہ سلیم احمد ہر چیز کو خانوں میں تقسیم کرکے دیکھتے ہیں۔ اس مضمون میں بھی انہوں نے نئی شاعری کو مختلف خانوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ جب کہ نئی شاعری نظم میں بھی ہے، غزل میں بھی اور ترقی پسند شاعری میں بھی۔ اب جہاں تک خانوں میں تقسیم کرنے کا سوال ہے تو شاید تجزیہ اسی کو کہتے ہیں۔ تجزیہ کا مقصد ہی چیزوں کو الگ الگ کرنا ہوتا ہے۔ مجھے میراجی اور راشد سے شروع ہونے والی شاعری کو شاعری کی دوسری اقسام سے الگ کرنا تھا۔ اس لیے ضروری تھا کہ انہیں الگ الگ خانوں میں رکھا جائے۔

    البتہ اگر اعتراض اس پر ہے کہ صرف اسی شاعری کو نئی شاعری کیوں کہا گیا تو اصطلاح میں کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ اصطلاح تو صرف وضاحت کے لیے ہوتی ہے۔ جن لوگوں کو یہ اصطلاح پسند نہیں ہے وہ اس شاعری کا جو نام چاہیں رکھ لیں۔ علیم نے ایک اور ضمنی بات یہ بھی کہی ہے کہ صرف نئی غزل ہی نظم سے متاثر نہیں ہوئی ہے، نئی نظم بھی غزل سے متاثر ہے۔ میرا خیال ہے ان باتوں پر ہم پھر کبھی اور گفتگو کر لیں گے۔

    اب میرے حافظے کی روشنی میں پوری بحث آپ کے سامنے ہے۔ اس بحث سے جو نتائج سامنے آتے ہیں، انہیں مختصراً آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ پہلی قابل ذکر بات یہ ہے کہ حلقے کے شرکائے گفتگو کی اکثریت نے نئی شاعری کے نامقبول ہونے سے انکار نہیں کیا اور غالباً ضیا صاحب کے سوا کسی نے اشارتاً بھی نہیں کہا کہ نئی شاعری نامقبول نہیں ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ عام طور پر میرے مضمون کے مرکزی خیال سے اتفاق کیا گیا۔ اس بات کو تسلیم کر لینے کے بعد جو گفتگو ہوئی، اس میں بعض حضرات نے نامقبولیت کی ذمہ داری معاشرے پر ڈالی۔ بعض نے نئی شاعری پر۔ لیکن عام طور پر اس خیال کا اظہار کیا گیا کہ یہ نامقبولیت عارضی بات ہے اور معاشرے میں نئی تبدیلیوں کے ساتھ یہ صورت حال بدل جائےگی۔ دوسرے لفظوں میں اس بات کو تسلیم نہیں کیا گیا کہ نامقبولیت نئی شاعری کی کوئی جوہری یا دائمی صفت ہے۔ اب اس مْختصر خلاصے کے بعد میں پھر اپنے موضوع کی طرف لوٹتا ہوں۔

    نئی شاعری نامقبول شاعری ہے۔ یہ ایک معاشرتی امر واقعہ ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ معاشرے نے اسے قبو ل نہیں کیا یا بہت کم قبول کیا ہے۔ مگر ابھی تھوڑا سا ابہام معاشرے کے لفظ میں موجود ہے۔ اسے بھی صاف کرنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ کوئی شاعری معاشرے میں مقبول ہے تو اس قول میں معاشرے سے ہماری کیا مراد ہوتی ہے؟ ایک بات تو ظاہر ہے کہ ہمارا معاشرہ بہت سے طبقات میں بٹا ہوا ہے۔ ان میں مزدور، کسان، تاجر صنعت کار، نوکر پیشہ، طلبہ، وکلا، افسر شاہی اور ارباب اقتدار و سیاست سب شامل ہیں۔ یہ طبقات دیہی اور شہری آبادیوں میں بٹے ہوئے ہیں اور معاشی، تہذیبی اور تعلیمی اعتبار سے بہت سی چھوٹی بڑی اکائیاں بناتے ہیں جو بہت سے مدارج اور تفاوتوں میں بٹی ہوئی ہیں۔ پھر ان میں زبانوں اور بولیوں کا بھی بہت بڑا اختلاف ہے جو انہیں ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے۔

    اس صورت میں معاشرے کا لفظ استعمال کرنا اور اسے کسی شاعر کی شاعری کی مقبولیت سے وابستہ کرنا ابہام کی ایک بہت خطرناک مثال ہے، تو پھر مثال کے طور پر یہ بات کہنے کے کیا معنی ہیں کہ اقبال کی شاعری معاشرے میں مقبولیت رکھتی ہے؟ کیا ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہماری گلی میں پھرنے والا سبزی فروش اقبال کی شاعری سے اسی طرح واقف ہے اور اسے پسند کرتا ہے جس طرح بشیر احمدڈ ار اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں؟ یقیناً یہ ایک بالکل مضحکہ خیز تصور ہے، تو پھر ہمیں واضح طور پر معلوم ہونا چاہے کہ اقبال کو معاشرے میں مقبول کہہ کر ہم کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں معاشرے کی کئی سمتوں میں دیکھنا پڑےگا۔ شاید پہلے ہم یہ کہیں کہ اقبال ان تمام طبقات میں مقبول ہے جو شعر وادب سے تخلیقی تعلق رکھتے ہیں۔ یہ پہلا دائرہ ہوا لیکن اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی کہیں گے کہ اقبال ان لوگوں میں بھی مقبول ہے جو شعروادب سے تخلیقی طور پر وابستہ نہیں ہیں لیکن جو شعر وادب سے کسی طرح کی بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ دوسرا دائرہ ہوا۔

    پھر شاید ہم اس سے بھی آگے بڑھیں اور کہیں کہ اقبال کسی نہ کسی طر ح ان تمام لوگوں میں جانا پہچانا ہے جو کسی بھی درجے پر تعلیم سے بہرہ مند ہیں۔ یہ تیسرا دائرہ ہوا۔ اس کے بعد ہم اس سے بھی نیچے اتریں گے اور کہیں گے کہ اقبال سے وہ لوگ بھی واقف ہیں جو تعلیم یافتہ ہوں یا نہ ہوں مگر شہروں میں رہتے ہیں اور شہر کے بالائی طبقوں سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں۔ یہ چوتھا دائرہ ہوا۔ پھر آخر میں ہم شاید یہ کہہ دیں کہ معاشرے کی پست ترین سطح پر بھی عوام کی اکثریت نے اقبا ل کا نام ضرور سنا ہوگا۔

    اس کا مطلب یہ ہوا کہ اقبال کی مقبولیت معاشرتی طبقات کی مختلف سمتوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ کچھ طبقات ہیں جنہوں نے صرف اقبال کا نام سنا ہے۔ کچھ اور طبقات میں اقبال کے کلام کا کچھ حصہ پہنچاہے۔ پھر اس سے اوپر کے طبقات ہیں جو اقبال کے پورے کلام سے واقف ہیں۔ پھر وہ لوگ ہیں جو اقبال کے کلام کے فکری اور جمالیاتی پہلوؤں سے مختف درجوں میں محظوظ ہوتے ہیں۔ اس کے بعد وہ پڑھنے والے ہیں جو تعلیم، مہارت اور ذوق کی بلند ترین سطح پر اقبال کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ طبقہ ہے جس سے خود اقبال کا تعلق تھا یعنی تخلیقی فنکار۔ اب اس ساری بات کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اقبال کی مقبولیت کی ایک عمودی سمت ہے جو معاشرے کے اعلیٰ ترطبقات سے تعلق رکھتی ہے اور ایک افقی سمت ہے جو معاشرے کے نسبتاً نچلے طبقات سے تعلق رکھتی ہے۔ اقبال کی مقبولیت ان دونوں رخوں میں پھیلی ہوئی ہے اور بلند ترین سے مختلف درجوں کا تعلق قائم کرتی ہوئی پست ترین تک اترتی ہے۔

    اچھا، اب یہ بات یہاں تک پہنچی ہے تو آئیے میں اپنی کہی ہوئی ایک اور بات کی وضاحت کر دوں۔ میں نے کہا تھا مقبولیت کی دوقسمیں ہیں۔ ایک مقبولیت وہ جسے ہم اچھے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ دوسری مقبولیت وہ جسے ہم برے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً فلمی شاعری کی مقبولیت بری مقبولیت ہے اور غالب اور اقبال کی مقبولیت اچھی مقبولیت۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ بری مقبولیت ہمیشہ افقی ہوتی ہے یعنی وہ معاشرے کے ان طبقات سے تعلق رکھتی ہے جو علم، ذوق اور تربیت کے لحاظ سے پست سطح کے طبقات ہیں۔ جب کہ اچھی مقبولیت عمودی بھی ہوتی ہے اور افقی بھی۔ وہ ہمیشہ معاشرے کے عمودی رخ سے افقی رخ کی طرف سفر کرتی ہے اور اعلیٰ ترین سے وا بستہ ہونے کے ساتھ نسبتاً نیچے کے درجوں میں نزول کرتی ہے اور سب کو اپنی سطح کے مطابق کسی نہ کسی رخ سے متاثر کرتی ہے۔

    جب ہم کسی شاعری کو برے معنوں میں مقبول شاعری کہتے ہیں تو اس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ اس شاعری نے معاشرے ے بہتر طبقات کو متاثر نہیں کیا اور جب کسی شاعری کو اچھے معنوں میں مقبول کہتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ اس شاعری نے بہتر طبقات کو متاثر کیا اور کمتر درجے کے طبقات پر بھی کسی نہ کسی طر ح عمودی رخ کا اثر ڈالا۔ اچھا اب میں نے نئی شاعری کو نامقبول شاعری کہا تو اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ یہ شاعری نہ گھٹیا شاعری کی طرح صرف افقی سمت کی شاعری ہے نہ عظیم ترین شاعری کی طرح عمودی اور افقی دونوں سمتوں کی شاعری ہے بلکہ ایسی شاعری ہے جو معاشرے کے صرف عمودی رخ سے تعلق رکھتی ہے۔ اب آیئے اس عمودی رخ کا بھی تجزیہ کر لیں۔

    ظاہر ہے اس سے ہماری مراد معاشرے کے اعلیٰ تر طبقات ہیں۔ ان طبقات میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو خود شعروادب تخلیق کرتے ہیں، وہ لوگ بھی جو شعروادب سے بامعنی دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو کسی نہ کسی طرح ان دونوں طبقات سے متاثر ہوتے ہیں۔ گویا معاشرے کے عمودی رخ میں بھی کئی طرح کی درجہ بندیاں ہیں۔ اب ہم پہلے شعروادب کی تخلیق کرنے والے طبقے کو دیکھیں گے۔ یہ گویا شعروادب کے نقطہ ٔ نظر سے معاشرتی مثلث کی راس الراس ہے جس میں تمام تخلیقی فنکار شامل ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس طبقے میں نئی شاعری مقبولیت کے کس درجے پر ہے۔ مثلاً ایک ٹھوس استفسار یہ ہے کہ اس طبقے میں بھی جو شاعروں کے خاندان کی حیثیت رکھتا ہے، کیا میراجی اور راشد کی مقبولیت فیض کے برابر ہے؟ یا افتخار جالب، فراز کے برابر مقبو ل شاعر ہیں؟ اسی طرح وہ لوگ جو خود تخلیق نہیں کرتے مگر شعر وادب سے گہری دلچسپی رکھتے ہیں، ان میں بھی ان شعرا کی مقبولیت کا گراف کیا بتاتا ہے؟

    ایک ذرا سی دیانت داری اور معروضیت ہمیں یہ بتا دینے کے لیے کافی ہے کہ اس محدود طبقے میں بھی نئی شاعری کی مقبولیت صرف انہیں لوگوں میں ہے جو اس قسم کی شاعری کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک ایسے چھوٹے سے طبقے کو اور شامل کر لیجئے جو اس شاعری پر مضامین لکھنے یااس کے بارے میں تشویش یاامید کا اظہار کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے، تو اس شاعری کے کل حلقہ اثر کی نشان دہی ہوجاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نئی شاعری کی نامقبولیت کے وہ معنی ہیں جس پر میں نے اپنے سوال کی بنیاد رکھی ہے۔ اب آخر میں، میں اپنے سوال کو پھر دہراتا ہوں۔ نئی شاعری کی یہ نامقبولیت اس کی لازمی، جوہری اور دائمی صفت ہے یا عارضی، اتفاقی اور حادثاتی بات ہے۔ نئی شاعری اس لیے نامقبول ہے کہ معاشرے میں کوئی بنیادی بات ایسی ہے کہ وہ اسے قبول نہیں کر پاتا، یا خود نئی شاعری میں کوئی جو ہری عنصر ایسا ہے جو اسے مقبول ہونے سے روکتا ہے یا پھر معاشرہ اور شاعری دونوں میں کوئی ایسی چیز ہے جو دونوں کو ملنے نہیں دیتی۔

    (۲) الف
    طلسم ہوش ربا میں ایسی بلاؤں کا ذکر ملتا ہے جن کا ایک سر کاٹیے تو ایک کی جگہ دس سر پیدا ہو جاتے ہیں۔ یا ایک بلا کو ماریے تو اس کے خون کے ہر قطرے سے ایک نئی بلا اٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ موجودہ دنیا کے مسائل طلسم ہوش ربا کی انہی بلاؤں کی طرح ہیں۔ آپ ایک مسئلے کا سامنا کرتے ہیں، اسے حل کرنا چاہتے ہیں، حل کرنے کے لیے اسے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی آپ اس کے قریب پہنچتے ہیں، وہ صورت بدل کر کچھ اور ہو جاتا ہے۔ یا ایک مسئلے کے نیچے سے دوسرا مسئلہ نکل آتا ہے اور پھر دوسرے سے تیسرا، تیسرے سے چوتھا۔ یہاں تک کہ آپ کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ آپ کے چاروں طرف مسائل کے جنگل کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ جنگل ہے اور آپ ہیں اور راستے کا ہر نشان معدوم ہے۔

    آج دنیا کے مسائل پر کتنی کتابیں لکھی جارہی ہیں۔ کتنے مذاکرے اور مباحثے ہو رہے ہیں۔ کتنے تجزیے اور تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ کتنے فلسفی، کتنے سائنس داں، کتنے ادیب، کتنے صحافی ہندی کی چندی نکال رہے ہیں۔ مگر کوئی چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ حل ہونا تو دور کی بات ہے، سمجھ میں نہیں آتا۔ سمجھ میں آنا بھی بھاڑ میں جائے، پوری طرح دکھائی بھی نہیں دیتا۔ طلسم کشائی کے بڑے بڑے دعوے باطل ہو چکے ہیں۔ لوح اور مہرہ اور شعلہ نور افشانی اور یا فتاح کا دور۔۔۔ کچھ کام نہیں آتا۔ مسائل حل ہونے کی بجائے اور زیادہ الجھ جاتے ہیں۔ سمجھ میں آنے کی بجائے اور زیادہ ناقابل فہم ہو جاتے ہیں۔ دکھائی دینے کی بجائے اور زیادہ تاریکی میں چھپ جاتے ہیں۔

    ان مسائل میں ایک چھوٹا سامسئلہ وہ تھا جو میں نے آج سے چار ہفتے قبل حلقہ ارباب ذوق کراچی کی ایک نشست میں اٹھایا تھا۔ یعنی شاعری کی نامقبولیت۔ آپ یقین کیجئے، اس مسئلے پر چار ہفتے آپ کی گفتگو سننے کے بعد، اس کے بارے میں جو ایک آدھ خیال میرے دماغ میں موجود تھا، وہ جنگل میں گری ہوئی دیوارکی طرح کہیں گم ہو گیا ہے اور دراصل مجھے کچھ نہیں معلوم کہ آج میں آپ کے سامنے کیا کہنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ جی تو یہ چاہتا ہے کہ آپ حضرات کا شکریہ ادا کرنے اور سجاد میر سے معذرت کرنے کے بعد یہ کہہ کر آپ سے رخصت ہوجاؤ ں کہ بقول میرے دوست ذکا ء الرحمن کے، میر ے ذہن میں کنفیوژن کے سوا اور کچھ نہیں ہے لیکن پھر خیال آتا ہے کہ کچھ ہو یا نہ ہو، ممکن ہے کہ بقول غالب شوق فضول اور جرأت رندانہ کی داد ہی مل جائے۔ اس لیے آئیے، ’’اب آگئے ہو تو آؤ تمہیں خراب کریں‘‘ کے مصداق کنفیوژن کو کچھ اور بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

    پہلا کنفیوژن میرے مضمون کا موضوع ہے۔ یعنی نئی شاعری کی نامقبولیت۔ سوال کیا گیا ہے کہ مجھے یہ کیسے معلوم ہوا کہ نئی شاعری نامقبول شاعری ہے؟ جو اب صرف اتنا ہے کہ یہ میرا ایک چھوٹا سا مشاہدہ ہے جو ممکن ہے کہ غلط ہو۔ اس لیے جن لوگوں کا خیال ہے کہ نئی شاعری بہت مقبول شاعری ہے، وہ مجھ سے اختلاف کرسکتے ہیں۔ میں ان کے اختلاف کا احترام کرتے ہوئے صرف اتنا کہوں گا کہ جس طرح انہیں اختلاف کا حق ہے، اسی طرح مجھے اپنے مشاہدے کو بیان کرنے کا حق ہے، خواہ کوئی اسے تسلیم کرے یا نہ کرے۔ آخر ہم سب اپنی آنکھوں کی سچائی کے ذریعے ہی اپنا راستہ طے کرتے ہیں۔

    ایک اور سوال یہ کیا گیا ہے کہ میں نے صرف میراجی اور راشد وغیرہ سے شروع ہوکر افتخار جالب اور پھر اس کے بعد پروز پوئم تک پہنچنے والی شاعری کو نئی شاعری کیوں کہا ہے؟ اس کا ایک جواب میں اپنے پہلے مضمون میں دے چکا ہوں، اسے ایک بار پھر دیکھ لیجئے۔ اگر تشفی نہ ہو تو دوسرے مضمون میں، میں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اصطلاح میں کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ جس شاعری کو میں نامقبول کہنا چاہتا ہوں وہ یہی شاعری ہے۔ آپ اسے نئی شاعری نہیں کہنا چاہتے تو جو آپ کا جی چاہے کہہ لیجئے، مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔

