سب سے پہلے میں اکادمی ادبیات پاکستان کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے ایک ایسے اہم اجتماع میں، جس میں ملک کی مقتدر ترین سیاسی، علمی، ادبی اور تہذیبی شخصیتیں موجود ہیں، ایک اتنے ہی مہتمم بالشان موضوع پر مجھے اپنے ناچیز خیالات کے اظہار کا موقع فراہم کیا۔ اس سے مجھے جو مسرت ہوئی اس کو ظاہر کرنے میں بخل سے کام لیے بغیر مجھے اعتراف ہے کہ جب مجھے اکادمی کا دعوت نامہ ملا تو اسے قبول کرنے میں جھجک اور تذبذب کا شکار ہو گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے اپنے موضوع کی نزاکتوں اور پیچیدگیوں کا علم تھا۔ میں جانتا تھا کہ جو موضوع مجھے تفویض کیا گیا ہے وہ طرح طرح کے اختلافات کو آوازیں دیتا ہے اور اس بات پر کرنا خود کو تنازعات کی بجلیوں کی زد میں کھلا چھوڑ دینے کے مترادف ہے۔
شاید میں اس تذبذب سے باہر نہ نکل سکتا، اگر مجھے یہ یقین نہ ہوتا کہ ہر انسان کی سچائی اس کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے اور لکھنے والا اگر اپنی صداقت کے ساتھ ہے تو پھر اسے کسی چیز سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں آپ سے جو باتیں کہوں گا، وہ صرف وہی باتیں ہوں گی جومیرے ضمیر میں زندہ ہیں اور جن کومیں نے اپنے محدود تجربے اور اس سے بھی زیادہ محدودتر علم میں درست پایا ہے۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد میں اپنے موضوع کی طرف پیش قدمی کرتا ہوں۔
ہمارا موضوع نظریاتی ریاست میں ادیب کا کردار ہے۔ معاف کیجئے، اس سلسلے میں جو پہلی بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اپنی مجرد صورت میں مجھے اس سوال سے کوئی دلچسپی نہیں۔ دراصل مجھے جس سوال سے دلچسپی ہے وہ میرے ذہن میں ایک اور طرح آتا ہے۔ فرض کیجئے، میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ایک نظریاتی ریاست کا شہری ہوں اور ازراہ عنایت آپ بھی یہ تسلیم کر لیں کہ میں ایک ادیب ہوں تو میر سوال یہ ہوگا کہ مجھے جس نظریاتی ریاست کی شہریت کا شرف حاصل ہے، اس میں میرا کردار کیا ہوگا؟ بات دراصل یہ ہے کہ میرے نزدیک ہر سچا خیال ایک شخصی اعتراف ہوتا ہے۔ ہم جو کچھ سوچتے ہیں، اگر وہ واقعی سوچنا ہے تو ہمارے تجربات کا حاصل ہوتا ہے، جس میں ہمارے محسوسات، جذبات، یہاں تک کہ تعصبات اور ترجیحات سب شامل ہوتے ہیں۔ ہم اپنے تجربات کو مربوط اور منظم کرکے یا ان کی تعمیر کے ذریعے ایک پورا نظام خیال مرتب کر سکتے ہیں مگر وہ ہمارے تجربے سے کبھی آزا دنہیں ہو سکتا اور نہ ہونا چاہئے۔ ورنہ بہ صورت دیگر وہ سوچنے کے نام پر نہ سوچنے کا عمل ہوگا۔