    ایک تیسری بات یہ ہے کہ محمد حسین آزاد اور حالی کے وقت سے نئی شاعری کی اصطلاح کئی معنوں میں استعما ل ہوئی ہے۔ نئی شاعری وہ بھی ہے جو حالیؔ کے وقت سے شروع ہوکر اخترشیرانی پر ختم ہو جاتی ہے۔ نئی شاعری وہ بھی ہے جو ہمارے انتظار حسین کے قول کے مطابق ناصر ؔکاظمی کی شاعری کے ساتھ آغاز ہوئی اور نئی شاعری وہ بھی ہے جو ۱۹۵۸ء میں جیلانی کامران اور افتخار جالب وغیر ہم کے ساتھ آغاز ہوتی ہے۔ اب چوں کہ ان تمام ادوار کی شاعری کو نئی شاعری ہی کہا گیا ہے، اس لیے میر ے لیے ضروری تھا کہ میں اس بات کی وضاحت کر دوں کہ نئی شاعری کہہ کر میں کون سی شاعری مراد لے رہا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ میں نے ممکنہ حد تک اپنی مراد کی وضاحت کر دی ہے۔

    ایک اور سوال یہ اٹھایا گیا ہے کہ نامقبولیت کا مفہوم کیا ہے؟ میرا جواب صرف اتنا ہے، یہ شاعری معاشرے کی ایک بہت ہی قلیل اقلیت میں پسند کی جاتی ہے جس میں زیادہ تر وہ لوگ شامل ہیں جو خود یہ شاعری کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں یا اس کے بارے میں تنقید وتبصرہ وغیرہ لکھتے ہیں۔ اس کے مقابلے پر معاشرے کی کثیر اکثریت میں نہ اس شاعری کو پسند کیا جاتا ہے، نہ پڑھا جاتا ہے، نہ یہ کسی طرح بھی ان پر اثر انداز ہوتی ہے۔ میرے کچھ اشتراکی دوستوں نے ایک اعتراض یہ بھی کیا ہے کہ میں نے معاشرے کے طبقات کی تقسیم غلط کی ہے، جس سے انہیں یہ گمان گزرا ہے کہ میں اپنی مشہور عوام دشمنی کے باعث عوام کے شعور کو گمراہ کرنا چاہتا ہوں۔ میرا جواب صرف اتنا ہے، میرے مضمون میں طبقات کا ذکر صرف شعرو ادب کے حوالے سے ہے لیکن اگر اشتراکی اصطلاحوں کا ذکر ضروری ہوتو میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ شاعری نہ بورژوا طبقے میں مقبول ہے نہ پرولتاری طبقے میں۔ زیادہ سے زیادہ یہ پیٹی بورژوا طبقے کی ایک بہت ہی قلیل اقلیت میں پسندکی جانے والی شاعری ہے۔

    اب اس کے بعد میں بعض ایسے خیالات کا ذکر کروں گا جن کا اظہار ان مضامین میں کیا گیا ہے جو میرے مضمون کے جواب میں پڑھے گئے ہیں، کیونکہ وہ دوسرا کنفیوژن ہے جو میرے مضمون سے پھیلا ہے۔ سجاد میر نے اپنے مضمون میں تین باتیں کہی ہیں (۱) مقبولیت شاعر کی آخری کم زوری ہے۔ سچا شاعر نہ صرف اس بات سے بے نیاز ہوتا ہے کہ معاشرہ اسے پسند کر رہا ہے یا نہیں بلکہ بعض اوقات جان بوجھ کر کامیابی کی بجائے ناکامی کا راستہ اختیار کرنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسے معاشرے میں فوری مقبولیت کی کوی پرواہ نہیں ہوتی، البتہ وہ کلاسیک میں شامل ہونا چاہتا ہے اور مستقبل میں زندہ رہنے کا خواہش مند ہوتا ہے جو مستقبل میں مقبولیت حاصل کرنے کی خواہش سے ایک مختلف بات ہے۔

    (۲) موجودہ معاشرے میں جو ایک disintegrated معاشرہ ہے، کامیابی صرف ان لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو خود disintegrated زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنے وجود کی سب سے اتھلی سطح پر زندہ رہتے ہیں۔ اس کے برعکس شاعر خود بھی Integrated شخصیت کا مالک ہوتا ہے اور انہی کو متاثر کرتا ہے جو Integrated شخصیت رکھتے ہیں یا رکھنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ اس لیے اس معاشرے میں سچے شاعر کی مقبولیت کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ (۳) کوئی سچا شاعر اگر کسی معاشرے میں مقبول نہیں ہے تو اس سے اس شاعر کی قدروقیمت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ شاعر کی نہیں اس معاشرے کی بدنصیبی ہے۔ سجاد میر نے کئی اور ضمنی باتیں بھی کہیں ہیں جو دلچسپ اور اہم ہیں۔ مثلاً میری سوشیالوجی کا تجزیہ، لیکن چوں کہ اس سب کے تذکرے سے بات بہت طویل ہو جائےگی اورویسے بھی میں صرف اپنے حافظے کی مدد سے بات کر رہا ہوں، اس لیے میں صرف بنیادی باتوں کا جوب دوں گا۔

    سجاد میر کی یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ہر سچا شاعر شہرت اور مقبولیت سے بے نیاز ہوتا ہے یا اس کی پرواہ نہیں کرتا، یا جان بوجھ کر اسے رد کرتاہے۔ گویہ بھی صحیح ہے کہ بہت سے سچے شاعر ایسا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ شہرت اور مقبولت سے شاعر کو بھی ویسی ہی خوشی اور تسکین ہوتی ہے جیسی کسی بھی انسان کو ہو سکتی ہے۔ بہت سے شاعروں نے اس پر فخر کیا ہے۔ مثلاً حافظ، ’’قبول خاطر ولطف سخن خداداد است‘‘ یا میر’’پہ میرے شعر نے روئے زمین تمام لیا۔‘‘ جن شاعروں کو اپنے زمانے میں شہرت اور مقبولیت نصیب نہیں ہوئی، یا ویسی نصیب نہیں ہوئی جیسی وہ چاہتے تھے، انہوں نے اس کا شکوہ کیا ہے۔ غالب تو رو دیا اور اقبال نے بھی شکایت کی ہے۔

    من شکوہ خسروی او را دہم
    تاج کسری برسر او را نہم

    او حدیث دلبری خواہد زمن
    آب و رنگ شاعری خواہد زمن

    اور اس کے ساتھ ہی بعض مقامات پر اپنی شہرت اور مقبولیت پر خوشی کا اظہار بھی کیا ہے۔ لیکن ان سب باتوں کے ساتھ یہ بات بالکل درست ہے کہ اگر کوئی شاعر شہرت اور مقبولیت کے لیے اپنی بصیرت اور نظر، اپنی سچائی اور گہرائی، اپنے تجربے اور حقیقت سے غداری کرتا ہے یا بزدلانہ سمجھوتے پر آمادہ ہوتا ہے تو وہ جھوٹی شاعری پیدا کرےگا اور اپنے منصب سے گر جائےگا۔ سجاد میر کی دوسری بات بہت اہم ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ موجودہ معاشرہ ایک disintegrated معاشرہ ہے اور یہ بات بھی درست ہے کہ شاعر ایک Integrated شخصیت ہوتا ہے یا ہونا چاہتا ہے، اس لیے انہی لوگوں کو متاثر کرتا ہے جو خود Integrated ہوتے ہیں یا ہونا چاہتے ہیں۔ لیکن اس بات سے ہمیں اس سوال کا جواب نہیں ملا کہ disintegrated معاشرے میں غالب اور اقبال کیوں مقبول ہیں؟

    سجاد میر کی تیسری بات بھی اپنی جگہ درست ہے۔ جو معاشرہ میر کو عاق کردے، وہ بڑا بدنصیب معاشرہ ہوگا لیکن جو معاشرہ غالب اور اقبال کو پسند کرے اور مجید امجد کو نظر انداز کردے، اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ خیر، ہ تو جواب درجواب کا چکر تھا۔ اصل سوال یہ ہے کہ سجاد میر نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ شاعری کی ایک پوری قسم اور شاعروں کی ایک پوری کھیپ جس میں کئی نسلوں کے لوگ شامل ہیں اور ایک خاص قسم کی شاعری کرتے ہیں، وہ سب کے سب نامقبول کیوں ہیں؟ اور ان کی یہ نامقبولت معاشرے کے علاوہ ان کی شاعری کے بارے میں کچھ بتاتی ہے یا نہیں؟

    سجاد میر کی طرح احمد ہمیش کا استدلال بھی سچی شاعری سے شروع ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں سجاد میر کی طرح یہی کہا ہے کہ سچے شاعر کو مقبولیت یا نامقبویت سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ وہ صرف سچی شاعری کرتا ہے، اور بس۔ معاشرہ اس کے بارے میں جو رویہ رکھنا چاہے رکھے۔ ان باتوں کا جواب، میں سجاد میر کے جواب میں دے چکا ہوں۔ احمد ہمیش نے ایک بات زیادہ کہی ہے۔ وہ یہ کہ مذہبی نقطہ نظر سے شہرت اور مقبولیت کوئی معنی نہیں رکھتے۔ ایک مفہوم میں یہ بات صحیح ہے مگر ہر مفہوم میں نہیں۔ مثلاً قرآن حکیم میں حضور کو تحدیث نعمت کا حکم دیتے ہوے اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں گنوائی ہیں، ان میں ایک یہ بھی ہے، ’’ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کر دیا۔‘‘ اور خود قرآن حکیم کے اثر کو بیان کرتے ہوئے ایک جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’لوگ جب اس کو سنتے ہیں جو رسولؐ پر اتاری گئی ہے تو ان کی آنکھوں کو دیکھو، وہ اس طرح برستی ہیں جیسے بادل سے مینہ برستا ہے۔‘‘ یہ قرآن حکیم کا اثر ہے معاشرے پر اور اس کی شان یہ ہے کہ جب حضور قرآن کی تلاوت کرتے ہیں تو کافر ڈھول بجاتے ہیں کہ لوگ حضورؐ کی تلاوت سن سکیں، ور نہ نعوذ باللہ ان پر جادو ہو جائےگا۔

    اس کا مطلب یہ ہوا کہ بطور اصول کے مقبولت میں کوئی ایسی خامی نہیں ہے کہ اسے مذہبی یا فنکارانہ نقطہ نظر سے مسترد کرنا ضروری ہے بلکہ مقبولیت کا ہونا ایک ایسی خوبی ہے جو کلام کی صداقت کے ساتھ اس کے اعجاز کی دلیل بن سکتی ہے۔ بہرحال احمد ہمیش بھی ہمیں یہ نہیں بتاتے کہ نئی شاعری اگر ایک ایسے معاشرے میں نامقبول ہے جس میں غالبؔ اور اقبال مقبول ہیں تو اس کی کیا وجہ ہے۔

    احمد ہمدانی نے میرے موضوع کی تائید کی ہے اور کئی اقتباسات کے ذریعے نئی شاعری کی نامقبولیت کو ثابت کیا ہے اور اس کی وجہ صنعتی عہد کے انتشارو فساد میں ڈھونڈی ہے۔ اس کے توڑ پر تاج حیدر نے اپنے عالمانہ مقالے میں اشتراکی عہد زریں کا ذکر یا ہے، جب عوام سچ مچ ایسی شاعری پیدا کر دیں گے جو سچی بھی ہوگی اور مقبول بھی۔ بہرحال دونوں مقالے ایک مخصوص نقطہ نظر کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اس لیے توجہ سے دیکھے جانے کے قابل ہیں۔ انور سن رائے کے مضمون میں کوئی بات میرے جواب دینے کی نہیں ہے۔ اب رہ گے برادرم ضیا جالندھری۔

    ضیا جالندھری صاحب نے کئی اہم اور خیا ل انگیز باتیں کہی ہیں۔ ان میں سے دو تین جو مجھے یاد رہ گئی ہیں، یہ ہیں۔ ضیا صاحب کا کہنا ہے کہ ۱۹۳۵ میں جب نئی شاعری کا آغاز ہوا تو پورے برصغیر میں دھوم مچ گی اور نئی شاعری کشمیر سے راس کماری تک پڑھی جانے لگی۔ یہ اس کی مقبولیت کا دور تھا مگر تقسیم ہند کے بعد ماحول بد ل گیا۔ لوگ آگے دیکھنے کی بجائے پیچھے دیکھنے لگے اور اس طرح نئی شاعری جو معاشرے کے آگے بڑھنے کے ساتھ پیدا ہوئی تھی، پیچھے ہٹنا شروع ہو گئی۔ مگر پھربھی نئے شاعروں کے تازہ دم گروہ آتے رہے۔ گو یہ صحیح ہے کہ وہ ایسی مقبولیت نہ حاصل کر سکے جیسے راشد وغیرہ کو ایک زمانے میں حاصل ہوئی تھی۔ اس کا ایک سبب ماحول کی تبدیلی ہے، دوسرا انفرادی صلاحیت کی کمی۔

    میرا خیال ہے کہ ضیا صاحب کی یہ بات بہت بڑی حد تک صحیح ہے۔ ۱۹۳۵ کے اثرات میں نے ۴۵۔ ۱۹۴۴ میں دیکھے ہیں۔ اس وقت پورے ہندوستان میں واقعی نئی شاعری کا بڑا غلغلہ تھا اور لوگ اسے کثرت سے پڑھ رہے تھے اور اس کے بارے میں چاروں طرف بحث و مباحثہ کی فضا گرم تھی لیکن مجھے اس بات میں شبہ ہے کہ وہ نئی شاعری کی مقبولیت کا دور تھا۔ میرا خیال ہے کہ وہ تنازعے کا دور تھا۔ جس طرح چھوٹے پیمانے پر اب پروز پوئم تنازعے کے دور سے گزر رہی ہے۔ ہر شخص اس پر بات کرنا چاہتا ہے چاہے اسے پسند کرے یا نہ کرے۔ ۱۹۳۵ میں بھی یہی ہوا تھا۔ پورا ہندوستان نئی شاعری کے تنازعے میں مبتلا تھا اور اس پر بات کر رہا تھا، گواسے پسند کرنے والے ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی محدود تھے۔ بہرحال اس اختلاف کے باوجود یہ بات سوچنے کے قابل ہے۔

    دوسری بات ضیا صاحب نے یہ کہی ہے کہ مختلف ادوار میں شاعری مختلف فریضے انجام دیتی رہی ہے۔ مثلاً شاعری نے مذہب کی بھی خدمت کی ہے اور سیاست کی بھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مختلف ادوار کی مقبول شاعری کے علاوہ بعض دوسرے عناصر، جو شاعری سے الگ حیثیت رکھتے ہیں، اس کی مقبولت میں شامل رہے ہیں۔ لیکن نئی شاعری خالص شاعری ہے۔ اس لیے ظاہر ہے کہ اس کا حلقہ اثر بھی محدود ہے۔ خالص شاعری کا یہ نکتہ بہت اہم ہے۔ میں آگے چل کر اس پر تھوڑی سی گفتگو کروں گا۔ ضیاصاحب نے تیسری بات یہ کہی ہے کہ لوگ نئی اور نامانوس بات سے ڈرتے ہیں او ر اس کے مقابلے پر ہمیشہ پرانی اور مانوس باتوں میں پناہ ڈھونڈتے ہیں۔ نئی بات کا خوف ہمیشہ تبدیلی کا خوف ہوتا ہے۔ نئی شاعری کو لوگ اس لیے پسند نہیں کرتے کیونکہ وہ تبدیلی کی تکلیف اور خوف سے بچنا چاہتے ہیں۔ ضیا صاحب کا یہ نکتہ بھی خاصا قابل توجہ ہے۔

    بہرحال سجاد میر سے ضیا جالندھری تک جتنی باتیں کہی گئیں اور مجھے اہم معلوم ہوئیں، ان کا خلاصہ اور ان پر اپنی راے میں نے پیش کر دی۔ آپ اس بحث کو غور سے دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ زیادہ تر لوگوں نے نئی شاعری کی نامقبولیت کا سبب معاشرے کو قرار دیا ہے۔ نئی شاعری کی نامقبولیت کا سبب خود نئی شاعری میں موجود ہے یا نہیں، اس کی طرف بالکل توجہ نہیں دی گئی یا بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ اس کے برعکس میرا اپنا ذاتی خیال یہ ہے کہ نئی شاعری کی نامقبولیت کا سبب تھوڑا بہت معاشرے میں موجود ہے لیکن اس کا اصل سبب خود نئی شاعری ہے۔ دوسرے لفظوں میں نئی شاعری اپنی ماہیت اور فطرت کی بنا پر نامقبول ہے۔ یعنی اس کے مواد، ہیئت اور طریقہ کار میں ایک ایسی چیز موجود ہے جو اسے مقبول ہونے سے روکتی ہے اور ہمیشہ روکتی رہےگی۔ اس لیے نامقبولیت نئی شاعری کی جوہری اور دائمی صفت ہے۔ آئیے ہم نئی شاعری کی اس جوہری خصوصیت کے بعض اہم پہلوؤں پر گفتگو کریں۔

    (۳) ب
    نئی شاعری کی نامقبولیت کے بارے میں میرا مشاہدہ کسی ایسے سیاح کا مشاہدہ نہیں ہے جو کسی ملک یا علاقے میں کہیں باہر سے آئے اور چنددن رہ کر مخصوص افراد سے مل کر یا مخصوص علاقوں میں گھوم کر واپس چلا جائے۔ نہ میرا مشاہدہ ٹریولرز گائیڈ بک کی روشنی میں کیا گیا ہے۔ اس نامقبولیت کو میں نے اندر سے دیکھا ہے۔ میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں، جیسے مجھے کسی چیز کے بارے میں اپنے گھر کے افراد کا رد عمل معلوم ہوتا ہے اور اس کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کر سکتا ہوں۔ یہ میرے تیس بتیس سا ل کے ان تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہے، جو مختلف افراد اور مختلف طبقات کے درمیان رہ کر حاصل ہوئے ہیں۔ میں جانتا ہوں، یہ شاعری نامقبول شاعری ہے اور نامقبولیت کے معنی صرف ناپسندیدگی نہیں ہیں۔ اس میں ناپسندیدگی کے علاوہ کچھ اور رویے بھی شامل ہیں۔

    میں نے دیکھا ہے کہ عوام کی اکثریت اس شاعری کا مذاق اڑاتی ہے۔ خود پڑھے لکھے لوگوں کی ایک کثیر تعداد ایسی ہے جو اس سے بیزاری کا اظہار کرتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ بھی، جو خود شعر کہتے ہیں یا شعر وشاعری کے بارے میں نقد و نظر کے مدعی ہیں، ان میں بھی ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو اس شاعری کے بارے میں منفی رویہ رکھتی ہے اور اسے نہ صرف اجنبی، نامانوس اور ناپسندیدہ سمجھتی ہے بلکہ اسے اپنی شعری روایت میں ایک بدنما اضافے سے تعبیر کرتی ہے اور اپنے تہذیبی حلقہ اثر میں ایک مداخلت بے جا سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی اور یہ خیال تو بہت ہی عام ہے کہ یہ ناکام قسم کی ناقابل توجہ شاعری ہے جو چند ایسے مغرب زدہ لوگوں نے شروع کی ہے جو اپنی تہذیب اور شعروشاعری کی روایت سے ناواقف ہیں یا اس روایت میں کوئی قابل قدر اضافہ کرنے کے اہل نہیں ہیں۔

    حیرت کی حد تک، میں نے ان لوگوں کا مشاہدہ بھی کیا ہے جو ابھی تک سنجیدگی سے سمجھتے ہیں کہ آزاد نظم عروض نہ جاننے، یا موزوں طبع نہ ہونے کی وجہ سے لکھی جاتی ہے۔ بہ حیثیت مجموعی اب ان سارے رویوں میں ناپسندیدگی، تحقیر، تمسخر، لاتعلقی اور عدم دلچسپی اور بعض اوقات بیزاری اور نفرت تک کے عناصر شامل ہیں۔ خیر ناپسندیدگی تو سمجھ میں آتی ہے کیونکہ پسند اور ناپسند کاتعلق شخصی مذاق شعری سے ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ دوسرے رویوں کے کیا معنی ہیں؟ میں نے کہا تھا کہ نئی شاعری کی نامقبولیت ایک معاشرتی امر واقعہ ہے۔ شاعری یا کسی بھی فن کو معاشرتی نقطہ نظر سے دیکھنا بعض لوگوں کو ایک غیر مفید کام معلوم ہوتا ہے۔ وجہ ظاہر ہے، فن کی حقیقی قدر وقیمت اس کی جمالیاتی، اخلاقی قدر وقیمت ہوتی ہے۔ معاشرتی نقطہ نظر ہمیں ان دونوں باتوں کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتا سکتا۔

    ترقی پسندوں سے اپنے برسہا برس کے جھگڑوں کے درمیان میں خود بھی بارہا اس رائے کا اظہار کرتا رہا ہوں۔ لیکن اپنے زیر بحث مضمون میں میں نے یہ سوال ایک خاص مقصد سے اٹھایا ہے۔ ایک عرصے سے میں اس بات پر غور کرتا رہا ہوں کہ نئی شاعری کی حقیقی جمالیاتی قدر وقیمت کیا ہے اور اس کی فطرت، ماہیت اور فنی طریقہ کار میں وہ کون سے عناصر ہیں جو اسے شاعری کی دوسری قسموں سے مختلف بناتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ مجھے اس مسئلے کی تفہیم کا قریب ترین راستہ اس کی نامقبولیت کے معاشرتی امر واقعہ کے درمیان سے ہو کر جاتا ہوا نظر آیا۔ چنانچہ نئی شاعری کی نامقبولیت کا معاشرتی سوال اٹھاکر میں اس کی جمالیاتی اور فنی حقیقت اور قدر وقیمت ہی کے بارے میں گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔

    نئی شاعری کو لوگ پسند نہیں کرتے، اس کا مذاق اڑاتے ہیں، اس سے بیزاری اور نفرت تک کا اظہار کرتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ ایک بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ ہر فن پارے کے بارے میں مختلف قسم کی رائے کا پایا جانا ایک فطری بات ہے اور یہ کوئی اصولی اختلاف نہیں ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ اس کے بارے میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ اپنے اپنے مذاق سخن کا فیصلہ ہے لیکن نئی شاعری کے بارے میں جو رویے پائے جاتے ہیں وہ ذاتی ذوق کے اختلاف سے کچھ مختلف چیز ہیں۔ اس بات کی وضاحت کے لیے ایک مثال پیش کرتا ہوں۔

    لوگوں کی اکثریت ذوق کو ناپسند کرتی ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مخصوص قسم کے مذاق شعری کی بنا پر ذوق کا کلام لوگوں کو اچھا نہیں لگتا۔ لوگوں کی اکثریت میرا جی کو بھی ناپسند کرتی ہے لیکن یہ ناپسندیدگی کیا ویسی ہی ہے جیسی ذوق کی ناپسندیدگی؟ میرا جواب نفی میں ہے۔ پھر دونوں میں کیا فرق ہے؟ فرق یہ ہے کہ جو لوگ ذوق کو ناپسند کرتے ہیں وہ ذوق کو سمجھ کر ناپسند کرتے ہیں۔ ذوق کی ناپسندیدگی میں ذوق کی عدم تفہیم کا مسئلہ شامل نہیں ہے۔ لوگ ذوق کو سمجھتے ہیں اور پھر ناپسند کرتے ہیں۔ جب کہ میراجی کی ناپسندیدگی میں میرا جی کی عدم تفہیم کا مسئلہ شامل ہوتا ہے۔ یعنی لوگ میراجی کی ناپسندیدگی میں۔ یعنی لوگ میراجی کو نہ سمجھ کر ناپسند کرتے ہیں۔ اب نئی شاعری کی نامقبولت کے معاشرتی امر واقعہ کے معنی یہ نکلے کہ عوام کی اکثریت اس شاعری کو نہ سمجھ کر اسے ناپسند کرتی ہے۔

    بات کو آگے بڑھاتے ہوئے اب میں یہ کہوں گا کہ جب ایک آدمی کسی فن پارے کو سمجھ کر ناپسند کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کوافضل اور برتر خیال کرتا ہے لیکن اس کے برعکس جب وہ کسی فن پارے کو پسند نہیں کر پاتا کہ وہ اسے سمجھ نہیں سکا تو وہ لاشعوری طور پر ایسا محسوس کرتا ہے جیسے اس کی ہتک کی گئی ہے۔ اس احساس کمتری کا لازمی تقاضا ہوتا ہے کہ اس کی تلافی احساس برتری کے کسی رویے سے کی جائے۔ چنانچہ نئی شاعری کے بارے میں طنزو تمسخر، تحقیر و تعریض، لاتعلقی اور عدم دلچسپی، بیزاری اور نفرت کے سارے رویے اسی احساس کمتری سے پیدا ہوتے ہیں۔ اب نئی شاعری کی نامقبولیت کا مطلب یہ ہوا کہ معاشرتی نقطہ نظر سے اس شاعری کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ وجود میں آتے ہی معاشرے کو دو طبقات میں تقسیم کر دیتی ہے۔ ایک وہ طبقہ جو اسے سمجھتا ہے اور دوسرا وہ طبقہ جو اسے سمجھنے میں ناکام رہتا ہے۔ اور ان دونوں میں ایک ایسا فرق پیدا ہو جاتا ہے جیسے وہ نوع انسان کی دو مختلف قسمیں ہیں۔

    اوٹیگاوائی گیسے نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ نئی شاعری صرف اپنی موجودگی ہی سے اوسط شہری کو یہ ماننے پر مجبور کر دیتی ہے کہ وہ صرف ایک اوسط شہری ہے۔ یعنی ایک ایسی مخلوق جو فن یا خالص حسن سے لطف اندوزی کے ناقابل ہے۔ اوٹیگاوائی گیسے نے اس سے ایک اور اہم اور دلچسپ نتیجہ نکالا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ساری دنیا میں ڈیڑھ سو برس سے جمہوریت کا نشہ عوام کے سر پر سوار ہے۔ اس لیے وہ محسوس کرتے ہیں کہ نئی شاعری نے جو ایک مخصوص طبقے کی شاعری ہے، انسانوں کی حیثیت سے ان کے اس حق کو خطرے میں ڈال دیا ہے کہ وہ بھی فن یا خالص حسن سے لطف اندوز ہو سکیں۔ خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔

    اب مختصر بات یہ ہے کہ شاید اس سے یہ بھی واضح ہو جائے کہ میں نے اس مضمون میں ترقی پسند شاعری کو نئی شاعری سے کیوں الگ کیا ہے کہ فیض کا قاری تو کوئی بھی شخص ہو سکتا ہے جب کہ میراجی کا قاری ہر ایک نہیں ہو سکتا۔ فیض کے برعکس میراجی ایک مخصوص قسم کے قاری کا تقاضا کرتا ہے اور یہی بات نئی غزل کو بھی نئی شاعری سے الگ کرتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ترقی پسند شاعری اور رومانی شاعری نے (وہ غزل کی ہو یا نظم کی) عوام کو یقین دلایا تھا کہ فن عوام ہی کے لیے ہوتا ہے جب کہ نئی شاعری نے انہیں یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ عوام عوام کے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں اور فن ایک اختصاصی صلاحیت چاہتا ہے۔ اب غالباً یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ نئی شاعری کن عمیق معنوں میں نامقبول شاعری ہے۔

    اب اگر نئی شاعری کو ہر آدمی نہیں سمجھ سکتا تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ یہ عمومی طور پر تمام انسانوں کے لیے نہیں ہے، بلکہ ایک مخصوص طبقے کا فن ہے، جو خواہ دوسروں سے بہتر نہ ہوں لیکن دوسروں سے مختلف ضرور ہیں۔ آئیے اب ہم ایک اور بات کی وضاحت کریں۔ نئی شاعری عمومی طور پر تمام انسانوں کے لیے کیوں نہیں ہے؟ اس کے لیے ہمیں معلوم کرنا ہوگا کہ وہ ہر چیز جسے عام لوگ جمالیاتی لطف اندوزی کہتے ہیں، کیا ہے؟ یعنی جب لوگ عام طور پر کسی فن پارے کو پسند کرتے ہیں تو ان کا ذہنی عمل کیا ہوتا ہے؟ مثلاً ایک پسندیدہ ڈرامے سے لطف اٹھانے کا کیا مطلب ہے؟ جواب آسان ہے۔ لوگ کسی ڈرامے کو اس وقت پسند کرتے ہیں جب وہ ڈرامے کے کرداروں میں دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ جب ان کی محبت اور نفرت، خوشیاں اور غم ان کے دل کو اس طرح متاثر کرنے لگتی ہیں کہ وہ ان میں شریک ہو جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے عام زندگی میں دوسرے لوگوں کے حالات میں شریک ہوتے ہیں۔ وہ کسی ڈرامے کو اس وقت اچھا قرار دیتے ہیں جب وہ ڈراما ایک ایسا تاثر پیدا کر دے کہ تخئیلی کردارانہیں حقیقی معلوم ہونے لگیں۔

    ڈرامے کی طر ح شاعری کو بھی عام لوگ اسی طرح پسند کرتے ہیں۔ شاعری کے پیچھے وہ شاعر کے جذبات کو دیکھتے ہیں۔ اس کے دکھ سکھ، خوشی اور غم، کامیابی اور ناکامی، محبت اور نفرت کی تلاش کرتے ہیں۔ اور جب کوئی شاعر محبت کا مارا یا نفرت کا ستایا ہوا بہک کر آواز نکالتا ہے تو داد کے شور سے مشاعروں کی چھتیں اڑنے لگتی ہیں۔ جگر کی خمریہ شاعری ان کی بادہ خواری کی حکایت کے ساتھ چمکی۔ جوش بھی ایسی ہی حکایات کے بل پر شاعر شباب اور شاعر انقلاب بنے۔ اختر شیرانی کی سلمائیں اور ریحانائیں ان کی شاعری کے ساتھ عوام سے روشناس ہوئیں۔ فیض احمد فیض، رقیب کی شرافت اور راول پنڈی سازش کیس کی بدولت زندان اور دار کے شاعر بنے۔ اور کون جانتا ہے کہ فرازؔ کی شاعری، کالج کی لڑکیوں کے کتنے فلرٹیشنوں کے ذریعے مقبولیت کے راستے پر چل رہی ہے۔

    خیر! تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ لوگوں کی اکثریت کے لیے جمالیاتی لطف اندوزی ایک ایسی کیفیت ہے جو ان کے عام رویوں سے مختلف نہیں ہوتی۔ وہ فن کو ایک ایسا ذریعہ سمجھتے ہیں جو انہیں دلچسپ، زوردار، شدید اور ڈرامائی انسانی معاملات میں شرکت کا موقع فراہم کرتا ہے۔ وہ بھی ٹکٹ اور پولس دونوں کے خوف کے بغیر۔ اسی لیے عوام فن کے تقاضوں کو صرف اس حد تک برداشت کرتے ہیں جب تک وہ انسانی کرداروں اور انسانی معاملات سے ان کی دلچسپی میں مداخلت نہیں کرتا۔ جیسے ہی فنی عنصر غلبہ حاصل کرتے ہیں ان کی دلچسپی کم ہونے لگتی ہے۔ یعنی عام لوگوں کے لیے زیادہ فنکاری، کم دلچسپی کا سبب ہوتی ہے۔

    اب غالباً میں اس سوال کا جواب دینے کے قابل ہوں کہ معاشرہ غالبؔ اور اقبال کو پسند کرنے کے باوجود نئی شاعری کو کیوں پسند نہیں کر سکتا۔ اقبال کے مقبول ہونے کے معنی یہ ہیں کہ ان کی شاعری کے پیچھے اس انسان کو پسند کیا جا رہا ہے جو اسلامی جذبات رکھتا ہے، جس کا عشق رسول ضرب المثل ہے، جو مسلمانوں سے محبت کرتا ہے، ان کی پستی پر رنجیدہ ہوتا ہے، ان کی سربلندی اور ترقی کا خواہاں ہے۔ یہ انسان جتنا زیادہ واضح طور پر عوام کے سامنے آتا ہے، اقبال کی مقبولت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ لوگ اس انسان کو پسند کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ جنگ طرابلس پر روتے ہیں۔ اس کی جرأت سخن کی بدولت خدا کے حضور میں شکوہ کرتے ہیں اور ’’جواب شکوہ‘‘ میں ’’یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں‘‘ کی بشارت پاکر بشاش ہوتے ہیں۔ اسی طرح غالبؔ کی مقبولیت کا آغاز بھی اس انسان کو سمجھنے کی کوششوں کے ساتھ ہوا جس کی پہلی جھلک ’’یادگار غالب‘‘ میں نظر آئی تھی۔

    نئی شاعری میں بہ حیثیت مجموعی یہ جان پہچانا انسان غائب ہے۔ اور اگر موجود بھی ہے تو وہ اسے پہچان نہیں سکتے۔ انہیں نہ اس کے دکھ کا پتا چلتا ہے نہ سکھ کا۔ وہ نئی شاعری کے پیچھے جھانک کر دیکھتے ہیں تو ایک دھندکے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا۔ اور جو کچھ نظر آتا ہے اس سے نہ وہ محبت کر سکتے ہیں نہ ہمدردی۔ نہ اس کے ساتھ ہنس سکتے ہیں نہ رو سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں نئی شاعری میں وہ انسانی عناصر یا تو ایک سرے سے موجود ہی نہیں جو عوام میں نام نہاد جمالیاتی حظ یعنی وہ دلچسپی جس کا تجزیہ میں کر چکا ہوں، پیدا کر سکیں۔ یا اگر موجود بھی ہیں تو فن کے ایسے طریقہ کار کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں جسے سمجھنا دشوار ہے۔ ’’اونچا مکان‘‘ انہیں معنوں میں کبھی مقبول شاعری نہیں بن سکتی۔ حالانکہ یہی میراجی جب گیت لکھتا ہے یا غزل کہتا ہے تو انسانی عناصر کے نمایاں ہوتے ہی لوگوں کے سرتائید میں ہلنے لگتے ہیں۔

    اب مجھے ایک بات کو پوری وضاحت سے کہہ لینے دیجئے کہ کسی فن پارے میں پیش ہونے والے انسانی معاملات پر رنجیدہ یا خوش ہونے کا رویہ فن سے سچے طور پر محظوظ ہونے سے بالکل الگ ہے بلکہ فن پارے میں انسانی عناصر سے زیادہ دلچسپی اس سے سچی جمالیاتی لطف اندوزی کا راستہ روکتی ہے۔ ضیا صاحب نے نئی شاعری کو خالص شاعری کہا ہے۔ خالص شاعری خالص فن کے تصور سے پیدا ہوتی ہے۔ آئیے اب ذرا یہ بھی دیکھ لیں کہ خالص فن کس چڑیا کا نام ہے۔

    خالص فن کی وضاحت کے لیے اوٹیگاوائی گیسے نے ایک بہت اچھی مثال پیش کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کسی چیز کو دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے زوایہ نگاہ کو درست رکھیں۔ اگر ہمارا زاویہ نگاہ درست نہ ہو تو ہم اسے صحیح طور پر نہیں دیکھ سکیں گے، یا دیکھنے سے بالکل ہی محروم رہیں گے۔ مثال کے طور پر فرض کیجئے کہ آپ اپنے کمرے کی کھڑکی کے شیشے سے اپنے پائیں باغ کو دیکھ رہے ہیں۔ دیکھنے کے اس عمل میں آپ اپنی آنکھوں کو اس طرح صحیح مقام پر رکھتے ہیں کہ آپ کی نظریں کھڑکی کے شیشے سے رکے بغیر سیدھی کیاریوں اور پھولوں پر پڑتی ہیں۔ جب تک ہم باغ کو دیکھتے ہیں اور ہماری نظریں اس پر مرکوز ہوتی ہیں، ہم کھڑکی کے شیشے کو نہیں دیکھتے بلکہ اس کے آر پار سیدھے باغ کو دیکھتے ہیں۔ شیشہ جتنا زیادہ شفاف ہوتا ہے، اتنا ہی وہ ہمیں کم نظر آتا ہے۔ لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ ہم باغ کو دیکھنا چھوڑ دیں اور اپنی نظروں کو شیشے پر روک دیں تب باغ ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے اور ہمیں شیشے پر صرف رنگ کے کچھ دھبے سے نظر آتے ہیں۔ اس طرح باغ کو دیکھنا اور شیشے کو دیکھنا دو مختلف عمل ہیں، جنہیں ایک ساتھ جاری نہیں رکھا جا سکتا۔ کیونکہ دونوں میں ہمارا زاویہ نظر مختلف ہوتا ہے۔