اب یہ سوال کہ ایک مخصوص نظریاتی ریاست میں میرا کردار کیا ہوگا، مجھے یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ میرا اپنا نظریہ کیاہے اور وہ ریاست کے نظریے سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں۔ فرض کیجئے اس کا جواب نفی میں ہے۔ میرا نظر یہ کچھ اور ہے، ریاست کا نظریہ کچھ اور ہے۔ اس صورت میں مجھے یہ فیصلہ کرنا پڑےگا کہ میں ریاست کا وفادار ہوں یا اپنے نظریے کا۔ اب اگر میں ریاست کی وفاداری میں اپنے نظریے سے دست بردار ہو جاؤں تو میرے لیے یہ امن وعافیت کا راستہ ہوگا لیکن اس کے ساتھ ہی میر ے ادیب ہونے کی حیثیت بھی ختم ہو جائےگی۔ کیونکہ اپنے نظریے یا بہ الفاظ دیگر اپنے تجربے سے غداری کرکے میں ادیب نہیں رہ سکوں گا۔
دوسری صورت یہ ہے کہ میں اپنے نظریے سے وفاداری پر قائم رہوں۔ اس صورت میں مجھے یہ فیصلہ کرنا پڑےگا کہ ریاست سے میرا تعلق کیا ہوگا؟ میرا خیال ہے کہ ایمان داری اور سچائی کا راستہ یہ ہے کہ میں ادب کے ساتھ اس ریاست کی شہریت اسے واپس کردوں اور جہاں سینگ سمائیں نکل جاؤں۔ یقینا یہ میرے لیے زیادہ عزت کا راستہ ہوگا کہ میں ریاست کے اندر رہتے ہوئے اس کے قانون کے تحت وہ مراعات حاصل کرتے ہوئے جو اس کے وفادار شہریوں کا حق ہیں، ریاست کے خلاف سازشیں کروں یا اس کے دشمنوں کا آلہ کار بن جاؤں اور اس ریاست میں انتشار اور افتراق کی آگ بھڑکانے کی کوشش کروں، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں ایک سچے ادیب کی زندگی بسر کرنے کی بجائے ایک بزدل اور سازشی کی زندگی بسر کر رہا ہوں جوانسانی اور اخلاقی نقطہ نظر سے ایک قابل مذمت اور سیاسی اور قانونی نقطہ نظر سے ایک قابل تعزیر زندگی ہے۔
یہ صورت اس وقت پیدا ہوگی جب ریاست کے نظریے اور میرے نظریے میں اختلاف ہو۔ دوسری ممکنہ صورت یہ ہے کہ میرے اور ریاست کے نظریے میں مطابقت اور ہم آہنگی ہو۔ میرے خیال میں یہی وہ صورت حال ہے جو ہمارے موضوع کا صحیح تعین کرتی ہے اور زیادہ صاف لفظوں میں مجھے یہ کہنا چاہئے کہ یہ سوال خلا میں نہیں اٹھایا گیا ہے، اس کے پیچھے حقیقت کی ٹھوس زمین موجود ہے۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ کچھ لوگوں کے نزدیک پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے اور اس لیے بعض لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس نظریاتی ریاست میں ادیب کا کردار کیا ہوگا؟ جیسا کہ میں نے ابتدا میں عرض کیا، میں اس کاایک شخصی جواب ہی دے سکتا ہوں، مجھے قطعی طورپریہ اصرار نہیں ہوگا کہ دوسرے بھی اسے تسلیم کریں۔ لیکن میں اپنے شخصی جواب کو عقل اور فہم کی عدالت میں اس طرح پیش کروں گا کہ جو لوگ میرے استدلال سے متاثر ہوکر میرے خیال میں شریک ہونا چاہیں، انہیں میری طرف سے ہر ممکنہ سہولت فراہم کی جائے۔
آپ مجھے معاف کریں۔ مجھے اس بات سے اختلاف ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے۔ اس بات پر اگر آپ چونک پڑیں تو مجھے حیرت نہیں ہوگی لیکن میں آپ سے درخواست کروں گا کہ میری پوری بات سننے سے پہلے آپ برہم نہ ہوں۔ میں جانتا ہوں جو خیالات فیشن بن جاتے ہیں ان کے خلاف کوئی بات کہنا خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔ یقین کیجئے کہ ہماری عافیت فیشن کی پیروی میں نہیں، سچائی کی مطابقت میں ہے۔ نظریاتی ریاست ایک جدید اصطلاح ہے جو اشتراکی ریاستوں کے قیام کے ساتھ وجود میں آئی ہے۔ اشتراکی ریاستیں بورژوا ریاستوں کے مقابلے پر جو عوام کی اکثریت کے فیصلے کے سوا اور کسی اصول کی تابع نہیں ہیں، اس بات کا اعلان کرتی ہیں کہ وہ ایک مربو ط اور منظم طریقے کی تابع ہیں۔ اب کچھ لوگوں نے یہ دیکھ کر کہ پاکستان اسلام کو اپنی بنیاد تسلیم کرتا ہے، نیک نیتی لیکن سادہ دلی سے پاکستان کو نظریاتی ریاست قرار دیا ہے۔
مجھے اس بات پر بنیادی اعتراض یہ ہے کہ اسلام ایک دین ہے، نظریہ نہیں ہے۔ دین خدا کا دیا ہوا ہوتا ہے جب کہ نظریے انسانی دماغوں کی پیداوار ہوتے ہیں۔ پاکستان اگر اسلام کو تسلیم کرتا ہے تو پاکستان ایک دینی ریاست ہے، نظریاتی ریاست نہیں۔ کچھ لوگ کہیں گے کہ یہ لفظی اختلاف ہے۔ نظریے اور دین میں بہت سی ایسی مماثلیں موجود ہیں کہ ایک کی بجائے دوسرا لفظ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ اس خیال کے پیچھے مجھے کچھ لوگوں کا یہ اضطراب بھی جھانکتا نظر آتا ہے کہ ذہن عالم کی موجودہ فضا میں ’’دینی ریاست‘‘ ‘ کا لفظ استعمال کرنا مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ دین کا لفظ لوگوں کو چونکاتا ہے کہ جب کہ نظریے کا لفظ وہ آسانی سے قبول کر لیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نظریے کا لفظ استعمال کرکے اس سے اسلام مراد لی جائے تو اس میں کیا حرج ہے۔ مطلب تو آم کھانے سے ہے، آم کو املی کہہ دیا تو کیا فرق پڑتا ہے۔ میں اس استدلال کے زور کو تسلیم کرتا ہوں لیکن اس کے باوجود اپنی بات پر قائم رہنا چاہتا ہوں۔
ہمارا زمانہ فتنہ الفاظ کا زمانہ ہے۔ ہم لفظ کو ایک بےوقعت چیز سمجھ کر اس کی جگہ دوسرا لفظ رکھتے ہیں، اس کا نتیجہ ہمیشہ یہ نکلتا ہے کہ لفظ کے ساتھ حقیقت بھی بدل جاتی ہے۔ آم کو املی کہتے کہتے ایک وقت ایسا آتا ہے جب ہمیں املی ہی کھانی پڑتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمارا دین کو دین کہنے سے شرمانا کوئی ایسی بات نہیں ہے جسے اختیار کرنا لازمی سمجھ لیاجائے۔ اس کے علاوہ جب میں پاکستان کو ایک دینی ریاست کہتا ہوں تو اس کا ایک اور مقصد بھی ہوتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ایک طرف تو اسے اشتراکی ریاستوں سے بالکل الگ کر دیا جائے اور دوسری طرف ان ریاستوں سے جو نام نہاد طور پر غیرنظریاتی ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔
ہم کہہ چکے ہیں کہ غیرنظریاتی ریاستیں وہ ہیں جنہیں اشتراکی بورژوا جمہوری ریاستیں کہتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ان ریاستوں کے وجود میں آنے سے پہلے یورپ ایک طویل وعریض مسیحی ریاست کی حیثیت رکھتا تھا۔ بورژوا جمہوری ریاستیں مذہب کے خلاف ایک مسلسل اور بتدریج بغاوت کا نتیجہ ہیں۔ یہی بغاوت تھی جس نے ایک تاریخی عمل کے ذریعے یہ تصور پیدا کیا کہ دین کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے اور دین ہر فرد کا ایک شخصی معاملہ ہے۔ اس تصور کے ذریعے پہلے ریاست کو دین کی بالادستی سے آزاد کرایا گیا اور پھر افراد کی شخصی زندگی میں بھی دین کا جو حشر ہونا تھا ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم غیرنظریاتی ریاستوں کو لادینی ریاستیں کہہ سکتے ہیں۔