    اب ایک فن پارے میں جب تک ہماری نظر انسانی معاملات پر رہتی ہے، ہم اس کے جمالیاتی پہلو کو نہیں دیکھ سکتے۔ ایک ڈرامے میں ہیرو یا ہیروئن کا غم ہمارے دل میں رحم اور ہمدردی کے جذبات اس وقت ابھار سکتا ہے جب ہم اسے حقیقی تصور کریں لیکن اس سے جمالیاتی لطف اندوزی میں ہم اسے صرف ایک فن پارے کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ باغ اور شیشے کی مثال میں شیشہ فن کے مترادف ہے اور باغ انسانی عناصر کے۔ انسانوں کی اکثریت شیشے کو دیکھنے کے بجائے صرف باغ کو دیکھتی ہے۔ یعنی وہ فن کے ذیعہ اس حقیقت کو دیکھتی ہے جو فن کے پیچھے نظر آتی ہے۔ جب کہ باغ کو دیکھنے کے عمل میں شیشہ اسے نظر نہیں آتا۔ وجہ ظاہر ہے۔ شیشے کو دیکھنے کے عمل میں وہ باغ کو نہیں دیکھ سکتی اور باغ کو دیکھنے میں شیشہ غائب ہو جاتا ہے۔

    ترقی پسند شاعری اور رومانی شاعری میں خالص جمالیاتی عناصر کو اس حد تک کم کر دیا گیا تھا کہ ان میں انسانی عناصر کے سوا کچھ باقی نہیں رہا تھا۔ ان معنوں میں یہ شاعری صرف جزوی طور پر فن پارہ کہے جانے کی مستحق ہے بلکہ بعض اوقات ایسی شاعری میں فن اتنا غالب ہے کہ اسے مشکل ہی سے فن تخلیق کہا جا سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس سے لطف اندوزی کے لیے جمالیاتی حسیت درکار نہیں ہوتی۔ وہ صرف انسانی حسیت کا تقاضا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ترقی پسند شاعری سے لطف اندوز ہونے والوں کے لیے صرف اتنی با ت کافی ہے کہ اس میں مزدوروں اور کسانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا گیا ہے، یا عوام کے سیاسی جذبات بیان کیے گئے ہیں۔ اب آپ سمجھ سکتے ہیں کہ مقبول شاعری عوام کے سامنے اس طرح پیش ہوتی ہے جیسے وہ ایک سرے سے فن ہی نہ ہو۔ صرف حقیقت یا زندگی کا ایک اقتباس ہو۔

    (۴)
    پچھلے دنوں میں نے حلقہ ارباب ذوق کراچی کی تین نشستوں میں ’’نئی شاعری نامقبول شاعری‘‘ کے عنوان سے یکے بعد دیگرے تین مضامین پڑھے، جن میں نئی شاعری کی نامقبولیت کا تجزیہ کرتے ہوئے میں نے مندرجہ ذیل باتیں کہیں۔ (۱) نئی شاعری یعنی وہ شاعری جو راشد اور میراجی سے شروع ہوکر افتخار جالب تک پہنچتی ہے اور پھر وہاں سے نیچے اتر کر پروز پوئم تک آتی ہے، اس کی نامقبولیت کی پہلی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ نہ صرف معاشرے کی اکثریت کی سمجھ میں نہیں آتی بلکہ پڑھے لوگوں کی کثیر تعداد یہاں تک کہ ان لوگوں کا بھی ایک بڑا حلقہ جو خود شعروشاعری کرتے ہیں، اس شاعری کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔

    (۲) اس شاعری میں وہ جانے پہچانے انسانی عناصر غائب ہو گئے ہیں یا کم ہو گئے ہیں جو مواد کی حیثیت سے شعروشاعری سے لطف اندوزی کی ایک لازمی شرط کے طور پر تمام مقبول شاعری میں موجود رہے ہیں اور جن کی عدم موجودگی نئی شاعری سے لوگوں میں دلچسپی پیدا نہیں ہونے دیتی یا دلچسپی کم سے کم تر کرتی چلی جاتی ہے۔ (۳) اس بنا پر نئی شاعری نہ صرف یہ کہ کل نامقبول تھی، ا ٓج نامقبول ہے بلکہ آئندہ بھی نامقبول رہےگی۔ گویا دوسرے لفظوں میں نئی شاعری کی نامقبولیت کوئی اتفاقی یا عارضی بات نہیں ہے بلکہ اس کی لازمی اور دائمی صفت ہے۔ آج میں اپنے اس مضمون میں ان خیالات کی مزید وضاحت کرنا چاہتا ہوں اور ساتھ ہی اس کے ضمن میں کچھ ایسی باتیں کرنا چاہتا ہوں جو مسئلہ زیر بحث کے کئی اور گوشوں کو بے نقاب کریں گی۔

    یہ بات کہ نئی شاعری اس بنا پر نامقبول ہے کہ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتی، یہ کہنے کے مترادف ہے کہ اس شاعری کا ابلاغ نہیں ہوتا یا اس میں ضرورت سے زیادہ ابہام پایا جاتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ابلاغ اور ابہام جیسے الفاظ استعمال کرنے سے ایسے بہت سے لوگوں کی تسلی ہو جائےگی جن کا ذہن اس وقت تک کچھ سوچنے پر آمادہ نہیں ہوتا جب تک کسی خیال کو کسی چالو اصطلاح کے ذریعے نہ بیان کر دیا جائے۔ اب لوگوں کو ولیم ایمپسن کی کتاب بھی یاد آئے گی اور وہ مضامین بھی جو اظہار و ابلاغ کے مسائل پر آئے دن ہمارے رسالوں میں شائع ہوتے رہتے ہیں اور شاید اس کے ساتھ ہی نامقبولیت کی کڑوی گولی بھی ان کے حلق سے نیچے اتر جائے۔ بہرحال ابہام اور ابلاغ کے بارے میں ہمارے یہاں اب تک جو رویے اختیار کیے گئے ہیں، ان کا ایک مختصر سا خلاصہ میں اپنے لفظوں میں بیان کرتا ہوں۔

    (۱) شاعروں کا ایک گروہ علی الاعلان اس خیال کا حامی ہے کہ ابلاغ شاعری کے لیے ضروری نہیں ہے۔ وہ بلا جھجھک دو ٹوک انداز میں اعلان کرتے ہیں کہ وہ ابلاغ کے قائل نہیں ہیں اور اس شاعری کو جو ابلاغ کے دائرے میں آتی ہے، یا تو شاعری ہی نہیں سمجھتے یا کم تر درجے کی شاعری سمجھتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کے نزدیک اب تک کی تمام شاعری، نا شاعری کے ضمن میں آتی ہے۔ اور وہ دنیا میں پہلی بار شاعری پیدا کرنے کے مدعی نظر آتے ہیں۔ اس گروہ کا سب سے صلح کل اور مرنجان مرنج حصہ وہ ہے جو ابلاغ والی شاعری کو بالکلیہ مسترد نہیں کرتا۔ لیکن اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ نئی شاعری، شاعری کی دوسری تمام اقسام سے مختلف قسم کی شاعری ہے۔

    (۲) ابلاغ و ابہام کے بارے میں ایک دوسرے گروہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ابلاغ ضروری تو ہے مگر ہر ایک کے لیے نہیں۔ ابلاغ کی مختلف سطحیں ہوتی ہیں اور یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر نظم ہر شخص تک پہنچ جائے۔ نئی شاعری کا ابلاغ ایک نئے قسم کے ذوق شعر اور شعریات سے واقفیت اور شاعری کے نئے طریقہ کار سے آگاہی کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس لیے نئی شاعری صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو ان تقاضوں کو پورا کرتے ہوں یا پورا کرنے کی کوشش کرتے ہوں۔ جن لوگوں میں یہ خصوصیات موجود نہیں ہیں، نئی شاعری ان کے لیے نہیں ہے۔

    (۳) ایک تیسرا گروہ ابلاغ کی اہمیت کا بھی قائل ہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ نئی شاعری زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچے لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات پر بھی اصرار کرتا ہے کہ ابلاغ کی شرط نئی شاعری کو اپنی حدود کے اندر رہتے ہوئے پوری کرنا چاہئے۔ اس گروہ کے نزدیک اس شاعری کے عدم ابلاغ کا سبب اس کا نیاپن اور نامانوسیت ہے اور اس میں سے بہت سے لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ نامانوسیت کی دیوار ٹوٹتے ہی معاشرہ نئی شاعری کو اسی طرح قبول کرےگا جس طرح مثال کے طور پر اس نے غالب کو قبول کر لیا۔ ان سب خیالات کی مزید تلخیص یہ ہے کہ، 

    (۱) نئی شاعری صرف شاعر کے لیے ہے۔ اس کا کسی دوسرے سے کوئی تعلق نہیں۔ شاعر کے لیے صرف یہ کافی ہے کہ اس کا ’’اظہار‘‘ تکمیل پا گیا ہے یا نہیں۔ اگر اظہار مکمل ہو گیا ہے تو یہ بات کافی ہے۔ ابلاغ ایک غیرضروری چیز ہے۔ (۲) ابلاغ کے لیے ایک مخصوص تربیت یافتہ طبقہ ضروری ہے۔ اس طبقے کے باہر شاعری کا ابلاغ نئے شاعروں کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ (۳) اس وقت کا انتظار کرنا چاہئے جب لوگ اس شاعری سے مانوس ہو جائیں۔ اس کے بعد اس کا ابلاغ خود بخود ہونے لگےگا۔ ابلاغ اور ابہام کے بارے میں نئے شعرا اور ان کے حامیوں کے خیالات کو درجہ بہ درجہ بیان کرنے اور ان کی تلخیص در تلخیص کرنے کے بعد میں اپنی کہی ہوئی دوسری بات کی طرف لوٹتا ہوں۔ یعنی نئی شاعری سے جانے پہچانے عناصر کے غائب ہو جانے یا کم ہو جانے کا مسئلہ۔

    جب میں کہتا ہوں کہ نئی شاعری کی نامقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں جانے پہچانے انسانی عناصر نظر نہیں آتے یا کم نظر آتے ہیں تو اس سے میری کیا مراد ہوتی ہے؟ اپنی مراد کی وضاحت کے لیے ضیا جالندھری کی ایک نظم ’’بشارت‘‘ پیش کرتا ہوں۔ ’’بشارت‘‘ ایک ایسی نظم ہے جس کا پہلا حصہ روایتی طور پر پابند نظم میں لکھا گیا ہے اور دوسرا حصہ آزاد نظم میں۔ چنانچہ حسن اتفاق سے یہ نظم ہمارے تجزیے کا ایک خوب صورت مواد پیش کرتی ہے۔ ’’بشارت‘‘ کا پہلا حصہ ملاحظہ کیجئے۔

    حاصل خواب خوش پر خجل
    ہر بشارت سے ڈرتا ہے دل غنچے
    کھو ل آنکھ، رک رک کے کھول
    دیکھ پلکیں اٹھا اور دیکھ
    سینے شل زخم نامندمل
    آنکھیں گرداب گریہ میں غرق
    زیست خود زیست پہ منفعل
    اپنے خوابوں کی کرچوں کے ڈھیر
    جسم شل، حوصلے مضمحل
    زندگی دشت ریگ رواں
    رنج نایافت سینے کی سل
    سب تمنائیں نامطمئن
    اور سب حسرتیں جاں گسل
    دید کے رنگ اک ثانیہ
    درد کی تیرگی مستقل
    غنچہ شوق آہستہ کھل
    ہر بشارت پہ دکھتا ہے دل

    آپ نے دیکھا، اس حصہ نظم میں آپ ایسے انسان کی جذباتی اور نفسیاتی کیفیت سے دوچار ہوتے ہیں جو اپنے خواب خوش حاصل پر بار بار خجل ہو چکا ہے۔ جس کا سینہ غموں کی شدت سے شق ہے اور زمانے نے جو زخم اس کی روح پر لگائے ہیں وہ کسی طرح مندمل نہیں ہوتے۔ جس کی آنکھیں گرداب گریہ میں غرق ہیں اور جس کی زیست خود اپنے وجود پر منفعل ہے۔ خوابوں کی کرچیوں کے ڈھیر اس کے چاروں طرف بکھرے ہوے ہیں۔ اس کا جسم شل ہو گیا ہے اور حوصلے مضمحل ہیں۔ زندگی اس کے لیے ایک دست ریگ کی طرح ہے اور رنج نایافت اس کی رگ رگ میں اتر گیا ہے اور بھاری سل کی طرح سینے پر رکھا ہوا ہے۔ اس کی تمنائیں نامطمئن ہیں اور حسرتوں نے اسے درد کی مستقل تیرگی کے سوا اور کچھ نہیں دیا۔ وہ اتنی بارشکستوں اور مایوسیوں سے گزرا ہے کہ اب خوشی اور امید کی کسی بھی توقع سے ڈر لگنے لگا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا انجام مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں نکلےگا۔ اس کا دل کسی بشارت پر کلی کی طرح کھلنا چاہتا ہے مگر وہ اپنے سابقہ تجربات کی بنا پر اس کیفیت سے ڈرتا ہے اور اسے فوری طور پر قبول نہیں کرنا چاہتا۔

    نظم کے پیچھے اس انسان کو ہم فوراً پہچان لیتے ہیں۔ اس کے جذبات اور کیفیات سے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ انسان ہمارا جانا پہچانا انسان ہے۔ ہم اسے اپنے ماحول میں چلتا پھر تا دیکھتے ہیں۔ شاید ہم یہ بھی محسوس کریں کہ ہمارے اندر کا انسان ہے۔ یہ ہم خود ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جب ہم نظم کی جمالیاتی خوب صورتی پر نظر ڈالتے ہیں تو اس میں ہمیں وہ تمام باتیں مل جاتی ہیں جنہیں ہم سمجھتے بھی ہیں اور پسند کرتے ہیں۔ ’’آنکھیں گرداب گریہ میں غرق‘‘، ’’زندگی دشت ریگ رواں‘‘، ’’رنج نایافت سینے کی سل‘‘ یہ تشبیہات اور استعارے انفرادی اور نئے بھی لگتے ہیں اور ان کے پیچھے روایت کی مانوسیت بھی ہے۔ ہمیں ’’گرداب گریہ‘‘ میں بھی ایک جانا پہچانا مانوس ذائقہ محسوس ہوتا ہے اور ’’دہشت ریگ رواں‘‘ اور ’’رنج نایافت‘‘ بھی ہمارے ذوق اور پسند، دونوں کو مطمئن کرتے ہیں۔

    پھر بعض مصرعوں میں بعض حروف کی صوتیات سے جو کام لیا گیا ہے وہ بھی ہمیں اچھا گتا ہے اور ہم نظم کا مرکزی استعارہ، یعنی غنچے کا آہستہ آہستہ کھلنا۔۔۔ اور اس کے ساتھ نظم کے پورے موضوع کا تعلق ہمیں لطیف طور پر متاثر کرتا ہے۔ چنانچہ نظم کا یہ حصہ ہمیں کئی طرح آسودہ کرتا ہے۔ ہم اس میں جذباتی طور پر بھی شریک ہوتے ہیں۔ اسے نفسیاتی طور پر بھی قبول کرتے ہیں اور اس سے جمالیاتی طور پر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اب اس کے مقابلے ’’بشارت‘‘ کا دوسرا حصہ دیکھئے۔

    جب برہنہ تہی دست شاخیں سیہ ہو چکیں
    اوران کی رگوں میں نمی کا نشاں تک نہ باقی رہا
    تو درختوں کے پر نوچنے والی
    جابر ہواؤں کے ناخن
    سمٹ کر کہیں نرم پنجوں میں گم ہو گئے
    منجمد تال میں
    چادر برف پرخال خال
    نیلے پانی کے بلور حلقے
    درخشندہ آنکھوں کے مانند بیدار ہونے لگے
    اور پگھلتی ہوئی برف کے ہاتھ سے
    چارجانب کناروں کا دامن
    رفتہ رفتہ وہ تال آئینہ بن گیا
    خشک شاخوں کی پوروں پہ
    خوابیدہ آنکھوں کی گرہیں کھلیں
    تو اجاگر ہوئیں
    کونپلوں کی لویں
    نرم کلیوں کی شمعیں
    بہاروں کی پیغامبر
    پھر اچانک
    کہیں لو کے ہاتھوں نے غنچے سمیٹے
    کہیں آندھیاں محو غارت ہوئیں
    جابجا ڈالیاں پھڑپھڑاکر گریں
    بارہا تم نے دیکھا
    بہاروں کے آنے سے پہلے
    بہاریں اجاڑی گئیں
    اب کہ پھر آ رہی ہے بہار
    پھر بشارت سے ڈرتا ہے دل
    غنچے کھول آنکھ رک رک کے کھول
    کھل پر آہستہ آہستہ کھل

    نظم کایہ حصہ پہلے حصے سے دو طرح مختلف ہے۔ یہ پابند ہیئت کے بجائے آزاد نظم کی صورت میں لکھا گیا۔ پہلے حصے میں وزن، آہنگ، قافیے اورجانی پہچانی شعریات کا استعمال ہوا تھا۔ دوسرے حصے میں پرانی شعریات کی جگہ نئی شعریات نے لے لی ہے۔ وزن اور آہنگ اس میں بھی موجود ہے مگر نظم کی ہیئت بدل جانے کی وجہ سے اس کا اثر بھی بدل گیا ہے۔ قافیہ جو پہلے حصے میں معنوی اور لفظی حسن کا جادو جگا رہا تھا، اس حصہ نظم میں غائب ہو گیا ہے۔ اس میں بہت خوبصورت امیجز کا استعمال ہوا ہے مگروہ ’’رنج نایافت‘‘، ’’سینے کی سل‘‘ جیسی مانوس تشبیہات سے مختلف ہے۔ اس کے ساتھ ہی نظم کے اس حصے میں وہ انسانی عناصر چھپ گئے ہیں جنہیں ہم نے نظم کے پہلے حصے میں دیکھتے ہی پہچان لیا تھا۔

    نظم کے اس حصے میں ہم ا س انسان سے براہ راست دوچار نہیں ہوتے۔ اس کا جذبہ، اس کا احساس شکست، اس کی مایوسی، اس کی کشمکش، جو پہلے حصے میں کسی وضاحت کی محتاج نہیں تھی، اب دھندلی ہوکر محتاج تشریح ہو گئی ہے۔ ممکن ہے کہ پہلے حصے کی مدد سے ہم اس حصے میں بھی اسے آسانی سے ڈھونڈ لیں۔ لیکن نظم کے اس حصے کو پہلے سے الگ کرکے دیکھا جائے توشایدان انسانی عناصرکی دریافت اور زیادہ مشکل ہو جائے۔ ایک اور بڑی تبدیلی اس حصے میں یہ ہوتی ہے کہ پہلے حصے میں ہماری توجہ صرف شعریات پر مرکوز نہیں تھی۔ ہم نظم کے مواد اور اس کی شاعرانہ خوبیوں سے بیک وقت لطف لے رہے تھے لیکن دوسرے حصے میں نظم کے مواد سے ہمارا تعلق پہلے جیسا نہیں رہا۔

    اب ہم اس کے مواد میں جذباتی اورنفسیاتی وابستگی کے بغیر صرف اس کی شاعرانہ خوبیوں کو دیکھتے ہیں۔ کیوں کہ وہ مواد جو پہلے حصے میں ہماری توجہ کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا اب ہمیں اتنی وضاحت سے دکھائی دینا بند ہو گیا ہے۔ اب ہم شاعرانہ خوبیوں پر زیادہ توجہ کرتے ہیں اور خاص طو رپر امیجز کے حسن سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ اب فرض کیجئے کہ نظم کے ان دونوں حصوں کو الگ الگ پڑھتے ہیں۔ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں حصوں کے بارے میں ہمارا جذباتی، نفسیاتی اورجمالیاتی رویہ بدلا ہوا ہے۔ ’’بشارت‘‘ کے ان دونوں حصوں کے بارے میں ہم اپنے محسوسات کا تجزیہ کریں تواس سے مندرجہ ذیل نتائج حاصل ہوتے ہیں،

    (۱) پرانی شاعری میں ہیئت کا ا ستعمال ہمیں جس طرح مانوس اور قابل قبول معلوم ہوتا ہے، نئی شاعری میں نہیں معلوم ہوتا۔ بہت سے لوگ اسے کسی طرح قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ان میں سے کچھ لوگ جواس سے مانوس بھی ہو گئے، انہیں جب پرانی ہیئت میں کوئی زندہ اور تخلیقی چیز پڑھنے کو ملتی ہے تو انہیں اس میں اس درجے کی نئی ہیئت والی شاعری سے زیادہ آسودگی حاصل ہوتی ہے۔ جن لوگوں نے نئی ہیئت کو پوری طرح قبول کر لیا ہے، ان میں ذوق کی ایک ایسی بنیادی تبدیلی پیدا ہو گئی ہے جس کے بعد انہیں پرانی ہیئت میں لطف نہیں آتا۔ گویا دوسرے لفظوں میں ہیئت کے استعمال کے بارے میں ہمیں معاشرے میں تین قسم کے رویے ملتے ہیں۔

    (۱) ایک رویہ ان لوگوں کا ہے جو نئی ہیئت کوایک سرے سے ناقابل قبول سمجھتے ہیں۔ (۲) دوسرا رویہ ان لوگوں کا ہے جونئی ہیئت سے بھی لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پرانی ہیئت کوترجیح دیتے ہیں یا اس سے زیادہ فطری طور پر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ (۳) تیسرا رویہ ان لوگوں کا ہے جوصرف نئی ہیئت سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور ذوق کی ایک بڑی نمایاں تبدیلی کے نتیجے میں پرانی ہیئت سے لطف اندوزی کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔

    (۲) نئی شاعری کی شعریات پرانی شاعری کی شعریات سے مختلف ہے۔ نئی شاعری میں علامات، ذاتی سمبل، امیجز، صوتی آہنگ کا استعمال اور تشبیہ واستعارے کی زبان پرانی شاعری کے مقابلے پراتنی بدلی ہوتی ہے کہ ایک نئی دنیا معلوم ہوتی ہے۔ اس کے بارے میں بھی معاشرے میں تین رویے پائے جاتے ہیں۔ (۱) ان لوگوں کا رویہ جو نئی شعریات سے کسی طور پر بھی لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔ (۲) ان لوگوں کا رویہ جو نئی شعریات سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں لیکن پرانی شعریات کو ترجیح دیتے ہیں یا اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ (۳) ان لوگوں کا رویہ جو نئی شعریات سے لطف اندوزی میں اتنے بند ہو گئے ہیں کہ پرانی شعریات سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔

    (۳) نئی شاعری میں انسانی عناصر کے غائب ہو جانے، کم ہو جانے یا پوری طرح نظر نہ آنے کے باعث یہ شاعری معاشرے کی اکثریت کو سرد، بے جان، غیردلچسپ معلوم ہوتی ہے۔ (۱) نئی شاعری کے بارے میں یہ رویہ معاشرے کے وسیع ترحلقوں میں پایا جاتا ہے۔ (۲) ایک چھوٹا ساگر وہ ان لوگوں کا ہے جوان عناصر کے بغیر بھی اس شاعری سے لطف اندوزی کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن جب انہیں کوئی تخلیقی فن پارہ ایسا مل جائے جس میں نئی شعریات بھی ہو اورانسانی عناصر بھی، تو وہ اسے اس فن پارے پر ترجیح دیتے ہیں جس میں انسانی عناصر اس کی نسبت سے کم پائے جاتے ہیں یا بالکل نہیں پائے جاتے ہیں۔ (۳) تیسرا رویہ ان لوگوں کا ہے جو انسانی عناصر کی موجودگی کو قبول نہیں کرتے اور ایسے فن پارے کو جس میں یہ عناصر نمایاں طور پر پائے جائیں، کمتر درجہ کی شاعر ی سمجھتے ہیں۔ (۴) اور شاید اکا دکا طور پر کچھ لوگ ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو دونوں طرح کی شاعری سے مساوی طور پر لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ لیکن ان کا ہونا نہ ہونا معاشرے کے مجموعی رویے پر اثرانداز نہیں ہوتا۔

    اب ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ نکلا کہ نئی شاعری یعنی اس کی ہیئت، اس کی شعریات، انسانی عناصر کے بارے میں اس کا رویہ، یہ سب چیزیں اصلاً اس گروہ کے لوگوں سے تعلق رکھتی ہیں جس کا ذکر میں نے ’’تیسرے رویے‘‘ کے ضمن میں کیا ہے۔ چلیے چوتھے رویے والوں کو بھی اس میں شامل کر لیں۔ دوسرے رویے کے لوگ اس شاعری سے لطف اندوزی کے باوجود اس شاعری سے اس طرح وابستہ نہیں ہیں جس طرح تیسرے رویے کے لوگ اور پہلے رویے کے لوگ وہ ہیں، جو اس شاعری کو تمام وکمال مسترد کرتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بحث کا میرے موضوع سے کیا تعلق ہے؟

    نئی شاعری کے بارے میں ایک بات جو اس سے متعلق تمام تنقیدی ادب، مباحثوں، مذاکروں اور تقریروں میں باربار کہی جاتی ہے اورجس سے شاید کسی کو اختلاف ہو، یہ ہے کہ یہ شاعری پرانی شاعری کی روایت سے انحراف یا بغاوت کے طور پر پیدا ہوئی ہے۔ یہ بات بار بار کہے جانے کے سبب اتنی چکنی اور سپاٹ ہو گئی ہے کہ ہم اسے آنکھیں بند کرکے اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ اس سے نہ ہمارے ذہن میں کوئی ردعمل پیدا ہوتا ہے نہ سننے والوں اور پڑھنے والوں کے ذہن میں۔ اس طرح یہ بات کہہ کر دراصل ہم یہ بالکل غور نہیں کرتے کہ اس بات کے کیا معنی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ پرانی روایت سے انحراف یا بغاوت کے اس گھسے پٹے فقرے کا تجزیہ کر لیا جائے۔

    پرانی روایت یا انحراف کے جو معنی میرے ذہن میں آتے ہیں وہ یہ ہیں۔ (۱) پرانے ذوق سے انحراف یا بغاوت۔ (۲) پرانی شعریات سے انحراف یا بغاوت۔ (۳) پرانی ہیئتوں سے انحراف یا بغاوت اور ان سب کے ساتھ (۴) پرانے مواد، پرانے انسانی عناصر سے انحراف یا بغاوت۔

    نئی شاعری کے آغاز ہی سے اس میں انحراف یا بغاوت کے یہ چار پہلو موجود ہیں اور جوں جو ں وہ آگے بڑھتی جاتی ہے، ان چاروں معنوں میں پرانی روایت سے دورتر ہوتی جاتی ہے۔ اب کیا ان سب باتوں کوسمیٹ کرہم یہ کہہ دیں کہ نئی شاعری اس نئے انسان کی شاعری ہے جو پرانے انسان اور پرانے معاشرے سے منحرف ہوکر اس سے باغی ہو گیا ہے اور شعروادب میں اپنا اظہار اس طرح کرنا چاہتا ہے کہ اس میں پرانے عناصر کی کوئی چیز باقی نہ رہے۔ دوسرے لفظوں میں نئی شاعری اس نئے انسان کا جمالیاتی اظہار ہے جو اپنے ماضی سے منقطع ہوکر ایک ایسی دنیا تخلیق کرنا چاہتا ہے جس میں معاشرتی رشتوں کی شکلیں، اس کی اقداروروایات، اس کے جذبات، افکار، حسیات، بحیثیت مجموعی اس کے تمام تجربات اس دنیاسے مختلف ہوں جس میں ہم اور ہمارے آباواجداد اب تک رہتے ا ٓئے ہیں۔ نئی شاعری مختلف درجوں میں اس انسان کی شاعری ہے اور ماضی سے اس کے انقطاع کی مختلف سطحوں پر اس کا اظہار کرتی ہے۔

    چنانچہ اب نئی شاعری کی نامقبولیت کے معنی یہ برآمد ہوئے کہ نئی شاعری جس نئے انسان کا اظہار کرتی ہے یا کرنا چاہتی ہے وہ ابھی ہمارے معاشرے میں ایک قلیل اقلیت کے طور پر موجود ہے اور جب تک اس معاشرے میں کوئی ایسی بنیادی تبدیلی واقع نہیں ہوتی جو اسے ایک سرے سے اوپر سے نیچے تک بدل کر رکھ دے اور ماضی سے اس کے رشتے کو توڑ کر اسے بالکل ہی نیا بنا دے۔۔۔ اس میں یہ گروہ ہمیشہ اقلیت ہی میں رہےگا۔ پھر کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی انسانی معاشرہ اس طرح تبدیل ہو جائے؟ اور کیا تبدیلی ممکن ہونے کے ساتھ مستحسن بھی ہے؟ میرے خیال میں ایک معمولی سے معاشرتی امر واقعہ کا پیچھا کرتے کرتے اب ہم ایسے مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں مجھے قلم رکھ دینا چاہئے اور غور کرنا چاہئے کہ اگر ایسا ہوگا تو ہمارے انفرادی اور اجتماعی وجود کے لیے اس کے کیا معنی ہوں گے؟

    (۵)
    شاعری تین چیزوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ (۱) مواد (۲) ہیئت اور(۳) شاعر شعوری یا لاشعوری طور پر شاعری سے جو کچھ سمجھتا ہے یعنی شاعری کا تصور۔ ان میں سے دو چیزیں یعنی مواد اور شاعری کا تصور شاعر کی داخلیت کا حصہ ہوتی ہیں۔ جب کہ تیسری چیز یعنی ہیئت خارجی یا معروضی طور پر موجود ہوتی ہے۔ اب جہاں تک شاعری کے تصور کا تعلق ہے اس پر ہم کبھی اور گفتگو کریں گے۔ اس مضمون میں ہم صرف مواد اور ہیئت اور پھر دونوں کے رشتے کے بارے میں کچھ سوچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

    ہم نے کہا کہ مواد شاعر کی داخلیت کاحصہ ہوتا ہے۔ کیا یہ بات جس طرح داخلی شاعری کے مواد کے بارے میں کہی جا سکتی ہے، اسی طرح شاعری کی نسبتاً زیادہ خارجی شکلوں کے بارے میں بھی درست مانی جاتی ہے۔ مثلاً فردوسی کے شاہ نامے کا مواد کیا اسی طرح داخلی ہے جس طرح حافظ کی غزل کا مواد؟ یاجن معنوں میں ہم میر کی غز ل کے مواد کو داخلی کہتے ہوں، کیا اسی طرح میر انیس کے مرثیوں کے مواد کو بھی داخلی کہہ سکتے ہیں؟

    ایک بات تو ظاہر ہے کہ مواد کی ان دونوں قسموں میں فرق ہے۔ حافظ اور میر کی غزل کا مواد ان معنوں میں داخلی ہے کہ وہ ان کے باطنی تجربات پر مشتمل ہے جبکہ فردوسی اور انیس کا مواد تاریخی یا اساطیری ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ فردوسی اور انیس کا مواد بھی خارجی یا معروضی طور پر موجود ہے۔ حالانکہ ہم نے یہ کہا تھا کہ مواد شاعر کی داخلیت کا حصہ ہوتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ فردوسی اور انیس کا مواد ایک مخصوص معنوں میں خارجی اور معروضی طور پر موجود ہے۔ یعنی رستم اور امام حسین کے کردار اور ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اساطیری اور تاریخی حیثیت رکھتے ہیں مگراس کے ساتھ ہی یہ بات بھی درست ہے کہ کردار فردوسی اور انیس کی شاعری میں بالکل اسی طرح نہیں ہیں جس طرح تاریخ اور اسطور میں۔ ورنہ فردوسی کا شاہ نامہ اورمیر انیس کے مرثیے منظوم تاریخ یا منظوم اسطور شاعری نہ ہوتے۔ انہیں جس چیزنے شاعری بنایا ہے، وہ ان کے بارے میں شاعر کا داخلی رویہ ہے۔

    فردوسی کے تخیل نے رستم کے کردار کو ایک خاص شکل میں دیکھا ہے اور اس کے ساتھ اس کے جذبات ایک خاص نوعیت سے وابستہ ہیں۔ ان معنوں میں رستم کا کردار ایک اسطوری کردار ہوتے ہوئے بھی فردوسی کے تخیل اور جذبات کی تخلیق ہے۔ فردوسی نے اسے جس طرح لکھا ہے، فردوسی ہی لکھ سکتا تھا۔ چنانچہ فردوسی کا یہ دعویٰ درست ہے،

    منش کردہ ام رستم داستاں
    و گرنہ یلے بود از سیستاں

    اب غالبا ًیہ بات واضح ہو گئی ہوگی کہ شاعری کا مواد انتہائی خارجی شاعری میں بھی کسی طرح شاعری کی داخلیت کا حصہ ہوتا ہے۔ بہرحال ہمیں یہ بات تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں ہے کہ خارجی شاعری کا مواد ایک مخصوص معنوں میں داخلی ہوتے ہوئے بھی ان معنوں میں داخلی نہیں ہوتا جن معنوں میں مثلاً میر کی غزل کا مواد داخلی ہے۔ دونوں میں داخلیت کے مدارج کا فرق ہے اور شاید نوعیتوں کا بھی۔ اب سوال یہ رہا ہے کہ میر کا مواد کن معنوں میں داخلی ہے؟ اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ یہ میر کے حددرجہ انفرادی تجربات پر مبنی ہیں۔ یہ تجربات میر اور صرف میر کے ہیں اور میر کے سوا اور کسی کے نہیں ہو سکتے۔

    دوسرے فردوسی کے تجربات سے مختلف طور پر اس میں ایک اور خصوصیت یہ موجود ہے کہ فردوسی اپنے تجربات سے واقف ہے۔ جبکہ میر کے تجربات میر کے اندر موجود تو ہیں مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ میر ان سے واقف ہو۔ ان میں سے بعض تجربات شعوری، بعض نیم شعوری اور بعض بالکل لاشعوری ہیں۔ حتی کہ میر کو یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ اس کے کون سے تجربات اس کی غزل کی تشکیل میں حصہ لیں گے۔ بعض اوقات وہ ان سے صرف اسی وقت واقف ہوگا جب وہ غزل کے تخلیقی تجربے میں ظاہر ہو جائیں گے اور پھر یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ یہ تجربات وہی تجربات ہوں جنہیں میر اپنی زندگی میں شعوری طور پر اہم سمجھتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ شعوری طور پر اہم سمجھے جانے والے تجربات تخلیقی عمل میں دب جائیں یا معدوم ہو جائیں، جب کہ بعض ایسے تجربات اہمیت اختیار کر لیں جنہیں شعوری طور پر اہم نہیں سمجھا گیا ہے یا بالکل ہی نظرانداز کر دیا گیا ہے، یا جن سے شعوری طور پر بالکل ہی واقفیت حاصل نہیں ہوئی ہے۔

    اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ معلوم، نیم معلوم تجربہ تخلیقی عمل کے ذریعے کس طرح ایک فن پارے کی شکل اختیار کرتا ہے؟ مواد جیسا بھی ہے، شاعرکی داخلیت میں موجود ہے۔ ظاہر ہے، یہ مواد ہیئت کے بغیرظاہر نہیں ہو سکتا۔ شاعراسے فن پارے میں ظاہر کرنے کے لیے ہیئت کا استعمال کرتا ہے، جو فنکار اور اس کے داخلی تجربے سے الگ معروضی طور پر وجود رکھتی ہے۔ اس ہیئت کے بغیر داخلی تجربہ خارجی شکل اختیار نہیں کر سکتا۔ یعنی معروضی طور پر وجود میں نہیں آ سکتا، مثلاً ایک شاعر جب غزل کہتا ہے تو اس کا داخلی تجربہ اس کے اندر موجود ہوتا ہے لیکن غزل کی ہیئت اس کے باہر وجود رکھتی ہے۔ وہ اپنے داخلی تجربے کوغزل کی ہیئت کے ذریعے وجود میں لاتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے اور یہ ایک اہم بات ہے کہ غزل کی ہیئت ہی کے ذریعے وہ تجربہ وہ شکل اختیار کرتا ہے جسے ہم غزل کہتے ہیں۔ غزل کی ہیئت اختیار کرکے ہی وہ غزل کہلاتا ہے اورغزل کی صورت میں وجو د میں آتا ہے۔

    مجھے افسوس ہے کہ میرے اس بیان میں اظہار کی ایک مجبوری حائل ہو گئی ہے۔ میں نے یہ بات اس طرح کہہ دی ہے جیسے شاعر کا داخلی تجربہ اس کے تخلیقی عمل سے الگ کہیں موجود ہے جسے وہ غزل کی ہیئت میں بند کر دیتا ہے جبکہ جو بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ اس سے مختلف ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ داخلی تجربہ تخلیقی عمل اور ہیئت سے الگ اور کہیں رکھا ہوا ہے جسے گیہوں کی طرح ایک بوری میں ڈالنا ہے بلکہ ہیئت اور تخلیقی عمل کی یک جائی ہی وہ صورت ہے جس میں داخلی تجربہ تشکیل پا رہا ہے۔ تخلیقی عمل کی بیداری نے شاعر کے اندر ایک ایسا تحرک پیدا کر دیا ہے جو بجلی کے کرنٹ کی طرح ہیئت کے تار سے ملتے ہی برسرعمل آ گیا ہے اور بلب کے روشن ہونے کی طرح فن پارے کے وجود میں آنے کا سبب بن رہا ہے۔