اب پاکستان ان لادینی ریاستوں سے اس وجہ سے مختلف ہے کہ وہ دین اور سیاست کی دوئی کو تسلیم نہیں کرتا۔ اور ریاست کو دین کے تابع رکھنا چاہتا ہے۔ اس طرح وہ اشتراکی ریاستوں سے اس بنا پر الگ ہے کہ وہ انسانوں کے بنائے ہوئے کسی ایک رخے، ناقص اور محدود زمانی اور مکانی تناظر میں تشکیل پانے والے نظریے کا نہیں بلکہ دین کا پابند ہے۔ اب غالباً وقت آ گیا ہے کہ میں دین اور نظریے کے فرق کو ممکنہ وضاحت سے بیان کر دوں۔ دین، اگرہم اس کے عناصر ترکیبی کا تجزیہ کریں تو چار چیزوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔
(۱) عقائد
(۲) عبادات
(۳) اخلاقیات
(۴) ایمان
نظریے کا لفظ ان چاروں عناصرمیں سے کسی ایک کا بھی پوری طرح احاطہ نہیں کرتا اور اگر کھینچ تان کر اسے ایسا کرنے پر مجبور کیا جائے تو بڑے مضحک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ مثلاً کہنے کو کہا جا سکتا ہے کہ اشتراکی نظریے میں جدلیاتی مادیت کی فلسفیانہ اساس عقائد کے مترادف ہے۔ جبکہ معاشی نظام اور اس سے متعلقہ احکام اخلاقیات کے مساوی ہیں۔ شاید کوئی منچلا یہ بھی کہہ دے کہ یوم مئی اور یوتھ فیسٹیول جیسی چیزوں کوعبادت کا درجہ حاصل ہے اور اشتراکی جس جوش اور جذبے سے کام کرتے ہیں اسے ایمان کہا جا سکتا ہے۔ اس طرز استدلال کو تسلیم کر لیا جائے تو اشتراکیت تو بڑی چیز ہے، ہاکی کے کھیل کو بھی پورا دین وایمان ثابت کیا جا سکتا ہے۔ دراصل دین اور نظریے میں چار بنیادی فرق ہوتے ہیں جن کی وجہ سے دین کو نظریہ نہیں کہا جا سکتا۔
(۱) دین کا خدا دیا ہوا ہوتا ہے جب کہ نظریے انسانوں کے ساختہ ہوتے ہیں۔
(۲) دین دائمی ہوتا ہے جبکہ نظریے ہر انسانی چیز کی طرح آنی فانی ہوتے ہیں۔
(۳) دین کا مرکز خدا ہوتا ہے جب کہ نظریے ہمیشہ انسانوں کو مرکز بناتے ہیں۔
(۴) دین حیات دنیوی کے ساتھ حیات اخروی سے بھی وابستہ ہوتا ہے جب کہ نظریے صرف حیات دنیوی سے تعلق رکھتے ہیں۔
معاف کیجئے میں اس بحث کو لمبا نہ کھینچتا، اگر اس کا میر ے موضوع سے گہرا تعلق نہ ہوتا۔ مجھے یقین ہے کہ ایک دینی ریاست میں ادیب کا کردار، ایک نظریاتی ریاست میں ادیب کے کردار سے مختلف ہوتا ہے۔ اس بات کو واضح کرنے کے لیے ہمیں پہلے اپنے اردگرد دیکھنا پڑےگا۔ ہمیں معلوم ہے کہ ادب کو ریاست کے مقاصد کے لیے استعمال کرنا اشتراکی ریاستوں کا ایک ایسا امتیاز ہے جس پر بورژوا ریاستوں میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اشتراکی ریاستوں نے ادیب کی آزادی کو ختم کرکے رکھ دیا ہے اور نتیجے کے طور پر وہاں آزادی کے ساتھ ادب کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے۔ یہ صورت حال اتنی واضح ہے کہ پاکستان میں جب بھی نظریاتی ریاست کا مسئلہ زیر بحث آتا ہے اور اس کے حوالے سے ادب پر گفتگو ہوتی ہے تو ہمیشہ اس خطرے کا اظہار کیا جاتا ہے کہ آیا پاکستان میں بھی ادب پر وہی کچھ گزرے گی جو اشتراکی ریاستوں میں گزرتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں اشتراکی ریاستوں سے بھی زیادہ خراب حالات کا سامنا ہے۔ اشتراکی ریاستیں ادیب سے جو کام لیتی ہیں اس کے صلے میں ادیب کو طوق زریں بھی پہناتی ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں یہ توقع کی جاتی ہے کہ ادیب مشقت تو کرےگا مگر طوق زریں کے لیے ادیب کی گردن کبھی منتخب نہیں کی جاتی۔ عام طور پر ریاست کو اس بات سے مطلق کوئی غرض نہیں ہے کہ یہاں ادیب نام کی کوئی چیز موجود ہے یانہیں۔ لیکن وقتاً فوقتاً آوازیں بھی اٹھتی رہتی ہیں کہ ادیبوں کو ریاست کے لیے کام کرنا چاہئے۔ گویا ریاست کو ادیب صرف اس وقت یاد آتے ہیں جب اسے اپنا مطلب یاد آتا ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ ادیب ریاست کے متعلق اپنے فرائض ادا کریں۔ لیکن یہ سیدھی بات بھی بھول جاتی ہے کہ حقوق کے بغیر فرائض کا کوئی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اشتراکی ریاستیں ادیبوں کو ان کا حق دیتی ہیں۔
آنجہانی اسٹالن نے ایک مرتبہ ادیبوں کو روحوں کا انجینئر کہا تھا۔ اشتراکی ریاستیں تسلیم کرتی ہیں کہ روحانی تعمیر میں حصہ لینے کی وجہ سے ادیب اہمیت اور عزت کے مستحق ہیں۔ وہاں ادب کا جو حال بھی ہوا ہو لیکن ادیب ریاست کے خوش حال اور باعزت ترین طبقوں میں سے ایک ہیں۔ ہمارے ہاں صورت حال اس کے برعکس یہ ہے کہ ادیب بہ حیثیت ادیب کے معاشرے کے سب سے پسماندہ طبقوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اشتراکی ریاستوں میں ادب کا چاہے خاتمہ ہو گیا ہو لیکن ادیب زندہ ہیں۔ ہمارے یہاں ادب کے ساتھ ادیبوں کا خاتمہ بھی ہو رہا ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ دونوں ٹھکانے لگ جائیں گے۔ بہرحال مجھے اس بات کی کوئی توقع نہیں ہے کہ کل کی سنہری صبح کے ساتھ ریاست ہماے ادیبوں کو سونے کا نوالہ کھلانے لگےگی۔ اس لیے میں اپنے سوال کی طرف لوٹتا ہوں۔
اشتراکی ریاستیں ادیب سے کام لیتی ہیں، اس کے نمونے ہمارے سامنے ہیں۔ ادیب یا تو اپنے نظریے کی برتری ثابت کرتے ہیں یا پھر یہ دکھاتے ہیں کہ ریاست نظریے کے تحت جو کچھ کر رہی ہے وہ اچھا ہی اچھا ہے۔ اسٹالن کے دور میں روسی افسانوں میں اسٹالن کو فوق الفطرت قوت کے مالک کے طور پر پیش کیا جاتا تھا اور ملک الشعراء کا خطاب ایسے شاعروں کو ملتا تھا جو ثابت کر سکیں کہ اشتراکی ریاست میں نلوں کے سلنڈر بورژوا معشوقوں کی پنڈلیوں سے زیادہ حسین ہوتے ہیں۔ اشتراکی ریاستوں میں ادب کا خاتمہ یا زوال ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ آیا ادب ریاست کی ضرورتوں کو پورا کرکے ادب رہ سکتا ہے یا نہیں؟ ضروری ہے کہ ہم ریاست کے مقاصدکو بیان کریں اور پھر ان کی روشنی میں دیکھیں کہ ادب سے ان کا کوئی تعلق بنتا ہے یا نہیں۔