    یہ مثال بھی جیسا کہ ظاہر ہے ناقص ہے۔ کیوں کہ فن پارہ اگر بلب ہے اور ہیئت تار اور تخلیقی عمل بجلی کا کرنٹ تو پھر داخلی تجربہ کیا ہے؟ ذہنی الجھنوں کو دور کرنے کی کئی کوششوں کے باوجود میں ابھی تک اس کے تعین میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ صورت حال اگر یہ ہوتی ہے کہ شاعر خود لازمی طور پر اپنے داخلی تجربے سے واقف ہوتا تو ہم اسے آسانی سے ایک نام دے دیتے مگر ہم اوپر کہہ چکے ہیں کہ شاعر کا خود لازمی طور پر اپنے تجربے سے واقف ہونا لازمی نہیں ہے۔ بہت سے تجربات نیم شعوری اور غیرشعوری بھی ہوتے ہیں اور جو چیز شعور سے خارج ہے اس کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ ’’ہے‘‘ ایک طرح کی زبردستی سے کام لینا ہے۔

    فن پارے میں جو تجربات ظاہر ہوئے ہیں وہ ’’ہے‘‘ کہلانے کے اس وقت مستحق ہیں جب وہ فن پارے میں ظاہر ہوئے ہیں۔ فن پارے میں صورت پذیر ہونے سے پہلے شعوری علم کے بغیر ان کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی حکم لگانا اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہے۔ بہرحال اس دقت کو دور کرنے کے لیے میں ایک علامت کا سہارا لیتا ہوں۔ شاعر کا داخلی تجربہ ’’الف‘‘ جو فن پارے کے ظہور میں آنے سے پہلے نامعلوم ہے، اس کے مقابلے پرہم ہیئت کو ’’ب‘‘ کی علامت سے ظاہر کرتے ہیں۔ اب داخلی تجربے اورہیئت کے ملنے سے جو چیز وجود میں آتی ہے وہ نہیں ہے بلکہ ایک تیسری وحدت، جس میں ’’الف‘‘ بھی موجود ہے اور ب بھی، لیکن جو بجائے خود ان دونوں سے الگ ایک ایسی اکائی کی حیثیت رکھتی ہے جس سے نہ الف کو الگ کیا جا سکتا ہے نہ ب کو۔ وہ دونوں کا مجموعہ بھی ہے اور ان سے کچھ زیادہ بھی ہے۔

    دراصل وہ ایک تیسری ہی اکائی ہے جسے ہم نہ الف سے ظاہر کر سکتے ہیں نہ ب سے۔ نہ دونوں کے مجموعے ب +الف سے بلکہ اس کے لیے ہمیں ایک تیسری علامت استعمال کرنی پڑےگی، یعنی ج۔ اب اس مساوات میں الف اورب معلوم ہے جب کہ ج نامعلوم ہے اور الف اور ب کے اتحاد کے ذریعے ایک تیسری وحدت ج میں ظاہر ہوا ہے۔ دوسرے لفظوں میں تخلیقی عمل کے بروئےکار آنے پر ہم صرف ایک چیز سے واقف ہوتے ہیں، یعنی ہیئت سے اور تخلیقی عمل کے مکمل ہونے کے بعد ایک اور چیز سے واقف ہو جاتے ہیں یعنی فن پارے سے۔ داخلی تجربہ ہمارے لیے اتناہی وجود رکھتا ہے جتنا وہ فن پارے میں ظاہر ہوا ہے۔ یہ مطلب ہے میرے اس بیان کا کہ داخلی تجربہ ہیئت ہی کے ذریعے وجود میں آتا ہے۔ اب آئیے مسئلے کے ایک اور پہلو پر گفتگو کریں۔

    ایک فن پارے میں جو چیز فن پارے کی حقیقت یا ماہیت کو متعین کرتی ہے، وہ اس کا مواد ہے یاہیئت؟ یعنی مثال کے طور پر ہم غزل کو اس کے مواد کی بنا پر غزل کہتے ہیں یاہیئت کی بنا پر۔ اقبال کی غزل کا مواد میر کی غزل سے بہت مختلف ہے۔ لیکن مواد کے اس اختلاف کے باوجود ہم دونوں کو غزل کہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اقبال اور میر کے مواد کے اختلاف کے باوجود ان دونوں میں جو چیز مشترک ہے وہ غزل کی ہیئت ہے۔ اس لیے غزل کی ماہیت یعنی وہ شئے جو غزل کو غزل بناتی ہے، غزل کی ہیئت ہے، غزل کا مواد نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس بات سے ابھی بہت کم لوگوں کو اختلاف ہوگا لیکن ان مقدمات سے جو نتیجہ نکلتا ہے وہ شاید بہت سے لوگوں کو قابل قبول نہ معلوم ہو۔

    ہم نے ابھی کہا تھا کہ فنکار کا داخلی تجربہ ہیئت کے ذریعے وجود میں آتا ہے جواس داخلی تجربے کے برعکس خارجی یا معروضی طور پر موجود ہوتی ہے۔ یہ تو ہوئی ایک بات۔ دوسری بات جو ہم نے کہی، وہ یہ تھی کہ فن پارے کی ماہیت کا تعین اس کے مواد سے نہیں اس کی ہیئت سے ہوتا ہے۔ ان دونوں باتوں کو ملاکر جو کم سے کم اختلافی بات کہی جا سکتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہیئت مواد پر مقدم ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہیئت ہی وہ شئے ہے جو مواد کو فن پارے کی شکل میں وجود عطا کرتی ہے۔ اس لیے میں کبھی کبھی کہا کرتا ہوں کہ ایک فن پارے میں ہیئت کی حیثیت فاعلی اصول (Active Principle) کی ہوتی ہے۔ جب کہ مواد انفعالی اصول (Passive Principle) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اب معلوم نہیں کہ اس بات کا ہماری مابعدالطبیعیات سے بھی کوئی تعلق ہے یانہیں؟ بہرحال جب ہم مختلف فن پاروں کو ان کی ہیئت کی بنا پر شناخت کرتے ہیں، مثلاً غزل، مثنوی، رباعی وغیرہ تو اسی حقیقت کا اظہار کرتے ہیں کہ ہر فن پارے کی ماہیت اس کی ہیئت سے متعین ہوتی ہے۔

    اب اس مختصرسی بحث سے دو اہم نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ (۱) فنکار کا مواد یعنی اس کا داخلی تجربہ اس کی شخصی اور انفرادی چیز ہوتا ہے، جبکہ ہیئت غیرشخصی اور معروضی چیز ہے۔ فن کار کے داخلی تجربہ سے بالکل آزاد طور پر وہ خارج میں وجود رکھتی ہے اور خود اپنے قوانین کے تابع ہے، مثلاً رباعی میں ہم اس کے مواد (خیال، جذبہ، احساس وغیرہ) سے قطع نظریہ دیکھتے ہیں کہ چاروں مصرعے رباعی کے اوزان میں باہم دگر مربوط ہیں یا نہیں اور چوتھا مصرع کلائمکس بناتا ہے یا نہیں؟ اور اسی طرح غزل میں قافیے اور ردیف کی بیٹھک اور الفاظ کا دروبست وغیرہ۔

    کوئی فنکار جب کسی ہیئت کو اپنے داخلی تجربے کی اندرونی اور بیرونی تشکیل کے لیے استعمال کرتا ہے تو وہ اس ہیئت کے قوانین کی مطابقت کے ذریعے ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہوتا ہے۔ اوریہ مقصد صرف ابلاغ نہیں ہے۔ بہت سے فن پارے، جن کا ابلاغ مکمل ہے، ناکام فن پارے ہوسکتے ہیں اور اس کے برعکس ایسے فن پارے، جن کا ابلاغ واضح نہیں ہے، بہترین فن پارے ہو سکتے ہیں۔ شاید ہم یہ کہیں کہ ابلاغ کے ساتھ جمالیاتی استہزاز پیدا کرنا ہی فن کے مقصد کا تعین کرنا ہے۔ یعنی ابلاغ جمالیاتی لطف اندوزی کے ساتھ۔

    اب سوال یہ ہے کہ جمالیاتی لطف اندوزی کس چیز سے پیدا ہوتی ہے۔ بحث میرے مقصد سے بہت دور جا پڑےگی، اس لیے مختصر طور پر صرف اتناعرض کرتا ہوں کہ فن کے وہ اصول جن سے بغاوت کا چرچا آج کل اتنا عام ہے کہ اسکول کے لڑکے بھی ارسطو کے خلاف تقریر کرتے ہیں، اسی جمالیاتی لطف اندوزی کے اصول ہیں جو صدیوں کے اس تجربے پرمبنی ہیں کہ انسانی ذہن کو ایک فن پارے میں کس چیز سے لطف محسوس ہوتا ہے۔ میں ان کی تجرباتی اہمیت کو واضح طور پر ظاہر کرنا چاہتا ہوں تاکہ اس حقیقت کو بیان کر سکوں کہ فن کے اصول کوئی ایسے جابرانہ قوانین نہیں ہیں جو خارج سے فن پارے پر عائد کر دیے گئے ہوں بلکہ خود فن پارے کی جمالیاتی ماہیت کا ایک ناگزیر اقتضا ہیں۔

    جب کوئی فنکار کسی فنی اصول سے روگردانی اختیار کرتا ہے تو وہ یہ خطرہ مول لیتا ہے کہ شاید وہ اپنے مقصدمیں کامیاب نہ ہو۔ یعنی یا تو وہ جمالیاتی استہزاز پیدا کرنے میں ناکام ہو جائے یا ابلاغ اتنا الجھ جائے کہ جمالیاتی استہزاز کا سوال ہی پیدا نہ ہو۔ بڑے فنکار اگر کسی اصول کو توڑتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے مقصد سے روگرداں ہو گئے ہیں بلکہ یہ ہوتا ہے کہ انہوں نے جمالیاتی استہزاز کا کوئی نیا اصول دریافت کر لیا ہے۔ ان معنوں میں مسلمہ فنی اصولوں سے انحراف کے معنی ایک بہت بڑی ذمہ دار ی کو قبول کرنے کے ہیں۔ یعنی کسی خود دریافت کردہ طریقہ کارکے ذریعے جمالیاتی استہزاز پیدا کرنا۔ اس کے برعکس فنی اصولوں سے ایسا انحراف جو جمالیاتی استہزاز پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہو، صرف ایک ایسی بغاوت ہے جو فن کو اس کے اولین مقصد سے محروم کر دیتی ہے۔

    بہرحال جمالیاتی اصولوں کے مطابق فن پارے کے وجود میں آنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایک شخصی اور انفرادی تجربہ اب شخصی اور انفرای شئے نہیں رہا۔ اب وہ ایک ایسی معروضی چیز ہے جس میں دوسرے بھی شریک ہیں اور یہ شرکت جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں، ابلاغ کی شرکت بھی ہے اور جمالیاتی لطف اندوزی کی شرکت بھی۔ چنانچہ ہیئت ایک ایسی شئے ہے جس کے ذریعے فنکار اپنے داخلی تجربے میں لطف اندوزی کی شرط کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتا ہے۔ اس لیے ہیئت ہمیشہ اجتماعی ملکیت ہوتی ہے اور ایک ایسے پل کی حیثیت رکھتی ہے جس کے بغیر نہ فنکار کا داخلی تجربہ دوسروں تک پہنچ سکتا ہے نہ دوسرے جمالیاتی طور پراس سے محظوظ ہو سکتے ہیں۔ یعنی فن پارہ وجود میں نہیں آ سکتا۔

    اب ہر معاشرے میں اپنی اپنی فنی ہیئتیں ہوتی ہیں جن کے ذرریعہ اس معاشرے کے فنکار اپنا رشتہ اس معاشرے سے قائم کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں جس طرح کسی معاشرے کے لوگوں سے بات کرنے کے لیے اس کی زبان سیکھنی پڑتی ہے، اسی طرح فنی اظہار میں اپنا داخلی تجربہ جمالیاتی لطف کے ساتھ دوسروں تک پہنچانے کے لیے اس معاشرے کی فنی ہیئتوں کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اس بات کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ کسی معاشرے میں فن کی ضرورت صرف اس کے فنکاروں کا مسئلہ نہیں ہوتی۔ یعنی صرف ایسا نہیں ہوتا کہ فنکار اپنا رشتہ معاشرے سے قائم کرنے کے لیے فن کا استعمال کرے جب کہ معاشرے کو اس کی ضرورت نہ ہو۔ معاشرے کو بھی فن کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی معاشرہ فنکاروں کے ذریعے وہ چیزیں حاصل کرتا ہے جو وہ صرف فن کے ذریعے حاصل کر سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کسی معاشرے کی فنی ہیئتوں کا استعمال جہاں اس کے فن کاروں کی ایک ضروت ہے، وہاں اس معاشرے کی باطنی زندگی کا بھی یہی تقاضا ہے کہ فنکار ان ہیئتوں کو استعمال کریں۔ یعنی ان کے ذریعے معاشرے سے تعلق پیدا کریں اور معاشرہ بھی ان کے ذریعے فنکاروں سے تعلق پیدا کرے۔ اس طرح ہر معاشرے میں اس کی فنی ہیئتیں دورخ رکھتی ہیں۔ ایک فنکار کی طرف دوسرا معاشرے کی طرف۔ فنکار فنی ہیئتوں کے ذریعے معاشرے سے تعلق پیدا کرتا ہے اور معاشرہ فنکاروں سے۔

    (۲) دوسری اہم بات جو اس بحث میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے، یہ ہے کہ ہر معاشرے میں اس کی فنی ہیئتوں کی ایک تاریخ ہوتی ہے، جن میں اس معاشرے کے فنکاروں کے تجربات ایک منجمد صورت میں معروضی طور پر موجود ہوتے ہیں۔ یہ تاریخ فنی تجربات کے مرکزی اور ذیلی دھاروں کا تعین کرتی ہے اور فنکاروں کی داخلی زندگی کے ساتھ اس معاشرے کی باطنی زندگی کو منکشف کرتی ہے۔ اس لیے جب کوئی فنکار کسی معاشرے کی مخصوص ہیئت کو استعمال کرتا ہے تو اس ہیئت کی پوری تاریخ اس کے پیچھے ہوتی ہے۔ جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس ہیئت کا نیا فن پارہ اس کی تاریخ کے تمام فن پاروں کے نظام کا ایک حصہ ہوتا ہے، جو ان فن پاروں سے متاثر بھی ہوتا ہے اور انہیں متاثر بھی کرتا ہے۔

    دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک مخصوص ہیئت میں کسی نئے فن پارے کے وجود میں آنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس ہیئت کی تاریخ اس کے پیچھے بھی برسرعمل ہوتی ہے اور اس کے ذریعے آگے بھی بڑھتی ہے۔ یوں ہیئت کی تاریخ کے ذریعے معاشرہ اپنی باطنی زندگی کا سفر جاری رکھتا ہے اور اپنے ماضی، حال اور مستقبل کو زندہ طور پر ایک تسلسل میں قائم رکھتا ہے۔ اب اگر کسی وقت واحد میں کسی معاشرے کی مخصوص ہیئتیں مردہ ہو جائیں یا استعمال میں نہ لائی جائیں تو اس کا مطلب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا کہ اس معاشرے کاباطنی سفر منقطع ہو گیا ہے۔ ماضی حال سے الگ اور مستقبل نا معلوم! اب غالباً ہماری بحث ایک ایسے مقام پر پہنچ گئی ہے جہاں ہم نئی شاعری میں نئی ہیئتوں کے استعمال اور اس کے بارے میں معاشرے کے رویے کو واضح طور پر سمجھ سکتے ہیں۔

    کوئی فنکار جب کسی معاشرے کی مخصوص ہیئتوں کو چھوڑکر نئی ہیئت اختیار کرتا ہے تو اس کامطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے داخلی تجربے کو خارجی شکل دینے کا عمل تو کر رہا ہے لیکن ساتھ ہی اپنے تجربے کو معاشرے کے دوسرے فنی تجربات سے الگ کرنا بھی چاہتا ہے۔ یوں وہ صرف نئی ہیئت کے استعمال ہی سے اپنے آپ کو معاشرے کی فنی تاریخ سے کاٹ کر ایک ایسے جزیرے کی شکل دے لیتا ہے جو معاشرے کے درمیان ہونے کے باوجود اس سے الگ تھلگ واقع ہو۔ ہم کہہ چکے ہیں کہ معاشر ے کے فنی تجربات اس کی باطنی زندگی اور جمالیاتی اظہار کے تسلسل کے سوا اور کچھ نہیں ہیں۔ اس لیے نئی ہیئت کے استعمال کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ نیا فنکار ایک طرف اپنے آپ کو معاشرے کی باطنی تاریخ سے الگ کرنا چاہتا ہے اور دوسری طرف وہ فن پارے کی معروضی قدروقیمت یعنی ابلاغ اور جمالیاتی لطف آفرینی کے تقاضوں سے روگردانی کر رہا ہے۔

    اب چوں کہ معاشرے کی زندگی کا انحصار ہی اس کی تاریخ کے تسلسل پر ہے، اس لیے معاشرہ لاشعور ی طور پر اس خطرے کو محسوس کر لیتا ہے اور ہر نئی ہیئت کے آغاز پر ایک ایسی بے چینی اور بے اطمینانی کا اظہار کرتا ہے جس کا تجربہ ہم ۱۹۳۶ء کی تحریک سے اب تک کرتے آئے ہیں۔ نئی ہیئت کے استعمال کے معنی مستقبل میں ایک ایسی جست لگانے کے ہیں جس کا ماضی کے تجربات سے کوئی تعلق نہ ہو۔ یہ جست ایک طرف فنکار کو معاشرے سے الگ کرکے اس کے فن کو معاشرتی نقطہ نظر سے بے معنی بناتی ہے تو دوسری طرف معاشرے کو فنکار سے محروم کرکے اسے اس کی باطنی زندگی کے جمالیاتی اظہار سے روکتی ہے۔ نامناسب نہ ہوگا اگر میں یہاں اختصار کے ساتھ نئے شاعروں کے اس موقف کا تجزیہ کردوں جو وہ اپنے تجربات کے دفاع میں اختیار کرتے ہیں، مثلاً جب کوئی نیا فنکار ابلاغ کی ضرورت سے انکار کرتا ہے تو اس کے کیا معنی ہوتے ہیں۔

    ظاہرہے وہ صرف اتنی بات کہتا ہے کہ اس کا فن دوسروں کے لیے نہیں ہے۔ اس کے ساتھ جب وہ فنی اصولوں سے انحراف کی روش اختیار کرتا ہے تو اس کا رویہ صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ جمالیاتی لطف آفرینی کی شرط کو پورا نہیں کرنا چاہتا۔ یعنی دوسرے لفظوں میں وہ پھر یہی کہتا ہے کہ اسے اس بات کی کوئی پروا نہیں ہے کہ دوسرے اس کے فن پارے سے لطف اندوز ہوتے ہیں یا نہیں۔ اب اس سے پہلے ہم کہہ چکے ہیں کہ فن پارے کے معروضی طور پر وجود میں آنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اب دوسرے بھی اس میں شریک ہیں۔

    نئے فنکار اپنے فن میں دوسروں کی شرکت سے انکار کرکے دراصل فن کی لازمی شرط ہی کو مسترد کرتے ہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ نئے شاعروں کے بعض انتہاپسندانہ رویوں کے باوجود کوئی فنکار بسلامتی ہوش وحواس ایسی شاعری کی تخلیق نہیں کرنا چاہتا جس کا دوسروں سے کوئی تعلق نہ ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو افتخار جالب اپنی نظموں کو چھاپنے کی زحمت گوارا نہ کرتے اور احمد ہمیش مشاعروں میں اپنی نظمیں سنانے نہ جاتے۔ ضدکی ہے اوربات مگرخوبری نہیں۔ کوشش ان بے چاروں کی بھی یہی ہے کہ ان کی تخلیقات دوسروں تک پہنچیں اور وہ ان سے لطف اندوز ہو سکیں۔ اب سوال یہ ہے کہ نئے شاعروں کے انگور کھٹے ہو جانے کی وجہ کیا ہے؟ جواب وہی ہے جوہم نے اس مضمون کے آغاز میں عرض کیا تھا۔ اس کا ایک بڑا سبب نئی ہیئت کا استعمال ہے جس کا ہمارے معاشرے کے جمالیاتی اظہار سے تعلق ہے، نہ اس کی باطنی زندگی کے تسلسل سے۔

    معاف کیجئے، بحث لمبی ہوتی جا رہی ہے اور بہت سی کہنے کی باتیں ابھی کہی نہیں گئیں۔ سوال یہ ہے کہ ان اعتراضات کے باوجود جو میں نے اپنے مضامین میں کئی رخ سے کیے ہیں، نئی ہیئت کا کوئی جواز ہے بھی یا نہیں؟ جواز میرے نزدیک صرف ایک ہے کہ معاشرے میں ایک قلیل طبقہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جو معاشرے کی تاریخ سے الگ کچھ ایسے اثرات کا پید ا کردہ ہے جو ہمارے یہاں باہر سے آئے ہیں اور ہمارے تاریخی تسلسل سے الگ، اس سے ایک بغاوت کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔ یہ طبقہ اپنے داخلی تجربوں کے اظہار کے لیے ایک ایسا فن پیدا کرنا چاہتا ہے جو معاشرے سے اس کی اجنبیت کی پیداوار بھی ہے اور اس کا سبب بھی۔ نیا فن اسی طبقے کا فن ہے اور اسی وجہ سے معاشرے میں نامقبول ہے۔

    دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر میری اس تمام گفتگو کا حاصل نئی شاعری کی مخالفت ہے۔ (حالانکہ میں ایسا نہیں سمجھتا۔ کیوں کہ کسی چیز کو سمجھنے کی کوشش کرنا اس سے بنیادی ہم دردی کی بنا پر ہوگا نہ کہ اس کی مخالفت کی وجہ سے) تو کیا میں نئی شاعری کی مخالفت کرکے معاشرے کی تبدیلی کی مخالفت کرنا چاہتا ہوں؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ مجھ پر یہ الزام بار بار لگایا گیا ہے کہ میں معاشرے میں ہر تبدیلی کا مخالف ہوں اور خدا جانے معاشرے کو پیچھے لوٹاکر کہاں لے جانا چاہتا ہوں۔ تغیر زندگی کی ایک ایسی حقیقت ہے جس سے میں اگر اندھا بھی ہوتا تو انکار نہ کرتا۔ سوال تغیر کا نہیں، تغیر کی نوعیت کا ہے۔ زندگی میں ایک تغیر اس کے تسلسل میں واقع ہوتا ہے۔ میر کی غزل حافظ کی غزل نہیں ہے۔ غالب کی غزل میر کی غزل نہیں ہے اور اقبال کی غزل غالب کی غزل نہیں ہے۔ حافظ سے اقبال تک یہ تبدیلی ایک تسلسل میں ہے۔

    جب میں نے یہ کہا کہ ایک مخصوص ہیئت میں کسی نئے فن پارے کے وجود میں آنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس ہیئت کی تاریخ اس کے پیچھے بھی برسر عمل ہے اور اس کے ذریعے آگے بھی بڑھتی ہے تو اس کا مقصد اسی مسلسل تبدیلی کا اثبات کرنا تھا۔ اس کے برعکس نئی ہیئت ایک ایسی تبدیلی ہے جو اس تسلسل سے منقطع ہوکر عمل میں آئی ہے۔

    اب غالباً میرے لیے یہ کہنا آسان ہو گیا ہے کہ اول تومیں کسی تبدیلی کا مخالف نہیں ہوں کیوں کہ میرے نزدیک ہر تبدیلی ایک بڑے کائناتی نظام یا منصوبے کا حصہ ہے جسے میں تقدیر الہی کہتا ہوں۔ لیکن اگر کسی تبدیلی پر میں نے نکتہ چینی بھی کی ہے تو وہ تبدیلی ہے جو ماضی سے ہمارے مکمل انقطاع کو ظاہر کرتی ہے۔ کیونکہ ایسی تبدیلی کے ایک ہی معنی ہیں۔۔۔ تاریخ سے انکار! جو میرے نزدیک تہذیب انسانی بلکہ خود حقیقت انسانی سے روگردانی کا مظہر ہے۔

    (۶)
    یونانی، فنون لطیفہ اور دوسرے فنون کو ایک دوسرے سے الگ نہیں سمجھتے تھے بلکہ ہر فن کو ’’صنعت‘‘ کے ایک ہی تصور کے نیچے رکھتے تھے۔ اس لحاظ سے شاعر اور بڑھئی دونوں فنکار تھے اور دونوں میں اس کے سوا اور کوئی فرق نہیں تھا کہ بڑھئی لکڑی سے اپنی چیزیں بناتا تھا، جبکہ شاعر کے فن پارے لفظوں سے بنتے تھے اور لوہار لوہے سے اپنی چیزیں بناتا تھا۔ جبکہ مصور، رنگوں اور لکیروں سے کام لیتے تھے۔ چنانچہ ’’آرٹ‘‘ کے معنی ہی ’’بنانے‘‘ کے تھے اور آرٹ کے کسی نمونے کو صرف ایک ہی معیار پر جانچا جاتا تھا، یعنی صنعت کے معیار پر۔ کوئی فن پارہ اچھا ہے، اس کے صرف یہ معنی ہوتے تھے کہ وہ اچھا بنایا گیا ہے، اچھی طرح بنایا گیا ہے۔

    اس کے برعکس برافن پارہ وہ سمجھا جاتا تھا جو صنعت کے لحاظ سے برا ہو۔ اس میں اخلاقی یا مذہبی یا ’’انسانی‘‘ معیارات شامل نہیں ہوتے تھے۔ ان معنوں میں فن پارہ صرف صنعت کے قوانین کے تابع ہوتا تھا اور انہی کی بنیاد پراچھا یا برا قرار دیا جاتا تھا نہ کہ اخلاقی یا دوسرے اسباب کی بنا پر، مثلاً ایک تلوار فن کا اچھا نمونہ ہے، اگر وہ اچھی تلوار ہے۔ اچھی تلوار وہ ہے جس میں تلوار کا جوہر موجود ہے، یعنی کاٹنے کی صلاحیت۔ فنکار کا مقصد ایک ایسی تلوار بنانا ہے جو کاٹنے کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہو۔ یہی اس کے فن کی تکمیل ہے۔ یہ تلوار دوست کو کاٹتی ہے یا دشمن کو، اچھے کو کاٹتی ہے یا برے آدمی کو، یہ غیرمتعلق سوال ہے۔ اس سے تلوار کی اپنی خوبی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ بری تلوار صرف وہ ہوگی جس میں کاٹنے کی صلاحیت نہ ہو۔ یعنی جو تلوار سازی کے فن کا برا نمونہ ہو۔

    اس لحاظ سے یونانیوں کے نزدیک فن نہ اخلاقی ہوتا تھا نہ خلاف اخلاق۔ وہ ’’غیراخلاقی‘‘ ہوتا تھا، یعنی اخلاق کے معیار پر جانچا نہیں جا سکتا تھا۔ فن کے ان تصورات میں آج کل بہت تبدیلیاں ہو گئی ہیں، لیکن ذاتی طور پر میں ان تصورات کو درست سمجھتا ہوں۔ اس لیے فن میرے نزدیک صنعت کے قوانین کے تابع ہے اور اسے ہم صرف فن کے معیارات ہی کے ذریعے جانچ سکتے ہیں کسی اور طرح نہیں۔

    لیکن اس کا یہ مطلب کسی طرح نہیں ہے کہ میں اخلاق اور فن کے درمیان کسی تعلق کا قائل نہیں ہوں، یا اس بات کا حامی ہوں کہ ایک معاشرے میں کسی بھی قسم کا فن پروان چڑھ سکتا ہے۔ فن معاشرے پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اس لیے معاشرہ فن کا خاموش تماشائی نہیں رہ سکتا اور نہ اپنے فنکاروں کواس کی اجازت دے سکتا ہے کہ وہ جس قسم کی چیزیں چاہیں بنائیں۔ اس کے برعکس میں فن اور معاشرے کے گہرے تعلق کا قائل ہوں اور فن کے اخلاقی یا مذہبی یا انسانی عناصر کو کسی طرح بھی نظرانداز کرنے کے حق میں نہیں ہوں، مثلاً میں نے نئی شاعری پر جو یہ اعتراض کیا ہے کہ وہ ہمارے معاشرے کے تاریخی، تہذیبی اور انسانی تسلسل کے انقطاع سے پیدا ہوئی ہے۔ یہ کوئی فنی اعتراض نہیں ہے بلکہ خالص معاشرتی یا وسیع تر معنوں میں اخلاقی اعتراض ہے۔ ہر معاشرے کو فن پر اس قسم کے معیارات عائد کرنے پڑتے ہیں، تو کیا میری پہلی اور دوسری بات میں کوئی تضاد ہے؟ میرا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے۔

    یہ بات کہ ایک معاشرہ کس قسم کے فن کو پروان چڑھانا چاہتا ہے، اس کا فیصلہ معاشرے کو کرنا چاہئے۔ لیکن ایک بار جب یہ فیصلہ ہو جائے تو پھر فن کو فن کے معیارات کے سوا اور کسی طرح نہیں جانچا جا سکتا، مثلاً پاکستان ایٹم بم بنائے یا نہ بنائے اس کا فیصلہ تو ہمارے معاشرے کو کرنا چاہئے۔ لیکن ایٹم بم کو صر ف ایٹم بم کی صنعت کے معیار سے جانچا جائےگا۔ اب آئیے ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں کہ ان باتوں کا ہماری بحث کے موضوع سے کیا تعلق ہے؟

    میں نے کہا تھا کہ نئی شاعری کی نامقبولیت ایک معاشرتی امر واقعہ ہے، جس کا نئی شاعری کی جمالیاتی یااخلاقی قدروقیمت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ معاشرتی نامقبولیت کے معنی یہ ہیں کہ معاشرہ کسی وجہ سے نئی شاعری کے پیدا ہونے یا پروان چڑھنے کے خلاف ہے۔ یعنی معاشرہ نہیں چاہتا کہ ہمارے یہاں اس قسم کی شاعر ی کی جائے۔ اس کے جو بھی نفسیاتی، تہذیبی یا انسانی اسباب ہو سکتے ہیں، ان میں سے چند پر میں نے اختصار کے ساتھ گفتگو کی ہے۔ میرے خیال میں معاشرے کو اس فیصلے کا حق حاصل ہے۔ جبکہ دوسری طرف نئی شاعری کی موجودگی میں، میں اپنے اس موقف پر قائم ہوں کہ اس کی جمالیاتی قدروقیمت کا فیصلہ اس کے فنی معیارات سے ہوگا نہ کہ اس کے بارے میں معاشرے کے رویے سے۔

    اب خالص فنی نقطہ نظر سے میں نے نئی شاعری کے بارے میں دو باتیں کہی ہیں۔ (۱) نئی شاعری، شاعر ی کی تاریخ میں پہلی بار ایک ایسے فن کا نمونہ پیش کرتی ہے جس کے پیچھے سے انسانی عناصر بالکل غائب ہو گئے ہیں یا کم ہو گئے ہیں یا صاف طور پر نظر نہیں آتے۔ (۲) نئی شاعری کی شعریات ہماری پرانی شعریات سے بالکل مختلف ہے۔ یہ دونوں باتیں دور رس نتائج کی حامل ہیں۔ اس لیے ان کی جو وضاحت میں اب تک کر چکا ہوں، اسے آگے بڑھاتے ہوئے کچھ اور باتیں کہنے کی کوشش کرتا ہوں۔

    میرا پہلا مفروضہ یہ ہے کہ عوام فن سے اس طرح محظوظ نہیں ہوتے جس طرح خواص فن سے محظوظ ہوتے ہیں۔ فن سے لطف اندوزی کی جو صورت عوام میں موجود ہوتی ہے وہ بیشتر اس کے انسانی عناصر کے تابع ہوتی ہے۔ عوام شاعری کے پیچھے شاعر کو دیکھتے ہیں او رفن سے ان کی لطف اندوزی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ شاعر کے خیالات اور جذبات میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس میں صدیوں کی تربیت کے نتیجے کے طور پر اگر فن کا احساس بھی پیدا ہو جائے تو وہ اس مواد پر اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے برعکس خواص فن پارے کے مواد سے زیادہ اس کی فنی خوبیوں سے متاثر ہوتے ہیں اور صرف وہی جانتے ہیں کہ فن پارہ بطور ایک فن پارے کے کیا حیثیت رکھتا ہے۔ پیارے قارئین آپ کو یاد ہوگا کہ میں نے اس بحث میں یہ بھی کہا تھا کہ فن پارے میں انسانی عناصر سے زیادہ دلچسپی فن پارے کی حقیقی قدروقیمت سے لطف اندوزی کا راستہ روکتی ہے۔ چنانچہ عوام کبھی خالص فن سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے۔

    نئی شاعری انسانی عناصر کو غائب کرکے یا کم کرکے فن کو زیادہ سے زیادہ خالص بنانا چاہتی ہے، اس لیے یہ اپنی ہیئت کے اعتبار سے خواص کی شاعری ہے۔ میں نے کہا تھا کہ نئی شاعری اپنی موجودگی ہی سے معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیتی ہے۔ ایک وہ حصہ ہے جو نئی شاعری کو سمجھ کر اس سے لطف اندوز ہو سکتا ہے اور دوسرا حصہ جو نہ اسے سمجھ سکتا ہے اور نہ لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ عوام کو فن کی بالادستی پسند نہیں۔ نئی شاعری میں نہ پرانی شاعری میں۔ خاص طور پر جمہوری معاشروں میں تو عوام شعوری یا لاشعوری طور پر اسے اپنی توہین کے مترادف سمجھتے ہیں۔ اب یہاں میں ایک ایسی بات کہنا چاہتا ہوں جو کئی اعتبار سے نئی شاعری کے حق میں جاتی ہے۔

    یہ شاعری اگر اپنے آ پ کو قائم رکھنا چاہتی ہے تو لازمی طور پر اپنی فنی حیثیت برقرار رکھ کر ہی قائم رہ سکتی ہے لیکن کم وبیش سوب رس سے شاعری کا فن زوال پذیر ہے اور ہم ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جو شاعری کو بحیثیت ایک فن کے بھول چکا ہے۔ اس کا آغاز اسی وقت ہو گیا تھا جب پرانی شعریات کو رد کرکے کچھ لوگوں نے یہ کہنا شروع کیا تھا کہ شاعری میں اصل اہمیت جذبات کی ہوتی ہے۔ چنانچہ اس خیال کی پہلی قسط استعارے اور تشبیہات کے خلاف ردعمل کی صورت میں پیش کی گئی اور شاعری میں ’’صنعت‘‘ کے خلاف ایک واضح رویے کا اظہار کیا گیا۔ مولانا حالی اس میں پیش پیش تھے،

    اے شعر ’’دل فریب‘‘ نہ ہو تو، تو غم نہیں
    پر تجھ پہ حیف ہے جو نہ ہو دل گداز تو

    ’’صنعت‘‘ پہ ہو فریفتہ عالم اگر تمام
    یاں آئیو نہ ’’سادگی‘‘ سے اپنی باز تو

    ان اشعار میں ’’دل فریبی‘‘ اور ’’صنعت‘‘ پرانی شعریات کی قدریں ہیں جن کے مقابلے پر ’’دل گدازی اور سادگی‘‘ کے تصورات پیش کیے گئے ہیں۔ نثر میں حالی نے انہیں ’’سادگی، جوش اور اصلیت‘‘ قرار دیا ہے اور شعر کی بنیاد اس کی ’’تاثیر‘‘ پر رکھی ہے۔ جس کے معنی ہیں جذباتی اثر انگیزی۔ اب چونکہ اردو شاعری میں دل فریبی اور صنعت کا بہت زیادہ زور قصائد میں ظاہر ہوا تھا اور تشبیہات اور استعارات کی کثرت سب سے زیادہ اسی صنف میں پائی جاتی تھی، اس لیے سب سے پہلے مخالفت کا نزلہ قصیدوں پر گرا اور پھر اس کے بعد بے چاری لکھنوی شاعری پر۔ خیر، مولانا تو اپنی طبیعت کے اعتبار سے ’’ابالی کھچڑی‘‘ کے لیے زیادہ موزوں تھے۔ لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ مولانا محمد حسین آزاد تک جن کی نثرتشبیہات واستعارات سے بھری پڑی ہے، یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ شاعری اسے نہیں کہتے ہیں کہ استعاروں کے پروں پر فرفراڑتے چلے جاؤ۔