ریاست کے مقاصد میں امن عامہ کا قیام، معاشی منصوبہ بندی، ریاست کے مختلف طبقات میں ہم آہنگی، پیداوار میں اضافہ اور وہ چیزیں شامل ہیں جو ریاست کے شہریوں کی جان ومال، عزت و آبرو اور پرامن بقا کے لیے ضروری ہیں۔ ادب کا ان چیزوں سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ریاست کے یہ مقاصد جب شہریوں کی زندگی پراثر انداز ہوتے ہیں اور ان کا ردعمل شہریوں میں اطمینان، مسرت، سکون یا اس کے برعکس جذبات اور کیفیات پیدا کرتا ہے توادب سے اس کا تعلق ہو سکتا ہے۔ اشتراکی ریاستوں کی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے ادب کو اپنے مقاصد کا براہ راست آلہ کار بنانے کی کوشش کی۔ مثال کے طور پر ریاست نے معاشی منصوبے بنائے تو ادیبوں کا فریضہ قرار دیا گیا کہ وہ ان معاشی منصوبے کے بارے میں لکھیں یا حکومت نے عوام کو محنت پر اکسانا چاہا تو ادیبوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ عوام کو ’’کام کرو کام‘‘ کے نغمے سنائیں۔
اس کے علاوہ اشتراکی ریاستوں میں ایک اور بنیادی خرابی ہے۔ اشتراکی نظریے میں انسانوں کی باطنی زندگی کی تہذیب وترتیب کا کوئی اصول موجود نہیں ہے۔ یہ نظریہ انسانوں کی باطنی زندگی کے بجائے خارجی حالات ہی کوسب کچھ سمجھتا ہے۔ ادب کے تعلق سے اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ادب انسانوں کی باطنی تربیت، گہرے روحانی تجربات کے انکشاف اور زندگی کی حقیقی معنویت سے الگ ہوکر خارجی واقعات کی کھتونی یا ماحول کے عمل اور ردعمل کا اظہار بن کر رہ جاتا ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے میں نے کہا تھا کہ دینی ریاست میں ادیب کا کردار ایک نظریاتی ریاست میں ادیب کے کردار سے مختلف ہوتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ اس کی وضاحت کر دی جائے۔
نظریے کے برخلاف دین میں باطنی تربیت ہی سب کچھ ہے۔ اشتراکی ریاست، ہرریاست کی طرح اپنے شہریوں کے اعمال کو دیکھتی ہے۔ جب تک اعمال اس کے مطابق ہیں، اسے اس کیفیت قلب سے کوئی سروکار نہیں ہوتا جسے ایمان کہتے ہیں۔ یہ وہ داخلی معاملہ ہے جس کا ریاست کے حدود و اختیار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب کہ دین میں ایمان ہی اصل چیز ہے۔ اگر کسی شخص کا اسلام کے عقائد پر ایمان نہ ہو تو خواہ اس کے اعمال ظاہری طور پر سب اسلامی ہوں وہ مسلمان نہیں کہلائےگا۔ یہاں داخلی پہلو ہی سب سے اہم ہے۔ یہ ایک بنیادی بات ہے جس کے مضمرات پر ابھی کچھ اورعرض کرنے کی کوشش کروں گا۔
ریاست کا تعلق اگر ظاہری اعمال سے ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ اس کے پاس باطنی کیفیت یعنی ایمان کو پرکھنے کا کوئی ذریعہ نہیں۔ وہ مجبور ہے کہ اپنی نظر صرف خارجی اعمال پر رکھے۔ لیکن ایک دینی ریاست میں خارجی اعمال کا کوئی اعتبار نہیں، اگروہ اخلاص اور ایمان سے وابستہ نہ ہوں۔ اس لیے ایک دینی ریاست کا لازمی فریضہ ہے کہ وہ خارجی اعمال کے ساتھ باطنی کیفیت کو بھی جاننے اور پرکھنے کا ذریعہ پیدا کرے۔ اب مجھے کہنے دیجئے کہ یہ ذریعہ ادب اور صرف ادب ہے۔ ادب باطنی زندگی کا مقیاس الحرارت ہے اور یہ صرف ادب ہی کے ذریعے ریاست جان سکتی ہے کہ اس کے شہریوں کے نفس باطن اور اعمال قلب میں دین کتنی گہرائی تک موجود ہے۔
آپ مجھے مبالغہ آرائی کا مجرم قرارنہ دیں، تو میں کہوں گا کہ صرف ایک دینی ریاست ہی میں ادب کو وہ حیثیت مل سکتی ہے جس کا وہ مستحق ہے۔ اشتراکی ریاستوں میں وہ ریاست کا آلہ کار بن کر موت کا شکار ہو جاتا ہے جب کہ دینی ریاست میں ادیب، دین کے تابع ہے اور ریاست سے اس کی وفاداری کی بنیاد یہ ہے کہ ریاست بھی دین کی تابع ہے یعنی دونوں کے مقاصد دین کی مشترک بنیاد پر مشترک ہیں۔ لیکن اس سے دونوں کے حدودکار کا تعین بھی ہوتا ہے۔ ریاست کاکام دین کی ظاہری شکل کو برقرار رکھنا اور زندگی کے نت نئے تقاضوں سے اسے ہم آہنگ کرنا ہے، جب کہ ادیب کا کام باطن میں دین کی بنیادوں کو استوار کرنا اور ایمان واخلاص کی اس کیفیت کو پیدا کرنا ہے جو خارجی شکل میں معنی پیدا کرتی ہے۔
جب ہم ادب اور سیاست کے حدودکار کو واضح طور پر سمجھ لیں تو ہمارے لیے یہ کہنا ممکن ہو جاتا ہے کہ ایک دینی ریاست میں اپنے مشترک مقصد کی بنیاد پر ادیب اور ریاست کا کردار ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم قائد اعظم کو ریاست کے نمائندے کے طور پر لیں اور اقبال کو ادیب کی جگہ رکھیں تو ہم کہہ سکیں گے کہ قائد اعظم اور اقبال کا کام مل کر ہی اپنے مشترک مقصد کو پورا کرتا ہے۔ قائد اعظم نے ریاست کے ظاہری وجود کو جنم دیا جبکہ اقبال نے اسلام کی نشاۃ الثانیہ کے تصور کو اپنے جذب باطن سے اس طرح زندہ کر دیا کہ وہ اجتماعی تجربے کی آرزو بن گیا۔
اب ہم ایک اورنقطہ نظر سے اس بات کو آگے بڑھائیں گے۔ ریاست کا ایک اصول عدل ہوتا ہے۔ جس طرح ریاست عدل کے اصول سے منحرف ہوکر فساد کا شکار ہو جاتی ہے، اسی طرح ادب صداقت سے محروم ہوکر غیرادب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس ا صول کو اچھی طرح سمجھ لینا ضروری ہے۔ صداقت کی تعریف یہ کی جاتی ہے کہ بیان کو امر واقعہ کے مطابق ہونا چاہئے، مثلاً اگر میں لکڑی کی بنی ہوئی ایک چیز کو میز کہوں اور وہ میز ہو تو یہ بات صداقت کے مطابق ہوگی۔ لیکن امر واقعہ کی دو صورتیں ہیں۔ ایک خارجی، ایک داخلی۔ خارجی کی مثال میں نے پیش کر دی۔ باطنی صداقت کے معنی یہ ہیں کہ بیان داخلی کیفیت کے مطابق ہو توصداقت کہلائےگا۔ ادب کے لیے یہی داخلی صداقت سب سے اہم ہوتی ہے۔ اب دینی ریاست میں ادیب کا کام دین کے عناصر چہارگانہ یاان میں سے کسی ایک یا زیادہ کو اپنی باطنی صداقت کے ساتھ پیش کرنا ہے۔
مثال کے طور پر ان میں سے ایک عنصر اخلاقیات کا تعلق انسانوں کے باہمی رشتے سے ہے۔ ہمارے دین نے ان رشتوں کی ساری شکلیں متعین کی ہیں اور انسانوں کے باہمی حقوق وفرائض کا تعین کیا ہے۔ ا س سے اخلاقی اقدار پیدا ہوتی ہیں، مثلاً محبت، وفاداری، ہمدردی، رواداری، ایثار، قربانی، شجاعت وغیرہ۔ اب جو ادب ان اخلاقی اقدار کو باطنی صداقت کے ساتھ پیش کرےگا وہ دین کی ضرورت کو پورا کرےگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ادیب کو ان اقدار کو پہلے اپنے تجربے میں صادق بنانا ہوگا۔ اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک دینی ریاست میں ادیب کو پہلے اپنے دین میں صادق ہونا اور پھر اپنی صداقت کو اپنے ادب میں تخلیق کرنا ہوگا۔
اب باطنی صداقت کی بات چلی ہے تو ایک ضروری بات کرتا چلوں۔ اپنے وجود میں کسی صداقت کو حاصل کرنا دشوار ترین کام ہے۔ اتنا دشوار کہ ایک ادیب کے بقول لوگ اس سے بچنے کے لیے قومی جنگوں میں شریک ہوکر جان دے دیتے ہیں۔ ادیب معاشرے کے ہر طبقے سے زیادہ اس دشوار کام بیڑا اٹھاتا ہے۔ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ یہ باطنی صداقت کس طرح حاصل ہوتی ہے۔ اپنی بات کہنے میں، میں اپنی مدد کے لیے ایک بارپھر اقبال کو آواز دیتا ہوں۔ اقبال اسلام کے کتنے بڑے داعی تھے، یہ آپ سب کو معلوم ہے اور ہم ادیبوں کے لیے تو بڑوں کے بھی بڑوں میں شامل ہیں۔ انہوں نے اپنے بارے میں مختلف اوقات میں کچھ باتیں کہی ہیں۔ ان میں سے تین میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں،
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا وہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا
توا ے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر
مری دانش ہے افرنگی، مرا ایماں ہے زناری
مرا دل مری رزم گاہ حیات
گمانوں کے لشکر یقیں کا ثبات
ان تینوں اشعار میں جو تین باتیں کہی گئی ہیں، وہ آپ کے سامنے ہیں۔ ان سے ایک پوری صورت حال سامنے آتی ہے۔ اقبال کو احساس ہے کہ کچھ معاملات میں ان کا کردار ان کی گفتار کا ساتھ نہیں دیتا۔ انہیں یہ بھی احساس ہے کہ ان کی دانش اور ایمان پر کچھ ایسے اثرات پڑے ہیں جو مطلوب نہیں ہیں اور تیسری بات یہ ہے کہ بہت سے معاملات میں ان کے ذہن میں تشکیک اور یقین کے درمیان کشمکش موجود ہے۔ ان میں سے ایک بات کا تعلق اخلاقیات سے ہے اور باقی دو باتوں کا عقائد اور دیگر فکری اور ایمانی مسائل سے۔ سوال یہ ہے کہ ایک شخص جس کی ا خلاقی صداقت پوری اخلاقی صداقت نہ ہو اور جو یقین اور گمان کی کشمکش میں مبتلا ہو، اسے کیا کرنا چاہئے؟ اس سوال کا صرف ایک جوا ب ہے۔ اسے اپنی باطنی صداقت کا اظہار کرنا چاہئے۔ کیونکہ باطنی صداقت حاصل کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔۔۔ اپنے تجربے کی حقیقت کو تسلیم کرنا۔ یہ سچے ادب اور سچی دینی زندگی دونوں کے لئے لازمی ہے۔ اس کامطلب یہ ہوا کہ ہماری دینی ریاست میں سچے ادب کو یہ آزادی حاصل ہوگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.