    بہرحال فن کی اقدار سے انحراف اور اس کے بجائے حالی کے اصولوں پر شاعری کی بنیاد رکھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ ’’جذبات‘‘ ہی کو شاعری سمجھنے لگے اور جذبات بھی ایک مخصوص قسم کے۔ یعنی وہ جذبات جنہیں لوگ آسانی سے پسند اور ہضم کر سکیں۔ مثال کے طور پر غم کے جذبات زیادہ مقبول ہوئے، جب کہ نشاطیہ جذبات کمتر درجے کی چیز سمجھے گئے اور شاعری سے بہت سے ایسے عناصر کو خارج کر دیا گیا جو شریف لوگوں کو قابل برداشت نہیں معلوم ہوئے، مثلاً وہ جذبات جوقصیدے یا ہجو وغیرہ میں ظاہر ہوتے تھے۔

    ایک مثال کے طور پر یہ دیکھئے کہ قصیدے پر یہ اعتراض کیا گیا کہ اس میں دوسروں کی بھٹئی کی جاتی ہے۔ پھر اس کے ساتھ یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا کہ تعریف کرنی ہے تو اپنی ہی کیوں نہ کی جائے۔ چنانچہ غالب کے بعض قصائد کو یہ کہہ کر سراہا گیا کہ اس میں بہادرشاہ کی بجائے غالب نے خود اپنی تعریف کی ہے۔ لیکن چند لوگوں کے جذبات اس سے بھی مختلف تھے۔ انہوں نے اپنی تعریف کو بھی جذبات کی پسندیدہ فہرست سے خارج کر دیا اور تعلی کو شعر کی قلم رو سے باہر کر دیا گیا۔ ہجو اس بنا پر معتوب ٹھہری کہ اس میں دوسروں کی برائی کی جاتی ہے اور اس لیے طنزومزاح اور اسی قسم کے دوسرے عناصر کو شاعری سے دیس نکالا مل گیا۔ مثنوی میں جنسی تجربات کا بیان اکثر مل جاتا تھا۔ وہ بھی پسندیدہ جذبات کی فہرست سے خارج ہوکر شاعری سے نکال کر باہر کیے گئے۔

    یوں رفتہ رفتہ ایک ایسی شاعری نے رواج پایا جس میں ایک طرف فنی عناصر کم ہوتے چلے گئے تو دوسری طرف پسندیدہ جذبات کے اظہار نے شاعری سے ان انسانی عناصر کو بھی الگ کر دیاجا جو ’’پورے آدمی‘‘ میں پائے جاتے ہیں۔ شاعری کی یہی وہ سوسالہ روایت تھی جس کے خلاف نئی شاعری نے بغاوت کی۔ اب جہاں تک نئی شاعری کی اس بغاوت کا تعلق ہے، میں نئی شاعری کے لیے سراپا تحسین ہوں۔ نئی شاعری نے جہاں ہمیں یہ یاد دلایا کہ شاعری بہرحال ایک فن ہے، وہاں دوبارہ ہمیں یہ بات بھی یاد دلائی کہ انسانی عناصر صرف پسندیدہ جذبات پر مبنی نہیں ہیں۔ ’’نئی نظم اور پورا آدمی‘‘ میں، میں نے کہا تھا کہ میراجی کی شاعری پرانی روایت سے رشتہ جوڑ لیتی ہے۔ اس کے یہی معنی تھے۔ یعنی ایک طرف شاعری کے فن کا احیا اور دوسری طرف ’’پورے آدمی‘‘ کی ازسر نو دریافت کا عمل۔

    بہرحال سو برس میں شاعری جس طرف بڑھی تھی، چاہے وہ نظم کی شاعری ہو یا غزل کی شاعری، رومانی شاعری ہو یا ترقی پسند شاعری، اس میں انسانی عناصر فنی عناصر پرغلبہ پاتے چلے گئے تھے۔ یہاں تک کہ ایسی شاعری کے نمونے بھی پیدا ہو گئے تھے جن میں صرف انسانی عناصر باقی رہ گئے تھے۔ باقی فنی عناصر نہ ہونے کے برابر تھے اور انسانی عناصر بھی ایک مخصوص قسم کے۔ اس کے مقابلے میں نئی شاعری، فنی شاعری کی بازیافت کے ایک نئے عمل سے پیدا ہوئی اور یہ نئی شاعری میں انسانی عناصر کے غائب ہو جانے یا کم ہو جانے یا واضح طور پر نظر نہ آنے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ یہ شاعری ’’انسانی عناصر‘‘ کے ’’فنی عناصر‘‘ پرغلبے کے خلاف ردعمل کا اظہار کر رہی ہے۔

    اب رہ گیا دوسرا سوال شعریات کا! پرانی شعریات سے نئے لوگوں کی بغاوت کو ہم اختصار کے ساتھ بیان کر چکے ہیں۔ یہ صنعت کے خلاف ’’جذبات‘‘ کی بالادستی میں ظاہرہوئی تھی۔ نئی شاعری نے نئی صنعت کا آغاز کیا۔ اس اعتبار سے نئی شاعری کا یہ اقدام، فن شاعری کے حق میں ایک نیک فال تھا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ نئی صنعت جن اصولوں سے مستعار لی گئی تھی، ان کی ہماری شاعری میں کوئی بنیاد نہیں تھی۔ یا اگر کوئی بنیاد بنتی تھی تو اس کو واضح نہیں کیا گیا۔ مثلاً نئی شاعری اگر صرف جذبات کی بنیاد پر کی جانے والی شاعری کے برعکس علامات کا استعمال کرنا چاہتی ہے تو یہ بات وضاحت سے ظاہرنہیں کی گئی کہ وہ پرانی علامات سے استفادہ کرنے سے کیوں گریز کرتی ہے۔ شاید اس کے جواب میں یہ بات کہی جائے کہ پرانی علامات نئی شاعری کے لیے موزوں نہیں ہیں اور یہی بات پرانی شعریات کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ پرانی شعریات نئی شاعری کے لیے کیوں موزو ں نہیں ہے؟

    دوسرا سوال یہ ہے کہ شعریات کا مقصد اگر فنی یا جمالیاتی استہزاز پیدا کرنا ہے اور پرانی شعریات صدیوں تک اس مقصد کو پورا کر چکی ہے تو اب کیوں نہیں کر سکتی؟ اور تیسرا سوال یہ ہے کہ شاعری یا کسی بھی فن کا فن ہونا ضروری ہے یا نیا یا پرانا ہونا؟ یہ سوالات اٹھاکر میں نئے شاعروں اور ان کے حامیوں سے کسی مطلوبہ جواب کی توقع نہیں رکھتا۔ لیکن یہ بات سوچنے کی ہے کہ نئے شاعروں نے ان سوالات پرغور کیوں نہیں کیا بلکہ غور کرنا تو دور کی بات ہے، یہ سوالات ان کے ذہن میں پیدا کیوں نہیں ہوئے؟ دراصل نئی شاعری کی اولین بدنصیبی نئے شاعروں کے سو فیصد تقلیدی ذہن سے پیدا ہوئی۔ نئے شاعروں نے نئی شعریات مغرب کی نئی شعریات سے مستعار لی ہے اور یہ دیکھے بغیر کہ اس کا کوئی رشتہ ان کے معاشرے یا روایت سے قائم بھی ہو سکتا ہے یا نہیں، اسے کچے پکے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اس کے پیچھے ایک اس سے بڑی بدنصیبی یہ تھی کہ یہ لوگ اپنی شاعری کی روایات اور اس کی شعریات سے بالکل ناواقف تھے۔

    خیر! ناواقفیت بجائے خود اتنا بڑا الزام نہیں ہے۔ ضرورت محسوس ہو تو ناواقفیت واقفیت میں بدلی جا سکتی ہے۔ ناقابل معافی جرم یہ ہے کہ واقفیت کی ضرورت کو محسوس بھی نہیں کیا گیا۔ غور سے دیکھا جائے تو اس کے پیچھے یہ مخصوص ذہنیت کام کرتی نظر آتی ہے کہ جو چیز پرانی ہے وہ صرف پرانی ہونے کی بنا پر ازکار رفتہ یا ناقابل توجہ ہے۔ ان معنوں میں نئے شاعروں اور نئی شاعری کے حامیوں نے اپنی ایک اتنی بڑی ذمہ داری سے گریز کیا جس کی ایک سزا انہیں معاشرے کی بے اعتنائی اور مخالفت کی صورت میں برداشت کرنی پڑی اور دوسری سزا خود اس شاعری کی سطحی تقلید پرستی میں ظاہر ہوئی۔ ان کے لیے یہ بات کافی تھی کہ یہ بزعم خود نئی مغربی شعریات کی نقل میں شاعری پیدا کر رہے ہیں اور ان کے لیے بالکل ضروری نہیں ہے کہ وہ اپنے تجربات کو اپنی پرانی شعریات کے مقابلے میں دیکھیں۔ اس سے استفادہ کریں۔ اس میں نئی روح پھونکیں۔ اس کے زندہ حصوں کو اس کے مردہ حصوں سے الگ کریں اور اس سب کے باوجود اگر اس سے اختلاف کریں تو یہ جان کر اختلاف کریں کہ پرانی شعریات کیا ہے اور کن اصولوں پر قائم ہے۔

    میرا خیال ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو جہاں پرانی شعریات کی ایک نئی تفہیم کا دروازہ کھلتا اور ہم اپنی روایتی شاعری سے زیادہ صحت مندانہ رشتہ قائم کر سکتے، وہاں نئی شاعری کو بھی کئی طرح کے فائدے پہنچ سکتے۔ اقبال کی مثال ہمارے سامنے ہے اور ہم اقبال کی روایت کو آگے بڑھا سکتے تھے۔ اقبال کی شعریات کی تقلید کی صورت میں نہیں، بلکہ پرانی شعریات کے بارے میں اقبال کے رویے کی صورت میں۔

    اپنے ایک پچھلے مضمون میں نئی ہیئت پر گفتگو کرتے ہوئے میں کہہ چکا ہوں کہ فنی اصول صرف ومحض جمالیاتی استہزاز کے اصول ہیں، جو صدیوں کے اس تجربے پرمبنی ہیں کہ انسانی ذہن کو ایک فن پارے میں کن چیزوں سے لطف محسوس ہوتا ہے۔ پرانی شعریات کی بنیاد بھی ہمارے معاشرے کے مخصوص ذہنی تجربات پر ہے جو صدیوں تک کامیابی سے اپنا مقصد پورا کرتی رہی ہے۔ اس کے مقابلے میں نئی شعریات کے تجربے ان معنوں میں اپنے مقصد کو پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں کہ معاشرہ ان سے ذہنی استہزاز حاصل کرنے سے قاصر رہا ہے، بلکہ اس کے برعکس وہ استہزاز پیدا کرنے کے بجائے تنفر اور بے مزگی پیدا کرتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

    شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ معاشرہ نئی شعریات کے اصولوں سے ناواقف ہے۔ میں اس وجہ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہوں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر میں تو یہاں تک کہوں گا کہ معاشرے کی تو بات ہی اور ہے، خود نئے شاعر اور ان کے حامیوں کی بیشتر تعداد ان اصولوں سے اس طرح واقف نہیں ہے جس طرح واقف ہونا چاہئے۔ چند سنی سنائی باتیں جو کچے پکے طور پر سمجھی گئی ہیں اور چند گھسی پٹی اصطلاحیں جو ادھرادھر سے چھین جھپٹ لی گئی ہیں، نئے شاعروں اور ان کے حامیوں کا کل سرمایہ ہیں جنہیں وہ طوطے کی طرح دہراتے رہتے ہیں۔ میر ی اس تلخ کلامی کو معاف کیا جائے۔

    لیکن نئی شاعری کی وہ ذمہ داری جو اس پر خود نئی شاعری اور اس کے ساتھ ہی اپنی پوری تہذیب اور پوری فنی روایت کی طرف سے عائد ہوتی ہے، اس کے پیش نظر مجھے نئے شاعروں اور ان کے حامیوں کی بیشتر تعداد کا رویہ کھلنڈرے بچوں کے رویے سے زیادہ اہمیت کا حامل نہیں معلوم ہوتا۔ یہ تو ہوئی ایک وجہ لیکن شاید اس کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ نئی شاعری کی نئی شعریات اپنے اجتماعی ذہن اور اس کے فنی رویوں اور اصولوں کو جانے بغیر استعمال میں لائی جا رہی ہے۔ گویا کچھ قصور اگر معاشرے کا ہے تو نئے شاعروں کا قصور اس سے زیادہ ہے۔

    آخر میں ایک بات اور عوام کی اس کمزوری کے باوجود، جس کا ذکر میں اوپر کر چکا ہوں، ہمارے معاشرے نے ایک ایسی شاعری پیدا کی جس میں انسانی عناصر اس حد تک موجود رہے کہ عوام اس میں دلچسپی لے سکیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی صدیوں کی تربیت کے نتیجے میں فنی عناصر سے لطف اندوزی کا بھی کچھ نہ کچھ حصہ عوام تک پہنچا۔ چنانچہ اس بچی کھچی روایت کا یہ اثر اب تک موجود ہے کہ ایک قافیے یا ردیف کے اچھے اور برمحل استعمال پر مشاعروں کی چھتیں اڑ جاتی ہیں۔ ایسی شاعری ایک د ن میں پیدا نہیں ہوتی۔ پھر اگر غور سے دیکھا جائے تو جس قسم کے انسانی عناصر ہماری شاعر ی میں موجود رہے، ان کی نوعیت ان انسانی عناصر سے مختلف ہے جن کا استعمال ہمیں بعدکی رومانی یاسیاسی شاعری میں ملتا ہے۔ مثال کے طور پر قدیم اردو غزل کے انسانی عناصر بھی اس کی شعریات کی طرح متعین ہیں۔ اس مسئلے پر غور کیا جائے تو عجیب نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

    غزل کا روایتی محبوب اگر جفا پیشہ ہے تو اس کے کیا معنی ہیں؟ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ سارے پتھروں کی طرح سخت محبوب پرانے شاعروں کے حصے میں آ گئے ہوں اور سارے جامنوں کی طرح گھل جانے والے محبوب نئے شاعروں کی جھولی میں گر گئے ہوں۔ عورتیں بہرحال پہلے بھی ہوتی تھیں اور اب بھی ہیں اور مختلف مزاج رکھتی ہیں۔ پھر روایتی غزل میں ایک خاص قسم کا محبوب کیوں ملتا ہے؟ مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے قدیم شعریات نے اپنے مواد کو بھی شعریات ہی کا ایک حصہ بنا دیا تھا۔ بہرحال اس معاشرے نے عوام میں فنی لطف اندوزی کا ایک رجحان ضرور پیدا کیا۔ اس کے برعکس جب نئے لوگوں نے پرانی شعریات کو رد کیا تو اس کے ساتھ پرانے انسانی عناصر بھی رد ہونے شروع ہوئے اور ایک وقت ایسا آ گیا جب پرانے انسانی عناصر کی جگہ نئے عناصر نے لے لی اور پرانی شعریات غائب ہوکر شاعری صرف جذبات کا اظہار بن گئی۔

    اس شاعری سے لطف اندوز ہونے کے لیے عوام کو فن سے لطف اندوزی کی بجائے صرف انسانی عناصر پر تکیہ کرنا پڑ ا اور عوام میں فن سے لطف اٹھانے کا جو رجحان پیدا ہوا تھا وہ سکڑ سکڑاکر رفتہ رفتہ بالکل ہی معدوم ہونے لگا۔ نئی شاعری نے یہ انسانی عناصر بھی غائب کر دیے، یا کم کر دیے یا واضح طور پر پیش کرنے کی بجائے چھپا دیے اور شعریات بھی بالکل ایک نئی قسم کی پیدا کر دی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نئی شاعری میں کوئی ایسی بات بھی باقی نہ رہی جس سے معاشرے کی اکثریت دلچسپی لے سکے۔ اب سوال یہ ہے کہ نئی شاعری معاشرے سے اپنا تعلق قائم کرنا چاہتی ہے یا نہیں اور اگر قائم کرنا چاہتی ہے تو کیا نئی شعریات میں کوئی ایسی چیز موجود ہے یا اس میں پیدا کی جا سکتی ہے جو معاشرے کے لیے فنی لطف اندوزی کا ذریعہ بن سکے۔ بس اس سوال پر میں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں اور چوں کہ یہ اس سلسلے کا آخری مضمون ہے، اس لیے اب تک کہی ہوئی خاص خاص باتوں کو اختصار کے ساتھ ایک بار پھر دہراتا ہوں،

    (۱) نئی شاعری نامقبول شاعری ہے۔

    (۲) نامقبولیت نئی شاعری کی جوہری، لازمی اور دائمی صفت ہے۔

    (۳) نامقبولیت کے تین سبب ہیں: (۱) نئی ہیئت کا استعمال۔ (۲) نئی شعریات کا استعمال۔ (۳) انسانی عناصر کا غائب ہو جانا، کم ہو جانا یا چھپ جانا۔

    (۴) نئی ہیئت کا استعمال ایک طر ف معاشرے کی باطنی زندگی کے تسلسل کے انقطاع کو ظاہر کرتا ہے تو دوسری طرف معاشرے کی طرف فنکاروں کے باغیانہ انحراف کے رویے کو ظاہر کرتا ہے۔

    (۵) نئی شعریات کا استعمال شاعری کے فن کو بحال کرنے کی ایک محدود کوشش ہے۔ مگر یہ بیشتر خام، تقلیدی اور اجتماعی زندگی کی طرف ایک غیرذمہ دارانہ لاتعلقی اور لاعلمی کے رویے کو ظاہر کرتی ہے۔

    (۶) بحیثیت مجموعی نئی شاعری ایک ایسے طبقے کی شاعری ہے جو کچھ ایسے اثرات سے پیدا ہوئی ہے جو ہمارے اپنے نہیں ہیں اور یہ ایک ایسے انسان کی نشان دہی کر رہے ہیں جو نہ صرف اپنے معاشرتی، تہذیبی اور تاریخی تسلسل سے کٹ گیا ہے بلکہ شاید پوری انسانیت کے اس تجربے سے الگ ہو جانا چاہتا ہے جس میں اب تک جو ہر انسانی نے اپنا اظہار کی اہے۔

    (۷) یہ نیا انسان چوں کہ تاریخی طور پر پیدا ہو گیا ہے، اس لیے نئی شاعری کی تنقید اس انسان کی تنقید ہے جو اپنے اٖظہار کے لیے نئی شاعری پیدا کر رہا ہے، یا پیدا کرنا چاہتا ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے